منٹو موذيل۔۔۔۔سعادت حسن منٹو

موذيل۔۔۔۔سعادت حسن منٹو
[color=darkblue:c93c361754]ترلو چن نے پہلي مرتبہ ۔۔۔۔۔۔چار برسوں ميں ميں پہلي مرتبہ رات کو آسمان ديکھا تھا اور وہ بھي اس لئے کہ اس کي طبعيت سخت گھبرائي ہوئي تھي اور وہ نہ محض کھلي ہوا ميں کچھ دير سوچنے کيلئے اڈواني چيمبرز کے ٹيرس پر چلا آيا تھا۔
آسمان بالکل صاف تھا بادلوں سے بے نياز، بہت بڑے خاکستري تنبو کي طرح ساري بمبئي پر تنا ہوا تھا، حد نظر تک جگہ جگہ بتياں روشن تھيں، ترلو چن نے ايسا محسوس کيا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھيرے ميں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتي تھيں، اٹک گئے، اور جگنوئوں کي طرح ٹمٹارہے ہيں۔
ترلوچن کيلئے يہ بالکل ايک نيا تجربہ، ايک نئي کيفيت تھي، ۔۔۔رات کو کھلے آسمان کے نيچے ہونا اس نے محسوس کيا کہ وہ چار برس تک اپنے فليٹ ميں قيد رہا، اور قدرست تھي کہ ايک بہت بڑي نعمت سے محروم، قريب قريب تين بجے تھے، ہوا بے حد ہلکي ہلکي تھي، ترلو چن پنکھے کي ميکاني ہوا کا عادي ہوچکا تھا، جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کرديتي تھي، صبح اٹھ کر وہ ہميشہ يوں محسوس کرتا تھا، کہ رات بھر اس اس کو مارا پيٹا گيا ہے، پر اب صبح کي قدرتي ہوا ميں اس کے جسم کا رواں رواں، تروتازگي چوس کر خوش ہو رہا تھا، جب وہ اوپر آيا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہيجان زدہ تھا، ليکن آدھے گھنٹے ہي ميں وہ اضطراب اور ہيجان جو اس کو بہت تنگ کر رہا تھا، کسي حد تک ٹھنڈا ہو گيا تھا اور اب صاف طور پر سوچ سکتا تھا۔ کرپال کو راور کا سارا خاندان۔۔۔۔۔محلے ميں تھا، جو کٹر مسلمانوں کا مرکز تھا، يہاں کئي مکانوں کو آگ لگ چکي تھي، کئي جانيں تلف ہوچکي تھيں، ترلو چن ان سب کو لے آيا ہوتا، مگر مصيبت يہ تھي، کہ کرفيو نافذ ہوگيا تھا اور وہ بھي نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔۔۔۔غالبا اڑتاليس گھنٹوں کا ۔۔۔۔۔ اور ترلو چن لازما مغلوب تھا، آس پاس سب مسلمان تھے، بڑے خوفناک مسلمان تھے، اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبريں آرہي تھيں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہيں، کوئي بھي ہاتھ۔۔۔مسلمان ہاتھ بڑي آساني سے نرم و نازک کرپال کور کي کلائي پکڑ کر موت کے کنوئيں کي طرف لے جاسکتا تھا۔
کرپال کي ماں اندھي تھي، باپ مفلوج، بھائي تھا، وہ کچھ عرصے سے ديوالي ميں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لئے ہوئے ٹھيکے کي ديکھ بھال کرنا تھي، ترلو چن کو کرپال کے بھائي نرجن پر بہت غصہ آتا تھا، اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کي تيزي و تندہي کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کر ديا تھا، اور صاف لفظوں ميں کہہ ديا تھا، نر نجن يہ ٹھيکے ويکے رہنے دو ہم ايک بہت ہي نازک دور سے گزر رہے ہيں، تمہارا اگر چہ رہنا بہت ضروري ہے، ليکن يہاں سے اٹھ جائوں اور ميرے يہاں چلے آئو، اس میں کوئي شک نہيں کہ جگہ کم ہے، ليکن مصيبت کے دنوں ميں آدمي کسي نہ کسي طرح گزارا کر ليا کرتا ہے، مگر وہ مانا، اس کا اتنا بڑا ليکچر سن کر صاف اپني گھني موچھوں ميں مسکراديا، يار تم خواہ مخواہ فکر مند ہوتے ہو۔۔۔۔ميں نے يہاں ايسے کئي فساد ديکھے ہيں، يہ امرتسر يا لاھور نہيں ہے، بمبے ہے۔۔۔۔۔بمبے تمہيں يہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہيں، اور میں بارہ برس سے يہاں ہوں۔۔۔۔۔بارہ برس سے۔
جانے نرجن بمبئي کو کيا سمجھتا تھا، اس کا خيال تھا کہ يہ ايسا شہر ہے، اگر فساد برپا بھي ہو تو انکو اثر خود بخود زائل ہوتا ہے، جيسے کہ اس کے پاس چھو منتر ہے۔۔۔۔۔۔يا وہ کہانيوں کا کوئي ايسا قلعہ ہے، جس پر کوئي آفت نہیں آسکتي ہے مگر ترلو چن صبح کي ٹھنڈي ہوا ميں صاف ديکھ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔محلہ بالکل محفوظ نہيں، وہ تو صبح کے اخباروں ميں يہ بھي پڑھنے کيلئے تيار تھا کہ کرپال کور اور اس کے ماں بار قتل ہو چکے ہيں۔اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کي اندھي ماں کي کوئي پرواہ نہيں تھي، وہاں ديو لالي ميں اس کا بھائي نرنجن بھي مارا جاتا تو اور بھي اچھا تھا، کہ ترلو چن کيلئے ميدان صاف ہوجاتا، خاص طور پر نجن اس کے راستے ميں ايک روڑا ہي نہيں، بہت بڑا گھنگھرا تھا چناچہ جب کبھي کرپال کور اس کي بات ہوتي تو وہ اسے نرنجن سنگھ کے بجائے کھنگر سنگھ کہتا۔
صبح کي ہوا دھيرے دھيرے بہہ رہي تھي۔۔۔۔ ترلو چن کا کيسوں سے بے نياز سر بڑي خوشگوار ٹھنڈک محسوس کر رہا تھا مگر اس کي زندگي ميں داخل ہوئي تھي، وہ يوں تو ہے کئے کھنگھر سنگھ کي بہن تھي، مگر بہت ہي نرم، نازک لچکيلي تھي، اس نے ديہات ميں پرورش پائي تھي، وہاں کي کئي گرمياں سردياں ديکھيں تھيں، مگر اس ميں وہ سختي، وہ گھٹائو، وہ مردانہ پن، نہيں تھا، جو ديہات کي عام سکھ لڑکيوں ميں ہوتا ہے، جنہيں کڑي سے کڑي مشقت کرنے پڑتي ہے۔
اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جيسے ابھي نامکمل ہيں، چھوٹی چھوٹی چھاتياں تھيں جن پربالائيوں کي چند اور تہيں چڑھنے کي ضرورت تھي، عام سکھ لڑکيوں کے مقابلے ميں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کي طرح اور بدن چکنا تھا، جس طرح مرسي رائنز کپڑے کي سطح ہوتي ہے، بے حد شرميلي تھي۔
ترلو چن اسي کے گائوں کا تھا، مگر زيادہ دير وہا رہا نہيں تھا، پرائمري سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائي اسکول ميں گيا تو بس پھر وہيں کا ہو گيا، اسکول سے فارغ ہوکر کالج کي تعليم شروع ہوگئي، اس دوران ميں کئي مرتبہ لاتعداد مرتبہ اپنے گائوں گيا، مگر اس نے کرپال کور کے ناک کي کسي لڑکي کا نام تک نہ سنا شايد اس لئے کہ ہر بار اس افرا تفري ميں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔
کالج کا زمانہ بہت پيچھے رہ گيا تھا، اڈواني چيمبرز کے ٹيريس اور کالج کي عمارت ميں غالبا دس برس کا فاصلہ اور يہ فاصلہ ترلو چن کي زندگي کے عجيب و غريب واقعات سے پر تھا، برما، سنگا پور، ہانگ کانگ۔۔۔۔پھر بمبئي جہاں وہ چار برس سے مقيم تھا۔ان چار برسوں ميں اس نے پہلي مرتبہ رات کو آسمان کي شکل ديکھي تھي، جو بري نہيں تھي۔۔۔۔خاکستري رنگ کے تنبو کي چھت ميں ہزار ہادئيے، روشن تھے، اور ہوا ٹھنڈي اور ہلکي پھلکي تھي۔
