The Venus Project ایک نئے دور کی ابتداء!

سعود الحسن

محفلین
واہ ایک اور یوٹوپیا ٕ ؟؟؟؟

اسے پڑھ کر تو ابن صفی کا زیرو لینڈ یاد آگیا۔

ارے یہ کیا ، ویڈیوز ڈالرز میں خریدیں؟؟؟؟؟؟

اس کے تو غریب بندے ، مفت میں خواب بھی نہیں دیکھ سکیں گے۔
 

arifkarim

معطل
واہ ایک اور یوٹوپیا ٕ ؟؟؟؟

اسے پڑھ کر تو ابن صفی کا زیرو لینڈ یاد آگیا۔

ارے یہ کیا ، ویڈیوز ڈالرز میں خریدیں؟؟؟؟؟؟

اس کے تو غریب بندے ، مفت میں خواب بھی نہیں دیکھ سکیں گے۔

کونسی ویڈیو‌ڈالرز میں جناب :confused: یہ شاید وہ واحد نظریہ ہے جسکے بانی اسکے بارے میں ڈاکومنٹریز مفت آن لائن جاری کرتے ہیں:eek: اسلئے اسکو کوئی پیسے ہڑپ تنظیم نہ سمجھیں۔ اسکا بنیادی نظریہ ہی پیسے کے خلاف جہاد ہے:thumbsup:
وڈیوز یہاں دیکھ لیں:
http://www.zeitgeistmovie.com/

نیز موجودہ معاشی و معاشرتی نظام بھی آج سے 200 سال قبل تک ایک "ایٹوپیا" ہی تھا۔ یہاں تک کہ زبردستی ان مغربیوں نے پوری دنیا پر انکا اپنا ظالمانہ، مشرکانہ اور غیر منصفانہ سرمایہ دارانہ نظام مسلط کیا!:mad: اور آج ہم جاہلوں کی طرح انکی اندھی تقلید کرتے ہین اور ہر نئی سوچ کا تمسخر اڑاتے ہیں۔:mad:
 
میں نے صرف پہلا صفحہ پڑھا ہے، اور میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حضرت انسان اس زمین پر ان تمام خرابیوں کی جڑ ہے، انسان ہی سود کھاتا ہے، خواب دیکھتا ہے، دولت، عیاشی وغیرہ وغیرہ
اگر اللہ پاک انسان سے کچھ اختیارات واپس لے کر اپنے ہاتھ میں لے لیں تب شایہ ایسا ممکن ہو سکے، لیکن یہ دنیا تو ایک کمرہ امتحان ہے، ہر انسان کو آزاد چھوڑا گیا ہے اور اسکے اعمال کی جانچ کی جا رہی ہے
جلد ہی یہ دنیا ختم ہو جائے گی اور انسان کا بنایا ہوا سب کچھ بھی،
میں‌نہیں سمجھتا آپ کا یہ نظریہ قابل عمل ہے
 

arifkarim

معطل
میں نے صرف پہلا صفحہ پڑھا ہے، اور میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حضرت انسان اس زمین پر ان تمام خرابیوں کی جڑ ہے، انسان ہی سود کھاتا ہے، خواب دیکھتا ہے، دولت، عیاشی وغیرہ وغیرہ
اگر اللہ پاک انسان سے کچھ اختیارات واپس لے کر اپنے ہاتھ میں لے لیں تب شایہ ایسا ممکن ہو سکے، لیکن یہ دنیا تو ایک کمرہ امتحان ہے، ہر انسان کو آزاد چھوڑا گیا ہے اور اسکے اعمال کی جانچ کی جا رہی ہے
جلد ہی یہ دنیا ختم ہو جائے گی اور انسان کا بنایا ہوا سب کچھ بھی،
میں‌نہیں سمجھتا آپ کا یہ نظریہ قابل عمل ہے
جی ہاں۔ آزاد چھوڑا گیا ہے۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ آزادی سے لوٹ مار اور غلامی کا بازار گرم کیا جائے۔ اپنے آپ کو معاشیاتی لحاظ سے بڑی اور چھوٹی کلاسز میں بانٹا جائے۔ رنگ و نسل کی بنیاد پر ایک دوسرےسے تفریق کی جائے۔ مذہب و ایمان کے نام پر خون خرابہ کیا جائے۔ جو بات آپنے کہی ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ نیک انسان مایوس ہے اور ساری عمر برائی کی طاقتوں کیخلاف لڑنے میں گزار کر مر جائے۔ جبکہ برے لوگ عیش و عشرت کیساتھ رہتے ہوئے دوسروں کو تکالیف پہنچاتے رہیں۔
یوں تو نہ برائی کی دنیا میں کمی ہوگی اور نہ ہی نیک اور امن پسند معاشرہ قائم ہو پائے گا۔
 
