آپ کی کیا رائے ہے؟

آپ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کے متعلق کیسی رائے رکھتے ہیں؟


  • Total voters
    19
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

بنتِ حوا

محفلین
یہ میرا خیال ہے ک؂2001 یا 2002 کے مئی کی بات ہو گی کہ میرے ایک دوست جو منھاجی ہیں مجھے اپنے ساتھ گوجر خان ڈاکٹر صاحب کے جلسے میں لے گئے ظہر، اور عصر ہماری بھی اور ڈاکٹر صاحب کی مشترکہ طور پر قضا ہوئی اور مغرب سے کچھ دیر پہلے ڈاکٹر صاحب کی تقریر شروع ہوئی، اتنی دیر میں مغرب کی اذان شروع ہو گئی، لوگ اٹھنے لگے تو ڈاکٹر صاحب جذباتی انداز میں فرمانے لگے" بیٹھو بیٹھو، میں یہ مسئلہ سمجھتا ہوں میرے پاس حوالے موجود ہیں بس پانچ منٹ میں بات مکمل کرنے لگا ہوں" اذان بھی ہوتی رہی اور ڈاکٹر صاحب بھی لگے رہے۔

اور قریباً آدھا گھنٹا مزید اسی طرح گزر گیا۔

آپ کی اس بات سے انہوں نے ایک قرآن کی مخالفت کی ہے اور ایک حدیث کی۔۔۔
حدیث کی یہ کہ جب اذان ہو رہی ہو تو ہمیں اذان کا جواب دینے کا حکم ہے۔۔۔اور قرآن کی یہ کہ قرآن کہتا ہے کہ 'تم پر نمازیں اپنے مقررہ وقت پر فرض ہیں۔۔۔
 
اگر آیت کا ریفرنس ہو تو بہت اچھا ہوتا ہے۔ نبیل نے آیات کے ریفرنس کا بہت اچھا انتظام اس ایڈیٹر میں‌کیا ہے۔ آپ عربی کے بعد آیت کا بٹن دیکھ سکتے ہیں۔

اس مکمل آیت کا حوالہ:
[ayah]4:103[/ayah] پھر جب تم ادا کرچکو نماز تو یاد کرتے رہو اللہ کو کھڑے بیٹھے اور اپنے پہلوؤں کے بل (ہر حال میں) پھر جب خوف دُور ہوجائے تمہارا تو قائم کرو نماز، بےشک نماز ہے مومنوں پر فرض پابندی وقت کے ساتھ۔


ذہن میں رکھئے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ کوئی بھی خطا ایک انسان اور اللہ کے درمیان ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی خدمات بے تحاشہ ہیں۔ ہمیں ان پر نظر رکھنی چاہئیے۔ اللہ ان کے کام میں‌برکت دے۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
یہ میرا خیال ہے ک؂2001 یا 2002 کے مئی کی بات ہو گی کہ میرے ایک دوست جو منھاجی ہیں مجھے اپنے ساتھ گوجر خان ڈاکٹر صاحب کے جلسے میں لے گئے ظہر، اور عصر ہماری بھی اور ڈاکٹر صاحب کی مشترکہ طور پر قضا ہوئی اور مغرب سے کچھ دیر پہلے ڈاکٹر صاحب کی تقریر شروع ہوئی، اتنی دیر میں مغرب کی اذان شروع ہو گئی، لوگ اٹھنے لگے تو ڈاکٹر صاحب جذباتی انداز میں فرمانے لگے" بیٹھو بیٹھو، میں یہ مسئلہ سمجھتا ہوں میرے پاس حوالے موجود ہیں بس پانچ منٹ میں بات مکمل کرنے لگا ہوں" اذان بھی ہوتی رہی اور ڈاکٹر صاحب بھی لگے رہے۔

اور قریباً آدھا گھنٹا مزید اسی طرح گزر گیا۔
امر اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے قصدا نماز قضا کی ۔۔
کیا اس بات کا کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس تو مہیا کیجیے ۔۔ یہ بڑی اہم بات ہے ۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اس بات سے قطعہ نظر کےیہ رائے شماری کس سلسلے میں‌ ہے میرا خیال ہے کہ رائے شماری کے لئے اتنے محدود options بھی مناسب نہیں کہ لوگ آپ کی تائید پر مجبور ہو جائیں۔

معذرت کے ساتھ!
 

