اردو محفل کا طرحی مشاعرہ (قارئین و احباب کے تبصرہ جات کے لیے مختص )

مغزل

محفلین
صراحت:
طرح مصرع : از : خدائے سَخُن محمدتقی المعروف میرتقی میر​
’’ یہ دُھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے ‘‘
قوافی : جہاں ، مکاں وغیرہ
ردیف : سے اُٹھتا ہے
بتاریخ : 15جنوری دوہزاربارہ بروز اتوار
حاشیہ: کلام چسپاں کرنے کی آخری تاریخ 12 جنوری دوہزار بارہ ہے ۔۔
دعوت نامہ : منسلکہ
غزل ناز غزل ، الف عین ، محمد یعقوب آسی ، آصف شفیع ، فاروق درویش ، محمد وارث ، محمد احمد ، جیا راؤ ، زھرا علوی ، خرم شہزاد خرم ، ایم اے راجا،متلاشی ، سید مقبول شیرازی زلفی ، محمود احمد غزنوی ، امر شہزاد ، ش زاد ، محمد اظہر نذیر ، نافرع ، پیاسا صحرا ، عین عین ، محمد امین ،F@rzana ، نوید صادق ، عمار خاں ، ابن سعید ، فاتح ، فرخ منظور ، یوسف ثانی ، سیدہ سارا غزل ، ایس فصیح ربانی ، عمران شناور ، عبدالرحمن سید ، انیس فاروقی ، سید نصرت بخاری ، زیف سید ، کاظمی بابا ، علی ساحل، محمد شعیب خٹک ، روحانی بابا ، شاہ حسین ، عطاء رفیع ، فیصل عظیم فیصل ،سلیمان جاذب ، نویدظفرکیانی ، م۔م۔مغل ، محمد حفیظ الرحمٰن ، محمد خلیل الرحمٰن ، جگرصحرائی ، فیصل کمال ، ۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ محمود صاحب۔ میرے خیال میں پہلے بھی معذرت کر چکا ہوں کہ فی الوقت میرے لیے کچھ کہنا ناممکن سا ہے، طبعیت ادھر آتی ہی نہیں۔
 

مغزل

محفلین
سرکار طبیعت تو ہماری بھی نہیں آتی مگر محفل کے دیگر دوستوں کے لیے تک بندی کرہی لی ہے۔۔۔
ابھی پانچ دن ہیں ہم دعا گو ہیں کہ ’’ رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور ‘‘ کی صورت رہے ۔۔
 
دل کی اب راکھ بھی نہیں باقی
"یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتاہے"
باعثِ تیرگی نہ بن جائے
چاندنی سے دھواں سا اُٹھتا ہے
جس کی خاموشیاں قیامت ہوں
حشر اس کے بیاں سے اُٹھتا ہے
دل پہ لے کر گلاب زخم فصیحؔ
محفلِ دوستاں سے اُٹھتا ہے

سرفصیح صاحب بہت خوبصورت اور ماہرانہ انداز میں کہے گئے یہ اشعار ہمیں بیحد پسند آئے، '' جس کی خاموشیاں قیامت ہوں ، حشر اس کے بیاں سے اٹھتا ہے" ماشاللہ حاصل غزل شعر ہوا ، بہت ساری داد قبول کیجئے۔ اللہ کریم سلامت رکھے
 

محمداحمد

لائبریرین
سب سے پہلے تو بہت معذرت کہ کچھ مصروفیات کے باعث اس موضوع کو باقائدہ وقت نہیں دے سکا۔ اور پھر اس کے بعد ان تمام دوستوں کا شکریہ جنہوں نے اس سلسلے میں اپنا کلام بھیجا اور اُن کا بھی جو اپنا کلام بھیجنا چاہتے ہیں۔

تمام دوستوں کا کلام ہمیں پسند آیا سوچا سب کو ایک ساتھ ہی نذرانہ ء تحسین پیش کر دیا جائے۔ :flower:

سو اس حقیر پر تقصیر کی جانب سے اب تک کے تمام شرکائے مشاعرہ کو دلی داد پیش ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم، مشقِ سخن تیز

