ساحر لدھیانوی

مسافر

محفلین
بابل کی دعائیں لیتی جا

بابل کی دعائیں لیتی جا
فلم : نیل کمل (1968 ء)
موسیقار : روی
کاسٹ : راج کمار ، وحیدہ رحمٰن
گلوکار : رفیع

بابل کی دعائیں لیتی جا ، جا تجھ کو سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے
بابل کی دعائیں ۔۔۔

نازوں سے تجھے پالا میں نے کلیوں کی طرح پھولوں کی طرح
بچپن میں جھلایا ہے تجھ کو بانہوں نے میری جھولوں کی طرح
میرے باغ کی اے نازک ڈالی ، تجھے ہر پل نئی بہار ملے
بابل کی دعائیں ۔۔۔

جس گھر میں بندھے ہیں بھاگ تیرے اُس گھر میں سدا تیرا راج رہے
ہونٹوں پہ ہنسی کی دھوپ کھلے ، ماتھے پہ خوشی کا تاج رہے
کبھی جس کی جوت نہ ہو پھیکی تجھے ایسا روپ سنگھار ملے
بابل کی دعائیں ۔۔۔

بیتیں تیرے جیون کی گھڑیاں آرام کی ٹھنڈی چھاؤں میں
کانٹا بھی نہ چبھنے پائے کبھی ، میری لاڈلی تیرے پاؤں میں
اُس دوار سے بھی دکھ دور رہیں جس دوار سے تیرا دوار ملے
بابل کی دعائیں ۔۔۔​
 
مدیر کی آخری تدوین:

مسافر

محفلین
اے میری زہرہ جبیں

اے میری زہرہ جبیں
فلم : وقت (1965 ء)
موسیقار : روی
کاسٹ : بلراج ساہنی ، سنیل دت ، راجکمار
گلوکار : منا ڈے

اے میری زہرہ جبیں
تجھے معلوم نہیں
تُو ابھی تک ہے حسیں
اور میں جواں
تجھ پہ قربان میری جان میری جان
اے میری ۔۔۔

یہ شوخیاں یہ بانکپن
جو تجھ میں ہے کہیں نہیں
دلوں کو جیتنے کا فن
جو تجھ میں ہے کہیں نہیں
میں تیری
میں تیری آنکھوں میں پا گیا دو جہاں
اے میری ۔۔۔

تُو میٹھے بول جانِ من
جو مسکرا کے بول دے
تو دھڑکنوں میں آج بھی
شراب رنگ گھول دے
او صنم
او صنم میں میں تیرا عاشقِ جاوداں
اے میری ۔۔۔​
 
مدیر کی آخری تدوین:

مسافر

محفلین
بچے من کے سچے

بچے من کے سچے
فلم : دو کلیاں (1968 ء)
موسیقار : روی
کاسٹ : بسواجیت ، مالا سنہا
گلوکارہ : لتا

بچے من کے سچے
ساری جگ کے آنکھوں کے تارے
یہ وہ ننھے پھول ہیں جو
بھگوان کو لگتے پیارے

خود روٹھے ، خود من جائے ، پھر ہمجولی بن جائے
جھگڑا جس کے ساتھ کریں ، اگلے ہی پل پھر بات کریں
ان کی کسی سے بیر نہیں ، ان کے لیے کوئی غیر نہیں
ان کا بھولا پن ملتا ہے ، سب کو بانہہ پسارے
بچے من کے سچے ۔۔۔

انسان جب تک بچہ ہے ، تب تک سمجھ کا کچا ہے
جوں جوں اُس کی عمر بڑھے ، من پر جھوٹ کا میل چڑھے
کرودھ بڑھے ، نفرت گھیرے ، لالچ کی عادت گھیرے
بچپن اِن پاپوں سے ہٹ کر اپنی عمر گزارے
بچے من کے سچے ۔۔۔

تن کومل من سندر
ہیں بچے بڑوں سے بہتر
ان میں چھوت اور چھات نہیں ، جھوٹی ذات اور پات نہیں
بھاشا کی تکرار نہیں ، مذہب کی دیوار نہیں
ان کی نظروں میں ایک ہیں ، مندر مسجد گردوارے
بچے من کے سچے ۔۔۔​
 
