فوج تن کر تیار ہے

دشمن کا مقابلہ کرنےکے لیے پاکستانی فوج تن کر تیار ہے اور ہر ممنکہ حملے میں نقصان دشمن کا ہی ہوگا ان شاللہ۔
قبائلی علاقہ میں بزدل‌دشمن میزائیلز پھینک رہاہے۔یہ گیڈروں کی بھپکی کی مانند ہے۔ اس دشمن کو پاکستانی فوج ان شاللہ ذلیل کردے گی۔
1355.gif

جنگ
16_17.gif
 
سیاسی بیان نہیں۔
پاکستان قوم اورفوج اپنی سالمیت کاہر ممکن دفاع کریں گی ان شاللہ
فوج اور قوم ساتھ ساتھ ہے
1100482106-2.gif


ایکسپریس
بزدل دشمن اپنی جنگ ہاررہا ہے۔ اپنی شکست خوردہ منہ دنیا کو دکھانےسے بچنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی شکست کو ٹالنے کی کوشش کررہاہے ۔ مگر پاکستان پر حملے کی صورت میں‌شکست اسکا مقدر ہے ان شاللہ۔
پاکستان جنگ نہیں‌چاہتا۔مگر دشمن جنگ پاکستان پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔
 
یہ سیاسی بیان ہی ہے۔ آج ملک کے وزیراعظم نے فرمایا کہ ہم جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور ہم امریکہ اور برطانیہ کو منا لیں گے کہ میاں تم باز آجاؤ، اب انہیں نے یہ نہیں بتایا کہ کیسے منا لیں‌ گے۔ منت کریں گے یا کچھ پیش کریں گے۔

main2.gif

اور ان ہی وزیر مملکت کا آج کا بیان ہے کہ ملکی دفاع کےلئے ضروری نہیں‌کہ تلوار اٹھائی جائے امن سے بھی ہوسکتا ہے۔ تشریح آپ خود کریں

up31.gif
 
اس میں‌کوئی تضاد نہیں ہے۔
دیکھیے جنگ کوئ اچھی چیز نہیں۔ اگر گھی سیدھی انگلیوں سےنکل جائے تو کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں۔ میری خود یہ خواہش ہے کہ کوئی جنگ نہ ہو۔ پاکستان ہر ممکن طریقہ سے جنگ سے بچنا چاہتا ہے ۔ جنگ پاکستانی معشیت کو بہت نقصان پہنچادے گی ۔ مگر جب پاکستان کی سالمیت ہی سوال ہو تو پھر ہر ممکن بن پڑا کرین گے ان شاللہ۔ یہ پیغام ہے ہر ایک کو۔ پاکستان فوج اور عوام اس معاملہ میں ایک ساتھ ہیں۔
 
ظاہر ہے کہ جنگ آخری حربہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ تباہی کا باعث ہے مگر سلطان ٹیپو کا بیان ذہن میں رہے کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک روزہ زندگی بہتر ہے۔
 

arifkarim

معطل
ہمارے پاس ایٹم بم ہے، ایک ہی بار افغان سرحد پر مار دیتے ہیں، نہ رہیں گے قبائیلی اور نہ انکے مسائل۔۔۔۔۔۔۔
 
ہمارے پاس ایٹم بم ہے، ایک ہی بار افغان سرحد پر مار دیتے ہیں، نہ رہیں گے قبائیلی اور نہ انکے مسائل۔۔۔۔۔۔۔

عارف بھائی اللہ نہ کرے جب ایٹم کے استعمال کا وقت آئے۔ بس یہ ہی دعا کیجئےگا۔ ایٹم صرف دکھانے کے دانت کی حد تک ہی ٹھیک ہے ورنہ دنیا برباد ہوجائے گی۔
 

