کوئی مقتول کہتا ہے کوئی قاتل سمجھتا ہے

ایم اے راجا

محفلین
انڈیا کے کسی شاعر کی ایک نظم کے بول سنے تھے،
کوئی دیوانہ کہتا ہے کوئی پاگل سمجھتا ہے
مگر دھرتی کی بیچینی کو بس بادل سمجھتا ہے
اچھی لگی اسی زمین میں ایک غزل کہی ہے، اصلاح و رائے کے لیئے حاضرِ خدمت ہے۔


کوئی مقتول کہتا ہے کوئی قاتل سمجھتا ہے
مگر میری جو حالت ہے وہ میرا دل سمجھتا ہے

محبت ایک قصہ ہے ، محبت ایک افسانہ
حقیقت کیوں اسے میرا یہ پاگل دل سمجھتا ہے

مچلتی ہوئی لہروں کی یہ بیچینی بھلا کیا ہے
سمندر کو پتہ ہے یا تو پھر ساحل سمجھتا ہے

ترے دل میں کہاں ہوں میں مرے دل میں کہاں ہے تو
“یہ تیرا دل سمجھتا ہے یا میرا دل سمجھتا ہے“

مری دھرتی کی اس تشنہ لبی کو خوب حیرت ہے
اسے بادل، نہ ہی دریا، نہ ہی ساحل سمجھتا ہے

محبت میں یہ نفرت کی ملاوٹ کیوں بھلا کی ہے
اسے نہ وہ سمجھتا ہے نہ میرا دل سمجھتا ہے

سرِ صحرا مرے سر پر جو سایہ ہے یہ بادل کا
اسے یہ دل محبت کا کوئی حاصل سمجھتا ہے

یہ ظالم عشق ہے راجا اسے عاشق ہی سمجھے گا
کہاں اس کو بھلا کوئی بڑا عاقل سمجھتا ہے
 
بحر ہزج مثمن سالم
مفاعی لن ، مفاعی لن ، مفا عی لن ، مفاعی لن
مجھے تو صرف ایک مصرعہ وزن میں سے خارج معلوم ہوا ہے۔
مچلتی ہوئی لہروں کی یہ بیچینی بھلا کیا ہے
ہوئی کی جگہ کوئی دوسرا لفظ آنا چاہیے۔
مچلتی تیز لہروں کی یہ بے چینی بھلا کیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
حاضر ہے اصلاح، اس میں وہاب کی بات بھی شامل ہے۔

کوئی مقتول کہتا ہے کوئی قاتل سمجھتا ہے
مگر میری جو حالت ہے وہ میرا دل سمجھتا ہے
//عروضی اعتبار سے درست، لیکن مفہوم کے لحاظ سے۔۔ مصرع اولیٰ دوسرا سوچو۔

محبت ایک قصہ ہے ، محبت ایک افسانہ
حقیقت کیوں اسے میرا یہ پاگل دل سمجھتا ہے
//پہلے مصرع میں دونوں ایک ہی باتیں ہیں، کچھ فرق رکھنے کی ضرورت ہے، جیسے
محبت ایک قصہ ہے ، محبت خواب ہو جیسے
اور دوسرا مصرع بھی یوں ہو تو کیا بات ہے!
حقیقت کیوں نہیں یہ میرا پاگل دل۔۔۔۔۔

مچلتی ہوئی لہروں کی یہ بیچینی بھلا کیا ہے
سمندر کو پتہ ہے یا تو پھر ساحل سمجھتا ہے
//’ہوئی‘ محض ’فعِل‘ فصیح ہے ’فعلن‘ نہیں جیسا کہ تم نے باندھا ہے۔ اور دوسرے مصرع میں ’یا تو پھر‘ رواں نہیں، ’تو‘ اضافی ہے۔
یہ لہریں مضطرب کیوں ہیں، یہ کیوں اتنی مچلتی ہیں
پتہ ہے بحر کو یا پھر اسے ساحل سمجھتا ہے
سے یہ اسقام دور ہو جاتے ہیں۔ یا تم ہی کچھ متبادل سوچو۔

ترے دل میں کہاں ہوں میں مرے دل میں کہاں ہے تو
“یہ تیرا دل سمجھتا ہے یا میرا دل سمجھتا ہے“
///دوسرا مصرع کیا طرحی ہے؟ ’یا‘ کے الف کا اسقاط اس میں بھی اچھا نہیں لگ رہا، اگر طرحی ہے تو کچھ نہیں کر سکتے۔ شعر درست ہے۔

مری دھرتی کی اس تشنہ لبی کو خوب حیرت ہے
اسے بادل، نہ ہی دریا، نہ ہی ساحل سمجھتا ہے
//اچھا شعر ہے، بس روانی کم ہے دوسرے مصرع میں، اسے یوں کیا جا سکتا ہے
اسے بادل، نہ دریا اور کہاں ساحل۔۔۔۔
اسے بادل، نہ دریا اور نے ساحل۔۔۔۔

