لعنۃ اللہ علی الامریکیۃ

پاکستان ميں امريکہ مخالف جذبات کے حوالے سے ميرا نقطہ يہ تھا کہ بعض سياسی جماعتوں اور قائدين کی سياسی قوت کا پيمانہ انکی پاليسياں اور ملک کی تعمير وترقی اور بہتر مستقبل کے ضمن ميں انکے منصوبے نہيں ہوتے بلکہ محض فقرے بازی اور جذباتی نعرے ہوتے ہيں۔

آپ نے صدر مشرف کی مثال دی ہے۔ کيا صدر مشرف پاکستان کی تاريخ کے واحد قائد تھے جنھيں "امريکی غلام" قرار دے کر امريکہ مخالف جذبات کو استعمال کيا گيا؟

حقائق ثابت کرتے ہيں کہ پاکستان کی تاريخ کی قريب تمام حکومتوں کو "امريکی کٹھ پتلی" قرار دے کر ان کی سياسی مخالفت کی گئ۔ سياسی مخالفين کی جانب سے اپنی حکومتوں کو امريکہ نواز قرار دے کر سياست کرنے کی حکمت عملی سادہ اور ثابت شدہ ہے۔ کيا آپ نے ان سياسی مخالفين کو تعليم، صحت اور دفاع کے ضمن ميں اپنی پاليسيوں کی تشہير کرتے ديکھا ہے؟ سياسی مخالفت کا تو بنيادی اصول ہی يہ ہے کہ اگر آپ حکومت کی پاليسيوں سے اختلاف رکھتے ہيں تو انھيں اعداد وشمار اور دلائل سے غلط ثابت کريں اور ايسے متبادل منصوبے عوام کے سامنے پيش کريں جو آپ کے نزديک زيادہ بہتر مقاصد حاصل کر سکتے ہيں، بجائے اس کے کہ آپ محض جذباتی نعرہ بازی کو اپنی سياست کا محور بنا ليں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے گئے فيصلے کسی بھی حکومت کے مستقبل يا اسکی تاريخ پر اثر انداز ہوتے ہيں ليکن بعض سياسی قوتيں ان تمام عوامل کو پس پشت ڈال کر محض "امريکہ نواز" يا "امريکہ کے کٹھ پتلی" جيسے نعروں تک ہی محدود رہتی ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ دوررس، جديد اور موثر اقتصادی اور تعليمی منصوبوں کے بارے ميں تفصيلی گفتگو کرنے کے مقابلے ميں يہ طريقہ زيادہ آسان ہے جو کچھ سياست دان استعمال کرتے ہيں۔

جہاں تک صدر مشرف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں اکثر سياسی ليڈروں کی جانب سے متفقہ طور پر يہ تاثر ديا جاتا رہا کہ امريکہ پاکستان ميں 16 کروڑ عوام کی خواہشات کے برعکس ايک آمر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور دہشت گردی سميت ملک ميں تمام تر مسائل کا ذمہ دار صرف امريکہ ہے۔ اگر امريکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليےملک کے جمہوری اداروں اور سياسی قوتوں کی بجائے ايک آمر کو سپورٹ نہيں کرتا تو ملک آج ان بے شمار مسائل ميں گھرا ہوا نہيں ہوتا۔

سياسی جماعتوں کا يہ موقف پچھلے کئ سالوں سے ميڈيا کے ذريعے عوام تک پہنچتا رہا ہے۔

عوام کے سامنے بہتر منصوبوں اور پاليسيوں کے ذريعے حکومت پر تنقيد کرنے کی بجائے تمام تر زور اس بات پر ديا جاتا رہا کہ امريکہ مشرف اور اس کے "حواريوں" کی حمايت کر کے پاکستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ يہ بات بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی رہی کہ پاکستان کے تمام تر مسائل کی وجہ امريکہ ہے جس کی پشت پناہی کے سبب ايک آمر ايسے قوانين بنا رہا ہے جس سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ گيا ہے۔

پاکستان ميں يہ تاثر اتنا مقبول ہو گيا کہ ميڈيا يا اخبارات ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کسی دليل يا توجيہ کی ضرورت بھی محسوس نہيں کی گئ گويا کہ يہ مفروضہ بحث ومب۔احثے کے مراحل سے گزر کر ايک تصديق شدہ حقيقت بن چکا تھا کہ صدر مشرف کا دور اقتدار (اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ پاکستان کے ليے فائدہ مند ہے يا نقصان دہ) صرف اور صرف امريکہ کی مرہون منت ہے۔

آپ کے ليے يہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امريکی حکومتی حلقوں ميں اس تاثر پر انتہاہی حيرت کا اظہار کيا جاتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ نہ ہی پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر ترقی ميں امريکہ کا کوئ کردار تھا، نہ ہی انھيں ملک کا صدر امريکہ نے بنايا اور نہ ہی ان کے دور اقتدار ميں توسيع امريکہ نے کروائ۔

اس حوالے سے کچھ تاريخی حقائق پيش خدمت ہيں۔

سات (7) اکتوبر 1998کو اس وقت کے وزيراعظم نوازشريف نے آرمی چيف جرنل جہانگير کرامت کے استعفے کے بعد پرويز مشرف کو دو سينير جرنيلز کی موجودگی ميں ترقی دے کر آرمی چيف کے عہدے پر ترقی دی۔

اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں نواز شريف نے پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر تقرری کو اپنے سياسی کيرئير کی ايک "بڑی غلطی" تسليم کيا۔

بارہ اکتوبر 1999 کو جب نواز شريف کو اقتدار سے ہٹايا گيا تو ملک کی تمام بڑی سياسی جماعتوں نے اس کا خيرمقدم کيا۔ اگر آپ انٹرنيٹ پر اس دور کے اخبارات نکال کر ان کی سرخيوں پر نظر ڈاليں تو آپ ديکھيں گے کہ پاکستان پيپلزپارٹی اور تحريک انصاف سميت تمام سياسی جماعتوں نے پرويز مشرف کو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لينے کے قدم کو ملک کے مفاد ميں قرار ديا۔

دو ہزار دو (2002) ميں تحريک انصاف کے قائد عمران خان نے پرويز مشرف کی حمايت کو ايک "بڑی غلطی"قرار ديا۔

دو ہزارچار (2004) ميں ايم – ايم –اے کے توسط سےقومی اسمبلی ميں 17ويں ترميم پاس کی گئ جس کے ذريعے پرويز مشرف کے اقتدار کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد توثيق کر دی گئ۔

دو ہزار پانچ (2005) ميں قاضی حسين احمد نے ايم – ايم – اے کے اس قدم کو "بڑی غلطی" قرار ديا۔

دو ہزار سات (2007) ميں پاکستان کی چاروں صوبائ اسمبليوں اور قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب نمايندوں نے پرويز مشرف کو57 فيصد ووٹوں کے ذريعے اگلے پانچ سالوں کے ليے ملک کا صدر منتخب کر ليا۔

اليکشن کے بعد پيپلز پارٹی کی قيادت نے قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کے فيصلے کو بڑی "سياسی غلطی" قرار ديا۔

آپ خود جائزہ لے سکتے ہيں کہ پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنے سے لے کر صدر بنانے تک اور صدر کی حيثيت سے ان کے اختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نے اپنا بھرپور کردار ادا کيا ہے۔ اسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتدار رہے، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کے منافی ہے۔ اگر صدر مشرف ملک کے ليے "نقصان دہ" تھے تو ان کو طاقت کے اس مرتبے پرپہنچانے کا قصوروار کون تھا؟ کيا آپ کے خيال ميں جو حقائق ميں نے پيش کيے ہيں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان ميں مشرف کے حوالے سے پائے جانے والے امريکہ مخالف جذبات جائز ہیں؟

