تحریک جہاد کے مراحل

ساقی۔

محفلین
السلام علیکم
حاضرین میں آج صبح تلاوت قران پاک بمعہ اردو ترجمعہ کی تلاش میں تھا کہ سرچ کے دوران مجھے مندرجہ ذیل تحریر ملی۔ مجھے بہت نافع محسوس ہوئی سوچا آپ دوستوں کے مطالعے کے لیئے بھی یہاں پوسٹ کر دوں۔
آپ اسے پڑھیں اور اظہار خیال کریں۔
شکریہ




سیّد قطب شھید کی کتاب معالم فی الطریق سے اقتباسات
تحریک جہاد کے مراحل

امام ابن قیّم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے:---- بعثت سے لیکر وصال تک کفار و منافقین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ کیسا رہا؟-------- اس باب میں امام موصوف نے درحقیقت اسلامی جہاد کی تحریک کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

"ہم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپ (ص) پر جو وحی نازل فرمائی، وہ یہ تھی:" اقرأ باسم ربک الذی خلق۔۔۔" یہ آغازِنبوت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ص) کو حکم دیا کہ آپ(ص) اس وحی کو دل میں پڑھا کریں۔ دوسروں تک اس کی تبلیغ کا حکم نہیں دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا کہ :" یا ایہا المدثر، قم فانذر" اسی طرح "اقرأ" کی وحی سے اللہ تعالیٰ نے آپ (ص) کو نبوت عطا فرمائی اور "یاایھا المدثر" کے ارشاد سے اپ (ص) کو رسالت کا منصب دیا۔ بعد میں آپ (ص) کو حکم دیا کہ آپ(ص) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ چنانچہ آنجناب (ص) نے پہلے اپنی قوم کو ڈرایا، پھر آس پاس کے عربوں کو ڈرایا۔ اور پھر آگے بڑھ کر تمام عربوں کو ڈرایا۔ اور پھر بآلاخر آپ نے تمام اہلِ جہاں کو ڈرایا۔ چنانچہ آپ (ص) اپنی بعثت کے بعد تقریباً 13 سال تک دعوت و تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا خوف دلاتے رہے۔ اس عرصہ میں نہ جنگ کی اور نہ جزیہ لیا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی حکم ملتا رہا کہ ہاتھ روکے رکھیں، صبر سے کام لیں اور عفو و درگزر سے کام کو شعار بنائیں۔ پھر آپ کو ہجرت کا حکم ملا۔ اور قتال کی بھی اجازت دی گئی۔ پھر یہ حکم ملا کہ جو لوگ آپ(ص) سے جنگ کریں آپ (ص) اُن سے جنگ کریں۔ اور ان لوگوں سے ہاتھ روک لیں جو الگ تھلگ رہے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ کے لیے نہیں نکلے۔ بعد ازاں یہ حکم دیا کہ مشرکین سے جنگ کریں، یہاں تک کہ دین پُورے کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر حکم جہاد انے کے بعد کفار کی تین قسمیں ہوگئیں: ایک اہل صلح، دوسرے اہل حرب، اور تیسرے اہل ذمہ۔ جن کفّار سے آپ (ص) کا معاہدہ اور صلح تھی۔ حکم ہوا کہ ان کا معاہدہ پورا کریں۔ اور جب تک وہ خود عہد پر استوار رہیں اُن کے معاہدے کا ایفأ کیا جائے۔ اور اگر ان سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اُن کا عہد اُن کے منہ پر دے ماریں، اور اس وقت تک ان کے خلاف تلوار نہ اُٹھائیں جب تک نقصِ عہدکی ان کو اطلاع نہ کردیں۔ اور حکم ہوا کہ عہد شکنی کرنے والوں سے جنگ کی جائے-------------------------------- اور جب سورہ برأت نازل ہوئی تو اس سورہ میں تینوں قسم کے احکام بیان کیے گیے۔ اور یہ واضح کردیا گیا کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ خدا اور رسول کے دشمن ہیں اُن سے جنگ کریں یہاں تک کہ وہ جزیہ دینا قبول کرلیں، یا اسلام میں داخل ہوجائیں۔ کفار اور منافقین کے بارے میں اس سورہ میں بتایا گیا کہ ان کے خلاف جہاد کیا جائے، اور اُن سے سخت برتاؤ کیا جائے۔ چنانچہ آپ (ص) نے کفار کے ساتھ شمشیر و سناں سے جہاد کیا۔ اور منافقین کے ساتھ دلیل اور زبان سے۔ اسی سورۃ میں یہ بھی فرمایا گیا کہ کفار کے ساتھ کیے ہوئے اپنے تمام معاہدوں سے اعلان برآت کردیں، اور ان کے معاہدے ان کے منہ پر ماردے ماریں---------- اس سلسلہ میں اہل معاہدہ کی تین قسمیں قرار دی گئیں: ایک وہ قسم جس سے قتال کا حکم دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خود عہد شکنی کی تھی۔ اور عہد کی پانبدی پر قائم نہ رہے تھے۔ آپ(ص) نے ان سے جنگ کی اور ظفریاب ہوئے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے ساتھ آپ(ص) کے معاہدے ایک مدت تک کے لیے تھے۔ اور انہوں نے ان معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کی، اور نہ ہی آپ (ص) کے خلاف کسی کی مدد دی۔ ان کے بارے میں اللہ نے حکم دیا کہ ان کے معاہدوں کی مدت پوری کریں۔ تیسری قسم کے لوگ ان لوگوں کی تھی جن کے ساتھ آپ(ص) کا کوئی معاہدہ نہ تھا اور ن ہ آپ (ص) سے برسرپیکار ہوئے، یاایسے لوگ تھے جن کے ساتھ غیر معینہ عرصہ کے لیے آپ(ص) کا معاہدہ تھا۔ تو ایسے سب لوگوں کے بارے میں ارشاد ہوا کہ انہیں چار ماہ کی مہلت دی جائے، اور جب یہ مہلت ختم ہوجائے تو ان سے قتال کیا جائے----------- چنانچہ عہد شکنی کرنے والوں کو قتل کیا گیا، اور جن سے کوئی معاہدہ نہ تھا یا جن کے ساتھ غیر محدود مدت تک کے لیے معاہدہ تھا انہیں چار ماہ کی مدت دی گئی۔ اور ایفائے معاہدہ کرنے والوں کو مدت پوری کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس طرح تمام لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ اور عرصہ مہلت کے خاتمہ تک وہ کفر پر قائم نہ رہے۔ اہل ذمہ پر جزیہ عائد کردیا گیا۔------ الغرض سورہ برأت کے نازل ہونے کے بعد کفار کے ساتھ آپ(ص) کے برتاؤ نے مستقل طور پر تین شکلیں اختیار کرلیں۔ محاربین، اہل عہد، اور اہل ذمہ۔ اہل عہد بھی بآلاخر اسلام میں داخل ہوگئے، اور صرف دو قسم لے لوگ رہ گئے: محاربین اور اہل ذمہ۔ محاربین آپ(ص) سے خائف رہتے تھے۔ اس طرح تمام اہل زمین تین شکلوں میں آپ(ص) کے سامنے اگئے: ایک جو مسلمان جو آپ(ص) پر ایمان لائے، دوسرے صلح جُوجن کو آپ(ص) کی طرف سے امان ملی، اور تیسرے خائفین جو برسرِجنگ رہے۔ رہا منافقین کے معاملہ میں آپ(ص) کا اسوہ، تو آپ(ص) کو حکم دیا گیا کہ آپ(ص) اُن کے ظاہر کو قبول کریں اور اُن کے باطن کے حالات کو اللہ پر چھوڑدیں اور علم اور دلیل سے اُن کے ساتھ جہاد کریں۔ اُن سے رُوکشی کریں اور شدّت کا برتاؤ کریں۔ اور قول بلیغ کے ساتھ ان کے دلوں پر اثر ڈالیں ان کا جنازہ پڑھنے سے اور ان کی قبروں پر قیام کرنے سے آپ(ص) کو منع کردیا گیا۔ اور آپ(ص) کو بتادیا گیا کہ اگر آپ(ص) ان کے لیے مغفرت بھی طلب کریں گے تو اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا------------ یہ ہے آپ(ص) کا اسوہ کافروں اور منافق دشمنوں کے بارے میں"

اس مضمون میں جہاں جہاد اسلامی کے تمام مراحل کی بڑی عمدگی سے تلخیص کی گئی ہے۔ اس تلخیص میں دین حق کے تحریکی نطام کے امتیازی اور دُوررس اوصاف کی جھلک ملتی ہے۔ یہ اس قابل ہیں کہ ان کا بغائر نظر مطالعہ کیا جائے۔ لیکن ہم یہاں چند مُجمل اشارات ہی سے کام لے سکتے ہیں:

