افسروں کی زیرسرپرستی لیڈیز پولیس اہلکاروں کی جسم فروشی کا انکشاف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
رضا صاحب آپ تصویری پیغام کی بجائے یونیکوڈ میں پیغام پوسٹ کیا کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
 
تازہ ترین صورتحال:
لیڈیز پولیس سکینڈل: سرغنہ شافعہ کو بچانے کیلئے کئی افسر اور اہم شخصیات متحرک


لاہور (نمائندہ خصوصی) لیڈیز پولیس سکینڈل کی مبینہ سرغنہ ریزرو انسپکٹر شافعہ بخت افروز کو بچانے کیلئے پولیس افسروں سمیت کئی اہم شخصیات متحرک ہو گئی ہیں اور انہی ’’مہربانوں‘‘ کے دبائو کی وجہ سے پولیس نے تاحال مذکورہ ’’تھانیدارنی‘‘ اور ایل ڈی اے کے عیاش اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شافعہ بخت افروز متعدد بار معطل ہو چکی ہے اور اسے سب انسپکٹر سے تنزلی کرکے اے ایس آئی بنایا گیا ہے۔ مذکورہ خاتون کو حساس ادارے کے ایک افسر اور ایس ایس پی رینک کے ایک افسر سمیت متعدد شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے۔ چند ماہ قبل ایک لیڈی کانسٹیبل زینب نے ایک خاتون ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر کے پاس پیش ہوکر شافعہ کی شکایت کی تو اس نے ڈی ایس پی کے سامنے کانسٹیبل کے منہ پر تھپڑ مار دیا تھا۔ ڈی ایس پی نے اپنی رپورٹ میں شافعہ کو گناہگار قرار دیا اس کے باوجود اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی تو مذکورہ کانسٹیبل سی سی پی او کی کھلی کچہری میں پیش ہو گئی۔ جس پر سی سی پی او نے دونوں کو معطل کرکے انکوائری شروع کر دی جو تاحال زیرالتوا ہے تاہم اس دوران دونوں اہلکاروں کو بحال کر دیا گیا اور سابق ایس ایس پی ہیڈ کوارٹر مرزا فاران بیگ نے اے ایس آئی عہدے کی شافعہ کو ریزرو انسپکٹر لائن تعینات کر دیا۔ معلوم ہوا ہے کہ اسکی پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں بھی پولیس اور حساس ادارے کے مذکورہ افسران ہی شامل تھے۔ علاوہ ازیں کئی افسر شافعہ اور محرر ستارہ کے خلاف کارروائی کی بجائے انکی شکایت کرنے والی کانسٹیبلان (ن) اور (ز) کو ہراساں کر رہے ہیں اور یہ سکینڈل بے نقاب کرنے پر انہیں محکمہ پولیس کی بدنامی کا باعث قرار دیا جا رہا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ’’کچھ مہربانوں‘‘ کے دبائو کے باعث سبزہ زار پولیس نے کانسٹیبل (ز) کی درخواست پر تاحال شافعہ بخت افروز‘ محرر ستارہ اور کوٹھی نمبر 513ایم سبزہ زار میں عیاشی کرنے والے ایل ڈی اے کے اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا۔
 

رضا

معطل
امیر اہلسنّت کے درس حیاپر مشتمل مدنی پھول ملاحظہ فرمائیں۔ (اللہ تعالی ہمیں حیا کی دولت سے مالا مال فرمائے۔
اللہ تبارک وتعالی کا فرمان عالیشان ہے۔
وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃالاولٰی) 22 الاحزاب 33(
ترجمہ کنزالایمان: اور اپنےگھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔
ہمارے بزرگوں کا عمل:
حضرت سیدنا ابو السائب رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں،ایک نوجوان صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ایک بار جب وہ باہر سے اپنے گھر تشریف لائے تو یہ دیکھ کر انہیں بڑی غیرت آئی کہ ان کی دلہن گھر کے دروازے پر کھڑی تھی! مارے جلال کے نیزہ تان کر اپنی دلہن کی طرف لپکے، وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی اور رو کر پکاری، میرے سرتاج مجھے مت مارئیے، میں بے قصور ہوں، ذرا گھر کے اندر چل کر دیکھئے تو سہی کس چیز نے مجھے باہرنکالا ہے! چنانچہ وہ صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ اندرتشریف لے گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خطرناک زہریلا سانپ کنڈلی مارے بچھونے پربیٹھا ہے۔ بے قرار ہو کر سانپ پر زور دار وار کر کے اس کو نیزے میں پرو لیا۔ زخمی سانپ نے بل کھا کر ان کو ڈس لیا۔ زخمی سانپ تڑپ تڑپ کر مر گیا اور وہ غیرت مندصحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی سانپ کے زہر کے اثرسےجام شہادت نوش کر گئے۔(سنن ابی داؤد، ج4ص 465 حدیث 5257داراحیاء التراث العربی بیروت)