جی ہاں۔ آزاد چھوڑا گیا ہے۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ آزادی سے لوٹ مار اور غلامی کا بازار گرم کیا جائے۔ اپنے آپ کو معاشیاتی لحاظ سے بڑی اور چھوٹی کلاسز میں بانٹا جائے۔ رنگ و نسل کی بنیاد پر ایک دوسرےسے تفریق کی جائے۔ مذہب و ایمان کے نام پر خون خرابہ کیا جائے۔ جو بات آپنے کہی ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ نیک انسان مایوس ہے اور ساری عمر برائی کی طاقتوں کیخلاف لڑنے میں گزار کر مر جائے۔ جبکہ برے لوگ عیش و عشرت کیساتھ رہتے ہوئے دوسروں کو تکالیف پہنچاتے رہیں۔
یوں تو نہ برائی کی دنیا میں کمی ہوگی اور نہ ہی نیک اور امن پسند معاشرہ قائم ہو پائے گا۔

انسان کو ایسا کرنا چاہیے، انسان کو ویسا کرنا چاہیے، اس طرح نہیں ہونا چاہیے، اس طرح ہونا چاہیے
وغیرہ وغیرہ
یہ سب مفروضے ہیں ، ان سب پر عمل کون کرائے گا ؟
جب تک انسان رہے گا لوٹ مار ہو گی، غریب اور امیر ہوں گے، کیوں کہ کوئی زیادہ محنت کرتا ہے ، کوئی کم، کوئی کاہل ہے
کوئی تیز، سب انسانوں کو ایک درجے پر کس طرح لائیں گے ؟
جب تک انسان زمین پر موجود ہے ایسا ہونا بہت مشکل ہے
 

arifkarim

معطل
انسان کو ایسا کرنا چاہیے، انسان کو ویسا کرنا چاہیے، اس طرح نہیں ہونا چاہیے، اس طرح ہونا چاہیے
وغیرہ وغیرہ
یہ سب مفروضے ہیں ، ان سب پر عمل کون کرائے گا ؟
جب تک انسان رہے گا لوٹ مار ہو گی، غریب اور امیر ہوں گے، کیوں کہ کوئی زیادہ محنت کرتا ہے ، کوئی کم، کوئی کاہل ہے
کوئی تیز، سب انسانوں کو ایک درجے پر کس طرح لائیں گے ؟
جب تک انسان زمین پر موجود ہے ایسا ہونا بہت مشکل ہے

آجکل اسی "اصولوں" پر ہی تو عمل ہو رہا ہے جو آپنے اوپر بیان کئے ہیں۔ ہم انسانوں نے خود ہی سے ہر چیز کا ایک اسٹینڈرڈ بنا لیا ہے۔ مثلاً تجارت یا خریدو فروخت کا اسٹینڈرڈ کاغذی کرنسی نوٹس، تعلیم کا اسٹینڈرڈ اسکول، کالج ، یونی ورسٹی۔ عدل کا اسٹینڈرڈ کورٹس، اسپریم کورٹس وغیرہ۔ ان سب پر تمام انسانوں کو چاہے وہ کسی بھی معاشرے میں رہتے ہوں زبردستی عمل کروایا جاتا ہے۔ اور جس خون خرابے اور امیری غریبی کی آپنے بات کی ہے ، وہ بھی انہی خود ساختہ اسٹینڈرڈز اور اصولوں پر زبردستی چلنے اور چلانے کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ انسان تو آزاد ہے اور مختلف کوالٹیز کا حامل ہے۔ جب آپ سب کو ایک ہی بوری میں بند کرکے نکالیں گے تو کوئی زندہ بچ جائے گا باقی ادھموئے ہو کر ہی نکلیں گے!
 
میرے خیال سے کوئی بھی نظام موجودہ دنیا کو مستقل طور پر پر امن اور مسائل سے پاک نہیں بنا سکتا
اللہ تعالی اس کائنات کے خالق ہے، اللہ تعالی سے بہتر انسانی نفسیات کو کوئی نہیں‌جانتا،
اس دنیا کا مقصد ایک پرامن معاشرہ تخلیق کرنا نہیں ہے
یہ دنیا فانی ہے، سب انسان آزاد ہیں، سب اپنے اپنے عمل کا پھل پائیں گے
یہ دنیا کمرہ امتحان کی طرح ہے
اللہ تعالی اس دنیا کو ایسے ہی چلتے دیکھنا چاہتے ہیں، اور پھر اسکا انجام بھی لکھا جا چکا ہے، یعنی قیامت
ہاں قیامت کے بعد جو نئی زندگی ہو گی، وہ ایک پر امن نظام ، ایک پرامن معاشرہ، مسائل سے پاک جگہ ہو گی، جو کہ جنت
اور جرائم کرنے والے اپنے اعمال کا پھل پائیں گے، دوزخ میں جا کر
اس دنیا سے جرائم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا، اونچ نیچ کا فرق مٹ نہیں سکتا، غربت اور امارت ختم نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ سب بڑھتا جائے گا

