چھٹی سالگرہ بچوں کے لیے نظمیں محفل کی چھٹی سالگرہ کے موقع پر

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اچھا جناب ، اردو محفل فورم کی چھٹی سالگرہ کے موقع پر ایک سلسلہ گوشۂ اطفال سے ۔ گذشتہ عرصہ بچوں کے لیے نظمیں اور مختصر کہانیاں جمع کرنے میں بیشتر دلچسپی رہی اور بہت سی دلچسپ کہانیاں اور نظمیں ملیں ۔ اس موقع پرآپ سب کو دعوت دی جا رہی ہے کہ آپ بھی اس سلسلہ میں شریک ہو سکتے ہیں ۔

کرنا یہ ہو گا کہ آپ بچوں کے لیے کسی بھی موضوع پر اور کسی بھی عنوان سے لکھی گئی نظمیں یہاں اس دھاگے میں ارسال کر سکتے ہیں ۔ موجودہ ماہ کے آخر تک اس سلسلے میں ارسال کی گئی نظموں کو جمع کر کے ایک بک بنائی جائے گی ۔ اس سلسلے میں آپ اپنی پسندیدہ نظمیں ، یا اپنے گھر میں موجود بچوں کی پسندیدہ نظمیں شامل کر سکتے ہیں ۔ ایسی نظموں کی نشاندہی ضرور کیجیے جو بچپن میں آپ کو بہت پسند رہی ہوں یا بچپن میں آپ کے والدین ، استاد یا دیگر بزرگوں نے آپ کو سنائی ہوں یا پڑھنے کے لیے رہنمائی کی ہو ، یا آپ نے زبانی یاد کی ہوں ۔ اگر آپ کو اپنے اسکول کے زمانہ میں درسی کتب میں شامل نظم نظمیں یاد ہوں تو یہاں شامل کر سکتے ہیں اور شیئر کر سکتے ہیں کہ وہ نظم آپ نے کس جماعت میں پڑھی تھی ۔ درسی کتب کے علاوہ پسندیدہ نظمیں کسی دوسرے ماخذ سے بھی پیش کر سکتے ہیں حوالہ کے ساتھ ۔ اگر آپ کا اپنا کلام ہے تو حوالہ میں اپنا نام لکھیں بصورتِ دیگرحوالہ میں صاحبِ کلام (شاعر) کا نام بھی شامل کیجیے۔

ایسی نظمیں ضرور شامل کیجیے جو آپ کو اپنے گھر میں ، عزیز و اقارب یا پڑوس میں موجود بچے بار بار سناتے ہوں اور پھر بھی سمجھتے ہوں کہ ابھی تک آپ کو وہ نظم یاد نہیں ہوئی :happy:

(نوٹ : اگر آپ اس سلسلے کے حوالے سے کچھ تجویز دینا چاہیں تو خوش آمدید۔)

چلیں پھر آغاز کرتے ہیں ۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
برکھا رُت

بادل گرجے ، بجلی کڑکے
کھڑکھڑ کھڑ کھڑ کھڑکی کڑکے

بوندیں ٹپ شپ پانی شر شر
اندر باہر پانی گھر گھر

نہریں ندیاں نالے سارے
پُر ہو گئے پرنالے سارے

پربت پربت پنچھی گائیں
مینڈک مل کر شور مچائیں

نتھو پھتو گاما ساجھا
چھوڑ کے اپنا کاما کاجا

موچی ، دھوبی ، درزی ، نائی
سب نے ایک ہی تان لگائی

رم جھم رم جھم بدلی چھائی
برکھا آئی ، برکھا آئی


کلام : کرامت بخاری
حوالہ : تعلیم و تربیت ، جولائی 2011ء​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
میری بہنا

