رشتے

ظفری

لائبریرین
معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات اور روابط کو رشتوں کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ رشتے مخلتف نوعیت کے ہوسکتے ہیں ۔ چونکہ رشتوں کی نوعیت مخلتف ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے رشتوں میں پختگی ، مضبوطی ، اور دیگر عوامل کے معیار میں تضاد کا بھی امکان موجود رہتا ہے ۔ ایک فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرے تک رشتوں کا ایک طویل جال پھیلا ہوا ہوتا ہے ۔ ہر رشتے کی طنابیں ، احساس کی شدت سے مزین ہوتی ہیں ۔ یہ احساس ، انسان کے اندر اس کی اپنی فطرت ، ذاتی خواہشات اور دلچسپی کا مرہونِ منت ہوتا ہے ۔ چونکہ کسی بھی رشتہ کے وجود کے لیئے ایک سے زائد فرد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیئے کوئی بھی رشتہ ، فریقین کی صورت میں ظہور پذیر ہوجاتا ہے ۔ جہاں مختلف فطرت ، سوچ ، نظریات ، رحجانات اور توقعات کارفرما ہوتیں ہیں ۔ چنانچہ احساس کی شدت جو کسی بھی رشتے کے وجود کی بنیاد ہوتی ہے ۔ اس میں اتار چڑھاؤ ، وقت اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ رونما ہوتا رہتا ہے ۔ رشتہ کسی بھی نوعیت کا ہو ۔ وہ احساس کی شدت کے گرد گھومتا ہے ۔ ہم اسی شدت کو خلوص ، محبت ، نفرت اور دیگر جذبات کے مخلتف پہلوؤں سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اور اسی احساس کی شدت میں کمی وبیشی ہمیں رشتوں میں درجات بنانے پر مجبور کرتی ہے ۔
رشتوں میں کامیابی اور ناکامیابی کا انحصار فریقین کے مابین امیدوں اور توقعات کے توازن پر ہوتا ہے ۔ محبت خلوص سے مشروط ہے اور خلوص احساس سے ۔ احساس کی نوعیت جیسی ہوگی ۔ یہ عوامل بھی اسی سطح پر اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے ۔ ہر رشتے میں احساس خلوص کو متحرک کرتا ہے اور خلوص محبت کی صورت میں ظہور پذیر ہوجاتا ہے ۔ چونکہ رشتوں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے لہذاٰ احساس کی شدت بھی قدرے مختلف ہوگی ۔ اسی شدت کے درجات پر رشتے کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ہے ۔ انسان میں احساس ، خلوص کی انتہا پر ہو تو احساس کی شدت بھی انتہائی درجے پر ہوگی جوکہ رشتوں کی مناسبت سے محبت کی کسی بھی صورت میں ظاہر ہوجائے گی ۔ ایسی صورت میں انسان ہمیشہ اُس رشتے کو مقدم رکھے گا جس سے احساس اس درجہ منسلک ہوگا ۔ اگر یہ معاملہ کسی فریقین کے مابین موجود ہو تو رشتے میں ہم آہنگی پیدا ہوجائے گی اور رشتوں میں کامیابی کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے ۔ کیونکہ یہاں امیدوں اور توقعات کے درمیان ایسا توازن پیدا ہوجاتا ہے ، جو کبھی بھی اپنے دائرہِ اختیار سے باہر سفر اختیار نہیں کرتے ۔ اور یہی دائرہ رشتوں کو ایک دوسرے کی اہمیت کا احساس دلا کر انہیں مضبوطی سے ایک توازن میں قائم رکھتا ہے ۔ توازن کی اس شرح پر رشتہ ہمیشہ پائیدار اور دیرپا ہوگا ۔ بصورتِ دیگر اس میں دڑاریں پڑنے جانے کا احتمال رہنے کا امکان موجودرہے گا ۔
احساس ، انسان میں قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ایک ایسا عنصر ہے ۔ جو کہ انسان کو نہ صرف اس کے وجود کا جواز فراہم کرتا ہے بلکہ اس کے وجود سے منسلک ان تمام چیزوں کے تعلقات کی اہمیت کے ادراک کا مشاہدہ بھی کرواتا ہے ، جو انسان کی زندگی سے وابستہ ہوتیں ہیں ۔ میری نظر میں دراصل احساس ” زندگی ” کا نام ہے ۔ جس کو ہم “روح “ سے گردانتے ہیں ۔ ہرانسان کی زندگی فطرت کے مختلف اصولوں پر مرتب کی گئی ہے ۔ لہذاٰ جب انسان خود کو ان اصولوں پر پرکھتا ہے تو وہ خود کو دوسروں سے بلکل مخلتف پاتا ہے ۔ اور اسی اختلاف کی بناء پر وہ تعلقات اور رشتوں میں بھی امیتاز رکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ جب انسان فطرت کے بنیادی اصولوں کے مطابق ، دوسرے انسان سے مخلتف ہے تو اس قاعدے کے مطابق اس میں دوسرے سے روابط رکھنے کا معیار کا پیمانہ بھی مخلتف ہوگا ۔ احساس چونکہ زندگی کا نام ہے ۔ چنانچہ جب زندگی میں کسی بھی رشتے کے تعلق کا فطری سفر عمل پذیر ہوگا تو اس میں سب سے پہلے امیدیں اور توقعات شامل ہونگیں ۔ اب چونکہ احساس کی نوعیت مخلتف ہے تو اس لیئے انسان پہلےاپنی امیدوں اور توقعات کو اسی نوعیت کے مطابق اہمیت دیگا۔ تاکہ احساس کو آسودگی میسر آسکے۔ اسی مقام پر خلوص ، احساس کی Intention کی وجہ سے پیدا ہوجائےگا ۔ اور یہی Intention رشتوں میں اپنی فطرت کے مطابق ، ترجیحات کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے درجات بناتی ہوئی نظر آئے گی ۔ اس وجہ سے رشتوں میں تفریق پیدا ہوجاتی ہے ۔
چونکہ رشتوں کے آغاز کے لیئے احساس کو سب سے اپنے وجود کا ثبوت فراہم کرنا پڑتا ہے ۔ لہذا ہر وہ شے میں جو اس کی زندگی سے منسلک ہونگیں ، اس میں اپنے وجود سے تعلق کی بنیاد تلاش کرنےکی کوشش کرے گا ۔ ہر تعلق خلوص اور Intention سے وابستہ ہوتا ہے ۔ مگر ہر تعلق میں خلوص یکساں نہیں رہ سکتا ۔ کیونکہ Intention ہر تعلق میں مختلف ہوتی ہے ، سو Intention ، محبت یا نفرت کی کسی بھی صورت میں نمودار ہوجائے گی ۔ یعنی احساس نے اپنے وجود کا جواز تعلقات میں ڈھونڈا ، تعلقات نے جذبات پیدا کیئے ( جو صریحاً انسان کی اپنی ذاتی فطرت کے مطابق خلوص اور Intention کے محتاج ہوتے ہیں ) ۔ جذبات نے شدت پیدا کی اور شدت نے رویوں کو روشناس کروایا ۔ رویوں نے رشتوں کے درجات بنائے ۔ اور کوئی بھی درجہ اپنی شدت کی شرح کی بنیاد پر محبت یا نفرت کی صورت میں سامنے آگیا ۔
احساس ، خلوص ( Intention ) اور محبت ایک ایسی عمارت بناتے ہیں ۔ جسے ہم کسی بھی رشتے سے تعبیر کرتے ہیں ۔ فرض کریں کہ آپ ایک آرٹیکٹ ہیں ۔ آپ نے سوچا کہ ایک عمارت بنائی جائے ۔ یہ احساس ہے ۔ آپ نے پوری تندہی ، لگن ، محنت سے اس ” احساس ” پر کام کرنا شروع کیا کہ کہاں کیسے چوکھٹیں لگائیں جائیں ۔ کہاں کیسا در ہوگا ۔ درودیوار پر روغن کیسا ہوگا ۔ یہ Intention یا خلوص ہے ۔ جب عمارت بن کر سامنے آگئی تو یہ وہ “ رشتہ “ ہے ۔ جس کی بقاء کا دارومداراُس محبت پر ہے ۔ جو Intention یا خلوص سے وجود میں آئی یا یوں کہہ لیں کہ احساس اور خلوص کے باہمی اشتراک سے وجود میں آئی ۔ احساس اور خلوص کی شدت محبت کی معراج متعین کرے گی ۔ جس پر کسی بھی رشتے کی پائیداری کا انحصار ہوگا۔
 

