قرآنِ کریم کے ظاہری اور باطنی معانی؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
سلام اور بہت شکریہ۔
جواب اس سوال کا کچھ بھی دیا جائے، ان آیات سے یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ مردے سن سکتے ہیں۔ ان دو پیغمبران نے بچنے والوں سے یہ فرمایا تھا یا مرجانے والوں سے یہ فرمایا تھا، بہر طور جو مرگئے وہ نہ اب اپنے اطوار بدل سکتے تھے اور نہ ہی اعمال، ان پیغمبران کا یہ بیان، صرف افسوس کا اظہار لگتا ہے، مردوں اور زندوں کے درمیان باہمی پیغام رسانی نہیں۔ اس لئے ہمیں اپنے دل میں شکوک پیدا کرنے کے بجائے ، ان واضح آیات کو دیکھنا چاہئیے، جو مردہ ہونے کے بارے میں یہ بتاتی ہیں کہ وہ نہیں‌سن سکتے۔

اگر ہم قرآن کو پڑھتے رہیں تو ہم کو کلام کرنے والے کی ذات سے آگاہی ہوتی جاتی ہے۔ مناسب تراجم دیکھئے اور مترادف الفاظ و معانی کو مختلف نہ سمجھئے۔ مُردے کس صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں ان آیات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔ غور کیجئے اگر وہ سنتے رہے ہوں ، سلام کے جواب دیتے رہے ہوں‌تو مرکر اٹھنے والے کو ایسا کیوں لگے گا کہ ایک نیند لے کر اٹھا ؟ مجھے یقین ہے کہ آپ خود سے غور کرکے اپنے خیالات کا ارتقاء کرسکیں گی۔

[AYAH]2:259[/AYAH] یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اﷲ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا، سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اﷲ نے اسے سو برس تک مُردہ رکھا پھر اُسے زندہ کیا، (بعد ازاں) پوچھا: تُو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟ اس نے کہا: میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں، فرمایا: (نہیں) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا (ہے) پس (اب) تُو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیّر (باسی) بھی نہیں ہوئیں اور (اب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اب ان) ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم انہیں کیسے جُنبش دیتے (اور اٹھاتے) ہیں پھر انہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں، جب یہ (معاملہ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں جان گیا ہوں کہ بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے

[AYAH]13:31[/AYAH] اور اگر کوئی ایسا قرآن ہوتا جس کے ذریعے پہاڑ چلا دیئے جاتے یا اس سے زمین پھاڑ دی جاتی یا اس کے ذریعے مُردوں سے بات کرا دی جاتی (تب بھی وہ ایمان نہ لاتے)، بلکہ سب کام اﷲ ہی کے اختیار میں ہیں، تو کیا ایمان والوں کو (یہ) معلوم نہیں کہ اگر اﷲ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت فرما دیتا، اور ہمیشہ کافر لوگوں کو ان کے کرتوتوں کے باعث کوئی (نہ کوئی) مصیبت پہنچتی رہے گی یا ان کے گھروں (یعنی بستیوں) کے آس پاس اترتی رہے گی یہاں تک کہ اﷲ کا وعدۂ (عذاب) آپہنچے، بیشک اﷲ وعدہ خلافی نہیں کرتا

آپ نے مناسب فرمایا، اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت فرمائیں
والسلام۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اصلی پوسٹ بذریعہ فاروق سرور خان

اگر ہم قرآن کو پڑھتے رہیں تو ہم کو کلام کرنے والے کی ذات سے آگاہی ہوتی جاتی ہے۔ مناسب تراجم دیکھئے اور مترادف الفاظ و معانی کو مختلف نہ سمجھئے۔ مُردے کس صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں ان آیات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔ غور کیجئے اگر وہ سنتے رہے ہوں ، سلام کے جواب دیتے رہے ہوں‌تو مرکر اٹھنے والے کو ایسا کیوں لگے گا کہ ایک نیند لے کر اٹھا ؟ مجھے یقین ہے کہ آپ خود سے غور کرکے اپنے خیالات کا ارتقاء کرسکیں گی۔

سورۃ البقرۃ:2 , آیت:259 یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اﷲ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا، سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اﷲ نے اسے سو برس تک مُردہ رکھا پھر اُسے زندہ کیا، (بعد ازاں) پوچھا: تُو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟ اس نے کہا: میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں، فرمایا: (نہیں) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا (ہے) پس (اب) تُو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیّر (باسی) بھی نہیں ہوئیں اور (اب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اب ان) ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم انہیں کیسے جُنبش دیتے (اور اٹھاتے) ہیں پھر انہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں، جب یہ (معاملہ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں جان گیا ہوں کہ بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے
چونکہ آپ قرانسٹ ہیں اور مجھے آپ کے عقائد کا مکمل علم نہیں، مگر یہی آیت اُن حضرات کی طرف سے بھی بطور ثبوت پیش کی جاتی ہے جو احادیث کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں۔ چنانچہ میں ذیل کا عکس پیش کر رہی ہوں جس میں آپ دونوں طبقات فکر کے قیاسات کا جواب دیا گیا ہے۔

testma5.png


۔
اعتراض 4: حضرت عُزَیر کا واقعہ جنہیں 100 سال کے بعد زندہ کیا گیا تو انہیں اس عرصے کے درمیان کا کچھ علم نہیں تھا
مردوں کی سماعت کی نفی کرنے کے لیے ان حضرات کی طرف سے چوتھا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے حضرت عُزَیر کو 100 سال تک کے لیے موت دے دی اور جب انہیں دوبارہ زندہ کیا تو انہیں اِس عرصے کے درمیان کے واقعات کا کچھ علم نہیں تھا۔ اس سلسلے میں وہ ذیل کی آیت پیش کرتے ہیں:أَ

[arabic]وْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِي هََذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِئَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِّلنَّاسِ وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [/arabic]

(القران 2:259) "یا اس بندے کی مثال جس کا گذر ایک قریہ سے ہوا جس کے سارے عرش و فرش گرچکے تھے تو اس بندہ نے کہا کہ خدا ان سب کو موت کے بعد کس طرح زندہ کرے گا تو خدا نے اس بندہ کو سوسال کے لئے موت دے دی اورپھرزندہ کیا اور پوچھا کہ کتنی دیر پڑے رہے تو اس نے کہا کہ ایک دن یا کچھ کم . فرمایا نہیں . سو سال. ذرا اپنے کھانے اور پینے کو تو دیکھو کہ خراب تک نہیں ہوا اور اپنے گدھے پر نگاہ کرو (کہ سڑ گل گیا ہے) اور ہم اسی طرح تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں. پھر ان ہڈیوںکو دیکھو کہ ہم کس طرح جوڑ کر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں. پھر جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی تو بیساختہ آواز دی کہ مجھے معلوم ہے کہ خدا ہر شے پرقادر ہے۔
جواب:
حضرت عُزَیر کا یہ واقعہ ایک استثنائی واقعہ ہے اور اس کو بنیاد بنا کر رسول ﷺ کی وہ تمام احادیث کو ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالا جا سکتا کہ جس میں آپ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ مردے سن سکتے ہیں۔ اللہ نے حضرت عُزَیر کو جو موت دی، وہ ایک عام موت سے بالکل مختلف چیز تھی اور ان کے لیے اس میں ایک سبق تھا۔ کیا یہ حضرات غور نہیں فرماتے کہ:

1) عام موت کی صورت میں انسان کا جسم گل سڑ جاتا ہے، مگر حضرت عُزَیر کا جسم گلنے سڑنے سے پاک رہا؟

2) اور یہ اللہ کا معجزہ تھا کہ آپ کے کھانے پینے کی چیزیں تک نہیں گلی سڑیں۔ [جبکہ آپکے گدھے کی ہڈیاں تک گل سڑ گئیں]

3] اور انسان کی روح قبض کرنے فرشتے آتے ہیں، مگر عزیز علیہ السلام کو کسی ایسے "موت کے فرشتوں" کی خبر نہیں۔

4) اور عام میت کو جب قبرستان کی طرف لیجایا جاتا ہے تو اگر وہ نیک شخص ہوتا ہے تو اِس کی روح کہتی ہے کہ جلدی کرو۔ اور اگر میت نیک آدمی کی نہیں ہوتی تو روح چیختی ہے کہ مجھے کہاں لیجا رہے ہو۔ مگر حضرت عُزیر کے سلسلے میں اِن کی روح ایسے کسی سلسلے سے نہیں گذری۔[صحیح بخاری]

5) اور عام آدمی کو دفنانے کے بعد جب لوگ قبرستان سے جاتے ہیں تو روح انکے قدموں کی چاپ سنتی ہے، مگر حضرت عُزَیر کی روح نے ایسی کوئی چاپ نہیں سنی۔[صحیح بخاری]

6) اور عام آدمی کو جب دفنا دیا جاتا ہے تو فرشتے آ کر اسے بٹھا دیتے ہیں اور سوال کرتے ہیں۔ مگر حضرت عُزَیر کے پاس کوئی فرشتے نہیں آئے۔

مختصر یہ کہ یہ ایک استثنائی واقعہ تھا اور اسی وجہ سے 100 سال کے واقعات تو کُجا، حضرت عُزَیر کو تو فرشتوں تک کے آنے کی خبر نہیں تھی۔ تو اگر اِس واقعہ کی بنیاد پر سماعتِ موتیٰ کا انکار ممکن ہے تو پھر تو اِس بنیاد پر اس بات کا بھی انکار کر دینا چاہئے کہ انسان کی روح قبض کرنے کسی قسم کے "موت کے فرشتے" آتے ہیں، یا پھر کوئی فرشتے قبر میں آ کر حساب کتاب کرتے ہیں۔

اللھم صلی اللہ محمد و آل محمد۔
اور جو آپ نے دوسری آیت پیش کی ہے، اسے ہم کیسے کھینچ تان کر سماع موتی پر چسپاں کر سکتے ہیں؟


Ahmed Aliاور اگر تحقیق کوئی ایسا قرآن نازل ہوتا جس سے پہاڑ چلتے یا اس سے زمین کے ٹکڑے ہو جاتے یا اس سے مردے بول اٹھتے (تب بھی نہ مانتے) بلکہ سب کام الله کے ہاتھ میں ہیں پھر کیا ایمان والے اس بات سے نا امید ہو گئے ہیں کہ اگر الله چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت کر دیتا اور کافروں پر تو ہمیشہ ان کی بداعمالی سے کوئی نہ کوئی مصیبت آتی رہے گی یا وہ بلا ان کے گھر کے قریب نازل ہوگی یہاں تک کہ الله کا وعدہ پورا ہو بے شک الله اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا

Ahmed Raza Khanاور اگر کوئی ایسا قرآن آتا جس سے پہاڑ ٹل جاتے یا زمین پھٹ جاتی یا مردے باتیں کرتے جب بھی یہ کافر نہ مانتے بلکہ سب کام اللہ ہی کے اختیار ميں ہیں تو کیا مسلمان اس سے نا امید نہ ہوئے کہ اللہ چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت کردیتا اور کافروں کو ہمیشہ کے لیے یہ سخت دھمک (ہلادینے والی مصیبت) پہنچتی رہے گی یا ان کے گھروں کے نزدیک اترے گی یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آئے بیشک اللہ وعدہ خلاف نہیں کرتا

Shabbir Ahmed اور اگر ہوتا کوئی قرآن کہ چلنے لگتے (اس کی تاثیر سے) پہاڑ یا ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی اس کے زور سے زمین یا بول پڑتے (اس کے اثر سے) مردے (تب بھی یہ ایمان نہ لاتے) واقعہ یہ ہے کہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اختیار سارا۔ کیا نہیں اطمینان ہوا اُن لوگوں کو جو مومن ہیں کہ اگر چاہتا اللہ تو ضرور ہدایت دے دیتا سب انسانوں کو اور ہمیشہ رہیں گے یہ کافر لوگ کہ پہنچتی رہے گی اُن کو ان کرتوتوں کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی آفت یا نازل ہوتی رہے گی قریب اُن کے گھروں کے یہاں تک کہ آپہنچے اللہ کا وعدہ۔ یقینا اللہ نہیں خلاف کرتا اپنے وعدہ کے۔


یہاں پر تو اللہ معجزوں کا ذکر کر رہا ہے جو کہ عموما نہیں ہوتے۔ مگر اگر ہو بھی جائیں تو بھی کفار ایمان لانے والے نہیں۔

بلکہ رسول اکرم ص نے تو ہمیں بیان کر دیا ہے کہ روحیں تو بول رہی ہوتی ہیں، مگر اگر اللہ انسان کو اس قابل کر دے کہ وہ انکی آواز سن سکے تو انسان بیہوش ہو جائے۔ ذیل کی حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو:

صحیح بخاری، کتاب الجنائز:
[ARABIC]حدثنا ‏ ‏قتيبة ‏ ‏حدثنا ‏ ‏الليث ‏ ‏عن ‏ ‏سعيد بن أبي سعيد ‏ ‏عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏أنه سمع ‏ ‏أبا سعيد الخدري ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏يقول ‏
قال رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها يسمع صوتها كل شيء إلا الإنسان ولو سمعها الإنسان ‏ ‏لصعق [/ARABIC]‏
سعید الخدری سے روایت ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے اور لوگ اسے اپنے کندھوں پر بلند کرتے ہیں، تو اگر مرنے والا نیک شخص ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے: "مجھے آگے لے کر چلو"۔ اور اگر مرنے والا نیک شخص نہیں ہوتا تو وہ کہتا ہے: "وائے ہو تم پر، کہ تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟" اور اس کی یہ آواز ہر مخلوق سنتی ہے سوائے انسانوں کے۔ اور اگر انسانوں کو ان کی یہ آواز سنا دی جائے تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑیں۔

/////////////////////

جناب صالح اور شعیب علیھم السلام کا مردوں سے خطاب

ان پیغمبران کے خطاب کے متعلق آپ نے فرمایا:

جواب اس سوال کا کچھ بھی دیا جائے، ان آیات سے یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ مردے سن سکتے ہیں۔ ان دو پیغمبران نے بچنے والوں سے یہ فرمایا تھا یا مرجانے والوں سے یہ فرمایا تھا، بہر طور جو مرگئے وہ نہ اب اپنے اطوار بدل سکتے تھے اور نہ ہی اعمال، ان پیغمبران کا یہ بیان، صرف افسوس کا اظہار لگتا ہے، مردوں اور زندوں کے درمیان باہمی پیغام رسانی نہیں۔
یا حیرت۔ کیا اتنی واضح اور صاف آیات کو بھی یوں توڑا مڑوڑا جا سکتا ہے؟؟؟

1] کیا یہ اللہ کا عذاب تھا یا بندوں کا؟ یعنی کیا اللہ سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ غلطی سے چند بندوں پر عذاب آتا ہے اور باقی اللہ کی غلطی سے بھاگنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟

2] اور جب یہ زندہ لوگ بھاگ ہی گئے تھے [اور ان انبیاء کے پاس موجود نہیں تھے بلکہ کوسوں دور جان بچانے بھاگ رہے تھے] تو پھر تو کوئی عقل سے عاری انسان ہی ان "غائب زندوں" سے خطاب کر سکتا ہے ۔۔۔ جبکہ معاذ اللہ ہم ان دونوں انبیاء علیھم السلام کے متعلق عقل سے عاری ہونے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتے۔


3] اور فاروق صاحب، آپ تو فقط اپنے ظن کی بنیاد پر ان انبیاء کا اپنی مردہ قوم سے خطاب کا انکار کر رہے ہیں، جبکہ یہ ان انبیاء علیھم السلام کا ان مردوں سے ویسا ہی خطاب ہے جیسا کہ رسول اللہ ص کا غزوہ بدر میں مارے جانے والے کفار سے خطاب تھا۔

صحیح بخاری، کتابِ المغازی، باب قتل ابی جہل:

قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ ابو طلہ نے کہا کہ جنگ بدر کے دن نبیﷺ نے چوبیس سرداران قریش کی لاشوں کو کنویں میں پھینک دئے جانے کا حکم دیا اور ان کی لاشیں بدر کے کنوؤں میں سے ایک گندے کنویں میں پھینک دی گئیں۔ آپﷺ کا قاعدہ تھا کہ جب آپﷺ کسی قوم پر غالب آ جاتے تھے تو وہاں تین دن قیام فرماتے تھے۔ جب بدر کے مقام پر تیسرا دن آیا تو آپ ﷺ نے حکم دیا اور آپ ﷺ کی اونٹنی پر کجاوہ کسا گیا۔ پھر آپ پیدل روانہ ہوئے اور آپ ﷺ کے اصحاب بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی کسی ضرورت کے لئے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کنویں کے کنارے کھڑے ہو گئے اور ان مشرکوں کو ان کے اور ان کے باپ داداؤں کے نام سے آواز دینے لگے کہ اے فلاں ابن فلانِ اے فلاں ابن فلاں(صحیح مسلم، کتاب "الجنہ و صفت نعیمھا و اہلھا"، میں ان کے نام یوں آئیں ہیں "یا ابو جہل بن ہشام، یا امیہ بن خلف، یا عتبہ" ) ! کیا تم کو یہ بہتر معلوم نہیں ہوتا کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی ہوتی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے سچا پایا۔ تو کیا تم نے بھی وہ وعدہ سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا؟ ابو طلحہ نے کہا اس وقت جنابِ عمر رسول ﷺ سے کہا: یا رسول اللہ! آپ ان جسموں سے مخاطب ہیں کہ جن میں روح نہیں ہے۔ اس پر رسول ﷺ نے جواب دیا: اے عمر! اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کہ تم اتنا بہتر نہیں سن سکتے جتنا کہ یہ سن رہے ہیں۔


کیا وجہ ہے کہ آپ فقط اپنے آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ فقط اپنے "ظن" کی بنیاد پر قران کی کسی بھی واضح آیت کو توڑ مڑوڑ دیں، مگر جب ہم "سنانے" کے معنی قران کی تمام آیتیں سامنے رکھتے ہوئے بیان کریں تو ہم پر "متشابہات کے غلط استعمال کا الزام، قران کی آیات کا واضح اور روشن ہونا [اور وہ تمام آیات جو آپ نے اوپر بیان کی ہیں] ان سب چیزوں کا الزام لگ جائے؟

اللھم صلی علی محمد و آل محمد
 
سلام،
کیا سماع موتی ممکن ہے؟

بالکل سادہ الفاظ میں اس کا جواب - جو چاہے سمجھے اور جو چاہے نہ سمجھے۔ اللہ تعالی کا جواب یہ ہے " فانک لا تسمع الموتی " - کچھ لوگ یہاں عربی بھی سمجھتے ہیں۔ وہ اس سے کیا معنی اخذ کرتے ہیں - ہم انتظار کرتے ہیں ان میں سے کسی کے جواب کا۔ میری عربی مظبوط نہیں ہے۔


[AYAH]30:52[/AYAH] [ARABIC] فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ[/ARABIC]
Tahir ul Qadri (اے حبیب!) بیشک آپ نہ تو (اِن کافر) مُردوں کو اپنی پکار سناتے ہیں اور نہ (بدبخت) بہروں کو، جبکہ وہ (آپ ہی سے) پیٹھ پھیرے جا رہے ہوں

رسول کریم کی کوئی حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی اور صاحب قران کا قران کریم سے کسی طور استثناء ممکن نہیں ! وہ صرف یہی کتاب لائے اور یہی کتاب پیش کی۔ ان کے اقوال و افعال مکمل طور پر قرآن کے مطابق ہیں۔

میرے مبینہ توڑنے مروڑنے کا شافی علاج یہ ہے کہ صرف ترجمے پڑھے جائیں اور میرا لکھا سب نظر انداز کردیا جائے - صرف مترجمین کے ممکنہ ترجمہ سے ہی فائیدہ اٹھایا جائے۔ اگر میرے نکتہء نظر کے ساتھ ساتھ ، تمام کے تمام ترجمے بھی غلط کئے گئے ہیں تو جو درست ترجمہ ہے وہ عطا فرمائیے، اس درست ترجمے کو بھی اوپن برہان پر شامل کرکے خوشی ہوگی۔
والسلام۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سماع موتیٰ کا مسئلہ امور غیب میں سے ہے جس کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں۔ اس لیے اس بارے میں بہتر رویہ یہ ہے کہ جو کچھ نصوص سے ثابت ہے اسے تسلیم کیا جائے اور جس کے بارے میں کچھ ذکر نہیں ملتا اس پر خاموشی اختیار کی جائے۔
انک لا تسمع الموتیٰ اور و ما انت بمسمع من فی القبور آیات کی تحقیق کے دوران جو کچھ منکشف ہوا، کوشش کرتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ پیش کر دوں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔
سماع موتیٰ کا انکار کرنے والوں نے "و ما انت بمسمع من فی القبور" سے دلیل پکڑی ہے کہ مردے نہیں سنتے۔ فریق مخالف کا کہنا ہے ان آیات میں "مردوں" اور "جو قبر میں ہیں" سے مراد حقیقی مردے نہیں بلکہ جیتے جاگتے کفار ہیں جنہیں مردوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر اور کئی دوسرے مفسرین نے لکھا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مذکورہ آیات پر تدبر کرنے اور ان کے سیاق و سباق پر غور کرنے سے ان مفسرین کے موقف کی تائید ہوتی ہے لیکن یہ تفسیر عدم سماع موتیٰ کی دلیل پکڑنے سے مانع نہیں ہے۔ سوره النمل کی آیت میں ہے:
"آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے جا رہے ہوں"
آیت کے پہلے حصے پر غور کرتے ہیں۔ پہلی تفسیر کے مطابق اس میں مردوں سے مراد کفار ہیں جنہیں بات تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے مردوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ سننے سے مراد بات ماننا ہے۔ جیسے اردو میں کہتے ہیں "فلاں میری سنتا ہی نہیں" بمعنیٰ "فلاں میری مانتا نہیں"۔ جس طرح مردے کو خطاب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا یہی حال کفر پر ڈٹے رہنے اور دلیل و براہین دیکھ سمجھ کا بھی نہ ماننے والے کفار کا ہے کہ انہیں سنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ گویا جس طرح فوت شدہ انسان کسی کے پکارنے سے جواب نہیں دے سکتا نہ اسے فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے یہی حال کفار کا ہے کہ بھلائی کی دعوت پر ان سے خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ (خیال رہے کہ یہاں بات ائمہ کفر کی ہو رہی ہے جو جاہلی تعصبات یا ذاتی مفادات کی وجہ سے دعوت حق کو ٹھکرا دیتے ہیں)
آیات پر تدبر کرنے سے معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبانی انہیں یہ کہلوایا جا رہا ہے کہ " تم نے اپنے کرتوتوں سے اپنے دل مردہ کر لیے ہیں اس لیے تمہارا حال مردوں کا سا ہے کہ جنہیں سنانا یا نہ سنانا ایک برابر ہے"۔ مردہ دلوں کو مردہ انسانوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ بات کو واضح انداز میں سمجھنے کے لیے ایک مثال پر غور کرتے ہیں۔ فرض کریں میں کہتا ہوں "زید اتنا طاقتور ہے جیسے شیر"۔ پڑھنے والا صاف جان لیتا ہے کہ شیر زید سے زیادہ قوت والا ہے اسی لیے زید کو اس سے تشبیہ دی گئی ۔ آیت بالا میں مردہ دل کافروں کو کس چیز سے تشبیہہ دی گئی؟ مردہ انسانوں سے۔ عربی کا ذوق سلیم رکھنے والا ہر آدمی اس سے یہی سمجھے گا کہ مردہ انسانوں کا عدم سماع ان مردہ دل کافروں سے کہیں درجے بڑھ کر ہے۔
یہ کہنا محل نظر ہے کہ امت میں یہ موقف سب سے پہلے محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ نے اختیار کیا۔ ابن جریر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"اس مثال کا مطلب یہ ہے کہ "آپ قدرت نہیں رکھتے کہ ان مشرکوں کو سمجھا سکیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہ ان مواعظ سے کچھ نہیں سمجھ سکتے جو انہیں سنائے جاتے ہیں، اسی طرح آپ میں یہ استطاعت بھی نہیں کہ مردوں کو کچھ سمجھا سکیں جن کی قوت سماعت اللہ تعالیٰ نے سلب کر لی ہے" (21/36)
اصل عربی متن کچھ یوں ہے:
فإنك لا تقدر أن تفهم هؤلاء المشركين الذين قد ختم الله على أسماعهم فسلبهم فهم ما يتلى عليهم من مواعظ تنزيله كما لا تقدر أن تفهم الموتى الذين سلبهم الله أسماعهم بأن تجعل لهم أسماع
پھر وہ صحیح سند کے ساتھ قتادہ رحمہ اللہ کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ
" یہ کافر کی مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے کہ جس طرح مردہ پکارنے والی کی نہیں سنتا اسی طرح کافر ہے کہ (دعوت حق کو) نہیں سنتا"۔
صحیح البخاری میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔
(مضمون جاری ہے)
 
کچھ ہمیں بھی سیکھائیے ، ظاہری بھی اور باطنی بھی ۔

کیا لفظی یعنی واضح یعنی ظاہری معنوں کو لکھے بغیر یہ ممکن ہے کہ باطنی معنی دیکھے جاسکیں ؟
السلام علیکم ، و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ،
بھائی فاروق آپ کا سوال بڑا اچھا ہے ، میں بھی بھائی قسیم اور بہن مہوش سے کچھ گذارش کرنا چاہتا اور کچھ معلوم ، امید ہے آپ بھی میرے ساتھ اتفاق کریں گے ،


الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نَبِيَّ وَ لا مَعصُومَ بَعدَہُ ، وَ عَلیٰ آلہِ وَ ازوَاجِہِ وَ اصَحَابِہِ وَ مَن تَبعَھُم باِحسَانٍ اِلیٰ یَومِ الدِین،
خالص اور حقیقی تعریف اکیلے اللہ کے لیے ہے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد پر جِنکے بعد کوئی نبی اور معصوم نہیں ، اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ، اور مقدس بیگمات پر اور تمام اصحاب پر اور جو اُن سب کی ٹھیک طرح سے مکمل پیروی کریں اُن سب پر ،

السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
محترم بھائی قسیم حیدر صاحب ، اور بہن مہوش علی صاحبہ ،
اللہ کرے آپ صاحبان کی بحث کِسی فائدہ مند مثبت نتیجے تک پہنچے اور حق بات قُبُولیت کے ساتھ لکھنے پڑہنے والوں پر واضح ہو جائے ، اور مجھ جیسے طالب عِلم کو بھی آپ صاحبان سے کچھ سیکھنے کا موقع مل جائے ،
عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ کِسی معاملے یا مسئلے میں بحث کرنے سے پہلے کچھ قواعد و قوانین مقرر کیے جاتے ہیں ، بُنیادی اصطلاحات پر اتفاق کیا جاتا ہے ، اور پھر اُن قواعد و قوانین کی حُدود اور اصطلاحات کی روشنی میں بات بڑہائی جاتی ہے ،
آپ صاحبان سے گذارش ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات پر اتفاق فرمائیے ،
اگر آپ صاحبان ایسا نہیں کرنا چاہتے تو کم از کم مجھ جیسوں کی تشنگیء عِلم بجھانے کے لیے ہی اِن سوالوں کے کچھ جوابات عنایت فرمائیے ، اللہ نے توفیق عطاء فرمائی تو شاید دیگر قارئین و زائرین کی طرح میں بھی آپ صاحبان کے عِلم سے کچھ فائدہ حاصل کر لوں ،

کِسی بھی کلام کے ظاہری اور باطنی معنیٰ سے کیا مُراد ہے ؟ اورظاہر کو ترک کر کے باطنی معنیٰ کی طرف رُخ کرنے کی ضرورت کیوں اور کب پیش آتی ہے ؟
اِسی طرح کِسی بھی کلام کے حقیقی اور مجازی معنیٰ سے کیا مُراد ہے ؟ اور حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو اپنانے کی ضرورت کیوں اور کب پیش آتی ہے ؟
کِسی بھی کلام کے صریح اور مبہم سے کیا مُراد ہے ؟ اور صریح کو چھوڑ کے مبہم کے پیچھے دوڑ لگانے کی ضرورت کیون اور کب پیش آتی ہے ؟
کِسی بھی کلام کے منطوق اور مفہوم سے کیا مُراد ہے ؟
کیا ظاہری اور حقیقی ، باطنی اور مجازی میں کوئی فرق ہے ؟
اِن سوالات کے جوابات میں اگر کوئی قاعدہ قانون پایا جاتا ہے تو کیا اُس کا اطلاق قُران ، یعنی اللہ کے کلام پر کیا جائے گا ؟
ہاں تو کیوں ؟ نہیں تو کیوں ؟
قُران میں محکمات اور مشتبھات ہیں ؟
قُران کو سمجھنے کے لیے ، یعنی قُران کی تفسیر کے لیے کیا ذرائع اپنائے جائیں ؟ اور کیوں ؟یا جو کوئی بھی اپنی سوچ و رائے کے مطابق جو معنی و مفہوم سمجھنا چاہے سمجھ لے ؟
اِن شاء اللہ وقتاً فوقتاً میں آپ صاحبان کے عِلم سے بہرور ہونے کے لیے حاضر ہوتا رہوں گا ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ دِین جو اُس نے تمام مخلوق سے بُلندی پر رہتے ہوئے اپنے سب سے مُقرب اور محبوب ترین بندے مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُسی طرح سمجھائے جِس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو سمجھایا ، اور اُسی طرح اِیمان و عمل کی توفیق عطاء فرمائے اور ہر کلمہ گو کا خاتمہ اِیمان پر فرمائے ۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ۔
 