میری پیاری سی ہے بہنا
جیسے پھولوں کا ہو گہنا

اس کو مجھ سے پیار بہت ہے
وہ میری دلدار بہت ہے

میں روٹھوں تو مجھے منائے
ٹافی دے کر جی بہلائے

پیار سے "باجی" کہتی ہے وہ
میری ڈانٹ بھی سہتی ہے وہ

مجھ کو بے حد پیاری ہے
میری راج دلاری ہے

سب کی خدمت کرنے والی
سیدھی سادی ، بھولی بھالی

جانتی ہے وہ دل میں بسنا
سب گھر والوں کو خوش رکھنا

ذکر اسی کا کرتے ہیں سب
دم اسی کا بھرتے ہیں سب

جو بھی اس جیسا ہو جائے
سب کی نظر میں عزت پائے


(لبنٰی انصاری)​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


کوئلا


رنگ میرا سیاہ ہے لیکن
کوہ میری پناہ ہے لیکن

میں حرارت بدن میں رکھتا ہوں
میں پہاڑوں کے دل میں رہتا ہوں

صنعتیں میرے دم سے چلتی ہیں
بھٹیاں میرے دم سے جلتی ہیں

میرے جلنے سے روشنی ہر سُو
اور بُجھ جاؤں تو سیاہ آنسو

انجنوں میں ہے زندگی مجھ سے
اور چٹانوں کی دوستی مجھ سے

مجھ کو ڈھونڈو کہ قیمتی ہوں میں
رنگ کالا ہے ، روشنی ہوں میں


(کلام : محسن احسان)
ماہنامہ ہمدرد نونہال ، فروری 2006ء​
 
بزرگوں کی باتیں

ٹلو بلو نٹ کھٹ بچے
بد اخلاق اور منہ پھٹ بچے
بات کسی کی وہ کب مانیں
اپنے کیے کو اچھا جانیں
علم سے ان کا دور کا رشتہ
کیسی کتابین ، کیسا بستہ
دن بھر بازاروں میں گھومیں
گھر، بس رات کو آ کر سوئیں
ماں ان کو سمجھاتی بہت تھی
باپ کو خوف دلاتی بہت تھی
لیکن وہ کچھ سنتے نہین تھے
جو بھی کہو وہ کرتے نہیں تھے
مر گئے جب ماں باپ ہی دونوں
بھوکے رہنے لگے وہ دونوں
بات انہین تب سمجھھ میں آئی
کاش کہ کرتے ہم بھی پڑھائی
سب کی طرح آرام سے رہتے
اب گزرے گی عمر یہ کیسے
بچو! سمجھ لو آج یہ بات
مانو بزرگوںکی ہر بات

جمال نقوی
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ہماری اردو

کتنی پیاری زبان ہے اردو
دوستی کا نشان ہے اردو

اس کی آٍغوش وا ہے سب کے لیے
دھوپ میں سائبان ہے اردو

آئے مہمان اور جائے نہ پھر
مہرباں میزبان ہے اردو

اس کے شیدائی تھے "حکیم سعید"
ان کی بھی ترجمان ہے اردو

نثر ہو یا کہ نظم دونوں میں
خوش ادا ، خوش بیان ہے اردو

عربی ، فارسی و سنسکرت
ان خزانوں کی شان ہے اردو

کم نہیں اس کے بولنے والے
نصف ارب کی زبان ہے اردو

وار غیروں کے ہنس کے سہتی ہے
لشکری ہے ، جوان ہے اردو

نونہالو! تم اپنی بھوک مٹاؤ
علم و دانش کا خوان ہے اردو

کلام : تشنہ بریلوی
ہمدرد نونہال ، جولائی 2009ء​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


لوری

سو جا ، میرے پیارے سو جا
میرے راج دلارے سو جا

دنیا پر ہے رات کا ڈیرا
ہر جانب ہے نیند کا پھیرا
چڑیوں نے بھی کیا بسیرا

سو گئے دن کے نظارے سو جا
سو جا ، میرے پیارے سو جا

چاند ستارے لوری گائیں
نکلیں ماں کے دل سے دعائیں
رد ہوں تیری ساری بلائیں

میری جان سے پیارے سو جا
میرے راج دلارے سو جا

اے میرے نازوں کے پالے
پلکوں پلکوں خواب سجا لے
رات بخیر ، خدا کے حوالے

میرے دل کے سہارے سو جا
سو جا ، میرے پیارے سو جا


(کلام : سرشار صدیقی)
ہمدرد نونہال ، ستمبر 2009ء​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
پہچان