عمر میرزا

محفلین
اس میں‌کوئی تضاد نہیں ہے۔
دیکھیے جنگ کوئ اچھی چیز نہیں۔ اگر گھی سیدھی انگلیوں سےنکل جائے تو کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں۔ میری خود یہ خواہش ہے کہ کوئی جنگ نہ ہو۔ پاکستان ہر ممکن طریقہ سے جنگ سے بچنا چاہتا ہے ۔ جنگ پاکستانی معشیت کو بہت نقصان پہنچادے گی ۔ مگر جب پاکستان کی سالمیت ہی سوال ہو تو پھر ہر ممکن بن پڑا کرین گے ان شاللہ۔ یہ پیغام ہے ہر ایک کو۔ پاکستان فوج اور عوام اس معاملہ میں ایک ساتھ ہیں۔

:beating::beating::boxing::boxing::box:
اگر سیدھی انگلیوں سے صرف گھی نکالنے کے لے جنگ کرنا پڑھے تو پھر جنگ واقعی اچھی چیز نہیں ہے۔مگر یہاں تو مسلئہ انسانی جانوں کا ہے اس حطے کی بقا اور سالمیت کے لئے ضروری ہے کہ امریکہ کے حلاف اعلان جنگ کیا جائے
 

ساجداقبال

محفلین
ہمارے پاس ایٹم بم ہے، ایک ہی بار افغان سرحد پر مار دیتے ہیں، نہ رہیں گے قبائیلی اور نہ انکے مسائل۔۔۔۔۔۔۔
مگر ایک شرط پر ایٹم بم آپ خود سے باندھ کر پھاڑیں گے اور دوسرا ذرا بارڈر تک اندر جائینگے۔ تباہی کی زیادہ سے زیادہ رینج 100 کلومیٹر ہو، کہیں ہمارا گاؤں زد میں نہ آ جائے۔
 

کاشف رفیق

محفلین
شاید یہ صرف بیان بازی نہیں ہے، درج ذیل خبر پڑھئے:

