تقطیع اور بحر کا نام درکار ہے

الف عین

لائبریرین
ا.کوئی کی تقطیع درست ہے، یہاں مکمل کوئی بر وزن فعلن (یا یہاں عیلن( آئے گا.
2. جھنجھلایا‘ میں نون کی آواز غنہ کی ہے، اس لئے ’جج لا یا‘ تقطیع ہو گا. اس میں غلطی کی ہے.
3. کھینچ کو درست ’کھیچ‘ تقطئع کیا گیا ہے.
4. ’پاؤں‘ کو بر وزن ’فعل‘ کیا گیا ہے، اب اس کو ’پان‘ کہو یا ’پاؤ‘. لیکن پاء غلط ہے کہ اس طرح دو حروف ساقط ہو جاتے ہیں،
5. باقی درست ہے، لیکن ’سختیِ‘ میں ہمزہ کی حرکت ہے، اسے چاہے زیر کہا جائے یا "ءِ‘
 

oodas_adami

محفلین
نیرہ نور کی آواز میں ایک غزل سنی اور اس کے بعد اس کے درج ذیل تقطیع کی ہے کس حد تک درست ہے رائے کا انتظار رہے گا

مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
ہر چن د س ہا را ہَ ت رے پا ر کَ دل کو
رہ تا ہَ م گر ای ک ع جب خو ف سَ دل کو
وہ خا ب کَ دی کا نَ ک بی لے اُ ڑَ نی دی
وہ در د کَ اٹ ٹا نَ ک بی کا گ ی دل کو
یا سا س کَ لی نا بِ گ زر جا نَ ہَ جی سے
یا مع ر ک ہء عش ق بِ اک کی ل تَ دل کو
وہ آ ء ی تو حی رَ وُ جا ء تُ پ ری شا
یا رب ک ئ سم جا ے یِ کا ہُ گ یَ دل کو


1-- کیا یہ کوئی باقاعدہ بحر موجود ہے
2-- کیا ‘ نیندیں ‘ کو ‘ نی دی ‘ درست لکھا گیا ہے
3-- کیا سانس کے ‘ ن ‘ کی ہمیشہ کوئی آواز نہیں ہوتی
4-- کیا معرکہء عشق کو درست تقطیع کیا گیا ہے
5-- اور آئیں اور جائیں پر بھی روشنی ڈالی جائے کیا ‘ آئیں اور جائیں بروزن فعلن ‘ ہوں گے یا ان کو ‘ فع ل ‘ بھی کیا جا سکتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اصل الفاظ تم نے لکھے نہیں اس لئے کہہ نہیں سکتا کہ جو تقطیع میں مختصر الفاظ تم نے لکھے ہیں، وہ میں کس حد تک درست سمجھا ہوں.
1.بحر کے نام کے لئے وارث (یا آسی بھائی اگر دیکھ رہے ہوں تو ان سے درخواست ہے
2. 3. اور 4. میں تمہارا مشاہدہ بالکل درست ہے.
5. آئیں اور جائیں دونوں طرح نظم کیا جا سکتا ہے، بطور فعلن بھی اور بطور فعل بھی.
 
جناب ’اداس آدمی‘ صاحب۔ تقطیع سے پہلے اصل عبارت لکھی ہوتی تو بات کرنی آسان ہو جاتی۔ ایسے مقاصد کے لئے میں ذیل کی ترتیب تجویز کرتا ہوں۔
پہلی سطر میں اصل عبارت، درست املاء کے ساتھ
دوسری سطر میں تقطیعی عبارت
تیسری سطر میں ماخوذ اوزان کی تقطیعی عبارت
چوتھی سطر میں مکمل اوزان کی املاء
پانچویں‌سطر میں بحر کا نام، شماریہ اور دیگر ضروری مباحث

اصل متن دستیاب نہ ہو تو یہ جاننا مشکل ہو سکتا ہے کہ تقطیع نگار نے درست تقطیع کی ہے یا اس سے کہاں کیا فراگزاشت ہوئی ہے۔ مزید تفصیل کے لئے ’فاعلات‘ کا دسواں باب ملاحظہ کیجئے۔

فقط
محمد یعقوب آسی
 
کسی مصرعے کے آخر میں ایک ہجائے کوتاہ کی کمی بیشی کی جا سکتی ہے اور اس سے ذاتی بحر میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ مزید براں بعض بحور ایسی بھی ہیں جن میں مصرع کے اندر بھی ایک ہجائے کوتاہ کی کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ اس پر تفصیلی بحث ’فاعلات‘ کے آٹھویں باب ’’ذاتی بحر اور توازن‘‘ میں ملاحظہ کیجئے۔
 