مدیر کی آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
نہ منہ کو چھپا کے جئے ہم، نہ سر جھکا کے جئے

نہ منہ کو چھپا کے جئے ہم، نہ سر جھکا کے جئے
ستمگروں کی نظر سے نظر ملا کے جئے

اب ایک رات اگر کم جئے، تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں‌جلا کے جئے​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
رات بھر کا ہے مہماں‌ اندھیرا

رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا
کس کے روکے رکا ہے سویرا

رات جتنی بھی سنگین ہوگی
صبح اتنی ہی رنگین ہوگی

غم نہ کر گر ہے بادل گھنیرا
کس کے روکے رکا ہے سویرا

لب پہ شکوہ نہ لا، اشک پی لے
جس طرح‌بھی کو کچھ دیر جی لے

اب اکھڑنے کو ہے غم کا ڈیرا
کس کے روکے رکا ہے سویرا

یوں‌ ہی دنیا میں‌ آکر نہ جانا
صرف آنسو بہا کر نہ جانا

مسکراہٹ پہ بھی حق ہے تیرا
کس کے روکے رکا ہے سویرا​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
میرے گیت تمھارے ہیں

اب تک میرے گیتوں‌میں امید بھی تھی پسپائی بھی
موت کے قدموں‌کی آہٹ بھی، جیون کی انگڑائی بھی
مستقبل کی کرنیں بھی تھیں، حال کی بوجھل ظلمت بھی
طوفانوں کا شور بھی تھا، اور خوابوں کی شہنائی بھی

آج سے میں اپنے گیتوں میں آتش پارے بھردوں گا
مدھم، لچکیلی تانوں میں جیوٹ دھارے بھر دوں گا
جیون کے اندھیارے پتھ پر مشعل لے کر نکلوں‌گا
دھرتی کے پھیلے آنچل میں سرخ ستارے بھر دوں‌گا

آج سے اے مزدورو کسانو! میرے راگ تمہارے ہیں
فاقہ کش انسانو! میرے جوگ بہاگ تمہارے ہیں
جب تک تم بھوکے ننگے ہو، یہ شعلے خاموش نہ ہوں گے
جب تک بے آرام ہو تم، یہ نغمے راحت کوش نہ ہوں‌گے

مجھ کو اس کا رنج نہیں ہے، لوگ مجھے فنکار نہ مانیں
فکر و سخن کے تاجر، میرے شعروں کو اشعار نہ مانیں
میرا فن، میری امیدیں، آج سے تم کو ارپن ہیں
آج سے میرے گیت تمہارے دکھ اور سک کا درپن ہیں

تم سے قوت لے کر اب میں‌ تم کو راہ دکھاؤں گا
تم پرچم لہرانا ساتھی، میں بربط پر گاؤں گا
آج سے میرے فن کا مقصد زنجیریں پگھلانا ہے
آج سے میں شبنم کے بدلے انگارے برساؤں گا​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
امید

وہ صبح کبھی تو آئے گی

ان کالی صدیوں کے سر سے، جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے، جب دکھ کا ساگر چھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمے گائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

جس صبح‌ کی خاطر جگ جگ سے، ہم سب مر مر کر جیتے ہیں
جس صبح‌ کے امرت کی دھن میں‌ ہم زہر کے پیالے پیتے ہیں
ان بھوکی پیاسی روحوں‌ روحوں پر اک دن تو کرم فرمائے گی

وہ صبح‌کبھی تو آئے گی

مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں‌کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں‌کی عزت جب جھوٹے سکوں‌ میں‌ نہ تولی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

دولت کے لیے جب عورت کی عصمت کو نہ بیچا جائے گا
چاہت کو نہ کچلا جائے گا، غیرت کو نہ بیچا جائے گا
اپنے کالے کرتوتوں پر جب یہ دنیا شرمائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

