پاکستانی معاشرہ کی تعریف کیجئے

خرم

محفلین
پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بسنے والے احباب سے میرا سوال ہے کہ وہ پاکستانی معاشرہ کی تعریف بیان کریں۔ اس میں آپ پاکستانی معاشرہ کی بنیادی اچھائیاں اور برائیاں (اگر کوئی ہوں) وہ بیان کیجئے۔ میری گزارش ہے کہ جمعہ تک احباب صرف اپنی اپنی تعریف سے آگاہ کریں۔ اس کے بعد یہ پڑتال کریں گے کہ بیان کردہ نکات میں سے کتنے درست ہیں اور من حیث القوم ہمیں اپنے معاشرہ کی ہیئت و ترکیب کا کس قدر ادراک ہے؟
تو جی پہلا نمبر کس کا ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
اگر آپ اپنے نقطہ نظر کی تھوڑی سی اور وضاحت کر دیتے تو اچھا تھا۔ کوئی ایک آدھ مثال ہی دے دیتے۔ باقی میرا جو نظریہ ہے وہ مندرجہ ذیل ہے :

ہمارا معاشرہ طبقات میں بٹا ہوا ہے اور ہر طبقے کا اپنا ہی معاشرہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی اور فرقہ واریت میں بھی بٹا ہوا ہے۔

ایک طبقے میں بیٹی کی شادی پر قرض لیکر جہیز دیا جاتا ہے، کچھ تو اس وجہ سے کہ ناک نہ کٹ جائے اور کچھ اس وجہ سے کہ سسرال کا مطالبہ ہے۔ اور ایک طبقے میں بیٹی کو پیسے لیکر شادی کے نام پر بیچ دیا جاتا ہے۔

ایک طبقہ بیٹی کو اپنے جسم کا ٹکڑا سمجھتے ہوئے بیاہتے وقت اپنی حیثیت سے زیادہ دینے کا خواہشمند ہے کہ بیٹی سسرال میں جا کر سکھی رہے اور ایک طبقہ جائیداد بچانے کے چکر میں اپنی بیٹی کو قرآن سے بیاہ دیتا ہے چاہے وہ ساری عمر گھٹ گھٹ کر مرتی رہے۔

ہمارا معاشرہ رسوم اور رواجوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ کہیں ونی کے مسائل ہیں تو کہیں غیرت کے نام پر قتل و غارت ہے۔

موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں نفسا نفسی، مہنگاہی، ناانصانی، دھاندلی، لوٹ مار اور چور بازاری عروج پر ہے۔

اچھائی تو مجھے کہیں بھی نظر نہیں آئی۔
 

خرم

محفلین
شمشاد بھائی جو کچھ آپ نے بیان کیا تقریباً یہی مقصد تھا۔ کچھ وضاحت سے عرض کردیتا ہوں کہ مقصود پاکستانی معاشرے کی ایک جامع تعریف پر پہنچنا ہے۔ سو جو کچھ بھی آپ کے تئیں پاکستان معاشرہ کی بنیادی خصوصیات ہیں وہ بیان کر دیجئے۔ آخر پتا تو چلے کہ پاکستانی معاشرہ ہے کیا؟
 

خرم

محفلین
ہاں جی، کسی کو پاکستانی معاشرہ کا علم نہیں کیا؟ مغل بھیا، سعد بھائی، خاور صاحب، عارف صاحب، محسن میاں، ظہور صاحب اور تمام صاحبان درد، کوئی تو کچھ بولے کہ یہ خاموشی جو کچھ کہہ رہی ہے وہ کافی خوفناک ہے۔
 

arifkarim

معطل
ہاں جی، کسی کو پاکستانی معاشرہ کا علم نہیں کیا؟ مغل بھیا، سعد بھائی، خاور صاحب، عارف صاحب، محسن میاں، ظہور صاحب اور تمام صاحبان درد، کوئی تو کچھ بولے کہ یہ خاموشی جو کچھ کہہ رہی ہے وہ کافی خوفناک ہے۔