قسیم حیدر

محفلین
مہوش صاحبہ سے سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ انہوں نے اپنی بات بہترین انداز میں واضح طور پر سامنے رکھی تھی۔ گذشتہ پانچ چھے ماہ میں نے ان کے مراسلے پر بارہا غور کیا، کتب تفاسیر کنگالیں، احادیث کی تحقیق کی۔ علماء کی آراء معلوم کیں۔ اس سارے عرصے میں مَیں نے بالارادہ اس دھاگے میں کچھ لکھنے سے پرہیز کیا۔ اب جبکہ مجھے ان آیات کے بارے میں شرح صدر ہو چکا ہے تو مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک دفعہ پھر اپنی گزارشات گوش گزار کر دوں۔ تحقیق میں مجھے کافی وقت لگا ہے۔اب حاصلِ مطالعہ پیش کرنے کا مرحلہ درپیش ہے جو بذات خود ایک وقت طلب کام ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں میری مدد کرے۔ میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ اس دھاگے میں ہمارا مطمع نظر بحث برائے بحث کی بجائے احسن طریقے سے اپنی بات پہنچا دینا اور سمجھا دینا ہونا چاہیے۔ عادل بھائی! آپ نے بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کے جواب کے لیے آپ کو انتظار کی زحمت اٹھانی ہو گی۔ ہو سکتا ہے مہوش مجھ سے بہتر جواب دے سکیں۔
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا تھا کہ میرا گمان یہ تھا کہ ان آیات سے سماع موتیٰ کی مطلقا نفی ہوتی ہے لیکن احادیث اور تفاسیر کی روشنی میں مزید تدبر کرنے سے معلوم ہوا کہ بعض خاص حالات میں مردوں کا سننا احادیث میں مذکور ہے جن کی طرف نائب مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتوے میں اشارہ کر دیا تھا۔ لیکن ان سے آیات کے عموم کی نفی نہیں ہوتی۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ اگلے مراسلے میں بیان کروں گا۔ اس وقت میں چند ایسے نکات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جنہیں اپنی تحقیق کے دوران میں نے درست نہیں پایا۔ ان میں سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ انک لا تسمع الموتیٰ سے عدم سماع موتیٰ کی نفی کرنے والوں میں محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ اور مودودی رحمہ اللہ اولین تھے اور انہوں نے متقدمین کی رائے کے برعکس امت میں ایک نئے موقف کی بنیاد رکھی۔ مہوش لکھتی ہیں:
اسی طرح دیگر تمام علمائے قدیم کی دیگر مشہور تفاسیر میں بھی یہی بات لکھی ہوئی ہے کہ یہاں "سننے" سے مراد "ماننا" ہے۔
ان دو آیات سے جدید مفسرین یہ ثابت کرتے ہیں کہ "مردے" کوئی سماعت نہیں رکھتے۔ (اسکو عام طور پر "سماعتِ موتیٰ" کا مسئلہ کہا جاتا ہے)۔
ان جدید مفسرین کے مقابلے میں علمائے قدیم یہ رائے رکھتے تھے کہ مردے سن سکتے ہیں اور ان دو آیات میں "سماعت موتی" کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی یہ آیات اس بات کو ثابت کر رہی ہیں کہ مردے نہیں سن سکتے، یا پھر یہ کہ یہ جدید مفسرین حضرات پھر اپنی ظاہر پرستی کی وجہ سے اس کا اصل مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔​

آئیے اللہ کے نام سے شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیوں مودودی صاحب اور محمد بن عبدالوہاب صاحب جیسے جدید مفسرین اس معاملے میں غلطی کا شکار ہیں اور کیا یہ واقعی انصاف ہو گا کہ قدیم علماء کی آراء کو پڑھنے بغیر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے؟
یہ ایک ایسے محقق کی رائے معلوم ہوتی ہے جس نے اس مسئلے کو سراسر یکطرفہ نگاہ سے دیکھا ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ مہوش بہن نے اپنا مراسلہ کسی دوسرے کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے لکھا ہے اس لیے میں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا۔ انہیں جو مواد اپنی مواقفت میں ملا وہ مناسب تبدیلی کے بعد انہوں نے ہمارے سامنے رکھ دیا تاہم قدیم تفاسیر سے رجوع کرنے پر صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انک لا تسمع الموتیٰ سے سماع موتیٰ کی نفی دورِ صحابہ ہی سے شروع ہو گئی تھی۔ لہٰذا یہ دعوٰی قطعی غلط ہے کہ اس موقف کی بنیاد رکھنے والے محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ کچھ حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن سے اس نظریے کا ضعف کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔
1۔جیسا میں نے عرض کیا کہ “انک لا تسمع الموتیٰ” سے سماع موتیٰ کی نفی سب سے پہلے صحابہ کرام نے سمجھی تھی۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے قلیب بدر والے واقعے کی تصحیح کرتے ہوئے سورۃ النمل کی یہی آیت پیش کی تھی۔ (یہاں یہ بات زیر بحث نہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا میں سے کس کا موقف درست تھا، میں ایک اصولی بات سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ صحابہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو اس آیت کی روشنی میں سمجھتے تھے کہ مردے نہیں سن سکتے)
[arabic]عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
وَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَلِيبِ بَدْرٍ فَقَالَ هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ثُمَّ قَالَ إِنَّهُمْ الْآنَ يَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ فَذُكِرَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُمْ الْآنَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِي كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ هُوَ الْحَقُّ ثُمَّ قَرَأَتْ
{ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى }[/arabic]
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے (جس میں کفار کی لاشیں ڈالی گئی تھیں) اور (مقتولین سے مخاطب ہو کر) فرمایا”کیا تم نے اسے حق پایا جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟” پھر فرمایا “جو میں کہہ رہا ہوں اس وقت یہ اسے سن رہے ہیں”۔ اس بات کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا “نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صرف یہ کہا تھا کہ “وہ اس وقت جانتے ہیں کہ جو کچھ میں ان سے کہا کرتا تھا وہ حق ہے” پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (بطور دلیل) یہ آیت پڑھی “تو مردوں کو نہیں سنا سکتا”۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل)
اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائی تو اس حدیث پر بھی تفصیل سے بات ہو گی۔ فی الحال اتنا یاد رکھیں کہ امت میں سب سے پہلے “انک لا تسمع الموتٰٰی” سے سماع موتیٰ کی نفی کرنے والے محمد بن عبدالوھاب یا مودودی رحمہما اللہ نہیں بلکہ ایمان والوں کی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا، وہ مبارک ہستی تھیں جنہیں بچپن ہی سے رسول رحمت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ساتھ نصیب ہوا۔ رفاقت نبوی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے وہ قرآن کریم اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا مطلب خوب سمجھتی تھیں۔ اور پھر ان کے موقف کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ کے تمام مکاتب فکر کے نزدیک صحیح بخاری کتب حدیث میں سب سے اعلیٰ درجے کی کتاب ہے۔
ایک مثال لیتے ہیں۔ اردو اور دیگر تقریبا تمام زبانوں میں محاورتا کہا جاتا ہے کہ فلاں (مثلا زید) مردے کی طرح سویا ہوا ہے۔ آپ اس کا کیا مطلب لیں گے؟ یہی نا کہ زید اتنی گہری نیند سویا ہوا کہ اسے آس پاس کی کچھ خبر نہیں۔ اہل زبان اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیں گے کہ مردے بھی سوتے اور جاگتے ہیں۔ تشبیہہ بیان کرتے وقت مشبہ (زید) کو مشبہ بہ (مردے) سے تشبیہہ دی جاتی ہے، نہ کہ مشببہ بہ کو مشبہہ پر قیاس کیا جاتا ہے۔ مہوش صاحبہ نے جو تشریح بیان کی ہے اس میں ی بنیادی غلطی یہ ہے کہ مشبہ بہ کو مشبہ پر قیاس کر لیا ہے ۔ ان آیات میں کفار کو مردوں سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ وہ اپنے کفر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ان پر کوئی بات اثر نہیں کرتی وہ نصیحت کی کوئی بات نہیں سنتے گویا کہ وہ مردے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ انک لا تسمع الموتی میں سماع حقیقی اور و لا تسمع الصم الدعاء میں سماع مجازی مراد ہے۔ آیات کی یہی تفسیر ہے جو علمائے متقدمین بیان کرتے آ رہے ہیں۔ نمبر وار اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ مفسرین کی تاریخِ وفات پر دھیان دیجیے گا۔
مقاتل بن سلیمان بن بشیر رحمۃ اللہ علیہ جن کی وفات 150 ھ میں ہوئی۔ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
[arabic]فشبه كفار مكة بالأموات كما لا يسمع الميت النداء ، كذلك لا تسمع الكفار النداء ، ولا تفقهه [/arabic](تفسیر مقاتل)
"(اللہ تعالیٰ نے) مکہ کے کافروں کو مردوں سے تشبیہہ دی۔ جس طرح مردے پکار کو نہیں سنتے اسی طرح کافر (دعوت حق کی) پکار کو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں
أبو محمد الحسين بن مسعود البغوي (المتوفی 516 ھ) اپنی تفسیر معالم التنزیل میں اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:
[arabic]أنهم لفرط إعراضهم عما يدعون إليه كالميت الذي لا سبيل إلى إسماعه[/arabic] (معالم التنزیل)
"جس چیز کی طرف انہیں دعوت دی جاتی تھی (یعنی دعوتِ اسلام) اس سے ان کے انتہائی اعراض کی وجہ سے (کہا گیا کہ) وہ مردوں کی مانند ہیں جنہیں سنانے کی کوئی راہ نہیں ہے
السمرقندی (متوفی 375 ھ) اپنی تفسیر “بحر العلوم” میں رقم طراز ہیں:
[arabic]فهذا مثل ضربه للكفار ، أي فكما أنك لا تسمع الموتى ، فكذلك لا تتفقه كفار مكة [/arabic] )بحر العلوم)
"یہ مثال ہے جو اللہ نے کافروں کے لیے بیان فرمائی ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے، اسی طرح کفار مکہ کو نہیں سمجھا سکتے
جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے:
[arabic]هذا مثل ضربه الله للكافر كما لا يسمع الميت كذلك لا يسمع الكافر ، [/arabic]
"یہ مثال اللہ نے کافر کے لیے بیان کی ہے کہ جس طرح مردے نہیں سنتے اسی طرح کافر (دعوتِ حق) کو نہیں سنتا اور نہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے
مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب میں نے شیعہ مفسرین کی تفاسیر سے رجوع کیا اور ان میں بھی مجھے یہی تفسیر ملی۔
طبرسی (متوفی 548 ھ) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
[arabic]ثم شبَّه الكفار بالموتى فقال { إنك لا تسمع الموتى } يقول كما لا تسمع الميت الذي ليس له آلة السمع النداء كذلك لا تسمع الكافر النداء لأنه لا يسمع ولا يقبل الموعظة ولا يتدبر فيها
[/arabic]
"پھر کفار کو مردوں سے تشبیہہ دی اور کہا “آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے”۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح آپ مردے کو نہیں سنا سکتے جس کے پاس پکار سننے کا عضو ہی نہیں اسی طرح آپ کافر کو بھی نہیں سنا سکتے کیونکہ وہ (خود ہی) نہیں سنتا اور نصیحت قبول نہیں کرتا اور نہ اس پر تدبر کرتا ہے”
شیعہ مفسر الطوسی متوفی 460 ھ اپنی تفسیر تفسير التبيان الجامع لعلوم القرآن میں لکھتے ہیں:
[arabic]ثم شبه الكفار بالموتى الذين لا يسمعون ما يقال لهم، وبالصم الذين لا يدركون دعاء من يدعوهم، من حيث انهم لم ينتفعوا بدعائه ولم يصيروا إلى ما دعاهم اليه، فقال { إنك } يا محمد { لا تسمع الموتى } لأن ذلك محال { ولا تسمع الصم الدعاء إذا ولو مدبرين } أي اعرضوا عن دعائك ولم يلتفتوا اليه ولم يفكروا في ما تدعوهم اليه، فهؤلاء الكفار بترك الفكر في ما يدعوهم اليه النبي (صلى الله عليه وسلم) بمنزلة الموتى الذين لا يسمعون، وبمنزلة الصم الذين لا يدركون الأصوات.
[/arabic]
"پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہہ دی ہے جو سنتے نہیں ہیں، اور بہروں سے بھی تشبیہہ دی ہے جو بلانے والے کے بلاوے کا ادراک نہیں رکھتے۔۔۔ ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"آپ”
یعنی محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)
"مردوں کو نہیں سنا سکتے”
کیوں کہ ایسا ممکن ہی نہیں
۔
"اور نہ بہروں کو سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہوں”
یعنی انہوں نے آپ کے بلاوے سے اعراض کیا اور اس کی طرف توجہ نہ کی اور اس پر غور ہی نہ کیا جس کی آپ انہیں دعوت دے رہے ہیں۔ پس یہ کفار نبی (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کی دعوت میں غور کرنے کو چھوڑ کر مردوں کی مانند ہو چکے ہیں جو سنتے نہیں ہیں۔ اور ان کی حالت بہروں جیسی بن گئی ہے جو آواز کا ادراک نہیں رکھتے”۔
تفسیر المیزان دور حاضر میں شیعہ کی اہم تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے مصنف الطبطبائي (ت 1401 ه۔) نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
[arabic]إنما أمرناك بالتوكل على الله في أمر إيمانهم وكفرهم لأنهم موتى وليس في وسعك أن تسمع الموتى دعوتك[/arabic]
"(اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں) ہم نے کفار کے ایمان اور کفر کے بارے میں آپ کو اللہ پر توکل کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ وہ تو مردے ہیں اور آپ کے بس میں نہیں ہے کہ مردوں کو اپنی دعوت سنا دیں”۔
دوبارہ اہل سنت کی تفاسیر کی طرف آتے ہیں:
۔ زمحشری (متوفی 538 ھ) نے ااس کی تفسیر یوں لکھی ہے
[arabic]حالهم - لانتفاء جدوى السماع - كحال الموتى الذين فقدوا مصحح السماع[/arabic]
"ان کا حال ۔۔ ۔مردوں جیسا ہے جو سننے کی صلاحیت کھو چکے ہیں”
۔ الشوکانی (متوفی 1250 ھ) نے تو اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بہت دوٹوک انداز اختیار کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
[arabic]وظاهر نفي إسماع الموتى العموم، فلا يخصّ منه إلاّ ما ورد بدليل[/arabic]
"اور (اس آیت سے) سماع موتیٰ کے عموم کی نفی ظاہر ہو گئی پس اس میں سے اسی کو مستثنٰی قرار دیا جائے جو دلیل سے ثابت ہے
ابن جریر نے قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ:
عن قتادة قال :
[arabic] هذا مثل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع الميت الدعاء كذلك لا يسمع الكاف[/arabic]ر
"اللہ تعالیٰ نے یہ کافر کی مثال بیان فرمائی ہے کہ جس طرح مردہ پکار کو نہیں سنتا اسی طرح کافر بھی (دعوت حق) کو نہیں سنتا”
مفسرین کے علاوہ بہت سے دوسرے علماء بھی ان آیات سے عدم سماع موتیٰ کی دلیل لیتے چلے آ رہے ہیں۔ چونکہ الزام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ پر تھا اس لیے میں حنبلی علماء کی رائے نقل کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں۔ حنفی کتب کی چند عبارات دیکھتے ہیں:
[arabic]۔ عِنْدَ أَكْثَرِ مَشَايِخِنَا هُوَ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَسْمَعُ (فتح القدیر۔ باب الجنائز ص 324)[/arabic]
"ہمارے اکثر مشائخ کا کہنا ہے کہ مردے نہیں سنتے”
حاشہ در مختار میں ہے:
[arabic] فقد أجاب عنه المشايخ بأنه غير ثابت: يعني من جهة المعنى، وذلك لان عائشة ردته بقوله تعالى: * (وما أنت بمسمع من فيالقبور) * (فاطر: 22) * (إنك لا تسمع الموتى) *[/arabic] (النمل: 08 )
"(قلیب بدر والی حدیث کا) ہمارے علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ وہ معنی کے لحاظ سے ثابت نہیں ہے اس لیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے اس کا رد کیا تھا کہ “آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے”۔ ۔ ۔ ۔ “
(حاشیۃ در المختار جلد 4 باب اليمين في الضرب والقتل وغير ذلك)
ان سارے علماء میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کا ہم عصر رہا ہو یا ان کی آپس میں ملاقات یا رابطہ رہا ہو۔ ان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے لے کر آج تک کے مفسرین شامل ہیں جو سب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ سورۃ النمل کی اس آیت میں کفار کو بے حس قرار دیتے ہوئے انہیں مردوں سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ جس طرح مردے کو سنانا بے کار ہے اس لیے کہ وہ نہیں سن سکتا اسی طرح ہٹ دھرم کفار کو سنانا عبث ہے کہ ضد بازی کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت وہ کھو چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے مہوش اگر خود تحقیق کرتیں تو یہ پہلو ان کی نظر سے اوجھل نہ رہ سکتا تھا۔ اب اگلے مراسلے تک اجازت دیجیے۔ ان شاء اللہ وقت ملتے ہی اس بارے میں مزید گزارشات پیش کروں گا۔
 