صلوا علی الحبیب ! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

غیرت مند اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے؟ ہمارےصحابہ ء کرام علیہم الرضوان کس قدر بامروت ہوا کرتے تھے۔انہیں یہ تک بھی منظور نہ تھا کہ ان کے گھر کی عورت گھر کے دروازے یا کھڑکی میںکھڑی رہے۔ اپنی زوجہ کو بنا سنوار کر بے پردگی کے ساتھ تفریح گاہ میں لے جانےوالوں، بے پردگی کے ساتھ اسکوٹر پر پیچھے بٹھا کر پھرانے والوں، شاپنگ سینٹروں اوربازاروں میں بے پردگی کے ساتھ خریداریوں سے نہ روکنے والوں کیلئے عبرت ہی عبرت ہے۔
خوشبو لگانے والی زانیہ
مصطفٰے جان رحمت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ “ بے شک جو عورت خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ ایسی ایسی ہے یعنی زانیہ ہے۔(باختصار سنن الترمذی ج4 ص 361حدیث 2795، دارلفکر بیروت)
مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں، “ کیونکہ وہ اس خوشبو کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے چونکہ اسلام نے زنا کو حرام کیا اس لئے زنا کےاسباب سے (بھی ) روکا (ہے )۔) مراۃ المناجیح، ج2، ص 171ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)

