ڈاکٹر طاہر القادری

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
از باذوق:
اعمال کا دارومدار نیت پر ہے:
اگرچہ یہ بات سو فیصد درست ہے ، تاہم اس کا مطلب وہ نہیں جو یہاں باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔
بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں نیت کچھ بھی ہو ، ہمیشہ ظاہر کو ہی دیکھا جاتا ہے۔ مثلا ً طلاق دینے والے کی نیت چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ حتیٰ کہ اگر اس کی نیت طلاق دینے کی نہ بھی ہو، صرف ہنسی مذاق کے طور پر ہی وہ طلاق کے الفاظ کہہ دے تو طلاق ہو جاتی ہے۔
ثابت ہوا کہ "انما الاعمال بالنیات" طلاق کے مسئلے میں لاگو نہیں ہے۔

مجھ پر جذباتی ہو کر غلط بات کا الزام لگانے کی بجائے آپ کو دلیل سے ہی بات کرنی چاہیے تھی۔
یہاں بات "سارے" یا "بعض" افعال کی نہیں ہے، بلکہ اسکی ہے کہ آپ جو حضرت عمر یا طلاق کے اعمال کی بات کر رہے ہیں تو وہ سب "معاملات" کے تحت آتے ہیں اور انکا "ایمان" "عقیدے" یا عبادت یا تعظیم کے افعال کی نیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ہمارا موضوع بالکل صاف صاف یہ تھا کہ مسلمان کو اولیاء اللہ اور شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم ہے اور ایسے تعظیمی احکامات بجا لاتے وقت مسلمان کی نیت تعظیم کی ہوتی ہے نہ کہ عبادت کی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ اور سینکڑوں صحابہ سے ثابت ہے کہ وہ رسول اللہ ص کے تبرکات سے نفع و شفع طلب کر رہے ہوتے تھے، اور یہ عبادت اس لیے نہیں تھی کیونکہ انکے دل کی نیت تعظیم و تبرک کی تھی نہ کی عبادت کی۔

مگر چونکہ آپ لوگ حوصلہ شکنی کرتے ہیں کہ ان روایات کو بیان کیا جائے، اس لیے پہلے آپ "پخ" نکال کر لے آئے طلاق کی جو کہ "معاملات" میں سے ہے۔ اور پھر دوسری پخ نکال کر لے آئے ہندوؤں کی۔ حالانکہ ہمارا موضوع نہ طلاق جیسے معاملات تھے اور نہ ہندو کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ ہماری بات مسلمان اور اسلام میں حلال کیے جانے والے تعظیمی افعال پر ہو رہی تھی۔ اب اگر ہندو یا دنیا کا کوئی اور مذہب اپنے دیوتاؤوں کی تعظیم کرتا ہے تو اسکی بنا پر ہم کیا خدا کی نازل کردہ شریعت میں خود سے تبدیلی کر کے چیزوں کو حرام بنا دیں؟

اور البانی صاحب کے تبرکات پر اعتراض بھی عجیب و غریب ہے۔ ان تبرکات والی روایات کو بیان کرنے پر اس لیے پابندی لگائی جا رہی ہے کہ آج انکی نظر میں کوئی تبرک باتی ہی نہیں رہ گیا ہے۔ تو کیا جن علماء و محدثین نے یہ روایات اپنی کتابوں میں مسلسل 1400 سال تک بیان کی ہیں، ان سب کے پاس کیا تبرکات نبوی تھے جو ان پر پابندی نہیں تھی؟ کیا حجر اسود تبرکات میں اور شعائر اللہ میں نہیں آتا؟ کیا حجر اسود کو نفع و شفا کا حامل سمجھنا حرام ہے۔ کیا آب زمزم سے نفع و شفا حاصل کرنا حرام ہے؟ کیا ان روایات کو اس لیے بیان کرنا حرام ہے کہ تعظیم و عبادت کے درمیان نیت کے فرق کو بتلایا جائے؟
البانی صاحب کے ان عجیب و غریب اعتراضات کا میں مکمل دلائل کے ساتھ جواب پہلے بھی کئی بار دے چکی ہوں۔ البانی صاحب کا یہ استدلال آپ کے لیے حجت ہو تو ہو، ہمارے لیے یہ عجیب و غریب استدلال ہے اور اس حوالے اوپر اُسی تھریڈ میں تفصیلی دلائل میں نے پیش کر دیے ہیں جو سب جا کر اس پوسٹ اور ان سے اگلی پچھلی پوسٹوں میں پڑھ سکتے ہیں۔
 
ہم کسی البانی کو نہیں مانتے۔ ۔ ۔اسکے ضعیف کہہ دینے سے حدیث ضعیف نہیں ہوجاتی۔ ۔ ۔ اور نہ ہی ہماری زندگی ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ ہمارے نزدیک بہت سی احادیث اور آثار سے یہ بات مستنبط ہے کہ علماء و مشائخ اور والدین کی دست بوسی اور قدم بوسی جائز ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ۔ ۔ آپ اس سے متفق نہیں ہیں تو آپ کو اسکا حق ہے۔ ۔ ۔ آپ اگر اسکو ممنوع سمجھتے ہیں تو ہم اسکو ایک علمی اختلاف سمجھ کر نظرانداز کرسکتے ہیں۔ ۔ لیکن جب آپ نے اس عمل کو کفر و شرک کی حدود میں داخل قرار دیا تو اس ناچیز نے اپنے خیالات کا اظہار ضروری سمجھا۔ ۔اور جیسا کہ ْرآن و سنّت کی روشنی میں واضح ہوا کہ بذاتِ خود یہ عمل شرک نہیں ہے۔ ۔ لیذا میں ایک ہی بات کو بار بار دہرانا وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں۔ ۔ اگر آپ متفق ہیں تو الحمدللہ۔ ۔ ۔اگر نہیں تو الحمدللہ علی کلّ ِحال۔ ۔ ۔اور لکم دینکم ولی دین۔:)
 

مہوش علی

لائبریرین
ابن حجر العسقلانی کی فتح الباری والے اقتباس پر باذوق صاحب کی تنقید
جس طریقے سے اور بہانے سے ابن حجر کے اس مؤقف کا انکار کیا گیا ہے، وہ بہت ہی افسوسناک ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
علم الرجال کو Use کرنے کی بجائے بری طرح Misuse کیا گیا ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ایک چیز ہے جس کی وجہ سے ایک طبقہ علوم الحدیث کا انکار کرتے ہوئے قرآنسٹ بن بیٹھا ہے۔

اس روایت کا صحیح لغیرہ ہونا
باذوق برادر نے شیخ ھشام پر اعتراض کیا ہے:
از باذوق:
اب فتح الباری کی اوپر والی اصل عبارت کو غور سے دیکھیں اور بتائیں کہ وہ الفاظ کہاں ہیں جس کے ترجمے کے طور پر شیخ ھشام نے یوں لکھا :
The hadith is established as authentic by the following narrations in Bukhari's Sahih:
( یہ حدیث بخاری کی ذیل کی روایات کی بنا پر مصدقہ قرار پاتی ہے )

شیخ ھشام نے کہیں بھی ان الفاظ کو العسقلانی کی بات بتلایا ہے اور نہ اسکا ترجمہ کیا ہے۔ بلکہ انہوں نے صاف صاف اس چیز کی نسبت اپنی طرف رکھی ہے۔
اور "علم الحدیث" کی جس کتاب کا لنک آپ نے اوپر ہمیں عطا فرمایا ہے، اگر آپ خود اس کو دل کھول کر پڑھ لیں تو آپ کو خود نظر آ جائے گا کہ اس حدیث کو بخاری کی روایت کی وجہ سے "صحیح لغیرہ" کا درجہ حاصل ہے۔ دیکھئے حدیث کی قسم "صحیح لغیرہ" کی تعریف آپ کی اپنی پیش کردہ کتاب میں۔
یہ بات بالکل صاف تھی اور یہ سادہ سی بات یقینا آپ کے علم میں ہو گی، مگر آپ نے اس پر کوئی جواب دینے کی بجائے اس ابن حجر کے ترجمے کا عجیب عذر پیش کر کے اس سے انکار کرنے کی کوشش کی ہے۔

بلند پایہ تابعی امام السدی (امام فن تفسیر) پر دجال و کذاب کا الزام
از باذوق:
جبکہ امام عسقلانی طبری کی جو روایت پیش کر رہے ہیں وہ السدی سے مروی ہے۔ جرح و تعدیل کی کتب چھان لیجئے ، ہر جگہ آپ کو یہی لکھا ملے گا کہ السدی محدثین کے نزدیک دجال اور کذاب ہے۔

امام السدی نہ صرف یہ کہ بلند تابعی تھے، بلکہ فن تفسیر کے امام مانے جاتے تھے۔ بہت افسوس کہ ان پر دجال و کذاب کا الزام لگایا گیا۔
باذوق صاحب سے مطالبہ ہے کہ وہ ان بلند پانی تابعی پر جرح و تعدیل دونوں پیش کر کے ثابت کریں کہ یہ دجال و کذاب تھے۔ یہ جرح و تعدیل دونوں پیش کرنا آپکی ذمہ داری رہی۔ اور اگر خالی جرح پیش کریں گے تو آپ پر ناانصافی کا الزام کھل کر لگے گا۔