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیرا ، قسیم بھائی ، دیر آید درست آید ، میرے سوالات کے جوابات آپ اور مہوش بہن دونوں کی طرف سے مل جائیں تو زیادہ بہتر ہے ، اور اگر بھائی فاروق سرور کی شمولیت ہو جائے تو اور زیادہ وضاحت تک پہنچ سکیں گے ان شاء اللہ تعالی و السلام علیکم۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش صاحبہ سے سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ انہوں نے اپنی بات بہترین انداز میں واضح طور پر سامنے رکھی تھی۔ گذشتہ پانچ چھے ماہ میں نے ان کے مراسلے پر بارہا غور کیا، کتب تفاسیر کنگالیں، احادیث کی تحقیق کی۔ علماء کی آراء معلوم کیں۔ اس سارے عرصے میں مَیں نے بالارادہ اس دھاگے میں کچھ لکھنے سے پرہیز کیا۔ اب جبکہ مجھے ان آیات کے بارے میں شرح صدر ہو چکا ہے تو مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک دفعہ پھر اپنی گزارشات گوش گزار کر دوں۔ تحقیق میں مجھے کافی وقت لگا ہے۔اب حاصلِ مطالعہ پیش کرنے کا مرحلہ درپیش ہے جو بذات خود ایک وقت طلب کام ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں میری مدد کرے۔ میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ اس دھاگے میں ہمارا مطمع نظر بحث برائے بحث کی بجائے احسن طریقے سے اپنی بات پہنچا دینا اور سمجھا دینا ہونا چاہیے۔ عادل بھائی! آپ نے بڑے بنیادی سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کے جواب کے لیے آپ کو انتظار کی زحمت اٹھانی ہو گی۔ ہو سکتا ہے مہوش مجھ سے بہتر جواب دے سکیں۔
جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا تھا کہ میرا گمان یہ تھا کہ ان آیات سے سماع موتیٰ کی مطلقا نفی ہوتی ہے لیکن احادیث اور تفاسیر کی روشنی میں مزید تدبر کرنے سے معلوم ہوا کہ بعض خاص حالات میں مردوں کا سننا احادیث میں مذکور ہے جن کی طرف نائب مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتوے میں اشارہ کر دیا تھا۔ لیکن ان سے آیات کے عموم کی نفی نہیں ہوتی۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ اگلے مراسلے میں بیان کروں گا۔ اس وقت میں چند ایسے نکات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جنہیں اپنی تحقیق کے دوران میں نے درست نہیں پایا۔ ان میں سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ انک لا تسمع الموتیٰ سے عدم سماع موتیٰ کی نفی کرنے والوں میں محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ اور مودودی رحمہ اللہ اولین تھے اور انہوں نے متقدمین کی رائے کے برعکس امت میں ایک نئے موقف کی بنیاد رکھی۔ مہوش لکھتی ہیں:



یہ ایک ایسے محقق کی رائے معلوم ہوتی ہے جس نے اس مسئلے کو سراسر یکطرفہ نگاہ سے دیکھا ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ مہوش بہن نے اپنا مراسلہ کسی دوسرے کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے لکھا ہے اس لیے میں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا۔ انہیں جو مواد اپنی مواقفت میں ملا وہ مناسب تبدیلی کے بعد انہوں نے ہمارے سامنے رکھ دیا تاہم قدیم تفاسیر سے رجوع کرنے پر صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انک لا تسمع الموتیٰ سے سماع موتیٰ کی نفی دورِ صحابہ ہی سے شروع ہو گئی تھی۔ لہٰذا یہ دعوٰی قطعی غلط ہے کہ اس موقف کی بنیاد رکھنے والے محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ کچھ حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن سے اس نظریے کا ضعف کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔
1۔جیسا میں نے عرض کیا کہ “انک لا تسمع الموتیٰ” سے سماع موتیٰ کی نفی سب سے پہلے صحابہ کرام نے سمجھی تھی۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے قلیب بدر والے واقعے کی تصحیح کرتے ہوئے سورۃ النمل کی یہی آیت پیش کی تھی۔ (یہاں یہ بات زیر بحث نہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا میں سے کس کا موقف درست تھا، میں ایک اصولی بات سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ صحابہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو اس آیت کی روشنی میں سمجھتے تھے کہ مردے نہیں سن سکتے)
[arabic]عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ
وَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَلِيبِ بَدْرٍ فَقَالَ هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ثُمَّ قَالَ إِنَّهُمْ الْآنَ يَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ فَذُكِرَ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُمْ الْآنَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِي كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ هُوَ الْحَقُّ ثُمَّ قَرَأَتْ
{ إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى }[/arabic]
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے (جس میں کفار کی لاشیں ڈالی گئی تھیں) اور (مقتولین سے مخاطب ہو کر) فرمایا”کیا تم نے اسے حق پایا جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟” پھر فرمایا “جو میں کہہ رہا ہوں اس وقت یہ اسے سن رہے ہیں”۔ اس بات کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا “نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے صرف یہ کہا تھا کہ “وہ اس وقت جانتے ہیں کہ جو کچھ میں ان سے کہا کرتا تھا وہ حق ہے” پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (بطور دلیل) یہ آیت پڑھی “تو مردوں کو نہیں سنا سکتا”۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل)
اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائی تو اس حدیث پر بھی تفصیل سے بات ہو گی۔ فی الحال اتنا یاد رکھیں کہ امت میں سب سے پہلے “انک لا تسمع الموتٰٰی” سے سماع موتیٰ کی نفی کرنے والے محمد بن عبدالوھاب یا مودودی رحمہما اللہ نہیں بلکہ ایمان والوں کی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا، وہ مبارک ہستی تھیں جنہیں بچپن ہی سے رسول رحمت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ساتھ نصیب ہوا۔ رفاقت نبوی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے وہ قرآن کریم اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا مطلب خوب سمجھتی تھیں۔ اور پھر ان کے موقف کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور اہل السنۃ والجماعۃ کے تمام مکاتب فکر کے نزدیک صحیح بخاری کتب حدیث میں سب سے اعلیٰ درجے کی کتاب ہے۔
ایک مثال لیتے ہیں۔ اردو اور دیگر تقریبا تمام زبانوں میں محاورتا کہا جاتا ہے کہ فلاں (مثلا زید) مردے کی طرح سویا ہوا ہے۔ آپ اس کا کیا مطلب لیں گے؟ یہی نا کہ زید اتنی گہری نیند سویا ہوا کہ اسے آس پاس کی کچھ خبر نہیں۔ اہل زبان اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیں گے کہ مردے بھی سوتے اور جاگتے ہیں۔ تشبیہہ بیان کرتے وقت مشبہ (زید) کو مشبہ بہ (مردے) سے تشبیہہ دی جاتی ہے، نہ کہ مشببہ بہ کو مشبہہ پر قیاس کیا جاتا ہے۔ مہوش صاحبہ نے جو تشریح بیان کی ہے اس میں ی بنیادی غلطی یہ ہے کہ مشبہ بہ کو مشبہ پر قیاس کر لیا ہے ۔ ان آیات میں کفار کو مردوں سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ وہ اپنے کفر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ان پر کوئی بات اثر نہیں کرتی وہ نصیحت کی کوئی بات نہیں سنتے گویا کہ وہ مردے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ انک لا تسمع الموتی میں سماع حقیقی اور و لا تسمع الصم الدعاء میں سماع مجازی مراد ہے۔ آیات کی یہی تفسیر ہے جو علمائے متقدمین بیان کرتے آ رہے ہیں۔ نمبر وار اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ مفسرین کی تاریخِ وفات پر دھیان دیجیے گا۔
مقاتل بن سلیمان بن بشیر رحمۃ اللہ علیہ جن کی وفات 150 ھ میں ہوئی۔ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
[arabic]فشبه كفار مكة بالأموات كما لا يسمع الميت النداء ، كذلك لا تسمع الكفار النداء ، ولا تفقهه [/arabic](تفسیر مقاتل)
"(اللہ تعالیٰ نے) مکہ کے کافروں کو مردوں سے تشبیہہ دی۔ جس طرح مردے پکار کو نہیں سنتے اسی طرح کافر (دعوت حق کی) پکار کو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں
أبو محمد الحسين بن مسعود البغوي (المتوفی 516 ھ) اپنی تفسیر معالم التنزیل میں اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:
[arabic]أنهم لفرط إعراضهم عما يدعون إليه كالميت الذي لا سبيل إلى إسماعه[/arabic] (معالم التنزیل)
"جس چیز کی طرف انہیں دعوت دی جاتی تھی (یعنی دعوتِ اسلام) اس سے ان کے انتہائی اعراض کی وجہ سے (کہا گیا کہ) وہ مردوں کی مانند ہیں جنہیں سنانے کی کوئی راہ نہیں ہے
السمرقندی (متوفی 375 ھ) اپنی تفسیر “بحر العلوم” میں رقم طراز ہیں:
[arabic]فهذا مثل ضربه للكفار ، أي فكما أنك لا تسمع الموتى ، فكذلك لا تتفقه كفار مكة [/arabic] )بحر العلوم)
"یہ مثال ہے جو اللہ نے کافروں کے لیے بیان فرمائی ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے، اسی طرح کفار مکہ کو نہیں سمجھا سکتے
جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے:
[arabic]هذا مثل ضربه الله للكافر كما لا يسمع الميت كذلك لا يسمع الكافر ، [/arabic]
"یہ مثال اللہ نے کافر کے لیے بیان کی ہے کہ جس طرح مردے نہیں سنتے اسی طرح کافر (دعوتِ حق) کو نہیں سنتا اور نہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے
مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب میں نے شیعہ مفسرین کی تفاسیر سے رجوع کیا اور ان میں بھی مجھے یہی تفسیر ملی۔
طبرسی (متوفی 548 ھ) نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
[arabic]ثم شبَّه الكفار بالموتى فقال { إنك لا تسمع الموتى } يقول كما لا تسمع الميت الذي ليس له آلة السمع النداء كذلك لا تسمع الكافر النداء لأنه لا يسمع ولا يقبل الموعظة ولا يتدبر فيها
[/arabic]
"پھر کفار کو مردوں سے تشبیہہ دی اور کہا “آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے”۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح آپ مردے کو نہیں سنا سکتے جس کے پاس پکار سننے کا عضو ہی نہیں اسی طرح آپ کافر کو بھی نہیں سنا سکتے کیونکہ وہ (خود ہی) نہیں سنتا اور نصیحت قبول نہیں کرتا اور نہ اس پر تدبر کرتا ہے”
شیعہ مفسر الطوسی متوفی 460 ھ اپنی تفسیر تفسير التبيان الجامع لعلوم القرآن میں لکھتے ہیں:
[arabic]ثم شبه الكفار بالموتى الذين لا يسمعون ما يقال لهم، وبالصم الذين لا يدركون دعاء من يدعوهم، من حيث انهم لم ينتفعوا بدعائه ولم يصيروا إلى ما دعاهم اليه، فقال { إنك } يا محمد { لا تسمع الموتى } لأن ذلك محال { ولا تسمع الصم الدعاء إذا ولو مدبرين } أي اعرضوا عن دعائك ولم يلتفتوا اليه ولم يفكروا في ما تدعوهم اليه، فهؤلاء الكفار بترك الفكر في ما يدعوهم اليه النبي (صلى الله عليه وسلم) بمنزلة الموتى الذين لا يسمعون، وبمنزلة الصم الذين لا يدركون الأصوات.
[/arabic]
"پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردوں سے تشبیہہ دی ہے جو سنتے نہیں ہیں، اور بہروں سے بھی تشبیہہ دی ہے جو بلانے والے کے بلاوے کا ادراک نہیں رکھتے۔۔۔ ۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"آپ”
یعنی محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)
"مردوں کو نہیں سنا سکتے”
کیوں کہ ایسا ممکن ہی نہیں
۔
"اور نہ بہروں کو سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہوں”
یعنی انہوں نے آپ کے بلاوے سے اعراض کیا اور اس کی طرف توجہ نہ کی اور اس پر غور ہی نہ کیا جس کی آپ انہیں دعوت دے رہے ہیں۔ پس یہ کفار نبی (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کی دعوت میں غور کرنے کو چھوڑ کر مردوں کی مانند ہو چکے ہیں جو سنتے نہیں ہیں۔ اور ان کی حالت بہروں جیسی بن گئی ہے جو آواز کا ادراک نہیں رکھتے”۔
تفسیر المیزان دور حاضر میں شیعہ کی اہم تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے مصنف الطبطبائي (ت 1401 ه۔) نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
[arabic]إنما أمرناك بالتوكل على الله في أمر إيمانهم وكفرهم لأنهم موتى وليس في وسعك أن تسمع الموتى دعوتك[/arabic]
"(اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں) ہم نے کفار کے ایمان اور کفر کے بارے میں آپ کو اللہ پر توکل کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ وہ تو مردے ہیں اور آپ کے بس میں نہیں ہے کہ مردوں کو اپنی دعوت سنا دیں”۔
دوبارہ اہل سنت کی تفاسیر کی طرف آتے ہیں:
۔ زمحشری (متوفی 538 ھ) نے ااس کی تفسیر یوں لکھی ہے
[arabic]حالهم - لانتفاء جدوى السماع - كحال الموتى الذين فقدوا مصحح السماع[/arabic]
"ان کا حال ۔۔ ۔مردوں جیسا ہے جو سننے کی صلاحیت کھو چکے ہیں”
۔ الشوکانی (متوفی 1250 ھ) نے تو اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بہت دوٹوک انداز اختیار کیا ہے وہ لکھتے ہیں:
[arabic]وظاهر نفي إسماع الموتى العموم، فلا يخصّ منه إلاّ ما ورد بدليل[/arabic]
"اور (اس آیت سے) سماع موتیٰ کے عموم کی نفی ظاہر ہو گئی پس اس میں سے اسی کو مستثنٰی قرار دیا جائے جو دلیل سے ثابت ہے
ابن جریر نے قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ:
عن قتادة قال :
[arabic] هذا مثل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع الميت الدعاء كذلك لا يسمع الكاف[/arabic]ر
"اللہ تعالیٰ نے یہ کافر کی مثال بیان فرمائی ہے کہ جس طرح مردہ پکار کو نہیں سنتا اسی طرح کافر بھی (دعوت حق) کو نہیں سنتا”
مفسرین کے علاوہ بہت سے دوسرے علماء بھی ان آیات سے عدم سماع موتیٰ کی دلیل لیتے چلے آ رہے ہیں۔ چونکہ الزام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ پر تھا اس لیے میں حنبلی علماء کی رائے نقل کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں۔ حنفی کتب کی چند عبارات دیکھتے ہیں:
[arabic]۔ عِنْدَ أَكْثَرِ مَشَايِخِنَا هُوَ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَسْمَعُ (فتح القدیر۔ باب الجنائز ص 324)[/arabic]
"ہمارے اکثر مشائخ کا کہنا ہے کہ مردے نہیں سنتے”
حاشہ در مختار میں ہے:
[arabic] فقد أجاب عنه المشايخ بأنه غير ثابت: يعني من جهة المعنى، وذلك لان عائشة ردته بقوله تعالى: * (وما أنت بمسمع من فيالقبور) * (فاطر: 22) * (إنك لا تسمع الموتى) *[/arabic] (النمل: 08 )
"(قلیب بدر والی حدیث کا) ہمارے علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ وہ معنی کے لحاظ سے ثابت نہیں ہے اس لیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے اس کا رد کیا تھا کہ “آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے”۔ ۔ ۔ ۔ “
(حاشیۃ در المختار جلد 4 باب اليمين في الضرب والقتل وغير ذلك)
ان سارے علماء میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کا ہم عصر رہا ہو یا ان کی آپس میں ملاقات یا رابطہ رہا ہو۔ ان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے لے کر آج تک کے مفسرین شامل ہیں جو سب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ سورۃ النمل کی اس آیت میں کفار کو بے حس قرار دیتے ہوئے انہیں مردوں سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ جس طرح مردے کو سنانا بے کار ہے اس لیے کہ وہ نہیں سن سکتا اسی طرح ہٹ دھرم کفار کو سنانا عبث ہے کہ ضد بازی کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت وہ کھو چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے مہوش اگر خود تحقیق کرتیں تو یہ پہلو ان کی نظر سے اوجھل نہ رہ سکتا تھا۔ اب اگلے مراسلے تک اجازت دیجیے۔ ان شاء اللہ وقت ملتے ہی اس بارے میں مزید گزارشات پیش کروں گا۔