امر شہزاد

محفلین
امر اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے قصدا نماز قضا کی ۔۔
کیا اس بات کا کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس تو مہیا کیجیے ۔۔ یہ بڑی اہم بات ہے ۔۔

جی میں خود چشم دید گواہ ہوں اور مجھے نہیں پتہ کہ اس جلسے کی منھاجیوں نے ویڈیو بنائی ہے کہ نہیں ، ایسا مشکل بھی نہیں ہے، میں چیک کر لوں گا۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
بھئی انتہا ہے جہالت کی بھی ۔ ۔ ۔ آیت جو پیش کی گئی ہے اس سےکسی بھی نماز کے ابتدائی وقت سے لیکر اس کے انتہائی وقت تک کے اندر اندر نماز ادا کرلینے کا حکم مراد ہے یعنی کسی بھی نماز کے لیے وہ مقررہ وقت کہ جس کے ابتدائی اور انتہائی وقت کی نشاندہی خود قرآن وسنت نے مقرر کردی ہو نہ کہ اس آیت سے مراد شریعت کے مقرر کردہ وقت مقررہ کے اندر اندر کسی بھی مسجد میں نمازیوں کی سہولت کے لیے جو اوقات مقرر کیے جاتے ہیں انکی پابندی کرنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ بات بھی بدیہی ہے کہ بعض نمازوں کے مقررہ اوقات طویل ہیں جیسے عشاء کا وقت کے کافی دیر تک رہتا ہے اور بعض نمازؤں کے اوقات قلیل ہیں جیسے مغرب کا وقت کہ کم از کم پاکستان میں ڈیڑھ گھنٹہ تک رہتا ہے ۔ ۔
اگر موصوفہ بنت حوا کی پیش کردہ آیت کو انکا فتوٰی مان لیا جائے جو کہ انھوں نے قرآن و سنت میں اپنی ذاتی رائے کے دخل سے صادر فرمایا ہے تو پھر اسکی زد میں توتمام مکاتب فکر کی تمام مساجد کے ائمہ اور نمازی آجائیں کہ ہر ہر علاقے میں ہر ہر نماز کے لیے نمازیوں کی سہولت کے مطابق وقت مقررہ کے اندر اندر ہی مختلف اوقات متیعن ہوتے ہیں کہیں کوئی نماز 15 منٹ پہلے پڑھی جاتی تو کہیں آدھا گھنٹہ تاخیر سے ۔ ۔ ۔
جبکہ واقعہ جو کوڈ کیا گیا ہے اس میں مغرب کی نماز میں ڈاکٹر صاحب کا تاخیر کرنا بیان ہوا ہے جو کہ ہرگز قابل تحسین نہیں اتنے بڑے عالم دین کو اس قسم کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے قرآنی حکم کی مخالفت کی ہے یا نماز کو قضا کردیا کیونکہ نماز مغرب کاوقت صرف آدھا گھنٹہ تو نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں تعصب کی بجائے کسی بھی معاملے میں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین
 

شمشاد

لائبریرین
جہالت کی انتہاء نہیں ہے، بلکہ یہ بالکل صحیح ہے اور قرآن سے ثابت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ بےشک نماز ہے مومنوں پر فرض پابندی وقت کے ساتھ۔

اس میں آپ اور میں کمی بیشی نہیں کر سکتے۔ ہاں کسی کی نماز کسی وجہ سے اول وقت میں قضا ہو گئی ہو، وہ جماعت سے ادا نہ کر سکا ہو تو اس کے لیے یہی چھوٹ ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے نماز ادا کر لے۔ یہ نہیں کہ اذان تو تین بجے ہوئی اور جماعت چار بجے ہو گی۔

یہ پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ ایک ہی شہر میں نمازوں کے مختلف اوقات ہوتے ہیں، اور تو اور فجر کی اذانیں ہی آدھ گھنٹہ تک ہوتی رہتی ہیں۔ جبکہ یہاں پورے شہر میں کسی بھی نماز کی ایک ہی وقت میں اذان ہوتی ہے۔

پاکستان میں ایک ہی شہر میں جمعہ کی نماز کے بھی مختلف اوقات ہوتے ہیں کہ دو گھنٹے تک جمعہ کی نماز ہوتی رہتی ہے۔ جبکہ جمعہ کی نماز کا بھی وہی وقت ہوتا ہے جو ظہر کی نماز کا ہوتا ہے۔ خطبے کی وجہ سے یہاں زیادہ سے زیادہ دس منٹ کی تاخیر کی جاتی ہے۔