کر پال کور کا سوچتے سوچتے، وہ موذيل کے متعلق سوچنے لگا، اس يہودي لڑکي کے بارے جو اڈواني چيمبرز ميں رہتي تھي، اس سے ترلو چن کو گوڈے گوڈے عشق ہوگيا تھا، ايسا عشق جو اس نے اپني پينتيس برس کي زندگي ميں کبھي نہيں کيا تھا۔
جس دن اس نے اڈواني چيمبرز ميں اپنے ايک عيسائي دوست کي معرفت دوسرے مالے پر فليٹ ليا اسي دن اس کي مدبھيڑ موذيل سے ہوئي کو پہلي نظر ديکھنے پر اسے خوفناک ديواني معلوم ہوئي، کٹے ہوئے بھورے بال، اس کے پريشان تھے، بے حد پريشان، ہونٹوں پر لپ اسٹک يوں جمي جيسے گاڑھا خون اور وہ بھي جگہ جگہ سے چيختي ہوئي تھي، ڈھيلا ڈھالا لمبا سفيد چغہ پہنے تھي، جس کے کھلے گريباں سے اس کي نيل پڑي بڑي بڑي چھاتيا چوتھائي کے قريب نظر آرہي تھي، بانہيں جو کہ ننگي تھيں، مہين مہين بالوں سے اٹي ہوئي تھيں، جيسے وہ ابھي ابھي کسي سليون سے بال کٹوا کر آئي ہے، اور ان کي نھني نھني ہوائياں ان پر جم گئي ہيں۔
ہونٹ اتنے موٹے نہيں تھے مگر گہرے عنابي رنگ کي لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائي گئي تھي، کہ وہ موٹے اور بھينسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔
لرلو چن کا فليٹ اس کے فليٹ کے بالکل سامنے تھا بيچ ميں ايک تنگ گلي تھي، بہت ہي تنگ، جب ترلو چن اپنے فليٹ ميں داخل ہونے کيلئے آگے بڑھا تو موذيل باھر آگئي، کھڑائوں پہنے تھي، ترلو چن ان کي آواز سن کر رک گيا، موذيل نے اپنے پريشان بالوں کي چقوں مين سے بڑي بڑي آنکھوں سے ترلو چن کي طرف ديکھا اور ہنسي۔۔۔۔۔۔ترلو چن بوکھلا گيا، جيب سے چابي نکال کر وہ جلدي سے دروازے کي جانب بڑھا، موذيل کي ايک کھڑائوں سيمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلي اور اس کے اوپر آرہي۔
جب ترلو چن سنبھلا تو موذيل اس کے اوپر تھي، کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چغہ اوپر چڑھ گيا تھا اور اس کي دو ننگي، بڑي تگڑي ٹانگيں اس کے ادھر ادھر تھيں، اور جب ترلو چن نے اٹھنے کي کوشش کي تو بوکھلاہٹ ميں کچھ اس طرح موذيل۔۔۔۔۔ساري موذيل سے الجھا جيسے وہ صابن کي طرح اس کے سارے بدن پر پھر گيا ہے۔جب ترلو چن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ ميں اس سے معافي مانگي، موذيل نے اپنا لبادھ ٹھيک کيا اور مسکرادي يہ کھڑائوں ايک دم کنڈم چيز ہے، اور وہ اتري ہوئي کھڑائوں ميں اپنا انگوٹھا اور اس کے ساتھ والي انگلي پھنساتي کوريڈور سے باہر چلي گئي۔
تر لو چن کا خيال تھا کہ موذيل سے دوستي پيدا کرنا شايد مشکل ہو ليکن وہ بہت ہي تھوڑے عرصے ميں اس سے گھل مل گئي، ليکن ايک بات تھي کہ وہ بہت خود سر تھي، وہ ترلو چن کو کبھي خاطر ميں نہيں لاتي تھي، اس سے کھاتي تھي، اس سے پيتي تھي، اس کے ساتھ سينما جاتي تھي، سارا سارا دن اس کے ساتھ جو ہو پر نہاتي تھي، ليکن جب وہ بانہوں اور ہونٹوں سے آگے بڑھنا چاہتا تو اسے ڈانٹ ديتي، کچھ اس طور پر سے گھر کتي کہ اس کے سارے ولولے اس کي داڑھي اور مونچھو ميں چکر کاٹتے رہ جاتے۔
ترلو چن کو پہلے کسي کے ساتھ محبت نہيں ہوئي تھي، لاہور ميں، برما، سنگاپور ميں وہ لڑکياں کچھ عرصے کے لئے خريدا جاسکتا تھا، اس کے وہم و گمان ميں بھي يہ بات نہيں تھي کہ بمبئے پہنچتے ہي وہ ايک نہايت الہڑ قسم کي يہودي لڑکي کے عشق ميں گوڈے گوڈے دھنس جائے گا، وہ اس سے کچھ عجيب قسم کي بے اعتنائي اور بے التفاتي برتتي تھي، اس کے کہنے پر فورا سج بن کر سينماجانے پر تيار ہوجاتي تھي، مگر جب وہ اپني سيٹ پر بيٹھتے تو ادھر ادھر نگاہيں دوڑانا شروع کر ديتي، کوئي اس کا آشنا نکل آئے تو اس سے ہاتھ ہلاتي اور ترلو چن سے اجازت لئے بغير اس کے پہلو ميں جا بيٹھتي۔
ہوٹل ميں بيٹھے ہيں ترلو چن نے خاص طور پرموذيل کيلئے پر تکلف کھانے منگوائے ہيں، مگر اس کو کوئي اپنا دوست نظر آگيا اور وہ نوالہ چھوڑ کر پاس جا بيٹھتي ہے اور ترلو چن کے سينے پر مونگ دل رہي ہے۔
ترلو چن بعض اوقات بھناجاتا تھا، کيونکہ وہ اسے قطعي طور پر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناسائوں کے ساتھ چلي جاتي تھي، اور کئ کئي دن اس سے ملاقات نہ کرتي تھي، کبھي سر درد کا بہانہ، کبھي پيٹ کي خرابي، جس کے متعلق ترلو چن کو اچھي طرح معلوم تھا کہ فولاد کي طرح سخت ہے اور کبھي خراب نہيں ہوسکتا۔جب اس سے ملاقات ہوتي ہے تو اس سے کہتي ہے، تم سکھ ہو۔۔۔۔۔يہ نازک باتيں تمہاري سمجھ ميں نہيں آسکتيں۔
ترلوچن بھن جاتا اور پوچھتا کون سي نازک باتين۔۔۔تمہارے پرانے ياروں کي؟
موذيل دونوں ہاتھ جوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپني تکڑي ٹانگين چوڑي کر ديتي اور کہتي يہ تم مجھے ان کے طعنے کيا ديتے رہتےہو۔۔۔۔۔ہاں وہ ميرے يار ہيں۔۔۔۔اور مجھے اچھے لگتے ہيں، تم جلتے ہو تو جلتے رہے۔
ترلو چن بڑے وکيلانہ انداز میں پوچھتا ہے اس طرح تمہاري ميري کس طرح نبھے گي۔
موذيل زورکا قہقہہ لگاتي ہے، تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔ايڈيٹ تم سے کس نے کہا کہ ميرے ساتھ نبھائو۔۔۔۔۔اگر نبھانے کي بات ہے تو جائو اپنے وطن ميں کسي سکھني سے شادي کر لو۔۔۔۔ميرے ساتھ تو اسي طرح چلے گا۔
ترلو چن نرم ہو جاتا، دراصل موذيل اس کي زبردست کمزور بن گئي تھي، وہ ہر حالت ميں اس کي قربت کا خواہشمند تھا، اس ميں کوئي شک نہيں کہ موذيل کي وجہ سے اس کي اکثر توہين ہوتي تھي، معلولي کرسٹان لونڈروں کے سامنے جن کي حقيقت ہي نہيں تھي، اسے خفيف ہونا پڑتا تھا، مگر دل سے مجبو ہو کر يہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہہ کر ليا تھا۔
عام طور پر توہين اور ہتک کا رد عمل انتقام ہوتا ہے، مگر ترلو چن کے معاملے ميں ايسا نہيں تھا، اس نے اپنے دل و دماغ کي بہت سے آنکھيں ميچ لي تھي، اور کئي کانوں میں روئي ٹھونس لي تھي، اس کو موذيل پسند تھي۔۔۔۔ پسند ہي نہيں جيسا کہ وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا گوڈے گوڈے اس کے عشق ميں دھنس گيا تھا، اب اس کے سوا اور کوئي چارہ نہيں تھا اس کے جسم کا جتنا حصہ باقي رہ گيا ہے وہ بھي اس عشق کے دلدل ميں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔
دو برس تک وہ اسي طرح خوا ہوتا رہا، ليکن ثابت قدم رہا، آخر ايک روز جب کہ موذيل موج ميں تھي، اپنے بازئوں میں سميٹ کر پوچھا موذيل کيا تم مجھ سے محبت نہيں کرتي ہو۔موذيل اس کے بازئوں سے جدا ہوگئي اور کرسي پر بيٹھ کر اپنے فراک کا گھيرا ديکھنے لگي پھر اس نے اپني موٹي موٹي يہودي آنکھيں اٹھائيں اور گھني پلکيں چھپکا کر کہا، ميں سکھ سے محبت نہيں کرسکتي ۔
ترلو چن ني ايسا محسوس کيا کہ پگڑي کے نيچے اس کے کيسوں ميں کسي نہ دہکتي ہوئي چنگارياں رکھ دي ہيں، اس کے تن بدن ميں آگ لگ گئي۔۔۔۔۔موذيل تم ہميشہ ميرا مذاق اڑاتي ہو۔۔۔۔يہ ميرا مذاق نہيں، ميري محبت کا مذاق ہے۔
موذيل اٹھي اور اس نے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ايک دلفيرب جھٹکا ديا، تم شيو کرا لو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔۔۔تو مين شرط لگاسکتي ہو کئ لونڈے تمہيں آنکھ ماريں گے۔۔۔۔تم خوبصورت ہو۔
ترلو چن کے کيسوں ميں مزيد چنگارياں پڑ گئيں، اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذيل کو اپني طرف گھسٹيا اور کے عنابي ہونٹوں ميں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پيوست کردئيے۔
موذيل نے ايک دم پھوں پھوں کي اور کي گرفت سے عليحدہ ہوگئي، ميں صبح اپنے دانتوں کو برش کرچکي ہو، تم تکليف نہ کروں۔
ترلوچن چلايا، موذيل۔
موذيل وينٹي بيگ سے نھنا سا آئينہ نکال کر اپنے ہونٹ ديکھنے لگي جس پر لگي ہوئي گاڑھي لب اسٹک پر خراشيں آگئي تھيں، خدا قسم ۔۔۔تم اپني داڑھي اور مونچھوں کا صيح استعمال نہيں کرسکتے ۔۔۔۔۔ان کے بال ايسے اچھے ہيں کہ ميرا نيوي بلو اسکرٹ بہت اچھي طرح صاف کرسکتے ہيں،۔۔۔۔بس تھوڑا سا پيٹرول لگانے کي ضرورت ہوگي۔
ترلو چن غصے کي اس انتہا تک پہنچ چکا تھا، جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہوگيا تھا، آرام سے صوفے پر بيٹھ گيا، موذيل بھي آگئي اور اس نے ترلو چن کي داڑھي کھولني شروع کردي۔۔۔۔اس ميں جو پنيں لگي تھيں وہ اس نے ايک ايک کرکےاپنے دانتوں تلے دباليں۔
ترلوچن خوبصورت تھا، جب اس کے داڑھي مونچھ نہيں اگي تھي تو واقعي لوگ اس کے کھلے گيسوں کے ساتھ ديکھ کر دھوکا کھاجاتے تھے، کہ وہ کوئي کم عمر خوبصورت لڑکي ہے۔مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدوخال جھاڑيوں کے مانند اندر چھپا لئے تھے، اس کو اس کا احساس تھا، مگر وہ ايک اطاعت شعار بردار لڑکا تھا، اس کے دل ميں مذہب کا احترام تھا، وہ نہيں چاہتا تھا، کہ ان چيزوں کو اپنے وجود سے الگ کر دے، جن سے اس کے مذہب کي ظاہري تکميل ہوتي تھي۔
جب داڑھي پوري کھل ئي اور اسکے سينے پر لٹکنے لگي تو اس نے موذيل سے پوچھا ، يہ تم کيا کر رہي ہو؟
دانتوں ميں پنيں دبائے وہ مسکرائي،تمہارے بال بہت ملائم ہيں۔۔۔۔۔ميرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے ميرا نيوي بلو اسکرٹ صاف ہوجائے گا تر لوچ تم يہ مجھے دے دو ميں انہيں گوندھ کر اپنے لئے ايک فسٹ کلاس بٹوا بنائوں گئي۔
اب تو ترلو چن کي داڑھي ميں چنگارياں پھڑکنے لگيں، وہ بڑي سنجدگي سے موذیل سے مخاطب ہوا، ميں نے آج تک تمہارے مذہب کا مذاق اڑايا ہے تم کيوں اڑاتي ہو۔۔۔ديکھو کسي کے مذہبي جذبات سے کھيلنا اچھا نہيں ہوتا۔۔۔ميں يہ کبھي برداشت نہ کرتا مگر صرف اس لئے کرتا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔۔۔۔کيا تمہيں اس کا پتہ نہيں۔
موذيل نے ترلو چن کي داڑھي سے کھيلنا بند کرديا، معلوم ہے۔
پھرترلو چن نے اپني داڑھي کے بال بڑي صفائي سے تہہ کئے اور موذيل کے دانتوں سے پنيں نکال ليں، تم اچھي طرح جانتي ہو کہ ميري محبت بکواس نہيں۔۔۔ميں تم سےشادي کرنا چاہتا ہو۔
مجھے معلوم ہے، بالوں کو ايک خفيف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھي اور ديوار سے لٹکي ہوئي تصوير کي طرف ديکھنے لگي، ميں بھي قريب يہي فيصلہ کرچکي ھو کہ تم سے شادي کروں گي۔
ترلو چن اچھل پڑا سچ؟
موذيل کے عنابي ہونٹ موٹي مسکراہٹ کے ساتھ کھلے اور اس کے سفيد مخبوط دانت ايک لحظے کيلئے چمکے۔ہاں۔
ترلو چن نے اپني نصف لپٹی ہوئي داڑھي ہي سے اس کو اپنے سينے کے ساتھ بھييچ ليا۔
تو تو کب؟
موذيل الگ ہٹ گئي ، جب۔۔۔۔۔تم اپنے بال کٹوا دو گے جب۔
ترلو چن اس وقت جو ہو سو ہو تھا، اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ ديا ميں کل ہي کٹوادوں گا۔
موذيل فرش پر ٹيپ ڈانس کرنے لگي، تم بکواس کرتے ہو ترلوچ۔۔۔۔۔تم ميں اتني ہمت نہيں ہے۔
اس نے ترلو چن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خيال کجو نکال باہر پھينکا، تم ديکھ لو گي۔
اور وہ تيزي سے آگے بڑھي ترلوچ کي مونچھوں کو چوما اور پھو پھوں کرتي باہر نکل گئي۔
ترلو چن نے رات بھر کيا سوچا۔۔۔وہ کن کن ازيتوں سے گزرا، اس کا تذکرہ فضول ہے اس لئے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ ميں اپنے کيس کٹوادئيے اور داڑھي بھي، منڈوادي۔۔۔۔يہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھيں ميچے رہا، جب سارا معاملہ صاف ہوگيا تو اس نے آنکھيں کھول ليں اور دير تک اپني شکل آئينے ميں ديکھتا رہا، جس ميں بمبئي کي حسين سے حسين لڑکي بھي کچھ دير کيلئے غور کرنے پر مجبور ہوجاتي ہے۔
ترلو چن وہي عجيب و غريب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا، جو سليون سے باہر نکل کر اس کو لگي تھي، اس نے ٹيرس پر تيز تيز چلنا شروع کرديا، جہاں ٹينکوں اور نلوں کا ايک ہجوم تھا وہ چاہتا تھا کہ اس دستان کا بقايا حصہ اس کے دماغ ميں نہ آئے مگر وہ بن نہ رہا۔
بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہيں نکلا تھا، اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذيل کي بھيجي کہ اس کي طبعيت ناساز ہے تھوڑي دير کيلئے آجائے، موذيل آئي ترلو چن کو بالوں کے بغير ديکھ کر پہلے وہ ايک لحظے کيلئے ٹھٹکي پھر مائي ڈارلنگ ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھيرا اس کے چھوٹے انگريزي وضع کے کٹے ہوئے بالوں ميں اپني انگليوں سے کھنگي کي اور عربي زبان مين نعرے مارتي رہي، اس نے اس قدر شور مچايا کہ اس کي ناک سے پاني بہنے لگا۔۔۔۔۔۔موذيل نے جب اسے محسوس کيا تو اپني اسکرٹ کا گھيرا اٹھايا اور اسے پونچھنا شروع کرديا۔۔۔۔ ترلو چن شرما گيا، اس نے اسکرٹ نيچي کي اور سرزش کے طور پرسے سے کہا، نيچے کچھ پہن تو ليا کرو۔