قسیم برادر کا سب سے پہلے شکریہ کہ انہوں نے بہت اچھے طریقے سے اپنا موقف پیش کیا ہے اور اتنے حسن سے بات کی کہ مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں ان سے بحث جاری رکھوں۔
بہرحال، اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ہیں اور باذوق صاحب نے اس چیز کو غلط معنی پہنا کر پیش کیا ہے۔
لہذا مجبورا مجھے دوبارہ اس تھریڈ میں حصہ لینا پڑ رہا ہے۔
///////////////////////////////////////////

سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ موضوع دو شاخہ ہو گیا:

1۔ موضوع کا عنوان ہے "قران کریم کے ظاہری اور باطنی معانی"
2۔ جبکہ اس کے ذیل میں گفتگو شروع ہو گئی "سماعت موتی" کی۔

اس لیے نہ پہلے عنوان پر مکمل ہو سکی اور نہ دوسرے عنوان پر۔

اور جو دوسرا عنوان ہے "سماعت موتی"، اس پر جو کچھ یہاں پر ابھی تک میری طرف سے پیش کیا گیا ہے وہ نصوص کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
//////////////////////////////////////
باذوق صاحب اور دیگر حضرات:
میں نے قسیم بھائی کو بڑے صبر کے ساتھ وقت دیا۔ اسکے متعلق انہوں نے خود اپنی تحریر میں لکھا ہے:
از قسیم حیدر:
گذشتہ پانچ چھے ماہ میں نے ان کے مراسلے پر بارہا غور کیا، کتب تفاسیر کنگالیں، احادیث کی تحقیق کی۔ علماء کی آراء معلوم کیں۔ اس سارے عرصے میں مَیں نے بالارادہ اس دھاگے میں کچھ لکھنے سے پرہیز کیا۔
نہ صرف ان پانچ چھ ماہ میں قسیم برادر نے کچھ نہیں لکھا، بلکہ میں نے بھی کچھ لکھنے اور بات آگے بڑھانے سے احتراز کیا۔
اس لیے اب میں کچھ وقت لوں گی تاکہ آپ لوگوں کو بتا سکوں کہ اصل حقائق کیا ہیں اور سماعت موتی پر تمام نصوص اور دلائل کو نقل کر سکوں تاکہ اسکے بعد آپ خود فیصلہ کر سکیں۔
/////////////////////////////////////////////////
القلم فورم پر مکمل آرٹیکل کی اشاعت

اس محفل سے کہیں قبل، میں القلم فورم پر سماعت موتی کے موضوع پر مکمل آرٹیکل پیش کر چکی ہوں۔ [لنک تھریڈ سماعت موتی] ۔ جس دوران میں مصروف رہوں، اس دوران آپ اس موضوع پر دیگر نصوص کا مطالعہ یہاں پر کر سکتے ہیں جہاں پر میں نے ان باتوں پر تفصیل سے بحث کر چکی ہوں جن کا ذکر قسیم بھائی نے یہاں پر کیا [اور اس میں قسیم بھائی کا قصور نہیں کیونکہ یہ تھریڈ ہی نامکمل ہے اور بہت سی چیزیں کا اجاگر کرنے اور ان پر بات کرنے کی نوبت ہی یہاں پر نہیں آ سکی]۔ مثلا حضرت عائشہ کی رائے کا معاملہ جسکا ذکر قسیم بھائی نے یہاں پر کیا ہے۔ اور وہ صحیح ہیں کہ اسکا ذکر یہاں پر نہیں تھا، مگر وجہ اسکی صرف عدم ذکر ہے اور یہ نہیں کہ اس پر بات ہی نہیں کی گئی۔ اس لیے گذارش ہے کہ آپ حضرات اس مسئلے کو میری پہلی تحریر جو کہ القلم پر موجود ہے، اُس پر پڑھ سکتے ہیں۔

حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ ابن عمر کا سماعت موتی کے مسئلے پر اختلاف
میں یہاں پر مختصر الفاظ میں مسئلے کی تاریخی نوعیت کو چند الفاظ میں بیان کر دیتی ہوں۔

1۔ "سماعت موتی" کا یہ مسئلہ آج کا نہیں بلکہ رسول ص کی وفات کے بعد سب سے پہلے یہ اختلاف حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ ابن عمر [حضرت عمر ابن الخطاب کے فرزند جن کا شمار صحابہ کے مابین چھ یا سات فقہاء میں ہوتا ہے کہ جن کا علم صحابہ کے درمیان میں ہی اتنا زیادہ تھا کہ صحابہ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے [الفاروق از شبلی نعمانی]

2۔ علمائے سلف و خلف اس بات کے قائل ہیں کہ رسول ص کے بعد ہر کوئی اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے۔ یہ عبداللہ ابن عمر ہوں یا جناب عائشہ بنت ابی بکر۔ اس لیے کسی بھی مسئلے کا فیصلہ نصوص پر ہو گا۔ اسی لیے حضرت عائشہ کا رضاعت کبیر والا فتوی امت کے علمائے خلف و سلف [سوائے چند ایک کے] کسی اور نے قبول نہیں کیا۔ اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عمر کا طلاق کا ایک مسئلہ قبول نہیں کیا جاتا۔

3۔ حضرت عائشہ کے بعد آنے والے علماء متقدمین اور متاخرین میں تقریبا تمام نے [سوائے چند ایک کے] اس معاملے میں حضرت عائشہ کے مقابلے میں حضرت عبداللہ ابن عمر کے موقف کو قبول کیا ہے۔

4۔ حضرت عائشہ کا ایک اور عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس معاملے میں غلطی کر رہی تھیں اور وہ یہ کہ جب حضرت عمر ابن الخطاب کو انکے حجرے میں دفنایا گیا تو انہوں نے حضرت عمر کے نامحرم ہونے کی وجہ سے اپنے حجرے میں پردہ لینا شروع کر دیا

حوالہ: مسند احمد بن حنبل [باب زیارت القبور]:
جناب عائشہ بنت ابی بکر بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے حجرے میں داخل ہوتی تھِ جس میں رسول ص [دفن] ہیں اور میں اپنا کپڑا [سر سے] اتار دیتی تھی اور کہتی یہاں [صرف] میرے شوہر اور والد گرامی [دفن] ہیں۔ مگر جب عمر ابن الخطاب کو انکے ساتھ دفن کیا گیا تو اللہ کی قسم میں عمر ابن الخطاب سے شرم کی وجہ سے جب حجرے میں جاتی ہوں تو میرا تمام لباس میرے جسم پر ہوتا ہے۔
یہ روایت مشکوۃ میں بھی موجود ہے اور اہلحدیث عالم دین مولانا صادق خیل نے مشکوۃ کی شرح لکھی ہے جس میں ان کے مطابق انہوں نے سعودیہ کے سب سے بڑے عالم دین ناصر الدین البانی کی عربی مشکوۃ کی شرح کی مدد سے اردو میں احادیث کی تشریح کی ہے۔ وہ مندرجہ بالا حدیث کو صحیح بیان کرتے ہوئے اسکی شرح میں لکھتے ہیں:

"وضاحت: معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مسلمان کا احترام اسکی زندگی میں کیا جاتا ہے، فوت ہونے کے بعد بھی کیا جائے اور قبرستان کے ماحول میں کسی غیر شرعی حرکت کا ارتکاب نہ کیا جائے۔"
تو اس حدیث کی بنیاد پر حضرت عائشہ کے اس مسئلے پر کیے گئے اجتہاد پر تنقید کی گئی ہے کہ دونوں چیزیں ممکن نہیں کہ ایک طرف یہ مانا جائے کہ مردہ سن نہیں سکتا اور دوسری طرف یہ ماننا کہ مردہ دیکھ سکتا ہے اور اس لیے پردہ لیا جائے۔

حضرت عائشہ اور جناب عبداللہ ابن عمر کے اس اختلاف کے متعلق مکمل تفصیل کے لیے القلم کے فورم پر آپ پورا آرٹیکل پڑھ سکتے ہیں۔
///////////////////////////////////
علماء کا مسئلہ
1۔ اس تھریڈ میں نصوص و دلائل مکمل طور پر پیش نہیں ہوئے تھے جس سے کافی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔
مثلا پہلی غلط فہمی یہ ہوئی کہ قسیم بھائی سمجھے کہ چونکہ مجھے حضرت عائشہ کا اس معاملے میں فتوی کا علم نہیں اس لیے میں نے اسکو یہاں ذکر نہیں کیا۔
جبکہ مسئلہ ہرگز یہ نہیں ہے اور اور میں نے یہیں پر ایک دوسرے تھریڈ میں کہیں پر اسکا ذکر کر چکی تھی۔
اسی طرح علماء کا مسئلہ بھی ہے سوائے گنے چنے لوگوں کے بقیہ تمام کے تمام نامور علماء نے اس معاملے میں حضرت عائشہ کے مقابلے میں حضرت عبداللہ ابن عمر کے موقف کو قبول کیا ہے اور اسی کی طرف میرا اشارہ تھا۔ اور جب عموم کی بات ہوتی ہے تو مستثنیات کا اکثر ذکر نہیں ہوتا۔ بہرحال اگر اس سے غلط فہمی پیدا ہوئی کیونکہ یہ مستثنیات کا ذکر فریق مخالف کے موقف کے لیے ضروری تھا اور میں ان کی اس بات کو مانتی ہوں کہ ان مستثنیات کا ذکر ساتھ میں کیا جائے تاکہ غلط فہمی پیدا نہ ہو۔

باقی قسیم بھائی نے جن علماء کا اوپر ذکر کیا ہے، اس میں الجھنیں ہیں [سوائے علامہ شوکانی و مقاتل بن سلیمان وغیرہ کے] اور مجھے لگتا ہے کہ قسیم بھائی جو مطلب ان عبارات کا نکال رہے ہیں، وہ شاید ہے نہیں۔

حافظ جلال الدین السیوطی کی اس آیت کی تشریح
مثال کے طور پر حافظ جلال الدین کے متعلق قسیم بھائی نے لکھا ہے کہ وہ سماعت موتی کے قائل نہیں تھے، اور یہ عبارت نقل کی ہے:
[arabic]هذا مثل ضربه الله للكافر كما لا يسمع الميت كذلك لا يسمع الكافر ، [/arabic]"
مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو حافظ جلال الدین سیوطی کے ان الفاظ کو سمجھنے میں غلطی ہو رہی ہے۔ [بلکہ اوپر آپکی پیش کردہ اور بھی عبارات کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے اور ان سے سماعت موتی کی نفی نہیں ہو رہی]
حافظ جلال الدین سیوطی اس معاملے میں بہت صاف طور پر حضرت عائشہ کے موقف کے خلاف موقف رکھتے ہیں اور انہوں نے ان آیات کی بھی بالکل صحیح طور پر تشریح کرتے ہوئے "مردوں کو نہ سنانے" سے مراد "ہدایت کا نہ سننا" لیا ہے۔

مثلا دیکھئیے [القران 35:22} سورۃ الفاطر کی تفسیر جو حافظ سیوطی کر رہے ہیں:
{ وَمَا يَسْتَوِي ٱلأَحْيَآءُ وَلاَ ٱلأَمْوَاتُ إِنَّ ٱللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَآءُ وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي ٱلْقُبُورِ }

{ وَمَا يَسْتَوِى ٱلأَحْيآءُ وَلاَ ٱلأَمْوَٰتُ } المؤمنون ولا الكافرون، وزيادة «لا» في الثلاثة تأكيد { إِنَّ ٱللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشآءُ } هدايته فيجيبه بالإِيمان { وَمآ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ } أي الكفار شبههم بالموتى فلا يجيبون.
آنلائن لنک کے لیے یہاں کلک کریں
حافظ جلال الدین سیوطی کی اسی تفسیر کا سٹینڈرڈ انگریزی ترجمہ بھی آنلائن شائع ہو چکا ہے، اور میں ذیل میں پیش کر رہی ہوں:
{ وَمَا يَسْتَوِي ٱلأَحْيَآءُ وَلاَ ٱلأَمْوَاتُ إِنَّ ٱللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَآءُ وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي ٱلْقُبُورِ }

nor are the living equal to the dead, the believers and the disbelievers [respectively] (the addition of the particle lā, ‘nor’, in all three instances is for emphasis). Indeed God makes to hear whomever He will, to be guided, so that such [a person] then responds to Him by embracing faith.But you cannot make those who are in the graves to hear, namely, the disbelievers whom He has likened to the dead — [to hear] and so respond.