اب تک کی پیش کی جانے والی غزلوں سے کچھ اشعار جو مجھے زیادہ پسند آئے وہ بھی یہاں انتخاب کر رہا ہوں۔
چھوڑ جاتا ہے حسرتیں ، ناکام
آدمی جب جہاں سے اٹھتا ہے
لاشے بکھرے ہیں شہر میں ہر سُو
نالہ ہر اک مکاں سے اٹھتا ہے
تُو نے سوچا بھی ہے کبھی راجا !
کیوں غضب آسماں سے اٹھتا ہے ؟
ایم اے راجا
آتش عشق سرد ہے کب سے
یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے
بزم ہے چل چلاؤ کی جاری
جس کو دیکھو، یہاں سے اٹھتا ہے
کون سا زہر مل گیا جگ میں
جی تو جیسے یہاں سے اُٹھتا ہے
محمد اظہر نذیر
جس کے دم سے تھی انجمن آباد
اب وہی درمیاں سے اُٹھتا ہے
اِک ستم ہے ستم پہ چُپ رہنا
حشر کچھ تو فغاں سے اُٹھتا ہے
یونہی پڑتی ہے قافلے کی بناء
میں یہاں تُو وہاں سے اُٹھتا ہے
نویدظفرکیانی
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
رنگ و بو کے جہاں سے اٹھتاہے
لوحِ محفوظ میں ہے سب مرقوم
کون، کس دن، کہاں سے اٹھتا ہے
منتظر ہوں حفیظ کب پردہ
رازِ کون و مکاں سے اٹھتا ہے
محمد حفیظ الرحمٰن
اس پہ نظرِ کرم نہیں ہوتی
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
"امن کی فاحتہ ہے اڑ نے کو"
تیرکوئی کماں سے اٹھتا ہے
عقل والے بھی اب نہیں ملتے
عشق بھی داستاں سے اٹھتا ہے
کون جانے کہ کیا ہوا خرم
کون آتش فشاں سے اٹھتا ہے
خرم شہزاد خرم
درد سا اک ،جو یاں سے اٹھتا ہے
کون جانے ؟کہاں سے اٹھتا ہے ؟
چوٹ پڑتی ہے جب، نئی دل پر
’’زلزلہ، جسم وجاں سے اٹھتا ہے ‘‘
توڑ جائیں نہ دل کہیں ، ذیشاںؔ
اعتبار ان بُتاں سے اٹھتا ہے
(متلاشی) ویسے ذیشان صاحب آپ کا اصل نام کیا ہے؟​
دل سے اٹھتا ہے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
اٹھ کر آئے ہیں یوں ترے در سے
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
خلیل الرحمن
غم کا بادل ، غبار عالم کا
دل کے دردِ نہاں سے اٹھتا ہے
اے جگر پیار کا گھنا بادل
کیا کبھی آسماں سے اٹھتا ہے
جگر صحرائی
دل کی اب راکھ بھی نہیں باقی
"یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتاہے"
جس کی خاموشیاں قیامت ہوں
حشر اس کے بیاں سے اُٹھتا ہے
دل پہ لے کر گلاب زخم فصیحؔ
محفلِ دوستاں سے اُٹھتا ہے
شاہین فصیحؔ ربانی
آخر میں ایک بار پھر سب دوستوں کو بہت بہت مبارکباد۔​
اللہ اس خوبصورت محفل کو آباد رکھے (آمین)​
 

متلاشی

محفلین
درد سا اک ،جو یاں سے اٹھتا ہے
کون جانے ؟کہاں سے اٹھتا ہے ؟
چوٹ پڑتی ہے جب، نئی دل پر
’’زلزلہ، جسم وجاں سے اٹھتا ہے ‘‘
توڑ جائیں نہ دل کہیں ، ذیشاںؔ
اعتبار ان بُتاں سے اٹھتا ہے
(متلاشی) ویسے ذیشان صاحب آپ کا اصل نام کیا ہے؟​
جی محمداحمد بھائی پسندیدگی کے لئے بہت بہت شکریہ۔۔۔۔
خاکسار کا اصل نام ۔۔۔ محمد ذیشان نصر ہے ۔۔۔۔!
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
جنابِ صدر ، جناب مہمانِ خصوصی اور شرکاء مشاعرہ کو السلام علیکم ۔
مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اردو محفل میں طرحی مشاعرے کا اہتمام کیا جا رہا ہے، لیکن صاحب مصرعہ بہت مشکل دیا گیا ہے۔ حضرت میر تقی میر کے مصرعے پر غزل کہنا کوئی آسان کام نہیں بہرحال اپنی حقیر سی کاوش پیش کر رہا ہوں۔

