بارونی ۔ ایک جاسوسی ناول

تفسیر

محفلین
[align=center]
باورنی


ایک جاسوسی ناول


مترجم : تفسیراحمد

گھریلو لڑائی کےدوران ایک ادھیڑ عمرگھریلو عورت ایوالین ہاولی پانچواں منزل کے ایک اپارٹمنٹ سےگر کر مری۔
کیا اس کی موت ایک قتل ہے؟
لیکن پرانی چال کےسراغ رساں بارونی کو یقین ہے کہ ایوالین کے شوہر کا اس میں ہاتھ ہے۔
لیکن اس کا نوجوان پارٹنر اسٹیو پیری اور ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ لیفٹننت ٹیٹ
اس موت کو ایوالین ہاولی کی بدقسمتی سمجھ کر کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
[/align]
 

تفسیر

محفلین

[align=center]ایک جھلک
[/align]


بارونی نے کلوزٹ بند کردی۔ اور ڈریسنگ ٹیبل دیکھنے لگا۔ ڈریسنگ ٹیبل صرف ایک ہی ایسی چیز تھی جس میں بارونی کو دلچپسی ہوئی۔ ایک فریم کی ہوئی تصویر۔۔۔ زیادہ روشنی کے لیے وہ تصویر اٹھا کر کھڑکی کے قریب پہونچا۔ تصویر میں ایک نوجوان جوڑا تھا۔ ان میں سے ایک ہالولی جو کافی جوان اور حسین تھا اور اسکے بازو میں ایک خوب صورت نوجوان عورت تھی۔ دونوں مسکرارہے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔
“ یہ تصویر ٢٥ سال پہلے لی گئی تھی“۔
بارونی نے مڑ کر دیکا۔ ہاولی دہلیز پر کھڑا تھا۔“ تمہارے ہنی مون پر؟“۔
“صحیح“۔
بارونی نے تصویر کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا۔“ ٢٥ سال ۔۔۔ ایک بہت لمبا عرصہ“۔اس نے ایک سیکنڈ تصویر کو دیکھا۔ “ میری شادی کو ٢٧ سال ہوگئے“۔
ہالولی نے جواب نہیں دیا۔
“ اس عرصہ میں ہرچیز بدل جاتی ہے“۔ باورنی نے تصویر کیطرف اشارہ کیا۔“ ہرشخص جوانی میں یہ سمجھتا ہے کہ وہ گائے کو سینگ سے پکڑ کر گہما سکتا ہے۔ ہاں میں بھی مرغ کی طرح اکڑ کرچلا۔ میں بھی اس دنیا بدل دینا چاہتا تھا“۔
ہاولی بستر کے کنارے بیٹھ گیا۔“ میری بلند نظری اتنی نہیں تھی“۔
“ مگر کچھ تو کرنا چاہتے تھے“۔
“ہاں“۔
“ تمہاری بیوی بھی اس میں شامل تھی“۔
“ بےشک ۔ وہ اس کا خاص حصہ تھی“۔
بارونی نے بستر کےنزدیک پہنچ کر کہا۔ “ تو کب تم نےاس کا قتل کرنے کا فیصلہ کیا؟“۔
ہاولی نے نظر اُٹھا کر بارونی کو دیکھا۔“ میں کبھی بھی یہ فیصلہ نہیں کر پایا “۔[/list]​

 

تفسیر

محفلین

چند کردار

سراغ رساں بارونی
پرانے دور کا ایک پولس سراغ رساں، جوجلد ہی ریٹائرڈ ہونے والا ہے۔ وہ چاہتا ہے کے کوئی بڑا کیس حل کرکے سارجنٹ کا رتبہ حاصل کرلے تاکہ پینشن میں اضافہ ہوجائے۔

سارجنٹ پیری
ایک نوجوان سارجنٹ جس کو ترقی کی لگن ہے لیکن وہ آسان طریقوں کی تلاش میں رہتا ہے۔

لفٹیننٹ ٹیٹ
ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ ٹیٹ جیسے بارونی کی ٹائپ کے سراغ رساں پسند نہیں اور وہ ان تمام سے چھٹکارا لینا چاہتا ہے۔

ایڈورڈ ہاولی
بارونی کا خیال ہے کہ ہاولی نےاپنی بیوی ایوالین ہاولی کی جان لی ہے۔

زاکوز
ایک مقتول ۔ جس کے قتل کی تفتیش ہورہی ہے۔

نکی پاپاس
زاکوز کے قتل میں مشتبہ۔

پاپا پاپس
نکی پاپاس کا باپ جوایک زمانے میں جرائم پیشہ افراد کا سرغنہ تھا۔ اب ایک معزز شہری ہے۔

لوری نائٹ
ہاولی کی بلڈنگ کے سامنےوالی بلڈنگ کے اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ وہ ایک خوش شکل نوجوان لڑکی تھی۔اُنیس سال کی عمر میں لوری، پانچ سال پہلے کیلفورنیا ایکٹریس بنے آئی تھی۔ اس کو پورا یقین تھا کہ وہ ایک بڑی ایکٹریس ہے۔ اُسے جب بھی موقع ملتا وہ لوگوں کے موڈ ، ان کی حرکات، ان کا باہمی عمل اور رد و عمل کا مطالحہ کرتی رہتی تھی۔