دلچسپ امر يہ ہے کہ موجودہ حکومت پر بھی بعض سياسی قوتوں کی جانب سے جو تنقيد کی جا رہی ہے اس کا محور بھی وہی پرانا اور استعمال شدہ نعرہ ہے کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت کا تسلسل ہے اور موجودہ حکمران امريکی اشاروں کے غلام ہيں۔

کيا موجودہ حکمرانوں کو برسراقتدار لانے کا ذمہ دار امريکہ ہے يا پاکستان کے عوام جنھوں نے انھيں ووٹ ديے۔ اگر امريکہ اس کا ذمہ دار نہيں تو کيا ميں يہ کہنے ميں حق بجانب نہيں کہ پاکستان ميں امريکہ مخالفت جذبات کی وجہ حقائق نہيں بلکہ وہ جذباتی نعرے ہيں جنھيں سياست دان اپنی سياسی کمزوريوں پر پردہ ڈالنے کے ليے دانستہ استعمال کرتے ہيں؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov

جہاں تک مجھے یاد ہے یہ قول ابراہام لنکن کا ہے
you Can Fool Some Of The People All The Time And All The People Some Of The Time; But You Can't Fool All The People All The Time
.

اور یہ قول ہی فواد آپ کی بیان کردہ تمام منطق کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔
تاہم میں اس مسئلے کو دو حصوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں

پہلا حصۃ ہماری اپنی کوتاہیاں
اس بات میں بڑی حد تک حقیقت ہے کہ ہمارے کمزور اور بے ضمیر و بے کردار سیاستدان ، اقتدا کی خواہش مند فوج ، منافقت کا لبادہ اوڑھی ہوئی مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس قوم کو مسائل اور ہولناکیوں کے جنگل میں لا کھڑا کیا ہے اور ایشو پر ایشو ہے مسائل پر مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔خود ہماری قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بحیثیت قوم ایک اجماعتی شعور و شناخت کی کمی ہے ہم لوگ فرقوں میں جماعتوں میں اور لسانی و دیگر تعصبی گرہوں میں منقسم ہیں‌ اور یہ فروعی شناختیں‌ہماری قومی شناخت سے کہیں زیادہ دیرپا اور نمایاں وجود رکھتی ہیںاور سونے پر سہاگہ یہ کہ ان سارے مسائل سے نبر آزما ہونے کے لیے نہ کوئی رہنما ہمارے پاس ہے اور نہ رستہ۔ اسلام جو کہ اس قوم کی سب سے بڑی شناخت ہو سکتا تھا اس کی اپنی شناخت مسخ کرنی کو کوشش اغیار اور خود ہمارے اپنوں‌ کی جانب سے پے بہ پے ہورہی ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے ان کوششوں کے باوجود اسلام آج بھی اس قوم کے درمیاں سب سے بڑی قدر واحد ہے۔
دسرا حصۃ امریکا کے حوالے سے

دیکھیے اس وقت ہمارے ملک میں جو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور جن کا ایک مضبوط ووٹ بینک بھی وہ گنتی کی چند ایک ہی ہیں مثلا پی پی پی، مسلم لیگ ن اور ق ، ایم کیو ایم وغیرہ اب بتائے کے یہ جماعتیں کب امریکا مخالف نعرے لگاتی ہیں ؟ یہ تو ہمیشہ ہی امریکا کی حامی رہی ہیں‌ (مسلم لیگ ن کا رویہ اب قدرے تبدیل ہوا ہے(
امریکا مخالف نعرے البتہ وہ جماعتیں لگاتی رہی ہیں جو ماضی میں‌ایم ایم اے کے نام سے متحد تھیں اور ماضی میں ہونت والی الیکشن میں ان کو صرف صوبہ سرحد میں بھر پور کامیابی ملی تھی جو کہ اب تحلیل ہو چکی ہے۔
جہاں تک امریکا کی پاکستان میں مداخلت کی بات ہے تو یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کسی طرح جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے دیکھیے اگر امریکا مخالفت محض ایک جذباتی نعرہ ہو تا تو اتنے لمبے عرصہ تک اس کا اتنا موثر رہنا ممکن نہ تھا پھر یقینا بہت سارے ایسے امور ہیں جن کی بنا پر پاکستانی عوام کا ایک عمومی رویہ امریکا مخالف ہے
امریکا پاکستان میں الیکشن میں گڑ بگڑ کراتا ہے یا نہیں‌یا اس طرح کے دیگر معاملات میں‌اس کا کیا رویہ ہےاس کے متعلق کچھ کہنا میرے لیے ممکن نہیں تاہم اگر ہم پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیں تو یہ بات ضرور کھل جاتی ہیے کہ پاکستان کو امریکا نے ہمیشہ استعال کرنے کی کوشش کی ہے۔پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات امریکا کی اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے پاکستانی عوام کے لیے کبھی قابل قبول نہیں ہو سکے۔

یہاں میں صرف پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے حوالے سے پاکستان اور امریکا تعلقات کی چند جھلکیاں پیش کرنا چاہوں گا ۔