صرف یہی ایک موقع نہیں، بلکہ اور بھی جگہوں پر حافظ سیوطی کا یہ موقف بالکل صاف اور واضح ہے۔ بلکہ اپنی کتاب "شرح الصدرو" صفحہ 263 تا 266 آپ نے پورا ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے " زندہ لوگوں کے اعمال کا مردہ لوگوں کو دکھائے جانا" اور اس ذیل میں آپ نے 15 احادیث نقل کی ہیں جو بتاتی ہیں کہ مردوں کو اللہ نے شعور دیا ہے اور انہیں زندوں کے افعال دکھائے جاتے ہیں اور وہ مردے ان کے اچھے افعال پر مسرت حاصل کرتے ہیں اور برے افعال پر اللہ تعالی سے انکے لیے دعا کرتے ہیں]
مثلاپیر کرم الازہری جنکی ضیاء القران اور ضیاء النبی بلاشبہ بہترین کتب ہیں اور انکی میں ایسی ہی عزت کرتی ہوں جیسا مودودی صاحب کی، وہ امام جلال الدین سیوطی کا یہ قول ضیاء القران سورۃ الروم آیت 52 کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں:

سماع موتی کلام الخلق قاطبۃ قد صح فیھا لنا الآثار بالکتب
و آیۃ النفی معناھا سماع ھدی لا یسمعون ولا یصغون للادب

ترجمہ: میت کا لوگوں کے کلام کو سننا صحیح دلائل سے ثابت ہے اور جن آیات میں سنانے کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد ایسا سنانا ہے جو ہدایت کا باعث ہو اور نفع رساں ہو۔


اسی طرح دیگر کچھ مفسرین جنکا آپ نے اوپر ذکر کیا ہے، اُن کی تفاسیر کے مکمل ٹیکسٹ کو جہاں تک میں دیکھ پائی ہوں، اس کے بعد مجھے شک ہے کہ بات کو پورے سیاق و سباق میں نہیں سمجھا گیا ہے۔

[نوٹ:
قبل اسکے کہ میں اپنا جواب پیش کروں، آپ سے درخواست ہے کہ آپ نے جہاں سے ان مفسرین کو Quote کیا ہے، اسکا لنک مہیا کر دیں۔ وجہ اسکی یہ ہے کہ قران کی کئی آیات ہیں جن کے ذیل وہ یہ تفسیر نقل کر سکتے ہیں، اور میرے لیے ممکن نہیں کہ ان تمام حوالوں کو ڈھونڈ سکوں جو آپ نے اوپر نقل کیے ہیں۔
ایک دفعہ آپ آنلائن لنک مہیا کر دیں، تو میں تحقیق کر کے پھر آپکی خدمت میں اس ضمن میں سیاق و سباق کے ساتھ اپنی گذارشات پیش کرتی ہوں]

اور شیعہ مفسر آغا طباطبائی کا جو آپ نے اقتباس پیش کیا ہے وہ بھی مجھے ابھی تک نہیں ملا، مگر دیگر آیات کی تفسیر دیکھ رہی ہوں اور وہ صاف ہیں کہ یہاں موتی سے مراد "کفار کا ہدایت نہ ماننا ہے"
وقوله: { وما أنت بمسمع من في القبور } أي الأموات والمراد بهم الكفار المطبوع على قلوبهم.
تفسیر المیزان آنلائن لنک
مزید [القران 27:80] کی تفسیر میں ہے
قوله تعالى: { إنك لا تسمع الموتى } إلى قوله { فهم مسلمون } تعليل للأمر بالتوكل أي إنما أمرناك بالتوكل على الله في أمر إيمانهم وكفرهم لأنهم موتى وليس في وسعك أن تسمع الموتى دعوتك وإنهم صمّ لا يسمعون وعمي ضالون لا تقدر على إسماع الصم إذا ولّوا مدبرين - ولعله قيّد عدم إسماع الصم بقوله: { إذا ولّوا مدبرين } لأنهم لو لم يكونوا مدبرين لأمكن تفهيمهم بنوع من الإِشارة - ولا على هداية العمي عن ضلالتهم، وإنما الذي تقدر عليه هو أن تسمع من يؤمن بآياتنا الدالة علينا وتهديهم فإنهم لإِذعانهم بتلك الحجج الحقة مسلمون لنا مصدّقون بما تدلّ عليه.
وقد تبيّن بهذا البيان أولاً: أن المراد بالإِسماع الهداية.

وثانياً: أن المراد بالآيات الحجج الدالة على التوحيد وما يتبعه من المعارف الحقة.

وثالثاً: أن من تعقّل الحجج الحقة من آيات الآفاق والأنفس بسلامة من العقل ثم استسلم لها بالإِيمان والانقياد ليس هو من الموتى ولا ممن ختم الله على سمعه وبصره.
آنلائن لنک تفسیر المیزان

التفسیر ڈاٹ کام پر بے تحاشہ تفاسیر موجود ہیں [اور ہر ہر مکتبہ فکر کی تفاسیر ہیں]۔ اس پر ان تین آیات [جو کہ سماعت موتی کا انکار کرنے والے حضرات پیش کرتے ہیں] کی تفسیر کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے [آیت 35:22، آیت 30:52 اور آیت 27:80]۔ آپ دیکھیں گے کہ ہر کسی نے ہی یہاں "سننے" سے مراد "ہدایت کا پا جانا" ہی کیا ہے۔ [سوائے شاید ایک دو کے کہ جن کے متعلق آنلائن لنک مہیا ہونے پر سیاق و سباق کی روشنی میں تحقیق کی جا سکتی ہے]
جتنے نامور نام ہیں، [حتی کہ ابن قیم اور ابن تیمیہ بشمول] اس معاملے میں بالکل صاف اور واضح طور پر سماعت موتی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور حضرت عائشہ کے مقابلے میں یہاں حضرت عبداللہ ابن عمر کے قول کے قائل ہیں۔ ابن کثیر، القرطبی، تفسیر جلالین، امام طبری،۔۔۔۔۔۔ ان سب نے یہاں سننے سے مراد ہدایت کا پا جانا لکھا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
قسیم برادر،
میں ان تین آیات کی مختلف تفاسیر دیکھ رہی ہوں، اور مجھے لگ رہا ہے کہ آپ نے جو اوپر انہیں Quote کیا ہے، اس میں آپ غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور سیاق و سباق میں ان کی عبارات کو نہیں دیکھ پائے۔

امام بغوی کی معالم التنزیل
اگلی مثال امام بغوی کی معالم التنزیل کی ہے جس کے متعلق آپ نے لکھا ہے:
از قسیم حیدر:
أبو محمد الحسين بن مسعود البغوي (المتوفی 516 ھ) اپنی تفسیر معالم التنزیل میں اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:
أنهم لفرط إعراضهم عما يدعون إليه كالميت الذي لا سبيل إلى إسماعه (معالم التنزیل)
"جس چیز کی طرف انہیں دعوت دی جاتی تھی (یعنی دعوتِ اسلام) اس سے ان کے انتہائی اعراض کی وجہ سے (کہا گیا کہ) وہ مردوں کی مانند ہیں جنہیں سنانے کی کوئی راہ نہیں ہے
امام البغوی ان آیات کے متعلق بالکل سیدھے انداز میں فرما رہے ہیں کہ ان مردوں سے مراد یہاں کفار ہیں۔
{ إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ ٱلْمَوْتَىٰ } ، يعني الكفار،
آنلائن لنک
اور سورہ فاطر میں فرما رہے ہیں:
{ وَمَا يَسْتَوِى ٱلأَحْيَآءُ وَلاَ ٱلأَمْوَاتُ } ، يعني: المؤمنين والكفار. وقيل: العلماء والجهال.
{ إِنَّ ٱللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَآءُ } ، حتى يتعظ ويجيب، { وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ } ، يعني: الكفار شبههم بالأموات في القبور حين لم يجيبوا.

اس سے صاف ظاہر ہوا کہ اوپر جو آپ نے انہیں Quote کیا ہے، اس میں سنانے سے مراد امام البغوی "ہدایت ماننا" لے رہے ہیں نہ کہ ظاہری معنوں میں سننا۔

امام سمرقندی کی تفسیر
اس معاملے میں بھی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
از قسیم حیدر:
السمرقندی (متوفی 375 ھ) اپنی تفسیر “بحر العلوم” میں رقم طراز ہیں:
فهذا مثل ضربه للكفار ، أي فكما أنك لا تسمع الموتى ، فكذلك لا تتفقه كفار مكة )بحر العلوم)
"یہ مثال ہے جو اللہ نے کافروں کے لیے بیان فرمائی ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے، اسی طرح کفار مکہ کو نہیں سمجھا سکتے

امام سمرقندی کی مراد یہاں پر "ظاہری سننا" ہرگز نہیں ہے بلکہ سننے سے مراد دعوت الی الایمان کو قبول کرنا ہے، اور اس چیز کو وہ مزید واضح سورہ روم آیت 52 میں کر چکے ہیں:

{ فَإِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ ٱلْمَوْتَىٰ } فشبه الكفار بالموتى فكما لا يسمع الموتى النداء فكذلك لا يجيب ولا يسمع الكفار الدعاء إذا دعوا إلى الإيمان { وَلاَ تُسْمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَاء إِذَا وَلَّوْاْ مُدْبِرِينَ } يعني: أن الأصم إذا كان مقبلاً لا يسمع فكيف إذا ولى مدبراً فكذلك الكافر لا يسمع إذا كان يتصامم عند القراءة والقراءة ذكرناها في سورة النمل ثم قال عز وجل: { وَمَا أَنتَ بِهَادِى ٱلْعُمْىِ } إلى الإيمان { عَن ضَلَ۔ٰلَتِهِمْ } يعني: لا تقدر أن توفقه وهو لا يرغب عن طاعتي في طلب الحق { إِن تُسْمِعُ } يعني: ما تسمع { إِلاَّ مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا } يعني: بالقرآن { فَهُم مُّسْلِمُونَ } يعني: مخلصون ثم أخبرهم عن خلق أنفسهم ليعتبروا ويتفكروا فيه
آنلائن لنک:
اور اسی چیز کو انہوں نے اور واضح طور پر سورۃ الفاطر میں درج کیا ہے:
{ وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ } يعني: لا تقدر أن تفقه الأموات وهم الكفار
آنلائن لنک

احناف کا سماعت موتی کے بارے میں عقیدہ
از قسیم حیدر:
مفسرین کے علاوہ بہت سے دوسرے علماء بھی ان آیات سے عدم سماع موتیٰ کی دلیل لیتے چلے آ رہے ہیں۔ چونکہ الزام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ پر تھا اس لیے میں حنبلی علماء کی رائے نقل کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں۔ حنفی کتب کی چند عبارات دیکھتے ہیں:
۔ عِنْدَ أَكْثَرِ مَشَايِخِنَا هُوَ أَنَّ الْمَيِّتَ لَا يَسْمَعُ (فتح القدیر۔ باب الجنائز ص 324)
"ہمارے اکثر مشائخ کا کہنا ہے کہ مردے نہیں سنتے”
حاشہ در مختار میں ہے:
فقد أجاب عنه المشايخ بأنه غير ثابت: يعني من جهة المعنى، وذلك لان عائشة ردته بقوله تعالى: * (وما أنت بمسمع من فيالقبور) * (فاطر: 22) * (إنك لا تسمع الموتى) * (النمل: 08 )
"(قلیب بدر والی حدیث کا) ہمارے علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ وہ معنی کے لحاظ سے ثابت نہیں ہے اس لیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے اس کا رد کیا تھا کہ “آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے”۔ ۔ ۔ ۔ “
(حاشیۃ در المختار جلد 4 باب اليمين في الضرب والقتل وغير ذلك)
میں آپکے اس Quote کی جانچ پڑتال تو نہیں کر سکی، مگر مجھے اعتماد ہے کہ آپ نے صحیح ہیں quote کیا ہے۔ مگر پھر بھی اس مسئلے میں پرابلمز ہیں۔

1۔ پہلا یہ کہ یہ کون سے مشائخ ہیں؟ اور انکا نام کیا ہے؟ [کیونکہ احناف، جنکے نام ملتے ہیں وہ تو اسکے برعکس سماعت موتی کے قائل ہیں۔

2۔ بہرحال، اگر احناف میں ماضی میں کسی نے سماعت موتی کی نفی کی بھی ہے تو بھی تحقیق و تدبر کے بعد نظر یہ آتا ہے کہ احناف اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ مردے بے شک سنتے ہیں۔ [چاہے انکا تعلق دیوبند سے ہو یا پھر بریلوی مکتبہ فکر سے ہوں]

