ڈیرہ ’فرقہ وارانہ طالبانائزیشن کا نشانہ‘

عبدالحئی کاکڑ
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے استعمال کے رجحان میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اگرچہ ملک کی باسٹھ سالہ تاریخ میں فرقہ وارانہ قتل وغارت کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں مگر ان واقعات میں انسانی جانوں کا اتنے بڑے پیمانے پر ضیاع پہلے کبھی نظر نہیں آیا۔

جب اس خطے میں امریکہ کی سربراہی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تب ہی افغانستان اور پاکستان میں ایسی مزاحمتی تنظیموں نے جنم لیا جن کے لیے عمومی طور پر اب’ مقامی طالبان’ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مقامی طالبان میں پاکستان میں سرگرم کالعدم جہادی تنظمیوں کا اثر و نفوذ بڑھتا گیا اور یوں اس کی کوکھ سے ایک قسم کی ’فرقہ وارانہ طالبانائزیشن‘ نے جنم لیا۔

فرقہ وارانہ فسادات میں خودکش حملے کا پہلا استعمال سنہ دو ہزار تین میں صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں دیکھنے کو ملا جب محرم الحرام کے جلوس پر ایک خودکش حملہ کیا گیا لیکن اس کے بعد پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، کوہاٹ اور صوبہ سرحد کی سرحد پر واقع صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان اور بھکر میں بھی اہل تشیع کے جلوسوں، جنازوں اور امام باگاہوں پر حملوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

ان میں سے بعض حملوں کی ذمہ داریاں تحریکِ طالبان نے قبول کی ہیں اور حال ہی میں ڈیرہ غازی خان میں اہل تشیع کے جلوس پر ہونے والے خودکش حملے کی ذمہ داری درہ آدم خیل کے طالبان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قبول کرلی تھی۔

تنظیم کے ترجمان محمد نے بتایا تھا کہ انہوں جلوس میں شامل ایک متولی کو نشانہ بنایا تھا جو ان کے مطابق ’صحابہ کرام کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کرتے تھے‘۔
اہل تشیع پر سب سے زیادہ خودکش حملے صوبہ سرحد کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوئے ہیں اوریہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی اہل تشیع کو زیادہ خودکش حملوں کا نشانہ کیوں بنایا گیا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں صوبہ سرحد کے دیگر اضلاع پشاور، کوہاٹ، ہنگو اور ٹانک کے مقابلے میں اہل تشیع کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے اور یہاں پر نوے کی دہائی سے ہی اہل تشیع اور اہل سنت کی مسلح تنظیمیں منظم صورت میں موجود ہیں۔

ماضی میں دونوں مسالک کی مسلح تنظیموں نے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ایک دوسرے کے درجنوں افراد کو قتل کیا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن خودکش حملوں نے ان فرقہ وارانہ وارداتوں کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں فرقہ ورانہ فسادات میں خودکش حملوں کے استعمال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ دیگر شیعہ آبادی کے شہروں کے مقابلے میں قبائلی علاقے سے زیادہ قریب ہے۔ اہل تشیع کے رہنماء یہ الزام لگاتے ہیں کہ’مبینہ خودکش بمبار دراصل قبائلی علاقوں سے ہی آتے ہیں‘۔

یہ بھی کہا جاتا ہے دیگر شہروں میں اپنے ہدف تک پہنچنے میں خودکش بمبار کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ماضی میں کئی دفعہ پولیس نے راستے میں مبینہ خودکش حملہ آوروں کو گرفتار بھی کیا ہے لہذا ڈیرہ اسماعیل خان اس لحاظ سے ان کے لیے ایک آسان، قریب ترین اور موزوں ہدف ہوسکتا ہے۔
اصل ربط
 

ٹیپو سلطان

محفلین
ظہور بھائی بعض استعماری طاقتوں نے عجیب غریب اصطلاحات ایجاد کی ہوئیں ہیں جن میں‌سے ایک اصطلاح "فرقہ وارانہ فسادات" بھی ہے۔کسی بھی دہشت گردی کے واقعہ کو اگر غلط رخ دینا ہو تو یہ کہا جائے کہ فرقہ وارانہ فسادات ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات تو وہ ہوتے ہیں جہاں پر دونوں فریقین کے عام لوگ ایک دوسرے کے گھروں پر حملہ کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کریں۔ بی بی سی کی اس رپورٹ کو پڑھ کر حیرانگی ہورہی ہے کہ کون سے فرقہ وارانہ فسادات۔جب ہم فرقہ وارانہ فسادات کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ سنی شیعہ فسادات۔
ڈیرہ اسماعیل خان کو دیکھیں تو وہاں پر کوئی فرقہ وارانہ جنگ نہیں ہو رہی۔سنی اور شیعہ طبقہ عرصے سے باہم شیر و شکر اپنی زندگی گزارتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ داریاں ہیں۔ ایک ہی محلوں‌میں رہتے ہیں اکٹھے جابز، کھیتی باڑیاں کرتے ہیں۔ یہ تو تھوڑے عرصہ سے جب سے یہ فتنہ دہشت گرد طالبان ظہور پذیر ہوا ہے تب سے اس ملک اور ڈیرے شہر کے امن کو آگ لگ گئی ہے۔ یہی لوگ اپنے مقاصد کی خاطر شیعہ افراد کو قتل کر رہے ہیں۔ یہ کوئی فرقہ واریت کی جنگ نہیں بلکہ دہشت گردی ہو رہی ہے۔ ہمیں اس طرح کی اصطلاحات سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
 