یہ ضرور ہے 1951 سے لے کر اب تک پاکستانی حکمران مسلسل امریکا سے بہتر سے بہتر تعلقات کے خواہش مند رہیں ہیں یہ تقریبا یقنی بات ہے کہ ان تعلقات کے ابتدائی مراحل میں پاکستانی حکمرانوں کی ایک بڑی دلچسپی امریکی ڈالروں میں تھی جو کہ امریکی امداد کی صورت میں وارد ہوتے تھے تاہم بعد ازاں ہندوستانی جنگی جنون نے آہستہ آہستہ فوجی امداد کے لیے بھی پاکستان کو صرف امریکا کی طرف ہی دیکھنے پر مجبور کردیا جو کہ اس عرصہ میں‌پا کستان کا ایک بڑا حلیف بن چکا تھا اور پاکستان اس زمانے میں بقول صدر ایوب کے پاکستان ایشیا میں امریکا کا "سب سے زیادہ متحد اتحادی" تھا لیکن اس کے صلہ میں پاکستان کو کیا ملا اور کس طرح امریکی پالیسی اچانک مکمل طور سے بھارت نواز ہوتی چلی گئی اس روداد بڑی عبرت انگیز ہے اس سلسلے میں خود صدر ایوب کی سونح حیات "جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی" کا وہ باب جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں لکھا گیا ہے پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے یہ پورا باب میرے لیے نقل کرنا آسان نہیں تاہم اس باب میں امریکا کے حوالے سے صدر ایوب نے نہ صرف پاکستان امریکا روابط کا تفصیلی جائزہ لیا ہے بلکہ وہ اس بات کا مسلسل رونا روتے رہیں ہیں‌کہ امریکا آستہ آہستہ پاکستان سے بے وفائی کا مرتکب ہوتا چلا گیا اور وہ ہندوستان جو اروس کی جھولی میں بیٹھ کر امریکا کو ٹھینگا دکھاتا تھا وہ امریکا کا محبوب بن گیا کچھ الفاظ خود صدر ایوب کی زبانی سنیئے
اب تو پاکستان ہی نہیں ، کوریا سے لے کر ترکی تک کے عوام نے اس بات پ تعجب کرنا شروع کر دیا ہے کہ کیا امریکا "دوستوں اور "غیروں " میں تمیز نہیں کر سکتا
یہ ایک پاکستانی صدر کے الفاظ ہیں تو بتائیے عوام جو زیادہ جذباتی ہوتے ہیں وہ کیا گمان رکھیں گئے امریکا کے بارے میں‌یقنا منفی تو اس میں کس کا قصور ہے پاکستانی سیاستدانوں کا؟ یا امریکا کا؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکا نے اس پاکستان کی اس سلسلے میں ناقدری کی جو 1955 میں بغداد پیکٹ میں‌شامل ہوا اور دنیائے عرب کی ناراضگی مول لی پھر یہ معاہدہ سینٹو کی جب شکل اختیار کر گیا تو بھی پاکستان اس کا رکن رہا جس کا بڑا نقصان روس کی شدید ناراضگی کی صورت میں برآمد ہوا اور وہ روس جو اب تک مسئلہ کشمیر پر غیر جانبدار رہتا تھا اب اس مسئلہ پر بھارت کا حامی بن گیا اور اس مسئلہ کو ویٹو کرنے لگا اس کے صلہ میں پاکستان کو کیا ملا بھیک کی صورت میں دیئے ہوئے چند ڈالر؟
جب 1962 میں بھارت کی چین کے ساتھ جھڑپ ہو ئی تو یہی امریکا جس کا سب سے بڑا اتحادی پاکستان تھا پاکستان کے سب سے بڑے دشمن کو جھولی بھر بھر کر امداد دینے لگا حالانکہ اسی زمانے میں نہرو نے یہ اعلان کیا تھا کہ امریکی اسلحہ وہ پاکستان کے خلاف بھی استعمال کر سکتے ہیں یہ کچھ چین کے ساتھ ہی مشروط نہیں،اور ساتھ ہی مزے کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں امریکا کے ذریعے ہی پاکستان سے یہ یقین دہانی حاصل کی گئی تھی کہ پاکستان چین بھارت جنگ کے دوران بھارت پر حملہ نہیں کرے گا، اور وہ وقت ہے آج کا وقت بھارت روس اور امریکا دونوں کا منظور نظر ہے ابھی حال ہی میں جو ایٹمی معاہدہ بھارت کے ساتھ کیا گیا ہے وہ اسی جاری امداد کی ایک مثال ہے
اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ 1959 میں پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک دو طرفہ معاہدہ ہوا تھا جس کی روسے امریکا کے لیے بعض حالات میں لازمی ہو گیا تھا کہ اگر پاکستان کسی حملے کا شکا ر ہو تو امریکا اس کی مدد کرے اس پر بھارت نے بہت واویلا مچایا تاہم ہوا کیا اس کا ذکر پاک بھار ت وار سے پہلے ہی صور ایوب کرتے ہیں ان کے تاثرات پڑھیئے
اس وقت ہم پر یہ بات کھلتی جارہی تھی کہ اگر ہندوستان ہم پر حملہ کر دے تو اس کا امکان بہت کم ہے کہ امریکا اپنا وعدہ پورا کرے گا اور ہماری امداد کو پہنچے گا" ص255 

اور بعد میں یہ بات وقت نے ثابت بھی کی کہ امریکا کبھی پاکستان کا اس پاکستان کا جس نے ہمیشہ امریکی دوستی کو باقی پوری دنیا پر ترجیح دی کبھی وفادار دوست ثابت نہ ہوا۔
بھارت کو دھڑا دھڑ امداد پر امداد ملتی گئی اور پاکستان محض اس وقت تک امریکی امداد کا دار پایا جب تک روس افغانستان میں رہا اور روس کی مخالفت میں امریکا پاکستان کو نوازتا رہا ادھر روس افغانستان سے نکلا ادھر پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان تمام فوجی امریکی امداد سے محروم کر دیا گیا تیار شدہ وہ ایف سولہ جن کی قیمت پاکستان چکا چکا تھا وہ بھی پاکستان کو دینے سے انکار کر دیا گیا۔اور مزے کی بات ہے کہ بہانا یہ بنایا گیا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے اور وہ بھارت جو 1974 میں ہی ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا وہ ہر طرح کی پابندیوں سے محفوظ رہا۔
کلنٹن کے دور میں کچھ آثار تھے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات شاید دوبارہ استوار ہو جائیں اور اس سلسلے میں کچھ ابتدائی اشارے حوصلہ افزا بھی تھے تاہم بعد میں کلنٹن اتنے پاکستان سے دور ہو گئے کہ وہ پاکستان آنے کے لیے تیار نہ تھے اور اہل پاکستان 2000 کا کلنٹن کا دورہ بھلائے نہیں بھولتا ہے جب انڈیا کے دورے کے بعد کلنٹن پاکستانی حکمرانوں کی انتہائی منت سماجت کے بعد تیوریاں چڑھائے ،منہ بنائے اور ماتھے پر بل ڈالے کچھ دیر کے لیے پاکستان آئے تھے اور جلد ہی واپس لوٹ گئے اس وقت بھی بھارت کے ساتھ امریکا نے بڑے اہم نوعیت کے معاہدے کیے


پاکستان امریکا کہ یہ تعلقات امریکا کے اس کرادار کا پتہ دیتے ہیں کہ امریکا دوست نہیں بنا تا بلکہ وہ اپنے ،مفادات کے پیش نظر دوستیاں خریدتا ہے چنانچہ امریکی امداد کی بارش ایک بار پھر اس وقت پاکستان پر شروع ہوئی ہے اب جب امریکا کو پاکستان کی ایک بار پھر ضرورت ہے اور ایک آمر نے بغیر پارلیمنٹ کی منظور کےا ور بغیر مکمل طور پر پاک فوج کو اعتماد میں لیئے ایک ایسی جنگ پاکستان پر مسلط کر دی ہے جو کسی طرح پاکستان کے حق میں نہیں‌۔


افغان وار سے قبل جو کچھ امریکا پاکستان کے ساتھ کرتا رہا اس کی کافی تفصیلات میرے پاس موجود ہیں‌ تاہم اس سلسلے میں ایک بات قابل غور ہے کہ ہماری عوام اتنی احمق نہیں‌ جتنا کہ اس کو سمجھا جاتا ہے افغان وار سے پہلے پہلے جب امریکا کی پاکستان میں مداخلت بڑی حد تک خفیہ تھی اس وقت محض عالمی سطح پر کی جانے والی یہی دھاندلیاں پاکستانی عوام کو امریکا سے متنفر کرنے کا باعث تھیں مگر اب جب اس خطے میں‌ امریکی دہشت گردی ایک کھلی کتاب بن چکی ہے آئے دن پاکستان عوام امریکی مزائل کا تحفہ اور اپنے عزیزوں کی لاشیں وصول کر رہے ہیں تو کیا اب بھی آپ یہی کپہیں گئے کہ امریکی مخالفت ایک جذباتی نعرہ ہے جو پاکستانی سیاستدانوں نے عوام کو دیا ہے؟


آخر میں کچھ باتیں‌اور پہلی تو یہ کہ انتہائی مختصر تجزیہ صرف پاکستان اور امریکی تعلقات کی ایک جھلک ہے اور باتیں ابھی کہنے کو باقی بہت ہیں صرف پاکستان ہی نہیں‌بلکہ پوری عالم اسلام کی جانب سے لیکن پھر کچھ یاروں کو گلا ہوتا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ ان کو نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر والے جوابات نہیں چاہیں‌ حالا نکہ بطور مسلم مسلم دنیا کے حالات سے کم از کم ہم کو باخبر تو ہونا چاہیے لیکن اس پر موضوع پر گفتگو بعد میں
دوسری بات یہ کہ امریکا کے پاکستان سے تعلقات دو پاکستانی صدور کے زمانے میں بڑے عروج پر رہے ہیں ایک صدر ایوب دوسرے صدر مشرف اور ان دونوں کی خودنوشت عام دستیاب ہیں‌اگر کوئی اللہ کابندہ ہمت کر ے ان کتب کے وہ ابواب جو امریکا سے متعلق ہیں‌ان کو یہاں‌ ٹائپ کر دے تو بھی کم از کم بہت سارے لوگوں پر یہ بات کھل جائے گی کہ ہم نے امریکا کو کیا دیا ہے اور بدلے میں امریکا نے ہم کو کیا دیا ہے۔