اگر میں پاکستان میں‌ ہوتا تو ضرور اپنے معاشرے کے متعلق بتاتا،،، مجھے الزام نہ دیں۔۔۔۔۔
 

باسم

محفلین
مثال تو کسی نے انگریز کے بارے میں دی تھی مگر اب شاید ہم پر فٹ آرہی ہے۔
ایک آدمی تیزی سے دوڑتا ہوا جارہا تھا کسی نے دیکھا وہ بھی ساتھ ہولیا کہ شاید کوئی اہم بات ہوگئی ہے اسی طرح سب یہی سوچ کر شامل ہوتے گئے یہانتکہ بہت بڑا مجمع دوڑتا ہوا ایک جگہ جمع ہوا اب سوچنے لگے کہ کیوں جمع ہوئے ہیں تو کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی آخر پہلے شخص سے معلوم کیا گیا وہ کہنے لگا :
میں تو چہل قدمی کیلیے نکلا تھا۔
"سوچے بغیر مجمع کے پیچھے دوڑنے والے"
 

شمشاد

لائبریرین
تینےمیرے گھر کے سامنے ایک بہت بڑی چار منزلہ عمارت ہے۔ اس میں بیسیوں فلیٹ ہیں اور زمینی منزل پر سامنے کی طرف آٹھ دکانیں ہیں۔ تہ خانے میں بھی دکانیں ہیں۔ ایک دکان پر ریڈیو یا ٹیپ اتنی زور کی آواز میں بجاتے ہیں کہ ہمیں اپنے گھر میں ریڈیو کی ضرورت نہیں رہتی۔ ادھر اذان ہو رہی ہے، ادھر گانے چل رہے ہیں۔ ادھر نماز ہو رہی ہے ادھر گانے چل رہے ہیں۔ انہیں جا کر سمجھایا کہ بھائی کچھ تو خدا کا خوف کھاؤ۔ تو وہ چند ایک منٹ تک آواز آہستہ کر لیتے ہیں، اس کے بعد پھر وہی۔

مجھے کسی نے بتایا تھا کہ یورپ یا امریکہ میں کسی بھی عبادت گاہ کے سو گز کے اندر کوئی سنیما یا کلب نہیں بنا سکتے۔

راولپنڈی سٹلائٹ ٹاؤن کے کمرشل سنٹر میں مسجد کے بالکل سامنے نادر سنیما تعمیر کیا گیا تھا۔ سڑک کے ایک طرف مسجد ہے اور اس کے بالکل سامنے سنیما۔
 

