17 ویں ترمیم کا خاتمہ، پیپلز پارٹی نے سینیٹ کے انتخابات تک اپنی پالیسی بدل دی

فاروقی

معطل

پاکستان پیپلز پارٹی نے 17 ویں ترمیم ختم کرنے کی اپنی اعلانیہ پالیسی کم سے کم 2009ء میں سینیٹ کے انتخابات تک تبدیل کردی ہے۔ جمعہ کے روز اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ نے اس بات کا انکشاف کیا تھا جبکہ سنیچر کو پارٹی ترجمان فرحت اللہ بابر نے بھی اس امر کی توثیق کی۔ انہوں نے دی نیوز کو بتایا کہ جب تک سینیٹ میں حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہو جاتی، اس وقت تک متنازع 17ویں ترمیم ختم کرنے کیلئے آئینی ترمیم پیش نہیں کی جاسکتی۔ لطیف کھوسہ نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ 17 مارچ 2009ء میں سینیٹ کے انتخابات کے بعد ہی ختم کی جا سکتی ہے۔ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنی نامزدگی سے قبل آصف زرداری نے جیو نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا صدر اپنے انتخاب کے 24 گھنٹوں بعد 58 ٹو بی کا اختیار، جو 17ویں ترمیم کا حصہ ہے، واپس کردے گا۔ تاہم، صدر آصف زرداری نے اس ایشو کا سامنا ہونے کے باوجود ایسا نہیں کیا اور اس کی بجائے 1973ء کے آئین کو 12 اکتوبر 1999ء کی پوزیشن پر بحال کرنے کا عزم کرنے کی بجائے ہمیشہ کی طرح الفاظ کے ساتھ کھیلتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر آصف، جو اب بھی پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں، نے پارٹی قیادت کو اپنے خیالات سے آگاہ نہیں کیا کہ آخر وہ کرنا کیا چاہتے ہیں، غالباً لطیف کھوسہ نے زرداری کے الفاظ ادا کئے ہیں۔ ان ذریعوں میں سے ایک نے کہا، ”اب آپ دیکھئے گا کہ دوسرے بھی میڈیا سے بات چیت میں یہی الفاظ دہرائیں گے“۔ آصف زرداری، جن پر پہلے ہی اپنی جانب سے 9 مارچ 2008ء کے بعد سے کئے گئے ہر وعدے کو پشت پر ڈالنے پر تنقید کی جا رہی ہے، ان آئینی اختیارات کی وجہ سے آج ملک کے طاقتور ترین سویلین صدر ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے دورِ آمریت میں سربراہِ مملکت پر متنازع 17 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تفویض کئے گئے تھے۔ زرداری کے علاوہ، پیپلز پارٹی اور اس کی مقتول چیئر پرسن شہید بینظیر بھٹو نے بھی پارٹی کے انتخابی منشور اور میثاق جمہوریت (جس پر انہوں نے نواز شریف کے ساتھ دستخط کئے تھے) میں 17 ویں ترمیم کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو کا 1973ء کا آئین 12 اکتوبر 1999ء کی پوزیشن بحال کرنے اور معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کرکے عدلیہ کو آزاد کرنیکا مشن یکسر طور پر بھلا دیا گیا ہے۔ پارٹی کے ایک ذریعے نے کہا، ”اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ بینظیر کا مشن ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں پیپلز پارٹی کے لوگوں کو لانا تھا“۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ لوگوں کو منہ نہیں دکھا سکتے۔ تاہم، فرحت اللہ بابر نے کہا پیپلز پارٹی 17 ویں ترمیم ختم کرنے سمیت اپنے تمام وعدوں پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا، ”ہمارا موقف واضح ہے کہ 17 ویں ترمیم کو ختم ہونا چاہئے لیکن اس کے طریقہ کار اور یہ کب اور کیسے کیا جائے، اس پر غور کیا جا رہا ہے“۔ انہوں نے کہا کہ لطیف کھوسہ کا بیان اس حد تک درست ہے کہ اِس وقت حکومت کے پاس آئینی ترمیم متعارف کرانے کیلئے مطلوبہ دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ”ہم سینیٹ میں مطلوبہ تعداد کی یقین دہانی کئے بغیر ایسا آئینی پیکیج متعارف نہیں کرانا چاہتے جس میں ہمیں ناکامی ہو“۔ انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے پاکستان کشمیر کا معاملہ اس ڈر سے اقوام متحدہ میں نہیں لے جا رہا کہ شاید اسے مطلوبہ حمایت حاصل نہ ہوسکے۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان کی رائے کے برعکس، ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر آصف کو ان کے قریبی ساتھیوں، جنہیں پارٹی میں اکثر لوگ چاپلوس سمجھتے ہیں، نے مشورہ دیا ہے کہ وہ 17 ویں ترمیم کے ساتھ کام جاری رکھیں کیونکہ اسی طاقت کے ذریعے وہ بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ 17 ویں ترمیم صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے، وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو برطرف کرنے اور سروسز چیفس سمیت اہم ترین تقرر کرنیکا اختیار دیتی ہے۔ متنازع قومی سلامتی کونسل بھی اسی 17 ویں ترمیم کا حصہ ہے، جو تیسری بار وزیراعلیٰ اور وزیراعظم بننے پر پابندی بھی عائد کرتی ہے۔ اگرچہ میثاق جمہوریت اور پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور میں وزیراعلیٰ اور وزیراعلیٰ کے تیسری بار انتخاب پر پابندی ختم کرنیکی بات کی گئی ہے لیکن اب پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی دلچسپی اس میں ختم ہوچکی ہے کیونکہ اس سے پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان نہیں بلکہ اس سے نواز شریف اور شہباز شریف کو دور رکھا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اس ایشو پر تشویش تو ہے لیکن وہ محتاط بھی ہے۔