اور فواد ایک بات آپ سے کہ براہ کرم اپنی باتوں کو دہرانے سے اور مختلف پیرائے میں دہرانے سے پرہیز کریں آپ کی پچھلی پوسٹ اور اس پوسٹ میں کم از کم مجھے کوئی فرق محسوس نہیں ہوا اور دوسری بات یہ کہ جو نکات اٹھائے جاتے ہیں ان کا جواب دینے کی کوشش کیا کیجئے اور ان کو بالکل نظر انداز مت کر دیا کیجئے
 

محسن حجازی

محفلین
عارف بیشتر لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ایک ٹھیک ٹھاک قسم کی آفت کے بغیر سدھار ممکن نہیں۔
کہنے والوں کا کہنا ہے کہ سروں کی یہ فصل کٹے گی تو نئے سر اگیں گے۔
 

arifkarim

معطل
عارف بیشتر لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ایک ٹھیک ٹھاک قسم کی آفت کے بغیر سدھار ممکن نہیں۔
کہنے والوں کا کہنا ہے کہ سروں کی یہ فصل کٹے گی تو نئے سر اگیں گے۔


:( یعنی امن سے بہتری ممکن نہیں شاید۔۔۔۔۔ آفت کے بعد تو سب کی عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔ جاپان کی مثال آپ کے سامنے ہیں۔ دو ایٹم بموں نے سارا غرور خاک میں ملا دیا!
 

طالوت

محفلین
تجویز اچھی ہے پر رسک کون لے گا ؟‌ ؟‌ ؟
جاوید اقبال (اقبال مرحوم کے بیٹے) نے ایک دفعہ کہا تھا کہ پاکستان کی مثال پانچ بلیوں کی سی ہے جنھیں دموں سے پکڑ کر باندھ دیا گیا ہو ۔۔۔ جس میں سے ایک بلی (بنگلہ دیش) دم چھڑا کر بھاگ چکی ہے ، باقیوں کا پتا نہیں کب بھاگیں گے ۔۔۔ بات مایوسی اور طنز پر مبنی ہے مگر ہے تو سچ ! ؟ اجتماعی سوچ کی کمی اور اپنی اپنی نبیڑنے نے ہمیں بارود کے ڈھیر پر لا کھڑا کیا ہے اور یقیننا اس خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا اور بھگت رہے ہیں۔۔۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو
وسلام
 

arifkarim

معطل
تجویز اچھی ہے پر رسک کون لے گا ؟‌ ؟‌ ؟
جاوید اقبال (اقبال مرحوم کے بیٹے) نے ایک دفعہ کہا تھا کہ پاکستان کی مثال پانچ بلیوں کی سی ہے جنھیں دموں سے پکڑ کر باندھ دیا گیا ہو ۔۔۔ جس میں سے ایک بلی (بنگلہ دیش) دم چھڑا کر بھاگ چکی ہے ، باقیوں کا پتا نہیں کب بھاگیں گے ۔۔۔ بات مایوسی اور طنز پر مبنی ہے مگر ہے تو سچ ! ؟ اجتماعی سوچ کی کمی اور اپنی اپنی نبیڑنے نے ہمیں بارود کے ڈھیر پر لا کھڑا کیا ہے اور یقیننا اس خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا اور بھگت رہے ہیں۔۔۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو
وسلام

ہمم جبھی تو ہر صوبہ میاؤں میاؤں کی رٹ لگاتا رہتا ہے۔ آجکل صوبہ سرحد کی دم پر امریکہ نے پاؤں رکھا ہوا ہے، اسلئے وہاں سے شور زیادہ آرہا ہے!:mrgreen:
 

مغزل

محفلین
مغل بھیا تھوڑی سی زیادتی کرگئے آپ اس ناچیز پر۔ نہ تو میں امریکہ کا ملازم ہوں اور نہ مجھے امریکی یا پاکستانی سرکار نے کسی فرض کی انجام دہی کے لئے مقرر کیا ہوا ہے۔ ہاں اگر کچھ ہے تو وہ اپنا علم اور تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ احباب کی توجہ اس بات کی طرف دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اوروں کو کوسنے دینے کی بجائے اپنے حالات سُدھارو۔ اس کوشش میں ہماری عزت افزائی :beating: بھی خوب ہوتی ہیں لیکن اپنا
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
والا ہی معاملہ ہے۔ سو
ایک طرز تغافل ہے سو "تم" کو مبارک
ایک عرض تمنا ہے سو کرتے رہیں گے۔:hatoff:



میرے محترم :
آپ نے غور کیا ہوگا کہ لفظ تنخواہ واوین میں ہے یعنی مرادی معنی سے مبرا
بہر کیف یہ میری رائے اس بات سے علاقہ نہیں رکھتی کہ آپ اتفاق کریں یا نہ کریں
میں نے جو لکھا ۔۔ اپنے مشاہدے کے تحت لکھا ہے۔۔۔ آپ کا (مذکورہ ) معاملہ ایسا ہے
کہ ۔۔ بجائے کسی کی بات کو سننے اور غور کرنے کے ۔۔ محض تفضیلِ بعض و کل ۔۔ یکسر
جھٹلا کر امریکہ کو پوتر و مربی پیش کیا جائے ۔۔ ایک تھریڈ کھولتے ہیں جس میں صرف میں
اور آپ بات کریں گے ۔۔ دوسرے احباب سے گزارش کریں گے کہ صرف شکریہ کا بٹن استعمال کریں۔
آپ کے سارے الزامات اور جوابات کا ۔۔۔ منڈن کرتے ۔۔ کہ ہم ہر معاملے میں امریکہ کو ہی کیوں
موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔۔ کوئی ذاتی پرخاش نہ آپ ،زیک، فواد سے ہے نہ اور نہی امریکہ سے
پوری دنیا پر امریکہ کا کردار عیاں ہے۔۔ بس ایک آپ لوگوں کو ’’ ھیا ھیا ‘‘ نظر آتا ہے۔
آخر کیوں ۔۔ ؟؟ یہ سوال کبھی خود سے بھی کرلیجئے۔۔۔
امارات و تعیش کسی کو بھی بد دل و بد عقیدہ کرنے کیلئے کافی ہے۔

فقط ہیچ منداں، ہیچ سخن، ہیچ علم ، ہیچ دہن
حقیر و فقیر و پر تقصیر ۔۔
خاکم بہ دہن
مملکتِ خداداد پاکستان کا سپاہی
م۔م۔مغل
 