بلیو والی
ایک کوکین بیچنے اور اسکا نشہ کرنےوالا ہم جنس، جس کے نکی پاپاس سے جنسی تعلقات ہوسکتے ہیں اور شاید اس کو زاکوز کے قاتل کا پتہ ہو۔

 

تفسیر

محفلین

باب نمبر1

[line]
جس دن ایوالین ہاولی کی موت ہوئی، سورج چمک رہا تھا۔ لیکن جنوبی کیلی فورنیا میں تو سورج عموماً سارا سال چمکتا ہے۔
ماریالحمان، ایوالین ہاولی کی دنیا سے اچانک رخصتی دیکھ پائی۔ جیسا کےاس نے بعد میں پولس کو بتایا کے وہ اپنی پانچوں منزل پر چھوٹے اپارٹمنٹ کی بالکونی میں آلوچھیل رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنی ٹانگوں کو سورج کی تپیش سے سینک رہی تھی تاکہ گھٹیا سے آرام ملے۔ اس نےاچانک کانچ کے ٹوٹنے کی آواز سنی اور جب سرگُھمایا توسڑک کے پار مسسز ہاولی کو اپنےاپارٹمنٹ کی کھڑکی سےگرتے دیکھا۔ مسسز ہاولی کے ہاتھ ہوا میں پھڑپھڑا رہے تھے اور وہ پانچ منزل کی اونچائی سےگر کر زمین پر ڈامر سے ٹکرائی۔

ماریا کی مسسزہاولی سے ملاقات نہیں تھی۔ پھر بھی اس نے یہ محسوس کیا تھا کہ وہ اس کو جانتی تھی ۔ ماریا خود ایک ادھیڑ عمر کی عورت ہے جو جرمنی سے اپنے ساتھ پانچ بچوں کو لائی تھی۔ اسےسڑک پرگزرنےوالوں کو دیکھنے اور دوسروں کی کھڑکیوں میں تاک جھانک کا شوق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے مسسز ہاولی کو بارہا دیکھا تھا۔ خاص طور پرجب ماریا اپنے باروچی خانے میں ہوتی تھی۔ مسسز ہاولی کے باروچی خانے کی کھڑکی ماریا کی بالکونی سےصاف نظر آتی تھی اور ماریا جو خود دن کا ایک اچھا خاصہ حصہ اپنی فیملی کے لیے کھانے تیار کرنے میں لگاتی تھی مسسز ہاولی کوکھانےتیار کرتا ہوا دیکھ کرحیرت سےسرہلاتی تھی۔ مسسز ہاولی اپنے شوہر کے آنےسےچند منٹ پہلے برتنوں اور کھانے کی الماریوں کو کھولنا اور بند کرنا شروع کرتی تھی۔ ماریا کےخیال میں مسسز ہاولی ایک " ماڈرن عورت" تھی۔

ماریا کے علاوہ بڈھے ہیری ٹراسک نے بھی ایوالین کوگرتے دیکھا تھا۔ وہ ماریا کےاوپر والی منزل میں رہتا تھا۔ ماریا کی طرح وہ بھی اپنی کھڑکیوں سے سڑک پر گزرنےوالوں کو دیکھنے اور دوسروں کی کھڑکیوں میں تاک جھانک کا عادی تھا۔

[line]
ہیری پچھلے سال تک ایک سیلزمین تھا۔ لیکن کمپنی کی بکری میں کمی ہونے کی وجہ سے اسے ریٹائرڈ کردیا گیا تھا۔ شروع شروع میں اسے یہ خالی وقت پسند آیا اور اس نےخوب سیر و تفریح کی۔ ٹیلویژن اور ویڈیوز دیکھنےمیں وقت گزرا لیکن جب ٹیلویژن پر پروگرام دُہراے جانے لگے اور پرانے ویڈیوز ختم ہوگے تو وہ بالکونی میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنے لگا۔ لیکن اس کی نگاہیں دفتاً فوقتاً سڑک اور دوسروں کی کھڑکیوں کا جائزہ لیتی رہتی تھیں۔

وہ ہاولی اور اسکی فمیلی کو نام سے تو نہیں جانتا تھا۔ مگر ان کے آنےجانے کا اسے علم تھا۔ خاص طور پر ایڈورڈ ہاولی کا۔ جیسا کہ اس نے پولیس مین کو بتایا تھا کہ جیسے ہی مرد گھر پہنچتا تھا اس کی بیوی اس سے لڑنے جھگڑنےلگتی تھی۔ مرد نے ہمیشہ اس کو برداشت کیا تھا۔ لیکن اس دفعہ نہیں۔ ہیری ٹراسک نے پولیس مین کو بتایا کہ مرد بھی اپنی بیوی پرچلایا اور یہ اس کی بیوی کے لیے ایک نئی بات تھی۔ پہلے تو وہ اپنے شوہر کو حیرت سے دیکھتی رہی اور پھر بغیر کچھ کہے شدید غصہ میں دوڑتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئی۔