ظفری

لائبریرین
شکریہ سعود بھیا ۔۔۔۔ ویسے آپ کو تو پتا ہے کہ میں اس کوچے کا باشندہ نہیں ہوں ۔ ;)
بس کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنا پڑتا ہے ۔ :)
 
ہا ہا ہا ہا آپ یوں ہی ذائقے بدلتے رہیئے ورنہ ہم تو منھ پر چار حرف بھیج چکے تھے کہ کبھی منھ کا تصور ذہن میں ابھرے تو "منھ مارنا"، "منھ کالا کرنا"، "منھ لال ہونا" اور ایسے کئی منفی فقرے ذہن کو پراگندہ کرکے منھ دکھانے لائق نہیں چھوڑتے تھے۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
سعود بھیا ۔۔۔ چلو اچھا ہوا کہ یہ پرانی باتیں ہوئیں ۔ تازہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ۔ ؟ ;)
 

جیہ

لائبریرین
واہ جی واہ۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ایک کمی محسوس ہوئی بہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شروع میں لکھنا تھا کہ یہ ایک سنجیدہ مضمون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آخر تک شگفتہ مضمون سمجھ کر پڑھتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔;)
 

ظفری

لائبریرین
واہ جی واہ۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ایک کمی محسوس ہوئی بہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شروع میں لکھنا تھا کہ یہ ایک سنجیدہ مضمون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آخر تک شگفتہ مضمون سمجھ کر پڑھتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔;)
اجی شکریہ ۔۔۔۔ کہ آپ کو یہ رنگ پسند آیا ۔
ویسے میں نے کہیں لکھا تھا کہ “ ہنسنا منع ہے “ ۔۔۔۔ ;)
 
Top