بلال

محفلین
اگر پاکستانی معاشرے کی تعریف کسی غیر پاکستانی کو بتانی ہے تو میں اس کے لئے بعد میں لکھوں گا اوراگر پاکستانی معاشرے کی تعریف کسی پاکستانی کو ہی بتانی ہے تو مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے کہ واہ رے پاکستانی اسے تیری سادگی کہوں یا بیگانہ پن؟؟؟ تو گھر والا ہے یا مکان والا؟؟؟ تو کیسا انسان ہے کہ تجھے تیرے گھر کی خبر نہیں؟ اپنے گھر کی خبر تو جانور تک رکھتے ہیں ایک تو ہے کہ دیارِ غیر میں ہو یا اپنے جھونپڑے میں تجھے اپنی خبر تک نہیں۔۔۔۔
دوستو یہاں(اردو محفل) جتنے بھی پاکستانی ہیں سب کو پتہ ہے کہ ہم کیا ہیں؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہمارا معاشرہ کیسا ہے؟ ہمارا معاشرہ کس تباہی کی جانب جا رہا ہے۔ نہ آپ لوگ بے خبر ہیں نہ میں بے خبر ہوں۔۔۔ سب کو سب پتہ ہے۔۔۔ بس حال کچھ ایسا ہے کہ اکثر یا تو بے حس ہو چکے ہیں یا پھر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔۔۔ شمشاد بھائی نے پاکستانی معاشرے کو بڑی تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔۔۔ اب مزید کچھ اس بارے میں کہنے کی ضرورت نہیں رہی۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی پاکستانی کو پاکستان کے معاشرے کا علم نہیں لیکن پھر بھی اگر کسی کو نہیں پتہ تھا اسے اب تو پتہ چل گیا ہو گا۔۔۔ اب بتاؤ کیا کرنا ہے؟؟؟ کیا بے حس ہو کے جینا ہے یا آنکھیں بند کر کے موت کا انتظار کرنا ہے۔۔۔ یا ہم میں کوئی غیرت باقی ہے اور اسے استعمال کرتے ہوئے اس ملکِ پاکستان کے لئے کچھ کرنا ہے؟؟؟ دوستو میں آپ میں سے کسی کو کوئی قصوروار نہیں ٹھہرا رہا البتہ ایک دعوتِ فکر دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں پھر بھی اسی بات کو جاننے کی کوشش میں ہیں کیا کوئی عملی کام نہیں ہو سکتا اب؟؟؟ اس ملک کو بے غیرت سیاست دانوں نے کھوکھلہ کر دیا ہے۔۔۔ اس کے کچھ نوجوانوں نے اسے بدنام کر دیا ہے۔۔۔ بہت ساروں کی لالچ نے اپنوں کا خون پیا ہے۔۔۔ نظریات کے اختلاف پر بہت کو گہری نیند سلا دیا گیا ہے۔۔۔ فرقہ واریت کو مذہب کا نام دے کر نا جانے کتنے کو قتل کر دیا گیا ہے۔۔۔ نسلی، صوبائی اور نہ جانے کون کون سے تفرقات ڈال کر اپنوں کو اپنوں سے الگ کر دیا گیا ہے۔۔۔ نوجوانوں کو سکالر یا سائنسدان بنانے کی بجائے یا تو روٹی کی تلاش میں لگا دیا گیا ہے یا پھر اس دنیا کو تباہ کرنے کے لئے خود کش بنا دیا ہے۔۔۔ ظالموں نے نوجوانوں کے ہاتھوں سے اپنے ہی بے گناہ معصوم بھائیوں کو مروایا ہے۔۔۔ اور یہ سب کام آج تک چل رہے ہیں۔۔۔ کیا انہیں کوئی روکنے والا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اب تو اس ملک کو مزید تماشہ نہ بناؤ۔۔۔ اب تو ہوش میں آؤ۔۔۔ کچھ کرو۔۔۔ عملی میدان میں اترو۔۔۔ کسی کا انتظار کئے بغیر خود کام کرو۔۔۔ باتوں کے بہت پہاڑ بن چکے ہیں۔۔۔ اب عملی میدان میں کودنے کا وقت ہے۔۔۔ اس ملک کی عوام کی تربیت کا وقت ہے۔۔۔ بچوں اور نوجوانوں کو تعلیم دینے کا وقت ہے۔۔۔ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت کرنے اور اعلٰی رتبہ دینے کا وقت ہے۔۔۔ غریبوں کی مدد کا وقت ہے۔۔۔ پاکستان کے لئے ٹھیک حکومت چننے کا وقت ہے۔۔۔ خدارا اب ہوش میں آؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ
یااللہ تو رحم کر۔۔۔ یااللہ تو رحم کر۔۔۔ یااللہ تو رحم کر۔۔۔
اے میرے اللہ پاکستان کے نوجوان کو ہدایت دے، ہمت دے، جوش دے، لگن دے، اپنوں سے محبت کرنا سیکھا دے۔۔۔
میرے اللہ ہم سب کو پاکستان کی بہتری کرنے کی توفیق دے۔۔۔
یااللہ ہم سب کو سیدھی راہ دکھا۔۔۔آمین۔۔۔آمین۔۔۔آمین۔۔۔
 
