کِیا کرتی ہوں تنہائی میں اشکوں سے وضو اکثر - صدف مرزا

کاشفی

محفلین
غزل
(صدف مرزا)

کِیا کرتی ہوں تنہائی میں اشکوں سے وضو اکثر
تصور میں رہا کرتی ہے، تجھ سے گفتگو اکثر

تری آنکھوں میں خود کو ڈھونڈتی ہوں اس لئے شاید
کہ اپنی ہی رہا کرتی ہے مجھ کو جستجو اکثر

تکا کرتی ہوں تنہا بیٹھ کر پہروں جو پھولوں کو
تمہاری ان میں ہوتی ہے شباہت ہو بہو اکثر

وہ رازِ دل جسے پھولوں کی صورت دل میں رکھا تھا
اُسی کی تو مہک پھیلی ہے جاناں! چار سو اکثر

وہ ممنوعہ شجر ہے اس لئے شاید مرے دل میں
رہا کرتی ہے چھو لینے کی اُس کو آرزو اکثر

صدف! دینِ وفا کا دم تو سب بھرتے ہیں لیکن کیوں
اسی کے نام پر گلیوں میں بہتا ہے لہو اکثر؟
 
Top