غزل
جب درِ مہوشاں سے اُٹھتا ہے
چین دل کے جہاں سے اُٹھتا ہے
دل کی اب راکھ بھی نہیں باقی
"یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتاہے"
عشق تو ایک بھاری پتھر ہے
کب کسی ناتواں سے اُٹھتا ہے
باعثِ تیرگی نہ بن جائے
چاندنی سے دھواں سا اُٹھتا ہے
دھیان آتے ہی اس پری وش کا
درد کیوں جسم و جاں سے اُٹھتا ہے
مہرباں ہے کہ پیار ہے مجھ سے
پردہ رازِ نہاں سے اُٹھتا ہے
جس کی خاموشیاں قیامت ہوں
حشر اس کے بیاں سے اُٹھتا ہے
دل پہ لے کر گلاب زخم فصیحؔ
محفلِ دوستاں سے اُٹھتا ہے
شاہین فصیحؔ ربانی
واہ بہت خوب جناب
 

مغزل

محفلین
برادرِ عزیز دانش نذیر دانی
آداب و سلامِ مسنون
اردو محفل میں صمیمِ قلب سے خوش آمدید ، آپ سے استدعا ہے کہ اپنے ’’ تعارف ‘‘ (ربط) کے صفحہ پر تشریف لائیں اور مفصل تعارف سے آگاہ کیجئے ۔
آپ کی شرکت ہمارے لیے عزت کا باعث رہے گی ضرور قبلہ آپ اپنا کلام متعلقہ لڑی میں شامل کر سکتے ہیں، تبصرہ جات کے لیے یہ لڑی مخصوص ہے ،
آپ کے مراسلات یہاں منتقل کردیے گئے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ آپ کی شرکت نہ صرف مشاعرہ بلکہ اردو محفل کی رعنائیوں میں اضافہ کا سبب بنے گی۔
کسی بھی نوع کی مدد کے لیے حکم کیجے گا ہم حاضر ہیں ۔
والسلام
 
سرفصیح صاحب بہت خوبصورت اور ماہرانہ انداز میں کہے گئے یہ اشعار ہمیں بیحد پسند آئے، '' جس کی خاموشیاں قیامت ہوں ، حشر اس کے بیاں سے اٹھتا ہے" ماشاللہ حاصل غزل شعر ہوا ، بہت ساری داد قبول کیجئے۔ اللہ کریم سلامت رکھے
آپ کا بہت شکریہ محترمہ غزل صاحبہ!
سدا شاد آباد رہیے۔
 
ایس فصیح ربانی
ایس فصیح ربانی بھائی اس شعر میں شاید ٹائیپو ہے، درست کردیجئے۔ ردیف ’’سے اٹھتا ہے‘‘ ہے۔

بھائی خلیل الرحمٰن صاحب!
آپ کی نشاندہی کا بہت شکریہ، بہت اچھی طرح پڑھا آپ نے ورنہ میری کیا سب کی سے گزر گیا یہ مصرعہ۔
بے دھیانی میں دوسری ردیف والا شعر اس غزل میں شامل ہو گیا، میں نے نکال دیا ہے۔
اور غزل میں نئے اشعار کا اضافہ بھی کیا ہے، ضرور دیلکھیے گا اور اپنے تاثرات سے نوازیئے گا۔
آپ کا بہت شکریہ، سدا شاداں و فرحاں رہیے۔
 
بھائی خلیل الرحمٰن صاحب!
آپ کی نشاندہی کا بہت شکریہ، بہت اچھی طرح پڑھا آپ نے ورنہ میری کیا سب کی سے گزر گیا یہ مصرعہ۔
بے دھیانی میں دوسری ردیف والا شعر اس غزل میں شامل ہو گیا، میں نے نکال دیا ہے۔
اور غزل میں نئے اشعار کا اضافہ بھی کیا ہے، ضرور دیلکھیے گا اور اپنے تاثرات سے نوازیئے گا۔
آپ کا بہت شکریہ، سدا شاداں و فرحاں رہیے
دل کی اب راکھ بھی نہیں باقی
"یہ دھواں سا کہاں سے اُٹھتاہے"
دھیان آتے ہی اس پری وش کا
درد کیوں جسم و جاں سے اُٹھتا ہے
جس کی خاموشیاں قیامت ہوں
حشر اس کے بیاں سے اُٹھتا ہے
دل پہ لے کر گلاب زخم فصیحؔ
محفلِ دوستاں سے اُٹھتا ہے
۔
جزاک اللہ جناب فصیح بھائی۔ خوبصورت غزل کہتے ہیں۔ مندرجہ بالا اشعار خاص طور پر بہت خوبصورت ہیں۔ داد قبول کیجئیے
 
Top