ہر معاشرہ اور قوم میں خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔ اب اگر ہماری خامیاں بڑھ گئی ہیں تو اب کیا ہماری ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ ہم دور بیٹھ کر تنقید کرتے رہیں؟ ایک لوگ وہ ہوتے ہیں جو صرف تنقید کرنے تک محدود رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو تنقید کے بعد ایک قدم آگے بڑھ کر اصلاح کا فرض بھی نبھاتے ہیں۔ ہاں، ہمارے معاشرہ کی خامیاں کافی بڑھ گئی ہیں۔

یقینا
۔۔۔۔۔ ہم لوگ فرقہ واریت، لسانی اور علاقائی تعصبات میں گھرے ہیں،
۔۔۔۔۔ ہم لوگ غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاموں میں پھنسے ہیں،
۔۔۔۔۔ ہم اخلاقی، معاشرتی اور سماجی لحاظ سے پستی کا شکار ہیں،

لیکن
۔۔۔۔۔ یہی معاشرہ ہے جو ہمدردی کا احساس بھی رکھتا ہے،
۔۔۔۔۔ یہی قوم ہے جس میں ایک دوسرے کی پرواہ کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں،
۔۔۔۔۔ یہی لوگ ہیں جن کی اکثریت امن پسند ہے اور "جیو اور جینے دو" کے اصول پر جینا چاہتی ہے،

پھر
۔۔۔۔۔ اس معاشرہ کے لوگ متشدد کیوں ہیں؟
۔۔۔۔۔ یہ معاشرہ بے حس کیوں ہوتا جارہا ہے؟
۔۔۔۔۔ ہمارا معاشرہ بگاڑ کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟

اس لیے کہ
۔۔۔۔۔ اسلام کے نام پر کی جانے والی تربیت یہاں کے لوگوں کو گمراہ اور انتہاپسند بنارہی ہے،
۔۔۔۔۔ قانونی حق کا حصول دشوار اور غیرقانونی کام آسان ہوگیا ہے،
۔۔۔۔۔ یہاں یہ اصول رواج پارہا ہے کہ مجھے کھانے کو مل گیا تو سمجھو سب کو کھانے کو مل گیا اور مجھے نہیں ملتا تو تجھے کیوں ملا؟

اس معاشرہ کی ضرورت
یہ صرف تین، تین نکات ہی نہیں۔۔۔ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔ یہ صرف مسئلہ کی طرف اشارہ کے لیے ہیں۔ خرم بھائی سوچتے ہیں کہ پاکستان آکر اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہیں تو کچھ نتیجہ نکلے گا بھی یا نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق؟ صحیح سوچتے ہیں بالکل۔ کچھ لوگ ایسے بھی سوچتے ہیں کہ یہ قوم سدھرنے والی نہیں، بھاڑ میں جائے، اپنا جیو۔ شاید وہ بھی اپنی جگہ صحیح سوچتے ہوں۔ لیکن اس قوم کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے۔۔۔ اچھے راہنماؤں کی۔۔۔ یقین جانئے، اس قوم کو، اس معاشرہ کو اگر اچھے راہنما اور مصلح میسر آجائیں نا تو ہم جو دور بیٹھ کر انگلیاں اٹھاتے ہیں، کل کو خوبیاں گنوائیں گے ان شاء اللہ۔

تنقید آسان، اصلاح مشکل
آج اگر میں اٹھ کر یہ کہتا ہوں کہ میں اس قوم کی اصلاح کے لیے آواز اٹھاتا ہوں، حق بات کہوں گا تو جانتے ہیں، یہاں ایک بندہ شاید مری مری آواز میں میرا حوصلہ بڑھاتا ہے اور نو بندے یہ کہتے ہیں کہ پاگل ہوا ہے۔ لیکن اگر میں اس معاشرہ کی کسی خامی پر تنقید کے لیے ایک جملہ کہوں گا نا تو جواب میں دس آوازیں نہ صرف میری تائید کریں گی بلکہ تنقید کی گولہ باری شروع ہوجائے گی۔ یعنی ہمیں گالیاں دینے کو بٹھادو، ڈنڈے مارنے کو بٹھادو تو یہ کام اچھا ہے لیکن ہم نے نہ سدھرنا ہے نہ کسی کو سدھرنے دینا ہے۔