اور یہ موصوفہ بنت حوا کی پیش کردہ آیت کو انکا فتوٰی مان لیا جائے جو کہ انھوں نے قرآن و سنت میں اپنی ذاتی رائے کے دخل سے صادر فرمایا ہے تو پھر اسکی زد میں توتمام مکاتب فکر کی تمام مساجد کے ائمہ اور نمازی آجائیں کہ ہر ہر علاقے میں ہر ہر نماز کے لیے نمازیوں کی سہولت کے مطابق وقت مقررہ کے اندر اندر ہی مختلف اوقات متیعن ہوتے ہیں کہیں کوئی نماز 15 منٹ پہلے پڑھی جاتی تو کہیں آدھا گھنٹہ تاخیر سے ۔ ۔ ۔

اور بنت حوا صاحبہ نے جو فتویٰ دیا ہے وہ ان کی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ فاروق بھائی نے قرآن کی وہ آیت بھی بتا دی ہے جس میں نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرنے کا حکم آیا ہے۔ یہ ہمارے ہاں کے مختلف مکاتب فکر کی ہی مختلف آراء ہیں جو عام قاری کو اتنا الجھا دیتے ہیں کہ وہ نہ ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا۔
 
آبی ٹو کول ، الفاظ کے چناؤ میں احتیاط سے کام لیجئے۔ آپ کا نکتہ نظر ہمارے لئے ہر حال میں اہم ہے۔ آپ کے نامناسب الفاظ کا چناؤ اس کو غیر اہم بنا سکتا ہے۔

جب آیک آیت پیش کی جائے تو اس آیت پر تدبر کیجئے نہ کہ آیت پیش کرنے والے یا والی کی کردار کشی شروع کردی جائے۔ کسی بھی آیت پیش کرنے والے کی کردار کشی کے لئے یہ بہانا کہ ہم کو تو "اس شخص" کی بات پر اعتراض‌ہے ، آیت پر نہیں ۔ بہت ہی پرانے اور گھسے پٹے حیلوں میں سے ہے۔ تو استدعا یہی ہے کہ حسن سلوک کے ساتھ، قرآن پر تدبر فرمائیے۔ آپ بخوبی سمجھتے ہیں کہ اوپر دی ہوئی آیت کے کیامعانی ہیں۔ لہذا قرآن کے حکم کے مطابق "بہتر معانی " استعمال کیجئے، اللہ تعالی آپ کو ہدایت عطا فرمائیں گے۔
 

بنتِ حوا

محفلین
جہالت کی انتہاء نہیں ہے، بلکہ یہ بالکل صحیح ہے اور قرآن سے ثابت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ بےشک نماز ہے مومنوں پر فرض پابندی وقت کے ساتھ۔

اس میں آپ اور میں کمی بیشی نہیں کر سکتے۔ ہاں کسی کی نماز کسی وجہ سے اول وقت میں قضا ہو گئی ہو، وہ جماعت سے ادا نہ کر سکا ہو تو اس کے لیے یہی چھوٹ ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے نماز ادا کر لے۔ یہ نہیں کہ اذان تو تین بجے ہوئی اور جماعت چار بجے ہو گی۔

یہ پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ ایک ہی شہر میں نمازوں کے مختلف اوقات ہوتے ہیں، اور تو اور فجر کی اذانیں ہی آدھ گھنٹہ تک ہوتی رہتی ہیں۔ جبکہ یہاں پورے شہر میں کسی بھی نماز کی ایک ہی وقت میں اذان ہوتی ہے۔

پاکستان میں ایک ہی شہر میں جمعہ کی نماز کے بھی مختلف اوقات ہوتے ہیں کہ دو گھنٹے تک جمعہ کی نماز ہوتی رہتی ہے۔ جبکہ جمعہ کی نماز کا بھی وہی وقت ہوتا ہے جو ظہر کی نماز کا ہوتا ہے۔ خطبے کی وجہ سے یہاں زیادہ سے زیادہ دس منٹ کی تاخیر کی جاتی ہے۔



