میاں بیوی کی عمر اور بچے کی جنس

راجہ صاحب

محفلین
میاں بیوی کی عمر اور بچے کی جنس​


عمر کا فرق بچے کی جنس پر اثر اندا ز ہوتا ہے


پیدائش کے ریکارڈ کا جائزہ یہ ظاہر کر تا ہے کہ اولاد نرینہ کے خواہش مند بڑی عمر کے لوگ اگر اپنے سے کافی کم عمر کی عورت سے شاد ی کر یں تواس بات کیامکانات کافی روشن ہو جاتے ہیں کہ ان کے ہا ں اولاد نرینہ ہو گی ۔ اس سے دراصل یہ بات ظاہر ہو تی ہے کہ جو عورتیںاپنے شوہر سے عمر میں کافی کم ہوتی ہے ان کییہاں پہلے اولاد نرینہ ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہیاور اگر بیوی ی عمر شوہر سے زیادہ ہو تو معاملہ برعکس ہو سکتاہے یعنی اولاد نرینہ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں ۔
اس جائز میں شامل کچھ لوگوں کی عمر باسٹھ اٹھاون اور انہتر سال تھی جب کہ ان کی بیویاںبا لترتیب بتیس اکتیس اور انتالیس برس تھیں ان کے یہاںپہلے اولاد نرینہ ہوئی ۔ان جائز ہ انگلستان کی لیور پول یونیورسٹی کے ماہرین نے تیار کیا ہے جس میں انہوں نے 301خانوادوں کو شامل کیا تھا ۔ان سب کا تعلق لیور پال کے علاقے سے ہے ۔یہ جائز رسالہ نیچر میں شائع ہو ا تھا اور ان سے یہ نتجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ماں اور باپ کی عمر کا فر ق کافی حد تک پہلے بچے کی جنس کے تعین پر اثر ہوتا ہے ۔
جن جوڑوں میں شوہر کی عمر بیوی کی عمر سے پانچ سال تک زیادہ ہوتی تھی ان میں پہلی بار 117بیٹے اور 84بیٹیاں پیدا ہوئیں۔جن جوڑوں میںشوہر کی عمر پانچ سال سے پندرہ سال تک زیادہ تھی ان کے پہلو ٹھی کے بچوں میں 37بیٹے اور 20بیٹیاں تھیں ۔ان جوڑوں میں جن میں بیوی کی عمرشوہر کی نسبت زیادہ تھی معاملہ اس کے برعکس تھا ۔جو عورتیں اپنے شوہروں سے ایک سے لیکر نو سال تک بڑی تھیں ان کی پہلوٹھی کے بچوں میں 14بیٹے اور 29بیٹیاں تھیں اور1 195اور1952تک کے پیدائش جائزے میںشوہر کی زیادہ عمر کا اولاد نرینہ وے بڑا واضح تعلق نظر آتا ہے ۔
اس جائز ے سے یہ دلچسپ بات بھی پتا چلتی ہے کہ برطانیہ میںدونوںعالمی جنگ کے دوران یہ رجحان خاصا بڑھ گیا کہ عورتیںاپنی عمر سے کافی زیادہ عمرے کے لوگوں سے شادیاں کرنے لگیں
ماہرین کا خیال ہے کہ اچھی یا بڑی عمر ے ما لدار لوگوںکو اپنے رفیق حیات کی حیثیت سے ترجیح دیتی تھیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس وقت نوجوان لوگوں کی خاصی تعداد جنگ پر تھی ۔
اس جائز ے سے تعلق رکھنے والی ماہرین کی جماعت نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ ماہرین لڑکی یا لڑکے کی جنس کے تعین کیاس عمل کی وجہ سے لا علم ہیں ۔تاہم انہوں نے دو امکانات ظاہر کیے ہیں۔ا یک تویہ کہ عورتیں غیر شعوری طور پر ایسے کر موسوم کو قبول کرتی ہیں جن میں ایکس یا وائی لونیہ (کر موسوم ) موجود ہو یا پھر وہ غیر شعوری طور پر ہی اپنے رحم میں اولاد نرینہ کر ترجیح دیتی ہوں ۔جس کی وجہ سے لڑکیوں کے اسقاط کی شرح بڑ ھ جاتی ہے لیکن یہ محض امکانات ہی ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ با اقتدار ہوتے ہیں یا اعلی منصبوں پر فائز ہوتے ہیںان میںسے اپنے میں سے کافی کم عمر کی عورتوں سے شادی کا درجحا ن زیادہ پایا جاتا ہے ۔اگر منصب یا ملکیت ایسی ہو جو آیندہ نسل میںمنتقل ہونے والی ہو تو پھر اولاد نرینہ کی خواہش بڑھ جاتی ہے اور شاید اسی لیے یہ لوگ اپنے سے کافی عم عمر کی عورت کو شریک حیات بناتے ہیںجب کہ ایک عام شخص اولاد نرینہ کا اس قدار خواہش مند نہیں ہوتا لہذا وہ اپنی ہم عمر یا کم فرق والی یا پھر اپنے سے بڑی عمر کی عورت سے بھی شادی کر لیتا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
ویسے ابھی تک تو سائنس نے یہی ثابت کیا ہے کہ مردوں میں x اور y کروموسومز ہوتے ہیں اور عورتوں میں صرف y جب yy ملیں تو لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے اور اگرxy ملیں تو لڑکے کی- عمر کا تو کوئی تعلق نہیں ہے -
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ویسے ابھی تک تو سائنس نے یہی ثابت کیا ہے کہ مردوں میں x اور y کروموسومز ہوتے ہیں اور عورتوں میں صرف y جب yy ملیں تو لڑکی کی پیدائش ہوتی ہے اور اگرxy ملیں تو لڑکے کی- عمر کا تو کوئی تعلق نہیں ہے -