اسکے علاوہ صدیق صاحب بھی درست فرما رہے ہیں،
 

arifkarim

معطل
میرے خیال سے کوئی بھی نظام موجودہ دنیا کو مستقل طور پر پر امن اور مسائل سے پاک نہیں بنا سکتا
اللہ تعالی اس کائنات کے خالق ہے، اللہ تعالی سے بہتر انسانی نفسیات کو کوئی نہیں‌جانتا،
اس دنیا کا مقصد ایک پرامن معاشرہ تخلیق کرنا نہیں ہے
یہ دنیا فانی ہے، سب انسان آزاد ہیں، سب اپنے اپنے عمل کا پھل پائیں گے
یہ دنیا کمرہ امتحان کی طرح ہے
اللہ تعالی اس دنیا کو ایسے ہی چلتے دیکھنا چاہتے ہیں، اور پھر اسکا انجام بھی لکھا جا چکا ہے، یعنی قیامت
ہاں قیامت کے بعد جو نئی زندگی ہو گی، وہ ایک پر امن نظام ، ایک پرامن معاشرہ، مسائل سے پاک جگہ ہو گی، جو کہ جنت
اور جرائم کرنے والے اپنے اعمال کا پھل پائیں گے، دوزخ میں جا کر
اس دنیا سے جرائم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا، اونچ نیچ کا فرق مٹ نہیں سکتا، غربت اور امارت ختم نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ سب بڑھتا جائے گا

اسکے علاوہ صدیق صاحب بھی درست فرما رہے ہیں،

آپکے تمام مفروضے انسانی کمزوری کی عکاس ہیں۔ حالانکہ اسلام میں خود امن و سلامتی والے معاشرہ کو نہ صرف پسند کیا گیا ہے بلکہ اسکو قائم رکھنے کیلئے تمام گائڈ لائنز بھی مہیا کر دی گئی ہیں۔ اگر اس زندگی کا مقصد دنگا فساد میں ملوث لوگوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا ہے یعنی کہ ہر شخص بس اپنے قول و فعل کی پرواہ کرے، باقی جائیں بھاڑ میں، ایسے ہی سوچ کا نتیجہ ہمارے آجکل کا معاشرہ ہے۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے۔ آپکے نیک اعمال کتنا دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں جبتک سب ملکر اجتماعی طور وہ نیک اعمال نہ کریں؟! پورے معاشرہ کی اصلاح کیلئے ایک نئی ور جدید پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے، ورنہ تو 1400 سال پرانے یا 2000 سال پرانی کتب پر مغز ماری کرکے ہمنے کونسا آج جنت نظیر معاشرہ قائم کر لیاہے۔ اور ویسے بھی آجکل جو دنیا میں ہو رہا ہے، وہ کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔
اگر خدا کی مرضی دنیا کو اسی طرح چلتے رہنے دینا ہے تو پھر اسی دنیا میں جزا سزا کا کانسیپٹ بیکار ہو جائے گا:confused:
 
اسکے نفاذ کا آغاز کس طرح ہو گا؟

قرآن کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ ۔ ۔ ۔
آسان حل یہ ہے کہ انگلش کی طرح عربی ذبان کو بھی نصاب میں لازمی مضمون کی حعثیت سے شامل کیا جائے۔ ۔ ۔
تا کی عوام میں قرآن کو سمجھنے کی صلاحیت پیداہو۔ ۔ ۔
کیو نکہ اول تو قرآن کی تلاوت بہت کم گھرانوں میں ہوتی ہے، اور یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو سب سے زیادہ اور حیرانی کی حد تک بغیر سمجھے پڑہی جاتی ہے۔ ۔ ۔
عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ قرآن ثوب کہ لیئے ہے حالاں کہ یہ تو نسل انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیئے نازل ہوا ہے۔ ۔ ۔ ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
arifkarim آپ کی بات میں کچھ دم ہے۔ لیکن سزا جزا اور منفعت کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا۔ دنیا میں بھی انسان کو سیدھے راستے پر چلانے کے لئے انسان کو آخرت میں انعام کا بتایا گیا ہے۔ دنیا میں بتائیے کہ ایک کار بنانے والا کارخانہ کیوں کر کاریں بنائے گا یا فارماسیسٹ کیوں کر دوائیں بنائیں گے جب کہ خام مال اور ان کی محنت اور ان کی تحقیق ساری کی ساری بے کار جائے گی؟ اس طرح کی دنیا کا تصور اگر ہوتا تو سارے پیغمبران کرام علیہ السلام ہمیں اس کے بارے ضرور بتاتے۔ آپ کو علم ہے کہ اسلام میں تجارت پر کتنا زور دیا گیا ہے؟ جزیہ، فدیہ، صدقہ زکواۃ کے نظام کیا ہیں؟ اگر ہم دولت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ کا پیش کردہ نظام اسی اسلامی نظام کی نفی نہیں کرے گا؟ یعنی زکواۃ، عشر، صدقہ وغیرہ جیسے بنیادی امور جن کی بنیاد ہی روپے کے "لین دین" پر ہے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
مثال دیتا ہوں۔ نتیجہ خود اخذ کر لیں۔
ونڈوز میں‌ہیکنگ سب سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ بہت وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ لیکن بند نہیں‌ہوئی۔
یا گوگل کروم نیا تھا۔ خود اپنی موت مر رہا ہے۔
میں مثال دینا چاہ رہا ہوں۔ اس دور کی، جس کی ابتدانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مبارک میں‌ہوئی اور حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت میں‌جو نقطہ عروج حاصل ہوا۔ اس کا کوئی ثانی نہیں۔ کسی قسم کا کوئی موازنہ کر لیں ۔ وہ نظام بہتر نظر آئے گا۔
یہ گوگل کروم کو کون سی موت دلا رہے ہیں؟
 

