ماضی سے رہائی۔۔۔

الم

محفلین
اکثر اوقات ہم سب (میں بھی شامل اس میں)یہ کہتے رہتے کہ ہمیں اپنے ماضی سے کوئی ربط نہیں رکھنا نا ہی اس میں رہنا چاہتے لیکن اصل حقیقت تو یہ کے میرے حساب سے کہ ہم اپنے ماضی کو یاد کر کر کے اسے زندگی دیتے۔۔۔۔یہ اس وقت تک رہے گا جب تک ہم اپنے ماضی کو یاد کرنا چھوڑ نا دیں گے۔۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کا احساس مر جائے گا انشااللہ۔۔۔

یہ دھاگہ صرف ان چیزوں کا بیان کر رہا جو کہ آپکو اپنی زندگی میں آگے بڑھنے سے روکتی۔۔۔اور ایک مستقل مایوسی کا پہلو آپکی شخصیت میں چھوڑ دیتی۔۔۔۔
 

پپو

محفلین
ضروری نہیں سب کا ماضی تلخ ہی ہو اور اگر ہر کوئی ماضی بھول جائے تو حال بھی درست رکھنا مشکل ہو جائے مثلا اگر میں نے ماضی میں کسی تجربہ سے کچھ جانا ہے تو وہ مجھے یاد رکھنا ہوگا تاکہ میں اسے آگے منتقل کر سکوں اگر کوئی برا تجربہ بھی ہو تب بھی یاد رکھوں گا تاکہ دوبارہ اس کا اعادہ نہ ہو
مزید اگر میں آپ کی بات سمجھ نہیں پایا تو وضاحت کر دیں
 

تلمیذ

لائبریرین
بھئی، بہت دلچسپ دھاگے کا آغاز کیا ہے آپ نے صاحب!
میں تو اپنی اب تک کی زندگی کے تجربے کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اپنی تمام مساعی کے باوجود انسان اپنے ماضی کی یادوں (ناسٹیلجیا یا نرگسیت)سے دامن نہیں چھڑا سکتا۔ اور میرے خیال میں گئے زمانے کو یاد کرنے میں کوئی ایسی قباحت بھی نہیں ہے، تاوقتیکہ یہ آپ کے حال اور مستقبل پر منفی انداز سے اثر اانداز نہ ہو۔ بیشتر صورتوں میں لوگوں کو اپنا ماضی زمانہ حال کی نسبت بہتر ہی محسوس ہوتا ہے۔
 

پپو

محفلین
بالکل درست کہا بھائی جی نے میں نے کچھ ایسی کتابیں بھی دیکھی ہیں جو آج سے پچاس سال پہلے لکھی گئی اس میں بھی یہی لکھا پہلا زمانہ اچھا تھا
 
ہمارے جرمنی کے سفر نامے ’’ المانیہ او المانیہ ‘‘ کی پہلی قسط پڑھ کر ارلانگن ہی سے نبیل بھائی نے اچانک ہم سے پوچھ لیا ‘‘ خلیل بھائی ! آپ ارلانگن کب تشریف لائے تھے۔’’​
اس بے ساختہ سوال کو پڑھ کر ہم حواس باختہ رہ گئے۔ یہ سوال کچھ اتنا اچانک تھا گویا کوئی وقت کا راہی (ٹائم ٹریولر ) ہمارے ماضی سے نکل کر اچانک ہمارے سامنے آبیٹھا ہو اور ہم سے پوچھ رہا ہو، ‘‘خلیل بھائی ! آپ ارلانگن کب تشریف لائے تھے۔’’ اور ہم سوچنے لگے کہ ان سے ہماری ملاقات اُس شہرِ غدار میں کہاں کہاں اور کس کس موڑ پر ہوئی تھی۔​
دوسری مرتبہ ہمیں گڑبڑانے کا سہرا بھی نبیل بھائی ہی کے سر گیا۔ ہم نے حسینانِ ملکِ ختن کے لانبے بالوں پر شمشاد بھائی کے مزیدار تبصرے پر جواباً کہا کہ لانبی گھنی زلفوں والی دلرباوں کا غولِ بیابانی تو ہمارے ماضی میں رہتا ہے، حال کی خبر تو نبیل بھائی ہی دے سکیں گے۔اس پر فوراً نبیل بھائی نے تڑکا لگایا، ‘‘جناب یہاں کیا خبر دیں، بس سرد شاموں میں نوئے میوہلے کے بس سٹاپ پر ایک خاتون بیٹھ کر ایک چوتھائی صدی پہلے کا وقت یادکرکے آہیں بھرتی رہتی ہیں۔’’​
اس پچھل پائی کے بارے میں سن کر ہماری تو سٹی گم ہوگئی، کیا واقعی نبیل بھائی کوئی وقت کے راہی ہیں جنہوں نے ہمیں نوئے میوہلے میں ایک عدد زنانہ اوور کوٹ پہنےانتہائی سرد شاموں میں سڑکیں ناپتے اور اپنے ناک اور منہ سے سگریٹ کی گرم گرم بھاپ نکالتے ہوئے دیکھاتھا اور اب وہاں سے واپسی پر ہمیں جتا رہے ہیں۔ یا پھر ہم خود ہی وقت کے راہی بن چکے ہیں۔ یہی آنا جانا رہا تو ہمارا تو خدا ہی حافظ ہے۔​
جرمن وہ نہ تھے کوچے، اوراقِ مصور تھے​
جو شکل نظر آئی ، تصویر نظر آئی​
ہم ڈیفنی ڈی موریا کے ناول‘‘ دی ہاوس آن دی سٹرانڈ’’ سمیت دوتین ناولوں میں وقت کے مسافروں کی ذہنی اذیت کے بارے میں پڑھ چکے ہیں جو ماضی کی پراسرا ر گلیوں میں اس حد تک کھو جاتے ہیں کہ حال میں وہ اجنبیوں کی طرح وقت گزارتے ہیں۔وہ بھول جاتے ہیں کہ کیا رئیل ہے اور کیا سرئیل ۔کون سی صورتحال حقیقیت ہے اور کون سی خواب۔انھیں یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ کہیں وہ ان تانوں بانوں اور اس بھول بھلیاں میں اپنا آپ ہی گم نہ کر بیٹھیں۔ شاید یہی وہ کیفیت ہو، یہی وہ نرگسیت کا عذاب ہو جسے شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے​
یادِ ماضی عذاب ہے یارب​
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا​
(ہمارے سفر نامے ’’ المانیہ او المانیہ کی پانچویں قسط سے انتخاب)​
 