امام السدی پر تفصیلی گفتگو باذوق صاحب کی جانب سے پیش کیے جانے والی جرح و تعدیل کی روشنی میں دجال و کذاب کے ثبوت آنے کے بعد کریں گے۔ مگر فی الحال مختصرا آپ کی خدمت میں امام السدی کے متعلق عرض کر دوں کہ:
1۔ یہ تابعی ہیں اور فن تفسیر کے امام مانے جاتے ہیں۔
2۔ انکی بیسیوں روایات ابن جریر طبری اور ابن کثیر اور تمام کے تمام مفسرین القرآن نے اپنی تفاسیر میں درج کی ہیں۔
اب ذرا دل تھام کر تصور کریں کہ ابن کثیر الدمشقی اپنی تفسیر میں کسی دجال و کذاب سے روایت نقل کریں گے؟ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
3۔ امام سدی سے امام مسلم نے کئی روایات اپنی صحیح مسلم میں درج کی ہیں۔ مثلا دیکھئیے صحیح مسلم کی یہ روایات۔
صحیح مسلم، [FONT=times new roman(arabic)]باب جواز الانصراف من الصلاة عن اليمين، والشمال‏
[/FONT]
[FONT=times new roman(arabic)] 1674 - وحدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا أبو عوانة، عن السدي، قال سألت أنسا كيف أنصرف إذا صليت عن يميني أو عن يساري قال أما أنا فأكثر ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه ‏.‏ [/FONT]
[FONT=times new roman(arabic)] 1675 - حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، قالا حدثنا وكيع، عن سفيان، عن السدي، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ينصرف عن يمينه ‏.‏[/FONT]

امام مسلم کے اس راوی کو آپ جرح و تعدیل کی بنیاد پر اگر دجال و کذاب کہا جا رہا ہے تو یہ بہت بڑا الزام ہے۔ استغفر اللہ ربی۔

اور باقی امام ابو داؤد وغیرہ کی جو باتیں آپ نے نقل کی ہیں، تو حیرت ہے کہ انسان چیزیں کو کیسے تہہ و بالا کرتا ہے اور کیسے کیسے عذر بنا سکتا ہے۔
پہلا امام ابو داؤد اور امام ترمذی کی منکر روایت والی مثال اس مسئلے میں صادق ہی نہیں آتی کیونکہ طبری والی روایت مرسل ہونے کے باوجود "صحیح لغیرہ" ہے اور بخاری کی روایت اسکو تقویت دے رہی ہے۔
پھر کسی عنوان کو بنا کر اسکے ذیل میں یہ روایتیں نقل کر کے انہیں بالخصوص منکر کہہ کر ان دونوں ائمہ نے کسی غلط فہمی کا ازالہ کیا ہے کہ یہ بات غلط طور پر مشہور ہیں۔ چنانچہ زیادہ سے زیادہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہمیں یہ دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے کہ باب کے ذیل میں پیش کردہ روایت پر جرح کی گئی ہے یا پھر اس سے مسائل اخذ کیے گئے ہیں۔
اور السدی والی روایت پر ابن حجر العسقلانی نے مسائل اخذ کیے ہیں، اور اس سے کسی عالم نے اختلاف نہیں کیا ہے۔ اور باذوق صاحب، آپ تو وہ ہیں جو ہمیشہ مجھ پر البانی صاحب کے مقابلے میں دلائل لانے پر البانی صاحب کی علمیت کی دھونس جماتے تھے۔ تو پھر آپ کی علمی حیثیت شیخ ھشام کے سامنے کیا ہے جو دعوی کر رہے ہیں کہ آپ عسقلانی صاحب کی عبارت کو شیخ ھشام سے بہتر سمجھ رہے ہیں؟؟؟

بہت مشکل بات ہے کہ باذوق صاحب کسی بات کو تسلیم کریں۔۔ اس لیے صرف بقیہ لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ ابن حجر العسقلانی کی عبارت کو پھر غور سے پڑھیں اور سوچیں:
1۔ اگر ابن حجر کے نزدیک یہ روایت مردود تھی تو پھر اس پر انہوں نے مسائل کی یہ لمبی چوڑی لسٹ کیوں اخذ کی؟
2۔ اور اگر واقعی ابن حجر کے نزدیک یہ روایت مردود ہوتی تو وہ بھی ابو داؤد و ترمذی کی طرح اس روایت کو صرف مرسل و مردود کہہ کر بات ہی ختم کر دیتے۔
مگر نہیں۔ ابن حجر العسقلانی صاف صاف طور پر اس روایت کو لکھتے ہیں کہ بخاری کی روایت سے ملتی جلتی ایک مرسل روایت السدی کی ہے (ملتی جلتی روایت کا اشارہ صحیح لغیرہ کی طرف ہے) ۔

اسکے بعد ابن حجر عسقلانی نے جو چیزیں اخذ کی ہیں، وہ انکا ان تمام روایات کا مجموعی نتیجہ ہے (ان روایات میں بخاری میں اس روایت کے تمام ورژنز اور امام السدی والی روایت شامل ہے) جیسا کہ شیخ ہشام نے اسکا ذکر اوپر کیا ہے۔

دیکھئیے، السدی والی روایت میں تو صرف دو چیزیں بیان ہوئی ہیں، مگر ابن حجر العسقلانی نے جو نتائج اخذ کیے ہیں، ان میں تو وہ چیزیں بھی شامل ہیں جو السدی والی روایت میں شامل نہ تھیں۔ (مثلا گھٹنے کے بل بیٹھنا، فتنوں سے پناہ طلب کرنا، " اُعْفُ عَفَا اللَّه عَنْك " کا ذکر کرنا۔۔۔۔)۔ یہ سب چیزیں تو سدی کی روایت میں شامل بھی نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ابن حجر العسقلانی ان تمام تر روایات کا مجموعی نتیجہ اخذ کر کے اپنا مؤقف بیان کر رہے ہیں، اور انکے بیچ میں انہوں نے قدم بوسی کو جائز قرار دیا ہے۔

کاش باذوق صاحب اس سادہ سی بات کو سمجھ پاتے کہ یہ اخذ کردہ موْقف صرف السدی والی روایت کا نہیں، بلکہ اس موضوع پر تمام تر روایات کا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
(گذشتہ سے پیوستہ)
السدی والی روایت میں صرف یہ چیزیں ہیں:
اسی کے ساتھ ملتا جلتا مرسل واقعہ طبرانی میں بھی السدی کے حوالے سے موجود ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو ئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کو چوما اور کہا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو گئے ۔۔۔
اور مزید کہا کہ قرآن کے امام ہونے پر (راضی ہو گئے) آپ مجھ سے درگزر فرمائیے اللہ آپ سے درگزر فرمائے گا ۔ اسی حالت میں ہی رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوگئے ۔
جبکہ ابن حجر العسقلانی نے جو موْقف اخذ کیا ہے، وہ یہ ہے:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع رہنا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہو جائیں تو انکا بہت زیادہ ڈرنا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ کسی عمومی کام کی بناء پر نہ ہو جسکی بنا پر وہ سب سے ناراض ہو جائیں۔
وادلال عمر عليه،
عمر رضی اللہ عنہ کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو منانے کی جراءت کرنا
وجواز تقبيل رجل الرجل،
اور قدم بوسی کا جائز ہونا۔
وجواز الغضب في الموعظة،
وعظ کے دوران غضبناک یا جذباتی ہونے کا جواز۔
وبروك الطالب بين يدي من يستفيد منه،
طالب علم کا استاذ کے سامنے ادب کے ساتھ دو زانو ہونا۔
وكذا التابع بين يدي المتبوع اذا ساله في حاجة،
اسی طرح جب ماتحت کسی ضرورت کے بارے میں سوال کرے تو اپنے متبوع کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے
ومشروعية التعوذ من الفتن عند وجود شيء قد يظهر منه قرينة وقوعها،
مستحب ہے فتنوں سے پناہ طلب کرنا جب کوئی ایسی چیز وجود میں آئے جس سے فتنے کے واقع ہونے کا قرینہ ملے
واستعمال المزاوجة في الدعاء في قوله ‏"‏ اعف عفا الله عنك ‏"‏ والا فالنبي صلى الله عليه وسلم معفو عنه قبل ذلك‏.‏
دعا میں دونوں جانبین کا ذکر کرنا جیسا کہ عمر کا کہنا " اُعْفُ عَفَا اللَّه عَنْك " ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے ہی معفو یعنی بخشے ہوئے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ابن حجر العسقلانی سے شیخ ھشام نے ایک روایت اور بھی نقل کی تھی، جس کو میں نے خاص طور پر اپنی پہلی پوسٹ میں ذکر بھی کیا تھا۔ افسوس کہ اپنا مؤقف ثابت کرنے کے چکر میں باذوق صاحب اس روایت کو گول کر گئے۔ آپ اس روایت کو دوبارہ پڑھئیے اور آپ کو مزید اندازہ ہو گا کہ ابن حجر العسقلانی نے اپنا یہ مؤقف کیوں نقل کیا ہے۔

umm aban, daughter of al-wazi` ibn zari` narrated that her grandfather zari` al-`abdi, who was a member of the deputation of `abd al-qays, said: "when we came to medina, we raced to be first to dismount and kiss the hand and foot of allah's apostle..."
references:
  • abu dawud narrates it in his sunan, book of adab.
  • imam bukhari relates from her a similar hadith in his adab al-mufrad: We were walking and someone said, "there is the messenger of allah," so we took his hands and feet and kissed them.
  • ibn al-muqri' narrates it in his kitab al-rukhsa (p. 80 #20), al-tayalisi in his musnad, al-bazzar in his musnad (3:278),
  • bayhaqi in the sunan (7:102),
  • and ibn hajar in fath al-bari (1989 ed. 11:67 isti'dhan ch. 28 #6265) said: "among the good narrations in ibn al-muqri's book is the hadith of al-zari` al-`abdi." it was declared a fair (hasan) hadith by ibn `abd al-barr, and al-mundhiri confirmed it in mukhtasar al-sunan (8:86)
 
یہ وہی البانی ہے جس نے بے دھڑک اپنی کتاب میں لکھا کہ:
"قبرِ رسول پر بنا ہوا گنبدِ خضرا شدید ترین بدعتِ سئیہ و شنیعہ ہے (معاذاللہ)۔ اور اس کا گرانا واجب ہے۔ ہم سعودی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ اسکو منہدم کیا جائے اور سعودی حکومت چاہے تو ایسا ہو سکتا ہے"
استغفراللہ العظیم۔ ۔ ۔۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اسکا یہ فتوی پڑھا ہے مسجدِ نبوی میں بابِ عثمان پر موجود تین منزلہ لائبریری میں۔ ۔ ۔
 