ٹیپو یہ فرقہ واریت نہیں بلکہ ایک قسم کی نسل کشی ہے، طالبان کہ چکے ہیں کہ اہل تشیع ہماری رکاوٹ ہیں۔ میں حیران ہوں ایک صحافی مارا جائے تو میڈیا سراپا احتجاج بن جاتی ہیں مگر ڈیرے کے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ستم یہ کہ وہاں کی مقامی انتظامیہ فریق بنی ہوئی ہے اور مقتولین کے ورثاء کو ہراساں کررہی ہے۔
 

ٹیپو سلطان

محفلین
جی میں اس بات میں آپ سے متفق ہوں کہ یہ نسل کشی ہو رہی ہے۔ لیکن حکومت مکمل طور پر یکطرفہ طالبان سپورٹر نظر آتی ہے۔
 

خرم

محفلین
تو ظہور بھائی ان میں سے کس نے "ظالمان" کو سپورٹ نہیں کیا ماسوا عمران خان کے شائد۔ اگر ان منافقین کی کرتوتیں نہ ہوتیں تو یہ دن ہی کاہے کو دیکھنے پڑتے؟ اب تو ایک اورنیا تماشہ کھڑا ہوگیا ہے۔ اب قوم کی توجہ ظالمان سے بھی ہٹ جائے گی، سوات اور باجوڑ میں بھی "امن" ہو جائے گا اور قوم نوازشریف و زرداری کی نورا کُشتی دیکھے گی۔ پھر کوئی اور پینترا بدل لیں گے۔ الامان۔
 
ڈیرے میں 400 سے زائد لوگ قتل ہوچکے ہیں مگر مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت بالکل خاموش گویا ڈیرہ پاکستان کا حصہ نہیں یہ کبھی ایک بندے کو قتل کرتے ہیں اور دوسرے اس کے جنازے پر حملہ کرتے ہیں بس خبر چھپتی ہے اخبار میں اور اس کے بعد ورثاء کو ہراساں کرنے کے بعد سلسلہ ختم۔ کسی نے کہیں کیا خوب کہا تھا کہ اہل تشیع میں خود کش بمبار کیوں نہیں ہیں۔ کیا یہ سزا ہے حب الوطنی اور پر امن رہے کی۔ وہ لوگ تو مزے میں ہیں جنہوں نے سیکیورٹی فورسز کو ذبح کیا ملکی املاک کو نقصان پہنچایا اور بچیوں کے اسکولوں کو تباہ کیا۔
 

خرم

محفلین
ظہور بھیا تو اگلے الیکشن میں ڈیرے کے لوگ ووٹ کسے دیں گے؟ اور اس الیکشن میں جیتنے کے لئے کسی امیدوار کو کیا وعدہ کرنا ہوگا؟
 
ظہور بھیا تو اگلے الیکشن میں ڈیرے کے لوگ ووٹ کسے دیں گے؟ اور اس الیکشن میں جیتنے کے لئے کسی امیدوار کو کیا وعدہ کرنا ہوگا؟
ڈیرے کے لوگوں نے اب کی بار ووٹ فضل کریم کنڈی کو دیے تھے اور قران کا قسم لیا تھا کہ لوگوں کو تحفظ دلوائے گا مگر وہ تو ڈپٹی اسپیکر کے مزے لے رہا ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فضل الرحمن کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے اور اس سے بھی شکوک جنم لیتے ہیں۔
اگلی بار کا پتہ نہیں کس کو دیں گے۔
 

خرم

محفلین
بس بھیا جب ڈیرہ کے لوگوں کی پہلی ترجیح انصاف اور امن ہو جائے گا تو پھر امن اور انصاف بھی آجائے گا انشاء اللہ کہ وعدہ ہے "ان لیس للانسان الا ماسعی"۔ اب اگر اگلی دفعہ فضل کریم بھی منتخب نہ ہوں اور فضل الرحمٰن بھی نہ اور نہ ہی کوئی ایسا جو ان تمام واقعات میں لاتعلق رہا بلکہ کوئی ایسا شخص منتخب ہوا جو اس شہر کو پرسکون بنانے کی کوشش کرتا رہا اور ان ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتا رہا اور ان سے لڑتا رہا تو ڈیرہ میں سکون بھی ہوجائے گا۔ مسئلہ شیعہ سُنی کا نہیں مسئلہ عوام کی ترجیحات کا ہے۔ جب یہ درست ہوجائیں گی تو سب درست ہوجائے گا انشاء اللہ۔
 
Top