خرم

محفلین
پیارے مغل بھیا تھریڈ تو کھولا تھا لیکن بچارہ پہلے ہی سوال پر اٹک گیا۔ اگر آپ کہیں تو بات وہیں سے دوبارہ شروع کرتے ہیں جہاں تھمی تھی۔ میری اپنی نااہلی یہ رہی کہ کتب اسناد کی عدم فراہمی کی وجہ سے اس تھریڈ پر بات آگے نہیں بڑھا سکا۔ اگر آپ ساتھ دیں تو آگے بڑھتے ہیں۔
جہاں تک امریکہ کو پوتر ثابت کرنے کی بات ہے تو اس بابت صرف یہی عرض کہ مجھے امریکہ کو پوتر ثابت کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہاں ان کے معاشرہ میں پائی جانے والی بے شمار خوبیوں کا معترف ضرور ہوں اور من حیث القوم امریکہ اور دیگر تمام ممالک کے ساتھ برابر کی سطح پر تعلقات قائم رکھنے کا قائل ہوں۔ یہ بات میں یقیناً کہتا ہوں کہ پاکستان کی تمام تر خرابیوں اور ناکامیوں کے ذمہ دار پاکستانی خود ہیں اور اگر ہمیں ایک بہتر اور خوشگوار مستقبل چاہئے تو اس کے لئے ہمیں امریکہ کو نہیں پاکستان کو سدھارنا ہوگا۔
آپ سے بات کرنا ہمیشہ جی کو اچھا لگتا ہے سو جب آپ چاہیں ہم اس موضوع پر بات کرسکتے ہیں۔
 

خرم

محفلین
محسن بھیا، سروں کی فصل تو عرصہ سے کٹ رہی ہے کبھی مذہب کے نام پرتو کبھی قومیت کے نام پر۔ افسوس اس بات کا کہ جب کیکروں کی فصل کٹتی ہے تو جواباَ مزید کیکر ہی اگتے ہیں۔ اس قوم کو کٹائی کی نہیں درست دیکھ بھال اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ایک قوم بننے کی ضرورت ہے۔ اور بگاڑ کے ذمہ دار بھیا پنجابی نہیں۔ اس موضوع پر کسی اور دھاگہ میں بات کرلیں گے لیکن صرف یہ عرض کردوں کہ ایک قانون کا پابند ہوکر رہنا قابل فخر ہوتا ہے قابل مذمت نہیں۔
 

arifkarim

معطل
محسن بھیا، سروں کی فصل تو عرصہ سے کٹ رہی ہے کبھی مذہب کے نام پرتو کبھی قومیت کے نام پر۔ افسوس اس بات کا کہ جب کیکروں کی فصل کٹتی ہے تو جواباَ مزید کیکر ہی اگتے ہیں۔ اس قوم کو کٹائی کی نہیں درست دیکھ بھال اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ایک قوم بننے کی ضرورت ہے۔ اور بگاڑ کے ذمہ دار بھیا پنجابی نہیں۔ اس موضوع پر کسی اور دھاگہ میں بات کرلیں گے لیکن صرف یہ عرض کردوں کہ ایک قانون کا پابند ہوکر رہنا قابل فخر ہوتا ہے قابل مذمت نہیں۔

اگر یہ قانون مغرب یا امریکہ سے انسپائرڈ ہوں تو پھر انکا پابند ہونا یقینا قابل مذمت ہے!
 

arifkarim

معطل
پیارے مغل بھیا تھریڈ تو کھولا تھا لیکن بچارہ پہلے ہی سوال پر اٹک گیا۔ اگر آپ کہیں تو بات وہیں سے دوبارہ شروع کرتے ہیں جہاں تھمی تھی۔ میری اپنی نااہلی یہ رہی کہ کتب اسناد کی عدم فراہمی کی وجہ سے اس تھریڈ پر بات آگے نہیں بڑھا سکا۔ اگر آپ ساتھ دیں تو آگے بڑھتے ہیں۔
جہاں تک امریکہ کو پوتر ثابت کرنے کی بات ہے تو اس بابت صرف یہی عرض کہ مجھے امریکہ کو پوتر ثابت کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہاں ان کے معاشرہ میں پائی جانے والی بے شمار خوبیوں کا معترف ضرور ہوں اور من حیث القوم امریکہ اور دیگر تمام ممالک کے ساتھ برابر کی سطح پر تعلقات قائم رکھنے کا قائل ہوں۔ یہ بات میں یقیناً کہتا ہوں کہ پاکستان کی تمام تر خرابیوں اور ناکامیوں کے ذمہ دار پاکستانی خود ہیں اور اگر ہمیں ایک بہتر اور خوشگوار مستقبل چاہئے تو اس کے لئے ہمیں امریکہ کو نہیں پاکستان کو سدھارنا ہوگا۔
آپ سے بات کرنا ہمیشہ جی کو اچھا لگتا ہے سو جب آپ چاہیں ہم اس موضوع پر بات کرسکتے ہیں۔

یہ انکشاف صرف ریاست ہائے ہائے امریکہ میں رہنے والے کنوئیں کے مینڈکوں کو ہوتا ہے، جن میں سے اکثر کو یہ بھی نہیں پتا کہ عراق اور پاکستان نقشے پر کہاں ہے؟ :laugh: آخر یہ کیا بات ہے کہ صرف امریکہ میں رہنے والے پاکستانی ہی امریکہ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں؟ جبکہ خود بہت سے سفید فام امریکی، امریکہ کی خارجہ پالیسیز کے سخت خلاف ہیں۔
 

خورشیدآزاد

محفلین
پہلا حصۃ ہماری اپنی کوتاہیاں
اس بات میں بڑی حد تک حقیقت ہے کہ ہمارے کمزور اور بے ضمیر و بے کردار سیاستدان ، اقتدا کی خواہش مند فوج ، منافقت کا لبادہ اوڑھی ہوئی مذہبی سیاسی جماعتوں نے اس قوم کو مسائل اور ہولناکیوں کے جنگل میں لا کھڑا کیا ہے اور ایشو پر ایشو ہے مسائل پر مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔خود ہماری قوم کا سب سے بڑا مسئلہ بحیثیت قوم ایک اجماعتی شعور و شناخت کی کمی ہے ہم لوگ فرقوں میں جماعتوں میں اور لسانی و دیگر تعصبی گرہوں میں منقسم ہیں‌ اور یہ فروعی شناختیں‌ہماری قومی شناخت سے کہیں زیادہ دیرپا اور نمایاں وجود رکھتی ہیںاور سونے پر سہاگہ یہ کہ ان سارے مسائل سے نبر آزما ہونے کے لیے نہ کوئی رہنما ہمارے پاس ہے اور نہ رستہ۔ اسلام جو کہ اس قوم کی سب سے بڑی شناخت ہو سکتا تھا اس کی اپنی شناخت مسخ کرنی کو کوشش اغیار اور خود ہمارے اپنوں‌ کی جانب سے پے بہ پے ہورہی ہیں تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے ان کوششوں کے باوجود اسلام آج بھی اس قوم کے درمیاں سب سے بڑی قدر واحد ہے۔