سب سے پہلے تو میں نبیل اور فورم کی دیگر انتطامیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنھوں نے ایک غلط و غیر اخلاقی بات کے خلاف اپنا درست رد عمل ظاہر کیا اور ساتھ ہی میں اس بات کی امید رکھوں گا کہ آئندہ تمام گفتگو ایک اعلیٰ اخلاقی معیار کے مطابق ہوگی۔
مہوش تمام تر اختلافات کے باوجود مجھے آپ سے کوئی عناد نہیں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے خیالات میں بعد المشرقین ہے تاہم اپنے اختلافات کے اظہار میں آپ ، میں اور ہم سب کچھ بنیادی اقدار کے پابند ہیں‌ اور یہ اقدار صرف ہمارا دین ہی نہیں سکھاتا بلکہ سارے مذاہب اس کی تعلیم دیتے آئے ہیں۔آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا میں اس کے لیے آپ کا مشکور ہوں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم پیارے باذوق بھائی !
میرے بھائی آپ کیوں خوامخواہ خلط مبحث کرکے لوگوں کی توجہ اصل نفس مسئلہ سے ہٹا رہے ہیں بات شروع ہوئی تھی ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ایک ویڈیو کے حوالے سے کہ جس میں کچھ لوگ تعظیما ڈاکٹر صاحب کے سامنے جھک رہے تھے جسے یار لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے سجدہ عبودیت قرار دے کر شرک سے نتھی کر دیا جس پر کچھ احباب نے سب کی توجہ اس امر کی طرف دلوائی کے بھائیو یہ ٹھیک ہے کہ کچھ لوگ طاہر القادری صاحب کے سامنے انتہائی حد تک جھک رہے تھے مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ وہ واقعی میں سجدے ہی کے لیے جھک رہے تھے جب کہ دوسری طرف یہ امر بالکل واضح ہے کہ شریعت میں علماء اسلام کے ہاتھ اور پاؤں چومنے کا جواز موجود ہے اگر چہ اس میں اختلاف ہی سہی مگر کسی نے بھی اس امر کی طرف توجہ نہ کی اور براہ راست کفر و شرک کے فتوٰی لگانے شروع کردیئے ۔۔
میں کہتا ہوں کہ پہلے تو یہ ثابت کیا جائے کہ آیا وہ لوگ واقعی سجدہ کررہے تھے اور اگر سجدہ کررہے تھے تو کونسا سجدہ تعظیمی یا سجدہ عبودیت ؟
اور اگر سجدہ تعظیمی تھا تو شریعت مطہرہ میں سخت حرام ہے مگر کفر نہیں بالکل اسی طرح کہ جس طرح سے شراب حرام ہے مگر کفر نہیں ۔ ۔
اور اگر سجدہ عبودیت کررہے تھے تو شریعت میں حرام بھی ہے اور کفر و شرک بھی
۔ ۔
ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ایک شخص جو اتنے بڑے علم کے مرتبے پر فائز ہو جس کے لاکھوں عقیدت مند پوری دنیا میں ہوں اور جس نے جا بجا اپنے فتاوٰی میں بھی سجدہ تعظیمی کو حرام لکھا ہو اگر خود اسکے ساتھ کوئی اس قسم کی صورتحال پیش آجاتی ہے تو اگر ہمارے دل میں رتی بھر بھی شخصی بغض نہ ہو تو کم از کم یہ بات دل ماننے کو تیار نہیں کہ ایک عام آدمی بھی سجدہ تعظیمی کو حرام سمجھتے ہوئے اپنے لیے روا ہرگز نہیں جانے گا چہ جائکہ طاہر القادری جیسا صاحب علم ایسا کر گرزے وہ بھی اسیے حالات میں کہ جب اس تمام واقعہ کی ویڈیو بھی تیار ہورہی ہو ۔ ۔ ۔
میرے بھائی ایسے میں آپ جیسے صاحب علم کا یہ کام نہ تھا کہ خلط مبحث کرکے اور بے جا تاویلات کرکے نفس مسئلہ کو الجھا دیتے بلکہ آپ کا منصب یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب پر علمی حد تک جائز تنقید کرتے اور جن لوگوں نے افراط سے کام لیا اور اس عمل کو براہ راست شرک قرار دیا ان کو سخت تنبیہ کرتے کیونکہ آپ خود بھی بارہا مختلف فورمز پر سجدہ تعظیمی کے حق میں دلائل رقم کرچکے ہیں ۔
اب سجدہ جو کے ایک عمل کا نام ہے چاہے وہ عبودی ہو یا تعظیمی دونوں ایک طرح کے عمل کا نام ہے اور ان دونوں میں بجز نیت کے فرق کے سوا اور کسی طریقے سے بھی فرق نہیں کیا جاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔۔
والسلام
 

باذوق

محفلین
مگر چونکہ آپ لوگ حوصلہ شکنی کرتے ہیں کہ ان روایات کو بیان کیا جائے
ان تبرکات والی روایات کو بیان کرنے پر اس لیے پابندی لگائی جا رہی ہے کہ
کیا ان روایات کو اس لیے بیان کرنا حرام ہے کہ
دیکھ لیجئے کہ آپ پلٹ پلٹ کر پھر وہی وار کر رہی ہیں جس کا نہایت واضح جواب میں یہاں دے چکا ہوں :
اللہ کی قسم ! میں نے کہیں بھی کسی بھی جگہ ایسا نہیں لکھا ہے کہ :
آپ ان احادیث کو کیوں بیان کر رہی ہیں ؟؟
ایسا الزام آپ اس شخص کو دے رہی ہیں جس نے نیٹ کی اردو کمیونیٹی میں سب سے پہلی مرتبہ اردو یونیکوڈ میں 10 عدد معروف کتبِ احادیث کی پیشکشی کا بیڑہ انفرادی طور پر اٹھایا اور جس پر کام اب تک جاری ہے اور یہ میری وہ واحد سائیٹ ہے (پی۔ایچ۔پی۔بی۔بی فورم کی شکل میں) جس کو قائم کرنے کے لیے تکنیکی تعاون مجھے اردو محفل ہی سے ملا تھا۔
میرا اعتراض احادیث پر نہیں بلکہ "مخصوص/متنازعہ نظریات" پر ہے اور تھا۔
ان تبرکات والی روایات کو بیان کرنے پر اس لیے پابندی لگائی جا رہی ہے کہ آج انکی نظر میں کوئی تبرک باتی ہی نہیں رہ گیا ہے۔
یہ بھی ایک نرالا جھوٹ ہے۔
اگر پابندی لگانے والی بات ہوتی تو علامہ البانی علیہ الرحمة یہ بات ہرگز نہ کہتے :
اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ہمارے نزدیک جائز ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کرتے ہیں
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات سے وابستہ کوئی تبرک باقی ہے یا نہیں ؟؟
بحث اس بات پر نہیں ہے بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ جس چیز کو آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے وابستہ چیز بتا رہی ہیں کیا اس پر امت کا اسی طرح اجماع ہے جس طرح حجر اسود پر اجماع ہے؟؟
اگر نہیں تو پھر محض آپ کے یا آپ کے ہمخیال گروہ کے کسی "جذباتی خیال" کو ہم شعائر اللہ کا درجہ عطا نہیں کر سکتے۔ معذرت قبول فرمائیں۔

اس روایت کا صحیح لغیرہ ہونا
اور "علم الحدیث" کی جس کتاب کا لنک آپ نے اوپر ہمیں عطا فرمایا ہے، اگر آپ خود اس کو دل کھول کر پڑھ لیں تو آپ کو خود نظر آ جائے گا کہ اس حدیث کو بخاری کی روایت کی وجہ سے "صحیح لغیرہ" کا درجہ حاصل ہے۔ دیکھئے حدیث کی قسم "صحیح لغیرہ" کی تعریف آپ کی اپنی پیش کردہ کتاب میں۔