بتیس مدنی پھولوں کا گلدستہ

مدینہ1: ہمارے میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عورت کا ہاتھ، ہاتھ میں لئے بغیر فقط زبان سے بیعت لیتے تھے۔ ( بہار شریعت حصہ 16 ص 78 مدینۃ المرشد بریلی شریف )
مدینہ2: عورت کا اپنے پیر و مرشد سے بھی اسی طرح پردہ ہے جس طرح دیگر نامحرموں سے۔ عورت اپنے پیر کا ہاتھ نہیں چوم سکتی، اپنے سر پر ہاتھ نہ پھروائے۔ حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں، بعض جوان عورتیں اپنے پیروں کے ہاتھ پاؤں دباتی ہیں اور بعض پیر اپنی مریدہ سے ہاتھ پاؤں دبواتے ہیں اور ان میں اکثر یا ایک حد شہوت میں ہوتا ہے ایسا کرنا ناجائز ہے اور دونوں گنہگار ہیں۔ ( بہار شریعت حصہ 16 ص 76 مدینۃ المرشد بریلی شریف )
مدینہ3: مرد و عورت آپس میں ہاتھ نہیں ملا سکتے۔
فرمان مصطفٰے *صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: “ تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل کا ٹھونک دیا جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لئے حلال نہیں۔“ ( المعجم الکبیر ج 25 ص 212 حدیث 487 داراحیاءالتراث العربی بیروت )
مدینہ4: عورت اجنبی مرد کے جسم کے کسی بھی حصے کو نہ چھوئے جبکہ دونوں میں سے کوئی بھی جوان ہو، اس کو شہوت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ اس بات کا دونوں کو اطمینان ہو کہ شہوت پیدا نہیں ہو گی۔ ( فتاوٰی عالمگیری ج5 ص327 کوئٹہ ) نرس کے ہاتھ سے انجکشن اور ڈرپ لگوانے، ٹیسٹ کروانے کیلئے نرس کے ہاتھوں سرنج سے خون نکلوانے اور بلڈ پریشر چیک کروانے والے مرد اس سے عبرت حاصل کریں۔
مدینہ5: نامحرم کے ہاتھ سے عورت کا چوڑیاں پہننا گناہ و حرام اور دونوں کے لئے جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
مدینہ6: بہت چھوٹے بچے کے جسم کے کسی بھی حصے کو چھپانا فرض نہیں۔ پھر جب کچھ بڑا ہو گیا تو اس کے آگے اور پیچھے کا مقام چھپانا ضروری ہے۔ دس برس سے بڑا ہو جائے تو اس کے لئے بالغ کا سا حکم ہے۔ ( ردالمحتار ج9 ص602 دارالمعرفۃ بیروت )
مدینہ7: مرد اپنی محارم ( یعنی وہ خواتین جن سے رشتے کے لحاظ سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام ہو مثلاً والدہ، بہن، خالہ، پھوپھی وغیرہ ) کے سر، چہرہ، کان، کندھا، بازو، کلائی، پنڈلی اور قدم کی طرف نظر کر سکتا ہے جب کہ دونوں میں سے کسی کو شہوت کا اندیشہ نہ ہو۔ ( الھدایہ جز4 ص 370 داراحیاء التراث العربی بیروت )
مدینہ8: مرد کے لئے محارم کے پیٹ، کروٹ، پیٹھ، ران اور گھٹنے کی طرف نظر کرنا جائز نہیں۔ ( الھدایۃ جز4 ص 370 بیروت ردالمحتار ج9 ص606 دارالمعرفۃ بیروت )
مدینہ9: محارم کے جن اعضاء کو دیکھنا جائز ہے ان کو چھونا بھی جائز ہے جبکہ دونوں میں سے کسی کو شہوت کا اندیشہ نہ ہو۔ ( فتاوٰی عالمگیری ج5 ص328 کوئٹہ )
مدینہ10: مرد اپنی ماں کے پاؤں دبا سکتا ہے۔ مگر ران اس وقت دبا سکتا ہے جب کہ کپڑے سے چھپی ہوئی ہو۔ ماں کی ران کو بھی بلا حائل چھونا جائز نہیں۔ ( ایضاً )
مدینہ11: والدہ کے قدم کو بوسہ بھی دے سکتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے، “ جس نے اپنی ماں کا پاؤں چوما تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دیا۔“ ( الدرمختار ج9 ص606 دارالمعرفۃ بیروت )
مدینہ12: تایازاد، چچازاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد، خالہ زاد، سالی اور بہنوئی، بھابھی اور دیور و جیٹھ، چچی، تائی، ممانی، خالو، پھوپھا، لےپالک بچہ جس کو ایام رضاعت میں دودھ نہ پلایا ہو اور اب مرد و عورت کے معاملات سمجھنے لگا ہو ( یاد رہے بچے کو (ہجری سن کے حساب سے ) دو سال کی عمر تک دودھ پلایا جائے۔ اس کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں مگر ڈھائی سال کی عمر کے اندر اندر عورت اگر اپنا دودھ پلا دے تو حرمت نکاح ثابت ہو جائے گا یعنی اب یہ رضاعی بیٹا ہے سے پردہ نہیں ) منہ بولے بھائی بہن، منہ بولے ماں بیٹے، منہ بولی باپ بیٹی، پیر اور مریدنی الغرض جن کی آپس میں شادی جائز ہے ان کا آپس میں پردہ ہے۔ ہاں ایسی بڑھیا جو نہایت ہی بدشکل ہو کہ جس کو دیکھنے سے بالکل شہوت کا شائبہ نہ ہو اس سے مرد کا پردہ نہیں۔ اس کے علاوہ کسی عورت کو دیکھنے سے شہوت ہو یا نہ ہو مرد بلا اجازت شرعی نہیں دیکھ سکتا، جن سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام ہے ان سے پردہ نہیں۔ بہارشریعت میں ہے کہ عورت کو شہوت کا شبہ بھی ہو تو اجنبی مرد کی طرف ہرگز نظر نہ کرے۔ ( ملخص بہارشریعت حصہ16 ص76 مدینۃ المرشد بریلی شریف )
مدینہ13: حرمت مصاہرت کے سبب مرد کو اپنی ساس سے اور عورت کو اپنے سسر سے پردے کے معاملے میں رعایت حاصل ہو جاتی ہے۔ ( حرمت مصایرت کی تفصیلی معلومات کیلئے بہارشریعت حصہ 7 سے “ محرمات کا بیان “ ملاحظہ فرما لیجئے بلکہ نکاح، طلاق، عدت، بچوں کی پرورش وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے شادی سے قبل ہی اور نہیں پڑھا تو شادی کے بعد ہی سہی بہارشریعت حصہ7 اور8 ضرور ضرور ضرور پڑھ لیجئے۔ )
مدینہ14: عورت کا چہرہ اگرچہ عورت نہیں ( یعنی اسے چھپانا فرض نہیں ) مگر فتنے کے خوف کے سبب غیر محرم کے سامنے منہ کھولنا منع ہے۔ اسی طرح اس کی طرف نظر کرنا غیر محرم کے لئے جائز نہیں اور چھونا تو اور بھی زیادہ منع ہے۔ ( بہار شریعت حصہ3 ص45 بحوالہ درمختار، تنویر الابصار و الدرمختار ج2، ص97 )
