گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

طالوت

محفلین
عالمین کے لئے رحمت قرار دی جانے والی اس عظیم المرتبت ہستی کے نام پر یہ سب کچھ ، حیرت و دکھ سے دماغ بوجھل ہو جاتا ہے۔
وسلام
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اور فواد صاحب کے لئے ہمارا ’ مخلصانہ مشورہ ‘ تو یہی ہے کہ بہتر ہے وہ ’تعزیتی پیغام ‘ بھی ’ آن لائن ‘ ہی جاری فرمائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ خود ’ تعزیتی پیغام ‘ سنانے کے لئے صوبہ سرحد پہنچ جائیں ورنہ ممکن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امریکی حکومت کو ایک اور ’ تعزیتی پیغام ‘ جاری کرنا پڑجائے :(


ميں اپنی ذات پر کيے جانے والے حملوں کے حوالے سے جملوں پر کوئ رائے نہيں دوں گا کيونکہ اس سے بحث اور بات چيت کے عمل ميں کسی معنی خيز پہلو کو اجاگر کرنے ميں کوئ مدد نہيں مل سکتی۔

بحثيت ايک مسلمان کے ميں تمام رائے دہندگان کی جانب سے حضور پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کے حوالے سے تقدس اور محبت کے جذبات کو سمجھتا بھی ہوں اور انھيں صدق دل سے تسليم بھی کرتا ہوں۔ ليکن ايشو يہ نہيں ہے کہ ہم ان جذبات کو کتنا مقدم سمجھتے ہيں يا يہ کہ گورنر سلمان تاثير کا کردار کيسا تھا يا انھوں نے مبينہ طور پر کچھ کہا يا نہيں کہا۔

اصل واقعہ يہ ہے کہ انھيں ايک جنونی شخص نے دن دھاڑے قتل کيا اور پھر اقبال جرم بھی کر ليا۔ بجائے اس کے کہ اس جرم کی مذمت کی جائے اور عدالت کو ملک ميں رائج قوانین کی روشنی ميں فيصلے کا اختيار ديا جائے، کچھ لوگ اس جرم کی نہ صرف توجيہہ پيش کر رہے ہيں بلکہ اسے ايک ہيرو کے طور پر بيان کر رہے ہیں۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ امريکی حکومت گورنر تاثير کے قتل کو ايک مذہبی معاملہ نہیں سمجھتی۔ يہ ملک کے ايک اہم عہديدار کے خلاف کيا جانے والا جرم ہے اور اسے اسی تناطر میں ديکھنا چاہيے۔ اس جرم کو مذہبی رنگ دے کر اور عوام کے جذبات کو بھڑکا کر اسے ايک "کارنامہ" قرار دينا ايک انتہائ خطرناک روش ہے جس سے لوگوں کو يہ ترغيب ملے گی کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ ميں ليں اور ہر اس شخص کو سزا دينے کی ذمہ داری پوری کريں جس نے ان کی دانست ميں اپنے بيان يا کردار سے مخصوص مذہبی سوچ کی تضحيک کی ہے۔ يہ واضح رہنا چاہيے کہ يہ لائحہ عمل صرف اور صرف ايک خونی افراتفری کی جانب لے جائے گا۔

يقينی طور پر کوئ يہ نہيں چاہے گا کہ پاکستان کو ايک ايسے معاشرے ميں تبديل کر ديا جائے جہاں پر قانون کی حکمرانی اور عدالتی نظام جسے عوام نے خود اپنی جدوجہد سے بحال کروايا ہے اسے مسترد کر ديا جائے اور ہر شخص اپنے ہاتھوں سے انصاف کے حصول کو ترجيح دينے لگے۔

پاکستان کے طويل المدت اسٹريجک دوست اور پارٹنر کی حيثيت سے امريکی حکومت نے انصاف، انسانی حقوق اور ملک پر حکومت کی رٹ قائم رہنے کے تسليم شدہ عالمی ضابطوں اور قوانين کی روشنی ميں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