پاک فضائیہ کے طیاروں کی پہلی بار قبائلی علاقوں پرپروازیں

پشاور (جنگ نیوز) پاک فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے پہلی بار سرحدی علاقوں کی نگرانی کے لئے جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں پروازیں کیں ، کامرہ ایئر بیس سے اڑنے والے طیارے میرانشاہ، دتہ خیل، شوال اور دارمیدان شاہ میں نگرانی کرتے رہے، ذرائع نے دعوٰی کیا کہ پاک فضائیہ کی پروازوں سے امریکی جاسوس طیارہ واپس کابل جانے پر مجبور ہو گیا،دوسری جانب قبائلیوں نے اعلان کیا ہے کہ امریکا نے اگر وزیرستان پر حملہ کیا تو لاکھوں قبائل پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑیں گے،سرکاری ذرائع کے مطابق ایئر فورس کے جیٹ طیاروں نے ہفتہ کے روز جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میران شاہ، شوال، دار میدان شاہ اور دتہ خیل پر متعدد بار پروازیں کیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ پروازیں افغان سرحد تک کی گئیں ان طیاروں کی پروازوں کا مقصد فضائی حدود کی نگرانی اور امریکی جاسوس طیاروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جیٹ طیارے کامرہ ایئر بیس سے اڑے۔ پاکستانی طیاروں کی پروازوں کے باعث عوام میں پایا جانے والا خوف کسی حد تک کم ہوگیا ہے ،دیگر ذرائع کے مطابق مہمند ایجنسی کی تحصیل صافی کے علاقوں سوران درہ اور شیخ بابا پر امریکی جاسوس طیاروں نے بھی پروازیں کی ہیں۔ آن لائن کے مطابق قبائلی علاقوں میں امریکی جاسوس طیاروں کی مسلسل پروازوں کے فوراً بعد پاک فضائیہ کے ایف سولہ طیارے پاک افغان سرحد کی نگرانی اور جاسوس طیاروں کی حرکات کو مانیٹر کرتے رہے ۔ دوسری جانب امریکی جاسوس طیاروں نے ہفتہ کی دوپہر میران شاہ، ڈمہ ڈولہ، انگور اڈا اور شمالی وزیرستان پر مسلسل پروازوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ساتھ ہی پاکستانی فوج کی نقل و حرکت کی تصویر کشی بھی کی گئی۔ پاک فضائیہ کے ذرائع نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں امریکی جاسوس طیاروں کی پروازوں کے فوراً بعد پاک فضائیہ کے دو ایف سولہ طیاروں کو پاک افغان سرحد کی نگرانی اور جاسوس طیاروں کی حرکات پر نظر رکھنے کے لئے روانہ کیاگیا جس کے بعد امریکی جاسوس طیارہ دوبارہ کابل کی طرف روانہ ہوگیا۔ جبکہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز قبائلی رہنماؤں نے خبردار کیاہے کہ اگر امریکہ نے وزیرستان پر حملہ کیا تو لاکھوں قبائل پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے وطن عزیز کے چپے چپے کا دفاع کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار چیف آف وزیرستان ملک نصراللہ اور دیگر قبائلی رہنماؤں ملک قدر خان  ملک معمور  ملک محمد افضل خان  ملک ممتاز اور ملک حبیب اللہ نے میرانشاہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ قبائلی رہنماؤں نے کہا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا بیان 80 لاکھ قبائل اور 16 کروڑ پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ قبائلی عوام کی تاریخ بہادری کی داستانوں سے بھری پڑی ہے اور اگر فاٹا میں جارحیت کی گئی تو قبائل کا بچہ بچہ وطن عزیز کے دفاع کے لئے تن  من  دھن کی بازی لگا دے گا۔ قبائلی عمائدین نے خبردار کیا کہ وزیرستان پر میزائل حملوں کا سلسلہ بند کردیا جائے ورنہ قبائل لشکر کشی پر مجبور ہو جائیں گے۔ثناء نیوز کے مطابق آسٹریلوی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے فوجی حکام نے فوج کو پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف جوابی کارروائی کی اجازت دیدی ہے اخبار ”دی آسٹریلین“ کے مطابق پاک فوج کے کور کمانڈرز نے یہ حکم نامہ جمعہ کی رات کو جاری کیا ہے۔ کور کمانڈرز کی طرف سے جاری ہونے والے اس حکم نامے کے بارے میں گزشتہ رات پاک فوج کے ایک سینئر افسر نے انکشاف کیا ہے۔ یہ سینئر آفیسر ڈویژنل سطح پر فوج تعیناتی کا ذمہ دار ہے۔ اس نے اس بات کا انکشاف جی ایچ کیو میں کورکمانڈر کانفرنس کے بعد کیا ہے جب کہ پاکستانی افواج ایک لاکھ بیس ہزار کی تعداد میں پاک افغان سرحد پر تعینات ہیں۔
 

کاشف رفیق

محفلین
اب آئیں بائیں شائیں سے کام نہیں چلے گا ....حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی

پاکستان کے نقطہ ٴ نظر سے قومی منظر نامہ ہر حوالے سے زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس وقت بہت سے محاذوں پر حالات بگڑ رہے ہیں اور بظاہر ان کی اصلاح کے لئے کوئی متفقہ اور متحدہ اور مضبوط موٴقف اختیار کیا جاتا دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات جس طرح بگڑ رہے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ قومی سطح پر اس حوالے سے ایک جامع پالیسی مرتب کی جائے جس کے آثار ابھی تک ظاہر نہیں ہو رہے۔ ن لیگ کے سینئر رہنما چوہدری نثار علی خان کا یہ مطالبہ بالکل قابل فہم، بروقت اور اہم ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ صورت حال کی تمام جہتوں پر غور اور فیصلہ کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا فوری اجلاس بلایا جائے۔ ان کی تجویز ہے کہ اس اجلاس میں پارلیمنٹ یک زبان ہو کر امریکہ سے یہ وضاحت طلب کرے کہ وہ پاکستان کا دوست ہے یا دشمن۔ چوہدری صاحب نے کہا کہ حالات سنگین ہیں لیکن سیاسی حکومت خاموش ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم گیلانی واضح لائحہ عمل اختیار کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی قیادت کے بیانات اور اس کا موٴقف تب ہی موٴثر ثابت ہو سکتا ہے جب ملک کی سیاسی قیادت بھی اپنی آواز عالمی سطح پر اٹھائے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت چوہدری نثار علی خان کو اس لئے پیش آئی ہے کہ جنرل کیانی کے بیان کے باوجود سیاسی حکومت نے کیانی کے موٴقف کے حق میں کوئی مضبوط آواز بلند نہیں کی۔ وزیر اعظم گیلانی نے اگرچہ کہا ہے کہ جنرل کیانی کا بیان سیاسی حکومت کی سوچ کا بھی آئینہ دار ہے لیکن آج انہوں نے اپنے اس بیان کی جزوی تردید بھی کر دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم امریکہ سے اس کے حملوں کے حوالے سے صرف سفارتی سطح پر بات کر سکتے ہیں، جنگ نہیں کر سکتے۔ ہم مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کو ختم کر کے دم لیں گے۔ ظاہر ہے کہ سفارت کاری کے ذریعے اگر امریکہ کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا تو یہ مقصد اسی وقت حاصل ہو جاتا جب جنرل کیانی کے بیان سے پہلے حکومت پاکستان کے ایک ذمہ دار نمائندے نے امریکہ کو متنبہ کر دیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین کے اندر امریکی حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ معاصر ”دی نیوز“ کی اطلاع کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے نیٹو فورسز کو پاکستان کے اندر کارروائی کرنے کی اجازت نہ دینے سے متعلق بیان سے 5 روز قبل اسلام آباد نے امریکی انتظامیہ کو 5 ستمبر کو رسمی طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستان کے علاقے میں امریکی یا نیٹو فورسز کے کسی حملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ تین ستمبر کو پاکستان کے اندر امریکہ کے پہلے زمینی آپریشن کے بعد وزیراعظم گیلانی کے قومی سلامتی کے مشیر میجر جنرل محمود درانی نے رسمی طور پر اپنے امریکی ہم منصب اسٹیو ہیڈلے کو تحریر کرتے ہوئے انتباہ کیا تھا کہ پاکستان اپنی حدود میں کسی غیر ملکی فورس کو کارروائی کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ انتباہ آصف علی زرداری کے صدر منتخب ہونے سے ایک روز قبل کیا گیا تھا۔ دفتر خارجہ کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ حکومت پاکستان اس خط کو عوام کے سامنے لا سکتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ خط میں درانی نے امریکی انتظامیہ پر واضح کر دیا ہے کہ اتحادی فورسز کے ساتھ تعلقات کے قواعد اچھی طرح واضح ہیں اور ان میں ایسی کوئی دفعہ نہیں ہے کہ جس سے افغانستان میں موجود امریکی یا نیٹو فورسز کو پاکستان کی حدود میں کارروائی کی اجازت ملتی ہو۔اگرچہ 40 سے زائد موقعوں پر افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں اتحادی فورسز نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں میزائلوں سے حملے کئے ہیں تاہم تین ستمبر کا زمینی آپریشن منفرد تھا اور اس نے اسلام آباد میں گھنٹیاں بجا دیں۔ لہٰذا حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ واشنگٹن کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیا۔پاکستان میں اتحادی فورسز کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے اسلام آباد میں پالیسی سازوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ سنجیدگی سے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں اسلام آباد کی پالیسی کا جائزہ لیں۔