موذيل پر اس کا کچھ اثر نہ ھوا، باسي اور جگہ جگہ سے اکھڑي ہوئي لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہي کہا مجھے بڑي گبھراہٹ ہوتي ہے۔۔۔۔۔ ايسے ہي چلتا ہے۔
ترلوچن کو وہ پہلا دن ياد آگيا جب وہ موذيل دونوں ٹکرا گئے اور آپس ميں عجيب طرح گڈ مڈ ہوگئے تھے، مسکرا کر اس نے موذيل کو اپنے سينے کے ساتھ لگا ليا، شادي کل ہوگي؟
ضرور، موذيل سے ترلو چن کي ملائم تھوڑي پر اپنے ہاتھ کي پشت پھيري۔
طے يہ ہوا کہ شادي پونے ميں ہو، چونکہ سول ميرج تھي، اس لئے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دينا تھا، عدالتي کاوائي تھي، اس لئے مناسب يہي خيال کيا گيا کہ پونہ بہتر ہے، پاس ہے اور ترلو چن کے وہاں کئي دوست بھي ہيں، دوسرے روز انہيں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہوجاتا تھا۔
موذيل فورٹ کے ايک اسٹور ميں سيلز گرل تھي، اس سے کچھ فاصلے پر ٹيکسي اسٹينڈ تھا، بس يہيں موذيل نے اس کو انتظار کرنے کيلئے کہا تھا، ۔۔۔ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا، ڈيڑھ گھنٹہ انتظار کرتا رہا، مگر نہ وہ آئي، دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ايک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خريدي ہے، ديولالي چلي گئي ہے اور ايک غير معين عرصے کيلئے وہين رہے گي۔
ترلوچن پر کيا گزري؟۔۔۔ايک بڑي لمبي کہاني ہے، قصہ مختصر يہ ہے کہ اس نے جي کڑاکيا اور اس کو بھول گيا۔۔۔۔ اتنے ميں اس کي ملاقات کرپال کور سے ہوگئي اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہي عرصے ميں اس نے محسوس کيا کہ موذيل بہت واہيات لڑکي تھي، جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے ہيں اور جو چڑوں کي مانند ايک جگہ سے دوسري جگہ پھدکتا رہتا تھا، اس احساس سے اسکو گونہ تسکين ہوئي تھي کہ وہ موذيل سے شادي کرنے کي غلطي نہ کر بيٹھا تھا۔ليکن اس کے باوجود کبھي کبھي موذيل کي ياد ميں ايک چٹکي کے مانند اس کے دل کو پکڑ ليتي تھي اور پھر چھوڑ کر کد کڑے لگاتي غائب ہوجاتي تھي۔
وہ بے حيا تھي۔۔۔۔۔بے مروت تھي، اس کو کسي کے جذبات کا پاس نہيں تھا ترلو چن کو پسند تھي، اس لئے کبھي کبھي اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا تھا، کہ وہ ديولالي ميں اتنے عرصے سے کيا کر رہي ہے،، اس آدمي کے ساتھ ہے جس نے نئي نئي کار خريدي تھي، يا اسے چھوڑ کر کسي اور کے پاس چلي گئي ہے، اس کو اس خيال سے سخت کوفت ہوتي تھي کہ وہ اس کے سوا کسي اور کے پاس ہوگي، حالانکہ اس کو موذيل کے کردار کا بخوبي علم تھا۔
وہ اس پر سينکڑوں نہيں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا، ليکن اپني مرضي سے، ورنہ موذيل مہنگي نہيں تھي، اس کو بہت سسي قسم کي چيزيں پسند آتي تھي، ايک مرتبہ ترلو چن نے اسے سونے کي ٹوپس دينے کا ارادہ کيا جو اسے بہت پسند تھے مگر اسي دکان ميں موذيل جھوٹے اور بھڑکيلئے اور بہت سستے آويزوں پر مرمٹي اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلو چن سے منتيں کرنے لگي کہ وہ انہيں خريد دے۔
ترلو چن اب تک نہ سمجھ سکا کہ موذيل کس قماش کي لڑکي ہے، کس آب و گل سے بني ہے، وہ گھنٹوں اس کے ساتھ ليٹي رہتي تھي اور کو چومنے کي اجازت ديتي تھي، وہ سارا کا سارا صابن کي مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا، مگر وہ اسکو اس سے آگے ايک انچ نہ بڑھنے ديتي تھي، اس کو چرانے کي خاطر اتنا کہہ ديتي کہ تم سکھ ہو۔۔۔۔مجھے تم سے نفرت ہے۔
ترلو چن اچھي طرح محسوس کرتا تھا، کہ موذيل کو اس سے نفت نہيں ہے،اگر ايسا ہوتا تو وہ اس سے کبھي نہ ملتي، برداشت کا مادہ اس ميں رتي بھر نہيں تھا، وہ کبھي کبھار دو برس تک اس کي صحبت ميں نہ گزارتي، دو ٹک فيصلہ کرديتي، انڈروئير اس کو ناپسند تھے اس لئے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتي تھي، ترلو چن نے کئي بار اسکو ان کي اشد ضرورت سے آگاہ کيا، اسکو شرم و حيا کا واسطہ ديا، مگر اس اس نے يہ چيز کبھي نہ پہني۔
ترلو چن جب اس سے حيا کي بات کرتا تھا تو وہ چڑ جاتي تھي، يہ حيا ويا کيا بکواس ہے۔۔۔اگر تمہيں اس کا کچھ خيال ہے تو آنکھيں بند کرليا کرو۔۔۔۔تم مجھے يہ بتائو کہ کون سا لباس ہے جس ميں آدمي ننگا نہيں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔يا جس ميں سے تمہاري نگاہيں پار نہيں ہوسکتيں۔۔۔۔۔۔مجھ سے ايسي بکواس نہ کيا کرو۔۔۔۔۔تم سکھ ہو۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نيچے ايک سلي انڈروئير پہنتے ہو جو نيکر سے ملتاجلتا ہے۔۔۔۔۔۔يہ بھي تمہاري داڑھي اور سر کے بالوں کي طرح تمہارے مذہب ميں شامل۔۔۔۔۔شرم آني چاہئيے۔۔۔۔۔۔اتنے بڑے ہوگئے اور ابھي تک يہي سمجھتے ہو کہ تمہارا مذہب انڈروئير ميں چھپا بيٹھا ہے۔
ترلو چن کو شروع شروع ميں ايسي باتيں سن کر غصہ آيا تھا مگر بعد ميں غور و فکر کرنے پر وہ کبھي کبھي لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذيل کي باتيں شايد نادرست نہيں اور جب اس نے اپنے کيسوں اور داڑھي کا صفايا کراديا تھا تو اسے قطعي طور پر ايسا محسوس ہوا کہ وہ بيکار اتنے دن بالوں کا بوجھ اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب نہيں تھا۔
پاني کي ٹينکي کے پاس پہنچ کر ترلو چن رک گيا، موذيل کو ايک بڑي موٹي گالي دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کرديا،۔۔۔کرپال کور، ايک پاکيزہ لڑکي جس سے اس کو محبت ہوئي تھي، خطرے ميں تھي، وہ ايسے محلے ميں تھي، جس ميں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تين ورداتيں بھي ہوچکيں تھيں۔۔۔۔۔ليکن مصيبت يہ تھي کہ اس محلے ميں اڑتاليس گھنٹے کا کرفيو تھا، مگر اڑتاليس گھنٹے کے کرفيو کي کون پروا کرتا ہے، اس چالي کے مسلمان اگر چاہتے تو اندر ہي اندر کررپال کا، اس کي ماں کا، اس کے باپ کا بڑي آساني کے ساتھ صفايا کرسکتے تھے۔
ترلو چن سوچتا سوچتا پاني کے موٹے نل پر بيٹھ گيا، اس کےسر کے بال اب کافي لمبے ہو گئے تھے، اس کو يقين تھا کہ ايک برس کے اندر اندر يہ پورے کيسيوں ميں تبديل ہو جائيں گے، اس کي داڑھي تيزي سے بڑھي تھي مگر اسے بڑھانا نہيں چاہتا تھا، فورٹ ميں ايک باربر تھا، وہ اس صفائي سے اسے تراشتا تھا، کہ ترشي ہوئي دکھائي ديتي تھي۔۔۔۔
اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں ميں انگليان پھيريں اور ايک سرد آہ بھري۔۔۔اٹھنے کا ارادہ کرہي رہا تھا۔۔۔ کہ اسے کھڑائوں کي کرخت آواز سنائي دي، اس نے سوچا کون ہو سکتا ہے؟۔۔بلڈنگ ميں کئي يہودي عورتيں تھيں، جو کہ سب کھڑائوں پہنتي تھيں۔۔۔۔۔۔آواز قريب آتي گئي، يک لخت اس نے دوسري ٹينکي کے پاس موذيل کو ديکھا۔جو يہوديوں کي خاص قطع کا ڈھيلا ڈھالا کرتہ پہنے بڑے زور کي انگڑائي لے رہي تھي۔۔۔۔۔اس زور کي کہ ترلو چن کو محسوس ہوا کہ آس پاس کي ہوا چٹخ جائے گي۔
ترلو چن پاني کے نل پر سے اٹھا، اس نے سوچا يہ ايکا کہاں سے نمودار ہوگئي۔۔۔۔اور اس وقت ٹيرس پر کيا کرنے آئي ہے؟
موذيل نے ايک اور انگڑائي لي۔۔۔۔۔۔۔اب ترلو چن کي ہڈياں چٹخنے لگيں۔
ڈھيلے ڈھالے کرتے ميں اس کي مضبوط چھاتياں دھڑکيں۔۔۔۔۔۔۔ترلو چن کي آنکھوں کے سامنے کئ گول گول اور چپٹے چپٹے نيل ابھر آئے، وہ زور سے کھانسا ، موذيل نے پلٹ کر اس کي طرف ديکھا، اس کا رد عمل بالکل خفيف تھا، کھڑائوں گھسٹتي وہ اس کے پاس آئي اور اس کي نھني مني داڑھي ديکھنے لگي، تم پھر سکھ بن گئے تر لو چ؟
داڑھي کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔
موذيل نے آگے بڑھ کر اس کي ٹھوڑي کے ساتھ اپنے ہاتھ کي پشت رگڑي اور مسکرا کر کہا، اب يہ برش اس قابل کہ ميري نيوي بلو اسکرٹ صاف کرسکے۔۔۔مگر وہ تو وہيں ديوالاي ميں رہ گئي ہے۔
ترلوچ خاموش رہا۔
موذيل نے اس کے بازو کي چٹکي لي بولتے کيوں نہیں سردار صاحب؟
ترلوچن اپني پچھلي بے وقوفيوں کا اعادہ نہيں کرنا چاہتا تھا، تاہم اس نے صبح کے ہلکے اندھيرے ميں موذيل کے چہرے کو غور سے ديکھا۔۔۔۔کوئي خاص تبديلي واقع نہيں ہوئي تھي، ايک طرح وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتي تھي، ترلوچن نے اس سے پوچھا، بيمار رہي ہو؟
نہيں موذيل نے اپنے تراشے ہوئے بالوں کو ايک خفيف سا جھٹکا ديا۔
پہلے سے کمزور دکھائي ديتي ہو؟
ميں ڈائيٹنگ کر رہي ہوں، موذيل پاني کے موٹے نل پر بيٹھ گئي اور کھڑائوں فرشکے ساتھ بجانے لگي، تم گويا کہ ۔۔۔۔اب پھر۔۔۔نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔
ترلو چن نے کسي قدر ڈھٹائي کے ساتھ کہا، ہاں۔
مبارک ہو موذيل نے ايک کھڑائوں پير سے اتار لي اور پاني کے تل پر بجانے لگي کسي اور لڑکي سے محبت کرني شروع کردي۔
ترلو چن نے آسہتہ سے کہا، ہاں۔
مبارک ہو۔۔۔۔اسي بلڈنگ کي ہے کوئي؟
نہيں۔
يہ بہت بري بات ہے، موذيل کھڑائوں اپني انگليوں ميں اڑس کر اٹھي، ہميشہ آدمي کو اپنے ہمسايوں کا خيال رکھنا چاہئيے۔
ترلو چن خاموش رہا، موذيل نے اڑھ کر اس کي داڑھي کو اپني پانچوں انگليوں سے چيرا، کيا اس لڑکي نے تم کو بال بڑھانے کا مشورہ ديا ہے۔
نہيں۔
ترلو چن بڑي الجھن محسوس کررہا تھا، کنگھا کرتے کرتے اس کي داڑھي کے بال آپس ميں الجھ گئے ہيں، جب اس نے نہيں کہا تو اس کے لہجے ميں تيکھا پن تھا۔
موذيل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسي گوشت کي طرح معلوم ہوتي تھي، وہ مسکرائي تو ترلو چن نے ايسا محسوس کيا کہ اس کہ گائوں ميں جھٹکے کي دکان پر قصائي نے چھري سے موٹي رگ کے گوشت کے دو ٹکڑے کر دئيے۔
مسکرانے کے بعد وہ ہنسي، تم اب يہ داڑھي منڈا ڈالو تو کسي کي بھي قسم لے لو، ميں تم سے شادي کر لوں گي۔
ترلو چن کے جي ميں آيا کہ اس سے کہے کہ وہ ايک بڑي شريف، باعصمت اور پاک طنيت کنواري لڑکي سے محبت کر رہا ہے، اور اسي سي شادي کرے گا۔۔۔۔۔موذيل اس کے مقابلے ميں فاحشہ ہے، بد صورت ہے، بے وقوف ہے، بے مروت ہے، مگر وہ اس قسم کا گھٹيا آدمي نہيں تھا، اس نے موذيل سے صرف اتنا کہا، موذيل ميں اپني شادي کا فيصلہ کر چکا ہوں، ميرے گائوں کي ايک سيدھي سادي لڑکي ہے۔۔۔۔۔۔جو مذہب کي پابند ہے، اسي لئے ميں نے بال بڑھانے کا فيصلہ کرليا ہے۔
موذيل سوچ بچار کي عادي نہيں تھي، ليکن اس نے کچھ دير سوچا اور کھڑائوں پر نصف دائرے ميں گھوم کر ترلو چن سے کہا، وہ مہذہب کي پابند ہے تو تمہيں کيسے قبول کرے گيکيا اسے معلوم نہيں کہ تم ايک دفعہ اپنے بال کٹوا چکےہو؟
اس کو ابھي تک معلوم نہيں۔۔۔۔۔داڑھي ميں نے تمہارے ديوالي جانے کے بعد ہي بڑھاني شروع کردي تھي۔۔۔۔۔محض انتقامي طور پر۔۔۔۔۔۔اس کے بعد ميري کرپال کور سے ملاقات ہوئي مگر ميں پگڑي اس طريقے سے باندھتا ھوں کہ سو ميں سے ايک ہي آدمي مشکل سے جان سکتا ہے کہ ميرے کيس کٹے ہوئے ہيں۔
مگر اب يہ بہت جلد ٹھيک ہوجائيں گے، ترلو چن نے اپنے لمبے ملائم بالوں ميں انگليوں سے کھنگھي کرنا شروع کردي۔
موذيل نے لمبا کرتا اٹھاکر اپني گوري گوري دبيز ران کھجاني شرو عکردي، يہ بہت اچھا ہے۔۔۔۔مگر يہ کمبخت مچھر يہاں بھي موجود ہيں۔۔۔۔ديکھا کس زور سے کاٹا ہے۔
ترلو چن نے دوسري طرف ديکھنا شروع کرديا، موذيل نے اس جگہ جہاں مچھر نے کاڑا تھا انگلي سے لب لگائي اور کرتھ چھوڑ کر سيدھي کھڑي ہوگئي، کب ہو رہي ہے تمہاري شادي؟
ابھي کچھ نہيں يہ کہہ کر تو لو چن سخت متفکر ہوگيا۔
چند لمحات کي خاموشي رہي، اس کے بعد موذيل نے اس کے نفکر کا اندازہ لگا کر اس سے بڑے سنجيدہ اندازميں پوچھا،ترلو چن۔۔۔۔تم کيا سوچ رہے ہو؟
ترلو چن کو اس وقت کسي ہمدرد کي ضرورت تھي، خواہ وہ موذيل ہي کيوں نہ ہو، چناچہ اس نے اس کو سارا ماجرا سناديا، موذيل ہنسي، تم اول نبمر کے ايڈيٹ ہو۔۔۔۔جائو اس کو لے آئو، ايسي کيا مشکل ہے۔
مشکل۔۔۔۔موذيل تم اس معاملے کي نزاکت کو کبھي نہيں سمجھ سکتيں۔۔۔۔کسي بھي معاملے کي نزاکت۔۔۔۔۔۔تم ايک لابالي قسم کي لڑکي ہو۔۔۔۔يہي وجہ ہے کہ تمہارے اور ميرے تعلقات قائم نہيں رہ سکے،جس کا مجھے ساري عمر افسوس رہےگا۔
موذيل نے زور سے اپني کھڑائوں پاني کے نل کے ساتھ ماري، افسوس ايڈيٹ۔۔۔تم سے سوچو کہ تمہاري اس۔۔۔۔کيا نام ہے اس کا۔۔۔۔اس حملے سے بچا کر لانا کيسے ہے۔۔۔تم بيٹھ گئے ہوتعلقات کا رونا رونے۔۔۔۔تمہارے ميرے تعلقات قائم نہيں رہ سکے۔۔۔۔۔تم ايک سلي قسم کے آدمي ہو۔۔۔۔اور بہت ڈرپوک، مجھے نڈر مرد چاہئيے۔۔۔۔۔ليکن چھوڑ ان باتوں کو۔۔۔۔۔چلو آئو تمہاري اس کور کو لے آئيں۔
اس نے ترلو چن کا بازو پکڑ ليا۔۔۔۔۔۔ترلو چن نے گھبراہٹ ميں اس سے پوچھا کہاں سے؟
وہيں سے جہاں وہ ہے۔۔۔۔۔ميں اس محلے کي ايک ايک اينٹ کو جانتي ہوں، چلو آئو ميرے ساتھ۔
سنو تو۔۔۔کر فيو ہے۔
موذيل کيلئے نہيں۔۔۔۔چلو آئو۔
وہ ترلو چن کو بازوسے پکڑ کر کھينچتي اس دروزے تک لے گئي ہے جو نيچے سيڑھيوں کي طرف کھلتا تھا،دروازہ کھول کر وہ اتر نےوالي تھي کہ رک گئي اور ترلو چن کي داڑھي کي طرف ديکھنے لگي۔