نرگسيت nostalgiaہے يا narcism ؟ :?::!:
بھئی، بہت دلچسپ دھاگے کا آغاز کیا ہے آپ نے صاحب!
میں تو اپنی اب تک کی زندگی کے تجربے کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اپنی تمام مساعی کے باوجود انسان اپنے ماضی کی یادوں (ناسٹیلجیا یا نرگسیت)سے دامن نہیں چھڑا سکتا۔ اور میرے خیال میں گئے زمانے کو یاد کرنے میں کوئی ایسی قباحت بھی نہیں ہے، تاوقتیکہ یہ آپ کے حال اور مستقبل پر منفی انداز سے اثر اانداز نہ ہو۔ بیشتر صورتوں میں لوگوں کو اپنا ماضی زمانہ حال کی نسبت بہتر ہی محسوس ہوتا ہے۔
شاید یہی وہ کیفیت ہو، یہی وہ نرگسیت کا عذاب ہو جسے شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے
یادِ ماضی عذاب ہے یارب​
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا​
(ہمارے سفر نامے ’’ المانیہ او المانیہ کی پانچویں قسط سے انتخاب)​
 

زبیر مرزا

محفلین
آپ اسے نوسٹلجیا کہیں یا کسی اورطورجج کریں مگرماضی میرے لیے اکثرخوشگواریادیں بن کرآتاہے
تلخ واقعات قدرے دھندلے اورلاشعورمیں جابستے ہیں
 
ماضی ک یادیں تو ہی انسان کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہوتیں ہیں، جن سے وہ بہت کچھ سیکھتا ہے، اور دوسروں کو بھی اس سے فائدہ پہنچاتا ہے، اسے آپ اپنی زندگی کے تجربات بھی کہہ سکتے ہیں، میں نے بھی ایک ناکام سی کوشش کی ہے اپنی زندگی کے نشیب و فرازکے تمام ادوار کو آپ سب کے سامنے لاسکوں، جو بالکل حقیقت سے بالکل قریب تر بھی ہے اور کچھ سبق آموز بھی،َ!!!!!
 
نرگسيت nostalgiaہے يا narcism ؟ :?::!:

بہن ام نور العين ! آپ درست کہتی ہیں۔جزاک اللہ الخیر

Nastalgia عارضہ یادِ وطن، یادِ ایام، زمانے یا لوٹ کر نہ آنے والے واقعات کی طرف بازگشت کی تمنا ؛یادِ وطن کا عارضہ؛ وطن واپس جانے کی خواہش جو بیماری کی شکل اختیار کرلے؛ ماضی پرستی؛ دردِ وطن

Narcissism, narcism, نرگسیت؛ عشقِ ذات؛ اپنے آپ کی حد سے زیادہ ستائش اور خود فریفتگی؛ خود پرستی

(قومی انگریزی اردو لغت: مقتدرہ قومی زبان۔ پاکستان)
 