معاصر کی رپورٹ کے مطابق اگر اتحادی فورسز کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے اسلام آباد میں پالیسی سازوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ سنجیدگی سے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں اسلام آباد کی پالیسی کا جائزہ لیں تو اس کا بہترین طریقہ وہی ہے جو چوہدری نثار علی خان نے پیش کیا ہے پاکستان کی پارلیمنٹ کا موٴقف اتنا وزنی ہو گا کہ جنرل کیانی کے انتباہ کا وزن کئی گنا بڑھ جائے گا اور دنیا کو معلوم ہو گا کہ پاکستانی قوم کیا چاہتی ہے، اسے امریکہ کی پالیسی کی کن جہتوں پر اعتراض ہے اور پاکستان اور امریکہ کے لئے آیا کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا ممکن ہے جس کے ذریعے تصادم کے بغیر پالیسی کے خطوط پر اتفاق ہو سکے۔ ہمیں اس مرحلے پر یہ تلخ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے پاکستان اور امریکہ کے نقطہ ہائے نظر میں واضح تضادات ابھر چکے ہیں جس کا ایک اظہار سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے ایک سینئر خاتون افسر کے بیان سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے :
Lisa Curtis, a former senior adviser on South Asian issues in the State Department, told reporters that Pakistan's inability to dismantle "terrorist safe havens" in Fata had caused the US administration to decide "that 'enough is enough' and they needed to take these steps in order to try to take care of the problem on their own." The move, she said, could be attributed to Pakistan's attempt to forge peace deals with militants in the tribal areas recently that followed heavy causalties suffered by US-led coalition forces in Afghanistan.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی ایشیائی امور کی ایک ماہر خاتون افسر نے رپورٹروں کو بتایا ہے کہ فاٹا میں (ان کے بقول) موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے میں پاکستان کی ناکامی نے امریکی انتظامیہ کو مجبور کر دیا ہے یہ کہنے پر کہ ”بس بہت ہو چکا“ اور انہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے خود اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس خاتون نے کہا کہ اس امریکی سوچ کی ایک وجہ پاکستان کی وہ کوششیں ہیں جو وہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں سے امن مذاکرات کے لئے کر رہا ہے حالانکہ ان سے عین پہلے امریکی افواج کو افغانستان میں بہت سخت جانی نقصان ہو چکا تھا“۔
اس تبصرے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فاٹا کی صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے امریکہ اور پاکستان کی سوچ کے زاویوں میں صریح تصادم ہے۔ اس سے پاکستانی حکومت کو معلوم ہوجانا چاہئے کہ سفارتکاری کے ذریعے یہ مسئلہ اب آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے جیسا کہ وزیراعظم گیلانی اور وزیر دفاع احمد مختار نے کہا ہے۔ امریکہ سے جنگ کرنا تو کوئی بھی پاکستانی نہیں چاہتا لیکن جب امریکہ ایسے حالات پیدا کر دے جن میں جنرل کیانی کو اپنا حالیہ بیان دینا پڑا تو ہم محض سفارتکاری پر انحصار کر کے مطمئن نہیں ہو سکتے کیونکہ امریکہ کے نزدیک ہماری اور اس کی اپروچ میں نمایاں فرق بلکہ تضاد ہے۔
اندریں حالات یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ چوہدری نثار علی خان کی تجویز کے مطابق فوری طور پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جانا چاہئے (پارلیمنٹ، قومی اسمبلی اور سینٹ کے دونوں ایوانوں کو کہا جاتا ہے) اگر یہ اجلاس بلانے میں تاخیر ہوئی اور ہمارا اجتماعی ردعمل فوری طور پر سامنے نہ آ سکا تو امریکہ کو اپنی مہم جوئی سے باز رکھنا مشکل تر ہو جائے گا۔ اب پاکستان کی سویلین قیادت کو بالکل کھل کر دو ٹوک موٴقف اختیار کرنا پڑے گا اور اس کی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے اس کی ادائیگی کے لئے قوم کو تیار رہنا ہو گا۔ یقینا یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل صورتحال ہے لیکن مشکلات کا مقابلہ کوئی بھی قوم اپنے اتحاد او راتفاق اور یکجہتی سے ہی کر سکتی ہے ۔ کیا ہم یہ اتحاد اور یکجہتی فوری طور پر بروئے کار لا سکیں گے؟
ایک مراسلہ
اہل وطن کی زرپرستی پایہ ثبوت کوپہنچی !
قریہ قریہ جشن بپا ہے ۔
مبارک سلامت کہنے والوں کا اژدھام ہے۔
بڑے بڑے ملک، چوہدری، مولوی ملا، خادم، مخدوم، گھوڑے کھول کر بگھی میں جت گئے ہیں۔ اور شہنشاہ معظم کے قدموں کا بوسہ لینے کے لئے بے تاب ہیں۔ خلقت خوشی سے پاگل ہوئی جا رہی ہے لیکن اس ہجوم میں کچھ کمزور لوگ نیچے گر گئے ہیں جن میں آمنہ مسعود عافیہ صدیقی افتخار چوہدری ڈاکٹر قدیر خاں حقانی صاحب (معہ قارئین کرام) پہچانے جا رہے ہیں۔
مشرف کے جانے سے کچھ بھی تو نہیں بدلا۔
جج بے حال تھے، سو اب بھی ہیں۔
غریب نان جویں کو محتاج تھے، سو اب بھی ہیں۔
غریب پہلے بھی مارے جا رہے تھے، اب بھی مارے جا رہے ہیں۔ جادوئے محمود میں جو تاثیر پہلے تھی، اب بھی ہے۔
بھارت نے ڈاکٹر رادھا کرشنین اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسی عالمی شہرت یافتہ، سنجیدہ، باوقار شخصیات کو صدر بنا کر اس عہدے کا وقار بلند کیا اور ہم نے .........
بس قبلہ محترم !قلم توڑ دو
بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔
سارے اعمال ایک دن اپنے منطقی انجام کو پہنچتے ہیں۔
آپ کی خیریت، صحت اور طول عمر کا طالب اور دعا گو
احقر
عادل اختر
راولپنڈی کینٹ
 