ترلو چن نے پوچھا کيا بات ہے؟
موذيل نے کہا يہ تمہاري داڑھي۔۔۔۔۔ليکن خير ٹھيک ہے، اتني بڑي نہين ہے۔۔۔۔۔ننگے سر چلو تو کوئي نہيں سمجھے گا کہ تم سکھ ہو۔
موذيل نےبڑے معصوم انداز ميں پوچھا،کيوں؟
ترلو چن نے اپنے بالوں کي ايک لٹ ٹھيک کي، تم سمجھتي نہيں ہو، ميرا وہاں پگڑي کے بغير جانا ٹھيک نہيں ہے۔
کيوں ٹھيک نہيں ہے۔
تم سمجھتي کيوں نہيں ہو کہ اس نے مجھے ابھي تک ننگے سر نہيں ديکھا۔۔۔۔وہ يہي سمجھتي ہے کہ ميرے کيس ہيں، ميں اس پر يہ راز افشاں نہيں کرنا چاہتا۔
موذيل نے زور سے اپني کھڑائوں دروازے کي دہليز پر ماري، تم واقعي اول درجے کے ايڈيٹ ہو۔۔۔۔۔گدھے کہيں کے۔۔۔۔۔اس کي جان کا سوال ہے۔۔۔۔۔کيا نام ہے۔۔۔۔تمہاري اس کور کا، جس سے تم محبت کرتے ہو۔
ترلو چن نے اسے سمجھانے کي کوشش کي، موذيل وہ بڑي مذہبي قسم کي لڑکي ہے ۔۔۔۔۔۔اگر اس نے مجھے ننگے سر ديکھ ليا تو مجھ سےنفرت کرنے لگے گي۔

؟۔۔۔۔۔موذيل چڑھ گئي، اوھ تمہاري محبت ۔۔۔۔ميں پوچھتي ہوں کيا سارر سکھ تمہاري طرح کے بيوقوف ہوتے ہيں۔۔۔۔۔۔اس کي جان کا خطرہ ہے اور تم کہتے ہو کہ پگڑي ضرور پہنو گے۔۔۔۔اور شايد وہ اپنا انڈروئير بھي جو نيکر سے ملتا جلتا ہے۔
ترلو چن نے کہا وہ تو ميں ہر وقت پہنتا ہوں۔
بہت اچھا ہے کرتے ہو۔۔۔مگر اب تم يہ سوچو کہ معاملہ اس محلے کا ہے جہاں مياں بھائي بھائي رہتے ہيں، اور وہ بھي بڑے بڑے داد اور بڑے بڑے موالي۔۔۔تم پگڑي پہن کر گئے تو وہيں ذنج کر دئيے جائوں گے۔
ترلو چن نے مختصر سا جواب ديا، مجھے اس کي پرواہ نہيں۔۔۔۔اگر ميں تمہارے ساتھ وہاں جائوں گا تو پگڑي پہن کر جائوں گا۔۔۔۔ميں اپني محبت خطرے ميں نہيں ڈالنا چاہتا۔
موذيل جھنجلا گئي، اسي روز سے اس نے پيچ و تاب کھائے کہ اس کي چھاتياں آپس ميں بھڑ بھڑ گئيں، گدھے۔۔۔۔۔تمہاري محبت ہي کہاں رہے گي، جب تم نہ رہو گے۔۔۔۔تمہاري وہ ۔۔۔کيا نام ہے اس بھڑوي کا۔۔۔۔جب وہ بھي نہ رہےگي، اس کا خاندان تک نہ رہے گا۔۔۔تم سکھ ہو۔۔۔۔خدا کي قسم تم سکھ ہو اور بڑے ايڈيٹ سکھ ہو۔
ترلو چن بھنا گيابکواس نہ کرو۔
موذيل زور سے ہنسي، مہين مہين بالوں کے غبار سے اٹی ہوئي بانہيں اس نے ترلو چن کے گلے ميں ڈال ديں اور تھوڑا سا جھول کر کہا، ڈارلنگ چلو، جيسے تمہاري مرضي۔۔۔۔جائو پگڑي پہن آئو، ميں نيچے بازار ميں کھڑي ہو۔
يہ کہہ کر وہ نيچے جانے لگي ترلو چن نے اسے روکا تم کپڑے نہيں پہنو گي، موذيل نے اپنے سر کو جھکا کر کہا، نہيں۔۔۔۔۔چلے گا اسي طرح۔
يہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتي نيچے اتر گئي، ترلو چن نچلي منزل کي سيڑھيوں پر بھياس کي کھڑائوں کي چوبي کي آواز سنتا رہا، پھر اس نے اپنے لمبے لمبے بال انگليوں سے پھيچے کي طرف سميٹے اور نيچے اتر کر اپنے فليٹ ميں چلا گيا، جلدي جلدي اس نے کپڑے تبديل کئے پگڑي بندھي بندھائي رکھي تھي، اسے اچھي طرح سر پر جمايا اور فليٹ کا دروازہ متفل کرکےنيچے اتر گيا۔باہر فٹ پاتھ پر موذيل اپني تکڑي ٹانگيں چوڑي کئے سگريٹ پي رہي تھي، بالکل مردانہ انداز ميں جب تلوچن اس کے نزديک پہنچا تو اس نے شرات کے طور پر منہ بھر کے دھواں اس کے چہرے پر دے مارا، ترلو چن نے غصے ميں کہا تم بہت ذليل ہو۔
موذيل مسکرائي، يہ تم نے کوئي نہ بات نہيں کي۔۔۔۔۔اس سے پہلے اور کئ مجھے ذليل کہہ چکے ہيں، پھر اس نے ترلو چن کي پگڑي کي طرف ديکھا يہ پگڑي تم نے واقعي بہت اچھي طرح باندھي ہے۔۔۔۔۔ايسا معلوم ہوتا تھا کہ تمہارے کيس ہیں۔
بازار بالکل سنسان تھا۔۔۔۔ايک طرف ہوا چل رہي ہو، اور وہ بھي بہر دھيرے دھيرے جيسے کرفيو سے خوفزدہ ہے، بتياں روشن تھيں، مگر ان کي روشني بيمار سي معلوم ہوتي تھي، عام طور پر اس وقت ٹريميں چلني شروع ہوجاتي تھيں، اور لوگوں کي آمد و رفت بھي جاري ہوجاتي تھي، اچھي خاصي گہما گہمي ہوتي تھي، پر اب ايسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک پر کوئي انسان گزرا ہے نہ گزرے گا۔
موذيل آگے آگے تھي، فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کي کھڑائوں کھٹ کھٹ کر رہي تھيں، يہ آواز، اس خاموش فضا ميں ايک بہت بڑا شور تھي ترلو چن دل ہي دل ميں موذیل کو برا بھلا کہہ رہا تھا، کہ دو منٹ ميں اور کچھ نہيں تو اپني واہيات کھڑائوں کر کوئي اور دوسري چيز پہن سکتي تھي، اس نے سوچا کہ موذيل سے کہے، کھڑائوں اتار دو اور ننگے پائوں چلو، مگر اس کو يقين تھا کہ وہ کبھي نہيں مانے گي، اس لئے خاموش رہا۔
ترلو چن سخت خوفزدہ تھا، کوئي پتاکھڑکتا تو اس کا دل دھک سہ رہ جاتا تھا، مگر موذيل بالکل بے وقوف چلي جارہي تھي، سگريٹ کا دھواں اڑاتي جسيے وہ بے فکري سے چہل قدمي کر رہي ہے۔
چوک ميں پہنچے تو پوليس مين کي آواز گونجي۔۔۔۔۔۔اے کدھر جار ہےہو۔
ترلو چن سہم گيا، موذيل آگے بڑھي اور پوليس مين کے پاس پہنچ گئ اور بالوں کو ايک خفيف جھٹکا ديا اور کہا کہ وہ تم۔۔۔۔ہم کو پہچنانا نہيں۔
موذيل ۔۔۔۔۔پھر اس نےايک گلي کي طرف اشارہ کيا، ادھر اس باجو ۔۔۔۔۔ہمارا بہن رہتا ہے، اس کي طبعيت خراب ہے۔۔۔۔۔ڈاکڑ لےکر جارہا ہے۔
سپاہي اسےپہچاننے کي کوشش کر رہا تھا کہ اس نے خدا معلوم کہاں سے سگريٹ کي ڈبيہ نکالي اور ايک سگريٹ نکال کر اس کو ديا۔ لو پيو۔سپاھي نے سگريٹ لے ليا، موذيل نے اپنے منہ سے سلگا ہوا سگريٹ نکالا اور اس سے کہا، بئير از لائٹ۔
سپاہي نے سگريٹ کا کش ليا، موذيل نے داہني آنکھ اس کو اور بائيں آنکھ ترلو چن کو ماري اور کھٹ کھٹ کرتي اس گلي کي طرف چل دي۔۔۔جس ميں سے گزر کر انہيں۔۔۔۔محلے جانا تھا۔
ترلوچن خاموش تھا، مگر وہ محسوس کررہا تھا، کہ موذيل کرفيو کي خلاف ورزي کرکے عجيب و غريب قسم کي مسرت محسوس ہو رہي تھي، خطروں سے کھيلنا اے پسند تھا، وہ جب جو ہو پر اس کے ساتھ جاتي تھي، تو اس کے لئے مصيبت بن جاتي ہے، سمندر کي پيل تن لہروں سے ٹکراتي، بھٹري وہ دور تک نکل جاتي تھي اور اس کو ہميشہ اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ کہيں وہ ڈوب نہ جائے، جب واپس آتي تو اس کا جسم نيلو اور زخموں سے بھرا ہوتا تھا مگر اسے ان کي کوئي پروہ نہيں ہوتي تھي۔