مغزل

محفلین
قنوطیت کے برخلاف اگر رجائیت سے دیکھا جائے تومیرے نزدیک تو ماضی ہی بنیادی زندگی ہے اور زندگی کے نشیب و فراز کو بھولنا بھلانا ممکن نہیں ہے ۔ماضی ایک مستمرہ حیثیت رکھتا ہے حال گمان و بے گمانی اور مستقبل اندیشہ ہے ۔۔ قدرت نے مذاہب اور ادیان اور قصائص میں بھی ماضی کو اجاگر کرکے حال گزارنے اور مستقبل کے سفر کی راہیں متعیّن کی ہیں ۔ ماضی قریب و بعید سے ہم تجربات حاصل کرتے ہیں حال و مستقبل کو سنوار سکتے ہیں ۔ رہی بات نرگسیّت کی تو میرے خیال میں یہ ذہنی رو کی غیر بالیدگی کی وجہ سے ہے ۔اس مزید گہرائی کا مطالعہ کریں تو یہ ایک طرح کی نفسیاتی پیچیدگی ہے جس میں اس کا شکار عام طور پر تلخ حوالہ جات کو سینے سے لگائے گریہ کناں رہتا ہے ۔۔ ایک رخ یہ بھی ہے کہ وہ عملیّت سے دور ہوکر الف لیلوی حیثیت میں زندہ رہنا چاہتا ہے ۔۔ ایسا عام طور پر کمزور اعصاب کے حامل افراد کے ہاں نظر آتا ہے ، بعض بعض اوقات ہمارے مشاہدے میں ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو بظاہر مضبوط اعصاب کے حامل ہوتے ہیں مگر کہیں نہ کہیں شکست وریخت کا شکار ہوتے ہیں اور ملمع کاری اختیار کرتے ہیں مگر دیمک لگی ہوئی چوکھٹ کی طرح خود کو سنبھالنے میں مشغول رہتے ہیں۔۔۔ سو ماضی میں رہنا ماضی کو یاد رکھنا انسانی ذہنی نفیساتی بالیدگی پر منطبق ہے کہ وہ ماضی میں رہنا چاہتا ہے یا ماضی سے سبق سیکھ کر آگے سفر کرنا چاہتا ہے۔۔
 
وہ وقت شاید 1960 سے لے کر 1970 تک کا ہی ہو گا، جب میری عمر 10 سال سے لیکر 20 سال تک ہوگی،!!!!! کہتے ہیں کہ اسی وقت سے مہنگائی کا آغاز ہوا، مجھے کچھ یاد ہے کہ چینی کی قیمت 3 یا ساڑے 3 روپے سیر تک پہنچی تو مہنگائی کے لئے وقت حاکم کے خلاف ھنگامے شروع ہوگئے تھے، اور سیاسی گہماگہمی کا آغاز بھی ہوچکا تھا،!!!!!!

شروع کے وقت میں لوگوں میں اتنی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں تھی، لیکن خبریں سننے میں تو وہ سب پان کی دکان یا کسی کھانے پینے کے دھابے کے پاس جاکر ریڈیو سے خبریں ضرور سنتے تھے، ریڈیو تو بہت ہی کم لوگوں کے پاس تھا، اور ٹیلیویژن کا تو دور دور تک کسی کو گمان بھی نہیں تھا، لیکن لوگ بتاتے تھے، کہ اب کچھ عرصہ بعد ایسا ریڈیو بھی آئے گا جس پر خبریں پڑھنے والے کی تصویر بھی آیا کرے گی،!!!!!

خان صاحب کے چائے کے ہوٹل پر تو اکثر لوگ گراموفون پر گانے سننے جاتے تھے، جو چابی بھرنے سے چلتا تھا، اور اس پر ایک بڑا سا گول رکارڈ لگا کر اس پر گراموفون کی سوئی رکھ دیتے تھے، اور گانا شروع، ہر رکارڈ بدلنے کے ساتھ سوئی کو بھی بدلتے رہتے،!!!!!!

محلے میں بہت کم ایک دو گھروں میں ہی ریڈیو ہوا کرتا تھا، جو بیٹری سیل سے ہی چلتا تھا، کیونکہ ہمارے محلے میں بجلی نہیں تھی، اور تاثر تو یہ تھا کہ جن کے یہاں ریڈیو ہے وہ لوگ امیر ہیں، کبھی اگر ہم کسی کے سرکاری گھر میں جاتے تو وہاں بجلی کے بٹن کو خوب چھیڑتے اور دیکھتے کہ بلب کس طرح جلتا ہے، سرکاری گھروں میں پرانے بوسیدہ سے بلب کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی، اور جو چھت کے پنکھے ہوتے اس میں تو ایسی زور زور سے مختلف ڈراونی قسم کی آوازیں آتیں کہ جیسے کوئی چرخہ چل رہا ہو اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے اب گرا،!!!!!

