حضرت مہدی کون؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
واجد صاحب، اگر آپ ان روایات کے ارد گرد عربی لگا دیجئے تو چوکھٹے ختم ہو جائیں‌گے اور پڑھنے میں آسانی رہے گی۔
جتنا پڑھا جارہا ہے اس سے یہ روایات عیسی ابن مریم (علیہ السلام ) کے بارے میں نظر آتی ہیں۔ آپ کے نزدیک اور دیگر سوال کرنے والوں کے نزدیک کیا جناب مہدی آخر الزماں اور عیسی ابن مریم (علیہ السلام) کیا ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں؟
میرا اب تک یہ خیال ہے کہ یہ بحث عیسی علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے بارے میں یقیناَ نہیں ہے ورنہ بہت پہلے اس سلسلے میں وضاحت ہو جاتی۔
والسلام۔
 
تو اس بار کسی مستری کو بلا لیتے ہیں، کوئی پلمبر، کوئی گاڑی ٹھیک کرنے والا وہ اچھی تشریح‌ کردے گا اور "لفظی"‌ بھی نہیں‌ عملی ہوگی۔ مولوی تو چونکہ ساری عمر جھک مارتا ہے، فقہ حدیث کی بجائے نجانے کیا الم غلّم اپنے دماغ میں ٹھونستا رہتا ہے۔

دوست ، علماء یعنی دینی تعلیم یافتہ اور مستری پلمبر کے درمیان ، ہم آپ جیسے تعلیم یافتہ افراد بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ ہمارا اپنا انتخاب ہے کہ ہم دینی تعلیم سے دور رہیں اور اس تعلیم کو کچھ مولویوں کو آؤٹ سورس کردیں یا پھر دل سے اپنی بنیادی کتاب قرآن پڑھیں اور اللہ تعالی سے ہدایت طلب کریں۔ فیصلہ آپ کو، ہم کو، سب کو کرنا ہے۔

میری آپ سے اور دیگر دوستوں سے مودبانہ گذارش یہ ہے کہ آپ میری کسی بات پر کان نہ دھریں ، میں صرف آیتوں کے حوالے دیتا ہوں، اگر آپ کو ناپسند ہوں تو معذرت۔ میں ایک معمولی طالب علم ہوں۔ یہی آئیتیں اور یہی کتاب آپ کے پاس بھی ہے۔ اور پھر اوپن برہان پر بھی ہے۔ استدعا یہ ہے کہ تھوڑا تھوڑا کر کے اس کو پڑھ ڈالئیے ۔یہاں آنے والے بھائیوں اور بہنوں جیسے تعلیم یافتہ لوگوں کے لئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ اردو میں ایک سے زیادہ مترجمین کے تراجم آن لائین موجود ہیں۔ اس طرح آپ خود سچ کی پہچان کرسکیں گے۔

والسلام
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جی جناب اس لیے تو میں نے کتاب کا حوالہ دیا کہ جب عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائےگے تو امام مھدی ان سے پہلے موجود ہوں گے
اور اگر ہو سکے تو اس حدیث کی شرح ( تشریح دیکھیں ) تو بات واضح ہو جائیگی باقی پھر جاتے جاتے یہاں پہنچ جائیں گے ;)

اللہ اکبر کبیرا
 
اللہ تعالی نے ہر اک کو دماغ علماء کی باتوں پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کیلئے نہیں دیا۔ جب تک کسی بات میں کوئی حکمت نہ ہو، وہ بات چاہے حدیث سے آئے یا کسی عالم فاضل کی طرف سے، اسکا یقین کرلینا جہالت ہے!


لیکن حضور ! پہلے یہ بھی فرما دیں کہ "کس کا دماغ"؟؟
آپ کا ؟ دوست بھائی کا؟ گروجی کا؟ یا مزدور مستری دھوبی چمار یا کسی شیخ الاسلام یا پروفیسر صاحب کا؟؟
آخر کوئی ایک دماغی اسٹینڈرڈ بھی تو دے جائیں۔ ہمارے معاشرے میں تو قسم قسم کے نمونہ دماغ پائے جاتے ہیں لالہ جی !!
 