اگر ہم صدق دل سے ان باتوں پر ایمان لے آئیں تو ہمارے آدھے مسائل حل ہوجائیں گے۔کیونکہ ان باتوں پر ایمان لانے کے بعد ہمیں بیماری کی اصل وجہ معلوم ہوجاتی ہے اور بیماری کا اصل علاج ہی اس کی وجوہات causes ڈھونڈنےسے ہوتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ ہمارے اخبارات و رسائل(بشمول انٹرنیٹ) اور کتابیں اٹھاکر دیکھیں تو ایسے لگتاہے ہمیں سب کچھ معلوم ہے۔ ہمیں ہمارے معاشرے اور سماج کی ہر بیماری کی وجہ اور اس کا علاج معلوم ہے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن ہم حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں۔ ہم ہمیشہ حقیقت سننا، سمجھنا اور جاننا ہی نہیں چاہتے، جو ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں ہم ان کو بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ہماری مثال اُس نشئی کی طرح ہے جو نشے کے سراب میں دنیا کی تمام تکالیف، ناکامیوں، پریشانیوں اور تلخ حقائق سے چھٹکارا حاصل کرکےاپنے آپ کو آسمانوں میں اڑتا ہوا پاتاہے اور اس سراب سےباہرتلخ حقیقت سے بھاگنے کے لیئے بار بار نشے کی گود میں پناہ ڈھونڈ تا ہے کیونکہ حقیقت تو بہت بھیانک ہے، حقیقت میں تو وہ بدبودارخستہ جسم لیےغلیظ نالوں اور کھنڈرات میں بیٹھاہے، ہاں حقیقت!! تو بہت ظالم اور تلخ ہے، حقیقت میں تو اس کی زندگی نالی میں رینگتے ہوئے کیڑے سے بدتر ہے، حقیقت میں تومعاشرہ اسےسماج کا ایک ناسور سمجھتی ہے۔ لیکن نشے کے استعمال سےوہ ان حقائق کا سامنا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ حقائق کا سامنا کرنے سے اسے سراب کی جنت سے نکل کر حقیقی دنیا میں واپس آنا ہوگاجو اسے اسکی اصل اوقات بتاتی ہے۔ جوکامیابی، عزت و توقیری کیلیئے بےباکی، محنت، بےشمار قربانیاں اور عمل مانگتی ہے۔شاید ہمیں نام نہاد “شاندار ماضی” کے نشے کا عادی بنا دیا گیاہے۔ جس نے ہمیں حقائق سے اتنا دور کردیا کہ اب ہمیں ”حقیقت“ نظر ہی نہیں آتی اورسب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ جس شاندار ماضی پر ہمیں فخر ہے اور جسکو واپس لانے کیلیئے ہم اپنے ہی لوگوں کے چھیتڑے اڑا رہے ہیں وہ ہمارا ہے ہی نہیں۔ اس سراب نے پاکستانی قوم کو شدیدترین غلط فہمی اور خوش فہمی میں مبتلا کردیاہے اور اس کے ذریعے ہماری ایسی BRAINWASHING کی گئی کہ ہم خطرناک حد تک HYPOCRITICAL ہوگئے ہیں کیونکہ ہم جو اپنے آپکوسمجھتے ہیں حقیقت میں اسکے بالکل برعکس ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں دنیا میں بنا کسی عملی کام کےعزت و توقیری اور اقوام عالم میں برتری ہمارا پیدائیشی حق ہے کیونکہ ہم مسلمان کےگھر میں پیدا ہوئے ہیں، اور اقوام عالم کوہمارا یہ حق بغیر کسی اعتراز کے دینا ہوگا۔ اور کیونکہ موجودہ وقت کی طاقتور اقوام کو معلوم ہے کہ ”ہم اور صرف ہم ہی“ اُن کی اجاداری کو ختم کرسکتے ہیں اسلیئے یہ اقوام ہم سے خوف زدہ ہیں اور ہمیں ختم کرنے کیلیئے یہ خفیہ طورپر (کھلم کھلانہیں کرسکتے کیونکہ وہ ڈرتےہیں ہماری طاقت سے) ہمارے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے ہیں اور اصل میں یہ اقوام ہی ہمارے تمام مالی، سماجی اور معاشرتی مسائل کے زمہ دار ہیں کیونکہ یہ نہیں چاہتے کہ ہم ان مسائل سے باہر نکل کران کی اجاداری کو للکاریں۔

دسرا حصۃ امریکا کے حوالے سے
جہاں تک امریکا کی پاکستان میں مداخلت کی بات ہے تو یہ تو ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کسی طرح جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے دیکھیے اگر امریکا مخالفت محض ایک جذباتی نعرہ ہو تا تو اتنے لمبے عرصہ تک اس کا اتنا موثر رہنا ممکن نہ تھا پھر یقینا بہت سارے ایسے امور ہیں جن کی بنا پر پاکستانی عوام کا ایک عمومی رویہ امریکا مخالف ہے

پاکستانی عوام کا رویہ امریکا مخالف ہے اس میں امریکہ کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ اصل مسلہ یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں لفظ ”دوست“ اور ”یار“ بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس لفظ کے ساتھ جذبات بے حد حساس ہوتے تھے اور اب بھی ہیں ۔ اب اس کو ہماری قوم کی معصومیت کہیں یا کم علمی اور پسماندگی کہ ہماری قوم ”دوستی یاری“ کے رشتوں کا مفہوم عالمی برادری کے آپسی تعلقات میں بھی بالکل ویسا ہی لیتی ہے جیسے اپنے سماج اور معاشرے میں آپسی تعلقات میں لیتی ہے۔ لیکن بین الاقوامی تعلقات عامہ میں دوستی یاری کا مفہوم ہے اپنا فاالوقتی مفاد۔ پاکستانی قوم یہ بات جتنی جلدی سمجھ جائےاس کے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔

تاہم اگر ہم پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیں تو یہ بات ضرور کھل جاتی ہیے کہ پاکستان کو امریکا نے ہمیشہ استعال کرنے کی کوشش کی ہے۔

میرے بھائی، انسانی گروہی کشمکش تو انسان کی بنیادی فطرت میں ہے۔ ہمیشہ طاقتور فریق کمزور کو استعمال کرتا ہے۔ آپ اپنے بچپن میں جھانکیں یاد کریں وہ بچپن کاگینگ ، سکول لائف کا گینگ، پھر لڑکپن میں۔ یا ابھی اپنے گلی محلے میں جائیں اور وہاں جو بچے کھیل رہے ہیں ان کا مشاہدہ کریں، آپ کوان میں دو بچے ایسے ملیں گیں جو سب پر رعب اور دبدبہ بنانے کی کوشش کریں گے اور ان کی آپس میں بالکل نہیں لگے گی۔ کہنے کا مطلب ہے جہاں انسانوں کا ایک گروہ اکھٹا ہوتا ہے وہاں آپسی مفادات کا ٹکراؤ لازم ہے۔

ہمارے ارد گرد بھی یعی ہورہا ہے۔ جو سیدھے اور معصوم ہیں اور دنیاکی حقیقت نہیں جانتے وہی سب سے زیادہ رگھڑا کھاتے اور جو دنیا کے تلخ اصول و ضوابط جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کیسے اپنے مفادات کا تحفظ بھی کریں اور حاکمِ وقت کی گڈ بک میں بھی رہیں۔

میرے بھائیو آئیے تمام فضولیات کو چھوڑ کر اس بات پر غور و فکر کریں کہ امریکہ ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین، جاپان، ساؤتھ کوریا وغیرہ ان قوموں کے ایک دوسرے ساتھ سنگین اختلافات ہونے کے باوجود یہ کیسے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اپنی ملک کی عوام کی شب وروز خدمت میں لگےہوئے ہیں؟؟

آئیے امریکہ دشمنی اور اُمت مسلمہ کی حفاظت کی ٹھیکیداری ایک طرف رکھتے ہوئے اس پر غور کریں کہ کیسے اپنی قوم کو غربت کی وجہ سے اپنے گردے اور اعضاء بییچنے سے روکیں؟ تعلیم کیسے عام کریں؟ اپنے پانی و بجلی کے مسائل کیسے حل کریں؟ قوم کے ہر فرد کو بنیادی صحت کیسے فراہم کریں؟ رشوت خوری اور اقربا پروری کا علاج کیسے کریں؟ اپنے ناقص فرسودہ تعلیمی اور آمرانہ و جاگیردارانہ سیاسی نظام سے چھٹکارہ کیسے حاصل کریں؟