مدینہ15: بعض لوگ باریک کپڑے کا پاجامہ پہنتے ہیں جس سے ران کی جلد کا رنگ چمکتا ہے۔ ایسا پاجامہ پہننا حرام ہے اور اسے پہن کر نماز بھی نہیں ہوتی۔ ( ملخصاً بہارشریعت حصہ3ص42 مدینۃ المرشد بریلی شریف )
مدینہ16: بعض لوگ دوسروں کے سامنے گھٹنے بلکہ رانیں کھولے رہتے ہیں یہ حرام ہے۔ ( بہارشریعت حصہ3 ص43 مدینۃ المرشد بریلی شریف ) ان کی کھلی ہوئی ران یا گھٹنے کی طرف نظر کرنا بھی جائز نہیں۔ لٰہذا نیکر پہن کر کھیلنے اور ورزش کرنے اور ایسوں کو دیکھنے سے بچنا ضروری ہے۔
مدینہ17: ستر عورت ہر حال میں واجب ہے بغیر کسی صحیح وجہ کے تنہائی میں کھولنا بھی جائز نہیں لوگوں کے سامنے اور نماز میں تو ستر بالا جماع فرض ہے۔ ( الدرمختار و ردالمحتار ج2 ص93 داراالمعرفۃ، بیروت )
مدینہ18: استنجاء کرتے وقت جب زمین سے قریب ہو جائیں اس وقت ستر کھولنا چاہئے اور ضرورت سے زیادہ حصہ نہ کھولیں۔ ( بہارشریعت حصہ2 ص112 ) اگر پاجامے میں زپ ( zip ) ڈلوالی جائے تو پیشاب کرنے میں سہولت ہو سکتی ہے کہ اس طرح ستر کا بہت کم حصہ کھولنے کی ضرورت پڑے گی۔ مگر پانی سے استنجاء کرنے میں سخت احتیاط کرنی ہوگی۔ سب سے باریک والی زپ زیادہ کامیاب ہے۔
مدینہ19: مرد دوسرے مرد کے ناف سے لے کر گھٹنے تک کا کوئی حصہ نہیں دیکھ سکتا اور عورت بھی دوسری عورت کے ناف سے گھٹنے تک کا کوئی حصہ نہیں دیکھ سکتی۔ عورت عورت کے باقی اعضاء پر نظر کر سکتی ہے جب کہ شہوت کا خطرہ نہ ہو۔
مدینہ20: موئے زیر ناف مونڈ کر ایسی جگہ پھینکنا درست نہیں جہاں دوسرے کی نظر پڑے۔ ( ملخص از فتاوٰی عالمگیری ج5 ص 329 کوئٹہ )
مدینہ21: عورتوں کے لئے لازم ہے کہ کنگھا کرنے یا سر دھونے میں جو بال نکلیں انہیں کہیں چھپا دیں کہ غیر مرد کی ان پر نظر نہ پڑے۔ ( ایضاً )
مدینہ22: حیض کا لتہ ایسی جگہ ہرگز نہ پھینکیں جہاں دوسروں کی نظر پڑے۔
مدینہ23: حدیث شریف ہے۔ “ اللہ عزوجل اس قوم کی دعا قبول نہیں فرماتا جن کی عورتیں جھانجھن پہنتی ہوں۔“ ( التفسیرات الاحمدیہ ص565 کوئٹہ ) اس سے عورتوں کو غور کرنا چاہئے کہ جب زیور کی آواز دعا کے رد ہونے کا سبب ہے تو خود عورت کی اپنی آواز ( جو بے ضرورت شرعی غیر مردوں تک پہنچتی ہے ) اور اس کی بےپردگی اللہ عزوجل کے غضب کو کس قدر ابھارتی ہو گی۔ ( اور ایسی عورت کی دعا کس طرح قبول ہو گی! ) ( خزائن العرفان ص637 ضیاء القرآن پبلی کیشنز مرکز الاولیاء لاہور )
اس سے وہ اسلامی بہنیں درس عبرت حاصل کریں جو خریداری، محلہ داری وغیرہ میں غیر مردوں سے بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں۔ انہیں تو گھر کی چاردیواری میں بھی آہستہ آواز نکالنی چاہیئے تاکہ دروازے کے باہر والے لوگ یا پڑوسی وغیرہ آواز نہ سننے پائیں۔ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے وقت بھی یہی احتیاط رکھئے۔
مدینہ24: عورت برقع یا پردے وغیرہ سے بھی ہاتھ بڑھا کر غیر مرد کو کوئی چیز اس طرح نہ دے کہ اس کی کلائی ننگی ہو۔ ( ہتھیلی اور کہنی کے درمیان کا حصہ کلائی کہلاتا ہے آج کل عموماً عورتوں کی کلائی کھلی ہوتی ہے۔ غیر مرد کے آگے عورت کا ننگی کلائی ظاہر کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اگر مرد نے قصداً کلائی کی طرف نظر کی تو وہ بھی گنہگار اور دوزخ کا حقدار ہے۔ لٰہذا ایسے موقع پر کلائی کسی ایسے موٹے کپڑے سے چھپانا ضروری ہے جس سے جلد کا رنگ بھی نہ جھلکے ) اسلامی بہنیں پوری آستین کا لباس پہنیں نیز دستانے اور جرابیں بھی استعمال فرمائیں۔
مدینہ25: حجۃ الاسلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے سفید یا جاذب نظر چادر ( یا خوبصورت برقع ) اوڑھ کر عورت کو باہر نکلنے سے منع فرمایا ہے۔ کہ اس طرح گندی ذہنیت کے لوگ اس کی چادر ( یا برقع ) کو دیکھ کر حظ ( یعنی لذت ) اٹھاتے ہیں۔ لٰہذا موٹے بھدے کپڑے کا خیمہ نماز کشادہ برقع پہننے کی سیدی امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی نے ہدایت فرمائی ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ پہننے والی کی عمر کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ کاش! تمام اسلامی بہنیں خیمہ نما “ مدنی برقع “ اپنا لیں۔
مدینہ26: بیان کردہ شرعی پردے میں ملبوس خاتون کو اگر مرد بلا شہوت دیکھے تو مضائقہ نہیں کہ یہاں عورت کو دیکھنا نہیں ہوا بلکہ یہ ان کپڑوں کو دیکھنا ہوا۔ ہاں اگر چست کپڑے پہنے ہوں کہ بدن کا نقشہ کھنچ جاتا ہو مثلاً چست پاجامے میں پنڈلی اور ران وغیرہ کی ہیئت نظر آتی ہو تو اس صورت میں نظر کرنا جائز نہیں۔ ( ملخص از فتاوٰی عالمگیری ج5 ص329 کوئٹہ )
مدینہ27: اگر عورت نے کسی باریک کپڑے کا دوپٹہ پہنا ہے جس سے بال یا بالوں کی سیاہی کان یا گردن نظر آتی ہو تو غیر مرد کو اس کی طرف نظر کرنا حرام ہے۔ اس طرح کے باریک دوپٹے میں عورت کی نماز بھی نہیں ہوتی۔
مدینہ28: معاذاللہ عزوجل آج کل عورتیں کھلے بالوں کے ساتھ باہر نکلتیں کلائیاں اور بال کھولے گاڑیاں چلاتیں اور اسکوٹر کے پیچھے اپنی چٹیا لہراتی ہوئی بیٹھتی ہیں۔ ان کے بالوں یا کلائیوں پر مرد کی اچانک پہلی نظر معاف ہے جب کہ فوراً پھیر لی اور قصداً اس طرف دیکھنا یا نظر نہ ہٹانا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
حکایت

تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شورٰی کے مرحوم رکن مفتی دعوت اسلامی حضرت علامہ الحاج مفتی محمد فاروق عطاری علیہ رحمۃ اللہ الباری نے اس خوف سے اپنی اسکوٹر بیچ ڈالی کہ راستے میں بے پردہ عورتیں بکثرت ہوتی ہیں، ڈرائیونگ میں نگاہوں کی حفاظت ممکن نہیں کیوں کہ نہ دیکھے تو حادثے کا خطرہ اور دیکھنا بھی بالکل گوارا نہیں۔ اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔
مدینہ29: مرد اجنبیہ عورت کے کسی بھی حصے کو بلا اجازت شرعی نہ دیکھے۔
مدینہ30: اگر کوئی طبیبہ ( لیڈی ڈاکٹر ) نہ ملے تو بامر مجبوری عورت طبیب ( ڈاکٹر ) کو حسب ضرورت اپنے جسم کا بیماری والا حصہ دکھا سکتی ہے اور اب طبیب ضرورتاً چھو بھی سکتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ جسم ہرگز نہ کھولے۔
مدینہ31: غیر مرد اور غیر عورت کا ایک مکان میں تنہا ہونا حرام ہے۔ ہاں ایسی بدصورت بڑھیا کہ جو شہوت کے قابل نہ ہو اس کو دیکھنا اور اس کے ساتھ تنہائی جائز ہے۔
مدینہ32: مرد کا “ امرد “ کو شہوت کی نظر سے دیکھنا حرام ہے۔ شہوت آتی ہو تو اس کے ساتھ ایک مکان میں تنہائی ناجائز ہے۔ بوسہ لینے یا چپٹا لینے کی خواہش پیدا ہونا شہوت کی علامات میں سے ہے۔ امرد کا فتنہ عورت سے زیادہ ہے۔ سرکار اعلٰیحضرت علیہ رحمۃ رب العزت فرماتے ہیں، منقول ہے کہ عورت کے ساتھ دو شیطان ہوتے ہیں اور امرد کے ساتھ ستر۔ ( فتاوٰی رضویہ قدیم ج9 ص64 )
تنبیہ: مالی، مزدور، چوکیدار، ڈرائیور اور گھر کے ملازم سے بھی بے پردگی حرام ہے۔ غیر محرم ڈرائیور کے ساتھ کار، ٹیکسی وغیرہ میں اکیلی عورت کا سفر کرنا حرام ہے۔
( پردے کی تفصیلی معلومات حاصل کرنے کیلئے بہارشریعت حصہ 16 سے باب “ دیکھنے اور چھونے کا بیان “ پڑھئے۔ )
 