دوست ، علماء یعنی دینی تعلیم یافتہ اور مستری پلمبر کے درمیان ، ہم آپ جیسے تعلیم یافتہ افراد بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ ہمارا اپنا انتخاب ہے کہ ہم دینی تعلیم سے دور رہیں اور اس تعلیم کو کچھ مولویوں کو آؤٹ سورس کردیں یا پھر دل سے اپنی بنیادی کتاب قرآن پڑھیں اور اللہ تعالی سے ہدایت طلب کریں۔ فیصلہ آپ کو، ہم کو، سب کو کرنا ہے۔

معافی چاہتا ہوں فاروق بھائی صاحب۔
لیکن آپ کے اس جملے سے ایسا لگتا ہے کہ آپ دینی تعلیم کے حصول کو "تعلیم یافتہ افراد" کا حق سمجھتے ہیں اور "مستری پلمبر" سے اس کے حصول کا حق چھیننے پر مصر ہیں۔
خیر طنز کو درگزر فرمائیں۔
چلئے، مان لیا کہ آپ نے مستری پلمبر کو بھی اسی "دینی تعلیم" کے حصول کا حق عطا کر دیا۔
اب یہ بھی ضرور بتائیں کہ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ قرآن کی کسی آیت کا مطلب مستری، پلمبر وہی سمجھے گا جو آپ سمجھیں گے؟؟
کیونکہ آپ نے پہلے ہی مستری پلمبر کو "مستری پلمبر" کہہ کر اس کی "ذہنیت" نشاندہی کر چکے ہیں۔
اور دوسری بات یہ کہ اگر اس بچارے مستری کے ذہن میں کسی آیت کا مفہوم نہ آئے تو وہ صحیح مفہوم پوچھنے کس کے پاس جائے گا؟؟
آپ کے پاس آئے گا یا اپنے محلہ کے کسی مولوی کے پاس جائے گا؟؟
اس کا جواب ضرور عنایت کیجے گا ، مہربانی ہوگی خان ساحب۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
کسی صاحب نے یہ دھاگہ مہدیت سے متعلق سوال پوچھنے کے لیے شروع کیا تھا۔ میری درخواست ہے کہ موضوع پر رہ کر بات کریں اور غیر ضروری گفتگو سے پرہیز کریں۔ میں اس دھاگے سے غیر ضروری پیغامات حذف کر دوں گا۔
 

زھرا علوی

محفلین
جناب فاروق صاحب آپ مجھے پھر کم از کم اتنا بتا دیں کہ اپ اس روایت کو مستند تسلیم کرتے ہیں یا نہیں آخر یہ دین کی ایک اہم کتاب کا حوالہ ہے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
ڈاکٹر فاروق صاحب سے ایک سوال کرنا چاہتی ہوں ایک مشہور حدیث ہم سنتے آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔

"علی علیہالسلام کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون علیہالسلام کی موسیٰ علییہ السلام سے ہے"

آپ سے سوال اس حدیث کی صحت اور تشریح کی بابت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"صحت اور تشریح؟"

سسٹَر زہرا،

یہ روایت متفق علیہ ہے:

بخاری کی روایت یہ ہے[لنک انگلش آنلائن ورژن]:

Volume 5, Book 59, Number 700:

Narrated Sad:

Allah's Apostle set out for Tabuk. appointing 'Ali as his deputy (in Medina). 'Ali said, "Do you want to leave me with the children and women?" The Prophet said, "Will you not be pleased that you will be to me like Aaron to Moses? But there will be no prophet after me."