آئیے چین سے سیکھیں ہم سے دس گنا زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود اپنی عوام کو غربت سے نجات دلانے کا مشن لیے ہر قسم کی عالمی تنازعات سے اپنے آپ کو دور رکھا ہوا ہے۔ پوری چینی قوم خاموشی سے بس کام کام اور کام پرلگی ہوئی ہے۔

آئیے تائیوان، جنوبی کوریا سنگاپور ملائیشیا سے سیکھیں کہ کیسےاپنے آپ کو زبانی نہیں حقیقی ایشین ٹائیگرز بنایاہے۔

زرداری صاحب نے ایک قابل تحسین قدم اٹھایاہے اور ہندوستان کے ساتھ نام نہاد مذہبی جنگ کو واپس سیاسی اختلافات کی طرف لانے کی کوشش کی ہے، ہمیں ان کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے۔ ہم بہت ہی مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور شاید یہ آخری موقع ہے ہمارے پاس اپنے آپ کو سدھارنےکا اور پاکستان بچانے کا۔

رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستان(پاکستان) مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے ترا فسانہ سب فسانوں میں
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنا دل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستان(پاکستان) والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
 

طالوت

محفلین
بھیا آپ کی ساری تحریر سے متفق لیکن بھارتی معاملے میں آپ شاید کم علمی کے باعث یا روانی میں ایسا کہہ گئے ہیں ، ذرا موجودہ صورتحال کو دیکھ پھر سے غور کیجیئے ورنہ میں وضاحت کیئے دیتا ہوں۔۔۔۔
وسلام
 

خورشیدآزاد

محفلین
طالوت بھائی یہ حق ہے کہ میں کم علم ہوں لیکن اتنا مجھے معلوم ہے کہ پاکستان کا ہندوستان کے ساتھ تنازعہِ کشمیرایک زمینی جھگڑاتھا اور ہے۔ اس کا دینِ اسلام سے اور بالواسطہ جہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو غیر کشمیری کشمیر میں ہندوستان کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ حریت پسند نہیں ہیں۔

اب اگر وہ مقامی حریت پسند نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟ اگر ہم انہیں مجاہدین یا حریت پسند کا نام دیں تو پھر بلوچستان میں غیر بلوچی جو بلوچستان لبریشن آرمی کی مدد کررہے ہیں انہیں کیا کہیں گے؟ وزیرستان اور پختونخواہ صوبے میں جو لوگ مقامی طالبان کی مدد کررہے ہیں انہیں کیا کہیں گے؟

جہاں تک ہندو مسلم فرقاوارانہ جھگڑوں یا مذہبی اختلاف کی بات ہے تو میرے خیال میں ہندو مسلم اختلاف سے کہیں زیادہ شدید اختلافات اور جھگڑے جن کو سن کر اور دیکھ کر اندر سے روح کانپ جاتی ہے ہمارے اسلامی فرقوں سنی شیعہ اور دیوبند برہلوی کے درمیان ہیں۔

طالوت بھائی پھر بات وہاں آجاتی ہے کہ کون مسلمان ہے کون ہندو کون شیعہ کون دیوبندی کون برہلوی یہ سب ہمارے مسائل نہیں ہیں بلکہ یہی چیزیں دراصل ہمیں ہمارے اصل مسائل سے defocus کردیتے ہیں اور ہم ایک ایسی فضول بحث کے دائرے میں الجھ جاتے ہیں جو پوری قوم کی اجتعماعی سوچ اور عمل کو self-constructive سے self-destructive کے طرف لے جاتی ہے کیونکہ یہ بحث نہ تو مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں اور نہ ہی ان کا حل پیش کرتی ہیں اور اصل مسائل وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں۔
 

طالوت

محفلین
طالوت بھائی یہ حق ہے کہ میں کم علم ہوں لیکن اتنا مجھے معلوم ہے کہ پاکستان کا ہندوستان کے ساتھ تنازعہِ کشمیرایک زمینی جھگڑاتھا اور ہے۔ اس کا دینِ اسلام سے اور بالواسطہ جہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو غیر کشمیری کشمیر میں ہندوستان کے خلاف لڑ رہے ہیں وہ حریت پسند نہیں ہیں۔
اس کا تعلق اسلام سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے مگر تھوڑی تحقیق اور وقت درکار ہے ۔۔۔ چونکہ ہم "فسادی جہادیوں" سے اتنے متنفر ہو چکے ہیں کہ کسی بھی قسم کے جہاد کو بغیر دلیل کے فورا رد کر دیتے ہیں ۔۔ اسلیئے مشرف کی طرح زمینی حقائق (Ground Realities) کی بات کرتے ہیں ۔۔ ہمارے لیئے یہ جنگ بہت ضروری ہے اور ہندوستان کی گزشتہ وعدہ خلافیاں اور پاکستان کو کمزور کرنے کی کوششیں خاصی لمبی فہرست رکھتی ہیں ۔۔ یہاں صرف پانی کی بات کرتے ہیں ۔۔۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت کشمیر سے نکلنے والے چھ میں سے تین دریاوں پر بھارت اور تین پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ۔۔۔ اس معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ پاکستان کے حق میں دئیے گئے دریاوں پر بھارت پانی روکے بغیر کوئی بھی منصوبہ بنا سکتا ہے ۔۔۔ بگلہیار ڈیم مکمل ہو چکا ہے ۔۔ ڈیموں کے معاملے میں یہ طے پایا تھا کہ 55 ہزار کیوسک سے زائد پانی ہونے پر وہ اپنے ڈیموں کو بھر سکتا ہے ۔۔۔ لیکن بھارت نے محض 35 سے 40 ہزار کیوسک پانی پر ہی ڈیم بھرنا شروع کر دیا ۔۔۔ اب صرف دریائے چناب پر 11 مزید ڈیموں کے منصوبے چل رہے ہیں ۔۔ اور دریائے چناب قریبا 2 کڑوڑ ایکڑ سے زائد علاقے کو سیراب کرتا ہے ۔۔۔ ذرا تصور میں لائیے کہ گیارہ ڈیموں سے آپ کی کتنی زمین کتنے مختصر عرصے میں ریگستان بنائی جا سکتی ہے یا کتنے مختصر عرصے میں کھڑی فصلوں کو پانی کے زور سے سمندر میں بھینکا جا سکتا ہے ؟؟؟ اس میں بھارت کا سابقہ رویہ سامنے رکھیئے ۔۔۔ قائد اعظم مرحوم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا اور یہ بلاشبہ ہماری شہہ رگ ہے جو ہندوستان کے قبضے میں ہے ۔۔۔ یہ صرف دریائے چناب کی بات ہے باقی دو دریاوں کا بھی یہی انجام ہوا تو صومالیہ کی تصاویر تو آپ نے دیکھ ہی رکھی ہونگی ؟؟ ورنہ تعبیر بی بی سے کہہ کر ایک پوسٹ صومالیہ کی بھی کھلوا لیتے ہیں ۔۔۔
اور یہ بھی یاد رکھیئے آپکی بی آر بی نہر جو دفاعی نہر کہلاتی ہے اور ہندوستان کے لیئے سب سے بڑے رکاوٹ ہے سوکھ رہی ہے ۔۔۔ 15 لاکھ فوج کو بی آر بی نے بھی روک رکھا ہے ۔۔۔۔