۔۔۔۔۔ طبری والی روایت مرسل ہونے کے باوجود "صحیح لغیرہ" ہے اور بخاری کی روایت اسکو تقویت دے رہی ہے۔
محترمہ ! آپ یقیناً محدث نہیں ہیں !!
ایک محدث جب خود ہی کسی روایت کو "مرسل" کہہ رہا ہو تو کس بنیاد پر آپ اس روایت کو "صحیح لغیرہ" باور کرانے پر مصر ہیں؟؟ اس روایت پر محدثین کی آراء ذکر کریں تو کچھ آپ کی بات میں وزن آئے۔
امید ہے کہ اس روایت پر محدثین کی آراء بطور ثبوت ضرور پوسٹ کریں گی۔ انتظار ہے۔
ابن حجر العسقلانی کی فتح الباری والے اقتباس پر باذوق صاحب کی تنقید
بلند پایہ تابعی امام السدی (امام فن تفسیر) پر دجال و کذاب کا الزام
امام السدی نہ صرف یہ کہ بلند تابعی تھے، بلکہ فن تفسیر کے امام مانے جاتے تھے۔ بہت افسوس کہ ان پر دجال و کذاب کا الزام لگایا گیا۔
اگر آپ إسماعيل بن عبد الرحمان السدي الكبير کی بات کر رہی ہیں تو پھر اس کا جواب میں تفصیل سے دوں گا، ان شاءاللہ۔
ابن حجر العسقلانی سے شیخ ھشام نے ایک روایت اور بھی نقل کی تھی، جس کو میں نے خاص طور پر اپنی پہلی پوسٹ میں ذکر بھی کیا تھا۔ افسوس کہ اپنا مؤقف ثابت کرنے کے چکر میں باذوق صاحب اس روایت کو گول کر گئے۔ آپ اس روایت کو دوبارہ پڑھئیے اور آپ کو مزید اندازہ ہو گا کہ ابن حجر العسقلانی نے اپنا یہ مؤقف کیوں نقل کیا ہے۔
محترمہ ، آپ سے گذارش ہے کہ ذرا اصل عربی متن تو پیش فرمائیں۔
پھر ہم سب دیکھیں گے کہ حافظ عسقلانی علیہ الرحمة کا "حسن" والا موقف ابو بكر المقرى کے حوالے سے صرف "تقبیل ید" کے موضوع پر ہے یا "تقبیل ید ورجل" کے موضوع پر ؟؟
علامہ البانی رحمة اللہ نے بھی ابوداؤد کی اس روایت کو "حسن" قرار دیا ہے مگر ۔۔۔۔۔۔
مگر "حسن" کے ساتھ کہا ہے : [ARABIC]دون ذِكر الرِّجْلين[/ARABIC]
امید ہے کہ بات سمجھ میں آ گئی ہوگی کہ جو فقرہ ثابت ہی نہیں ، اس روایت کو دلیل بنانا عبث تھا !!
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم پیارے باذوق بھائی !
میرے بھائی آپ کیوں خوامخواہ خلط مبحث کرکے لوگوں کی توجہ اصل نفس مسئلہ سے ہٹا رہے ہیں بات شروع ہوئی تھی ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی ایک ویڈیو کے حوالے سے کہ جس میں کچھ لوگ تعظیما ڈاکٹر صاحب کے سامنے جھک رہے تھے جسے یار لوگوں نے بغیر سوچے سمجھے سجدہ عبودیت قرار دے کر شرک سے نتھی کر دیا جس پر کچھ احباب نے سب کی توجہ اس امر کی طرف دلوائی کے بھائیو یہ ٹھیک ہے کہ کچھ لوگ طاہر القادری صاحب کے سامنے انتہائی حد تک جھک رہے تھے مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ وہ واقعی میں سجدے ہی کے لیے جھک رہے تھے جب کہ دوسری طرف یہ امر بالکل واضح ہے کہ شریعت میں علماء اسلام کے ہاتھ اور پاؤں چومنے کا جواز موجود ہے اگر چہ اس میں اختلاف ہی سہی مگر کسی نے بھی اس امر کی طرف توجہ نہ کی اور براہ راست کفر و شرک کے فتوٰی لگانے شروع کردیئے ۔۔
میں کہتا ہوں کہ پہلے تو یہ ثابت کیا جائے کہ آیا وہ لوگ واقعی سجدہ کررہے تھے اور اگر سجدہ کررہے تھے تو کونسا سجدہ تعظیمی یا سجدہ عبودیت ؟
اور اگر سجدہ تعظیمی تھا تو شریعت مطہرہ میں سخت حرام ہے مگر کفر نہیں بالکل اسی طرح کہ جس طرح سے شراب حرام ہے مگر کفر نہیں ۔ ۔
اور اگر سجدہ عبودیت کررہے تھے تو شریعت میں حرام بھی ہے اور کفر و شرک بھی
۔ ۔
ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ایک شخص جو اتنے بڑے علم کے مرتبے پر فائز ہو جس کے لاکھوں عقیدت مند پوری دنیا میں ہوں اور جس نے جا بجا اپنے فتاوٰی میں بھی سجدہ تعظیمی کو حرام لکھا ہو اگر خود اسکے ساتھ کوئی اس قسم کی صورتحال پیش آجاتی ہے تو اگر ہمارے دل میں رتی بھر بھی شخصی بغض نہ ہو تو کم از کم یہ بات دل ماننے کو تیار نہیں کہ ایک عام آدمی بھی سجدہ تعظیمی کو حرام سمجھتے ہوئے اپنے لیے روا ہرگز نہیں جانے گا چہ جائکہ طاہر القادری جیسا صاحب علم ایسا کر گرزے وہ بھی اسیے حالات میں کہ جب اس تمام واقعہ کی ویڈیو بھی تیار ہورہی ہو ۔ ۔ ۔
میرے بھائی ایسے میں آپ جیسے صاحب علم کا یہ کام نہ تھا کہ خلط مبحث کرکے اور بے جا تاویلات کرکے نفس مسئلہ کو الجھا دیتے بلکہ آپ کا منصب یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب پر علمی حد تک جائز تنقید کرتے اور جن لوگوں نے افراط سے کام لیا اور اس عمل کو براہ راست شرک قرار دیا ان کو سخت تنبیہ کرتے کیونکہ آپ خود بھی بارہا مختلف فورمز پر سجدہ تعظیمی کے حق میں دلائل رقم کرچکے ہیں ۔
اب سجدہ جو کے ایک عمل کا نام ہے چاہے وہ عبودی ہو یا تعظیمی دونوں ایک طرح کے عمل کا نام ہے اور ان دونوں میں بجز نیت کے فرق کے سوا اور کسی طریقے سے بھی فرق نہیں کیا جاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔۔
والسلام
و علیکم السلام۔
آبی بھائی ، آپ کی یہ بات تو درست نہیں :
آپ کیوں خوامخواہ خلط مبحث کرکے لوگوں کی توجہ اصل نفس مسئلہ سے ہٹا رہے ہیں
میری اس تھریڈ میں بمشکل کوئی 6 پوسٹ ہیں جن میں سے صرف 2 میں کسی حد تک غیر متعلق گفتگو ہے۔ باقی جو ہے وہ بعض موضوعات پر سسٹر مہوش علی سے علمی بحث ہے۔
پھر بھی میں شمشاد بھائی سے گذارش کروں گا کہ آبی بھائی کے خلط مبحث والی شکایت پر غور کرتے ہوئے مہوش علی کے اور میرے مباحث والے مراسلات ایک الگ تھریڈ میں یکجا کر دیں۔ تاکہ ایک خاص موضوع پر گفتگو کا تسلسل برقرار رہے اور بعد میں یہ تھریڈ حوالہ دینے کے کام آئے۔

مہوش علی سے بھی گذارش ہے کہ کچھ انتظار فرمائیں۔ مجھے ان کے پچھلے تینوں مراسلات کا تفصیلی جواب دینا ہے۔
 
باذوق صاحب کے اس تفصیلی وضاحت کے بعد قدم بوسی کی روایات کی حیثیت مزید واضح ہو جاتی ہے ۔میں اس سلسلے میں یقینا کچھ کہنا چاہوں گا لیکن چندے توقف کے بعد، ابھی تو یہ بات ہی میرے لیے حیرت انگیز ہے کہ مہوش ایک مرسل جی ہاں مرسل، حسن نہیں، حدیث کو کس طرح صحیح لغیرہ کے زمرے میں رکھ رہی ہیں۔ اور پھر ان کا پیش کرنے کا انداز کے یہ باذوق صاحب کی پیش کردہ کتاب کا لنک ہے اور اس میں صحیح لغیرہ کی یہ تعریف کی گئی ہے اور اس طرح میرے (قیاس کے) مطابق یہ حدیث صحیح لغیرہ کے زمرے میں آ گئی۔

خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

کیا یہاں مہوش ،محدثین کے کچھ اقوال نقل کریں گی کہ کس طرح اور کن قاعدوں کے تحت مرسل روایت (حسن نہیں) صحیح لغیرہ کے زمرے میں آ سکتی ہے؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
باذوق صاحب کے اس تفصیلی وضاحت کے بعد قدم بوسی کی روایات کی حیثیت مزید واضح ہو جاتی ہے ۔میں اس سلسلے میں یقینا کچھ کہنا چاہوں گا لیکن چندے توقف کے بعد، ابھی تو یہ بات ہی میرے لیے حیرت انگیز ہے کہ مہوش ایک مرسل جی ہاں مرسل، حسن نہیں، حدیث کو کس طرح صحیح لغیرہ کے زمرے میں رکھ رہی ہیں۔ اور پھر ان کا پیش کرنے کا انداز کے یہ باذوق صاحب کی پیش کردہ کتاب کا لنک ہے اور اس میں صحیح لغیرہ کی یہ تعریف کی گئی ہے اور اس طرح میرے (قیاس کے) مطابق یہ حدیث صحیح لغیرہ کے زمرے میں آ گئی۔

خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

کیا یہاں مہوش ،محدثین کے کچھ اقوال نقل کریں گی کہ کس طرح اور کن قاعدوں کے تحت مرسل روایت (حسن نہیں) صحیح لغیرہ کے زمرے میں آ سکتی ہے؟؟

مجھے تو باذوق صاحب کے مراسلوں کا انتظار ہے۔ آپ "صحیح لغیرہ" کی اور "حسن لغیرہ" کی بحث میں بات کو الجھانا چاہتے ہیں، مگر اس سے بھی آپکا مقصد پورا نہ ہو سکے گا اور بات وہیں آ جائے گی کہ کچھ محدثین کے نزدیک مرسل حدیث ہرگز ضعیف حدیث نہیں بلکہ بذات خود صحیح ہے۔
·[font=&quot] [/font][font=&quot]مرسل حدیث صحیح ہے اور اس سے نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ یہ تین بڑے ائمہ یعنی ابو حنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل کا نقطہ نظر ہے۔ علماء کا یہ گروہ اس بنیاد پر اس قسم کی حدیث کو قبول کرتا ہے کہ مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ تابعی صرف اسی صورت میں کسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے منسوب کر سکتا ہے اگر اس نے اسے کسی قابل اعتماد شخص (یعنی صحابی) سے یہ بات سنی ہو۔[/font]

سوال: امام مسلم کی اس روایت کے متعلق آپکا کیا رائے ہے:
امام مسلم اپنی "صحیح" میں کتاب البیوع میں حدیث نقل کرتے ہیں، "محمد بن رافع، حجین سے، وہ لیث سے، وہ عقیل سے، وہ ابن شھاب سے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مزابنہ (یعنی تازہ کھجوروں کو چھوہاروں کے بدلے بیچنے) سے منع فرمایا۔"
یہ مرسل روایت تابعی سعید بن مسیب پر اختتام پذیر ہو رہی ہے۔