ایک بڑا ماہر مصور تھا۔ اس نے ایک شاندار تصویر بنائی اور سرعام لٹکادی کہ اس کی غلطیاں بتائیں۔ بس، پھر تو لوگوں نے ڈھیر لگادیا۔۔۔ ہر جگہ نشانات کہ یہاں غلطی، یہاں غلطی۔۔۔ اس مصور نے ایک اور تصویر بنائی اور لکھا کہ اس میں کوئی غلطی ہو تو اصلاح کریں۔۔۔ کسی ایک نے بھی نہ چھیڑا۔

سبق؟؟؟ ہم اس معاشرہ کو گند بھی کہتے ہیں، کیچڑ بھی کہتے ہیں۔۔۔ تو صفائی کرنے کے لیے کیا آسمان سے کوئی آئے گا؟ ہم ہی نے کرنی ہے نا۔۔۔ یہ نہ دیکھیں کہ ابھی آپ کا ساتھ کون دے رہا ہے۔۔۔ پہلا قدم اٹھائیں۔۔۔ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا​
لیکن اپنے آپ کو اس قوم اور معاشرہ کا ہمدرد کہنے والو۔۔۔ ذرا آگے آؤ تو سہی۔۔۔ اس قوم کو اپنے دل کی آواز سناؤ تو سہی۔۔۔ یہ لوگ جو لٹیروں کے بڑے بڑے جرائم تین سالوں میں بھول بھال کر ان کے نعرے مارنے لگتے ہیں، کیا تمہیں نہیں اپنائیں گے؟ بالکل ابتداء سے شروع کرتے ہیں۔۔۔ اس معاشرہ کی خامیوں، غلطیوں اور بگاڑ کی اصلاح کا عمل۔۔۔ یہ طے کیے بنا کہ آگے کیا ہونا ہے یا انجام کیا ہوگا؟ صرف پہلے قدم پر توجہ رکھیں۔۔۔ اور پہلے قدم کے بعد اگلے قدم کی طرف۔۔۔ بھول جائیں کہ دس قدم کے بعد کیا ہونا ہے۔۔۔ کیونکہ دس قدم کے بعد والی باتیں ابھی سے سوچیں گے نا تو بس سوچتے ہی رہیں گے۔۔۔ بہت سوچ چکے ہیں۔۔۔ بہت سوچکے ہیں۔۔۔ بہت کھوچکے ہیں۔۔۔ خواب کافی دیکھ لیے۔۔۔۔
اٹھ! باندھ کمر، کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے​

فقط
ایک محب الوطن
 

مغزل

محفلین
ہاں جی، کسی کو پاکستانی معاشرہ کا علم نہیں کیا؟ مغل بھیا، سعد بھائی، خاور صاحب، عارف صاحب، محسن میاں، ظہور صاحب اور تمام صاحبان درد، کوئی تو کچھ بولے کہ یہ خاموشی جو کچھ کہہ رہی ہے وہ کافی خوفناک ہے۔

جناب میں نے یہ تھریڈ ابھی دیکھا ہے ۔۔
کوئی خود کار طریقہ اگر ہے تو مجھے نہیں معلوم کہ ہرمراسلہ کی بابت مجھے خبر ہو۔
بہر کیف شمشاد صاحب فرما چکے ۔۔ مجھے اختلاف نہیں۔۔۔
بات ختم۔۔
ایک تھریڈ میں شروع کررہا ہوں۔ ’’ جواب آں‘‘۔۔۔ آپ اپنے (یعنی امریکی) معاشرے کا تعارف پیش کیجیے گا۔۔:grin:
 

مغزل

محفلین
ہر معاشرہ اور قوم میں خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں۔ اب اگر ہماری خامیاں بڑھ گئی ہیں تو اب کیا ہماری ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ ہم دور بیٹھ کر تنقید کرتے رہیں؟ ایک لوگ وہ ہوتے ہیں جو صرف تنقید کرنے تک محدود رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو تنقید کے بعد ایک قدم آگے بڑھ کر اصلاح کا فرض بھی نبھاتے ہیں۔ ہاں، ہمارے معاشرہ کی خامیاں کافی بڑھ گئی ہیں۔