مزید پڑھیں
 

خرم

محفلین
یہ ایک نقطہ نظر ہے۔ جہاد بالسیف اسلامی ارتقاء کا آخری پڑاؤ ہوتا ہے الا یہ کہ آپ کو اپنی مدافعت میں لڑائی کرنا پڑ جائے۔ تلوار اُٹھانے سے پہلے دوسروں کو اسلام کی دعوت دینا لازم ہے اور اس سے پہلے ایک اسلامی معاشرہ کا قیام لازم ہے اور اس سے پہلے تمام مسلمانوں کے باطن کو اللہ کے رنگ میں رنگنا لازم ہے۔ یہ ترتیب ہے جس میں نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کی تکمیل فرمائی اور آج بھی اسلام کا عروج اسی ترتیب کے اتباع سے ممکن ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ بات کو اُلٹا پکڑتے ہیں۔ پہلے بندوق اٹھاتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ اسلام آجائے گا۔ جب آپ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع ہی نہیں‌کرتے تو اسلام کیسے آجائے۔ جو ترتیب اوپر والے مضمون میں بیان کی گئی ہے، اسی ترتیب پر عمل کرنے سے اسوہ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہوگی، اسی سے اسلام کا عروج ہوگا۔ پہلے اپنے ظاہر و باطن کو مسلمان کریں۔ پھر اپنے قرابت داروں کو پھر اپنے قریب کے لوگوں کو پھر اپنے معاشرہ کو۔ اور یہ تبدیلی ڈنڈے سےنہیں حسن خلق سے لائیں۔ پورا پورا اسوہ رسولی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کریں۔ لوگ اسلام پر عمل ڈر سے نہیں شوق سے کریں۔ پھر جب آپ کا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہو جائے گا، تو لوگ خودہی اسلام کی جانب کھنچیں گے۔ پھر آپ لوگوں کو اسلام کی تعلیمات بتائیں گے۔ اور جب آپ کا معاشرہ اسلام کی تعلیمات کا نمونہ ہوگا تو دوسرے معاشروں کے افراد جو قلب سلیم کے حامل ہوں گے خود اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے انشاء اللہ اور اس طرح چراغ سے چراغ جلتا جائے گا۔
 

ساقی۔

محفلین
بالکل۔ اصل جہاد ہی خود کو "درست مسلمان" سے پہلے "درست انسان" بنانا ہے!

محترم ! میرے خیال سے جو اچھا مسلمان ہو گا وہ ضرور اچھا انسان ہو گا۔ اس لیئے خود کو اچھا مسلمان بنایئے ۔موخر الذکر خوبی آپ میں کوڈ بخود پیدا ہو جائے گی۔
آپ کی بات سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جو اچھا مسلمان ہوتا ہے وہ درست انسان نہیں ہونا۔ بلکہ پہلے درست انسان بنے گا پھر اچھا مسلمان۔؟
 

ٹیپو سلطان

محفلین
جزاک اللہ۔
یقینا ہیروئن، ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان کے پیسوں سے اسلام کا نفاذ ممکن نہیں۔ راستہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں‌متعین شدہ ہے جیسا کہ ساقی بھائی اورخرم بھائی نے مزید وضاحت فرما دی ہے۔
 

arifkarim

معطل
محترم ! میرے خیال سے جو اچھا مسلمان ہو گا وہ ضرور اچھا انسان ہو گا۔ اس لیئے خود کو اچھا مسلمان بنایئے ۔موخر الذکر خوبی آپ میں کوڈ بخود پیدا ہو جائے گی۔
آپ کی بات سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جو اچھا مسلمان ہوتا ہے وہ درست انسان نہیں ہونا۔ بلکہ پہلے درست انسان بنے گا پھر اچھا مسلمان۔؟

جی ہاں! پہلے اندرونی اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ مسلمان مسلسل پستی کا شکار ہیں۔ ایک اچھا انسان اپنے ایمان اور اصولوں کا پابند ہوتا ہے۔ جبکہ ہم مسلمان ہونے کا تو دعویٰ کرتے ہیں لیکن اعمال کے لحاظ سے کہیں سے بھی مسلمان نہیں ہیں۔ پس ایک اچھا مسلمان بننے سے پہلے اچھا انسان بننا ضروری ہے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کیلئے بھی "درست" عقل و فہم کی ضرورت ہے!
 