آپ مجھے گھیرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ آپ بات کو آسان کرتے اور خود بتلا دیتے کہ اگر یہ حدیث "صحیح لغیرہ" نہیں تو پھر آپ اسے کس درجے میں رکھتے ہیں۔ بہرحال۔۔۔۔
 
اوپر میں نے جو پوسٹ کی تھی اس کا مقصد نہ آپ کو گھیرنا تھا اور نہ ہی چکر دینا اس کا واحد مقصد یہ بتانا تھا کہ آپ علم حدیث کے بارے میں نہ جانتے ہوئے بھی اگر ادھر اُدھر سے محض انٹرنیت کے اوپر بھروسہ کر کہ اس علم میں بھی دخل دیں گئی تو ایسی ہی غلطیاں کریں گی۔
میں اس وقت مرسل حدیث کو نہ مردود کہتا ہوں نہ ضعیف اور نہ ہی صحیح۔آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ کس طرح ایک مرسل روایت صحیح لغیرہ کے درجہ پر فائز ہو سکتی ہے ؟ اس کا جواب ذرا علم حدیث کی روشنی میں عنایت فرما دیجئے تو آپ کی مہربانی ہوگی۔کیونکہ اوپر آپ ایک مرسل حدیث کو صحیح لغیرہ کے رتبے پر فائز کر چکی ہیں۔

سوال: امام مسلم کی اس روایت کے متعلق آپکا کیا رائے ہے:

اقتباس:
امام مسلم اپنی "صحیح" میں کتاب البیوع میں حدیث نقل کرتے ہیں، "محمد بن رافع، حجین سے، وہ لیث سے، وہ عقیل سے، وہ ابن شھاب سے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مزابنہ (یعنی تازہ کھجوروں کو چھوہاروں کے بدلے بیچنے) سے منع فرمایا۔"

یہ مرسل روایت تابعی سعید بن مسیب پر اختتام پذیر ہو رہی ہے۔

کیا آپ کی دسترس میں صرف ایک ہی آن لائن کتاب ہے جو اس میں سے ہی مثالیں آپ پیش فرما رہی ہیں؟ بہر حال آپ کا سوال اتنا انٹیلیجنٹ ہے کہ خود ہی جواب بھی اپنے اندر رکھتا ہے یعنی آپ خود ہی اس رویت کو مرسل کہ رہی ہیں اور خود ہی پوچھ رہی ہیں کہ اس کے بارے میں میرا کیا خیال ہے تو اس کے بارے میں میر ا بھی یہی خیال ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے ۔ اور اگر آپ اس کوبھی صحیح لغیرہ ہی سمجھ رہی ہیں تو ذرا بتائیے کہ کیسے یہ صحیح لغیرہ ہے ؟؟؟

ادھر میں بھی باذوق صاحب کے ہی مراسلے کا انتطار کر رہا ہوں کہ کچھ مجھے بھی اس سارے قضیئے کے بارے میں عرض کرنا ہے۔
 

باذوق

محفلین
مجھے تو باذوق صاحب کے مراسلوں کا انتظار ہے۔
جی ہاں۔ میں لکھ ہی رہا ہوں۔ پلیز تھوڑا انتظار فرمائیں۔

لیکن میں شمشاد بھائی سے ایک بار پھر گذارش کروں گا کہ براہ مہربانی میری اور مہوش علی کی بحث علیحدہ کر دیں (اگر سسٹر مہوش علی کو اس پر اعتراض نہ ہو تو)۔ یعنی وہ مراسلے جن کا تعلق راست اس تھریڈ کی ویڈیو کے بجائے احادیث اور ان کی تشریح کی بحث سے ہے ، ان کو ایک علیحدہ تھریڈ کی شکل دے دیں۔ تعاون کا شکرگزار رہوں گا۔
 
بات آپ کی بالکل ٹھیک ہے میں‌بھی اس ویڈیو کو کچھ عرصہ پہلے دیکھ چکا ہوں لیکن اب دیکھا تو وہ اس کے بجائے یوٹیوب پر ایک نئی ویڈیو لگی ہوئی ہے جس میں‌قوالی تو وہی ہے لیکن سب کچھ غائب ہے اور ہیڈنگ ہے
kissing feet is allowed by hadith of sihah sittah... Kissing feet for respect is not sajdah duhhh!​


kissing feet is allowed by hadith of sihah sittah..

مجے اس تھریڈ کا مطالعہ کرتے ہوئے اس عبارت پر حیرت ہوئی ۔صحاح ستہ ؟ آپ اسلامک سٹڈیز یا علم حدیث کے کسی بھی عالم سے کنفرم کر سکتے ہیں کہ حدیث کی چھ کتابوں کو صحاح کہنا غلط ہے ۔ انہیں کتب ستہ کہنا چاہئیے کہ ان میں سے صرف دو کتابیں صحیح ہیں ۔ اسی لیے انہیں صَحِیحَین کہتے ہیں ۔یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم ۔
باقی چار کتابیں صحاح نہیں ۔
 

mujeeb mansoor

محفلین
شرم سے سرجھکنا چاہیے اس طاہر کا ،جودعویٰ یہ کرتاہے کہ میں شیخ الاسلام ہوں،راہبر ہوں ہوں، متبع شریعت ہوں
کیا ایسا آدمی اسلام کا صحیح رخ پیش کرسکتاہے یا اسلام میں فتنے پھیلاتاہے۔جس کی داڑھی بھی کٹی ہوئی ہے
جو سر عام عورتوں میں بیانات کرتاہو
خود کو سجدہ کرانے کو محبوب رکھتاہو
جس کا مذہب یہ اجازت دیتاہو کہ آج کے دور میں شرک ہے ہی نہیں
جو قوالی اور میوزک کی تھاپ کو اپنے لیے فخر تصورکرتاہو
افسوس صد افسوس
تم ہو وہ مسلمان جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود
 

عثمان

محفلین
چہرے کے علاوہ کسی بھی جگہ کا بوسہ لینا میرے نزدیک معیوب ہے۔
نیز جس قسم کی تعظیم مسٹر طاہرلقادری کے لئے جاری ہے وہ صرف اللہ ہی کے لئے کی جانی چاہیے۔ صرف اللہ ہی سجدے کے لائق ہے۔
 

جیلانی

محفلین
جے کر دین علم وِچ ہوندا تاں سر نیزے کیوں چڑھدے ھُو

آپ چند دوستوں کے تاثرات سے مجھے یہ بخوبی اندازہ ہوا آپ اسلام کے نام پر بم بلاسٹ کرنے والوں کو تو پسند کرتے ہیں لیکن جو معاشرے کی اصلاح کے لیے کام کرتا ہے اس کے اس احسن کام سے نظر چراتے ہوئےاس پر تنقید کرنا اور دوسروں کو متنفر کرنا پسند کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تحریر و تحقیق: محمد حسین آزاد الازہری (ایڈیٹر مجلہ العلماء لاہور)​
’’اے پروردگار! مجھے ایسا بچہ عطا فرما جو تیری اور تیرے دین کی معرفت اور محبت سے لبریز ہو۔ جو دنیا و آخرت میں تیری بے پناہ رضا کا حقدار ٹھہرے اور فیضان رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہرہ ور ہوکر دنیائے اسلام میں ایسے علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی اسلامی انقلاب کا داعی ہو جس سے ایک عالم متمتع ہوسکے‘‘۔
مذکورہ بالا دعا جب 1948ء میں حج بیت اللہ کے موقع پر مقام ملتزم پر غلاف کعبہ کو تھام کر نہایت عاجزی و انکساری اور دلسوزی و گریہ و زاری سے فریدملت حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ مانگ رہے تھے تو منشاء ایزدی کے مطابق اسے شرف قبولیت اس طرح عطا ہوا کہ اسی سال 1948ء ہی میں آپ کو حرم کعبہ میں حالت خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ایک فرزند ’’محمد طاہر‘‘ کی بشارت ملی۔ جس کے بعد آپ نے مدینہ طیبہ میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے روضہ اطہر پر حاضر ہوکر وعدہ کیا کہ ’’محمد طاہر‘‘ جونہی سن شعور کو پہنچے گا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش کر دیا جائے گا۔
جب ’’محمد طاہر‘‘ کی عمر 13 برس ہوئی تو ان کے والد گرامی کو خواب میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زیارت سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’طاہر اب سن شعور کو پہنچ گیا ہے اسے حسب وعدہ ہمارے پاس لے آؤ‘‘​
اس طرح ’’محمد طاہر‘‘ نے 1963ء میں اپنے عظیم والد گرامی کے ساتھ بشارت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاکر حج بیت اللہ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کی اور محمد طاہر کو حسب وعدہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے روضہ پاک پر مواجھہ شریف کے سامنے پیش کیا گیا جہاں بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محمد طاہر کو مصطفوی انقلاب کے عظیم عالمگیر مشن کا اشارہ ملتا ہے۔ نشانی کے طور پر بحالت خواب بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دودھ کا پیالہ عطا ہوتا ہے اور اسے لوگوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اس حکم پر عملدرآمد کے فوری بعد ’’محمد طاہر‘‘ کی پیشانی پر محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی میٹھے میٹھے پیارے لبوں سے بوسہ لے رہا ہے۔ یہ سب کچھ حاضری کی قبولیت کا نکتہ کمال تھا۔
تعبیر الرؤیا کے مطابق خواب میں دودھ کے ملنے سے مراد علوم عقلی ونقلی اور علوم ظاہری وباطنی عطا ہونے کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’محمد طاہر‘‘ کی رسم بسم اللہ مدینہ طیبہ ہی میں قطب مدینہ حضرت علامہ ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ (خلیفہ اعظم اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ) سے پیر کے دن نماز فجر کے بعد ادا ہوتی ہے اور تعلیم و تربیت کا باقاعدہ آغاز مدینہ طیبہ ہی میں باب جبریل علیہ السلام کے سامنے عظیم مدرستہ العلوم الشریعہ سے ہوتا ہے۔ پھر کیوں نہ آپ علم و عمل، تقویٰ و طہارت اور زہد و ورع کی بلندیوں پر فائز ہوں اور شیخ الاسلام کے لقب سے ملقب ہوں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری علم وحکمت کے لولوئے آبدار سے مزین ہونے کے علاوہ تصوف و روحانیت کے اعلیٰ ترین رتبے پر بھی فائز ہیں۔ کیونکہ آپ کے مرشد کامل شہزادہ غوث الوریٰ قدوۃ الاولیاء شیخ المشائخ حضرت پیر السید طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ جو فیضان حضور غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فیضان نہ صرف امین تھے بلکہ پاکستان میں حضرت پیران پیر دستگیر کے جانشین اور قاسم ولایت غوثیت مآب رضی اللہ عنہ کے مرتبے پر فائز تھے۔ اس عظیم روحانی خانوادے سے منسلک ہونے کے بعد اس نسبت سے آپ کا اسم گرامی ’’محمد طاہرالقادری‘‘ مکمل ہوا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری علم ومعرفت، تصوف و روحانیت، زہد و ورع، تقویٰ و طہارت اور ادب واخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کیوں نہ ہوں کہ آپ نے جن نامور علمی و روحانی ہستیوں سے اکتساب علم کیا وہ بھی اپنی مثال آپ تھے جن میں آپ کے عظیم والد گرامی فرید ملت حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ شیخ العرب والعجم حضرت علامہ محمد ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ، استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا عبدالرشید جھنگوی رحمۃ اللہ علیہ، استاذ العلماء ابوالبرکات حضرت علامہ سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ، غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ، شارح بخاری حضرت علامہ غلام رسول رضوی رحمۃ اللہ علیہ، مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ، محدث حرم حضرت الشیخ السید محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ اور محقق عصر حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی شامل ہیں۔
زیر نظر مضمون میں ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کے بارے میں چند ان جید علماء کرام و مشائخ عظام کی آراء کو قلمبند کریں گے جنہوں نے مختلف مواقع پر اپنے خطابات میں یا تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر وزٹ کے دوران آپ کی علمیت تحریک اور آپ کی دینی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
شیخ المسلمین حضرت خواجہ قمرا لدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ

1966ء میں دارالعلوم سیال شریف میں جدید علوم کی کلاس کے آغاز کے وقت حضرت علامہ خواجہ قمرالدین سیالوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک علمی تقریب کا اہتمام کیا جس میں دیگر جید علماء کرام کے علاوہ فرید ملت حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری سے خصوصی تعلق کی بناء پر انہیں بھی مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر آپ کے صاحبزادے ’’محمد طاہرالقادری‘‘ بھی اپنے عظیم والد گرامی کے ہمراہ مدعو تھے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک 15 سال تھی۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نوجوان ’’محمد طاہرالقادری‘‘ کو بھی دعوت خطاب دی۔ انہوں نے صرف دس منٹ نہایت پر جوش علمی و فکری خطاب کیا جس کے بعد حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس نوجوان کا ماتھا چومتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر مائیک پر اپنے عظیم تاثرات سے نوازتے ہوئے فرمایا:
’’لوگو! آپ نے اس بچے کا خطاب تو سن لیا ہے، میں آپ کو گواہ بنانا چاہتا ہوں ہمیں اس بچے پر فخر ہے، ان شاء اللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ یہی بچہ عالم اسلام اور اہلسنت کا قابل فخر سرمایہ ہوگا۔ میں تو شاید زندہ نہ ہوں لیکن آپ میں سے اکثر لوگ دیکھیں گے کہ یہ بچہ آسمانِ علم وفن پر نیّر تاباں بن کر چمکے گا۔ ان کے علم و فکر اور کاوش سے عقائد اہلسنت کو تقویت ملے گی اور علم کا وقار بڑھے گا۔ اہلسنت کا مسلک اس نوجوان کے ساتھ منسلک ہے۔ ان کی کاوشوں سے ایک جہاں مستفید ہوگا‘‘۔
غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ

1980ء کا واقعہ ہے جب مجلس رضا کے زیر انتظام ریلوے اسٹیشن لاہور کی مرکزی جامع مسجد ’’نوری‘‘ میں عرس مبارک حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے موقع پر ایک پروقار علمی تقریب منعقد تھی جس کی صدارت غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی۔ مجلس رضا کے زیر اہتمام اس سالانہ علمی وفکری نشست میں دیگر جید علماء کرام کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کو بھی دعوت خطاب دی جاتی تھی اور مذکورہ نشست میں بھی آپ کا خطاب تھا مگر صدر مجلس آپ کے خطاب کے بعد تشریف لائے۔ جب خطبہ صدارت فرمانے لگے تو آپ کی نظر ایک نوجوان پر پڑتے ہی اسے اپنے پاس بلاکر خطاب روک کر نہ صرف بغلگیر ہوئے، دستِ شفقت پھیرا، ماتھا چوما، خیریت دریافت کی بلکہ تقریب میں شرکت پر خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے علماء ومشائخ اور شرکاء محفل سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ یہ نوجوان (محمد طاہرالقادری) جن سے میں ابھی ملا ہوں، ان کا خطاب آپ نے سنا ہوگا اور اسی سے ان کی قابلیت کا اندازہ بھی کرلیا ہوگا۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے والد گرامی جو خود بھی ایک معتبر عالم اور معروف طبیب تھے اور میرے دوست تھے، یہ محمد طاہرالقادری ان کے بیٹے اور تربیت یافتہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو بہت ساری صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے میں نے اس نوجوان سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے میں فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا نور رکھ دیا ہے جو مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہے گا اور ایک عالم کو فیضیاب کرے گا۔ کاش تم بھی اس نور کو پھلتا پھولتا دیکھ سکو۔ اللہ کرے ان کے اس علمی، فکری اور روحانی نور سے پورا عالم اسلام اور دنیائے اہلسنت روشن و منور ہوجائے۔ ان شاء اللہ ایسا ہوگا‘‘۔
ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ

1987ء میں قدوۃ الاولیاء شیخ المشائخ حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی زیر صدارت پہلی عظیم الشان منہاج القرآن کانفرنس انعقاد پذیر تھی جس سے ضیاء الامت پیر طریقت حضرت علامہ پیر جسٹس محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’خدائے قدوس کا ہم پہ احسان ہے کہ اس نے آج کے دور میں اس مرد مجاہد جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو حسنِ بیان اور دردِ دل کے ساتھ سوچ، ذہن اور دل کی وہ صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں کہ جن کی بدولت سب طلسم پارہ پارہ ہوجائیں گے اور وہ دن دور نہیں جب غلامان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں کامیابی کا پرچم لہرا رہا ہوگا۔ اس مرد مجاہد نے امت کی حرماں نصیبی کے علاج کے لئے وہ نسخہ تجویز کیا ہے جس کے بارے میں کسی اہل دل نے کہا تھا:
یکے دو است بہ دار الشفائے میکدہ ہا
بہ ہر مرض کہ بنالد کے شراب یکست​
اس دور پرفتن میں جب میں اس نوجوان کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا دل خدا کے حضور احساس تشکر سے بھرجاتا ہے۔ میری زبان پر بے ساختہ آتا ہے کہ مولا ہماری دولت ہمارے نوجوان ہم سے چھن گئے تھے۔ یہ تیرا کرم ہے کہ تو نے اس مرد مجاہد سے ہمیں سہارا عطا کیا۔ نوجوانوں کو اس کے بیانات و خطبات سننے اور اس کی تحریریں پڑھنے سے تسکین ملتی ہے اور ہمارے دلوں سے دعا نکلتی ہے کہ اے خدا! اس مرد مجاہد کو عمر خضر عطا فرما اور ادارہ منہاج القرآن کے ذریعے پیغام محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری دنیا تک پھیلا دے، اس کے قلم، زبان اور نگاہ کو وہ جرات اور حوصلہ عطا فرما کہ ہماری پژمردہ روحیں سرور سرمدی سے بہرہ ور ہوجائیں، اسکے جذبے اور عشق کا علم لے کر جب ہم میدان میں نکلیں تو ہماری زبان پر آخری کلمہ یہ ہو کہ رب کعبہ کی قسم ہم تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر سرکٹا کر زندگی کی بازی جیت کر جا رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اور اس کے ساتھیوں کو مزید حسنِ خلوص اور صدق و استقامت عطا فرمائے تاکہ راستے کی سب مشکلات آسان ہوجائیں اور ان کے قدم منزل کی طرف بڑھتے ہی چلے جائیں‘‘۔
فضیلۃ الشیخ الدکتور محمد بن علوی المالکی رحمۃ اللہ علیہ