یقینا
۔۔۔۔۔ ہم لوگ فرقہ واریت، لسانی اور علاقائی تعصبات میں گھرے ہیں،
۔۔۔۔۔ ہم لوگ غیر قانونی اور غیر اخلاقی کاموں میں پھنسے ہیں،
۔۔۔۔۔ ہم اخلاقی، معاشرتی اور سماجی لحاظ سے پستی کا شکار ہیں،

لیکن
۔۔۔۔۔ یہی معاشرہ ہے جو ہمدردی کا احساس بھی رکھتا ہے،
۔۔۔۔۔ یہی قوم ہے جس میں ایک دوسرے کی پرواہ کرنے والے لوگ پائے جاتے ہیں،
۔۔۔۔۔ یہی لوگ ہیں جن کی اکثریت امن پسند ہے اور "جیو اور جینے دو" کے اصول پر جینا چاہتی ہے،

پھر
۔۔۔۔۔ اس معاشرہ کے لوگ متشدد کیوں ہیں؟
۔۔۔۔۔ یہ معاشرہ بے حس کیوں ہوتا جارہا ہے؟
۔۔۔۔۔ ہمارا معاشرہ بگاڑ کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے؟

اس لیے کہ
۔۔۔۔۔ اسلام کے نام پر کی جانے والی تربیت یہاں کے لوگوں کو گمراہ اور انتہاپسند بنارہی ہے،
۔۔۔۔۔ قانونی حق کا حصول دشوار اور غیرقانونی کام آسان ہوگیا ہے،
۔۔۔۔۔ یہاں یہ اصول رواج پارہا ہے کہ مجھے کھانے کو مل گیا تو سمجھو سب کو کھانے کو مل گیا اور مجھے نہیں ملتا تو تجھے کیوں ملا؟

اس معاشرہ کی ضرورت
یہ صرف تین، تین نکات ہی نہیں۔۔۔ اس سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔ یہ صرف مسئلہ کی طرف اشارہ کے لیے ہیں۔ خرم بھائی سوچتے ہیں کہ پاکستان آکر اس ملک کے لیے کچھ کرنا چاہیں تو کچھ نتیجہ نکلے گا بھی یا نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق؟ صحیح سوچتے ہیں بالکل۔ کچھ لوگ ایسے بھی سوچتے ہیں کہ یہ قوم سدھرنے والی نہیں، بھاڑ میں جائے، اپنا جیو۔ شاید وہ بھی اپنی جگہ صحیح سوچتے ہوں۔ لیکن اس قوم کو صرف ایک چیز کی ضرورت ہے۔۔۔ اچھے راہنماؤں کی۔۔۔ یقین جانئے، اس قوم کو، اس معاشرہ کو اگر اچھے راہنما اور مصلح میسر آجائیں نا تو ہم جو دور بیٹھ کر انگلیاں اٹھاتے ہیں، کل کو خوبیاں گنوائیں گے ان شاء اللہ۔

تنقید آسان، اصلاح مشکل
آج اگر میں اٹھ کر یہ کہتا ہوں کہ میں اس قوم کی اصلاح کے لیے آواز اٹھاتا ہوں، حق بات کہوں گا تو جانتے ہیں، یہاں ایک بندہ شاید مری مری آواز میں میرا حوصلہ بڑھاتا ہے اور نو بندے یہ کہتے ہیں کہ پاگل ہوا ہے۔ لیکن اگر میں اس معاشرہ کی کسی خامی پر تنقید کے لیے ایک جملہ کہوں گا نا تو جواب میں دس آوازیں نہ صرف میری تائید کریں گی بلکہ تنقید کی گولہ باری شروع ہوجائے گی۔ یعنی ہمیں گالیاں دینے کو بٹھادو، ڈنڈے مارنے کو بٹھادو تو یہ کام اچھا ہے لیکن ہم نے نہ سدھرنا ہے نہ کسی کو سدھرنے دینا ہے۔