ساقی۔

محفلین
جی ہاں! پہلے اندرونی اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ مسلمان مسلسل پستی کا شکار ہیں۔ ایک اچھا انسان اپنے ایمان اور اصولوں کا پابند ہوتا ہے۔ جبکہ ہم مسلمان ہونے کا تو دعویٰ کرتے ہیں لیکن اعمال کے لحاظ سے کہیں سے بھی مسلمان نہیں ہیں۔ پس ایک اچھا مسلمان بننے سے پہلے اچھا انسان بننا ضروری ہے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات کو سمجھنے کیلئے بھی "درست" عقل و فہم کی ضرورت ہے!

واہ واہ کیا خوب منطق ہے صاحب آپ کی!:laughing:

یعنی اپ کے خیال میں اندرونی اصلاح اسلام نہیں کر سکتا ۔ جو پہلے انسان بننا پڑے گا۔؟:rollingonthefloor:
صاحب عقل کو ہاتھ ماریئے! اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسانیت کی تکمیل ہے ۔ اس میں دنیا و آخرت کی ہر وہ خوبی موجود ہے ۔ جو یقینا کسی اور مذہب میں نہیں۔ اور مذہب ہی ایسی چیز ہیں جو انسانیت کا سبق دیتے ہیں ِِ تو اسلام سب سے بہترین انسانیت کی تعلیم دینے والا مذہب ہمارے پاس موجود ہے ۔ تو پھر کسی اور مذہب سے انسانینت سیکھنے کی ضرورت کیوں۔؟ اسلام ہی کیوں نہیں۔؟
 

ٹیپو سلطان

محفلین
جو شخص کلمہ پڑھ لیتا ہے وہ مسلمان ہو جاتاہے۔یہ تکامل کی طرف حضرت انسان کا پہلا قدم۔ یہاں پر رکنا نہیں ہے
کیونکہ ارشاد رب العزت ہے
قَالَتِ الْاَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِنْ قُولُوا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ ۔ ترجمہ:۔ اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔( الحجرات آیت نمبر 14)
اسلام قبول کر لینا پہلا قدم ہے، باقی مراحل جب بندہ طے کرتا ہے تو ایک اچھا انسان بن جاتا ہے۔ (ممکن ہے ایک بندہ مسلمان تو ہو لیکن اچھا انسان نہ ہو) تکامل انسان کی طرف یہ پہلا قدم ہے جو اسلام لانے سے ہی شروع ہوتا ہے۔کئی اور مراحل ہیں۔ اطاعت کے مراحل ہیں اطاعت کے ساتھ ساتھ یقین قلب کو حاصل کرنے کے مراحل ہیں، تزکیہ نفس کے مراحل ہیں۔ اب جب انسان اِن مراحل کر لیتا ہے تو اس کو بے شک اچھا انسان کہہ لیں بے شک اچھا مسلمان کہہ لیں، بے شک ایمان والا کہہ لیں۔ ایک ہی بات ہے۔
چونکہ اسلام دین فطرت ہے ، اسلام پر پوری طرح عمل کرنے کے بعد انسان اپنی اصل فطرت کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ یعنی اچھا انسان بن جاتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
واہ واہ کیا خوب منطق ہے صاحب آپ کی!:laughing:

یعنی اپ کے خیال میں اندرونی اصلاح اسلام نہیں کر سکتا ۔ جو پہلے انسان بننا پڑے گا۔؟:rollingonthefloor:
صاحب عقل کو ہاتھ ماریئے! اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسانیت کی تکمیل ہے ۔ اس میں دنیا و آخرت کی ہر وہ خوبی موجود ہے ۔ جو یقینا کسی اور مذہب میں نہیں۔ اور مذہب ہی ایسی چیز ہیں جو انسانیت کا سبق دیتے ہیں ِِ تو اسلام سب سے بہترین انسانیت کی تعلیم دینے والا مذہب ہمارے پاس موجود ہے ۔ تو پھر کسی اور مذہب سے انسانینت سیکھنے کی ضرورت کیوں۔؟ اسلام ہی کیوں نہیں۔؟