ایک صاحب کا پالتو کتا
جب کسی شاہراہ سے گزرا

کوئی آیا نظر اسی جیسا
جو سڑک پر تھا بیچ میں لیٹا

پوچھا کتے نے، اے میرے بھائی!
آپ کے جی میں کیوں یہ بات آئی؟

بیچ رستے میں کیوں پڑے ہو میاں؟
کون سی ضد پہ یوں اڑے ہو میاں؟

بولا ، خوش ہوں کہ بن کے میں نادان
نیک اور بد کی کرتا ہوں پہچان

لوگ اچھے جو ادھر آتے ہیں
پاؤں مجھ سے بچا کے جاتے ہیں

جو برے ہیں ، مجھے ستاتے ہیں
جانے کیوں ٹھوکریں لگاتے ہیں

تم تو کیسے مزے اڑاتے ہو
سیٹھ صاحب کا مال کھاتے ہو

ظلم بے چارگی کے سہنے دو
مجھ کو اس حال ہی میں رہنے دو

آفاق صدیقی​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
الو

اُلّو ! تم بڑے اُلو ہو
کونے میں وہاں بیٹھے ہو

نیچے کیوں نہیں آتے ہو
شکل نہیں دکھلاتے ہو

دن بھر سوتے رہتے ہو
رات ہوئی اٹھ جاتے ہو

دن میں تم کو دکھتا نہیں کیا
آنکھیں کھول نہ پاتے ہو

آنکھوں پر جو چڑھا ہے چشمہ
دیکھ نہیں کیا پاتے ہو

شاید خراب ہیں آنکھیں تمہاری
دوا نہیں ڈلواتے ہو

اُلّو ! تم بڑے اُلّو ہو
وہاں اکیلے بیٹھے ہو

آؤ نیچے دیکھوں گا
چشمہ تمہارا اتاروں گا

دن میں تم کو دکھتا نہیں کیوں
وجہ کیا ہے سمجھوں گا

ڈاکٹر کو دکھلا دوں گا
اس سے دوا ڈلوا دوں گا

دن میں بھی پھر دیکھ سکو گے
چشمہ نیا بنوا دوں گا

آو نیچے آ جاؤ
اپنی آنکھیں دکھلاؤ


کلام : محمد انوار​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب علم عام ہو

تابندہ اپنی صبح ہو ، رخشندہ شام ہو
بن جائے خلد اپنا وطن ، ایسا کام ہو

اب علم عام ہو

لے کر نوید علم کی آئے بہارِ صبح
آراستہ ہو علم و ادب سے نگارِ صبح
ہاتھوں میں سب کے علم کا لبریز جام ہو

اب علم عام ہو

ظلمت کا اس جہاں میں نہ کوئی نشاں رہے
اب آفتابِ علم سے روشن جہاں رہے
رخشندہ شب کو علم کا ماہِ تمام ہو

اب علم عام ہو

وہ علم جس سے خاکِ وطن کہکشاں بنے
وہ علم جس سے اپنی زمیں آسماں بنے
وہ علم جس سے زندگی بھی شاد کام ہو

اب علم عام ہو

وہ علم جس سے ذہن کو بیدار ہم کریں
وہ علم جس سے دشت کو گلزار ہم کریں
وہ علم جو بہارِ چمن کا پیام ہو

اب علم عام ہو
اب علم عام ہو


( کلام : عباس العزم)​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین

آوازوں کی دنیا


مرغا بولا ککڑوں کوں
اور گدھا ڈھینچوں ڈھینچوں

بلی بولی میاؤں میاؤں
کتا بولا بھوں بھوں بھوں

مرغی بولی کُٹ کُُٹ کُٹ
چوزے بولے چُوں چُوں چُوں

ریل جو بولی چھک چھک چھک
موٹر بولی پُوں پُوں پُوں

مینہ برسے رم جھم رم جھم
ساون ہو یا ہو بھادُوں

بُڑھیا جب دھاگا کاتے
چرخا بولے رُوں رُوں رُوں

سالن چولھے پر رکھا
ہنڈیا بولے شُوں شُوں شُوں

ننھے نے توڑا برتن
چِلّاتے آئے ماموں

منے کی باتیں سن لو
کہتا ہے آغوں آغوں

آئی اذاں کی ہے آواز
ٹھہرو ، نماز اب میں پڑھ لوں

پھول کہے ، اللہ اللہ
میں بھی اس کا بندہ ہوں


کلام : تنویر پھول​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
جاگو ، میرے پیارے جاگو
میری آنکھ کے تارے جاگو !

جاگ اٹھا مشرق میں سویرا
دور ہوا دنیا سے اندھیرا
لہرایا سورج کا پھریرا
ڈوبے صبح کے تارے ، جاگو !
جاگو ، میرے پیارے جاگو !

صبح کی چڑیاں بول رہی ہیں
کلیاں آنکھیں کھول رہی ہیں
کرنیں موتی رول رہی ہیں
تم بھی راج دلارے جاگو !
جاگو ، میرے پیارے جاگو !