رضا

معطل
فرمان مصطفٰےصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: “ تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل کا ٹھونک دیا جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لئے حلال نہیں۔“ ( المعجم الکبیر ج 25 ص 212 حدیث 487 داراحیاءالتراث العربی بیروت )
کیسا زبردست ارشاد ہے۔اللہ تعالی ہمیں اس ارشاد پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ایک حدیث پاک کا مضمون ذہن میں آرہا ہے کہ کفر پر لوٹنے کی بجائے آگ میں ڈالے جانے کو ترجیح دے۔یعنی اگر کوئی آگ میں ڈال دے تو اس کو آسان سمجھے ،اور کفر کی طرف نہ لوٹے۔اسی طرح درج بالا فرمان میں ارشاد فرمایا۔تم میں سے کسی کے سر میں لوہے کی کیل کا ٹھونک دیا جانا اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لئے حلال نہیں۔
 

خرم

محفلین
ان میں سے اکثر فتاوٰی تو "مولویانہ" ذہنیت کی ہی پیداوار ہیں۔ احادیث کے مطالب کو کھینچ تان کر کہاں سے کہاں‌فٹ کر لیا ہے۔ ایک لفظ حدیث میں آیا اور باقی اسے کھینچ تان کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ احادیث سے زیادہ قیاس و گمان کی پرواز شامل ہے ان فتاوٰی میں۔
 
ان میں سے اکثر فتاوٰی تو "مولویانہ" ذہنیت کی ہی پیداوار ہیں۔ احادیث کے مطالب کو کھینچ تان کر کہاں سے کہاں‌فٹ کر لیا ہے۔ ایک لفظ حدیث میں آیا اور باقی اسے کھینچ تان کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ احادیث سے زیادہ قیاس و گمان کی پرواز شامل ہے ان فتاوٰی میں۔

مثلاَ کونسی حدیث پہ آپ کو اعتراض ہے؟
 

گرائیں

محفلین
مثلاَ کونسی حدیث پہ آپ کو اعتراض ہے؟

اولاد کے حقوق کے نام یا ملتے جلتے عنوان سے رضا صاحب کی ایک پوسٹ محفل میں تلاش کر لیجئے، وہاں، مولانا احمد رضا خاں صاحب کی ایک عکسی تحریر موجود ہے جس میں انھوں نے خواتین / لڑکیوں کو سورہ یوسف کا ترجمہ پڑھانے سے منع فرمایا ہے۔

اب حرام قرار دیا ہے یا مکروہ، میرے ذہن سے نکل گیا ہے، میں کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ ربط اس وقت نہیں دے سکتا، براہ مہربانی تلاش کر لیجئے۔

جناب، یہاں پہ کرشمہ ساز حسین بہت پائے جاتے ہیں۔۔۔
 

خرم

محفلین
مثلاَ کونسی حدیث پہ آپ کو اعتراض ہے؟
اللہ نہ کرے حدیث پر نہیں بھیا، اس کے مطالب پر اعتراض ہے۔ ایک فتوٰی میں خواتین کو دستانے پہننے کی ترغیب دی گئی ہے۔ آپ مجھے کہیں سے دلیل لا دیں‌کہ امہات المؤمنین نے دستانے پہنے تھے تو میں مان جاؤں‌گا۔ اسی طرح برقعے کی بہت بات کی جاتی ہے۔ کوئی ایک روایت لا دیں کہ امہات المؤمنین یا خاتون جنت برقعہ لیا کرتی تھیں۔ ایک بات حدیث میں آتی ہے، ہم لوگ اس پر پچاس اپنی طرف سے لاد کر بتنگڑ بنا لیتے ہیں۔ خواتین اور مردوں کا بات کرنا آج کے مولوی حضرات منع فرماتے ہیں۔ کئی روایات موجود ہیں کہ حضرت برہ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصحاب سے الگ کر لیا کرتی تھیں‌اور نبی پاک باقی اصحاب سے دور لیکن ان کی نظروں کے سامنے حضرت برہ کی بات سُنا کرتے تھے۔ پھر ایک روز نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت برہ کے گھر تشریف لے گئے، وہ گھر پر موجود نہ تھیں اور چولہے پر گوشت چڑھا تھا۔ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہنڈیا میں سے بوٹی نکال کر کھانا شروع کی تو کسی نے عرض کی کہ یہ گوشت صدقے کا ہے۔ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ یہ برہ کے لئے ہے، ہمارے لئے ہدیہ ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مرد و عورت کا تخلیہ میں الگ ہونا دین نے منع قرار دیا ہے لیکن تہذیب اور شائستگی والا تعلق ایک مسلم مرد اور خاتون کے درمیان یقیناَ ہو سکتا ہے جس میں کسی بد ارادہ کو دخل نہ ہو۔ اور اس تعلق میں ہر قسم کے علم کی تحصیل، علمی مباحثات اور دیگر دنیاوی کام جن میں خواتین کی شمولیت تخلیہ کی متقاضی نہ ہو یا جہاں ان کی عزت و آبرو کو خطرہ نہ ہو (جیسے پولیس یا فوج میں‌ان کی شمولیت کہ اس میں دو بدو لڑائی یا قید یا حراست میں آنے کے بعد خواتین کو تشدد و تحقیر کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے) سب شامل ہیں۔
 