بالکل، کیونکہ اگر اسلام میں‌واقعی طاقت ہوتی تو کم از کم عرب کے لوگوں کی ہی سخت دلی دور کر سکتا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے قیام کے وقت کیا واقعہ پیش آیا تھا اور اول اسلام لانے والوں نے کیسا نمونہ پیش کیا تھا!:(
جب خود "اولین" نے ہی انسانیت کا مظاہرہ نہیں کیا تو "ہم" آخرین کیا معنی رکھتے ہیں؟
 

ٹیپو سلطان

محفلین
arifkarim اسلام اولین و آخرین دونوں کے لیے ہے۔
وَمَا اَرْسَلْنَاكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِلْعَالَمِينَ (الانبياء: 107) یہ رحمت تمام عالمین کے لیے ہے چاہے اولین ہوں یا آخرین ہوں۔
کسی بھی دور میں اسلام پر عمل نہ کرنے سے اُس کے ثابت اور محکم اصولوں پر حرف نہیں آتا۔ فرض کریں سچائی ایک یونیورسل ٹروتھ ہے۔ چاہے کوئی بولے یا نہ بولے، یہ یونیورسل ٹروتھ اپنی جگہ پر ثابت و محکم ہے، یا ظلم ہر دور میں برا رہا ہے چاہے ایک زمانے کے لوگ ظلم کو اچھا ہی کیوں‌نہ کہنے لگے۔ یہ اُصول ثابت و محکم ہیں۔
دیکھیں انسانی ذہن مسلسل ترقی کر رہا ہے، دنیا "اسلام" کی آج اُس منطق اور محکم اصولوں کو سمجھ اور اپنا رہی ہے۔ جو اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ اور قرآن نے انسانی ذہن کے اس اوج کمال تک پہنچنے کی پیشین گوئی بھی سنا دی۔ فرمایا وَعَدَ اللَّہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّھمْ فِي الْاَرْضِ ترجمہ :۔جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا۔ (النور 55)
یعنی انسانی ذہن اتنی ترقی کر کے اوج کمال تک پہنچ جائے گاکہ پوری دنیا اسلام کے محکم اُصولوں کو مان کر مطیع ہو جائے گا۔
چند انحرافی فکر سے منسلک افراد کو جب اپنے سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے تو واقعا غلط نتیجہ اخذ کریں گے
 

نبیل

تکنیکی معاون
بالکل، کیونکہ اگر اسلام میں‌واقعی طاقت ہوتی تو کم از کم عرب کے لوگوں کی ہی سخت دلی دور کر سکتا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ خلافت راشدہ کے قیام کے وقت کیا واقعہ پیش آیا تھا اور اول اسلام لانے والوں نے کیسا نمونہ پیش کیا تھا!:(
جب خود "اولین" نے ہی انسانیت کا مظاہرہ نہیں کیا تو "ہم" آخرین کیا معنی رکھتے ہیں؟
آہم۔۔ کیا واقعہ پیش آیا تھا بھئی؟ کچھ ہمارے علم بھی تو اضافہ کرو۔
 

arifkarim

معطل
آہم۔۔ کیا واقعہ پیش آیا تھا بھئی؟ کچھ ہمارے علم بھی تو اضافہ کرو۔
القلم فارم پر اس کے بارے میں ایک دھاگہ کافی شدت اختیار کر گیا ہے، آپ اسکا مطالعہ کرلیں:
http://www.alqlm.org/forum/showthread.php?t=4175
مسئلہ وہی ہے کہ عقیدت مند "جید صحابہ" کے بارے میں‌کوئی منفی بات برداشت نہیں کر سکتے :(
وکی پیڈیا پر بھی پہلے خلیفہ کے وقت پیش آنے والے حیرت انگیز واقعہ کا ذکر ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Umar_at_Fatimah's_house
 

arifkarim

معطل
دیکھیں انسانی ذہن مسلسل ترقی کر رہا ہے، دنیا "اسلام" کی آج اُس منطق اور محکم اصولوں کو سمجھ اور اپنا رہی ہے۔ جو اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ اور قرآن نے انسانی ذہن کے اس اوج کمال تک پہنچنے کی پیشین گوئی بھی سنا دی۔ فرمایا وَعَدَ اللَّہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّھمْ فِي الْاَرْضِ ترجمہ :۔جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا۔ (النور 55)
یعنی انسانی ذہن اتنی ترقی کر کے اوج کمال تک پہنچ جائے گاکہ پوری دنیا اسلام کے محکم اُصولوں کو مان کر مطیع ہو جائے گا۔
چند انحرافی فکر سے منسلک افراد کو جب اپنے سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے تو واقعا غلط نتیجہ اخذ کریں گے