بخاری کے علاوہ اسی حدیث کے کچھ ریفرنس [جن میں بخاری کی دوسری رواتیں بھی شامل ہیں] یہ ہیں:


(1) Sahih al-Bukhari, Arabic-English version, Traditions 5.56, 5.700
(2) Sahih Muslim, Arabic, v4, pp 1870-71
(3) Sunan Ibn Majah, p12
(4) Musnad Ahmad Ibn Hanbal, v1, p174
(5) al-Khasa'is, by al-Nisa'i, pp 15-16
(6) Mushkil al-Athar, by al-Tahawi, v2, p309



اہلسنت علماء نے اسکی شرح یہ کی ہے کہ ان کلمات سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مراد صرف یہ تھی کہ علی ابن ابی طالب اس غزوے کے عرصے کے لیے مدینے میں انکے جانشین ہیں۔

اہلسنت علماء کے مطابق مزید یہ کہ چونکہ جناب ہارون علیہ السلام کی وفات جناب موسی علیہ السلام کے زمانے میں ہو گئی تھی اس لیے اب اس حدیث سے علی ابن ابی طالب کے لیے کوئی جانشیینی ثابت نہیں ہوتی۔

جبکہ اہل تشیع کے علماء کے مطابق رسول صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان کلمات میں عرصے کی کوئی قید نہیں اور اس بات کو تقویت روایت کے دوسرے حصے سے مل رہی ہے جب آپ [ص] فرما رہے ہیں کہ "لیکن میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا"۔ تو جس طرح یہ دوسرا ٹکڑا عرصہ کا محتاج نہیں اس طرح پہلا ٹکڑا بھی عرصے کا محتاج نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
فاروق صاحب کا اعتراض ہے کہ مہدی کے متعلق قران میں آیات کیوں نازل نہ ہوئیں؟

سب سے پہلے فاروق صاحب، آپ سے ایک کاونٹر سوال۔

کیا آپ عیسی ابن مریم علیہ الصلوۃ و السلام کے دوبارہ نازل ہونے پر یقین رکھتے ہیں؟

میرا یہ سوال پوچھنے کی ضرورت یوں ہے کیونکہ قسیم بھائَی نے عیسی ابن مریم علیہ الصلوۃ و السلام کے متعلق مسیح موعود کے نام سے ایک تھریڈ شروع کیا تھا۔

آپ نے اس تھریڈ میں انکا شکریہ ادا کیا ہے۔

تو اگر آپ عیسی ابن مریم علیہ الصلوۃ و السلام کے نازل فرمانے پر یقین رکھتے ہیں اور مہدی کے منکر ہیں تو یہ چیز ڈبل سٹینڈرڈز ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔ کیونکہ قران کی ایک بھی آیت نہیں جو عیسی ابن مریم کے دوبارہ دنیا میں نزول کے متعلق بتا رہی ہو٫

یا پھر آپکے عیسی ابن مریم علیہ الصلوۃ و السلام کے متعلق احادیث پر آپ کی طرف سے شکریہ ادا کرنے پر مجھے غلط فہمی ہو رہی ہے کہ آپ صرف مہدی کی آمد کو کہانیاں نہیں مان رہے بلکہ آپکے نزدیک عیسی ابن مریم علیہ الصلوۃ و السلام کا دوبارہ نزول کرنا مسلم عقیدہ نہیں بلکہ صرف گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں۔

انشاء اللہ آپکے جواب آنے کے بعد میں اپنے دلائل کا سلسلہ شروع کروں گی۔
 
جناب فاروق صاحب آپ مجھے پھر کم از کم اتنا بتا دیں کہ اپ اس روایت کو مستند تسلیم کرتے ہیں یا نہیں آخر یہ دین کی ایک اہم کتاب کا حوالہ ہے؟
ایک سے زیادہ کتب روایات میں یہ روایت پائی جاتی ہے۔
میں اس روایت اور اس سوال کا تعلق اس موضوع سے قائم نہیں کر پارہا ہوں کہ اس روایت کا تعلق کس طور پر اس موضوع ( حضرت مہدی کون؟) سے ہے؟ تھوڑی سی وضاح فرما دیجئے۔
 

arifkarim

معطل
فاروق صاحب کا اعتراض ہے کہ مہدی کے متعلق قران میں آیات کیوں نازل نہ ہوئیں؟

لازمی نہیں کہ جو چیز قرآن میں شامل نہیں‌ وہ اسلام میں بھی شامل نہیں۔ قرآن پاک راہ حق ہے اور احادیث و سنت اس راہ پر چلنے کا عملی طریقہ! جیسے تھیوری اور پریکٹس۔
 