arifkarim

معطل
arifkarim
آپ کی بات میں کچھ دم ہے۔ لیکن سزا جزا اور منفعت کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا۔ دنیا میں بھی انسان کو سیدھے راستے پر چلانے کے لئے انسان کو آخرت میں انعام کا بتایا گیا ہے۔
جزاسزا کا کانسیپٹ صرف انکے لئے ہے جو کسی ایسے مذہب و دین کو مانتے ہوں جہاں جزا سزا کی تعلیم رائج ہے۔ دنیا میں کئی ایسے بڑے مذاہب ہیں جہاں موت کی بعد والی زندگی کا کوئی ذکر نہیں۔ نیز دہریہ لوگ تو موت کے بعد کسی بھی "زندگی" کے قائل نہیں۔ یوں ثابت ہوا کہ اسلامی تعلیم محض مسلمانوں کی حد تک ہے۔ تمام انسانوں کیلئے نہیں۔ چونکہ دین میں کوئی جبر نہیں یوں آپ خود سے تاویلیں نہیں گھڑ سکتے کہ دنیا کے تمام انسان اصل میں مسلمان ہی پیدا ہوتے ہیں :)۔ یہ محض سراسر اسلامی پراپیگنڈہ ہے۔ اسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، نیز دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی ہتک ہے۔



دنیا میں بتائیے کہ ایک کار بنانے والا کارخانہ کیوں کر کاریں بنائے گا یا فارماسیسٹ کیوں کر دوائیں بنائیں گے جب کہ خام مال اور ان کی محنت اور ان کی تحقیق ساری کی ساری بے کار جائے گی؟ اس طرح کی دنیا کا تصور اگر ہوتا تو سارے پیغمبران کرام علیہ السلام ہمیں اس کے بارے ضرور بتاتے۔ آپ کو علم ہے کہ اسلام میں تجارت پر کتنا زور دیا گیا ہے؟ جزیہ، فدیہ، صدقہ زکواۃ کے نظام کیا ہیں؟ اگر ہم دولت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو کیا آپ کا پیش کردہ نظام اسی اسلامی نظام کی نفی نہیں کرے گا؟ یعنی زکواۃ، عشر، صدقہ وغیرہ جیسے بنیادی امور جن کی بنیاد ہی روپے کے "لین دین" پر ہے؟
Venus Project لین دین کیخلاف نہیں ہے۔ وہ اس واجباتی مالیاتی نظام کیخلاف ہے جو کہ حضرت انسان نے آج سے کچھ سو سال قبل بنایا تھا۔ اس نظام میں ہوتا یہ ہے کہ تمام انسانوں کے مابین انتھک لین دین کے مقابلہ کے بعد بے شمار دولت محض معاشرہ کے چند فیصد افراد کے ہاتھوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یعنی متوسط ایماندار شخص چاہے ساری زندگی محنت کرکے رگڑا لگا لے۔ وہ کبھی بھی ان امیر ترین افراد کی صف میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس نظام کی شرائط کے تحت ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ مغربی دنیا میں 2008 کے اقتصادی بھونچال ہی کو دیکھ لیں۔ 5 سال ہونے کو آگئے ہیں لیکن ابھی تک اسکے اثرات لکیر کی فقیر طرح "امیر" مغربی ممالک کو کھا رہے ہیں۔ اسپین اور یونان جیسے مغربی ممالک میں بے روز گاری کی شرح خطرناک حد تک تجاوز کر چکی ہے۔ اسی مالیاتی لین دین کے نظام کا نتیجہ ہے کہ اقتصادی بحران کے باوجود امراء کی آمدنی میں کوئی بھی کمی آنے کو نہیں ہے؟ اور متوسط طبقے کو بے روز گار کر کے فارغ کیا جا رہا ہے؟
Post-1980 rise in inequality