فاتح

لائبریرین
بحر: ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف

ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو
ہر چند ۔ سہارا ہَ ۔ ترے پار ۔ کَ دل کو
مفعول ۔ مفاعیل ۔ مفاعیل ۔ فعولن

رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
رہتا ہَ ۔ مگر ایک ۔ عجب خوف ۔ سَ دل کو
مفعول ۔ مفاعیل ۔ مفاعیل ۔ فعولن
 

oodas_adami

محفلین
اصل الفاظ تم نے لکھے نہیں اس لئے کہہ نہیں سکتا کہ جو تقطیع میں مختصر الفاظ تم نے لکھے ہیں، وہ میں کس حد تک درست سمجھا ہوں.
1.بحر کے نام کے لئے وارث (یا آسی بھائی اگر دیکھ رہے ہوں تو ان سے درخواست ہے
2. 3. اور 4. میں تمہارا مشاہدہ بالکل درست ہے.
5. آئیں اور جائیں دونوں طرح نظم کیا جا سکتا ہے، بطور فعلن بھی اور بطور فعل بھی.

سوری غلطی ہو گئی آئندہ خیال رکھوں گا اصل متن یہ ہے


ہر چند سہارا ہے ترے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو
وہ خواب کہ دیکھا نہ کبھی لے اُڑا نیندیں
وہ درد کہ اٹھا نہ کبھی کھا گیا دل کو
یا سانس کا لینا بھی گزر جانا ہے جی سے
یا معرکہء عشق بِھی اک کھیل تَھا دل کو
وہ آئیں تو حیرَاں وُہ جائیں تُو پریشاں
یارب کوئی سمجھائے یہ کیا ہُو گیا دل کو

 

oodas_adami

محفلین
جیسا کہ فاتح صاحب نے لکھا، یہ بحرِ خفیف ہے، اور اسکے ارکان 'فاعلاتن مفاعلن فعلن' ہیں لیکن اس میں دیگر اوزان بھی آ سکتے ہیں، اس بحر میں کل آٹھ اوزان جمع ہو سکتے ہیں۔

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

د ۔۔ لِ ۔۔ نا ۔۔ دا / تُ ۔۔ جے ۔۔ ہُ ۔۔ وا / کا ۔۔ ہے
ف ۔ ع ۔۔ لا۔۔ تن / م ۔۔ فا ۔۔ ع ۔۔ لن / فع - لن (نوٹ کریں کہ پہلا رکن فاعلاتن کی جگہ فعلاتن آیا ہے)
1 ۔ 1 ۔۔ 2 ۔۔ 2 / 1 ۔۔ 2 ۔۔ 1۔۔ 2 / 2 ۔۔ 2

آ ۔۔ خ ۔۔ رس ۔۔ در / د ۔۔ کی ۔۔ دَ ۔۔ وا / کا ۔۔ ہے (آخر اس میں 'اس' کا الف ساقط ہوا ہے)
فا ۔ ع ۔ لا ۔۔ تن / م ۔۔ فا ۔۔ ع ۔۔ لن / فع ۔۔ لن
2 ۔ 1 ۔ 2 ۔۔ 2 / 1 ۔۔ 2 ۔۔ 1 ۔۔ 2 / 2 ۔ 2


اور اس شعر کی تقطیع آسی صاحب نے یوں کی ہے

faelaataasi.jpg



یہ کیا ماجرا ہے کیا اس پر ماہرین روشنی ڈالیں گے

اور ‘ فاعلن فاعلن مفاعیلن ‘ بحر کا کیا نام ہے
اور ‘ فعلت فاعلن مفاعیلن ‘ بحر کا کیا نام ہے اور کیا پوری غزل اس بحر میں کہی جا سکتی ہے
 
میں نے ڈاون لوڈ بھی کی، اور چلی بھی ہے۔ کچھ اور دوستوں نے بھی اس کو کامیابی سے اوپن کیا ہے۔
آپ ڈاون لوڈ کر کے اس کو ان زپ کریں، چلنی تو چاہئے۔
 