مہوش صاحبہ ، آپ نے درست دیکھا کہ میں نے قسیم حیدر صاحب کا شکریہ ادا کیا تھا ان کا مضمون حضرت عیسی علیہ السلام کی واپسی کے بارے میں ہے اور تفصیل وہاں موجود ہے۔ عیسی علیہ السلام کی واپسی سے یہ فرض کرلینا کہ اس کے ساتھ ساتھ جناب مہدی (‌اس نام سے یا اس خاصیت ) سے کوئی صاحب آئیں گے کسی طور ثابت نہیں ہوتا۔ نبوت کا سلسلہ رسول اکرم پر ختم ہوچکا ہے یہ مسلمانون کا عقیدہ ہے۔ اب کوئی مہدی (ہدیات دینے والا ، گائیڈ کرنے والا، یعنی لیڈر ) تو ہر وقت ہی موجود ہوتا ہے۔ عیسی علیہ السلام کی واپسی پر یقین رکھنا اور مہدی علیہ السلام کا نزول ہونا دو الگ الگ باتیں‌ہیں۔ عام ور پر یہ ماننا مشکل ہے کہ ہماری کتب روایات میں کہانیاں بھی شامل ہیں۔ لیکن جب انہی کتب میں ایک طرف عبادات اور دوسری طرف غیر اسلامی نظریات۔ جیسے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی، غلاموں اور باندیوں کی تجارت، کم عمر لڑکیوں سے شادی کا معاہدہ، فرد واحد کی حکومت اور ملائیت کا قوم کے مال اور حکومت پر قبضہ کی روایات کا پایا جانا واضح طور پر ان روایات کو ضوء القران میں دیکھنے کی ضرورت کو اہم بناتا ہے۔

اب آئیے اس سوال کی طرف کہ کیا عیسی علیہ السلام آئیں گے یا نہیں؟ اس سلسلے میں زیادہ تر مسلمانوں کا نظریہ ہے کہ وہ واپس آئیں گے جبکہ ایک گروپ ایسا بھی ہے جو ان کے واپس نہ آنے کو قرآن سے ثابت کرتا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی بھی آیت سے کسی بھی دوسرے شخص یعنی جناب مہدی کا وجود سامنے نہیں آتا۔ (میں اپنے نطریات کا اظہار قسیم حیدر کے آرٹیکل میں شکریہ کی صورت میں کرچکا ہوں)

جو لوگ حضرت عیسی کے واپس آنے کو ثابت کرتے ہیں وہ یہ آیات پیش کرتے ہیں :
[ayah]4:157[/ayah] اور ان کے اس کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے قتل کیا ہے مسیح عیسی ابن مریم کو جو رسول ہیں اللہ کے حالانکہ نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ سولی پر چڑھایا اسے بلکہ معاملہ مشتبہ کردیا گیا ان کے لیے اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس معاملہ میں ضرور مبتلا ہیں شک میں اس بارے میںَ اور نہیں ہے انہیں اس واقع کا کچھ بھی علم سوائے گمان کی پیروی کے اور نہیں قتل کیا ہے انہوں نے مسیح کو یقینا!

[ayah]4:158[/ayah] [arabic]بَل رَّفَعَهُ اللّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا[/arabic]
بلکہ اٹھا لیا ہے اس کو اللہ نے اپنی طرف۔ اور ہے اللہ زبردست طاقت رکھنے والا، بڑی حکمت والا۔
اس آیت میں 4:58 میں عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے لئے لفظ - رفعہ - یعنی اس کو اوپر بلند کرنا ہے۔ اس آیت سے عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت نہیں ہوتی

اب اس سے اگلی آیت کو دیکھئے ، جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت عیسی کی وفات سے پہلے سب اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے

[ayah]4:159[/ayah] اور نہیں کوئی اہلِ کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا مسیح پر اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا میسح ان پر گواہ۔