اس سے تو اچھے ہمارے گھر کے ہاتھ کے پنکھے تھے، اور وہاں کے بجلی کے بلب سے بہتر روشنی تو ہماری لالٹین کی تھی، ہمارے گھر کے صحن کے پاس ایک ایک گورنمنٹ کے محکمہ کا بجلی کا کھمبا لگا ہوا تھا، وہاں سے روشنی سیدھے ہمارے صحن میں بھی آتی تھی، اس روشنی میں ہم بہن بھائی پڑھتے تھے، اور اسکول کا کام بھی کرتے،!!!!

1968 تک ہم اسی کچے گھر میں رہے اور میں نے تو اسی گھر میں انٹر تک تعلیم بھی مکمل کی، کچھ بات تو تھی اس گھر میں،!!!! اس محلہ میں!!!! اس علاقے میں،!!!! مجھے تو بہت ہی اچھا لگتا تھا، سب لوگوں میں ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک تھا، سادگی تھی، ہم سب بچوب میں شرارتی بھی تھے، لیکن جھگڑتے بھی اور کچھ دیر بعد دوستی بھی ہوجاتی تھی، لیکن والدین کبھی بھی ہم بچوں کے لڑائی جگھڑوں میں الجھتے نہیں تھے، ہم اگر شکایت بھی کرتے تو وہ پیار محبت سے سمجھا کر بھگا دیتے تھے،!!!!!

وہاں کے گھروں کی مٹی کی بھینی بھینی خوشبو، خاص کر بارشوں کے دوران تو مہک اور بھی بڑھ ہوجاتی، جس میں ایک اپنائیت کی خوشبو آتی تھی، مٹکوں کا ٹھنڈا پانی اتنا مزے کا ہوتا کہ دل میں ٹھنڈ پڑجاتی تھی، اسکول سے واپس آکر ھم سب پانی پینے کیلئے لپکتے تھے، جبکہ والدہ چیختی رہتی کہ ابھی کچھ سانس تو لے لو،!!!!!!

اسکول کیلئے ہمیں ہر دوسرے روز ایک یا دو پیسے ملا کرتے جس میں ہم بہت خوش تھے، چھوٹی عید یا بقر عید کے دن ہمیں کوئی عیدی ملتی بھی تو زیادہ سے زیادہ چار آنے جو ہمارے لئے بہت تھے، وہ بھی والدہ ہم سے واپس لے لیتیں اور ہاتھ میں ایک آنہ تھما دیتی تھیں، اس میں بھی ہم کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ ایک آنے میں بھی کم سے کم چار چیزیں مل جاتی تھیں،!!!!

چھوٹی عید یا بقر عید پر ہی ایک دو کپڑے کے جوڑے بن جاتے تھے، جو ہم پورا سال اسے چلاتے تھے، ساتھ ہی اسکول کے دو جوڑے یونیفارم کے بنتے تھے وہ بھی تقریباً پورا سال ہی چل جاتے تھے، جب بھی کوئی جوڑا بنتا تھا یا ریڈی میڈ خریدنے جاتے تو والد صاحب کچھ ناپ میں ڈھیلا ہی خریدتے یا سلواتے تھے، تاکہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ کچھ زیادہ عرصہ تک چل سکیں،!!!! تقریباً اس وقت مجھے یاد ہے کہ ایک جوڑا سات یا آٹھ روپے کا بن جاتا تھا، اور دس روپے میں تو شاندار عید کا جوڑا تیار ملتا تھا،!!!!!

اس وقت زیادہ تر لوگ بہت ہی زیادہ کفایت شعاری اور سادگی سے زندگی بسر کرتے اور اپنی اسی قلیل آمدنی میں گزارا کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ پیسے بچا بھی لیا کرتے تھے تاکہ ضرورت پڑنے پر کام آسکے،!!!!!
 
واياك ۔
بہن ام نور العين ! آپ درست کہتی ہیں۔جزاک اللہ الخیر

Nastalgia عارضہ یادِ وطن، یادِ ایام، زمانے یا لوٹ کر نہ آنے والے واقعات کی طرف بازگشت کی تمنا ؛یادِ وطن کا عارضہ؛ وطن واپس جانے کی خواہش جو بیماری کی شکل اختیار کرلے؛ ماضی پرستی؛ دردِ وطن

Narcissism, narcism, نرگسیت؛ عشقِ ذات؛ اپنے آپ کی حد سے زیادہ ستائش اور خود فریفتگی؛ خود پرستی

(قومی انگریزی اردو لغت: مقتدرہ قومی زبان۔ پاکستان)
 
Top