20 نومبر 1995ء کو مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن پر منعقدہ عالمی علماء ومشائخ کنونشن سے خطبہ صدارت دیتے ہوئے محدث حرم فضیلۃ الشیخ الدکتور السید محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
تحریک منہا ج القران کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا لیکن آج یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو محسوس ہوا کہ حقیقت کے مقابلے میں کم سنا تھا۔ یہ مبارک اور خوشنما ثمرات یقیناً ایک ستھری، زرخیز زمین اور پاکیزہ بیج کا نتیجہ ہیں قائد تحریک صاف نیت اور پاکیزہ حسن کو لیکر نکلے ہیں۔ ان کے ارادے بلند اور جذبے جواں ہیں اس لئے کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں۔ یہ اس چیز اور برکت کا حصہ ہیں جسے اللہ تعالیٰ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر زمانے میں جاری رکھتا ہے۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر برکت کا تسلسل ہے جس میں کبھی انقطاع نہیں آتا۔ جب بھی باطل کی طرف سے فتنہ و فساد آیا حق کی طرف سے اسے ختم کرنے اور ٹھکانے لگانے کے لئے بھی کوئی شخصیت نمودار ہوجاتی رہی۔ ان پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا لطف وکرم اور نظر عنایت ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی جملہ نعمتوں کے قاسم و مختار ہیں۔ یہ تقسیم قیامت تک جاری رہے گی اور حضور سید دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض جاری و ساری رہے گا۔
اس عالمی اجتماع میں شیخ قادری نے آپ کو بہت کار آمد نسخہ بتا دیا ہے یعنی تہجد، جہاد اور اجتہاد کو یکجا کرلو تو تمہارا مقابلہ کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ کاش یہ تینوں صفات آج پھر ہمارے علماء ومشائخ میں پیدا ہوجائیں۔ آج بعض لوگ تہجد بھی پڑھتے ہیں لیکن وہ محض عابد رہتے ہیں علم سے ان کا سروکار نہیں ہوتا۔ بعض علم اور اجتہاد کی کوشش کرتے ہیں تو شب زندہ داری کی خصوصیت ان میں نہیں ہوتی اور اگر یہ دونوں چیزیں پیدا ہوجائیں تو جہاد کا عنصر مفقود ہوتا ہے۔ کئی لوگ تصوف کے گن گاتے ہیں لیکن ان کا دامن علم اور عمل سے خالی ہوتا ہے۔ وہ جہاد سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ اس لئے اگر اس نسخے پر عمل ہوجائے تو کامیابی یقینی ہے۔
علامہ مفتی منیب الرحمٰن (کراچی)

نومبر 1995ء کو مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن میں منعقدہ عالمی علماء ومشائخ کنونشن میں چیئرمین رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان اور نامور عالم دین حضرت علامہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری سرزمین پاک میں یوں تو تمسک بالقرآن کی کئی تحریکوں نے جنم لیا مگر تحریک منہاج القرآن کا امتیازی اعزازیہ ہے کہ تمسک بالقرآن کے لئے اس نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات سے محبت کو لازمی قرار دیا اور یہی اس تحریک کی فکری اساس ہے اور قائد تحریک کے نزدیک کلام الرحمٰن پڑھنے کے لئے اس ذات گرامی کی بارگاہ میں تلمیذ رشید بن کر بیٹھنا ضروری ہے جن کے قلب منیب پر قرآن پاک نازل ہوا۔ کوئی شخص کتنا بڑا عالم ہی کیوں نہ ہو جب تک حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت و اتباع اور غلامی کا پٹہ اپنے گلے میں نہیں ڈالتا اس کا سارا علم غارت جائے گا۔
ابوالبیان علامہ سعید احمد مجددی (گوجرانوالہ)

عالمی علماء ومشائخ کنونشن سے خطیب پاکستان ابوالبیان حضرت علامہ سعید احمد مجددی صاحب (ناظم اعلیٰ سنی جہاد کونسل) نے تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تحریک منہاج القرآن جو ایک عالمگیر، ہمہ جہت، کثیرالمقاصد بین الاقوامی تحریک ہے نے ہر سطح پر عالمگیر غلبہ اسلام اور مصطفوی انقلاب، تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، پاکستان میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ اور مقام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ 1986ء میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار وفاقی شرعی عدالت میں قائد تحریک نے مسلسل تین دن تک طویل بحث کرکے گستاخ رسول کی سزا سے متعلق قرآن وسنت کی روشنی میں یہ قانون پاس کرایا کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرتد ہے اور اس کی سزا موت بصورت حد ہے۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ گستاخانِ رسول کو تلاش کرکے جہاں بھی ملیں واصل جہنم کردے۔ انہوں نے قائد تحریک کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا جو انہوں نے اس موقع پر فرمایا تھا ’’جس امت کی غیرت اس زمین پر گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندہ رہنا گوارا کرتی ہے خدا کی غیرت اس امت کا زمین پر زندہ رہنا گوارا نہیں کرتی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن کے کارکنان، وابستگان پوری دنیا میں تحفظ ناموس رسالت کے امین ہیں اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت وناموس کے تحفظ کی خاطر اپنی گردنیں کٹوانے کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔
ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر

ملک کے معروف دانشور، محقق، عربی زبان کے ماہر، ڈین آف پنجاب یونیورسٹی، پرنسپل اورنٹیل کالج اور ماہرتعلیم جناب پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر صاحب نے عالمی علماء ومشائخ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
تحریک منہاج القرآن بحمداللہ تعالیٰ پاکستان و بیرون پاکستان دعوت و ارشاد کو عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق بہت منظم اندازمیں سرانجام دے رہی ہے۔ اس کے بانی قائد فاضل جلیل علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جس جانفشانی اور محنت سے احیائے اسلام کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں یہ ان پر اللہ کا خاص فضل وکرم ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ میں قادری صاحب سے ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اس دور کا مجدد اور مصلح صحیح معنوں میں وہی ہوگا جو لخت لخت امت کو متحد ومتفق کرے گا کیونکہ ہمیں جتنا نقصان اس وقت فرقہ پرستی نے پہنچایا ہے اتنا اور کسی چیز نے نہیں پہنچایا۔ تحریک منہاج القرآن کو اتحاد امت کی نہ صرف دعوت دینی چاہئے بلکہ عملاً پیش رفت بھی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارا نظام تعلیم تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ میں بطور ڈین یونیورسٹی اور پرنسپل اورنٹیل کالج پوری دیانت کے ساتھ یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ہمارے سرکاری و نیم سرکاری ادارے قوم کی تعمیر میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے یہاں سیاست، غنڈہ گردی اور ہلڑ بازی نے تعلیم کے ماحول کو بری طرح تباہ و برباد کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں ہماری نظریں ایسے ہی دینی اداروں پر پڑتی ہیں جہاں محنت خلوص اور درد کے ساتھ اساتذہ اور طلباء ایک خاص تعلیمی ماحول میں مطلوبہ معیار کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے منہاج القرآن اسلامک یونیورسٹی کا تعلیمی نصاب اور اس کا تربیتی نظام قابل رشک بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ اللہ کرے یہاں کے فارغ التحصیل لوگ آگے چل کر صحیح معنوں میں امت کی راہنمائی کا فریضہ نبھا سکیں۔
علامہ صاحبزادہ ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر (سندھ)

عالمی علماء ومشائخ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صوبہ سندھ کی معروف علمی و روحانی شخصیت ابوالخیر علامہ صاحبزادہ ڈاکٹر محمد زبیر نے کہا کہ پاکستان میں یوں تو سینکڑوں تنظیمیں ہیں لیکن تحریک منہاج القرآن کی مقبولیت اور پذیرائی کا گراف ان سے مختلف ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی اساس، محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اس لئے کہ دامن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ میں رہے تھ سب کچھ ملتا ہے۔ یہ سعادت چھوٹ جائے تو انسان کہیں کا نہیں رہتا۔ علم بھی اور عمل بھی تب کسی کام کے ہیں جب محبت و عشق کی آمیزش ہو، کامیابی کا راستہ وہی ہے جو مدینہ کی گلیوں سے گزر کر جاتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی سرپرستی کرنے والے ماشاء اللہ سب ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں اس لئے اس کی کامیابی یقینی ہے۔
حضرت علامہ مولانا محمد مقصود احمد قادری

خطیب مرکزی جامع مسجد دربار حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ استاذ العلماء حضرت علامہ مولانا محمد مقصود احمد قادری نے عالمی علماء ومشائخ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تحریک منہاج القرآن اور پاکستان کی دیگر تحریکات میں واضح فرق یہ ہے کہ اس تحریک کی اساس و بنیاد عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ اور حب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوت جگانا ہے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے عشق کی خوشبو ایسی ہے جہاں بھی مہک رہی ہو لوگ کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی تحریک عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی اساس بنائے بغیر کامیابی سے ہرگز ہمکنار نہیں ہوسکتی اور اس تحریک کا کوئی بھی ورکر اس وقت تک صحیح اور مخلص ورکر نہیں بن سکتا جب تک اس کے سینے میں غازی علم الدین شہید رحمۃ اللہ علیہ جیسا جذبہ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ایک سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور اس تحریک کا خمیر بھی عشق رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اٹھا ہے لہذا وہ تمام مشائخ و علمائے کرام جو حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ حاضری دیتے ہیں ان سے میری درخواست ہے کہ وہ تحریک منہاج القرآن کے ساتھ دامے درمے قدمے سخنے تعاون فرمائیں اور اس تحریک کی سرپرستی کریں۔
(بحوالہ عالمی علماء ومشائخ کنونشن 20 نومبر1995ء)
حضرت علامہ مفتی حافظ محمد عالم

شہر اقبال سیالکوٹ کے نامور اورمعروف بزرگ عالم دین استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی حافظ محمد عالم نے عالمی علماء ومشائخ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
اب باہمی نزاعات اور انتشار میں الجھنے کا وقت نہیں اب کفر ہمارے گھروں میں دندناتا پھرتا ہے اسلام کو ہر سمت سے دبایا جا رہا ہے اس لئے اے علماء ومشائخ! اٹھو اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس کی بقاء و سربلندی کے لئے سرگرم ہوجاؤ۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ جو میرا شاگرد مجھ سے محبت کرتا ہے وہ منہاج القرآن کے ساتھ محبت و تعاون کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہم علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کی ہمت، جرات اور محنت و مشقت کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
حضرت علامہ مولانا عبدالرؤف (جنوبی افریقہ)