جیسا وارث صاحب نے لکھا:
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

د ۔۔ لِ ۔۔ نا ۔۔ دا / تُ ۔۔ جے ۔۔ ہُ ۔۔ وا / کا ۔۔ ہے
ف ۔ ع ۔۔ لا۔۔ تن / م ۔۔ فا ۔۔ ع ۔۔ لن / فع - لن (نوٹ کریں کہ پہلا رکن فاعلاتن کی جگہ فعلاتن آیا ہے)

صرف پہلے رکن میں فاعلاتن کے مقابل فعلاتن آ سکتا ہے، میں غالب کے اسی شعر کو سند تسلیم کرتا ہوں۔ مثالیں اور بھی دستیاب ہیں۔ جو تقطیع میں نے کی ہے ’’فاعلن فاعلن مفاعیلن‘‘ اس کی خطی صورت بعینہ وہی ہے، خطی تشکیل کر لیجے یا وارث صاحب کا نظام علامات استعمال میں لائیے اجزاءکی صورت مماثل بنتی ہے۔ ارکان بنانے کا معاملہ البتہ توجہ طلب ہے۔ اپنی تفہیم کے لئے آپ اس کو ’’فاعلن فاعلات فاعلتن‘‘ قرار دے لیجئے اور پہلے رکن فاعلن کے مقابل فعلت لے آئیے۔ ایسا کرنے سے ایک نکتہ قدرے آسان ہو جاتا ہے کہ آخری رکن فاعلتن کے مقابل مفعولن لایا جا سکتا ہے۔
اب رہا ’’فعلت فاعلات فاعلتن‘‘ میں آپ پوری غزل کیا دو غزلے سہ غزلے چہار غزلے کہئے، یہ تو آپ کی استعداد پر ہے۔ جناب اکرام مجید نے خالص عربی بحور میں پنجابی شاعری کی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ کیا ماجرا ہے کیا اس پر ماہرین روشنی ڈالیں گے

اور ‘ فاعلن فاعلن مفاعیلن ‘ بحر کا کیا نام ہے
اور ‘ فعلت فاعلن مفاعیلن ‘ بحر کا کیا نام ہے اور کیا پوری غزل اس بحر میں کہی جا سکتی ہے

یہ سب ایک ہی بحر ہے، بحرِ خفیف۔

اگر آپ تھوڑا سا تردد کریں تو نوٹ کریں گے کہ

فاعلاتن مفاعلن فعلن اور
فاعلن فاعلن مفاعیلن

دراصل ایک ہی وزن ہے

اور اسی طرح

فعلاتن مفاعلن فعلن اور
فعلت فاعلن مفاعیلن

ایک ہی وزن ہے اور یہ بھی بحرِ خفیف کا وزن ہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ صاحبِ بحر الفصاحت مولوی نجم الدین رامپوری اور دیگر ماہرین کے رائے جو ہر پہلا وزن حقیقی تقطیع ہے اور دوسرا غیر حقیقی، لیکن یہ صرف تقطیع کا فرق ہے، اس سے شعر کے وزن میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
 

oodas_adami

محفلین
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

ان اشعار کی تقطیع میں نے دو طرح سے کی ہے
1--- مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
یعنی سارے مصرعے ایک ہی بحر میں

مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
لا زم تَ کِ دی کو م رَ رس تہ کُ ئ دِن ار
تن ہا گ ء کو اب ر ہُ تن ہا کُ ئ دن ار
مٹ جا ء گَ سَر گر ت رَ پت تر نَ گ سے گا
ہو در پَ ت رے نا ص یِ فر سا کُ ئ دن ار

2--- مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل/فعولن

مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل م فا عی ل
لا زم تَ کِ دی کو م رَ رس تہ کُ ئ دِن او ر
تن ہا گ ء کو اب ر ہُ تن ہا کُ ئ دن او ر
مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
مٹ جا ء گَ سَر گر ت رَ پت تر نَ گ سے گا
مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل م فا عی ل
ہو در پَ ت رے نا ص یِ فر سا کُ ئ دن او ر

بحر کا نام کیا ہے اور کیا آخری رکن ‘ مفاعیل ‘ کو ‘ فعولن ‘ کیا جا سکتا ہے
 

فاتح

لائبریرین
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

ان اشعار کی تقطیع میں نے دو طرح سے کی ہے
1--- مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
یعنی سارے مصرعے ایک ہی بحر میں

مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
لا زم تَ کِ دی کو م رَ رس تہ کُ ئ دِن ار
تن ہا گ ء کو اب ر ہُ تن ہا کُ ئ دن ار
مٹ جا ء گَ سَر گر ت رَ پت تر نَ گ سے گا
ہو در پَ ت رے نا ص یِ فر سا کُ ئ دن ار

2--- مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل/فعولن

مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل م فا عی ل
لا زم تَ کِ دی کو م رَ رس تہ کُ ئ دِن او ر
تن ہا گ ء کو اب ر ہُ تن ہا کُ ئ دن او ر
مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
مٹ جا ء گَ سَر گر ت رَ پت تر نَ گ سے گا
مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل م فا عی ل
ہو در پَ ت رے نا ص یِ فر سا کُ ئ دن او ر

بحر کا نام کیا ہے اور کیا آخری رکن ‘ مفاعیل ‘ کو ‘ فعولن ‘ کیا جا سکتا ہے

افاعیل: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن / فعولان
بحر: ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف / مقصور
آخری رکن کو محذوف (فعولن) اور مقصور (فعولان یا مفاعیل) ہر دو طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔

وجہ تسمیہ
ہزج: بحر کا نام
مثمن: دونوں مصرعوں میں کل ملا کر آٹھ ارکان ہیں
اخرب: بنیادی رکن "مفاعیلن" پر خرم اور کف کا مرکب زحاف "خرب" استعمال کر کے اخرب فرع "مفعول" حاصل ہوئی۔
مکفوف: بنیادی رکن "مفاعیلن" پر زحاف "کف" استعمال کر کے مفاعیلن کا ساتواں حرف ساقط ہوا اور یوں مکفوف فرع "مفاعیل" حاصل ہوئی۔
محذوف: بنیادی رکن "مفاعیلن" پر زحاف "حذف" استعمال کر کے مفاعیلن کا آخری سببِ خفیف (یعنی آخری دو حروف) ساقط ہوئے اور یوں محذوف فرع "فعولن" حاصل ہوئی۔
مقصور: بنیادی رکن "مفاعیلن" پر زحاف "قصر" استعمال کر کے مفاعیلن کے آخری سببِ خفیف کا حرفِ ساکن ساقط اور ما قبل ساکن ہوا اور یوں مقصور فرع "مفاعیل" یا "فعولان" حاصل ہوئی۔
 

oodas_adami

محفلین
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور

تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور

تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور

مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
اس غزل کے پہلے دو اشعار کی تقطیع میں نے ایک گزشتہ پوسٹ میں کی تھی آج باقی غزل کے ساتھ حاضر ہوں بتا دیں میں نے تقطیع کس حد تک درست کی ہے



مف عو ل م فا عی ل م فا عی ل ف عو لن
آ ئے ہُ کل ار آ ج ہِ کہ تے ہُ کِ جا ؤ
ما نا کِ ہ می شہ ن ہِ اچ چا کُ ئ دن ار
جا تے ہُ ء کہ تے ہُ ’ ق یا مت کُ م لی گے
کا خو ب ق یا مت کَ ہُ گو یا کُ ئ دن ار
ہا اے ف ل کے پی ر ج وا تا ا بِ عا رف
کا تی رَ ب گڑ تا جُ نَ مر تا کُ ئ دن ار
تم ما ہِ ش بے چا ر د ہم تے م رِ گر کے
پر کو نَ ر ہا گر کَ وُ نق شا کُ ئ دن ار
تم کو ن سِ ای سے تِ ک رے دا د س تد کے
کر تا م ل کُل مو ت ت قا ضا کُ ئ دن ار
مج سے ت مِ نف رت س ہِ نی یر سِ ل ڑا ئی
بچ چو کَ بِ دی کا نَ ت ما شا کُ ئ دن ار
گز ری نَ ب ہر حا ل یِ مد دت خش و نا خش
کر نا تَ ج وا مر گ گ زا را کُ ئ دن ار
نا دا ہُ جُ کہ تے ہُ کِ کو جی تَ ہِ غا لب
قس مت مِ ہَ مر نے کِ ت من نا کُ ئ دن ار

جو حروف میں نے سرخ کیے ہیں ان میں ، میں کیا غلطی کر رہا ہوں
یا اس کے علاوہ کوئی غلطی ہو تو بتا دیں
اور کیا اس غزل کی تقطیع ‘ فعلن فعلاتن فعلاتن فعلاتن ‘ ایسے بھی کی جاسکتی ہے
آپ کا شکریہ
 
Top