شمشاد

لائبریرین
پیپلز پارٹی نے سلمان تاثیر کو اپنی پارٹی کا عظیم سپوت قرار دیا۔ لیکن حیرت ہے کہ پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا اور پاکستان کے صدر صاحب اپنی پارٹی کے اس عظیم سپوت کے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے کراچی سے لاہور تو نہ آسکے البتہ رچرڈ ہالبروک کے جنازے میں شرکت کے لیے امریکہ چلے گئے ہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
پھر اس قانون کی جو “ آئمہ کرام “ کے جمہور سے متصادم ہے ۔ ( جسے امیر المومنین جناب شہید جنرل ضیاء الحق نے 1986 میں اپنے دورِ خلافت میں متعارف کروایا تھا ۔ ) اس کی پاسداری کے لیئے ہر اس شخص کی گردن اتاریں گے جو غلطی سے اس بات کا اعادہ کرے گا کہ اس “ قانون “ پر نظرثانی کی ضرورت ہے ۔۔
علم کی یہ سطح کہ قرآن و سنت سے براہ راست اخذ شدہ قانون کے ایک خاص وقت میں ایک خاص ریاست میں نفاذ کو ہی بطور ماخذ قانون اور تفہیم قانون کے لیا جارہا ہے حالانکہ جن موصوف کہ عہد سے اس قانون کو جوڑ کر سیاسی گماشتوں نے اس متفق علیہ قانون کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے اور جن کے پرہپیگنڈہ میں پڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہوچکا ہے وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اس قانون کی جس موجودہ شکل اور شق پر جو سب سے بڑھ کر اعتراض کیا جاتا ہے وہ ضیاء دور میں تو موجودہ شکل میں تھی ہی نہیں بلکہ اسکے دور میں تو قانون کی یہ شق سراسر خلاف قرآن و سنت تھی کہ اس میں توہین رسالت کی سزا سزائے موت یا عمر قید یا پھر جرمانہ تھی یا پھر دونوں ہوسکتی تھیں جبکہ اس قانون کی اصل شرعی شکل نواز شریف دور میں 1991 میں ملک پاکستان میں رائج ہوئی ۔
مجھے شدید حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ایک اچھا خاصا باشعور اور پڑھا لکھا طبقہ محض اس قانون کی تنفیذ کو اس قانون کا ماخذ و مراجع تصور کربیٹھتا ہے اور یوں اس قانون پر لایعنی اعتراضات شروع کردیتا ہے لہذا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک بات بڑی کھل کر عرض کردوں کے جو قوانین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنا دیئے ہیں وہ اگر کرہ عرض کی کسی بھی مسلم ریاست میں نافذ نہ ہوں تو تب بھی وہ اسلامی قوانین ہی کہلائیں گے لہذا جب تک قانون توہین رسالت کا قانون پاکستان میں نافذ نہیں تھا تب بھی وہ اسلامی حدود میں شامل قرآن و سنت سے ثابت شدہ قانون ہی تھا فرق صرف اتنا تھا کہ جب تک اسے پاکستان کے آئین کا حصہ نہ بنایا گیا تھا تب تک وہ صرف اسلامی حدود میں تو شامل تھا ہی لیکن جیسے ہی پاکستان کے تعزیراتی قانون میں اس کی شمولیت بطور حد بصورت تعزیرات پاکستان کہ ہوئی تو اس کے ساتھ ہی یہ قانون اسلامی حد ہونے کہ ساتھ ساتھ اب پاکستان کے آئین کا حصہ بھی بن گیا بایں معنٰی کہ اس قانون کی پاکستان کی آئینی دفعات میں “بطور تنفیذ “ شمولیت تو ضرور نوپید اور اضافہ شدہ امر تھی مگر اس سے اسلامی حدود میں قطعی کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔۔۔




عالمین کے لئے رحمت قرار دی جانے والی اس عظیم المرتبت ہستی کے نام پر یہ سب کچھ ، حیرت و دکھ سے دماغ بوجھل ہو جاتا ہے۔
وسلام

واہ جی واہ سبحان اللہ ماشاء اللہ کیا خوب عقدہ کشائی ہے مفھوم رحمۃ للعٰلمین کی بلکہ کیا ہی خوب فلسفیانہ تشریح فرمائی گئی ہے اب چونکہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعٰلمین ہیں لہذا اب عالمیں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جو مرضی آپ کی شان مبارک میں بکتے چلے جائیں مگر آپ کی شان رحمۃ للعٰلمین کا یہ تقاضا ہے کہ آپ کی اس شان پر کوئی بھی قانون سازی ہی نہ کی جائے واہ واہ سبحان اللہ میرا بے اختیار صدقے جانے کو جی چاہ اٹھا اپنی امامہ کے تایا ابو کے ۔ ۔ ۔۔ والسلام
 

