نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت

قیصرانی

لائبریرین
جیو اور جنگ کے مطابق نواب اکبر بگٹی کو کوہلو کے علاقے میں سکیورٹی فورسز سے فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک کر دیا گیا۔ یہ کاروائی سیٹلائیٹ فون کی وجہ سے ہوسکی۔

اس پر کوئی تبصرہ جات؟
 

زیک

مسافر
ایک باب ختم ہوا اگلے باب کا آغاز ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل حال سے برا ہو گا؟
 

زیک

مسافر
وہاب نے بھی ایک تھریڈ شروع کی تھی جو یہاں کاپی کر رہا ہوں۔

وہاب اعجاز خان نے کہا:
ابھی خبروں میں سنا کہ نواب اکبر خان بگٹی کو ایک اپریشن میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس اپریشن میں ان کے پوتے بھی ہلاک ہوئے اور اس کے علاوہ مری قبیلے کی کچھ اہم شخصیات کے ہلاک ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس واقعے کے بعد بلوچستان کے حالات سدھر جائیں گے یا بلوچستان میں مزید مزاحمت میں اضافہ ہوگا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جی، ویسے نیا باب پہلے سے مشکل تو ہو سکتا ہے برا نہیں۔ لیکن میں تھوڑی دیر بعد کمنٹ کروں گا۔

یہ پوسٹ ایڈٹ ہونے سے پہلے کچھ اس طرح سے تھی

[s:2b7b236cef]وہاب والی پوسٹ کا لنک اگر دے دیں تو[/s:2b7b236cef]
 
دراصل ایک ایسے وقت میں جب پہلے ہی چھوٹے صوبوں کی اعتبار مرکز پر سے کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اس قسم کے واقعات کے ذریعے ہماری فوجی حکومت کیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہی۔ مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ بگٹی کیسا آدمی تھا۔مجھے بس سروکار ہے بلوچستان کے حالات سے جو کہ مزید خراب ہوں گے۔ دراصل ہر مسئلے کا علاج گولی نہیں جو کہ ہم پر اکہتر میں ثابت ہوچکی ہے لیکن ہماری فوجی حکومتیں پھر بھی اس قسم کے حرکات سے پاکستان کی سالمیت کے لیے ہمیشہ سے خطرات پیدا کرتی آئی ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بات بہت دور تک جاتی ہے۔ صوبائی حوالے سے پسماندگی، ترقی کا نہ ہونا، ابھی بھی وہ لوگ زمانہ قدیم کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مانا کہ قبائلی سرداری نظام کا اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے، لیکن حکومت کس مرض کی دوا ہے؟ کیا وہاں کے لوگوں کو صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات سے فائدہ نہیں‌ملے گا؟ اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں، جو ابھی مزید ایک دو دنوں میں‌ لکھوں گا۔ وکی پر بھی بہت کچھ موجود ہے نواب اکبر بگٹی کے بارے میں
 
دراصل جو سردار حکومت کے کمیپ ہیں انھیں بھرپور آزادی ہے وہ جو کچھ کرتے پھریں۔ مگر جو حکومت مخالف ہیں وہ ظالم بھی ہیں اور ترقی کے دشمن بھی۔
 

جیسبادی

محفلین
آج کل ساری دنیا میں یہی چل رہا ہے۔ کسی کو قتل کرنا ہو، تو پہلے اسے ٹیررسٹ قرار دو۔ اس کے بعد واردات میں ہائی ٹیکنالوجی استعمال کرو، مثلاً،ٹینک شکن میزائیل ایک بندے کو مارنے کے لیے، ڈرون طیارے، سیٹلائٹ گائڈانس۔ لوگوں کے گھر مسمار کر دو۔ اس طرح کی کاروائیوں پر دنیا بھر میں عوام بہت داد دیتی ہے، جس طرح فلم پر داد دی جاتی ہے (کم از کم اخبارات میں یہی بتایا جا رہا ہے)۔
 

ساجداقبال

محفلین
میراسوال صرف اتنا ہے کہ کیا بگٹی مرکز میں بیٹھے دولت کے بھوکوں سے بڑھ کر ظالم تھا؟ جو عوام سے آخری نوالہ تک چھین رہے ہیں۔ کیا وہ پنجاب کی چوہدری برادران سے بھی بڑھ کر ظالم تھا جو چینی بھی سونے کے بھاؤ بیچ رہے ہیں۔میں بگٹی کو شہید ہے کہوں گا۔
 

