کیا بحر موجود ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

الف عین

لائبریرین
ابھی ساے پیغامات دیکھ لوں، بعد میں‌پھر یہاں آتا ہوں۔ معذرت کہ میرا انتظار کرنا پڑا سب کو۔
 

محمد نعمان

محفلین
معذرت خواں ہوں نعمان، لیکن میں بھی اعجاز صاحب کا انتظار کر رہا ہوں :)

ابھی ساے پیغامات دیکھ لوں، بعد میں‌پھر یہاں آتا ہوں۔ معذرت کہ میرا انتظار کرنا پڑا سب کو۔

لگتا ہے ہمیں شرمسار کرنے کا کوئی موقع آپ حضرات ہاتھ سے جانے نہ دیں گے۔۔۔۔۔۔
معذرت تو ہمیں کرنی چاہیئے کہ بار بار آپ حضرات کو اتنی مصروفیت کے باوجود تنگ کرنے آ جاتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
معذرت کا کھیل ختم۔ بندہ حاضر ہے تیاری کے ساتھ۔۔۔۔۔

یہ ناتوانی کہ ہم سے کبھی چلا نہ گیا
مگر وہ شوق کہ پھر بھی کبھی رہا نہ گیا
۔۔۔درست (لیکن جوانی میں یہ ناتوانی۔ ایں چہ چکر است؟‘ بقول محسن۔)

گیا وہ وقت بھی،وہ وصل اور جوانی بھی
مگر وہ یاد کہ دل سے کبھی مزا نہ گیا
۔۔ پہلا مصرع بحر سے خارج تھا، یوں بھی ’ماضی‘ کا ذکر یہاں بے معنی ہے، اس لئے اس کو نکال دیا ہے۔

اسی نظر کا نہ دیکھا کبھی بھی وہ عالم
کہ ایسے دیکھے کہ دل خود کبھی جلا نہ گیا
اس قافیے کا کیا کروں، سمجھ میں نہیں آیا۔ یہاں ’جلا‘ نہیں آ سکتا۔ ’جلایا‘ کا محل ہے شاید۔ شعر کا مفہوم بھی درست سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اس لئے چھوڑ رہا ہوں

بہت ہی شوق سے دل میں بسایا تھا اس کو
مگر وہ ایسے رہا دل میں پھر سہا نہ گیا
یہاں ’بسایا گیا‘ سے ردیف کا احتمال ہو رہا تھا، ترتیب بلکہ الفاظ ہی بدل دئے ہیں پہلے مصرع میں، لیکن دوسرے مصرعے میں ’سہا‘ کے قافئے سے میں اب بھی مطمئن نہیں ہوں۔ ( یہ اصلاح شدہ شعر ہے(

بہت طریقے کیے درد دل مٹانے کو
وہ ایسا یاد تھا دل سے کبھی بھولا نہ گیا
۔۔۔یہاں بھی قافیے کی گڑبڑ ہے۔ ’بھولا‘ نہیں ’بھلایا گیا‘ آنا چاہئے ایک ترکیب یہ ہو سکتی ہے
بہت طریقے کیے اس کو بھول جانے کے
مگر جو دل میں بسا تھا وہ دلربا /آشنا نہ گیا

نگاہ شوق کیا جو کبھی رہی غافل
کیا وہ درد کہ جو کچھ نہ کچھ سکھا نہ گیا
یہاں یہ سوالیہ ’کیا؟‘ ہے یا ’کرنے‘ کا ماضی ’کیا‘؟ مضمون سے تو سوالیہ ہی لگ رہا ہے، اس صورت میں تلفظ غلط ہے۔ مطلب بھی سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اس لئے چھوڑ دیا ہے اسے۔

غم جاناں میں جو لگا تو پھر غم جاں میں
بہت ہی زور کیا دل سے پر لگا نہ گیا
۔۔۔یہاں بھی جاناں کا لفظ وزن میں نہیں آ رہا ہے۔ اور مفہوم سمجھنے سے بھی قاصر ہوں، قافیہ کی بھی یہی صورت ہے، ’پر لگا نہ گیا‘ سے کیا مراد؟ کچھ سمجھاؤ تو اصلاح کا سوچوں۔

جو درد دل میں تھا وہ آنکھ سے سہا نہ گیا
اسی ہی سوگ میں پھر لب سے بھی ہنسا نہ گیا
۔۔۔یہ بھی مطلع ہی ہے، اس کو مطلع ثانی بنایا جا سکتا ہے، ’اسی ہی سوگ میں ‘ کی الفاظ کی نشست اچھی نہیں۔ یوں کر دو
جو دل میں درد تھا وہ آنکھ سے سہا نہ گیا
یہی تھا سوگ ، کہ پھر لب سے بھی ہنسا نہ گیا
 

محمد نعمان

محفلین
بہت بہت شکریہ استاد محترم آپکی اس نظر عنایت کا۔۔۔۔۔۔۔ہم جیسے تو آپ کے پہلے ہی مقروض ہیں۔
میری بہت سی اصلاح ہو گئی ہے۔۔۔۔کوئی مسئلہ رہ بھی گیا تو دوبارہ آپ کے در پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top