بیتیں ‌گے کبھی تو دن آخر یہ بھوک کے اور بیکاری کے
ٹوٹیں گے کبھی تو بت آخر دولت کی اجارہ داری کے
جب ایک انوکھی دنیا کی بیناد اٹھائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

مجبور بڑھاپا جب سونی راہوں‌کی دھول نہ پھانکے گا
معصوم لڑکپن جب گندی گلیوں‌ میں‌ بھیک نہ مانگے گا
حق مانگنے والوں کو جس دن سولی نہ دکھائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

فاقوں کی چتاؤں پر جس دن انساں نہ جلائے جائیں گے
سینوں کے دہکتے دوزخ میں ارماں نہ جلائے جائیں گے
یہ نرک سے بھی گندی دنیا، جب سورگ بنائی جائے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
یقین

وہ صبح‌ ہمیں سے آئے گی۔۔۔۔۔۔

جب دھرتی کروٹ بدلے گی، جب قید سے قیدی چھوٹیں گے
جب پاپ گھروندے پھوٹیں گے، جب ظلم کے بندھن ٹوٹیں گے
اس صبح کو ہم ہی لائیں گے، وہ صبح ہمیں سے آئے گی

وہ صبح ہمیں‌سے آئے گی

منحوس سماجی ڈھانچوں میں جب ظلم نہ پالے جائیں گے
جب ہاتھ نہ کاٹے جائیں‌گے، جب سر نہ اچھالے جائیں گے
جیلوں‌کے بنا جب دنیا کی سرکار چلائی جائے گی

وہ صبح ہمیں‌سے آئے گی

سنسار کے سارے محنت کش کھیتوں‌سے ملوں‌ سے نکلیں گے
بے گھر، بے در، بے بس انساں تاریک بلوں سے نکلیں گے
دنیا امن اور خوشحالی کے پھولوں‌سے سجائی جائے گی

وہ صبح ہمیں‌سے آئے گی​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
تو کیا ہو

وجہہ بے رنگی گلزار کہوں تو کیا ہو
کون ہے کتنا گہنگار کہوں تو کیا ہو

تم نے جو بات سربزم نہ سننا چاہی
میں وہی بات سردارِ کہوں تو کیا ہو​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
بڑی طاقتیں

تم ہی تجویزِ صلح لاتے ہو
تم ہی سامانِ جنگ بانٹتے ہو

تم ہی کرتے ہو قتل کا ماتم
تم ہی تیر و تنفگ بانٹتے ہو​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
خون پھر خون ہے

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

خاکِ صحرا پہ جمے یا کفِ قاتل پہ جمے
فرقِ انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغِ بیداد پہ، یا لاشہ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں‌کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اوڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ

تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں‌سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں‌ سے

ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے​
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
خوبصورت موڑ

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
یہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے

تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوئے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں‌کے سائے ہیں

تعارف روگ ہو جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے تکمیل تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ‌دے کر چھوڑنا اچھا

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
آؤ کہ کوئی خواب بنیں

آؤ کہ کوئی خواب بنیں، کل کے واسطے
ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دور کی
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے، کہ جان و دل
تاعمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں

گو ہم سے بھاگتی رہی یہ تیز گام عمر
خوابوں کے آسرے پہ کٹی ہے تمام عمر

زلفوں‌کے خواب، ہونٹوں‌کے خواب، اور بدن کے خواب
معراجِ فن کے خواب، کمالِ فن کے خواب
تہذیبِ زندگی کے، فروغِ وطن کے خواب
زنداں‌کے خواب، کوچہ دارو سن کے خواب

یہ خواب ہی تو اپنی جوانی کے پاس تھے
یہ خواب ہی تو عمل کی اساس تھے
یہ خواب، مر گئے ہیں تو بے رنگ ہے حیات
یوں ہے کہ جیسے دستِ تہہِ سنگ ہے حیات

آؤ کہ کوئی خواب بنیں، کل کے واسطے
ورنہ یہ رات، آج کے سنگین دور کی
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل
تا عمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں​
 
آخری تدوین:
Top