ایک بڑا ماہر مصور تھا۔ اس نے ایک شاندار تصویر بنائی اور سرعام لٹکادی کہ اس کی غلطیاں بتائیں۔ بس، پھر تو لوگوں نے ڈھیر لگادیا۔۔۔ ہر جگہ نشانات کہ یہاں غلطی، یہاں غلطی۔۔۔ اس مصور نے ایک اور تصویر بنائی اور لکھا کہ اس میں کوئی غلطی ہو تو اصلاح کریں۔۔۔ کسی ایک نے بھی نہ چھیڑا۔

سبق؟؟؟ ہم اس معاشرہ کو گند بھی کہتے ہیں، کیچڑ بھی کہتے ہیں۔۔۔ تو صفائی کرنے کے لیے کیا آسمان سے کوئی آئے گا؟ ہم ہی نے کرنی ہے نا۔۔۔ یہ نہ دیکھیں کہ ابھی آپ کا ساتھ کون دے رہا ہے۔۔۔ پہلا قدم اٹھائیں۔۔۔ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا​
لیکن اپنے آپ کو اس قوم اور معاشرہ کا ہمدرد کہنے والو۔۔۔ ذرا آگے آؤ تو سہی۔۔۔ اس قوم کو اپنے دل کی آواز سناؤ تو سہی۔۔۔ یہ لوگ جو لٹیروں کے بڑے بڑے جرائم تین سالوں میں بھول بھال کر ان کے نعرے مارنے لگتے ہیں، کیا تمہیں نہیں اپنائیں گے؟ بالکل ابتداء سے شروع کرتے ہیں۔۔۔ اس معاشرہ کی خامیوں، غلطیوں اور بگاڑ کی اصلاح کا عمل۔۔۔ یہ طے کیے بنا کہ آگے کیا ہونا ہے یا انجام کیا ہوگا؟ صرف پہلے قدم پر توجہ رکھیں۔۔۔ اور پہلے قدم کے بعد اگلے قدم کی طرف۔۔۔ بھول جائیں کہ دس قدم کے بعد کیا ہونا ہے۔۔۔ کیونکہ دس قدم کے بعد والی باتیں ابھی سے سوچیں گے نا تو بس سوچتے ہی رہیں گے۔۔۔ بہت سوچ چکے ہیں۔۔۔ بہت سوچکے ہیں۔۔۔ بہت کھوچکے ہیں۔۔۔ خواب کافی دیکھ لیے۔۔۔۔
اٹھ! باندھ کمر، کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے​

فقط
ایک محب الوطن

عمار بھیا ۔۔۔ مولا سلامت رکھے ۔۔ جی خوش کردیا
 

مغزل

محفلین
ویسے موصوف خیال کررہے تھے ۔۔ کہ ہم حقائق سے آنکھیں چرا کر ۔۔۔لگی لپٹی تعاریفیں کریں گے۔۔۔۔۔۔:grin:
 