جنوبی افریقہ میں سلسلہ چشتیہ سلیمانیہ کے سجادہ نشین اور پرجوش نوجوان شخصیت حضرت علامہ مولانا عبدالرؤف نے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان کا ہر شخص اپنی قسمت پر ناز کرے کہ انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسی ہمہ پہلو شخصیت سے نوازا ہے جو ایک وقت میں صوفی، مجاہد، مجتہد، مقنن، مبلغ اور داعی بھی ہے۔ جو باطل طاغوتی غنڈوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے اور عالم اسلام میں یہ واحد ایسی شخصیت ہیں جو UN میں مسلمانان عالم کی صحیح نمائندگی کرسکتے ہیں قائد تحریک کا جو مقام اور عزت ساؤتھ افریقہ کے مسلمانوں کے دلوں میں ہے وہ شاید یہاں نہیں۔ یہ ہماری عقیدتوں کے مرکز ہیں۔ ہم نے بہت روحانی اور مذہبی رہنماؤں کو دیکھا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب جس لگن اور خلوص سے دین کا کام کرتے ہیں وہ اس دور میں کسی اور کے حصے میں نہیں آیا اس لئے ہم اپنی پوری صلاحیتیں تحریک کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ ان شاء اللہ ساؤتھ افریقہ میں اب تحریک کی دعوت پہلے سے بھی بڑھ کر ہوگی اور وہاں اسلام مضبوط بنیادوں پر انسانیت کی راہنمائی کرے گا۔
محدثِ شام فضیلۃ الشیخ السید محمد الیعقوبی

ملک شام کے عظیم محدث فضیلۃ الشیخ حضرت السید محمد الیعقوبی جو 2004ء میں تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام عالمی میلاد کانفرنس میں شرکت کے لئے شام سے خصوصی طور پر تشریف لائے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا۔
’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تحریک منہاج القرآن کے مرکز اور اس کے تحت ہونے والی شاندار سالانہ عالمی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس میں شرکت کا موقع فراہم فرمایا۔ اس تحریک کے بانی و سرپرست اعلیٰ مفکر اسلام حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ملاقات اور ان کی زیارت بھی میرے لئے باعث سعادت ہے۔ مجھے خاص طور پر تحریک کے مخلص قائدین اور تحریک کے وابستگان کو دیکھ کر بہت روحانی مسرت ہوئی ہے۔ جن کے دلوں میں حضور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھری ہوئی ہے اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ نعمت انہیں محترم ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے طفیل نصیب ہوئی ہے۔
مجھے ڈاکٹر صاحب کے آثار علمی جن میں ان کی کتب اور ان کے اداروں سے فارغ ہونے والے کثیر طلباء ہیں جنہیں دیکھ کر دلی اطمینان اور خوشی ہوئی۔ یہاں سارے ادارے، لائبریریاں، دفاتر اور شعبے قابل تقلید اور قابل رشک انداز سے خدمت دین میں محو ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یہاں ڈاکٹر صاحب کے علم و فکر کو قد آور اور مفید پھلدار درخت کی طرح دیکھا ہے جس پر ہمہ وقت اللہ کے فضل وکرم سے فصلِ بہار کا اثر دکھائی دے رہا ہے۔
فضیلۃ الشیخ احمد دیدات (ساؤتھ افریقہ)

ساؤتھ افریقہ سے عالم اسلام کے نامور سکالر فضیلۃ الشیخ احمد دیدات نے مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن میں قائد تحریک سے ملاقات کے بعد سیکرٹریٹ کے شعبہ جات کے وزٹ کے موقع پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے فرمایا۔
’’میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی احیاء اسلام اور دین کی سربلندی کے لئے کی جانے والی کاوشوں اور خدمات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں نے دنیا بھر میں کوئی بھی تنظیم یا تحریک، تحریک منہاج القرآن سے بہتر منظم اور مربوط نہیں دیکھی۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور ان کی تنظیم، اسلام کے احیاء اور سربلندی کے لئے صحیح سمت پر گامزن ہیں۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ملاقات اور ادارہ منہاج القرآن کا وزٹ میرے لئے باعث مسرت ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی اسلام کے لئے کی جانے والی کاوشوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔
حضرت الشیخ العلامہ عبداللہ بخاری (دہلی)

ہندوستان کے معروف عالم دین اور شاہی مسجد دہلی کے خطیب/ امام حضرت علامہ الشیخ محمد عبداللہ بخاری نے مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن کے وزٹ کے بعد اپنے تاثرات میں فرمایا۔
’’منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں تحریک کے شعبہ جات اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات کو دیکھ کر مجھے نہایت خوشی حاصل ہوئی اور اطمینان ملا جسکو الفاظ میں بیان کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس ادارے کے علمی کام کا کچھ حصہ ہمیں بھی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم ادارے کو مزید عروج اور سربلندی سے نوازے اور امت مسلمہ عالمی سطح پر اس ادارے سے مستفید ہو اور علم و آگہی کی پیاس اس ادارہ کے ذریعے بجھتی رہے۔ ‘‘
فضیلۃ الشیخ محمد ابوالخیر الشکری

ملک شام سے تشریف لائے ہوئے معزز مہمان معروف سکالر فضیلۃ الشیخ محمد ابوالخیر الشکری نے عالمی میلاد کانفرنس سے اپنے خطاب میں تمہیدی گفتگو کرتے ہوئے فرمایا۔
’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور درود و سلام ہو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام صحابہ پر۔ مجھے سوریا (شام) کے اجل علماء جن میں فضیلۃ الشیخ العالم الفقیہہ الحنفی الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی اور فضیلۃ الشیخ الدکتور شہاب الدین احمد صالح الفرفور کی صحبت میں انٹرنیشنل تحریک منہاج القرآن کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اور ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی عظیم کانفرنس میں شریک ہوئے اور اس طرح کی میلاد کانفرنس میں ہم آج تک شریک نہیں ہوسکے تھے اور نہ ہی اس طرح کے عظیم اجتماع کے بارے میں ہم نے سن رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کا دورہ بھی کیا اور تحریک کے تمام شعبہ جات جن میں جامعہ منہاج القرآن، گرلز کالج اور تحفیظ القرآن ماڈل سکول بھی شامل ہیں سب کا تفصیلی دورہ کیا۔ ان تمام چیزوں کے مشاہدے نے ہمارے سینوں کو ٹھنڈا اور ہمارے دلوں کوفرحت بخشی اور ہمیں اس تمام نیٹ ورک کے پیچھے بہت زیادہ کاوشیں کار فرما نظر آئیں۔ جس کی مثال عالم اسلام میں نہیں ملتی۔
ہمارے اس وزٹ کا ماحصل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیارت ہے۔ ان کی شکل میں ہم نے ایک سچے عالم اور ایک عظیم لیڈر کی جھلک دیکھی وہ ایسے محقق ہیں جن کی مثال آج کی مسلم دنیا میں یقیناً نہیں ملتی۔ ہماری اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ وہ تحریک منہاج القرآن اور اس کے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو حفظ و امان میں رکھے اور جو عنایت، محبت اور شفقت انہوں نے ہمیں عطا کی ہے اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر اپنے خزانہ خاص سے عطا فرمائے۔ ہماری یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے خوابوں کی تکمیل فرمائے۔ آمین
فضیلۃ الشیخ حضرت اسعد محمد سعید الصاغرجی

ملک شام کے اجل عالم دین، فقیہہ اور شیخ الحدیث فضیلۃ الشیخ حضرت اسعد محمد سعید الصاغرجی نے عالمی میلاد کانفرنس میں شرکت کے بعد اپنے تاثرات میں فرمایا۔
’’تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور درود و سلام ہو ہمارے آقا ومولیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر۔ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پاک کی یاد میں منعقد کی جانے والی عالمی میلاد کانفرنس میں شرکت کی غرض سے حاضر ہوئے۔ ہم نے منہاج القرآن کے مختلف شعبہ جات اور سرگرمیوں کو ملاحظہ کیا تو ہماری عقل دنگ رہ گئی۔ خاص طور پر اس دینی تحریک کا نیٹ ورک اور Management جس کی سرپرستی اور رہنمائی خود شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کر رہے ہیں یہ یقیناً قابل رشک ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں عمر دراز عطا کرے اور ان کے وجود مسعود سے مسلمانوں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچائے۔ ہم یہ تمنا کرتے ہیں کہ منہاج القرآن کی پوری دنیا میں شاخیں ہوں اور ہماری یہ خواہش ہے کہ ہم بھی اس تحریک کے سپاہی بن کر خدمت کا فریضہ ادا کریں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کی عمر دراز فرمائے اور اسلام کے لئے شیخ الاسلام کے نیک ارادوں کو پورا فرمائے اور اپنے اس قول لِیُظْہِرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْن کے مصداق اسلام کو غالب و فائق کردے۔
سابق خطیب بادشاہی مسجد مولانا عبدالقادر آزاد

بادشاہی مسجد کے سابق خطیب اور داعی اتحاد بین المسلمین محترم مولانا عبدالقادر آزاد نے دی منہاج یونیورسٹی کے وزٹ کے موقع پر اپنے تاثرات میں کہا کہ مجھے آج جامعہ منہاج القرآن میں حاضری کا موقع ملا اور یہاں قدیم و جدید علوم کا حسین امتزاج دیکھ کر امید پیدا ہوئی کہ دنیا بھر میں اسلام کی برتری کی موجودہ تحریک میں یہ ادارہ گرانقدر خدمات سرانجام دے گا۔ اس پر ادارہ کے بانیِ مفکر اسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جملہ اساتذہ وطلباء اور معاونین قابل مبارک باد ہیں۔
http://minhajulquran.wordpress.com/2007/04/30/ڈاکٹر-طاہر-القادری-علماء-و-مشائخ-کی-ںظر/
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top