Most current discussion of income inequality in America centers on its rise since the mind to late 1970s, the so-called "Great Divergence". According to the United States Census Bureau, it reported that the income inequality between the richest and poorest people grew to its widest in 2011, as the census recorded 46.2 million people living in poverty.[147]
بھاڑ میں جائے ایسا غیر منصفانہ مالیاتی اقتصادی لین دین کا نظام۔ ہمیں نہیں چاہئے یہ۔ جہاں تک اسلامی ممالک کا سوال ہے جو اسی لین دین والے نظام کا حصہ ہیں اور اسلامی شرائط کے پابند ہیں، وہاں بھی امیر اور غریب میں فرق خطرناک حد تک بڑھا ہوا ہے۔ عرب خلیجی ممالک کی مثال آپکے سامنے کھلی تصویر ہے۔ ہاں البتہ اسکینڈینیون ممالک کے متعلق ایک حد تک کہہ سکتے ہیں کہ یہاں یہ لین دین والا نظام ایک سازش کے تحت غریب اور امیر پیدا نہیں کرتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ پیشتر اسکینڈینیون ممالک میں جناتی عدد کم ترین ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_o...Gini_coefficient.2C_after_taxes_and_transfers
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاسزا کا کانسیپٹ صرف انکے لئے ہے جو کسی ایسے مذہب و دین کو مانتے ہوں جہاں جزا سزا کی تعلیم رائج ہے۔ دنیا میں کئی ایسے بڑے مذاہب ہیں جہاں موت کی بعد والی زندگی کا کوئی ذکر نہیں۔ نیز دہریہ لوگ تو موت کے بعد کسی بھی "زندگی" کے قائل نہیں۔ یوں ثابت ہوا کہ اسلامی تعلیم محض مسلمانوں کی حد تک ہے۔ تمام انسانوں کیلئے نہیں۔ چونکہ دین میں کوئی جبر نہیں یوں آپ خود سے تاویلیں نہیں گھڑ سکتے کہ دنیا کے تمام انسان اصل میں مسلمان ہی پیدا ہوتے ہیں :)۔ یہ محض سراسر اسلامی پراپیگنڈہ ہے۔ اسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، نیز دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی ہتک ہے۔




Venus Project لین دین کیخلاف نہیں ہے۔ وہ اس واجباتی مالیاتی نظام کیخلاف ہے جو کہ حضرت انسان نے آج سے کچھ سو سال قبل بنایا تھا۔ اس نظام میں ہوتا یہ ہے کہ تمام انسانوں کے مابین انتھک لین دین کے مقابلہ کے بعد بے شمار دولت محض معاشرہ کے چند فیصد افراد کے ہاتھوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یعنی متوسط ایماندار شخص چاہے ساری زندگی محنت کرکے رگڑا لگا لے۔ وہ کبھی بھی ان امیر ترین افراد کی صف میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس نظام کی شرائط کے تحت ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ مغربی دنیا میں 2008 کے اقتصادی بھونچال ہی کو دیکھ لیں۔ 5 سال ہونے کو آگئے ہیں لیکن ابھی تک اسکے اثرات لکیر کی فقیر طرح "امیر" مغربی ممالک کو کھا رہے ہیں۔ اسپین اور یونان جیسے مغربی ممالک میں بے روز گاری کی شرح خطرناک حد تک تجاوز کر چکی ہے۔ اسی مالیاتی لین دین کے نظام کا نتیجہ ہے کہ اقتصادی بحران کے باوجود امراء کی آمدنی میں کوئی بھی کمی آنے کو نہیں ہے؟ اور متوسط طبقے کو بے روز گار کر کے فارغ کیا جا رہا ہے؟

Post-1980 rise in inequality

Most current discussion of income inequality in America centers on its rise since the mind to late 1970s, the so-called "Great Divergence". According to the United States Census Bureau, it reported that the income inequality between the richest and poorest people grew to its widest in 2011, as the census recorded 46.2 million people living in poverty.[147]
http://en.wikipedia.org/wiki/Income_inequality_in_the_United_States#Post-1980_rise_in_inequality