ماشاءاللہ ۔۔۔بہت زبردست عمار ۔۔۔ اللہ تعالی آپ کو خوش رکھے اور عمر داز عطا فرمائے ۔آمین
اور ہمیں اپنے پیارے ملک پاکستان کی محبت اور اسے ہر طرح کی خامیوں سے پاک کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمار نے جو لکھا ہے بہت اچھا لکھا ہے۔ لیکن یہ سارے مفروضے ہیں جو ہم چاہتے ہیں، یہ ہمارے خواب ہیں جن کی ہم تعبیر چاہتے ہیں۔ یہ ہماری خواہشیں جن کی تکمیل چاہتے ہیں۔ تو کیا ہم صرف چاہتے ہی رہیں گے، خواب ہی دیکھتے رہیں گے۔ خواہشیں ہی کرتے رہیں گے۔ بات یہ ہو رہی ہے کہ موجودہ معاشرہ کیا ہے۔ تو دوستو موجودہ معاشرے میں ہر کوئی ایک خوف میں مبتلا ہے، ایک ہراس ہے جو ہر طرف چھایا ہوا ہے۔ کہ نجانے کس وقت کیا ہو جائے۔ کوئی بھی اپنے آپ کو محفوظ خیال نہیں کرتا، نہ غنڈہ گردی سے نہ قانون سے۔ ہر کوئی ڈر میں ہے کہ نجانے کب کوئی آپ کا پرس چھین لے، آپ سے موبائیل چھین لے، آپ کی گاڑی یا موٹر سائیکل چھین لے۔ مزاحمت کی صورت میں جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ سوائے اپنے جاننے والوں کے آپ کسی دوسرے پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ کیوں آخر کیوں؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں نے اس دھاگے کو آج ہی دیکھا ہے میں بھی اس پر لکھنا چاہتا ہوں انشاءاللہ کل لکھ کر لاؤں گا آج میں نے اس دھاگے کا پرینٹ لے لیا ہے سارا پڑھ کر پھر جواب دوں گا شکریہ خرم سینیئر صاحب
 
یہی تو بات ہے بھائی جان! ہر ایک اس بکھرتے معاشرے کو دیکھ رہا ہے۔۔۔ لوگوں کی ٹوٹتی ہمتوں کا مشاہدہ کررہا ہے لیکن اس ملک کی خاطر اپنی جان لٹانے والوں نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا، اس خواب کی تعبیر حاصل کرنا ان جانبازوں، ان شہیدوں کی نسلوں پر ہی عائد ہوتی ہے نا۔۔۔ اجنبی کی بات تو دور، یہاں تو لوگ اپنوں پر بھی بھروسہ کرتے ہوئے جھجکتے ہیں۔ پر مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ اگر اس قوم کو اچھے راہنما یا مصلح میسر آجائیں تو نقشہ بہت بدل جائے گا۔
خرم بھائی! اس معاشرہ کی اصلاح کے لیے یہاں آنا فرض نہیں ہے۔۔۔ اگر کوئی شخص باہر رہ رہا ہے یا اس کی اپنی ضروریات ہیں تو وہ انہیں بالکل نبھائے، وہاں رہ کر بھی اپنے ملک اور اس کے لوگوں کا نہ صرف خیال رکھا جاسکتا ہے بلکہ بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔
سب پہلی بوند کا انتظار کرتے ہیں، اور ایک بوند اگر ہمت کرلے تو پھر بوندا باندی، پھوار میں اور پھوار، موسلا دھار بارش میں بدل جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اکسٹھ سال سے ہم کیا پہلے قطرے کا ہی انتظار کر رہے ہیں؟ ابھی 14 اگست آنے والی ہے۔ سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے جھنڈیوں اور روشنیوں پر خرچ کر دیئے جائیں گے چہ جائیکہ لوڈ شیڈنگ کی مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ ابھی کیا میرا معاشرہ مزید اتنے ہی سال کسی مخلص مصلح، کسی محب وطن رہنما کا ہی راستہ دیکھتا رہے گا۔ جو گزر گیا سو گزر گیا، کل کیا ہو گا کون جانے، ہمارے سامنے فی الحال حال ہے اور حال یہ ہے کہ بدحال ہیں۔
 
ہم پہلی بوند کا انتظار کیے جارہے ہیں نا، خود پہلی بوند بننے کو تیار نہیں ہیں۔ اور اگر کوئی ہمت کرنا چاہتا بھی ہے نا تو اس کو واپس پیچھے کھینچ لیتے ہیں کہ بھئی، کہاں جاتے ہو؟ سیاست تو گند ہے، دلدل ہے۔۔۔ یعنی پہلے لٹیروں کے حوالہ کیا ملک اور اب کہتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں، لٹیرے قابض ہیں۔۔۔ اپنی خامیوں کو چھپانے کے لیے وجہ تراش رکھی ہے۔
 
Top