اب اگر وہ مقامی حریت پسند نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟ اگر ہم انہیں مجاہدین یا حریت پسند کا نام دیں تو پھر بلوچستان میں غیر بلوچی جو بلوچستان لبریشن آرمی کی مدد کررہے ہیں انہیں کیا کہیں گے؟ وزیرستان اور پختونخواہ صوبے میں جو لوگ مقامی طالبان کی مدد کررہے ہیں انہیں کیا کہیں گے؟
کشمیر اور بلوچستان و سرحد کی کہانی مختلف ہے جسے آپ زبردستی ایک ثابت کر رہے ہیں ۔۔۔ صرف ایک نقطہ کشمیر میں جاری (اب نہیں رہی) کاروائی صرف فوج کے خلاف ہوا کرتی تھی لیکن تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی کے لوگ بے گناہ اور نہتے افراد کا قتل عام بھی کر رہے ہیں ۔۔۔
جہاں تک ہندو مسلم فرقاوارانہ جھگڑوں یا مذہبی اختلاف کی بات ہے تو میرے خیال میں ہندو مسلم اختلاف سے کہیں زیادہ شدید اختلافات اور جھگڑے جن کو سن کر اور دیکھ کر اندر سے روح کانپ جاتی ہے ہمارے اسلامی فرقوں سنی شیعہ اور دیوبند برہلوی کے درمیان ہیں۔
بلاشبہ درست کہا لیکن ہمارے یہاں ہندو مسلم فسادات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔
طالوت بھائی پھر بات وہاں آجاتی ہے کہ کون مسلمان ہے کون ہندو کون شیعہ کون دیوبندی کون برہلوی یہ سب ہمارے مسائل نہیں ہیں بلکہ یہی چیزیں دراصل ہمیں ہمارے اصل مسائل سے defocus کردیتے ہیں اور ہم ایک ایسی فضول بحث کے دائرے میں الجھ جاتے ہیں جو پوری قوم کی اجتعماعی سوچ اور عمل کو self-constructive سے self-destructive کے طرف لے جاتی ہے کیونکہ یہ بحث نہ تو مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں اور نہ ہی ان کا حل پیش کرتی ہیں اور اصل مسائل وہیں کے وہیں رہ جاتے ہیں۔
برادر مسلم کون ہے اور کون نہیں یہ قران سے بہتر انداز میںسمجھا جا سکتا ہے ورنہ روز قیامت تو فیصلہ ہونے کو ہی ہے ۔۔۔ آپ نے اصل مسائل کی بات کی میرا خیال ہے میں نے اصل مسئلہ پیش کر دیا ہے جس پر سب کی آنکھیں بند ہیں ۔۔۔۔ آج دال آٹے کو روتے ہیں ۔۔۔ کل کو سارا ملک ہی بنجر ہو جائے گا تو پھر سے الزام دھریں جائیں گے ، اور بیٹھ کر روئیں گے ۔۔ باقی زرداری محترم اور ان کے قبیل کے سارے افراد پُھر سے اڑ جائیں گے اور میں اور آپ بیٹھ کر سوگ منائیں گے ۔۔۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ پانی ہے طالبان سے بھی بڑا ۔۔۔ لیکن حکومت و عوام آنکھیں موندے سو رہی ہے ۔۔۔۔ تو سوتے رہیئے !!!!!!! :mad::mad:
 

عمر میرزا

محفلین
آپ کی اطلاع کے ليے عرض ہے کہ يو- ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں کام کرنے کے ليے جو تنخواہ مجھے ملتی ہے وہ اس سے کہيں کم ہے جو مجھے امريکہ ميں کسی نجی کمپنی ميں کام کرنے کے عوض ملتی اور ميرے پاس اس کے مواقع موجود تھے ليکن ميں سمجھتا ہوں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم ميں کام کر کے مجھے اس بات کا موقع مل رہا ہے کہ ميں دوسرے فريق یعنی امريکہ کا نقطہ نظر بھی جان سکوں اور اپنے ہم وطنوں کو اس سے آگاہ کر سکوں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
نہ پوچھ مجھ سے لذت حانماں برباد رہنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
پیارے مغل بھیا تھریڈ تو کھولا تھا لیکن بچارہ پہلے ہی سوال پر اٹک گیا۔ اگر آپ کہیں تو بات وہیں سے دوبارہ شروع کرتے ہیں جہاں تھمی تھی۔ میری اپنی نااہلی یہ رہی کہ کتب اسناد کی عدم فراہمی کی وجہ سے اس تھریڈ پر بات آگے نہیں بڑھا سکا۔ اگر آپ ساتھ دیں تو آگے بڑھتے ہیں۔
جہاں تک امریکہ کو پوتر ثابت کرنے کی بات ہے تو اس بابت صرف یہی عرض کہ مجھے امریکہ کو پوتر ثابت کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہاں ان کے معاشرہ میں پائی جانے والی بے شمار خوبیوں کا معترف ضرور ہوں اور من حیث القوم امریکہ اور دیگر تمام ممالک کے ساتھ برابر کی سطح پر تعلقات قائم رکھنے کا قائل ہوں۔ یہ بات میں یقیناً کہتا ہوں کہ پاکستان کی تمام تر خرابیوں اور ناکامیوں کے ذمہ دار پاکستانی خود ہیں اور اگر ہمیں ایک بہتر اور خوشگوار مستقبل چاہئے تو اس کے لئے ہمیں امریکہ کو نہیں پاکستان کو سدھارنا ہوگا۔
آپ سے بات کرنا ہمیشہ جی کو اچھا لگتا ہے سو جب آپ چاہیں ہم اس موضوع پر بات کرسکتے ہیں۔


ہمممم سو جب چاہیں حکم دیکجئے ۔۔ بات شروع کرتے ہیں ۔۔
میں آج بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ کہ 98 فیصد قصور وار امریکہ ہے
2 فیصد پاکستانی عوام ۔۔ (مان لیا جائے تو) ۔۔۔ عوام کا ہمیشہ استحصال
اسی سرمایہ داری نظام اور پٹھوؤں نے کیا ہے ۔۔۔۔ بسم اللہ کیجئیے ۔
 

محسن حجازی

محفلین
یہ انکشاف صرف ریاست ہائے ہائے امریکہ میں رہنے والے کنوئیں کے مینڈکوں کو ہوتا ہے، جن میں سے اکثر کو یہ بھی نہیں پتا کہ عراق اور پاکستان نقشے پر کہاں ہے؟ :laugh: آخر یہ کیا بات ہے کہ صرف امریکہ میں رہنے والے پاکستانی ہی امریکہ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں؟ جبکہ خود بہت سے سفید فام امریکی، امریکہ کی خارجہ پالیسیز کے سخت خلاف ہیں۔

بہت ہی خوب! سبحان اللہ! ماشااللہ! درست کہا
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

دیکھیے اس وقت ہمارے ملک میں جو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور جن کا ایک مضبوط ووٹ بینک بھی وہ گنتی کی چند ایک ہی ہیں مثلا پی پی پی، مسلم لیگ ن اور ق ، ایم کیو ایم وغیرہ اب بتائے کے یہ جماعتیں کب امریکا مخالف نعرے لگاتی ہیں ؟ یہ تو ہمیشہ ہی امریکا کی حامی رہی ہیں‌


محترم،

شايد آپ نے مسلم ليگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسين کا حاليہ بيان نہيں پڑھا جس ميں انھوں نے 18 فروری کے اليکشن ميں اپنی پارٹی کی شکست کا ذمہ دار امريکہ کو قرار ديتے ہوئے اسے ايک "امريکی سازش" فرار ديا ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ حکومت کے انتخاب کا اقتدار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ پاکستانی عوام کے پاس ہے۔

http://img380.imageshack.us/my.php?image=up62kn0.gif



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 
Top