غزل۔ شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اَٹ گئے۔ تنویر سپرا

فرحت کیانی

لائبریرین
شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اَٹ گئے
روشن دماغ لوگ بھی فرقوں میں بٹ گئے

اظہار کا دباؤ بڑا ہی شدید تھا
الفاظ روکتے ہی مرے ہونٹ پھٹ گئے

بارش کو دشمنی تھی فقط میری ذات سے
جونہی مرا مکان گرا ، اَبر چَھٹ گئے

دھرتی پہ اُگ رہی ہیں فلک بوس چمنیاں
جن سے فضائیں عطر تھیں وہ پیڑ کٹ گئے

سپرا پڑوس میں نئی تعمیر کیا ہوئی
میرے بدن کے رابطے سورج سے کٹ گئے


۔۔۔ تنویر سپرا
 
واہ بہت عمدہ غزل ہے

شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اَٹ گئے
روشن دماغ لوگ بھی فرقوں میں بٹ گئے

اظہار کا دباؤ بڑا ہی شدید تھا
الفاظ روکتے ہی مرے ہونٹ پھٹ گئے

بارش کو دشمنی تھی فقط میری ذات سے
جونہی مرا مکان گرا ، اَبر چَھٹ گئے

واہ بہت اچھا انتخاب ہے۔ شکریہ
 

فاتح

لائبریرین
اظہار کا دباؤ بڑا ہی شدید تھا
الفاظ روکتے ہی مرے ہونٹ پھٹ گئے
یہ شعر تو برسوں سے میرے پسندیدہ اشعار میں شامل ہے۔ ارسال فرمانے کا بے حد شکریہ!
 
Top