یہی بات درست ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ سب دل کے بہلاوے ہیں کہ ایسے کریں تو یہ ہو گا، اتنی عمر ہو گی تو ویسا ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔
جنس کا اختیار اللہ تعالٰی نے صرف اپنے اختیار میں رکھا ہے۔
 

arifkarim

معطل
لڑکا اور لڑکی خدا کی دین ہیں، اور یہ سب قدرتی طور پر randomnly ہوتا ہے۔ عمر کا اس سے کوئی تعلق نہیں!
 

جیا راؤ

محفلین
یہ کیا بات ہوئی بھلا !
میرے خاندان میں سب کی پہلی دو اولادیں "اولادَنرینہ" ہیں۔ ہمارے امی ابو، تایا تائی، چچا چچی،پھپھا پھپھی، بھائی بھابھی، کزنز اور ان کی بیویاں کسی کی عمروں میں اتنا فرق نہیں بلکہ ان میں کچھ خواتین اپنے شوہروں سے عمر میں بڑی بھی ہیں۔ اس ریسرچ کے مطابق تو ان کی پہلی اولاد بیٹی ہونی چاہئیے تھی تو ان کے بھی پہلے دو بیٹے کیوں ؟
 

ظفری

لائبریرین
ابھی کچھ عرصہ پہلے جنگ میں پڑھا تھا کہ انگلینڈ میں ایک تحقیق ہوئی ۔ جس سے معلوم ہوا کہ جن خواتین کو اولادِ نرینہ ہوئی ۔ ان میں سے %56 خواتین ایسی تھیں ۔ جنہیں روزآنہ صبح ناشتہ کرنے کی عادت تھی ۔ یہ خبر شاید ہفتہ پرانی ہے جو جنگ میں شائع ہوئی تھی ۔ مگر بات وہیں آجاتی ہے انسانی زندگی کا وجود میں آنا ، اس کے خالقِ حقیقی کی مرہونِ منت ہے ۔ لہذا یہ خالق حقیقی کو ہی فیصلہ کرنا ہے کہ اس انسانی زندگی کا ظہور کس جنس میں ہونا ہے ۔ کیونکہ اللہ کے بنائی ہوئی اس دنیا میں اللہ نے جو اسکیم رکھی ہے ۔ اس میں مرد اور عورت کا تناسب بھی ایک بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ میرا ایمان یہ ہے کہ کوئی انسان اپنی تدبیر سے اللہ کے اس نظام میں اس طرح کی کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا ۔ باقی کا علم صرف اللہ کو ہے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جناب یہ سب مختلف میگزین و رسائل سے لی گئی ہیں‌
اب ان چیزوں‌ کے کیا رائٹ ہوتے ہیں ان سے ناواقف ہوں :confused:

کچھ سائٹس جیسا کہ بی بی سی اردو َکا یہ اصول ہوتا ہے کہ ان کا شائع کردہ مواد آپ بغیر ان کے حوالے کے کہیں اور نہیں پیش کر سکتے۔ دوسرا ماخذ دے دینے سے کمی بیشی یا کسی تشنگی کی صورت میں تشفی کا امکان بڑھ جاتا ہے
 

تفسیری

محفلین
شاید کسی کا بھلا ہو جائے۔

اگر کسی بے اولاد جوڑے کواولاد کی خواہش ہو تو دونوں میں سے کوئی ایک 40 دن تک سورۃ محمد پڑھ لے۔ انشاء اللہ اولاد کی نعمت حاصل ہو جائے گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ اللہ پر مکمل اعتقاد رکھیں۔
یہ مجرّب ہے۔ میرے انتہائی قریبی ڈیڑھ، تین اور نو سال سے بے اولاد جوڑوں کے ہاں اولاد ہوئی ہے۔
 
Top