بھاڑ میں جائے ایسا غیر منصفانہ مالیاتی اقتصادی لین دین کا نظام۔ ہمیں نہیں چاہئے یہ۔ جہاں تک اسلامی ممالک کا سوال ہے جو اسی لین دین والے نظام کا حصہ ہیں اور اسلامی شرائط کے پابند ہیں، وہاں بھی امیر اور غریب میں فرق خطرناک حد تک بڑھا ہوا ہے۔ عرب خلیجی ممالک کی مثال آپکے سامنے کھلی تصویر ہے۔ ہاں البتہ اسکینڈینیون ممالک کے متعلق ایک حد تک کہہ سکتے ہیں کہ یہاں یہ لین دین والا نظام ایک سازش کے تحت غریب اور امیر پیدا نہیں کرتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ پیشتر اسکینڈینیون ممالک میں جناتی عدد کم ترین ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_o...Gini_coefficient.2C_after_taxes_and_transfers
نیلے رنگ والی بات کا بتائیں کہ میں نے کب کہی؟ ورنہ تسلیم کریں کہ آپ غلط بیانی سے کام لے رہیں :)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

خدا معلوم اس سمت میں کسی نے بات کی ہے یانہیں۔ یہ نظام جس کا آپ تذکرہ فرما رہے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں شاید نافذ ہو بھی چکا ہے۔ دیکھئے آپ کے پاس نوٹ نہیں ہے۔ کرنسی نہیں ہے اور آپ کہتے ہیں کہ میں امیر ہوں۔ کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو یقین کرے گا۔

یہ نظام جہاں نافذ ہوچکا ہے، اس خطے کی صورتحال کا کچھ احوال بتا دوں تاکہ اندازہ ہوسکے یہ کس بلا کا نام ہے۔ آپ مختلف اسٹورز پر جاتے ہیں ، وہاں کریڈٹ کارڈ دکھاتے ہیں اور خریداری کرتے ہیں۔ یہ اسی نظام کی ایک صورت ہے جس میں کرنسی نہیں ہے۔ اب کرنسی نہیں ہے تو پتہ کیسے چلے گا کون کتنا امیر ہے۔

ایک جگہ میں نے پڑھا تھا کہ اگر کسی کو اختیار مل جائے کہ وہ سب لوگوں سے ساری دولت چھین کر سب میں برابر برابربانٹ دے اور وہ ایسا کر گزرے تو احسان عظیم ہوگا کہ سب لوگ برابر ہوجائیں گے ۔ یہ وہی مساوات ہوگی جو مثالی اور قابل تقلید ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ دنوں بعد پھر کچھ لوگ امیر اور کچھ غریب ہوجائیں گے۔ امیری سے افراط زر کم کرسکتے ہیں اور غریبی کو تقریبا مٹا سکتے ہیں، ختم نہیں کرسکتے۔ یہ ناممکن ہے۔

اب ہم بات کر رہے تھے ایسے نظام میں پتہ کیسے چلے گا۔ کریڈٹ کارڈ کو ہی لے لیجئے۔ پورے ملک میں بالفرض سب ہی لوگ عام کسان سے لے کر صدر تک کریڈٹ کارڈ استعمال کر رہے ہیں تو پیسہ اور دھات کس کے پاس ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ بینکوں کے پاس ہے یا ریاست کے خزانے میں جمع ہوچکی ہے۔ تو ایسی صورت میں مالدار صرف ریاست ہے یا بینکس۔ باقی سب لوگ بے وقوف اور جاہل ہیں۔ وہ نمبر گیم کھیل رہے ہیں۔ ایک دن اچانک پتہ چلے گا کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ ریاست یا بینکس کہیں گے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور وہ کون لے گیا ہمیں خبر نہیں ہے۔ یہی دجال کا نظام ہوگا۔ ون لنک سسٹم۔

یہودی اسی نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہےہیں ۔ اب ہم اس نظام کو اسلامی نظام سمجھتے ہیں تو ہم سے بڑا بے وقوف اور کون ہوگا؟؟
 

قیصرانی

لائبریرین
ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

خدا معلوم اس سمت میں کسی نے بات کی ہے یانہیں۔ یہ نظام جس کا آپ تذکرہ فرما رہے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں شاید نافذ ہو بھی چکا ہے۔ دیکھئے آپ کے پاس نوٹ نہیں ہے۔ کرنسی نہیں ہے اور آپ کہتے ہیں کہ میں امیر ہوں۔ کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو یقین کرے گا۔

یہ نظام جہاں نافذ ہوچکا ہے، اس خطے کی صورتحال کا کچھ احوال بتا دوں تاکہ اندازہ ہوسکے یہ کس بلا کا نام ہے۔ آپ مختلف اسٹورز پر جاتے ہیں ، وہاں کریڈٹ کارڈ دکھاتے ہیں اور خریداری کرتے ہیں۔ یہ اسی نظام کی ایک صورت ہے جس میں کرنسی نہیں ہے۔ اب کرنسی نہیں ہے تو پتہ کیسے چلے گا کون کتنا امیر ہے۔