علامہ عثمانی نے فتح الملہم میں اس مسئلہ کی خوب تحقیق کی ہے۔ متعدد احادیث اور اقوال علماء تحریر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "والذی یحصل لنا من مجموع النصوص واللہ اعلم ان سماع الموتی ثابت فی الجملۃ بالاحادیث الکثیرۃ الصحیحۃ"
یعنی: ان متعدد روایات سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ صحیح اور کثیر التعداد احادیث سے سماع موتی کا مسئلہ ثابت ہے۔ واللہ اعلم
////////////////////////////////
پھر علامہ عثمانی نے سماع موتی کی تحقیق کرتے ہوئے علامہ محمود الالوسی صاحب روح المعانی کی یہ عبارت بھی نقل کی ہے:
"قال العلامہ الالوسی البغدادی و الحق ان الموتی یسمعون فی الجملہ"
ترجمہ: حق یہ ہے کہ مردے یقینا سنتے ہیں اور اسکی حقیقت کو اللہ تعالی بہتر جانتا ہے۔ فتح الملھم جلد دوم صفحہ 478 تا 479
اور سید انور شاہ صاحب فیض الباری شرح بخاری میں رقمطراز ہیں:
"و لہ جواب آخر و حو لن المنفی فی الآیۃ ھو الا سمع دون السماع [فیض الباری جلد دوم، صفحہ 47]
نیز علامہ موصوف اسی کتاب کی اسی جلد کے صفحہ 467 پر اپنا عقیدہ تحریر فرماتے ہیں:
"اقول: و الاحادیث فی سمع الاموات قد بلغت مبلغ التواتر
ترجمہ: میں [سید انور شاہ] کہتا ہوں کہ سماع موتی کے ثبوت کے لیے اتنی احادیث ہیں جو درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہیں۔
اور بریلوی مکتبہ فکر کے متعلق لکھنے کی میں ضرورت محسوس نہیں کرتی کیونکہ احمد رضا خانصاحب نے صاف طور پر سماعت موتی کے حق میں دلائل دیے ہوئے ہیں۔
//////////////////////////////////////////
ایک درخواست، احناف کی جگہ حنبلی علماء کے نام جو سماعت موتی کے منکر ہیں
ابن تیمیہ صاحب اور دیگر قدیم حنبلی علماء کا نام سماعت موتی کے ماننے والوں میں ہی ملتا ہے۔ براہ مہربانی اُن حنبلی علماء کے نام بمع Quotation [اگر ہو سکے] تو بیان فرما دیں جو سماعت موتی کے منکر ہیں۔ شکریہ۔
///////////////////////////////////////
مشبہ اور مشبہ بہ کی بحث
از قسیم حیدر:
ایک مثال لیتے ہیں۔ اردو اور دیگر تقریبا تمام زبانوں میں محاورتا کہا جاتا ہے کہ فلاں (مثلا زید) مردے کی طرح سویا ہوا ہے۔ آپ اس کا کیا مطلب لیں گے؟ یہی نا کہ زید اتنی گہری نیند سویا ہوا کہ اسے آس پاس کی کچھ خبر نہیں۔ اہل زبان اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیں گے کہ مردے بھی سوتے اور جاگتے ہیں۔ تشبیہہ بیان کرتے وقت مشبہ (زید) کو مشبہ بہ (مردے) سے تشبیہہ دی جاتی ہے، نہ کہ مشببہ بہ کو مشبہہ پر قیاس کیا جاتا ہے۔ مہوش صاحبہ نے جو تشریح بیان کی ہے اس میں ی بنیادی غلطی یہ ہے کہ مشبہ بہ کو مشبہ پر قیاس کر لیا ہے ۔
1۔ سب سے پہلے یہ میرا قیاس نہیں، بلکہ جمہور علماء کا اجتہاد ہے [سوائے دو چار کے]۔ اس سلسلے میں امام قرطبی، ابن کثیر، اور کچھ دیگر علماء کا ذکر میں اوپر کر چکی ہوں۔ مزید تسلی بخش جواب اگلی پوسٹ میں عرض کروں گی کہ جس کے بعد تمام شبہات دور ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ۔

2۔ دوسرا یہ کہ مشبہ اور مشبہ بہ کی یہ بحث کسی صورت اصول کے طور پر پیش نہیں کی جا سکتی۔ ورنہ دیکھئیے ذیل کی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کتنی بڑی آفت گلے پڑ جائے گی
وَمَا أَنتَ بِهَادِي الْعُمْيِ عَن ضَلَالَتِهِمْ إِن تُسْمِعُ إِلَّا مَن يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُم مُّسْلِمُونَ
(القران ) اور (اے پیغمبر) آپ اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرسکتے ہیں آپ تو صرف ان لوگوں کو سناسکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان ہیں
تو مشبہ او مشبہ بہ کو اصول بنا لیا تو دنیا میں جتنے نابینا مسلمان اور حافظ جی گذرے ہیں، انہیں آپ ڈائریکٹ ہی گمراہی میں ایسا بھیج دیں گے کہ جہاں سے کوئی انہیں ہدایت نہیں دے سکتا۔
تو یقینا یہ چیز غلط ہے اور اسکو کبھی اصول کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ابن جریر طبری کے حوالے سے قتادہ کا بیان
از قسیم حیدر:
ابن جریر نے قتادہ رحمہ اللہ کا یہ قول اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ:
عن قتادة قال :
هذا مثل ضربه الله للكافر فكما لا يسمع الميت الدعاء كذلك لا يسمع الكافر
"اللہ تعالیٰ نے یہ کافر کی مثال بیان فرمائی ہے کہ جس طرح مردہ پکار کو نہیں سنتا اسی طرح کافر بھی (دعوت حق) کو نہیں سنتا”

قسیم برادر، آپ کو یہاں پر پھر ویسی ہی غلط فہمی ہوتی ہوئی لگ رہی ہے جیسا کہ حافظ سیوطی کا قول نقل کرتے ہوئے ہوئی تھی [یعنی مردے کے "سننے" کو حافظ سیوطی اور قتادہ دونوں ہی "ہدایت سنانے " کے معنوں میں استعمال کر رہے ہیں اور خالی الفاظ کے ظاہر پر نہ جائیے بلکہ سیاق و سباق کو دیکھئیے کہ وہ اس میں اپنا عقیدہ بیان کر رہے ہیں کہ وہ سنانے کو یہاں ہدایت کے معنوں میں استعمال کر رہے ہیں۔
حافظ سیوطی کے الفاظ بھی قتادہ سے ملتے جلتے ہیں اس لیے دونوں جگہ آپ کو ایک جیسی غلط فہمی ہوئی ہے: "هذا مثل ضربه الله للكافر كما لا يسمع الميت كذلك لا يسمع الكافر"

چنانچہ امام طبری نے تو صاف طور پر ان آیات کے متعلق سننے کو ہدایت سے مراد لیا ہے۔ اور قتادہ کا بھی انہوں نے قول پیش کیا ہے جس سے صاف پتا چل جائیگا کہ قتادہ اسے ہدایت کے معنوں میں استعمال کر رہے ہیں؛

تفسیر طبری، تفسیر آیت 22، سورۃ فاطر [آنلائن لنک]:
۔۔۔۔وقوله: { وَما يَسْتَوِي الأحْياءُ وَلا الأمْوَاتُ } يقول: وما يستوي الأحياء القلوب ب۔الإي۔مان ب۔الله ورسوله، ومعرفة تنزي۔ل الله، والأموات القلوب لغلبة الكفر عل۔يها، حت۔ى صارت لا تعقل عن الله أمره ونهيه، ولا تعرف الهدى من الضلال وكلّ هذه أمثال ضربها الله لل۔مؤمن والإي۔مان، والكافر والكفر. وبن۔حو الذي قلنا ف۔ي ذلك قال أهل التأوي۔ل.۔۔۔۔۔
وقوله: { إنَّ اللّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشاءُ وَما أنْتَ بِ۔مُسْمِعٍ مَنْ فِ۔ي القُبُورِ } يقول تعال۔ى ذكره: كما لا يقدر أن يسمع من ف۔ي القبور كتاب الله، ف۔يهديهم به إل۔ى سب۔ي۔ل الرشاد، فكذلك لا يقدر أن ينفع ب۔مواعظ الله، وب۔يان حُججه، من كان ميت القلب من أحياء عب۔اده، عن معرفة الله، وفهم كتابه وتنزي۔له، وواضح حججه، كما:

حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد، قال: ثنا سعيد، عن قتادة { إنَّ اللّهَ يُسْمِعُ مَنْ يَشاءُ وَما أنْتَ بِ۔مُسْمِعٍ مَنْ فِ۔ي القُبُورِ } كذلك الكافر لا يسمع، ولا ينتفع ب۔ما يسمع.


نوٹ: سماعت موتی کی نفی کرنے والے حضرات قتادہ کے ایک اور قول کو سماعت موتی کا انکار کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ قول الٹا ان ہی کی مخالفت میں ہے اور حافظ ابن حجر العسقلانی نے صاف لکھا ہے کہ قتادہ اسکے ذریعے حضرت عائشہ کی رائے کی تردید کر رہے تھے کہ جب وہ آیت [اور تم مردوں کو نہیں سنا سکتے} کو بنیاد بنا کر سماعت موتی کی تردید کر رہی تھیں۔
[آنلائن لنک
قَوْله : ( تَوْبِيخًا وَتَصْغِيرًا وَنِقْمَة وَحَسْرَة وَنَدَمًا ) ‏
‏فِي رِوَايَة الْإِسْمَاعِيلِيّ " وَتَنَدُّمًا وَذِلَّة وَصَغَارًا " وَالصَّغَار الذِّلَّة وَالْهَوَان , وَأَرَادَ قَتَادَة بِهَذَا التَّأْوِيل الرَّدّ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ أَنَّهُمْ يَسْمَعُونَ كَمَا جَاءَ عَنْ عَائِشَة أَنَّهَا اِسْتَدَلَّتْ بِقَوْلِهِ تَعَالَى : ( إِنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى )
مزید تفصیل القلم پر موجود آرٹیکل پر پڑھی جا سکتی ہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
اگر میں غلط نہیں سمجھ رہا تو آپ اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرکے درست بات کی طرف آ رہی ہیں یعنی یہ کہ سماع موتیٰ اور عدم سماع موتیٰ دونوں کے قائلین صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت سے چلے آ رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی نیا موقف نہیں ہے جسے امام محمد بن عبدالوھاب رحمۃ اللہ علیہ یا سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے رائج کیا ہو۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اگر میں غلط نہیں سمجھ رہا تو آپ اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرکے درست بات کی طرف آ رہی ہیں یعنی یہ کہ سماع موتیٰ اور عدم سماع موتیٰ دونوں کے قائلین صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت سے چلے آ رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی نیا موقف نہیں ہے جسے امام محمد بن عبدالوھاب رحمۃ اللہ علیہ یا سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے رائج کیا ہو۔
السلام علیکم
قسیم برادر، خدا گواہ ہے کہ:
1۔ اس تھریڈ پر نامکمل دلائل پیش کیے گئے تھے۔
2۔ یہاں پر عدم ذکر کا مطلب براہ مہربانی یہ نہ لیجئے کہ ان چیزوں کا علم ہی نہیں تھا۔
3۔ جباب عائشہ اور قتاد [تابعی] کے متعلق میں اس تھریڈ سے قبل تفصیل سے القلم فورم میں لکھ چکی تھی [بلکہ اس فورم میں بھی کسی تھریڈ میں اسکا ذکر کیا تھا]

ایسے میں اس چیز کو عدم ذکر کہا جائے۔۔۔۔۔ یا پھر پرانے موقف سے رجوع؟

بہرحال، جو کچھ بھی ہے، میری ذات کے حوالے سے اعتراضات اور میری کم علمی اہم نہیں اور اصل چیز موضوع سے متعلق اصل نصوص و دلائل کا سامنے آنا ہے۔ اور اسی پر ہم توجہ رکھتے ہیں۔ انشاء اللہ۔

محمد بن عبداللہ وہاب اور حضرت عائشہ کے فتاوی میں فرق [شرک کا الزام]
مسئلہ یہ ہے کہ جب حضرت عائشہ نے جناب عبداللہ ابن عمر سے سماعت موتی کے مسئلے پر اختلاف کیا تو یہ فقط اجتہادی اختلاف تھا، اور انہوں نے فریق مخالف کو اس بنا پر کبھی مشرک ہونے کا فتوی عائد نہیں کیا۔

اسکے بعد جمہور علماء [سوائے چند ایک کو چھوڑ کر] اس معاملے پر تحقیق کرتے ہیں اور اس معاملے میں جناب عبداللہ ابن عمر کی رائے کو اختیار کرتے ہیں [جمہور علماء کے متعلق گواہی میں اگلی پوسٹ میں عرض کرتی ہوں]

مگر جب محمد بن عبداللہ وہاب جمہور علمائے سلف کے اجتہاد کے خلاف سماعت موتی کی نفی کا فتوی دے رہے ہیں، تو حضرت عائشہ کے برخلاف اس فتوے میں اضافہ کرتے ہوں فریق مخالف پر مشرک ہونے کا فتوی بھی لگا رہے ہیں۔ [دیکھئیے محمد بن عبداللہ وہاب صاحب کی کتاب فتح المجید صفحہ 208، جس میں وہ لکھ رہے ہیں اگر کوئی قبر پر مردے کے لیے [استغفار کی] دعا کرتے ہوئے اس سے مخاطب ہو جاتا ہے تو یہ ایسا شخص مشرک بن جاتا ہے]

محمد بن عبداللہ وہاب کے اسی فتوے پر عمل کرتے ہوئے سعودیہ کے تمام مفتی حضرات نے شرک کے فتوے ساتھ جاری کیے ہیں اور لاکھوں کڑووں کتابچے چھاپ کر مفت تقسیم کروائے ہیں جس سے امت میں جو فتنہ آج ہے وہ سب دیکھ رہے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہ تھریڈ شروع ہوئے تقریباً ایک سال ہو چکا ہے۔
کیا آپ دوستوں کے پاس اس بے کار موضوع پر وقت ضائع کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے؟
اور اگر یہ بات درست ہے کہ پہلے ہی دوسری فورمز پر یہی بحث کئی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے تو کیا اسے دوبارہ یہاں شروع کرنا ضروری ہے؟
میں اس تھریڈ سمیت اس طرح کے تمام مباحث کو مقفل کرنے والا ہوں۔ آپ دوستوں کے خیال میں اگر کسی اور فورم پر آپ کو آزادی اظہار کا بہتر موقع ملتا ہے تو آپ ضرور وہاں کا رخ کریں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جمہور علمائے متقدمین نے حضرت عائشہ کی رائے کے مقابلے میں جناب عبداللہ ابن عمر کی رائے کو ترجیح دی

اوپر قسیم بھائی نے میرے "تمام علمائے قدیم" لکھنے پر اعتراض کیا ہے:

از قسیم حیدر:
یہ ایک ایسے محقق کی رائے معلوم ہوتی ہے جس نے اس مسئلے کو سراسر یکطرفہ نگاہ سے دیکھا ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ مہوش بہن نے اپنا مراسلہ کسی دوسرے کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہوئے لکھا ہے اس لیے میں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا۔ انہیں جو مواد اپنی مواقفت میں ملا وہ مناسب تبدیلی کے بعد انہوں نے ہمارے سامنے رکھ دیا۔

بھائی جی، نوٹ کیجئے کہ:
1۔ یہ بطور محقق میری رائے نہیں ہے بلکہ ایسے بلند پایہ عالم کی بطور محقق رائے ہے کہ جنہیں رد کرنا آپکے لیے شاید ہی ممکن ہو۔
2۔ اور جو کچھ مواد ان عالم سے ملا، وہ میں نے بغیر تبدیلی کے آپکے سامنے رکھا ہے۔