موذيل آگے آگے تھي ترلو چن اس کے پيچھے پيچھے، ڈر ڈرکے ادھر ادھر ديکھتا رہتا تھا کہ اس کي بغل ميں سےکوئي چھري مار نمودار نہ ہوجائے، موذيل رک گئي جب ترلو چن پا آيا تو اس نے سمجھانے کے انداز ميں اس سے کہا ترلوچ ڈئير۔۔۔۔۔اس طرح ڈرنا اچھا نہيں۔۔۔۔تم ڈرو گے تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔۔۔۔۔۔۔سچ کہتي ہو، يہ ميري آزمائي ہوئي بات ہے۔
ترلو چن خاموش رہا۔
جب وہ گلي طے کرکے دوسري گلي ميں پہنچے جو اس محلے کي طرف نکلتي تھي جس ميں کرپال کور رہتي تھي۔۔۔۔۔تو موذيل چلتے چلتے ايک دم رک گئي، کچھ فاصلے پر بڑے اطمينان سے ايک مارواڑي کي دکان لوٹي جارہي تھي، ايک لحظے کيلئے اس نے اس معاملے کا جائزہ ليا اور ترلو چن سے کہا، کوئي بات نہيں۔۔۔۔چلو آئو۔
دونوں چلنے لگے۔۔۔۔۔ايک آدمي جو سر پر بہت بڑي پرات اٹھائے چلا آرہا تھام ترلو چن سے ٹکرا گيا، اس آدمي نے غور سے ترلو چن کي طرف ديکھا، صاف معلوم ہوتا تھا، کہ وہ سکھ ہے، اس آدمي نے جلدي سے اپنے نيفے ميں ہاتھ ڈالا، کہ موذيل آگئي، لڑکھڑاتي ہوئي جيسے نشے ميں چور ہے، اس نے زورسے اس آدمي کو دھکا ديا اور مخمور لہجے ميں کہا، اے کيا کرتا ہے۔۔۔۔۔اپنے بھائي کو مارتا ہے۔۔۔۔۔۔ہم اس سےشادي بنانے کو مانگتا ہے۔۔۔۔۔پھر وہ تر لو چن سے مخاطب ہوئي کريم۔۔اٹھائو، پرات اور رکھ دو اس کے سر پر۔
اس آدمي نے نے نيفے سے ہاتھ نکال ليا اور شہواني آنکھوں سے موذيل کي طرف ديکھا، پھر آگے بڑھ کر اپني کہني سے اس کي چھاتيوں ميں ايک ٹہو کا ديا عيش کر سالي۔۔۔۔۔عيش کر پھر اس نےپرا اٹھايا اور يہ جا وہ جا۔
تر لو چن بڑبڑايا کيسي ذليل حرکت ہے، حرامزادے کي۔
موذيل نے اپني چھاتيوں پر ہاتھ پھيرا کوئي ذليل حرکت نہيں۔۔۔۔سب چلتا ہے۔۔۔۔آئو۔
اور تيز تيز چلنے لگي۔۔۔۔ترلو چن نے بھي قدم تيز کردئيے۔
يہ گلي طےکرنے کے بعد دونوں اس محلے ميں پہنچ گئے، جہاں کرپال کور رہتي تھي، موذيل نے پوچھا کس گلي ميں جانا ہے؟
تر لو چن نے آہستہ سے کہا، تيسري گلي ميں۔۔۔۔نکڑ والي بلڈنگ۔
موذيل نے اس طرف چلنا شروع کر ديا، يہ راستہ بالکل خاموش تھا، آس پاس اتني گنجان آبادي تھي مگر کسي بطے کي رونے کي آواز سنائي نہیں ديتي تھي۔
جب وہ اس گلي کے قريب پہنچے تو کچھ گڑ بڑ دکھائي دي۔۔۔۔ايک آدمي بڑي تيزي سے اس کانرےوالي بلڈنگ سے نکلا اور دوسرے کنارے والي بلڈنگ ميں گھس گيا، اس بلڈنگ سے تھوڑي دير بعد تين آدمي نکلے، فٹ پاتھ پر انہوں نے ادھر ادھر ديکھا اور بڑي پھرتي سے دوسري بلڈنگ ميں چلے گئے، موذيل ٹھٹک گئي، اس نے ترلو چن کو اشارہ کيا کہ اندھيرے ميں ہو جائے، پھر اس نے ہولے سے کہا ترلو چن ڈئير۔۔۔۔يہ پگڑي اتار دو۔
ترلو چن نے جواب ديا ميں يہ کسي صورت بھي نہيں اتارسکتا۔
موذيل جھنجلا گئي، تمہاري مرضي۔۔۔ليکن تم ديکھتے نہيں سامنے کيا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔سامنے جو کچھ ہو رہا ہے تھا دونوں کي آنکھوں کے سامنے تھا۔۔۔۔۔صاف گڑ بڑ ہو رہي تھي اور بڑي پراسرار قسم کي، دائيں ہاتھ کي بلڈنگ سے جب دو آدمي پيٹھ پربورياں اٹھائے نکلے ہيں۔
بورياں اٹھائے نکلے تو موذيل ساري کي ساري کانپ گئي، ان میں سے کچھ گاڑھي گاڑھي سيال سي چيز ٹپک رہي تھي، موذيل اپنئ ہونٹ کاٹنے لگي غالبا وہ سوچ رہي تھي، جب يہ دونون آدمي گلي کے دوسرے سرے پر پہنچ کر غائب ہوگئے، تو اس نے ترلوچن سے کہا۔
ديکھو ايسا کرو۔۔۔۔۔ميں بھاگ کر نکڑ والي بلڈنگ ميں جاتي ہوں۔۔۔۔تمميرے پيچھے آنا۔۔۔۔۔بڑي تيزي سے جيسے تم ميرا پيچھا کر رہے ہو۔۔۔سمجھے ۔۔۔مگر يہ اب ايک دم جلدي جلدي ميں ہو۔
موذيل نے ترلوچن کے جواب کا انتظار کيا اور نکڑ والي بلڈنگ کي طرف کھڑائوں کھٹکھٹاتي بڑي تيزي سے بھاگي،ترلو چن بھي اس کے پيچھے دوڑا، چند لمحوں ميں وہ بلڈنگ کے اندر تھے۔۔۔۔۔سيڑھيوں کے پاس۔۔۔ترلو چن ہانپ رہا تھا، مگر موذيل بالکل ٹھيک ٹھاک تھي، اس نے ترلو چن سے پوچھا کون سا مالا؟
ترلو چن نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھيري، دوسرا۔
چلو۔
يہ کہہ کر کھٹ کھٹ سيڑھياں چڑھنے لگي، تو تر لو چن اس کے پيچھے ہوليا، زينوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے، ان کو ديکھ ديکھ کر اس کا خون خشک ہو رہا تھا۔
دوسرے مالے پر پہنچے تو کوري ڈور ميں کچھ دور جا کر ترلو چن نے ہولے سے ايک دروزاے پر دستک دي، موذيل دو سيڑھيوں کے پاس کھڑي رہي۔
ترلو چن نے ايک بار پھر دستک دي اور دروازے کے ساتھ منہ لگا کر آواز دي۔
مہنگا سنگھ جي۔۔۔۔۔۔مہنگا سنگھ جي؟
اندر سے معين آواز آئي۔کون؟
ترلوچن
دروازہ دھيرے سے کھلا۔۔۔۔ترلو چن نے موذيل کو اشارہ کيا، وہ لپک کر آئي دونوں اندر داخل ہوئے۔۔۔۔موذيل نے اپني بغل ميں ايکپتلي لڑکي کو ديکھا۔۔۔۔جو بے حد سہمي ہوئي تھي، موذيل نے اس کو ايک لحظے کيلئے غور سے ديکھا، پتلے پتلئ نقش تھے، ناک بہت ہي پياري تھي مگر زکام ميں مبتلا، موذيل نے اس کو اپنے چوڑے چکلے سينے کے ساتھ لگا ليا اور اپنے ڈھيلے ڈھالے کرتے کا دامن اٹھا کر اس کي ناک پونچھي۔
ترلو چن سرخ ہوگيا۔
موذيل نے کرپال کور سے بڑے پيارکے ساتھ کہا، ڈرو نہيں ترلوچن تمہيں لينے آيا ہے۔
کرپال کور نے ترلوچن کي طرف اپني سہمي ہوئي آنکھوں سے ديکھا اور موذيل سے الگ ہوئي۔
ترلو چن نے اس سے کہا سردار صاحب سے کہو کہ جلدي تيار ہوجائيں۔۔۔۔اور ماتا جي سے بھي۔۔۔۔ليکن جلدي۔
اتنے ميں اوپر کي منزل پر بلدن آوازيں آنے گليں جيسے کوئي چيخ رہا ہوں اور دھينگا مشتي ہو رہي ہو۔
کرپار کور کے حلق سے دبي دبي چيخ نکلي، اسے پکڑ ليا انہوں نے۔
ترلو چن نے پوچھا کسے؟
کرپال کور نے جواب دينے والي کہ موذيل نے اس کو بازو سے پکڑا اور گھسيٹ کر ايک کونے ميں لے گئي، پکڑ ليا تو اچھا ہوا۔۔۔۔۔۔تم يہ کپڑے اتارو۔
کرپال کور کو ابھي سوچنے بھي نہ پائي تھي کہ موذيل نے آنا فانا اس کي قميض اتار کر ايک طرف رکھ دي ، کرپال کورنے اپني بانہوں ميں اپنے ننگے جسم کو چھپاليا اور وحشت زدہ ہوگئي، ترلو چن نے منہ دوسري طرف موڑليا، موزيل نے اپنا ڈھيلا ڈھالا کرتہ اتار اور اس کو پہنا ديا، خود وہ ننگ دہڑنگ تھي، جلدي جلدي اس نے کرپال کور کا آزار بند ڈھيلا کي اور اس کي شلوار اتارکر، ترلو چن سے کہنے لگي، جائو اسے لے جائو،ليکن ٹھرو۔
يہ کہہ کر اس نے کرپا کور کے بال کھول دئيے ، اس سے کہا جائو۔۔جلدي۔۔نکل جائو۔۔
ترلو چن نے اس سے کہا آئو مگر فورا ہي رک گيا، پلٹ کر اس نے موذيل کي طرف ديکھا جو دھوئے ديدے کي طرح ننگي کھڑي تھي اس کي بانہوں پر مہين مہين بال سردي کے باعث جاگے ہوئے تھے۔