ش

شوکت کریم

مہمان
ہیجڑوں سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اپنے وطن کے معصوم بچوں اور عورتوں کے مارے جانے کا انتقام لیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مملکت خداداد پاکستان کے ہیجڑہ اعظم کے بیان کے بعد بھی کسی خوش فہمی کی گنجائش رہ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا اس کو غارت کرے 20 کروڑ غیور لوگوں کے ایک لمحے میں دنیا کی ذلیل ترین قوم بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جعلی سید سے پوچھیں کیا ہم وینزویلا سے بھی گئے گذرے ہیں، کیا ہم ویت نام سے بھی گئے گذرے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم فلسطینیوں سے بھی گئے گذرے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ہیجڑہ اعظم سیدوں کے ماتھے پر کلنک کو کس نے حق دیا کہ وہ اتنی بڑی قوم کے بارے میں اتنا پست بیان دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ختم کرے یہ ہیجڑوں کی فوج جو سالوں سے ہمارا خون چوس رہی ہے اور جب وقت آتا ہے تو بے غیرت ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھ نہیں آتی کہ جرنیل کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟ یہ انہوں نے جو سینوں پر لوہا سجایا ہو تا ہے کیا انکی مسلسل بزدلی کا انعام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید زادے نے تو اپنی نسبت کی لاج اپنے اور اپنے خاندان کے خون سے رکھی اور ایک یہ سید ہے تف ہے تجھ پر تف ہے کیا سوچتے ہوں گے حسین رضی اللہ اور کیا سوچتے ہوں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ 20 کرورڑ مسلمان اور جن کا سالار ہے ایک سیدزادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ بزدلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اجی جنگیں تو قوموں کی زندگیوں میں ناگزیر ہیں اگر جہاں میں زندہ رہنا ہے تو جنگ تو کرنی پڑے گی خوشی سے کرو گے تو ورنہ مسلط کر دی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذرا تاریخ تو اٹھا کر دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کب کوئی ایسا دور تو بنائو کہ جب دنیا میں ہر جگہ امن ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساٹھ سال ہو گئے ہیں مفت کو روٹیاں توڑتے توڑتے پہلی آبادی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے مگر زمین تو وہی کی وہی ہے کیسے سب چلے گا ؟؟؟؟؟؟؟؟ جنگ کرنی نہیں کہ ممملکت کی سرحد بڑھے اور قدرتی طریقے سے آبادی متناسب ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا ہوا زلزلے آئے ، سیلاب آئے ، بھائیوں نے بھائیوں کو مارنا شروع کر دیا اورقانون قدرت اٹل ہے آبادی کی کانٹ چھانٹ ہونا تھی سو ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب مزید بھی ہو گی۔۔۔۔۔