علماہ انبیاہ کے وارث ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں تحقیر آمیز یا تمسخرانہ انداز میں بات کرنا ٹھیک نہیں۔ اتنی محنت اور وقت ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر تیار ہونے میں نہیں لگتا جتنا ایک عالم کے تیار ہونے میں۔
میرا یا آپ کا دین کے بارے میں علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم تو قرآن اور حدیث کی تفسیر بھی خود نہیں کر سکتے۔ نماز، نکاح، قرآن پڑھانے اور بے شمار دیگر امور میں ہمیں انھیں "مولویان" کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر یہ اتنے ہی "جاہل" ہیں تو ہم لوگ خود یہ کام کیوں نہیں کر لیتے؟
افسوس وہ واحد طبقہ جس کی وجہ سے اسلام کسی نہ کسی صورت میں اب بھی ہم لوگوں میں موجود ہے، ہمارے طنز کے تیروں کا شکار ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تو بھائی جی یہ اجارہ داری آپ نے کیوں ان کو دی ہوئی ہے؟

آپ کیوں نماز نہیں پڑھا سکتے؟
آپ نکاح کا خطبہ کیوں نہیں یاد کر سکتے؟
آپ بچے کے کان میں‌ کیوں اذان نہیں دے سکتے؟
آپ کیوں میت کو نہیں نہلا سکتے؟
آپ کیوں میت کو قبر میں نہیں اتار سکتے؟

کیوں آپ نے یہ سارے کے سارے کام مولویوں کو سونپے ہوئے ہیں؟
 
تو بھائی جی یہ اجارہ داری آپ نے کیوں ان کو دی ہوئی ہے؟

آپ کیوں نماز نہیں پڑھا سکتے؟
آپ نکاح کا خطبہ کیوں نہیں یاد کر سکتے؟
آپ بچے کے کان میں‌ کیوں اذان نہیں دے سکتے؟
آپ کیوں میت کو نہیں نہلا سکتے؟
آپ کیوں میت کو قبر میں نہیں اتار سکتے؟

کیوں آپ نے یہ سارے کے سارے کام مولویوں کو سونپے ہوئے ہیں؟


اس لیے کہ وہ یہ کام ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ حدیث اور فقہ ان چار پانچ کاموں پر ہی مشتمل نہیں بلکہ یہ بہت وسیع علم ہے۔

آپ کے سوال کی مثال کچھ ایسے ہے کہ کوئی کہے:
انجینئر کو ہسپتال میں ڈاکٹر کی جگہ جا کر آپریشن کرنے چاہیئے۔ یا ڈاکٹر عمارت یا سڑک بنانے کا پتہ ہونا چاہیئے۔
درزی کو خلابازی کا پتہ ہو- یا خلاباز کو کپڑے سینے کا بھی پتہ ہونا چاپیئے
 

شمشاد

لائبریرین
میرے بھائی یہ بات نہیں ہے۔

میرا کہنے کا مطلب تھا کہ ہم نے دین کے معاملے میں ہر چھوٹی بڑی بات کی ذمہ داری مولویوں کو سونپ رکھی ہے۔ اور ہر داڑھی والے کو مولوی سمجھتے ہیں۔

دیہاتوں میں تو اور بھی برا حال ہے۔ وہاں پر لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کو اتنا نہیں مانتے جتنا گاؤں کے مولوی کو مانتے ہیں۔ کہ جو مولوی نے کہہ دیا وہی دین ہے وہی اسلام ہے۔
 

خرم

محفلین
علماہ انبیاہ کے وارث ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں تحقیر آمیز یا تمسخرانہ انداز میں بات کرنا ٹھیک نہیں۔ اتنی محنت اور وقت ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر تیار ہونے میں نہیں لگتا جتنا ایک عالم کے تیار ہونے میں۔
میرا یا آپ کا دین کے بارے میں علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم تو قرآن اور حدیث کی تفسیر بھی خود نہیں کر سکتے۔ نماز، نکاح، قرآن پڑھانے اور بے شمار دیگر امور میں ہمیں انھیں "مولویان" کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر یہ اتنے ہی "جاہل" ہیں تو ہم لوگ خود یہ کام کیوں نہیں کر لیتے؟
افسوس وہ واحد طبقہ جس کی وجہ سے اسلام کسی نہ کسی صورت میں اب بھی ہم لوگوں میں موجود ہے، ہمارے طنز کے تیروں کا شکار ہے۔
بھائی علماء انبیاء کے وارث‌ہوتے ہیں لیکن انبیاء کے وارث تھوک کے بھاؤ نہیں ملا کرتے۔ جو علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ان کا ادب کروایا نہیں جاتا، دل خود بخود ان کا ادب کرنے پر مائل ہوتا ہے۔ علمائے حق یقیناَ موجود ہیں لیکن ہر گلی، ہر محلے، ہر شہر میں‌نہیں۔ زیادہ تر تو علمائے سوء ہیں۔ اور ویسے بھی علماء کا کہہ دینا پتھر پر لکیر نہیں ہوتا۔ حدیث شریف کے مطابق یہ بالکل ممکن ہے کہ جسے کوئی حدیث یا دین کی بات بتائی جائے اسے اس کی سمجھ بتانے والے سے زیادہ اچھی طرح آجائے۔ ویسے بھی نماز، قرآن پڑھانے کے لئے مولوی کی نہیں مسلمان کی ضرورت ہوتی ہے اور نکاح‌کے لئے تو غالباَ اس کی بھی نہیں کہ نکاح ایک معاہدہ ہے اور میاں بیوی اگر دونوں‌ اسلام قبول کرلیں تو ان کا پُرانا نکاح ہی موجود رہتا ہے۔
 