ایک جگہ میں نے پڑھا تھا کہ اگر کسی کو اختیار مل جائے کہ وہ سب لوگوں سے ساری دولت چھین کر سب میں برابر برابربانٹ دے اور وہ ایسا کر گزرے تو احسان عظیم ہوگا کہ سب لوگ برابر ہوجائیں گے ۔ یہ وہی مساوات ہوگی جو مثالی اور قابل تقلید ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ دنوں بعد پھر کچھ لوگ امیر اور کچھ غریب ہوجائیں گے۔ امیری سے افراط زر کم کرسکتے ہیں اور غریبی کو تقریبا مٹا سکتے ہیں، ختم نہیں کرسکتے۔ یہ ناممکن ہے۔

اب ہم بات کر رہے تھے ایسے نظام میں پتہ کیسے چلے گا۔ کریڈٹ کارڈ کو ہی لے لیجئے۔ پورے ملک میں بالفرض سب ہی لوگ عام کسان سے لے کر صدر تک کریڈٹ کارڈ استعمال کر رہے ہیں تو پیسہ اور دھات کس کے پاس ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ بینکوں کے پاس ہے یا ریاست کے خزانے میں جمع ہوچکی ہے۔ تو ایسی صورت میں مالدار صرف ریاست ہے یا بینکس۔ باقی سب لوگ بے وقوف اور جاہل ہیں۔ وہ نمبر گیم کھیل رہے ہیں۔ ایک دن اچانک پتہ چلے گا کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ ریاست یا بینکس کہیں گے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور وہ کون لے گیا ہمیں خبر نہیں ہے۔ یہی دجال کا نظام ہوگا۔ ون لنک سسٹم۔

یہودی اسی نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہےہیں ۔ اب ہم اس نظام کو اسلامی نظام سمجھتے ہیں تو ہم سے بڑا بے وقوف اور کون ہوگا؟؟
ساڈا زرداری، سب تے بھاری
 

arifkarim

معطل
خدا معلوم اس سمت میں کسی نے بات کی ہے یانہیں۔ یہ نظام جس کا آپ تذکرہ فرما رہے ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں شاید نافذ ہو بھی چکا ہے۔ دیکھئے آپ کے پاس نوٹ نہیں ہے۔ کرنسی نہیں ہے اور آپ کہتے ہیں کہ میں امیر ہوں۔ کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو یقین کرے گا۔
تو بھائی نوٹ اور کرنسی کے پیچھے کونسی کوئی قدر موجود ہے؟ نوٹ اور کرنسی کی ذمہ دار اس دور کی حکومتیں ہیں۔ حکومتیں کے دیوالیہ ہوتے ہی انکے جاری کردہ نوٹ اور کرنسیوں کی قدر ختم! 2008 کے بعد آنے والا عالمی اقتصادی بحران جسکا سب سے زیادہ نقصان مغربی یورپی ممالک کو ہوا ہے میں خاص کر آئیس لینڈ کے کرونر کی ویلیو اتنا زیادہ گر گئی کہ اب اسکی حکومت کوئی دوسری کرنسی استعمال کرنے کا سوچ رہی ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/2008–2012_Icelandic_financial_crisis


یہ نظام جہاں نافذ ہوچکا ہے، اس خطے کی صورتحال کا کچھ احوال بتا دوں تاکہ اندازہ ہوسکے یہ کس بلا کا نام ہے۔ آپ مختلف اسٹورز پر جاتے ہیں ، وہاں کریڈٹ کارڈ دکھاتے ہیں اور خریداری کرتے ہیں۔ یہ اسی نظام کی ایک صورت ہے جس میں کرنسی نہیں ہے۔ اب کرنسی نہیں ہے تو پتہ کیسے چلے گا کون کتنا امیر ہے۔
جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے موجودہ تمام کاغذ یا الیکٹرونک کرنسیاں خودمختار حکومتیں جاری کرتی ہیں۔ اسے آپ نوٹ چھاپنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور ظاہر ہے زیادہ نوٹ چھاپ دینے سے کوئی زیادہ امیر نہیں ہو جاتا۔ کریڈٹ کارڈز بھی اسی خود ساختہ کرنسیوں کی ایک قسم ہے مگر انہیں نجی بینکس جاری کرتے ہیں۔



ایک جگہ میں نے پڑھا تھا کہ اگر کسی کو اختیار مل جائے کہ وہ سب لوگوں سے ساری دولت چھین کر سب میں برابر برابربانٹ دے اور وہ ایسا کر گزرے تو احسان عظیم ہوگا کہ سب لوگ برابر ہوجائیں گے ۔ یہ وہی مساوات ہوگی جو مثالی اور قابل تقلید ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ کچھ دنوں بعد پھر کچھ لوگ امیر اور کچھ غریب ہوجائیں گے۔ امیری سے افراط زر کم کرسکتے ہیں اور غریبی کو تقریبا مٹا سکتے ہیں، ختم نہیں کرسکتے۔ یہ ناممکن ہے۔
چونکہ آجتک ایسا کبھی حقیقت میں ہوا ہی نہیں اسلئے ساکو ناممکن کہنا ٹھیک نہ ہوگا۔



