شعر جو ضرب المثل بنے

!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
اثر اس پر ذرا نہیں ہوتا
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
( مومن )
 
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب‌خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
( میر تقی میر )
 
اگر بات میر پر ہی چل رہی ہے تو ایک اور شعر عرض ہے

ٓ
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
ہیں مشت خاک لیکن جو کچھ ہیں میر ہم ہیں
مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا
!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
 
347

میر کا ایک اور شہرہ آفاق شعر اب پتہ نہیں یہاں شامل ہو چکا ہے یا نہیں۔

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
 
میر کے دو اور اشعار

تیرے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری

آن میں کچھ ہیں‌آن میں کچھ ہیں
تحفہء روزگار ہیں ہم بھی
 
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

یوں اُٹھے آہ اُس گلی سے ہم
جیسےکوئی جہاں سے اٹھتا ہے

عشق اک میر بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
 

adilch

محفلین
اس کو چھٹی نہ ملی

مکتبِ عشق کے دستور نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا


روشنی میں جگنوئوں کو پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
 
اس کو چھٹی نہ ملی

adilch نے کہا:
مکتبِ عشق کے دستور نرالے دیکھے
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا


روشنی میں جگنوئوں کو پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے

بہت خوب عدیل ، پہلا شعر شاید یوں ہے

مکتبِ‌عشق کا دستور نرالا دیکھا

دو شعر دو پوسٹ میں کریں تو واضح بھی ہوں گے اور آپ کی پوسٹس بھی بڑھیں گی ۔ :)
 
ساغر صدیقی کی اس غزل کے کئی اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔


ہے دعا یاد مگرحرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایاتھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

میں نے پلکوں پہ درِ یار سے دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں

صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا مجھ سے خفا یاد نہیں

آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں​
 
ہے دعا یاد مگرحرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں



زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں


یہ دو اشعار مجھے بہت پسند بھی ہیں
 
£££££££££££££££££££££££
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرہ تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
£££££££££££££££££££££££

(آتش )‌​
 
Top