یعنی من حیث القوم تمام اہل کتاب حضرت عیسی پر ایمان لے آئیں گے۔ یہ کیونکر ممکن ہوگا، زیادہ تر ان آیات سے حضرت عیسی کی واپسی پر ایمان رکھتے ہیں۔ کہ وہ آکر وفات پائیں گے۔

اس کے برعکس قادیانیوں کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عیسی وفات پاچکے ہیں تاکہ مرزا احمد کو مسیح موعود، نبی اور مہدی ثابت کیا جائے۔
اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے قادیانی کہتے ہیں کہ لفظ رفعہ سے مراد روح کا اللہ تعالی کی طرف بلند ہونا ہے۔ جبکہ اللہ تعالی الفاظ بہت ہی احتیاط سے استعمال فرماتے ہیں، وفات کے لیے موت کے لفظ کا استعمال قرآن میں بہت عام ہے۔

یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ان روایات کو تقویت ملتی ہے جو حضرت عیسی کے دوبارہ نزول کے بارے میں ہیں، جیسا کہ قسیم حیدر نے لکھا کہ اللہ تعالی، وفات یا بناء وفات، دوبارہ اتھانے پر قادر ہے۔ اور اسکا حوالہ بھی فراہم کیا ہے۔

کیا آپ کو ان تمام واقعات سے جناب مہدی کا نزول قرآن سےکسی طور سامنے آتا نظر آتا ہے؟ نام سے یا کسی ممکنہ اشارے سے؟ یا کسی دوسری آیات سے؟
اس سوال کے باجود، میرا نظریہ یہ ہے کہ ہم قرآن کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے، خوشیوں کو حاصل کرنے اور اس دینا کو پرام اور پر انصاف بنانے کے لئے استعمال کریں - نا کہ فرقہ واریت اور تفریق اور نفرتوں کو بڑھانے کے لئے۔ مہدی آئیں گے یا نہیں ، اس کا ثبوت قرآن میں ہے یا نہیں۔ اس سے مسلمان کا قرآن پرایمان کم نہیں‌ ہوتا۔ اور اس ایمان کے لئے اس سوال کا حتمی جواب ضروری نہیں۔
 
لازمی نہیں کہ جو چیز قرآن میں شامل نہیں‌ وہ اسلام میں بھی شامل نہیں۔ قرآن پاک راہ حق ہے اور احادیث و سنت اس راہ پر چلنے کا عملی طریقہ! جیسے تھیوری اور پریکٹس۔

یہ بھی ایک نظریہ ہے کہ ان کتب پر جو 250 سال بعد ترتیب دی گئی تھیں اور جن کی اصل اب صرف سنی سنائی پر مشتمل ہے، ان پر قرآن کی طرح ایمان رکھا جائے، جبکہ رسول اکرم کا قول ہے کہ جو کچھ بھی ان (صلعم) سے منسووب کیا جائے اسے ضوء القران میں‌پرکھا جائے۔ لہذا سنت پر عمل اپنی جگہ اور ان روایات کو ضوء القرآن میں دیکھنا اپنی جگہ۔ یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔
 

دوست

محفلین
جب ایک چیز قرآن میں ہے ہی نہیں تو ہم اسے کیسے قرآن کی روشنی میں‌ پرکھ سکتے ہیں؟‌
 
جو چیزیں قرآن میں نہیں‌ہیں ان کے بارے میں ہمارے رب عظیم کا حکم:

[ayah]5:101[/ayah] اے ایمان والو! تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کرو (جن پر قرآن خاموش ہو) کہ اگر وہ تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیں (اور تمہیں بری لگیں)، اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جبکہ قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو وہ تم پر (نزولِ حکم کے ذریعے ظاہر (یعنی متعیّن) کر دی جائیں گی (جس سے تمہاری صواب دید ختم ہو جائے گی اور تم ایک ہی حکم کے پابند ہو جاؤ گے)۔ اللہ نے ان (باتوں اور سوالوں) سے (اب تک) درگزر فرمایا ہے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بردبار ہے

