یوں نہ گلیوں میں پھرو کانچ کے پیکر لے کر - واجد امیر

کاشفی

محفلین
غزل
(واجد امیر)

یوں نہ گلیوں میں پھرو کانچ کے پیکر لے کر
لوگ حاسد ہیں نکل آئیں گے پتھر لے کر

جبکہ ہم چھو نہ سکیں ‌ دل سے لگا بھی نہ سکیں
کیا کریں گے تجھے اے مہر منور لے کر

تم ذرا چپکے سے سورج کو خبر کر دینا
رات آجائے یہاں جب مہ و اختر لے کر

کون سے کوچے میں آخر تجھے چین آئے گا
ہم کہاں جائیں تجھے اے دل مضطر لے کر

وقت سے پہلے یہاں حسن پگھل جاتا ہے
صبح آتی ہے مگر شام کا منظر لے کر
 
Top