تم جاتے کيوں نہیں ہو؟ موذيل کے لہجے ميں چڑا چڑا پن تھا۔
ترلو چن نے آہستہ سے کہا، اس کے ماں باپ بھي تو ہيں۔
جہنم ميں جائيں وہ۔۔۔۔۔تم اسے لے جائو۔
اور تم۔
ميں آجائوں گي۔
ايک دم اوپر کي منزل سے کئي آدمي دھڑا دھڑا دھڑ نيچے اترنے لگے، دروازےکےپاس آکر انہوں نے کوٹنا شروع کر ديا، جيسے وہ اسے توڑ ہي ڈاليں گے۔
کرپال کور کي اندھي ماں اور مفلوج باپ دوسرے کمرے ميں پڑے کراھ رہے ہيں۔
کرپال کور نے سوچااور بالوں کو خفيف جھٹکا ديا اور اس نے ترلوچن سے کہا سنو اب صرف ايک ہي ترکيب سمجھ ميں آتي ہے۔۔۔ميں دروزاہ کھولتي ہو۔۔۔۔
کرپال کور کے خشک حلق سے چيخ نکلتي دب گئي، دروازہ۔
موذيل ترلو چن سے مخاطب رہي ميں دروزہ کھول کر باہر نکلتي ہو۔۔۔تم ميرے پيچھے بھاگنا۔۔۔۔ميں اوپر چڑھ جائو گي۔۔۔تم بھي اوپر چلے جانا۔۔۔۔يہ لوگ دروازہ توڑ رہے ہيں، سب کچھ بھول جائيں گے اور ہمارے پيچھے چلے آئيں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترلو چن نے پوچھا پھر؟
موذيل نے کہا يہ تمہاري۔۔۔۔کيا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔۔موقع پاکر نکل جائے۔۔۔اس لباس ميں اسے کچھ نہ کہے گا۔
ترلو چن نے جلدي جلدي کرپال کور کو سار بات سمجھا دي، موذيل زور سے چلاي دروازہ کھولا اور دھڑام سے باہر کے لوگوں پر گري، سب بوکھلا گئے اٹھ کر اس نے اوپر کي سيڑھيوں کا رخ کيا، ترلوچن اس کے پيچھے بھاگا اب ايک طرف ہٹ گئے۔
موذيل اندھا دھند سيڑھياں چڑھ رہي تھيں۔۔۔۔۔۔۔کھڑائوں اس کے پيروں ميں تھي۔۔۔۔۔۔وہ لوگ جو دروازے کو توڑنے کي کوشش کر رہے تھے، سنبھل کر ان کے تعاقب ميں دوڑے، موذيل کا پائو پھسلا۔۔۔۔۔۔۔اوپر کے زينے سے وہ کچھ اس طرح لڑھکي کہ ہر پتھريلے زينے کے ساتھ ٹکراتي لوہے کے جنگلے کے ساتھ الجھتي وہ نيچے آرہي ۔۔۔۔۔۔
پتھريلے فرش پر۔
ترلو چن ايک دم نيچے اترا، جھک کر اس نے ديکھا تو اس کي ناک سے خون بہہ رہا تھا، منہ سے خون بہہ رہا تھا، کانوں کے رستے بھي خون نک رہا تھا، وہ جو دروازہ توڑنے آئے تھے، ارد گرد جمع ہوگئے۔۔۔۔۔کسي نے بھي نہ پوچھا کيا ہوا ہے، سب خاموش تھے اور موذيل کے ننگےاور گورے جسم کو ديک رہے تھے، جس پر جا بجا خراشيں پڑي تھيں۔
ترلو چن نے اس کا بازو ہلايا اور آواز دي، موذيل۔۔۔۔موذيل۔
موذيل نے اپني بڑي بڑي يہودي آنکھيں کھوليں، جو لال بوٹي ہو رہي تھيں اور مسکرائي۔
ترلو چن نے اپني پگڑي اتار اور کھو کر اس کا ننگا جسم ڈھک ديا،موذيل پھر مسکرائي اور آنکھ مارکر اس نےترلو چن سے منہ ميں خون کے بلبلے اڑاتے ہوئے کہا کہ جائو ديکھو، ميرا انڈر وئير وہاں ہے کہ نہيں۔۔۔۔۔۔ميرا مطلب ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔
ترلو چن اس کا مطلب سمجھ گيا مگر اس نے اٹھانا نہ چاہا، اس پ
 

نبیل

تکنیکی معاون
ڈاکٹر بلند اقبال صاحب:

منٹو کا افسانہ پوسٹ کرنے کا بے حد شکریہ۔ لگتا ہے کہ پوسٹ فورم کی ڈیٹابیس میں پوری نہیں سما سکی۔ اگر ہو سکے تو اس افسانے کے باقی حصے کو اسی پوسٹ کے جواب میں پوسٹ کردیں۔ ادھر میں دیکھوں گا کہ کہاں گڑبڑ ہوئی ہے۔
 
بقیہ موذيل۔۔۔سعادت حسن منٹو

مگر اس نے اٹھانا نہ چاہا، اس پر موذيل نے غصے ميں کہا۔۔۔۔۔۔تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔۔۔جائو ديکھ کر آئو۔
ترلوچن اٹھ کر کرپال کور کے فليٹ کي طرف چلاگيا، موذيل نے اپني دھندلي آنکھوں سے آس پاس کھڑے مردوں کي طرف ديکھا اور کہا يہ مياں بھائي ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ليکن بہت دادا قسم کا۔۔۔۔ميں اسے سکھ کہا کرتي ہوں۔
ترلو چن واپس آگيا، اس نے آنکھوں ہي آنکھوں ميں موذيل کو بتا ديا کہ کرپال کور جاچکي ہے۔۔۔۔۔۔موذيل نے اطمينان کا سانس ليا۔۔۔۔۔۔ليکن ايسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منہ سے بہہ نکلا۔۔۔۔اوہ ڈيم اٹ۔۔۔۔۔يہ کہہ کر اس نے اپني مہين مہين بالوں سے اٹی ہوئي کلائي سے اپنا منہ پونچھا اور ترلو چن سے مخاطب ہوئي، آل رائٹ ڈارلنگ۔۔۔۔۔بائي بائي۔
ترلو چن نے کچھ کہنا چاہا، مگر لفظ اس کے حلق ميں اٹک گئے۔
موذيل نے اپنے بدن سےترلو چن کي پگڑي ہٹالي۔لے جائو اس کو۔۔۔۔۔۔اپنے اس مذہب کو، اور اس کا بازو اس کي مضبوط چھاتيوں پر بے حس ہو کر گر پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

موبی

محفلین
منٹو

آخری سطر میں غلطی سے مضبوط کی بجائے مظبوط لکہا گیا ہے ۔ ایسی غلطیاں اب بہت دیکہنے میں آتی ھیں ۔یہ لکہنے کے بعد میری نظر سے شعیب صفدر کا بلاگ گزرا ، جس کا عنوان انہوں نے “ بے لطفی کی باتیں بے طقے کام “ رکھا ھے ۔ بلاگ
کے اندر عنوان اس طرح بدلا گیا ھے۔ “ بے طقی باتیں بے طقے کام “ ۔ حضرت یہ لفظ “ بے تکی “ ھے ۔ اصلاح کر لیں ، تو خوب ھو گا ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
موبی:

دراصل اس فورم پر کوئی باقاعدہ ایڈیٹنگ اور پروفنگ کا سسٹم نہیں ہے۔ یہ تو بس فورم کے ناظمین یا منتظمین پر منحصر ہے کہ وہ ان املا کی غلطیوں کی تصحیح کر دیں۔ آپ کی نشاندہی پر اس غلطی کو درست کیے دیتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ افسانہ بلند اقبال صاحب نے کسی دوسری سائیٹ سے کاپی کر کے جوں کا توں پیسٹ کر دیا ہے۔ (وہی سائیٹ لگتی ہے جس سے راجہ صاحب نے کاپی کر کے پیسٹ کر دیا تھا۔) انہوں نے اسے پڑھا بھی نہیں ہو گا اور میرے خیال میں ان کے پاس منٹو کی ایسی کوئی کتاب نہیں ہو گی جس سے وہ اسے پروف ریڈ کر سکتے۔ اس میں بہت ساری غلطیاں ہیں اور بہت سارے الفاظ کم ہیں۔ اور پھر کئی جگہ سے اس کا فونٹ بھی اردو محفل کے فونٹ سے الگ ہے۔

میں یہ افسانہ آدھے سے زیادہ لکھ چکا ہوں۔ جیسے ہی فرصت ملے گی مکمل کر کے پوسٹ کر دوں گا۔ ابھی “ علی پور کا ایلی “ میں مصروف ہوں کہ یہ کتاب قریب الاختتام ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
شمشاد۔ ابھی میرا نیٹ بہت سست ہے ورنہ میں تم کو وہ ربط دے دیتا۔ سمت کے پہلے شمارے میں ہی میں نے اس کی تصحیح کر دی تھی۔ اور دو مزید افسانے۔۔ کالی شلوار اور بلاؤز جوجو کے تصحیح شدہ میری کتابوں کی سائٹ پر ہیں۔ اردو کے مشہور افسانے والی کتاب میں جو کتاب گھر کے رشکر سے میں نے لیے ہیں۔
[align=left:2c12669712]http://kutub.250free.com/books/KG-MashhoorAfsanayDoc.zip[/align:2c12669712]
 
Top