تقطیع اور بحر کا نام درکار ہے

oodas_adami

محفلین
درست تقطیع کر رہے ہیں، مجھے کوئی غلطی محسوس نہیں ہوئی۔ یعنی سرخ رنگ میں تو کم از کم۔



مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
آ ئے ہُ کل ار آ ج ہِ کہ تے ہُ کِ جا ؤ
ما نا کِ ہ می شہ ن ہِ اچ چا کُ ئ دن ار


میرا سوال یہ ہے کہ مفاعیل کے ‘ م ‘ کے وزن پر ‘ کَل ‘ کو کیسے فٹ کروں ، میں اس کیا غلطی کر رہا ہوں یا کیا بات ہے جو میں سمجھ نہیں پا رہا

مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
گز ری نَ ب ہر حا ل یِ مد دت خش و نا خش
کر نا تَ ج وا مر گ گ زا را کُ ئ دن ار

اور اس شعر میں اگر میں ‘ خوش و ناخوش ‘ کو ‘ خش و نا خش ‘ تقطیع کرتا ہوں تو ‘ فعولن ‘ کی حد تک تو ٹھیک ہوا مگر ‘ مفاعیل کے ‘ ل ‘ کے وزن کو ‘ خش ‘ پر کیسے فٹ کروں
اور اگر میں ‘خوش و ناخوش‘ کو ‘ خ شو نا خش ‘ تقطیع کروں تو یہاں مفاعیل تو فٹ ہو گیا مگر ‘ شو نا خش ‘ بمطابق فعولن فٹ نہیں ہوتا اور میں اس کو بطور ‘ مفاعیل یا فعولان ‘ بھی فٹ نہیں کر پایا
پلیز ان نقاط کو ذرا واضع کر دیں کیونکہ میں سمجھ نہیں پا رہا




 

محمد وارث

لائبریرین
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟

آئے ہُ - مفعول
کَ لرآج - مفاعیل (اور کی واؤ گرائی اور اسکے بعد کل اور ار میں الف کا وصال کرایا اور کَ لر بنا کر وزن پورا کیا)
الخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش

گزری نہ - مفعول
بہرحال - مفاعیل
یہ مد دت خُ - مفاعیل
شُ نا خش - فعولن
(واؤ اضافت کا وزن شمار کرنا شاعر کی صوابدید ہے چاہے کرے چاہے نہ کرے، یہاں شاعر نے خوش و ناخوش کے درمیان جو واؤ اضافت ہے اس کا وزن شمار نہیں کیا یا یوں کہیے کہ واؤ اضافت کی وجہ سے خش و جو خشو پڑھا جاتا ہے اس کو خُ شُ بنا کر وزن پورا کیا ہے اور واؤ چھوڑ دی ہے اور جیسا کہ کہا یہ شاعر کی صوابدید ہے اصول نہیں ہے، اگر شاعر چاہے تو وزن کی ضرورت کے تحت خوش و ناخوش کو اپنی صوابدید پر مندرجہ ذیل اوزان پر باندھ سکتا ہے

خُ شُ نا خش - فعلاتن
خ شو نا خش - مفاعیلن
خش و نا خش - فاعلاتن
خش و (او) نا خش - فعلن فعلن
خش نا خش - مفعولن

امید ہے بات واضح ہو گئی ہوگی!
 

oodas_adami

محفلین
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟

آئے ہُ - مفعول
کَ لرآج - مفاعیل (اور کی واؤ گرائی اور اسکے بعد کل اور ار میں الف کا وصال کرایا اور کَ لر بنا کر وزن پورا کیا)
الخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش

گزری نہ - مفعول
بہرحال - مفاعیل
یہ مد دت خُ - مفاعیل
شُ نا خش - فعولن
(واؤ اضافت کا وزن شمار کرنا شاعر کی صوابدید ہے چاہے کرے چاہے نہ کرے، یہاں شاعر نے خوش و ناخوش کے درمیان جو واؤ اضافت ہے اس کا وزن شمار نہیں کیا یا یوں کہیے کہ واؤ اضافت کی وجہ سے خش و جو خشو پڑھا جاتا ہے اس کو خُ شُ بنا کر وزن پورا کیا ہے اور واؤ چھوڑ دی ہے اور جیسا کہ کہا یہ شاعر کی صوابدید ہے اصول نہیں ہے، اگر شاعر چاہے تو وزن کی ضرورت کے تحت خوش و ناخوش کو اپنی صوابدید پر مندرجہ ذیل اوزان پر باندھ سکتا ہے

خُ شُ نا خش - فعلاتن
خ شو نا خش - مفاعیلن
خش و نا خش - فاعلاتن
خش و (او) نا خش - فعلن فعلن
خش نا خش - مفعولن

امید ہے بات واضح ہو گئی ہوگی!

بہت بہت شکریہ بھائی
بہت اچھا سمجھایا ہے آپ نے
پھر سے جہاں کسی بات پہ پھنسا آپ بھائیوں کو زحمت دوں گا
 

oodas_adami

محفلین
فورم پہ ہی ایک دھاگے میں فراز صاحب کی ایک غزل " سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں "کے بارے میں دیکھا تو اس کا وزن " مَفَاعِلُن فَعِلاتُن مَفَاعِلُن فَعلُن/فعلن/فعلان/فعلان " بتایا گیا اس کی تقطیع کرنے کی کوشش کی کافی سارے شعروں کی کامیاب تقطیع کر لی مگر کچھ اشعار میں تھوڑی مشکل پیش آ رہی ہے وہ درج ذیل ہیں اگر کوئی بھائی مدد کر دے تو شکریہ

سنا ہے در د کی گاہک ہے چشمِ نا ز اس کی
مفاعلن فعلاتن مفاعلن ?????
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن

--------------------------------
سنا ہےجب سے حمائل ہے اس کی گردن میں
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
مفاعلن ???? ???? فعلن
---------------------------------------------
بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا ---- کیا یہاں الف وصل کا اصول درست استعمال کیا گیا ہے
مفاعل ن ???? مفاعلن فعلن
سو راہ روانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
----------------------------------------------
اب اس کے شہر میں ‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں -- کیا یہاں الف وصل کا اصول درست استعمال کیا گیا ہے
مفاعلن ???? ???? ????
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌‌
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن

اس پوسٹ میں جس جس جگہ پہ شعر کے یا افاعیل کے الفاظ کو سرخ رنگ کیا گیا ہے ان کی تقطیع کیسے ہو گی
 

الف عین

لائبریرین
سنا ہے در د کی گاہک ہے چشمِ نا ز اس کی
مفاعلن فعلاتن مفاعلن ?????
ناز اس کی‘ میں الف وصل ہے، ’نازُس کی‘ تقطیع ہو گی۔

مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
میں محل ’گہر‘ کا ہے، یہ کتابت÷کمپوزنگ کی غلطی ہے۔
مزاج او۔۔۔ رہی لعلُ۔۔۔ گہر کدیک۔۔۔ تہیں

بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
بس اک نگا۔۔۔ ہ سِ لٹتا۔۔۔ ہِ قافلہ۔۔۔ دل کا

اب اس کے شہر میں ‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
ابُس کے شہ۔۔۔۔ ر مِ ٹھہرے۔۔۔ کِ کوچ کر۔۔ جائیں
یہاں الف وصل کا کیا مسئلہ پیش ہے جو درست نہ ہو؟
 
Top