ٹوٹیں ظلم کے کچے دھاگے
دنیا سے تاریکی بھاگے
تم جاگو تو دنیا جاگے
مستقبل کے سہارے جاگو
جاگو ، میرے پیارے جاگو !


کلام : سرشار صدیقی​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
فقیر کی صدا

سڑک پر ایک اندھا جا رہا ہے
بہت پُر درد لَے میں گا رہا ہے

وہ لاٹھی کے سہارے چل رہا ہے
سڑک کے اک کنارے چل رہا ہے

کبھی ٹکرا بھی جاتا ہے کسی سے
کبھی گرتا ہے اپنی بے بسی سے

وہ اپنا ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے
وہ گاتا ہے "فقط اللہ بڑا ہے"

تمھیں آنکھوں کی نعمت دی خدا نے
زمانے بھر کی دولت دی خدا نے

دکھائے تم کو منظر پیارے پیارے
اندھیرا ہے مقدر میں ہمارے

رہے قائم تمھاری شان بابا
کرو مجبور پر احسان بابا

تمھاری ، ربّ نگہبانی کرے گا
ہر اک مشکل میں آسانی کرے گا

(کلام : شریف احمد شریف)​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نئے سال کا پیغام

کام جو محنت سے کرتا ہے اسی کا نام ہے
درحقیقت کام ہی انسان کا آرام ہے
جب تلک زندہ رہو ، مت جی چراؤ کام سے
سالِ نو کا ہر بشر کو بس یہی پیغام ہے

پیار کے تم گیت گاؤ ، ختم کر دو نفرتیں
جھوٹ ، چوری چھوڑ دو ، اچھی نہیں یہ عادتیں
سیکھ لو گے پیار سے رہنا اگر تم ، دوستو !
زندگی بھر کے لیے تم کو ملیں گی راحتیں

سال وہ اچھا ہے جو ہر آدمی کو دے خوشی
سب رہیں آرام سے ، پُر لطف ہو یہ زندگی
سالِ نو کہتا ہے اس کی ایک ہی بس شرط ہے
ہر طرف جگ میں نظر آئے وفا کی روشنی


امان اللہ نیر شوکت​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
غور سے سنیے

جس کو اسکول سے وحشت ہوگی
ایسے بچے کی مرمت ہو گی

اُن میں پوشیدہ شرارت ہو گی
جن کی معصوم سی صورت ہو گی

کام استاد کا جس دن نہ کیا
بس اُسی روز قیامت ہو گی

مُرغا بننے کا اگر حکم ملا
کسے انکار کی جُرات ہو گی

میرے حصے کی بھی ٹافی کھا لی
اب نہ باجی کو شکایت ہو گی

رات دن کھیلنے والو! سُن لو
فیل ہونے پہ ندامت ہو گی


ضیاء الرحمن ضیاء​
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
سزا

ایک تھی لڑکی چھوٹی سی
چھوٹی سی اور موٹی سی

دال چپاتی کھاتی تھی
نیند بہت ہی آتی تھی

یوں تو تھی وہ گڑیا سی
رنگوں کی اک پڑیا سی

آفت کی پرکالہ تھی
بڑے بڑوں کی خالہ تھی

اک دن اس کو شوق جو آیا
سر میں اس کے دھیان سمایا

امی کے کمرے میں جا کر
جوتے لائی ان کے اٹھا کر

پاؤں میں پہنے ہنسی خوشی سے
گھومی ہر سُو خوشی خوشی سے

اِدھر اُدھر وہ پھرتی تھی
اُٹھ اُٹھ کر وہ گرتی تھی

پھر سیڑھی کے پاس وہ آ کر
اپنے سر پہ شال سجا کر

جھومی ، ناچی اور لہرائی
پاؤں پھسلا ، نیچے آئی

اس کو پکڑنے کو سب دوڑے
چوٹ لگی تو جوتے چھوڑے


(کلام : محسن احسان)​
 
زیور علم

نانی اماں کہتی ہیں
دادی کا بھی کہنا ہے
علم تو اپنا گہنا ہے
خوب پڑھو اور خوب پڑھاؤ
ہر گھر میں اسکول بناؤ
ساری دنیا پر چھا جاؤ
عزت سے گر رہنا ہے
علم تو اپنا گہنا ہے





سرشار صدیقی
 
Top