اوبامہ کی قاہرہ میں تقریر

زینب

محفلین
صدر اوبامہ نے يقين دلايا ہے کہ امريکہ اپنی پاليسياں ان کے ساتھ منسلک کرے گا جو امن کے خواہ ہيں۔ ان ميں وہ اسرائيلی اور فلسطينی بھی شامل ہيں جو دو رياستوں ميں امن اور حفاظت کے ساتھ رہنے کے مستحق ہيں۔

انھوں نے تمام فريقين پر زور ديا کہ وہ معاہدے کے مطابق اپنی ذمہ دارياں پوری کريں۔

اسرائيل کے وجود سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔ ليکن اس کے ساتھ اسرائيل کو بھی اس حقيقت کو ماننا پڑے گا کہ اسرائيلی آبادکاری کو روکنا ہو گا۔ غزہ ميں ہونے والا سانحہ اسرائيل کی اپنی سيکورٹی کے ليے نقصان دہ ہے۔ فلسطينوں کو اپنے معاشرے کی بہتری، پرامن زندگی گزارنے اور کاروبار زندگي کو چلانے کے ليے اسرائيل کو اپنی ذمہ دارياں پوری کرنا ہوں گی۔

امريکہ فلسطين کی ناموس اور اپنی آزادانہ مملکت کے جائز مطالبہ پر ان کی حمايت ترک نہيں کرے گا۔ ليکن اس کے ساتھ ساتھ فلسطينيوں کو بھی تشدد کا راستہ تبديل کرنا ہو گا جو بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے اور اپنے موقف کے لیے اخلاقی جواز بھی کھو جاتا ہے۔ حماس کو تشدد کا خاتمہ کر کے گزشتہ معاہدوں کا پاس کرنا ہو گا اور اسرائيل کے وجود کو تسليم کرنا ہوگا۔

عرب امن کوششوں پر مزيد کام کرتے ہوئے عرب رياستوں پر لازم ہے کہ وہ فلسطينی رياست کی بقا کے لیے اداروں کی تشکيل ميں فلسطينی عوام کی مدد کريں اور اسرائيلی کی قانونی حيثيت تسليم کريں۔ اس کے علاوہ ماضی ميں جھانکنے کی ناکام روش کے مقابلے ميں ترقی پر فوکس کرنا ہوگا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

پر اوباما نے کشمر کا کہیں وکئی زکر نہین کیا وہ بھی تو لمبے عرصے سے مسئلہ چلا آرہا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔اور کئی بار امریکہ حل کروانے کے وعدے بھی کر چکا ہے پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شکریہ فرید۔
اوبام کی تقریر جب زیادہ اچھی ہوتی اگر وہ غزہ میں‌ اسرائیل قتل عام کی مذمت کرتا
وہ تو یورپ میں‌ یہودیوں کے قتل عام کی مذمت کررہا تھا۔ اب بتلاو کہ یورپ نے یہودی ماریں ہیں‌تو اسکی سزا مسلمان کیوں بھگتیں؟
 

arifkarim

معطل
شکریہ فرید۔
اوبام کی تقریر جب زیادہ اچھی ہوتی اگر وہ غزہ میں‌ اسرائیل قتل عام کی مذمت کرتا
وہ تو یورپ میں‌ یہودیوں کے قتل عام کی مذمت کررہا تھا۔ اب بتلاو کہ یورپ نے یہودی ماریں ہیں‌تو اسکی سزا مسلمان کیوں بھگتیں؟

کیونکہ مسلمان تاریخ نہیں جانتے!
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اردو فورمز پر صدر اوبامہ کی قاہرہ ميں کی جانے والی تقرير پر بے شمار دوستوں کی رائے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ بہت سی آراء ميں جن جذبات اور خيالات کا اظہار کيا گيا وہ متوقع اور مقبول سوچ پر مبنی تھيں۔ ان ميں تنقيد، شکوک وشبہات، اميد اور يہاں تک کے جوش کا اظہار بھی شامل تھا۔

ليکن ايک مخصوص نقطہ نظر نے مجھے اپنی جانب متوجہ کر ليا۔ اس سوچ کا اظہار کئ فورمز پر کيا گيا تھا۔ اس کی بنياد يہ يقين تھا کہ صدر اوبامہ کی کہی ہوئ کوئ بھی بات اس بنياد پر مسترد کر دينی چاہيے کيونکہ وہ مسلمان نہیں ہيں۔ اسی طرح کچھ دوستوں نے اس خيال کا اظہار کيا کہ ان کی تقرير سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی ذات کا کچھ حصہ مسلمان ہے يا وہ اندر سے مسلمان ہیں۔