محسن حجازی

محفلین
سلمان تاثیر کا قتل میری دانست میں بالکل ناجائز قتل ہے۔ توہین رسالت کے قانون کی موجودگی میں اگر کسی کو شکایت ہوتو اسے عدالت کے پاس جانا چاہیے۔ جرم خواہ کس قدر بھی سنگین ہو، عشق کو دلیل بنا کر اس طرح کی لاقانونیت کی گنجائش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس طرح تو کوئی کسی کو بھی مار کر کہہ سکتا ہے کہ صاحب انہوں نے ایسی بد زبانی کی تھی سو مارنا لازم ہو گیا تھا۔

باقی ادھر ادھر کی کچھ یہ ہیں کہ جناب سلمان تاثیر نے گورنر کے عہدے پر برقرار رہنے کے لیے دوسال قبل دو ارب روپے کی ادائيگی کی تھی اس کا انکشاف جناب بابر اعوان نے اس وقت کیا تھا کیوں کہ آپ خود اس عہدے پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ نیز یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ سلمان تاثیر کی ایک بیٹی بھی زرداری صاحب کے نکاح میں ہیں۔ واللہ و اعلم باالصواب۔
 
محسن بخاری صاحب جو شخص بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یا ان سے منسلک کسی بھی معاملے میں زبان درازی کرے گا ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم سب کا فرض ہے کہ اس کو فی النار کریں۔ بعد میں جو ہوگا دیکھا جائے گا جیسا کہ اب ہے ملک عزیز کا 99 فیصد طبقہ ممتاز قادری کے حق میں ہے جیسا کہ پچھلے دنوں ممتاز قادری کے گھر کے سامنے پچیس ہزار بندوں کا اجتماع ہوا اور ان سب نے ممتاز قادری کے حق میں نعرے لگائے اور اس کے والد محترم کو مبارک باد دی۔
بہرحال ہر بندے کے ایمان کا ایک پیمانہ ہوتا ہے جب اس کے سامنے اس قسم کی گستاخی کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو پھر اس کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑتا ہے اور ایسے واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔
درحقیقت آپ ممتاز قادری کے اس اقدام کو دیکھیں تو اس کے پیچھے کچھ عوامل کارفرما ہیں جنہوں نے اس کو اس کام پر مجبور کیا سب سے پہلے تو واضح ہو کہ ممتاز قادری بریلوی مسلک کا بندہ تھا اور مخالف یعنی طالبان یا انتہا پسند طبقہ بریلوی مسلک کے بندوں کو مزاحا حلوہ خور کہتا ہے اور میرے کئی دوست جو کہ انتہا پسند ہیں وہ مجھے مزاقا یہی کہتے ہیں کہ چلو تمہارے حلوہ خور بھائی نے بھی کوئی بہادری کا کام کیا ہے۔
واضح ہو کہ ممتاز قادری راولپنڈی کا رہنے والا تھا اور جناب حنیف قریشی صاحب دامتم برکاتہ بھی راولپنڈی کے رہنے والے ہیں جب سلمان تاثیر ملعون نے دریدہ دہنی کی تو کسی محفل یا جلسہ میں ممتاز قادری نے بریلوی ہونے کی حیثیت سے شرکت کی ادھر حنیف قریشی دامتم برکاتہ نے کوئی ایسی بات یا کوئی ایسا واقعہ سنایا ہوگا جس کو سن کر ممتاز قادری کی رگ حمیت پھڑک اٹھی اور یہ تقریر اس کے شعور سے لاشعور میں منتقل ہوگئی اور آخر کار اس نے اس انتہائی اقدام کا ارتکاب کیا۔
جب سلمان تاثیر کو فی النار کیا گیا تو کسی پروگرام میں میزبان نے مفتی منیب الرحمان دامتم برکاتہ کو براہ راست کال کی تو انہوں نے یہ کہا کہ یہ بالکل درست ہوا ہے۔ اسی طرح بادشاہی مسجد کے امام اور گورنر ہاوس کے سرکاری خطیب نے بھی ان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
جب سلمان تاثیر کو فی النار کیا گیا تو کسی پروگرام میں میزبان نے مفتی منیب الرحمان دامتم برکاتہ کو براہ راست کال کی تو انہوں نے یہ کہا کہ یہ بالکل درست ہوا ہے۔ اسی طرح بادشاہی مسجد کے امام اور گورنر ہاوس کے سرکاری خطیب نے بھی ان کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا۔