حافظ ابن حجر العسقلانی کی تحقیق کہ "جمہور علماء" نے حضرت عائشہ کے مقابلے میں "سماعت" سے مراد "ہدایت لینا" لیا ہے
کیا مجھے ضرورت ہے کہ میں حافظ ابن حجر العسقلانی اور انکی فتح الباری کا تعارف کرواوں؟ مختصر الفاظ میں حافظ ابن حجر العسقلانی کے علم و کمال کے سب ہی قائل ہیں اور انکی فتح الباری کو سعودیہ کے تمام تر مدارس میں پڑھایا جاتا ہے اور نیٹ پر سعودی بیسڈ ویب سائیٹز نے انہیں کی فتح الباری کو شائع کیا ہے۔ اور اردو میں مولانا راز کی جو اردو شرح البخاری موجود ہے اس میں جگہ جگہ انہوں نے فتح الباری کا حوالہ دیا ہوا ہے۔
تو خود دیکھ لیجئے کہ حافظ ابن حجر العسقلانی خود گواہی دے رہے ہیں کہ "جمہور علماء" نے اس معاملے میں حضرت عائشہ کے مقابلے میں حضرت عبداللہ ابن عمر کے موقف کو قبول کیا ہے اور ان آیات میں "سماعت" کو ظاہری سننا نہیں بلکہ "ہدایت لینا" کے معنی میں لیا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ چند ایک گنے چنے عالم حضرت عائشہ کے موقف کو ہی مان رہے ہوں، مگر انکی تعداد اس حد تک Negligible اور غیر اہم ہے حافظ ابن حجر العسقلانی "جمہور" کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔
حافظ ابن حجر العسقلانی فتح الباری [شرح البخاری] میں حضرت عائشہ کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَهَذَا مَصِير مِنْ عَائِشَة إِلَى رَدِّ رِوَايَة بْن عُمَر الْمَذْكُورَة . وَقَدْ خَالَفَهَا الْجُمْهُور فِي ذَلِكَ وَقَبِلُوا حَدِيث اِبْن عُمَر لِمُوَافَقَةِ مَنْ رَوَاهُ غَيْره عَلَيْهِ
آنلائن لنک [صحیح بخاری، کتاب الجنائز ، باب ما جاء في عذاب القبر
جمہور محدثین نے حضرت عائشہ کی اس تاویل کو قبول نہیں کیا ہے بلکہ حضرت [عبداللہ] ابن عمر کی روایت کو قبول کیا ہے کیونکہ اسے [حضرت عبداللہ ابن عمر کے علاوہ] بہت سے دیگر صحابہ کی تائید حاصل ہے جو خود اس موقع پر بارگاہ رسالت میں حاضر تھے اور حضرت عائشہ وہاں خود موجود نہیں تھیں۔

آگے حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:

اور حضرت عائشہ جو سماع موتی کی نفی پر اس آیت سے [انک لا تسمع الموتی۔۔۔ تم مردوں کو نہیں سنا سکتے] سے جو استدلال کیا ہے اسکا جواب جمہور محدثین نے بایں الفاظ دیا ہے:
وَأَمَّا اِسْتِدْلَالهَا بِقَوْلِهِ تَعَالَى ‏‏( إِنَّك لَا تُسْمِع الْمَوْتَى ) ‏فَقَالُوا مَعْنَاهَا لَا تُسْمِعهُمْ سَمَاعًا يَنْفَعهُمْ ,, أَوْ لَا تُسْمِعهُمْ إِلَّا أَنْ يَشَاء اللَّه
آنلائن لنک:
یعنی تم انکو کوئی ایسی بات نہیں سنا سکتے جو انہیں نفع پہنچائے لہذا تم اللہ کی مرضی کے بغیر انہیں کچھ نہیں سنا سکتے [ہدایت دے سکتے]

اور پھر حافظ ابن حجر العسقلانی قتادہ کے قول کے تشریح کر رہے ہیں کہ اُس نے یہ بات حضرت عائشہ کی رائے کو رد کرنے کے لیے کہی تھی جس میں انہوں نے یہ آیت بطور استدلال پیش کی تھی [اور تم مردوں کو نہیں سنا سکتے]
قَوْله : ( تَوْبِيخًا وَتَصْغِيرًا وَنِقْمَة وَحَسْرَة وَنَدَمًا ) ‏
‏فِي رِوَايَة الْإِسْمَاعِيلِيّ " وَتَنَدُّمًا وَذِلَّة وَصَغَارًا " وَالصَّغَار الذِّلَّة وَالْهَوَان , وَأَرَادَ قَتَادَة بِهَذَا التَّأْوِيل الرَّدّ عَلَى مَنْ أَنْكَرَ أَنَّهُمْ يَسْمَعُونَ كَمَا جَاءَ عَنْ عَائِشَة أَنَّهَا اِسْتَدَلَّتْ بِقَوْلِهِ تَعَالَى : ( إِنَّك لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى )
آنلائن لنک

اور علامہ ابن کثیر الدمشقی بھی اس چیز کی گواہی دے رہے ہیں جو کہ ابن حجر العسقلانی نے لکھی ہے۔
والصحيح عند العلماء رواية عبد الله بن عمر؛ لما لها من الشواهد على صحتها من وجوه كثيرة
ترجمہ: اور علماء کے نزدیک عبداللہ ابن عمر ہی کی روایت صحیح ہے اور اسکی صحت پر کئی شواہد ہیں اور کثیر وجوہات ہیں [کہ اسے قبول کیا جائے]
آنلائن لنک تفسیر آیت 52 سورۃ روم
اور پھر جمہور سلف صالحین کے اجماع کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرما رہے ہیں:
والسلف مجمعون على هذا، وقد تواترت الآثار عنهم بأن الميت يعرف بزيارة الحي له
یعنی سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے اور متواتر روایات سے یہ مسئلہ ثابت ہے کہ میت اپنے زیارت کرنے والے کو پہنچانتی ہے اور اس سے خوش ہوتی ہے۔
آنلائن لنک تفسیر آیت 52 سورۃ روم

///////////////////////////////////
کیا ایک ہی سطر میں "سننا" دو الگ الگ معنوں میں استعمال ہو سکتا ہے؟
آپکو جو اوپر حافظ سیوطی اور دیگر مفسرین کے اقوال کو سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے، میرے خیال میں یہ اس لیے ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ کے نام پر آپ نے ایک ہی سطر میں "سننے" کے دو الگ الگ معنی کر دیے ہیں، جو کہ محال ہے اور دنیا کی کسی زبان، کسی گرائمر میں اسکی مثال نہیں مل سکتی۔
مثلا حافظ سیوطی کا قول کا ترجمہ آپ نے یوں کیا ہے:
هذا مثل ضربه الله للكافر كما لا يسمع الميت كذلك لا يسمع الكافر ،
"یہ مثال اللہ نے کافر کے لیے بیان کی ہے کہ جس طرح مردے نہیں سنتے اسی طرح کافر (دعوتِ حق) کو نہیں سنتا اور نہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے

تو یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی سطر میں مردے کے لیے "سننے" کے معنی ظاہری کیے جائیں اور جب کفار کی بات آئے تو سننے کو "ہدایت قبول کرنا" کر دیا جائے۔

یہی غلط فہمی آپ کو امام سمرقندی کے الفاظ سے ہوئی ہے اور آپ نے ایک ہی سطر میں "سننے" کے دو بالکل الگ الگ معنی کر دیے:
از قسیم حیدر:
السمرقندی (متوفی 375 ھ) اپنی تفسیر “بحر العلوم” میں رقم طراز ہیں:
فهذا مثل ضربه للكفار ، أي فكما أنك لا تسمع الموتى ، فكذلك لا تتفقه كفار مكة )بحر العلوم)
"یہ مثال ہے جو اللہ نے کافروں کے لیے بیان فرمائی ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے، اسی طرح کفار مکہ کو نہیں سمجھا سکتے

دیکھئیے، یقینی طور حافظ العسقلانی اور ابن کثیر الدمشقی نے جو "جمہور" اور "اجماع" کا لفظ استعمال کیا ہے تو یقینا انہوں نے اپنے سے پیشتر تقریبا تمام ہی اہم علماء و محدثین کی آراء کو پڑھا ہو گا، اور اُن کے اقوال کو بغیر کسی غلط فہمی کے، سیاق و سباق اور دیگر آیتوں کی تفسیر کے حوالے سے ہم لوگوں سے زیادہ بہتر سمجھا ہو گا۔۔۔۔ اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہی حافظ العسقلانی اور ابن کثیر الدمشقی سلف صالحین کے حوالے سے جمہور اور اجماع کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
وہ قومیں تباہ ہو گئیں جنہوں نے اپنی کتابوں میں تحریف کر لی
حافظ ابن کثیر الدمشقی نے "سماعت" والی ان آیات کی جو تفسیر بیان کی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے اور مسئلے کو بے تحاشہ احادیث سے اتنا واضح کیا ہے کہ جس کے بعد کسی پس و پیش کی گنجائش نہ تھی۔
مگر کیا۔۔۔۔۔ کیا ہے کہ اردو میں آجکل جو کتب کا ترجمہ ہو رہا ہے، وہ مکمل طور پر تحریف شدہ تراجم ہیں۔

مثلا سورہ روم آیت 52 کے ذیل میں جو کچھ حافظ ابن کثیر نے سماعت موتی کے حق میں جو کچھ لکھا ہے اور روایات بیان کی ہیں، اردو ترجمے میں اس کی 95% تحریف کر دی گئی ہے۔
اور خالی حافظ ابن کثیر کی یہ تفسیر ہی تحریف کا تختہ مشق بنی ہے، بلکہ حدیث کی تمام کتب بخاری وغیرہ سب کے تراجم میں تحریفات کی گئی ہیں۔

اس لیے میں نے شروع میں ہی زور دیا تھا کہ ڈیجٹائزیشن کے لیے پرانے اردو تراجم کا استعمال کیا جائے جو کہ تحریف سے پاک ہیں۔ مثلا علامہ وحید الزمان خانصاحب کے تراجم جو کہ تمام مکاتب فکر کے لیے قابل قبول ہیں۔

//////////////////////////////////////////////

حافظ ابن کثیر نے سورۃ الروم کی آیت 52 کی لمبی تفسیر کی ہے [آنلائن لنک]۔ اور اس میں ان سماعت موتی والی قرانی آیات کے معنی بیان کیے ہیں، پھر حضرت عائشہ کی رائے پر تفصیلی تبصرہ کیا ہے اور علمائے سلف کی آراء کو بیان کیا ہے۔۔۔۔ اور پھر کئی صفحات پر لمبی بحث کی ہے کہ جہاں پر آپ نے وہ روایات نقل کی ہیں جن سے سماعت موتی کا مکمل ثبوت ملتا ہے۔
افسوس کہ جو تفسیر ابن کثیر کا اردو ترجمہ اس وقت نیٹ پر موجود ہے، اُس میں یہ تمام روایات اور دیگر چیزوں کا سرے سے ہی صفایا کر دیا گیا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ تھریڈ شروع ہوئے تقریباً ایک سال ہو چکا ہے۔
کیا آپ دوستوں کے پاس اس بے کار موضوع پر وقت ضائع کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے؟
اور اگر یہ بات درست ہے کہ پہلے ہی دوسری فورمز پر یہی بحث کئی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے تو کیا اسے دوبارہ یہاں شروع کرنا ضروری ہے؟
میں اس تھریڈ سمیت اس طرح کے تمام مباحث کو مقفل کرنے والا ہوں۔ آپ دوستوں کے خیال میں اگر کسی اور فورم پر آپ کو آزادی اظہار کا بہتر موقع ملتا ہے تو آپ ضرور وہاں کا رخ کریں۔

معذرت نبیل بھائی، کہ آپکی یہ پوسٹ پہلے نظر نہیں آئی کیونکہ آپ اور میں ایک ہی وقت میں پوسٹ لکھ رہے تھے۔
میں نے تو اس پوسٹ کا جواب نہیں دیا تھا، مگر باذوق برادر نے جب اس تھریڈ کی طرف اشارہ کیا تو پھر مجبورا مجھے جواب لکھنا پڑ رہا ہے۔
اور میں بالکل اس حق میں ہوں کہ گفتگو کو القم پر منتقل کر دیا جائے جہاں پر اس موضوع پر پہلے سے ہی تھریڈ موجود ہے۔
////////////////////////////////////
تو میں اس موضوع سے الگ ہوتی ہوں اور مزید پوسٹ نہیں کروں گی۔
اس موضوع پر مزید میرے پاس بہت سے نصوص موجود ہیں جنہیں پیش کرنے کا موقع نہیں ملا [خاص طور پر قابل ذکر رسول ص کی سماعت موتی پر احادیث ہیں]۔ چنانچہ یہ سب اب میں القلم فورم میں ہی پیش کر دوں گی کہ جسے اس موضوع میں دلچسپی ہے وہ وہیں پر جا کر پڑھ لے۔
القلم فورم پر اس موضوع کا لنک یہ ہے۔
والسلام۔
 

قسیم حیدر

محفلین
کِسی بھی کلام کے ظاہری اور باطنی معنیٰ سے کیا مُراد ہے ؟ اورظاہر کو ترک کر کے باطنی معنیٰ کی طرف رُخ کرنے کی ضرورت کیوں اور کب پیش آتی ہے ؟
اِسی طرح کِسی بھی کلام کے حقیقی اور مجازی معنیٰ سے کیا مُراد ہے ؟ اور حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کو اپنانے کی ضرورت کیوں اور کب پیش آتی ہے ؟
کِسی بھی کلام کے صریح اور مبہم سے کیا مُراد ہے ؟ اور صریح کو چھوڑ کے مبہم کے پیچھے دوڑ لگانے کی ضرورت کیون اور کب پیش آتی ہے ؟
کِسی بھی کلام کے منطوق اور مفہوم سے کیا مُراد ہے ؟
کیا ظاہری اور حقیقی ، باطنی اور مجازی میں کوئی فرق ہے ؟
اِن سوالات کے جوابات میں اگر کوئی قاعدہ قانون پایا جاتا ہے تو کیا اُس کا اطلاق قُران ، یعنی اللہ کے کلام پر کیا جائے گا ؟
ہاں تو کیوں ؟ نہیں تو کیوں ؟
قُران میں محکمات اور مشتبھات ہیں ؟
قُران کو سمجھنے کے لیے ، یعنی قُران کی تفسیر کے لیے کیا ذرائع اپنائے جائیں ؟ اور کیوں ؟یا جو کوئی بھی اپنی سوچ و رائے کے مطابق جو معنی و مفہوم سمجھنا چاہے سمجھ لے ؟
اِن شاء اللہ وقتاً فوقتاً میں آپ صاحبان کے عِلم سے بہرور ہونے کے لیے حاضر ہوتا رہوں گا ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ دِین جو اُس نے تمام مخلوق سے بُلندی پر رہتے ہوئے اپنے سب سے مُقرب اور محبوب ترین بندے مُحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُسی طرح سمجھائے جِس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو سمجھایا ، اور اُسی طرح اِیمان و عمل کی توفیق عطاء فرمائے اور ہر کلمہ گو کا خاتمہ اِیمان پر فرمائے ۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ۔[/size]
مہوش بہن، شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف میں فرق بیان کرتے ہوئے آپ نے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کا جو اقتباس دیا ہے مجھے یقین ہے کہ اس جملے اور ترجمے کو نقل کرنے میں آپ سے سہو ہوا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ظاہری اور باطنی معنی کے بارے میں عادل سہیل صاحب کے اٹھائے ہوئے سوالات کے جواب بھی عنایت کر دیں۔ باقی باتیں نبیل بھائی کی وضاحت کے بعد ان شاء اللہ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top