بھائی حیرت ہے آپ اس آیت کا کیسا مطلب نکال رہے ہیں! یعنی "جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا۔" کیا مسلمان ممالک کے حاکم نیک لوگ ہیں یا دنیا میں انکی حکومت ہے؟:confused:

دوسرا ہم جن لوگوں کو ترقی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں (مغربی اقوام) ، ان میں سے اکثر تو اسلام کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔ انکے پیشتر قوانین اور نظام حکومت سرے سے ہی غیر اسلامی ہیں۔۔۔۔۔۔ دونوں صورتوں میں آپنے آیت کا گلط مطلب لیا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
القلم فارم پر اس کے بارے میں ایک دھاگہ کافی شدت اختیار کر گیا ہے، آپ اسکا مطالعہ کرلیں:
http://www.alqlm.org/forum/showthread.php?t=4175
مسئلہ وہی ہے کہ عقیدت مند "جید صحابہ" کے بارے میں‌کوئی منفی بات برداشت نہیں کر سکتے :(
وکی پیڈیا پر بھی پہلے خلیفہ کے وقت پیش آنے والے حیرت انگیز واقعہ کا ذکر ہے:
http://en.wikipedia.org/wiki/umar_at_fatimah's_house
میرا تمہارے لیے پر خلوص مشورہ ہوگا کہ تمہیں اگر تاریخی اور مذہبی مباحث میں الجھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو حوالے احتیاط سے فراہم کیا کرو۔ القلم پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
عارف، میں نے ابھی نوٹ کیا ہے کہ تم القلم پر اس بحث میں بہت اچھل رہے ہو، حالانکہ تمہیں تاریخ کا قطعی علم نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ تمہیں اس طرح کی لڑائیاں بہت بھاتی ہیں، جبھی اسے یہاں بھی مشتہر کر رہے ہو۔
 

arifkarim

معطل
میرا تمہارے لیے پر خلوص مشورہ ہوگا کہ تمہیں اگر تاریخی اور مذہبی مباحث میں الجھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو حوالے احتیاط سے فراہم کیا کرو۔ القلم پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔

عارف، میں نے ابھی نوٹ کیا ہے کہ تم القلم پر اس بحث میں بہت اچھل رہے ہو، حالانکہ تمہیں تاریخ کا قطعی علم نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ تمہیں اس طرح کی لڑائیاں بہت بھاتی ہیں، جبھی اسے یہاں بھی مشتہر کر رہے ہو۔

القلم کے اس دھاگے میں تمام "تاریخی" کتب کے حوالے درج ہیں۔ میں یہاں کسی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا۔ صرف یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ ابتدائی اسلامی خلافت کے حالات سے ہم لوگ مکمل طور پر آگاہ نہیں۔ مطلب ہمنے تصویر کا صرف ایک رخ دیکھا ہے۔ باقی آپکو اس سے اختلاف کا مکمل حق حاصل ہے۔
وکی پیڈیا والا حوالہ مس ٹائپڈ تھا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Umar_at_Fatimah's_house
 

نبیل

تکنیکی معاون
عارف، جن پہلوؤں سے تم ہمیں ناواقف قرار دے رہے ہو، ان سے پوری دنیا واقف ہے، اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
عارف، جن پہلوؤں سے تم ہمیں ناواقف قرار دے رہے ہو، ان سے پوری دنیا واقف ہے، اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میں نے اوپر وکی پیڈیا کا لنک اپڈیٹ کر دیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ سنی احباب اس واقعہ کی تصدیق نہیں کرتے حالانکہ ابتدائی سنی کتب میں یہ بڑی تفصیل کےساتھ درج ہے!
 