یہ نکتہ نظر کوئی جدید نکتہ نظر نہیں کہ معاملہ کو ضوء القرآن میں دیکھ لیا جائے۔ اگر قرآن میں موجود نہ ہو تو آپ کی ، آپ کی کتاب کی ، آپ کے اپنے علم کی یا آپ کے عالم کی صوابدید۔ [arabic] لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ[/arabic] دین میں کوئی جبر تو ہے نہیں۔
والسلام۔
 

زھرا علوی

محفلین
تو سنیے اس روایت کا تعلق۔۔۔۔۔
ہمارا ایمان ہے کے مولائے کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات حکمت کا خزانہ ہےاور ان کا ہر قول بلاشبہ قول الہی ہے۔۔۔ سو اس قول پر غور کریں تو آپکو اس روایت کا تعلق حضرت امام مہدی سے نظر آ جائے گا۔۔۔
یہاں ضرورت اس "نسبت" کو سمجھنے کی ہے جسکی طرف اشارہ مولائے کائنات نے کیا ہے۔۔۔وہ نسبت جو ان دو تعلقات میں ایک جیسی ہے یعنی موسیٰ و ہارون میں اور محمد صہ و علی ابن ابو طالب عہ میں۔۔۔۔


کیا ہے یہ نسبت؟۔۔۔۔

ویسے تو بہت سی چیزیں مشترک ہیں ان دو تعلقات میں مگر میں یہاں ذکر فی الحال ان چار چیزوں کا ہی کروں گی جو ہمارے موضوع سے متعلق ہیں۔۔۔۔
1:ہارون عہ حضرت موسیٰ عہ کے بھائی تھے۔
2:وہ موسیٰ عہ کے وصی تھے جیسے کے آپ یقینا جانتے ہونگے ک جب موسیٰ عہ طور پر گئے تو اپنے پیچھے انہیں اپنا وصی بنا چھوڑا۔۔۔ بلکل ویسے ہی جب مولائے کائنات صہ نے مکہ چھوڑا اور اس وقت خاص طور پر اس تعلق کا اشارہ دیا جیسا کے آپ ترمذی کی روایت میں دیکھ چکے ہیں۔۔۔
3: جناب ہارون کے دو بیٹے تھے " شبر و شبیر " جو کہ ہم معنی ہیں "حسن و حسین " کے۔۔۔
4: جناب ہارون سے لے کر جناب شبیر کی نسل سے موسیٰ عہ کے بارہ جانشین آئے جن میں سے بارہویں غیبت میں ہیں اور وہ ہیں حضرت عیسیٰ علیہالسلام ۔۔۔۔
اور مولا علی سے لے کر جناب حسین کی نسل میں سے بارہ ہی جانشین آئے جن میں سے بارہویں غیبت میں ہیں اور وہ ہیں جناب حضرت امام محمد مہدی عہ ۔۔۔۔
یہ باتیں یہ نسبت تاریح میں رقم ہیں غور فرمائیے۔۔۔ مولائے کائنات کا کسی نسبت کی طرف اشارہ محض لفاظی نہیں کسی گہری حقیقت کا ہی اظہار ہیں۔۔۔
 

زھرا علوی

محفلین
سورۃ النسآء:4 , آیت:159 اور نہیں کوئی اہلِ کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا مسیح پر اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا میسح ان پر گواہ۔

اس پوری آیت پر غور کریں یہاں محض عیسیٰ کی زندہ ہونے کا ثبوت نہیں ملتا بلکہ ان پر کسی ایمان لانے والے اور عیسیٰ کا انکے گواہ ہونے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔۔۔۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
موضوع سے ہٹ کر :

اس تھریڈ میں کوئی پوسٹ ڈیلیٹ تو نہیں ہوئی ؟ میں یہ پورا تھریڈ پڑھنا چاہ رہی ہوں اور ان سب دنوں میں سالگرہ اور لائبریری میں اتنی مصروفیت کے سبب کم کم پڑھ پاؤں گی ۔

آپ سب اپنی گفتگو جاری رکھیں۔ شکریہ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top