محترم روحانی بابا صاحب السلام علیکم !
میرے بھائی معذرت کہ ساتھ ایک عرض کرنا چاہوں گا مفتی منیب الرحمان صاحب اہل سنت کا ایک بہت بڑا معتبر اور متفق علیہ نام ہے جو کہ دیگر مکاتب فکر میں بھی اپنے غیر متشددانہ رویہ کی وجہ سے معتبر گردانے جاتے ہیں لیکن آپ نے انکی طرف جو بیان منسوب کیا ہے وہ انتہائی متشددانہ اور غیر زمہ دارانہ ہے کہ جسکا ثبوت آپکے ذمہ ہے۔ جب سے سلمان تاثیر کا واقعہ ہوا ہے میں مخلتف ٹی وی چینلز کے حوالہ سے اسکو فالو کرتا رہا ہوں جبکہ میں نے کسی بھی چینل پر مفتی صاحب کی اس قسم کی غیر محتاط گفتگو نہیں سنی ۔۔۔ ہوسکتا ہے آپ ٹھیک کہہ رہے ہوں لیکن جو کچھ میں نے ٹی وی پر دیکھا اور سنا وہ اس سے مختلف تھا کیونکہ اسی موضوع پر پانچ جنوری کے کیپٹل ٹالک میں جب حامد میر نے مفتی صاحب سے اس واقعہ کے بارے میں سوال کیا تو انکا جواب درج زیل تھا۔۔

حامد میر :- مفتی صاحب آپ سلمان تاثیر کے قتل کی مذمت کرتے ہیں اور یہ سارا جو حادثہ ہے اس پر آپکا کیا تبصرہ ہے ؟؟؟؟

مفتی منیب الرحمان صاحب بعد از بسم اللہ :- یہ واقعہ افسوسناک ہے اور متاثرہ خاندان کہ ساتھ میں تعزیت کرتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جو ہمارے حکمران ہیں جو اس ملک کہ آئینی اور قانون عہدوں زمہ دار عہدوں پر فائز ہوتے ہیں انھے اپنے ملک کے عوام کہ دینی جذبات و احساسات کا ادراک ہونا چاہیے اسکا پاس رکھنا چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔الخ سارا بیان آپ درج زیل ویڈیو میں 2:05 سے شروع کرکے دیکھ اور سن سکتے ہیں ۔ ۔ اور آخری بات یہ ہے کہ ہمیں کسی بھی شخصیت کی طرف کسی بھی بیان کو منسوب کرنے سے پہلے خوب تحقیق کرلینی چاہیے ۔ ۔ ۔ والسلام

 

mfdarvesh

محفلین
21cwoap.jpg
 

عسکری

معطل
کالے قانون کو کالا کہنا اب اتنا بڑا جرم ہو گیا بھائی لوک۔ توہین رسالت اور حدود کے قانون کو ختم نہیں تو دوبارہ سے بنایا جائے اور خلقت کی جان کو کچھ سکون ملے ان نامی اور گمنامی دہشت گرد ملاؤں سےِ۔

ماؤ نے سہی کیا تھا مذھب زھر ہے ِ
 

شمشاد

لائبریرین
عبد اللہ توہین رسالت اور حدود کے قوانین تو اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے ہیں۔ اب تمہارے کہنے سے اللہ تعالٰی دوبارہ قرآن اتارنے سے تو رہا۔ کچھ سوچ سمجھ کر بولا کرو۔
 

عسکری

معطل
عبد اللہ توہین رسالت اور حدود کے قوانین تو اللہ تعالٰی کے بنائے ہوئے ہیں۔ اب تمہارے کہنے سے اللہ تعالٰی دوبارہ قرآن اتارنے سے تو رہا۔ کچھ سوچ سمجھ کر بولا کرو۔

سوري بهائی جی یہ قانون کم اور قتل کا لائسنس زیادہ ہیں معاشرہ اور ملک آخری سانسیس لے رہے ہیں اس مذھبیت کی قتل و غارت سے ِ ہم سے اچھے کمیونسٹ چینی جہاں خون مذھب کے نام پر گٹر کے پانی جتنا سستا نہیں۔ میں ذاتی طور پر اب اسلام سے بیزار ہوںِ
 