دوست

محفلین
بگٹی اچھا تھا یا برا۔
یہ اچھا نہیں کیا مشرف اور اس کے حواریوں نے۔ ابھی صرف چند علاقوں میں‌ ہنگامے پھوٹے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ دراز ہوگیا تو کب تک بندوق کی نوک پر لوگوں کو قابو کرسکیں‌گے یہ حکومت والے۔
کاش سیاستدان اسی مسئلے پر متحد ہوکر حکومت کے خلاف تحریک چلائیں۔
 
جواب

دوستو ویسے بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ یہ کیسا دہشت گرد تھا جس کے سوگ میں پورا بلوچستان شٹرڈاون ہے۔ اور لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ کہیں تھانے جلائے جار ہے ہیں تو کہیں بسیں۔

اکبر بگٹی کی موت سے ایک بات واضح ہوگئی ہے۔ کہ صوبوں کے حقوق اور پاکستان کے استحکام کی بات کرنے والے ہر ایک پاکستانی کو ایک نہ ایک دن گولی سے اڑا دیا جائے۔ گا۔ شاید مجھے بھی اور شاید آپ کو بھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بی بی سی نے یہ لکھا ہے

بلوچستان میں فوجی کاروائی شروع ہوجانے کے بعد پاکستان میں حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں اکثر یہ تبصرہ کرتی آئی ہیں کہ ان حالات سے مشرقی پاکستان کے حالات کی بو آتی ہے جو انیس سو اکہتر میں ملک سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔

تاہم جس طرح اب تک اسلام آباد کے ریاستی اداروں نے بلوچستان میں شدت پسند قوم پرست تحریک کے خلاف کاروائیاں کی ہیں وہ بنگلہ دیش میں کی گئی فوجی کاروائی سے خاصی مختلف ہے۔

بنگلہ دیش میں پاکستان فوج نے عسکریت پسند بنگالی قوم پرستوں کے خلاف تو کاروائی کی لیکن بنگال قوم پرست سیاسی قیادت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ بنگالی رہنما مجیب الرحمن اگرتلہ سازش کیس میں جیل میں تھے لیکن جنرل یحییٰ خان نے انہیں قید سے رہا کردیا تھا۔

بلوچستان میں ایسا نہیں ہورہا۔ یہاں ریاستی اداروں نے عسکریت پسندوں سے صلح کی کوشش کی ہے۔ آئے دن ایسے مقامی بلوچ سرداروں کی خبریں آتی ہیں جنہوں نے عسکریت پسندوں کا ساتھ چھوڑ کر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

دوسری طرف، مشتبہ عسکریت پسندوں سے کوئی رعایت نہیں برتی گئی۔ انہیں عدالت جانے کی مہلت بھی نہیں دی جاتی۔ گزشتہ دو برسوں میں درجنوں بلوچ قوم پرست لاپتہ ہوچکے ہیں۔

اکبر بگٹی پر پہلے میزائیل کے ناکام حملہ اور اب ان کی ہلاکت سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ریاستی ادارے عسکری تحریک کا سرچشمہ سمجھے جانے والے بلوچ سیاسی قیادت کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔

گویا قوم پرست اور مرکز گریز تحریکوں کے مسلح کارکن ہی نہیں بلکہ اس تحریک کی مرکزی قیادت کا خاتمہ بھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اکبر بگٹی اس نئی پالسی کا پہلا نشانہ کہے جاسکتے ہیں۔

لنک یہ ہے
 

زیک

مسافر
قیصرانی نے کہا:
بی بی سی نے یہ لکھا ہے

بنگلہ دیش میں پاکستان فوج نے عسکریت پسند بنگالی قوم پرستوں کے خلاف تو کاروائی کی لیکن بنگال قوم پرست سیاسی قیادت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ بنگالی رہنما مجیب الرحمن اگرتلہ سازش کیس میں جیل میں تھے لیکن جنرل یحییٰ خان نے انہیں قید سے رہا کردیا تھا۔
لنک یہ ہے

مشرقی پاکستان میں 25 مارچ 1971 کو فوجی آپریشن کا آغاز سیاسی قیادت کو گرفتار کرنے ہی سے کیا گیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمان کو اس وقت گرفتار کر کے مغربی پاکستان بھیج دیا گیا تھا اور بنگلہ‌دیش بننے کے بعد ہی چھوڑا گیا۔ عوامی لیگ کی کچھ قیادت گرفتار کی گئی اور باقی روپوش ہو گئی تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جی، مگر بی بی سی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رہنماؤں کے قتل اور گرفتاری والا فرق ہے۔ یعنی اکہتر میں رہنما گرفتار کیے گئے جبکہ کاروائی میں کارکنوں کو قتل کیا گیا۔ جبکہ ابھی لیڈرز کو قتل کرنے پر زور ہے
 