شہید حسین رضی اللہ عنہ بھی ہوئے اور ان کے ساتھی بھی اور مرا یزید بھی اور اس کے حواری بھی مگر ایک موت کو سعادت بنا گیا اور دوسرا گالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے دوسرا راستہ منتخب کیا ہے کہ زندہ ہیں تو بزدلی کا داغ ماتھے پر سجائے ہوئے اور موت آئے گی تو بے غیرتی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عمر میرزا

محفلین
ہیجڑوں سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ اپنے وطن کے معصوم بچوں اور عورتوں کے مارے جانے کا انتقام لیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مملکت خداداد پاکستان کے ہیجڑہ اعظم کے بیان کے بعد بھی کسی خوش فہمی کی گنجائش رہ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا اس کو غارت کرے 20 کروڑ غیور لوگوں کے ایک لمحے میں دنیا کی ذلیل ترین قوم بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جعلی سید سے پوچھیں کیا ہم وینزویلا سے بھی گئے گذرے ہیں، کیا ہم ویت نام سے بھی گئے گذرے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم فلسطینیوں سے بھی گئے گذرے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ہیجڑہ اعظم سیدوں کے ماتھے پر کلنک کو کس نے حق دیا کہ وہ اتنی بڑی قوم کے بارے میں اتنا پست بیان دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج شام کے وقت جیو پر حبر چل رہی تھی کہ پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران سیکیورتی فورسسز نےآٹھ سو شر پسندوں کو ہلاک کیا گیا

ان منافقوں نے امریکیوں کے سامنے کیا کھڑا ہونا ہے یہ تو خود انہی کا کام کر رہے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
شہید حسین رضی اللہ عنہ بھی ہوئے اور ان کے ساتھی بھی اور مرا یزید بھی اور اس کے حواری بھی مگر ایک موت کو سعادت بنا گیا اور دوسرا گالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے دوسرا راستہ منتخب کیا ہے کہ زندہ ہیں تو بزدلی کا داغ ماتھے پر سجائے ہوئے اور موت آئے گی تو بے غیرتی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث مبارکہ: لڑائی داؤ پیچ کا نام ہے۔
ہمارے ملا اور فوجی ڈنڈوں اور پرانی بندوقوں سے امریکی دجالی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اور ایٹم بم کے استعمال کے بارے میں حتمی رائے یہ ہے اسے صرف اپنے مسلز دکھانے کیلئے بنایا گیا ہے، استعمال کیلئے نہیں!
ذرا سوچئے جب امریکی افواج اسلام آباد میں داخل ہوں گی تو کیا آپ انہیں‌اپنے مزائلوں‌ کی چابیاں تحفہ میں دیں گے؟
 

arifkarim

معطل
مگر ایک شرط پر ایٹم بم آپ خود سے باندھ کر پھاڑیں گے اور دوسرا ذرا بارڈر تک اندر جائینگے۔ تباہی کی زیادہ سے زیادہ رینج 100 کلومیٹر ہو، کہیں ہمارا گاؤں زد میں نہ آ جائے۔
اسکے لیے کسی خود کش حملہ آور کی ضرورت نہیں، کسی شرلی کیساتھ بم باندھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ اگر ہوا آپ کے علاقے کی طرف نہ چلی تو امید زیادہ نقصان نہیں ہوگا!
 
Top