ٹیپو سلطان

محفلین
بھائی حیرت ہے آپ اس آیت کا کیسا مطلب نکال رہے ہیں! یعنی "جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا۔" کیا مسلمان ممالک کے حاکم نیک لوگ ہیں یا دنیا میں انکی حکومت ہے؟
اس میں حیران ہونے کی ضرورت نہیں ، جس شخص کی اس آیت ( وعد اللہ الذین،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(سورہ نور 55) کی تفسیر کے بارے میں پتہ ہے وہ حیران نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسے پتہ ہے کہ یہ خدا نے اسلام و مسلمین کو بشارت دی ہے۔ کہ ایک وقت آئے گا انسانی ذہن اس قابل ہو جائے گا کہ وہ فطرت کی طرف پلٹ آئے گا۔ یہ آخر الزمان کی بات ہو گی۔انسانی اذہان اسلام کی حقانیت کے سامنے مطیع ہو جائیں گے۔ میں نے بھی اسی آیت کو اسی حوالے سے نقل کیا تھا۔ ابھی اسی مفہوم کے ساتھ آیت کو ملا کر دیکھیں۔

جیسا کہ میں‌نے کہا کہ

arifkarim اسلام اولین و آخرین دونوں کے لیے ہے۔
وَمَا اَرْسَلْنَاكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِلْعَالَمِينَ (الانبياء: 107) یہ رحمت تمام عالمین کے لیے ہے چاہے اولین ہوں یا آخرین ہوں۔
کسی بھی دور میں اسلام پر عمل نہ کرنے سے اُس کے ثابت اور محکم اصولوں پر حرف نہیں آتا۔ جیسے سچائی ایک یونیورسل ٹروتھ ہے۔ چاہے کوئی بولے یا نہ بولے، یہ یونیورسل ٹروتھ اپنی جگہ پر ثابت و محکم ہے، یا ظلم ہر دور میں برا رہا ہے چاہے ایک زمانے کے لوگ ظلم کو اچھا ہی کیوں‌نہ کہنے لگے۔ یہ اُصول ثابت و محکم ہیں۔
دیکھیں انسانی ذہن مسلسل ترقی کر رہا ہے، دنیا "اسلام" کی آج اُس منطق اور محکم اصولوں کو سمجھ اور اپنا رہی ہے۔ جو اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ اور قرآن نے انسانی ذہن کے اس اوج کمال تک پہنچنے کی پیشین گوئی بھی سنا دی۔ فرمایا وَعَدَ اللَّہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّھمْ فِي الْاَرْضِ ترجمہ :۔جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا۔ (النور 55)
یعنی انسانی ذہن اتنی ترقی کر کے اوج کمال تک پہنچ جائے گاکہ پوری دنیا اسلام کے محکم اُصولوں کو مان کر مطیع ہو جائے گا۔
چند انحرافی فکر سے منسلک افراد کو جب اپنے سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے تو واقعا غلط نتیجہ اخذ کریں گے
 

خرم

محفلین
عارف ایسا کیا دیکھا آپ نے خلافت راشدہ کے قیام کے وقت کہ اتنے گمراہ کن خیالات کا اظہار کردیا؟ امید ہے اپنے لکھے پر دوبارہ غور کیجئے گا۔ اگر کوئی کشت و خون کی ندیاں بہائی گئی ہوں، مارپیٹ، گالم گلوچ ہوا ہو پھر آپ اسلام اور اصحاب رسول پر تبرے بھیجئے وگرنہ آپ کے الفاظ صریح گستاخی ہیں۔ یہ کیا کہ جس آزادئی اظہار کی بنا پر آج کا انسان اپنے آپ کو مہذب گردانتا ہے، اصحاب رسول سے اس آزادئی اظہار اور آزادئی رائے کا حق بھی چھین لینا چاہتا ہے۔ ایں چہ بوالعجبی است؟
حضرت عمر فاروق کے جس واقعہ کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کے کافی ورژن دستیاب ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے جنابہ سیدہ خاتون جنت رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات تک حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیعت نہ کی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بنو ہاشم نے بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیعت اس وقت تک نہ کی تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جناب حیدر کرار کے گھر بھی گئے تھے لیکن بعد کی جزئیات انتہائی مختلف ہیں۔ میں کسی کو غلط یا درست قرار نہیں دیتا کہ یہ عقیدہ کی بحث ہے ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ میرا یقین یہ ہے کسی مائی کے لعل میں اتنی جرات نہ تھی کہ علی کی بیوی پر ہاتھ اُٹھاتا چہ جائیکہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی پر اور نہ بنو ہاشم کی تلواریں اسقدر کُند تھیں کہ اس بے عزتی کے بعد بھی زندہ رہ جاتے۔ نظریہ ضرورت بہت بعد کی پیداوار ہے۔
 
Top