يہ سوچ کہ مثبت، تعميری اور منطقی بحث اور اقدامات صرف مسلمانوں کے مابين ہی ممکن ہيں يا کسی بھی شخص کا مذہب يا اس کا عقيدہ اس کے اصل عزائم اور نيت کا آئينہ دار ہوتا ہے، محدود اور پائيدار نہيں ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ميں نے ايک پاکستانی نژاد امريکی مسلمان ضيا رحمان کی کہانی پوسٹ کی تھی جنھوں نے نيو جرسی کے شہر وورہيز ميں ہندو، عيسائ اور يہودی ہمسائيوں کی مخالفت کے باوجود ايک مسجد کی تعمير کا منصوبہ کاميابی سے مکمل کيا تھا۔ ضيا رحمان کی کہانی اس لیے منفرد ہے کيونکہ انھوں نے بات چيت اور مذاہب کے مابين صحت مند مکالمے کے ذريعے مختلف مذاہب کے افراد کو مسجد کی تعمير پر راضی کيا تھا۔ ان کی کاوشوں کے نتيجے ميں ووہيز مسجد کی انتظاميہ اور کيمڈن کاؤنٹی کے چرچ کے مابين باقاعدہ تعاون کا ايک کامياب معاہدہ بھی کيا گيا جو کہ امريکہ ميں دو مذاہب کے درميان کيا جانے والا اپنی نوعيت کا منفرد معاہدہ تھا۔

بدقسمتی سے ايک ہفتہ قبل ضيا رحمان اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی اچانک موت نے پوری کميونٹی کو افسردہ کر ديا۔ ان ميں وہ ہندو، عيسائ اور يہودی بھی شامل تھے جنھوں نے کبھی مسجد کی تعمير کے ضمن ميں ان کی بھرپور مخالفت کی تھی۔

ان کی وفات کے بعد مقامی چرچ ميں ان کے لیے دعائيہ تقريب بھی منعقد کی گئ۔ ايک مقامی بشپ جوزف گلائنٹے نے ان کی موت پر شديد دکھ کا اظہار کيا اور ان کے خاندان اور پوری مسلم کميونٹی سے اظہار افسوس کيا۔

اس موقع پر انہوں نے کہا

"ميں نيوجرسی کے عيسائ اور مسلم رہائشيوں کے مابين احترام اور تعلقات کے فروغ کے ليے ان کی کاوششوں پر ہميشہ ان کا مشکور رہوں گا۔"

جن افراد نے ضيا رحمان کے ساتھ مل کر کام کيا تھا ان ميں کنگ کيتھولک چرچ کے پاسٹر جوزف والس بھی شامل تھے۔ ان کے مطابق

"اپنے مذہب اور مسلم کميونٹی سے بے پناہ محبت کے علاوہ وہ عيسائ اور يہود سميت ديگر مذہب کے افراد کے ساتھ بھی مل کر کام کرتے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ ہم لوگ مذہب اسلام کو زيادہ بہتر طور پر سمجھ سکيں اور مسلمان بھی ہماری مذہبی روايات سے روشناس ہوں۔ وہ ايک روحانی شخص اور بہترين دوست تھے۔ ميں ان کی کمی ہميشہ محسوس کروں گا۔"

http://www.courierpostonline.com/article/20090610/NEWS01/906100353&referrer=FRONTPAGECAROUSEL

http://www.philly.com/inquirer/obit...n__64__worked_to_ease_religious_tensions.html

ضيا رحمان 35 برس قبل پاکستان سے امريکہ منتقل ہوئے تھے اور نوجوان مسلمان کی حيثيت سے انھوں نے امريکہ ميں بے پناہ کاميابياں حاصل کيں۔ وہ ايک کٹر مسلمان تھے ليکن امريکہ ميں کاميابی حاصل کرنے کے ليے يہ بات کبھی بھی ان کے راستے کی رکاوٹ نہيں بنی۔ ديگر مذاہب اور ثقافت کے باثر افراد اور گروپوں سے اپنے روابط کی روشنی ميں وہ اس بات پر پختہ ايمان رکھتے تھے کہ تلخيوں اور اختلافات کی خليج کم کرنے کے ليے مختلف مذہبی عقائد کے باوجود ديگر کميونٹی کے افراد سے رابطے ضروری ہيں۔

ان کی وفات کے بعد مختلف مذاہب کے افراد کی جانب سے جس بے ساختہ رنج اور غم کا اظہار کيا گيا، اس سے مجھے بے اختيار صدر اوبامہ کی قاہرہ ميں تقرير کے وہ الفاظ ياد آ گئے

" دنیا کے لوگ امن سے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں ‌کہ یہی خدا کی منشا ہے۔ اب ہمیں زمین پر اپنا کام سرانجام دینا ہے”۔

ضيا رحمان اپنی وفات کے وقت اس حقیقت سے آشنا تھے کہ انھوں نے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے امن اور باہمی روادری کے فروغ کے لیے اپنی ذمہ دارياں پوری کيں۔

شايد ہم بھی ان کی مثال سے سبق سيکھ سکتے ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top