لیکن حکومت شاید بھول رہی ہے کہ ایسے اقدامات سے عام بلوچ کے ذہن پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان لیڈروں کے قتل سے تو میرے خیال میں بنگلہ دیش سے بھی برے حالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ اگرعوام ایسے واقعات سے متاثر ہو کر آہستہ آہستہ احساس کمتری کا شکار ہو کر بندوق اٹھاتے رہے تو پھر فوجی حکومت کس کس لیڈر کو گولی مارے گی۔ پھر تو ہر گلی سے ایک لیڈر پیدا ہوگا۔ اور اب تو یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ پاک فوج نے اکبر بگٹی کو نہیں مارا بلکہ پنجاب لبریشن آرمی والوں نے اکبر بگٹی کو ہلاک کیا ہے۔ یعنی فوج کے لیے اب کھلم کھلا پنجاب کا ٹپہ ایک بار پھر استعمال ہونے لگا ہے۔ صوبائی تعصب میں ایسے حالات میں اضافہ ہوگا ۔ اور ملک شدید انتشار کا شکار ہوسکتا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
درست کہا۔ لیکن یہاں آکر موقف بدل جائے گا۔ کیونکہ ایم ایم اے کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے حکومت کا ساتھ دینا ہے، اس کے علاوہ ایم کیو ایم بھی اس پر حکومت کا ساتھ دے گی۔ اس طرح مسئلہ خراب ہونے سے بچ جائے گا۔ لیکن بلوچستان کی قسمت ویسے ہی سوئی رہے گی

مسئلہ یہ ہے کہ بحیثیت انسان اکبر بگٹی کا ذاتی کردار ان کی قومی یا رہنما کی حیثیت کو متائثر کرتا ہے۔ تو اس طرح سے آراء تبدیل ہوتی جائیں گی۔ لیکن آپ پاکستان میں ہو، آپ لوگ صورتحال کو بہتر جج کر سکتے ہو
 

دوست

محفلین
مشرف ان سب سے دو ہاتھ آگے ہے۔
اس کو حواری بھی سب سے زیادہ خوشامدی ملے ہیں مجال ہے جو ذرا بھی سانس نکالی ہوکسی نے اس واقعے پر۔
لیکن سوال یہ ہے حکومت ان کو مطمئن کیوں نہیں کرتی۔
خود ہم یہ چاہتے ہیں کہ بلوچوں کو مطمئن کیا جائے جس طرح کا اطمینان وہ چاہیں ضمانت چاہیں مہیا کی جائے۔ آخر زمین تو ان کی ہے نا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہی تو بات ہے، اگر وسائل کے مطابق پیسے دینے پڑے تو حکومت کا نظام بند ہو جائے گا کیونکہ یہ نہ تو اسٹیبلیشمنٹ کو قبول ہے اور نہ ہی سیاستدانوں کو۔ رہی عوام، تو اس کو کون پوچھتا ہے
 
چاہے کچھ بھی ہو لیکن اس واقعے سے بلوچستان اور سندھ میں‌علیحدگی کی تحریک کو بہت ہی زیادہ ہوا ملے گی۔ امریکن تھنکرس ٹینک نے جس دن اکبر بگٹی کی شہادت ہوئی اُسی دن پاکستان کا نیا نقشہ جاری کیا تھا۔ جس میں‌سندھ اور بلوچستان کو الگ آزاد ملک کی حیثیت میں دکھایا گیا ہے۔
اگر ایک نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو یہی سب کے لئے اچھا رہے گا۔ کیونکہ جب سے پاکستان بنا ہے یہاں پر بالادستی پنجاب کی ہے۔ فوج میں اگر دیکھا جائے تو ہر طرف پنجابی ہی پنجابی نظر آئے گا۔ حکومت میں دیکھا جائے تب بھی پنجابی! اصل میں پاکستان کا مطلب پنجاب اور پنجاب کا مطلب پاکستان ہے۔ یہاں پر چھوٹے صوبوں کی کوئی اہمیت نہیں‌ ہے۔اور پنجاب کے حکمران سندھ اور بلوچستان کے کسی بھی مطالبے کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ سندھی کئی سالوں سے تھل کئنال کی مخالفت کرتے آئے لیکن پھر بھی وہ بنادیا گیا، کسی سے پوچھے بغیر!!! اور سندھ اور بلوچستان کی تمام سرکاری شعبوں‌ میں اکثریت آپ کو پنجابیوں کی ہی ملے گی۔ آخر کیا سندھیوں اور بلوچیوں کو اپنے علائقوں میں بھی روزگار کا حق نہیں ہے۔
(میری تحریر میں پنجاب کا مطلب پنجاب کا جاگیردار اور وہ طبقہ جوکہ ہمیشہ سے اپنے مفادات کی خاطر پورے ملک کو داو پر لگالیتا ہے، وہی ہے، عام شہری نہیں)‌
 
Top