شمشاد

لائبریرین
میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ کسی پڑھے لکھے اور اچھے عالم سے فتویٰ لے لو۔ کوئی اسلام سے بیزار ہو یا مخلص، اللہ تعالٰی کی ذات اس کی محتاج نہیں ہے۔
 

عسکری

معطل
عالم ہیں ہی کہاں بھائی جی اب؟؟؟؟؟؟؟ مدرسے میں پلے بڑھے دہشت گرد ہیں جو ملک میں ہل چلا رہے ہیں بموں گولیوں سےِ۔ مجھے ویسے تعجب ہوتا ہے کہ معاشرہ اتنا سنگ دل اور دہشت پسند ہو سکتا ہے کہ قاتلوں کی حمایت میں جلوس نکالےِ؟ پاکستان اپنے انحطاط کی آخری حدوں کو پار کر چکا ہے زمانہ جاہلیت تو اچھا تھا اسے اب پتھر کے زمانے سے تعبیر کیا جا سکتا ہےِ۔ یقینا ایسے ملک میں جہاں بات بات پر گولیاں چلیں نہیں رہنا چاہیے ۔
 

سید ابرار

محفلین
عالم ہیں ہی کہاں بھائی جی اب؟؟؟؟؟؟؟ مدرسے میں پلے بڑھے دہشت گرد ہیں جو ملک میں ہل چلا رہے ہیں بموں گولیوں سےِ۔ مجھے ویسے تعجب ہوتا ہے کہ معاشرہ اتنا سنگ دل اور دہشت پسند ہو سکتا ہے کہ قاتلوں کی حمایت میں جلوس نکالےِ؟ پاکستان اپنے انحطاط کی آخری حدوں کو پار کر چکا ہے زمانہ جاہلیت تو اچھا تھا اسے اب پتھر کے زمانے سے تعبیر کیا جا سکتا ہےِ۔ یقینا ایسے ملک میں جہاں بات بات پر گولیاں چلیں نہیں رہنا چاہیے ۔

کراچی میں کون گولیاں چلارہے ہیں آج کل ؟ ملا یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید ابرار

محفلین
ایس جے اکبر ایڈیٹر ایشین ایج شمار انڈیا کے نامور صحافیوں میں ہوتا ہے ، ان کے ایک مضمون سے ایک دلچسپ اقتباس:

۔۔۔۔۔۔اب ایک سوال یہاں اٹھنا لازمی ہوجاتا ہے کہ آخر وہ کیا ہے جس کے سبب دو مساوی فعل کو الگ الگ حساب
سے جانا جاتا ہے ۔ ایک کے آپ اگر مرتکب ہوئے ہیں تو آپ کو مجرم کی فہرست میں ڈال دیا جائیگا اور دوسرے
کے مرتکب ہوئے ہیں تو آپ کو شوقین ہونے کے اعزاز سے نوازا جائے گا ۔ جی ہاں کچھ ایسا ہی ہے زمانے کا دستور۔
میں بایقیں تو نہیں کہ سکتا ہوں کہ یہ دستور روز اول سے ہی وجود میں ہے یا کہ یہ دور جدید کی انسانی ذہن کی تبدیلی کے سبب وجود میں
آیا ہے ۔ جہاں سلمان تاثیر کے قاتل کو قاتل کہا جارہا ہے اور صدام حسین کے قاتل کو امن کا پیامبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

dehelvi

محفلین
اس سیکشن میں لکھنے والے تمام احباب سے میری گزارش ہے کہ اب اس بحث کو ختم فرمائیں، کیونکہ جذبات کے آگے اعتدال کا دامن پھسل ہی جاتا ہے، نیز شرکاء محفل جو سب کے سب مجھے اپنے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں ان میں اس طرح کی اختلافی چپقلس میری اور شاید میرے جیسے دیگر احباب کے لئے سخت ذہنی تکلیف کا باعث ہے۔
امید ہے آپ اس عاجز کی درخواست کو درخور اعتناء سمجھیں گے۔

آپ تمام احباب سے ایک بار پھر اپنی درخواست پر غور کرنے کی استدعا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top