اور بنت حوا صاحبہ نے جو فتویٰ دیا ہے وہ ان کی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ فاروق بھائی نے قرآن کی وہ آیت بھی بتا دی ہے جس میں نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرنے کا حکم آیا ہے۔ یہ ہمارے ہاں کے مختلف مکاتب فکر کی ہی مختلف آراء ہیں جو عام قاری کو اتنا الجھا دیتے ہیں کہ وہ نہ ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا۔
ماشا اللہ بہت اچھی وضاحت کی ہے آپ نے میں اگر کرتی تو اتنے اچھے طریقے سے نہ کر پاتی۔۔آجکل پاکستان میں اور بھی کئی جگہوں پر لوگو ں نے اپنے اپنے ٹائم مقرر کر دئیے ہیں اور عصر کی نماز جلدی پڑھنے کا حکم ہے لیکن سب بہت تاخیر سے جماعت کرواتے ہیں۔۔اگر مجبوری ہو تو پھر نماز تاخیر سے پڑھ سکتے ہیں ہمارے دین میں ہمارے لیے بہت آسانی ہے اگر بھوک لگی ہے تو پہلے کھانا کھاؤ باتھ روم جانا ہے تو پہلے وہاں جانا چاہیے اس کے بعد نماز پڑھو۔۔اور ایک صحیح حدیث میں بھی ہمیں نماز کو اول وقت میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے
ویسے اس عالم دین کے بارے مین u tube میں کافی مواد موجود ہے ذرا ٹائم نکال کر اس کو بھی چیک کر لیجئے گا:)
 

آبی ٹوکول

محفلین
جہالت کی انتہاء نہیں ہے، بلکہ یہ بالکل صحیح ہے اور قرآن سے ثابت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ بےشک نماز ہے مومنوں پر فرض پابندی وقت کے ساتھ۔

اس میں آپ اور میں کمی بیشی نہیں کر سکتے۔ ہاں کسی کی نماز کسی وجہ سے اول وقت میں قضا ہو گئی ہو، وہ جماعت سے ادا نہ کر سکا ہو تو اس کے لیے یہی چھوٹ ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے نماز ادا کر لے۔ یہ نہیں کہ اذان تو تین بجے ہوئی اور جماعت چار بجے ہو گی۔

یہ پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ ایک ہی شہر میں نمازوں کے مختلف اوقات ہوتے ہیں، اور تو اور فجر کی اذانیں ہی آدھ گھنٹہ تک ہوتی رہتی ہیں۔ جبکہ یہاں پورے شہر میں کسی بھی نماز کی ایک ہی وقت میں اذان ہوتی ہے۔

پاکستان میں ایک ہی شہر میں جمعہ کی نماز کے بھی مختلف اوقات ہوتے ہیں کہ دو گھنٹے تک جمعہ کی نماز ہوتی رہتی ہے۔ جبکہ جمعہ کی نماز کا بھی وہی وقت ہوتا ہے جو ظہر کی نماز کا ہوتا ہے۔ خطبے کی وجہ سے یہاں زیادہ سے زیادہ دس منٹ کی تاخیر کی جاتی ہے۔



اور بنت حوا صاحبہ نے جو فتویٰ دیا ہے وہ ان کی ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ فاروق بھائی نے قرآن کی وہ آیت بھی بتا دی ہے جس میں نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرنے کا حکم آیا ہے۔ یہ ہمارے ہاں کے مختلف مکاتب فکر کی ہی مختلف آراء ہیں جو عام قاری کو اتنا الجھا دیتے ہیں کہ وہ نہ ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا۔