گرائیں

محفلین
تو بھائی جی یہ اجارہ داری آپ نے کیوں ان کو دی ہوئی ہے؟

آپ کیوں نماز نہیں پڑھا سکتے؟
آپ نکاح کا خطبہ کیوں نہیں یاد کر سکتے؟
آپ بچے کے کان میں‌ کیوں اذان نہیں دے سکتے؟
آپ کیوں میت کو نہیں نہلا سکتے؟
آپ کیوں میت کو قبر میں نہیں اتار سکتے؟

کیوں آپ نے یہ سارے کے سارے کام مولویوں کو سونپے ہوئے ہیں؟

میرا خیال ہے ایک دو کاموں کے سوا سب کام ہر ایک مسلمان کو آنے چاہئیں۔ اگر نہیں آتے تو مولوی کا کیا قصور؟
 

arifkarim

معطل
مولوی کا کام صرف دینی امور و روایات کا علم عوام تک پہنچانا ہے۔ مولوی کو سیاست میں‌کودنے کا حق کسنے دیا ہے؟
 
دینی علم سے مراد کس طرف اشارہ ہے

تو اسلام نے کیوں خواتین اور مردوں کے حد سے زیادہ شیر و شکر ہونے کو ممنوع قرار دیا ہے؟ شیطان ہر معاملے میں برابری کی بھونڈ ی دلیل لاکر پہلے جال بچھاتا ہے، پھر جب اس میں پھنس کر اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتے ہیں تو آپ کے اندر انتقام کا الاؤ جلا کر مزید آگ تیار کرواتا ہے۔ تخلیہ میں کسی عورت کا نامحرم مرد کے ساتھ ہونا یقیناَ آگ اور پیٹرول کا کھیل ہے۔ مجھے تو آج تک سمجھ نہیں آئی کہ بیبیوں کو فوج میں اور پولیس میں شامل کرنے کی کیا تُک ہے ماسوائے اس کے کہ ان کی ردائے عزت تار تار کر دی جائے؟ آج کل تو ایک اور خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے۔ بچیوں کو "دین" کا علم سکھانے کے لئے دوسرے شہروں میں بھیجا جاتا ہے اور کئی کئی ماہ وہ وہاں‌ اکیلی رہتی ہیں۔ خدانخواستہ اس قسم کی کوئی بات ان جگہوں کے متعلق سامنے آگئی تو پھر کیا کریں گے یہ معلوم نہیں۔
اسلام بہت واضح حدود متعین کرتا ہے مردوں اور عورتوں کے باہمی ربط کی۔ ہجوم میں اور دوسرے لوگوں کے سامنے ایک لڑکے اور لڑکی کا آپس میں بات کرنا، دینی و علمی اور کسی بھی شائستہ موضوع پر بات کرنا یقیناَ جائز ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب مرد کسی بھی روپ میں مستقلاَ عورتوں کے اردگرد رہیں بالخصوص تخلیہ میں۔ ہماری زوجہ بتاتی ہیں کہ انہیں ان کے میڈیکل کے ایک پروفیسر نے کالج کے ابتدائی دنوں‌میں‌سمجھایا تھا کہ کچھ بھی ہو،کبھی بھی کسی بھی مرد کے ساتھ خواہے وہ تمہارا استاد ہو، کولیگ ہو کوئی بھی ہو اکیلے کسی کمرے میں‌نہیں‌جانا۔ اس سے اچھی ہدایت نہیں دی جاسکتی بچیوں کو شاید۔

بھائی جان پہیلیاں نہ بھجواو اور صاف بات کرو ذرا
 
اگر آپ کا اشارہ دینی مدارس کی طرف سے ہے تو یہ آپ کا وہم ہے کیوںکہ دینی مدارس میں خواتین کے لئے مدرسات بھی خواتین ہی ہوتی ہیں۔ اور دین کوئی کھیل نہیں اور ہر کوئی آپ جیسے ذہن والا بھی نہیں دین میں ۔ علماء اور عالمات آپ کے اچھے اچھے ڈگری ہولڈرز پروفیسرز سے زیادہ پرہیز گار اور عملی زندگی والے ہیں۔ کیوں کے دین سے وا بستہ ہونے کی بعد زندگی ہی بدل جاتی ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top