سورس
 

کاشف رفیق

محفلین
یہ کوئی قرآن کے الفاظ یا حدیث تو نہیں ہیں کہ ان میں بدلتی ہوئی صورتحال کے ساتھ تبدیلی نہ لائی جاسکے۔
 

امکانات

محفلین
اصف علی زرداری اس سترویں ترمیم کی وجہ صدر بنے ہیں اٹھاون ٹو بی نیشنل سکورٹی کونسل کی سربراہی سمیت کئی طاقت کے وسائل اس ترمیم کے باقی رہنے کی وجہ ہیں آصف علی زرداری نے کمزور صدرکہان بننا تھا جب یہ سترویں ترمیم منظور ہوئی تھی تب پی پی نےاسے جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گہونپنے کے مترادف قراردیا تھا اوراس پر ایک عرصے تک ماتم جاری رہا آج اس چھرے کو پی پی نے سینے سے لگا لیا ہے آج مولانا فضل الرحمان اسے ختم کرانے کی بات کرتے ہیں تو ان کی کوئی نہیں سنتا یہ تضاد کیوں یہ پاکستان کی اپوزیش اور حکومت کا فرق کل جب یہ اپوزیشن میں تھی تو یہ ترمیم جمہوریت کے خلاف تھی اور آج ضرورت ہے یہ جمہورت نہ ہوئی ذاتی مفاد کی ہانڈیا ہوگئی
 

دوست

محفلین
پی پی پی کو 40 سال کے بعد پھر سے مکمل اقتدار ملا ہے۔ اگلی پچھلی کسر تو نکلے گی اب۔
 

کاشف رفیق

محفلین
سب یہی کہہ رہے ہیں۔

ملک سویلین ڈکٹیٹرشپ کی جانب بڑھ رہا ہے،حمید گل

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) ممتاز تجزیہ نگار اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ریٹائرڈ) حمیدگل نے کہا کہ ملک سویلین ڈکٹیٹرشپ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پارلیمنٹ کو غیرموثر رکھنے کے اشارے مل رہے ہیں گو یا سیاسی و جمہوری قوتوں کو ایک اور جدوجہد کی تیاری کرنا ہوگی۔ اٹارنی جنرل سردارلطیف کھوسہ کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے جنرل حمید گل نے کہاکہ اس بیان سے حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ وزیراعظم اور پارلیمنٹ مکمل طور پر بے اختیار ہیں۔ تمام اختیارات صدر مملکت کے پاس ہیں۔ سیاسی اور جمہوری قوتوں کیلئے واضح پیغام ہے ۔ ان حالات میں اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے دوبارہ تحریک شروع کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ اے پی ڈی ایم غیرموثر ہوگئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں جنرل حمید گل نے بتایا ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے جرأت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے امریکی جارحیت کیخلاف موثر حکمت عملی اختیار کرنے کا بیان دیا ہے جبکہ اتحادی حکومت کی طرف سے کمزوری دکھائی جا رہی ہے۔ اس طرح فوجی اور سیاسی قیادت کے درمیان خلانظر آیا ہے۔ دراصل حکمران سیاسی بالغ نظری کا ثبوت نہیں دے رہے ہیں۔ جنگ نہ لڑنے کا بیان سیاسی کمزوری اور اعتمادکی کمی کا اظہار ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران کو اپنے بیانات کو جاری کرنے سے قبل مشاورت کرلینی چاہئے۔ جنگ نہ کرنے کی بجائے ہمارا موقف ہونا چاہئے کہ جنگ ہی واحد حل نہیں ہے لیکن ہماری مفاہمانہ پالیسی کو کمزوری نہ سمجھاجائے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فضائیہ کے طیاروں کی قبائلی علاقوں پر پروازوں سے عوام کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ اب اگلے قدم کے طور پر مسلح افواج کو قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن بندکردینا چاہئے اور انہیں سرحدوں کی حفاظت پرمعمورکیاجائے۔ اس طرح قبائلی علاقوں کے عوام کواعتماد حاصل ہوگا۔ اگر امریکی جارحیت جاری رہی تو مسلح افواج کے جوانوں میں بے چینی پھیل سکتی ہے۔
 
Top