اب ہم بات کر رہے تھے ایسے نظام میں پتہ کیسے چلے گا۔ کریڈٹ کارڈ کو ہی لے لیجئے۔ پورے ملک میں بالفرض سب ہی لوگ عام کسان سے لے کر صدر تک کریڈٹ کارڈ استعمال کر رہے ہیں تو پیسہ اور دھات کس کے پاس ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ بینکوں کے پاس ہے یا ریاست کے خزانے میں جمع ہوچکی ہے۔ تو ایسی صورت میں مالدار صرف ریاست ہے یا بینکس۔ باقی سب لوگ بے وقوف اور جاہل ہیں۔ وہ نمبر گیم کھیل رہے ہیں۔ ایک دن اچانک پتہ چلے گا کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ ریاست یا بینکس کہیں گے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور وہ کون لے گیا ہمیں خبر نہیں ہے۔ یہی دجال کا نظام ہوگا۔ ون لنک سسٹم۔یہودی اسی نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہےہیں ۔ اب ہم اس نظام کو اسلامی نظام سمجھتے ہیں تو ہم سے بڑا بے وقوف اور کون ہوگا؟؟

صرف یہودی ہی کیوں؟ اور بھی بہت سی اقوام کے لالچی، امیر اور بینکار افراد اس بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تو بھائی نوٹ اور کرنسی کے پیچھے کونسی کوئی قدر موجود ہے؟ نوٹ اور کرنسی کی ذمہ دار اس دور کی حکومتیں ہیں۔ حکومتیں کے دیوالیہ ہوتے ہی انکے جاری کردہ نوٹ اور کرنسیوں کی قدر ختم! 2008 کے بعد آنے والا عالمی اقتصادی بحران جسکا سب سے زیادہ نقصان مغربی یورپی ممالک کو ہوا ہے میں خاص کر آئیس لینڈ کے کرونر کی ویلیو اتنا زیادہ گر گئی کہ اب اسکی حکومت کوئی دوسری کرنسی استعمال کرنے کا سوچ رہی ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/2008–2012_Icelandic_financial_crisis

÷÷ نوٹ اور کرنسی میں نے غلط کہا، فتنے جو سامنے آنے والے ہیں ان میں فائدہ صرف پرانے دور کی کرنسی سے ہوسکتا ہے۔۔۔۔ یعنی دھات یا پتھر وغیرہ ۔۔ جو بھی صورت محفوظ ہو اور آسانی سے سنبھالی جاسکے۔۔۔

جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے موجودہ تمام کاغذ یا الیکٹرونک کرنسیاں خودمختار حکومتیں جاری کرتی ہیں۔ اسے آپ نوٹ چھاپنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور ظاہر ہے زیادہ نوٹ چھاپ دینے سے کوئی زیادہ امیر نہیں ہو جاتا۔ کریڈٹ کارڈز بھی اسی خود ساختہ کرنسیوں کی ایک قسم ہے مگر انہیں نجی بینکس جاری کرتے ہیں۔

÷÷ میرے خیال میں تو نوٹ سونے کی مقدار کےحساب سے چھپتے ہیں ورنہ جتنی بدعنوانی میرے ملک میں ہورہی ہے، ہم سے زیادہ امیر اس معاملے میں کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔ بہرحال اعتبار تو مجھے نوٹ یا کرنسی پر بھی نہیں ہے۔


چونکہ آجتک ایسا کبھی حقیقت میں ہوا ہی نہیں اسلئے ساکو ناممکن کہنا ٹھیک نہ ہوگا۔
÷÷ یہ تذکرہ برسبیل تذکرہ کیا تھا۔۔۔ یعنی بائی دا/دی وے۔۔۔ ممکن ہے لیکن انسانی فطرت مساوات کو مساوات زیادہ دیر تک رہنے نہیں دےگی۔ لیکن یہ بحث ہی الگ ہے۔۔۔

صرف یہودی ہی کیوں؟ اور بھی بہت سی اقوام کے لالچی، امیر اور بینکار افراد اس بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں۔
÷÷ وہ سب کی سب اقوام یہودیوں کے آگے بے بس ہیں ۔۔۔ سازش کا حصہ سب ہیں لیکن وہ سازش شروع کس نے کی، اس پر اختلاف ہے۔۔ میں یہودیوں کو سب سے زیادہ طاقتور سمجھتا ہوں پیسے کے حوالے سے ۔۔ یہ مٹھی بھر ہیں لیکن یہ مٹھی بھی لوہے کی ثابت ہورہی ہے۔۔۔
 
Top