نظر کرم کیجیئے!

اُن کی وفا اب بے وفائی ہوتی جارہی ہے
ہماری محبت اب یکتائی ہوتی جارہی ہے

ہم جن کے خوابوں میں ڈوبے رہے
شاید اب ان سے آشنائی ٹوٹتی جارہی ہے

تمہارا لباس تمہی کو مبارک ہو اے میرے ہم نشیں
ہماری چاک قبا میں اک الگ پارسائی نظر آرہی ہے

مجھے چند غزلیں لکھنی ہیں‘ لکھ کر چلا جا رہا ہوں
اب میری غزل پڑھ کر تمہیں کیوں تنہائی ستا رہی ہے

جب بادل برسیں گے‘ اور دور کہیں پرندے چہچاہٹ کریں گے
تب شاید ملیں گے، ابھی صرف تیری یاد آ رہی ہے

ہنس ہنس کر ملیں گے‘ کوئی غم نہ ہو گا پھر
دور کہیں مجھے آکاش پہ مستقبل کی لکیر نظر آ رہی ہے

آج بھی تیری آواز کی گونج سنائی دیتی ہے
آفتاب دل کے کاغذ پہ تیری تحریر چھائی جا رہی ہے​
 

الف عین

لائبریرین
ابھی دیکھ رہا ہوں اس کو۔ آپ کے خیالات تو اچھّے ہیں لیکن مجھے نثری غزلیں قبول نہیں۔ بحر میں تو فِٹ کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں لیکن قافیہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا رکھا جائے۔ محض زمین میں کچھ الفاظ مشترک کر دئے جائیں تو غزل نہیں بنتی، ردیف کے ساتھ ساتھ قوافی بھی چاہئے۔ میرا مشورہ ہے کہ ایک بار آپ خود اس کو دیکھ کر اصلاح کر لیں تو پھر میں میدان میں اتروں۔ برا نہ ماننا۔
 
آپ کی مدد

استادِ محترم
میں تو اس فیلڈ میں نیا ہی ہوں۔ بس کبھی کبھی شاعری کے نام پر کچھ نہ کچھ لکھ لیتا ہوں۔ اصل میں مجھے تو شاعری کی الف ب بھی نہیں‌ آتی۔ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں کہ ردیف کیا ہے وغیرہ۔ اب آپ ہی کی مدد چاہئے۔ کہ ردیف کیا ہوتا ہے۔ بحر کیا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
 

دوست

محفلین
ردیف ہم آواز الفاظ ہوتے ہیں جو ہر شعر کے آخر میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
جیسے آنا جانا کھانا پکانا
فلک جھلک ادرک( :wink:
انھیں ہم وزن الفاظ بھی کہتے ہیں۔ (اعجاز صاحب اگر میں غلطی پر ہوں تو تصحیح کردیجیے گا میرے ذہن میں‌ قافیہ اور ردیف گڈ مڈ ہورہے ہیں۔)
بحر سے مراد شعر میں الفاظ کا ایسا کمبینیشن ہے جو منہ سے بالکل روانی سے ادا ہو۔ بحر کو جانچنا بہت ہی مہارت کا کام ہے اور اس کے لیے آوازوں کی بہت گہری پہچان ہونی چاہیے۔ خود میں (بزعم خود) شاعر ہونے کے ابھی تک بحر کے اسباق کو ہاتھ نہیں‌ لگا سکا۔
یاد رہے اسی فورم میں تفسیر صاحب نے جو کینیڈا میں مقیم شاعر ہیں نے علم عروض کے نام سے جو اسباق پوسٹ کر رکھے ہیں اور بحر کے اسباق ہی ہیں۔ آپ انھیں پڑھئیے انشاءاللہ بہت سی باتیں کلئیر ہوجائیں‌ گی۔‌
 

الف عین

لائبریرین
شاکر واقعی کچھ کنفیوز ہو رہے ہیں۔ لیکن تفسیر کے اسباق دیکھ سکتے ہیں۔ اس غزل میں محض ردیف ضرور ہے۔ رہی ہے، لیکن اس سے پہلے قافیہ ہونا چاہئے، وہ اسباق دیکھ لیں‌تو مسجھ میں آجائے گا انشاءاللہ
 

ارمان_خان

محفلین
ردیف ہم آواز الفاظ ہوتے ہیں جو ہر شعر کے آخر میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
جیسے آنا جانا کھانا پکانا
فلک جھلک ادرک( :wink:
انھیں ہم وزن الفاظ بھی کہتے ہیں۔ (اعجاز صاحب اگر میں غلطی پر ہوں تو تصحیح کردیجیے گا میرے ذہن میں‌ قافیہ اور ردیف گڈ مڈ ہورہے ہیں۔)
بحر سے مراد شعر میں الفاظ کا ایسا کمبینیشن ہے جو منہ سے بالکل روانی سے ادا ہو۔ بحر کو جانچنا بہت ہی مہارت کا کام ہے اور اس کے لیے آوازوں کی بہت گہری پہچان ہونی چاہیے۔ خود میں (بزعم خود) شاعر ہونے کے ابھی تک بحر کے اسباق کو ہاتھ نہیں‌ لگا سکا۔
یاد رہے اسی فورم میں تفسیر صاحب نے جو کینیڈا میں مقیم شاعر ہیں نے علم عروض کے نام سے جو اسباق پوسٹ کر رکھے ہیں اور بحر کے اسباق ہی ہیں۔ آپ انھیں پڑھئیے انشاءاللہ بہت سی باتیں کلئیر ہوجائیں‌ گی۔‌
جی یہ قافیے ہوتے ہیں
ردیف اسے کہتے ہیں جو قافیے کے بعد آئے اور پوری غزل میں ہو۔
 
Top