محترم پہلی بات تو یہ ہے کہ دین کے معاملے میں بغیر تدبر کیے رائے دے دینا انتہائی درجہ کی جہالت نہیں تو اور کیا ہے؟ دوسرے جس آیت کا محترم فاروق سرور خان صاحب نے حوالہ دیا ہے ہم بھی اسی ضمن میں گفتگو کررہے ہیں کہ اس سے مراد کسی بھی مسجد کے امام کا مقرر کردہ وقت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد کسی بھی نماز کا وہ ابتدائی اور انتہائی وقت(مقررہ وقت) ہے کہ جس کی حد بندی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث کے زریعے فرمادی ہوئی ہے اور فقھاء امت نے اپنی اپنی کتابوں میں ان اوقات کی نشاندہی بخوبی کردی ہوئی ہے یاد رہے کہ دین اسلام میں نمازوں کے اوقات کا تعلق سورج کے نکلنے اور غروب ہونے سے متعلق ہے ۔ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک نماز کے ابتدائی اور انتہائی اوقات مقرر فرمادیئے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر نماز کا مستحب وقت کی بھی نشاندہی فرمادی ہوئی ہے ۔جب بھی کسی نماز کا وقت شروع جائے تو اس کے لیے اول وقت میں اذان دے دینا مستحب ہے لیکن یہ کوئی فرض یا واجب نہیں ہے ۔ ۔ ۔ لہذا پاکستان میں جو مختلف مساجد میں نماز کے لیے(اصل میں نماز کے کے نہیں جماعت کے لیے ہیں) جو مختلف اوقات مقرر ہیں ان کا تعلق نماز کی جماعت کے ساتھ ہوتا ہے نہ کے مطلق نماز کے ساتھ اور ان مساجد کے اوقات میں اختلاف در اصل نمازیوں یعنی مقتدیوں کی سہولت کے پیش نظر ہیں ۔ ۔ ۔
اب اس مثال کو یوں سمجھیے ۔ ۔ ۔ فرض کیا پاکستان میں آجکل کے وقت کے مطابق ظہر کے وقت کی ابتداء ٹھیک دو بجے ہوجاتی ہے اور نماز ظہر کا وقت پانچ بجے تک رہتا ہے ۔ ۔ ۔ اب ایک مسجد میں 2 بجے اذان ہوئی اور ٹھیک 15 منٹ بعد جماعت کا وقت ہے اسی طرح دوسری مسجد میں 2:15 اذان ہوئی اور ڈھائی بجے تک جماعت کھڑی ہوجاتی ہے ۔ ۔ ۔ اب دونون مساجد والوں میں سے کوئی ایک بھی قرآن کی پیش کردہ مجوزہ آیت کا مخالف نہیں ٹھرے گا کیونکہ دونوں نے ہی نماز کو وقت مقررہ کے اندر اندر پڑھا (ہاں البتہ مستحب وقت کونسا ہے اسکی بحث الگ ہے) اب اگر ایک شخص نماز ظہر پڑھنا چاہے گا اگر تو وہ اپنے محلے کی مسجد کے مقررہ وقت کے مطابق سوا دو بجے یا پھر 2:30 پڑھتا ہے تب بھی اس نے قرآن کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ ہم بیان کرچکے کہ ظہر کا متحقق مقررہ وقت 2 بجے سے لیکر پانچ بجے تک رہتا ہے اس وقت کے اندر اندر جو کوئی بھی جس وقت چاہے نماز ادا کرئے اس کی پڑھی ہوئی نماز ادا ہی کہلائے گی نہ کہ قضا(کیوں کہ قضا نماز وقت مقررہ کے گزر جانے کے بعد نماز پڑھنے کو کہتے ہیں) چاہے وہ جماعت کے ساتھ پڑھے یا منفرد ۔ ۔ ۔ ۔اب آپ ہی بتائیے کہ اس بیان کردہ طریقہ پر عمل کرنے والے نے کس آیت کی خلاف ورزی کی ۔ ۔ ۔
ا
 

بنتِ حوا

محفلین
بھئی انتہا ہے جہالت کی بھی ۔ ۔ ۔ آیت جو پیش کی گئی ہے اس سےکسی بھی نماز کے ابتدائی وقت سے لیکر اس کے انتہائی وقت تک کے اندر اندر نماز ادا کرلینے کا حکم مراد ہے یعنی کسی بھی نماز کے لیے وہ مقررہ وقت کہ جس کے ابتدائی اور انتہائی وقت کی نشاندہی خود قرآن وسنت نے مقرر کردی ہو نہ کہ اس آیت سے مراد شریعت کے مقرر کردہ وقت مقررہ کے اندر اندر کسی بھی مسجد میں نمازیوں کی سہولت کے لیے جو اوقات مقرر کیے جاتے ہیں انکی پابندی کرنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ بات بھی بدیہی ہے کہ بعض نمازوں کے مقررہ اوقات طویل ہیں جیسے عشاء کا وقت کے کافی دیر تک رہتا ہے اور بعض نمازؤں کے اوقات قلیل ہیں جیسے مغرب کا وقت کہ کم از کم پاکستان میں ڈیڑھ گھنٹہ تک رہتا ہے ۔ ۔
اگر موصوفہ بنت حوا کی پیش کردہ آیت کو انکا فتوٰی مان لیا جائے جو کہ انھوں نے قرآن و سنت میں اپنی ذاتی رائے کے دخل سے صادر فرمایا ہے تو پھر اسکی زد میں توتمام مکاتب فکر کی تمام مساجد کے ائمہ اور نمازی آجائیں کہ ہر ہر علاقے میں ہر ہر نماز کے لیے نمازیوں کی سہولت کے مطابق وقت مقررہ کے اندر اندر ہی مختلف اوقات متیعن ہوتے ہیں کہیں کوئی نماز 15 منٹ پہلے پڑھی جاتی تو کہیں آدھا گھنٹہ تاخیر سے ۔ ۔ ۔
جبکہ واقعہ جو کوڈ کیا گیا ہے اس میں مغرب کی نماز میں ڈاکٹر صاحب کا تاخیر کرنا بیان ہوا ہے جو کہ ہرگز قابل تحسین نہیں اتنے بڑے عالم دین کو اس قسم کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے قرآنی حکم کی مخالفت کی ہے یا نماز کو قضا کردیا کیونکہ نماز مغرب کاوقت صرف آدھا گھنٹہ تو نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں تعصب کی بجائے کسی بھی معاملے میں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین

بھائی میں نے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے قرآن کی ایک آیت پیش کی تھی۔۔فتویٰ دینا ہر کسی کا کام نہیں ہوتا میں تو ایک معمولی سی طالب علم ہوں میری ہر بات حرف آخر نہیں ہے حرف آخر ہے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات۔۔کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حق کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔۔اور ان کی ہی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرو۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
بھائی میں نے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے قرآن کی ایک آیت پیش کی تھی۔۔فتویٰ دینا ہر کسی کا کام نہیں ہوتا میں تو ایک معمولی سی طالب علم ہوں میری ہر بات حرف آخر نہیں ہے حرف آخر ہے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات۔۔کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حق کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔۔اور ان کی ہی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرو۔۔

محترمہ پیش تو آپ نے آیت ہی کی تھی لیکن کس وجہ سے کی تھی کس مقام پر کی تھی اور کیوں کی تھی یہ بھی تو واضح فرمایئے ناں ؟ چلیئے ہم بیان کیئے دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ جب ایک دوست نے ڈاکٹر ظاہر القادری صاحب کے حوالے سے یہاں یہ اطلاع فراہم کی کہ انھوں نے ایک جلسہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے نماز کا وقت شروع ہوجانے پر بھی اپنی تقریر جاری رکھی اور نماز مغرب میں آدھا گھنٹہ مزید تاخیر کردی تو تب آپ نے مزکورہ آیت سے استدلال فرماتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے اس عمل کو قرآنی آیت کی مخالفت پر محمول فرمایا اور جب ہم نے آپ پر واضح کیا کہ یہ قرآن کی اس آیت سے نماز کے مستحب اوقات مراد نہیں بلکہ وہ فرض اوقات مراد ہیں کہ جن کہ اندر اندر رہتے ہوئے کوئی بھی شخص کسی بھی وقت اس وقت کی مقررہ نماز کو ادا کرسکتا ہے تو آپ نے بجائے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے فورا پینترہ بدلا اور بحث کو نمازوں کے مقررہ اوقات کی بجائے نمازوں کے افضل اوقات کی بحث میں تبدیل کردیا آپکی بعد والی توجیہ صحیح ہے اور قابل قبول(کہ نمازوں کو انکے مستحب اوقات میں ادا کرنا ہی افضل اور اولٰی ہوتا ) ہے ۔ لیکن اس سے آپ کا پہلے والا وہ حکم (جو کہ اصل میں آپ کا الزام ہے)جو آپ نے ڈاکٹر صاحب پر قرآن کی آیت کی مخالفت کی صورت میں عائد کیا ہے اس کی خلاصی تو نہیں نہ ہوتی جب تک کہ آپ یہ تسلیم نہ کرلیں کہ اس آیت کے استدلال اور ٹھیک ٹھیک محل کے چناؤ میں آپ سے غلطی واقع ہوئی ہے ۔ ۔ باقی رہی آیات کے پیش کرنے کی بات تو آیات تو خارجیوں نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معارض میں پیش کی تھیں جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ آیت تو برحق ہے اور ٹھیک پڑھتے ہو مگر چسپاں غلط مقام (یعنی محل ) پر کرتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔نیز آپ نے نمازوں کو ان کے افضل اوقات میں ادا کرنے کی حدیث تو بیان کردی لیکن کیا آپ کو یہ حدیث نہیں معلوم کہ جس کا مفھوم یہ ہے کہ قرآن میں خود سے مت کچھ کہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
میں ایک مرتبہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اسلام اور عصر حاضر کا زمرہ کسی ایک شخصیت پر گفتگو کے لیے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ میں اس تھریڈ کو مقفل کر رہا ہوں۔ میری طاہر القادری صاحب کے معتقدین سے بھی گزارش ہے کہ اس طرح کے مزید کوئی موضوعات شروع نہ کیے جائیں۔
شکریہ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top