نہ ہو سکی جو کوئی بات کُھل کے ساتھ اس کے
میرے لبوں پہ دھرے تھے ، تکلفات اس کے
.وہ کھولتا تھا کبھی مٹھی کو بند کرتا تھا
پڑے ہوئے تھے عجب کشمکش میں ہاتھ اس کے
.وہ اس لیئے گریزاں ہے میری کہانی سے
کہ میرا نام ہے ، لیکن ہیں واقعات اس کے
عجیب رُ ت ہے کہ میں خون بہا مانگ رہا ہوں
میرے لہو میں اگرچے ، رنگے ہیں ہاتھ اس کے
شجر نے سبز رُتوں کی اذن جسے سمجھا
اُسی ہوا میں سُلگتے ہیں ، پھول پات اس کے
دیا ہوں شب کا ، میرا تیرگی سے رشتہ ہے
وہ بنتِ نُور ہے ، سحر سے تعلقات اس کے
کسی مچان پہ بیٹھا ہوا ہے وہ چھپ کر
میری تلاش میں رہتے ہیں ، حادثات اس کے