کینوس پر 27 دسمبر کا منظر

سجادعلی

محفلین
ستائس دسمبر کی شام کو لاشعوری طور پر یہ خون آلود تصویر بن گئی جس میں مرحوم بینظیر جھلکتی ہیں
پاکستان میں صوبہ سندہ کے ایک آرٹسٹ نے ستائیس دسمبر کی شام کو اپنی پینٹنگ میں یاد کیا ہے۔ فنکار نے ایبسٹریکٹ مصوری میں جو تصویر بنائی ہے اس میں سرخ رنگ تمام رنگوں پر حاوی ہے اور لکیروں سے جو نقش ابھر کر سامنے آئے ہیں اس میں بینظیر بھٹو کا چہرہ نظر آتا ہے۔
یہ کارنامہ لاڑکانہ کے ایک فنکار رضوان کا ہے۔

اپنی ماں کی یاد میں سندھ کی پہلی ذاتی گیلیری بنانے والے آرٹسٹ رضوان کا کہنا ہے کہ عام طور پر وہ پورٹریٹ نہیں بناتے تاہم مرحوم بینظیر بھٹو کا چہرہ ان سے لاشعور میں بن گیا ہے اور یہ ان کی شعوری کوشش نہیں تھی۔

اپنی گیلری میں اپنے فن پاروں کے درمیاں بیٹھے رضوان نے بی بی سی کو بتایا کہ ستائیس دسمبر کی شام کو جب ان کے آس پاس کے اکثر لوگ اپنا غصہ نکالنے کے لیے گاڑیوں اور شہروں کو آگ لگا رہے تھے وہ اپنی گیلری کے دونوں دروازے بند کرکے اپنے غصے کو رنگوں کی مدد سے کینواس پر اتار رہے تھے۔ کیونکہ بینظیر کی ہلاکت کا دکھ تو انہیں بھی تھا۔

رضوان کہتے ہیں کہ انہیں پہلے سے پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا بناتے جا رہے ہیں مگر ستائیس اور انتیس دسمبر کے درمیاں ان کے کام پر سرخ رنگ حاوی تھا۔ جب حالات معمول پر آنےلگے تو انہوں نے اپنےدوستوں کو پینٹنگ دکھائی تو ایک دوست نے کہا ’یہ تو آپ نے بینظیر بھٹو بنائی ہے۔‘


رضوان یہ یادگار پینٹنگ بلاول بھٹو کو بطور تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں

رضوان کی ستائیس دسمبر کی یاد میں بنائی گئی پینٹنگ میں انہیں خاص بات یہ نظر آتی ہے کہ خون کی نشانی سرخ رنگ تمام رنگوں پر حاوی ہونےکے باوجود بینظیر بھٹو کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ جس کا مطلب وہ یہ بتاتے ہیں کہ ہلاکت کے بعد بھی وہ زندہ ہیں۔

رضوان کاشمار سندھ کے ایسے تخلیقی فنکاروں میں ہوتا ہے جو کسی یونیورسٹی میں فائن آرٹ کے باقاعدہ طالب علم تو نہیں ر ہے مگر انہوں نے برسوں کی ریاضت سے اپنا مقام استادوں جیسا بنا لیا ہے۔

رضوان کی پینٹنگز کی نمائش انیس سو چورانوے میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹز اسلام آباد میں ہوئی تھی۔ اس کا افتتاح سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو نےکیا تھا۔ یہ نمائش رضوان کی پینٹنگز کا پاکستانی سطح پر پہلا تعارف تھا۔

ان کے کام کی ایک اور نمائش نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں ہوئی تھی جس کا افتتاح فیض احمد فیض کی اہلیہ ایلس فیض نے انیس سو چھیانوے میں کیا تھا۔ ان کے شہپاروں کی نمائشیں حیدرآباد ،کراچی اور لاڑکانہ میں بھی ہوچکی ہیں۔

رضوان اپنی ماں سے زیادہ قریب رہے تھے اور انہوں نے والد کی ذات منگی پر ماں کی ذات عمرانی کو ترجیع دی اور اپنے آپ کو رضوان عمرانی کہلاتے ر ہے۔ اپنی ماں کی یاد میں انہوں نے لاڑکانہ میں مدہر یعنی ماں گیلری تعمیر کی ہے۔ وہ سنہ ننانوے سے گیلیری کے افتتاح کے بعد وہاں باقاعدہ بیٹھتے اور کام کرتے ہیں۔


خون میں لت پت تصویر میں بھی ایک آنکھ کھلی ہے جسکا مطلب بنیظیر اب بھی موجود ہیں

رضوان بینظیر بھٹو کے آبائی گھر لاڑکانہ میں ہونے والے جلسوں میں نہیں جاتے تھے مگر وہ کہتے ہیں کہ بینظیر ان کی فکر اور خیالوں میں موجود ہیں اور کوئی طاقت اس بینظیر کو ان سے نہیں چھین نہیں سکتا۔

رضوان کا کہنا ہے وہ بیس کلومیٹر دور گڑھی خدابخش میں بینظیر بھٹو کی قبر پر بھی اسی وجہ سے نہیں گئے جس وجہ سے وہ اپنی والدہ کی قبر پر کبھی نہیں جاتے۔ بقول رضوان، دونوں شخصیات ان کے ساتھ ہیں تو دنیاوی دکھاوا کرنے، آنسو بہانے، دعا مانگنے اور فوٹو کھچوانے کی کیا ضرورت ہے۔

رضوان کی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح اپنی پینٹنگ بلاول بھٹو زرداری کو تحفےمیں پیش کر سکیں، کیونکہ وہ بلاول کے دکھ کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ لوگوں کی لیڈر گئی ہے مگر بلاول کی ماں ہلاک ہوئی ہے اور وہ ماں کے دکھ کو سب سے بڑا المیہ سمجھتے ہیں۔

نثار کھوکھر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سکھر۔3 جولائی2008
 
Top