محبت میں یہ نفرت کی ملاوٹ کیوں بھلا کی ہے
اسے نہ وہ سمجھتا ہے نہ میرا دل سمجھتا ہے
//یہ شعر بھی فہم سے بالا تر ہے۔ تکنیک کے اعتبار سے محض یہ غلطی ہے (میرے حساب سے) کہ ’نہ‘ بطور ’نا‘ (فع) آتا ہے۔ یہ سقم تو دور کیا جا سکتا ہے لیکن مفہوم کیسے نکالا جائے؟ جیسے۔۔۔
نہ وہ اس کو سمجھتا ہے نہ میرا دل۔۔۔

سرِ صحرا مرے سر پر جو سایہ ہے یہ بادل کا
اسے یہ دل محبت کا کوئی حاصل سمجھتا ہے
///یہ شعر بھی مفہوم کے لحاظ سے لخت لخت ہے۔ دل کیوں ایسا سمجھتا ہے؟

یہ ظالم عشق ہے راجا اسے عاشق ہی سمجھے گا
کہاں اس کو بھلا کوئی بڑا عاقل سمجھتا ہے
//’ظالم‘ مسئلہ کر رہا ہے یعنی اگر یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ عشق کیا ہے، اس کی حقیقت عاشق ہی سمجھ سکتا ہے، تو "ظالم" سے اس کی ایک تعریف کیوں بتائی جائے۔ اور اگر یہی کہنا مقصود ہے کہ عشق ظالم ہوتا ہے، تو اسے عاشق ہی کیوں سمجھے گا۔ میرے ناقص خیال میں اسے یوں کیا جا ساور ہے
میاں یہ عشق کیا شے ہے، اسے عاشق ہی سمجھے گا
کہاں راجا یا اس جیسا کوئی عاقل سمجھتا ہے
 

ایم اے راجا

محفلین
افطار کا وقت ہو گیا ہے فی الحال اتنی عرض ہے کہ،

مچلتی ہوئی لہروں کی یہ بیچینی بھلا کیا ہے
سمندر کو پتہ ہے یا تو پھر ساحل سمجھتا ہے
//’ہوئی‘ محض ’فعِل‘ فصیح ہے ’فعلن‘ نہیں جیسا کہ تم نے باندھا ہے۔ اور دوسرے مصرع میں ’یا تو پھر‘ رواں نہیں، ’تو‘ اضافی ہے۔

کیا ہوئی کی ی گرانا درست نہین؟ جبکہ بہت سے شعرا گراتے ہیں۔

ترے دل میں کہاں ہوں میں مرے دل میں کہاں ہے تو
“یہ تیرا دل سمجھتا ہے یا میرا دل سمجھتا ہے“
///دوسرا مصرع کیا طرحی ہے؟ ’یا‘ کے الف کا اسقاط اس میں بھی اچھا نہیں لگ رہا، اگر طرحی ہے تو کچھ نہیں کر سکتے۔ شعر درست ہے۔
دوسرا مصرعہ اصل نظم کا ہے۔ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا اسی نظم کی زمین میں یہ غزل میں نے کہی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
آج کل تو رواج بن گیا ہے کہ ہوئے یا ہوئی کا آخری حرف ے یا ی گرا دی جا سکتی ہے اگرچہ ثقہ ماہران عروض گوارا نہیں کرتے تھے۔اختر عثمان کا ہی شعر ہے
وہ سانولی سی جو اک آرزو پلی خوں میں
نمک میں بھیگ کے آئی تو گفتنی ہوئی ہے
لیکن یہاں یہ کہاں گرائی گئی ہے، بہت زیادہ اعلان کر دیا ہے تم نے تو۔۔۔

وہ طرحی مصرع تھا تو ظاہر ہے کہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
 

ایم اے راجا

محفلین
وہ ظالم ہے مگر خود کو بڑا عادِل سمجھتا ہے
اسے کیسے بتاؤں دل تجھے قاتل سمجھتا ہے

محبت ایک قصہ ہے ، محبت ایک افسانہ
حقیقت کیوں اسے میرا یہ پاگل دل سمجھتا ہے

مچلتی ہیں جو لہریں اِن کی بیچینی بھلا کیا ہے
سمندر کو پتہ ہے یا تو بس ساحل سمجھتا ہے

ترے دل میں کہاں ہوں میں مرے دل میں کہاں ہے تو
“یہ تیرا دل سمجھتا ہے یا میرا دل سمجھتا ہے“

مری دھرتی کی اس تشنہ لبی کو خوب حیرت ہے
اسے بادل، نہ ہی دریا، نہ ہی ساحل سمجھتا ہے

محبت میں یہ نفرت کی ملاوٹ کیوں بھلا کی ہے
اسے نہ وہ سمجھتا ہے نہ میرا دل سمجھتا ہے

سرِ صحرا مرے سر پر جو سایہ ہے یہ بادل کا
اسے یہ دل دعاؤں کا کوئی حاصل سمجھتا ہے

یہ مشکل عشق ہے راجا اسے عاشق ہی سمجھے گا
کہاں اس کو بھلا کوئی بڑا عاقل سمجھتا ہے
 
Top