"" سونے چاندی جیسے لفظ""

گرو جی

محفلین
جب ہم کسی چیز کو پانے کی سچے دل سے کوشش کرتے ہیں تو پوری کائینات ہماری معاون و مدد گار بن جاتی ہے""

پاولو کوئلو

لو جی اب فلموں‌میں بھی اقوال نقل ہونے شروع ہو گئے
اتنی شدت سے میں نے تمہاری چاہت کی ہے۔
کہ ہر ذرے نے تم سے ملانے کی سازش کی ہے۔
کہتے ہیں کہ اگر کسی چیز کوشے کو سچے دل سے چاہو تو پوری کائنات تہمیں اس سے ملانے میں لگ جاتی ہے
 

گرو جی

محفلین
اور میرا پسندیدہ قول

قربت گستاخ کر دیتی ہے اس لئے مندروں میں رہنے والے چوہے بھگوانوں سے نہیں‌ڈرتے
 

ھارون رشید

محفلین
اللہ کی کسی بندے پر ناراضگی کی علامت یہ ہے کہ تم اسے مفید کام چھوڑ کر غیر مفید کام میں مشغول پاؤ

حضرت معروف کرخی رحمت اللہ علیہ (طبقات - صوفیاء(
 

ھارون رشید

محفلین
امام شافعی  جامع مسجد بغداد میں موجود اپنے دو شاگردوں ربیع بن سلمان اور اسمٰعیل بن یحییٰ مزنی کے ساتھ علمی گفتگو میں مصروف تھے ۔ رواج کے مطابق کئی دوسرے مسافر، بے گھر اور نادار لوگ بھی ادھر ادھر سوئے پڑے تھے۔ اچانک امام نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور مشعل کی روشنی میں سوئے ہوئے لوگوں کو باری باری اس طرح دیکھنے لگا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہا ہو۔ فرزند مکہ امام شافعی کچھ دیر انتہائی انہماک سے اسے دیکھتے رہے اور پھر اپنے مخصوص دھیمے دھیرے اور نپے تلے لہجے میں ربیع بن سلمان سے کہا
”ربیع ! جاؤ اور کسی کے متلاشی اس آدمی سے پوچھو کہ تمہارا وہ حبشی غلام جس کی ایک آنکھ ناقص ہے کہیں غائب یا گم تو نہیں ہو گیا؟“
استاد کے حکم کی تعمیل میں ربیع اس اجنبی کے پاس گیا اور امام کا سوال دہرایا تو وہ شخص متعجب سا ہو کر ربیع کے ساتھ ہی امام کے حضور حاضر ہو گیا اور سلام کے بعد بولا ،
”آپ کے علم میں ہے تو بتایئے میرا غلام کہاں ہے؟“
”وہ تو کسی قید خانہ میں بند پڑا ہو گا“ امام نے کچھ ایسے یقین کے ساتھ کہا کہ وہ اجنبی اور خود ان کے ہم نشین حیرت زدہ سا ہو کر امام کو دیکھنے لگے۔ وہ شخص اسی وقت عجلت میں مسجد سے رخصت ہو گیا تو امام دوبارہ اپنے شاگردوں کے ساتھ مکالمہ میں مصروف ہو گئے کہ کچھ دیر بعد وہ شخص دوبارہ آیا اور عاجزی سے بولا،
”حضرت! آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرا گمشدہ غلام ڈھونڈنے میں میری مدد اور راہنمائی فرمائی“۔
امام کے شاگرد حیران و ششدر یہ سوچ رہے تھے کہ کیا امام کو غیب سے خبریں ملنے لگی ہیں۔ وہ شخص شکریہ کے بعد سلام کر کے رخصت ہوا تو اسمٰعیل مزنی سے رہا نہ گیا تو اس نے بیتاب ہو کر پوچھا
”اے استاد محترم و مکرم! آپ کو اس شخص کے غلام سے کیا لینا دینا، مکہ سے تشریف لائے ہیں نہ جان نہ پہچان تو پھر یہ سب کیا ہے؟“
امام شافعی  ہلکا سا مسکرائے اور فرمایا
”یہ شخص جب مسجد میں داخل ہوا تو اس کی چال ڈھال اور تیور بتا رہے تھے کہ یہ کسی کی تلاش میں ہے“
”درست لیکن آپ نے یہ کیسے جان لیا کہ وہ کسی غلام کو ہی تلاش کر رہا ہے اور وہ بھی ایک ایسے غلام کو جس کی ایک آنکھ میں نقص بھی ہو“
اس بار ربیع نے سوال کیا تو امام شافعی نے کہا ،
”وہ اس طرح کہ سوئے ہوئے لوگوں میں یہ شخص ادھر زیادہ متوجہ تھا جہاں سیاہ فام حبشی سوئے ہوئے تھے اور پھر میں نے محسوس کیا کہ یہ ہر خوابیدہ حبشی کی بائیں آنکھ پر زیادہ روشنی اور توجہ دے رہا ہے اس لئے میں نے اندازہ لگا لیا کہ اس کا کوئی ایسا غلام غائب ہے جس کی ایک آنکھ میں کجی ہے“
پر جوش شاگردوں نے اگلے سوال پوچھا
”امام آپ نے یہ کیسے جان لیا کہ اس شخص کا گمشدہ غلام کسی قید خانے میں ہو گا“
امام نے پوری متانت سے کہا
”میرا زندگی بھر کا تجربہ یہ ہے کہ غلام جب بھوکا ہوتا ہے تو چوری کرتا ہے اور اگر پیٹ بھرا ہو تو بدکاری کی طرف مائل ہوتا ہے سو میں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ ان دونوں میں سے ایک حالت کا شکار ہو گا جس کا منطقی انجام قید خانہ ہی ہو سکتا ہے۔
سبحان اللہ ،سبحان اللہ، سبحان اللہ

امام شافعی نے یہ عقدہ حل فرما دیا......واقعی غلام ابن غلام ابن غلام بےکردار ہوتا ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
''جو انسان اپنے آپ سے نہیں گھبراتا وہ کسی سے نہیں گھبراتا اور جو انسان اپنے آپ سے گھبراتا ہے اسے کسی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں رہتی ''
 
Top