ہیری کے کہنے کے مطابق باورچی خانے میں پہنچنے کے بعد اسکا منہ چلنے لگا۔ اگرچہ ہیری کو ہاولی کے باورچی خانے کو دیکھنے کے لیےگردن کو موڑنا پڑتا تھا لیکن وہ گاہے بگاہے ایوالین کو باورچی خانے میں دیکھتا رہا۔ ایوالین کے منہ کا تیزی سے کھلنےاور بند ہونے سے اس نے اندازہ لگایا کے وہ اب بھی بول رہی ہے۔

دوسری طرف ایڈورڈ اپنے بیڈ روم کی کھڑکی کے نزدیک تھا۔ جسے ہیری آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔ ایڈورڈ کے ہاتھ کانوں پر تھے اور چہرے پر تکلیف کے اثار تھے۔

خاص اس وقت ہیری کا فون بجا اور اسے اپنی کرسی سےاُٹھ کر اندر جانا پڑا۔ فون پر کوئی بے وقوف عورت تھی جو اس کو ٹرائل ڈانس کے فری اسباق دینا چاہتی تھی تاکہ اپنے ڈانس اسٹوڈیو کو فروغ کرے۔ یہ ہیری کی بدنصیبی تھی کہ جب وہ واپس لوٹا ۔ کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا اور ایوالین محو پرواز تھی۔

[line]
لوری نائٹ، ماریا کے اپارٹمنٹ سے نیچے وا لے اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ وہ ایک خوش شکل نوجوان لڑکی تھی۔اُنیس سال کی عمر میں لوری، پانچ سال پہلے کیلفورنیا ایکٹریس بنے آئی تھی۔ اس کو پورا یقین تھا کہ وہ ایک بڑی ایکٹریس ہے۔ مگراب تک اسے جو کام ملے تھے۔ وہ بامشکل اس کا کرایہ ادا کرتے تھے۔

عموماً ناامید مگر ہار نا مانےوالی ، اُسے جب بھی موقع ملتا وہ لوگوں کے موڈ ، ان کی حرکات، ان کا باہمی عمل اور رد و عمل کا مطالحہ کرتی رہتی تھی۔یہ ہی وجہ ہے کی اس سہ پہر وہ اپنی بلکونی سے ایولین کا بغور مطالحہ کررہی تھی۔

ایوالین کے شوہر کے اونچی آواز میں بولنے پر ایولین کا جو ردعمل تھا اس نے لوری نائٹ کی توجہ اس جوڑے پر مرکوز کردی۔ ایوالین کا ہاتھوں کو ہوا میں لہرانا، سر کو موڑنا اور جھکانا، ہونٹوں کا سکھڑنا، یہ سب ایک ایکٹر کی ایکٹینگ کا حصہ ہیں۔ اسی طرح آنکھوں میں سرد مہری، گردن میں تناؤ، جسم کا اکڑاؤ، چہرے کا لال ہونا، جھنجلاہٹ اور ہاں طیش میں آنا۔ لوری نے یہ سب ایک بلاٹینگ پیپر کی طرح جذب کرلیا۔ اس ایکٹ میں کوئی خامی نہیں تھی۔ یہ جذبہ مکمل اور اصلی تھا۔ اور وہ اسے ایک ایسے ہی رول میں استعمال کرسکے گی۔ایڈورڈ کا جواب بھی ایک کامل رویہ تھا۔ اس کے جھکے کندھے ، قبول کرنے کا انداز ، چہرے پر فروتنی اور پھر اچانک شدید غصہ سے اپنی بیوی پر چیخنا ۔

لوری کی بالکونی اس سین کو دیکھنے لے لیے سب سے بہتر تھی۔ وہ نہ صرف ایوالین کا لیوینگ روم بلکہ کچن اور بیڈروم بھی دیکھ سکتی تھی۔

اس نے ایوالین کوغصہ میں بھری باورچی خانہ میں جاتے ہوے دیکھا اس وقت ایڈورڈ آنکھیں بند کیے بیڈ روم کے دروازے پر کھڑا دیکھا۔ اس کے ہاتھ کانوں پر اور چہرہ کے تاثرات جوصاف ظاہر کر رہےتھے کے وہ اپنی بیوی کی آواز نہیں سننا چاہتا۔

لوری نے ایوالین کے ماتھے پر نسوں کے ابھار کو نوٹس کیا ۔ وہ غصے کو اس کی ابتدا سے انتہا پر پہنچتا دیکھ رہی تھی۔
ایڈورڈ ہاولی کا رنگ پہلے کی طرح سفید نہیں تھا۔ اب اس میں سرخی آرہی تھی۔ یکایک، وہ مڑا کر کھڑکی سے دور ہوگیا۔
فوراً ہی وہ لیوینگ روم میں تھا ۔یہاں تک کے جب وہ دروازے کی چوکھٹ پر پہنچا وہ اپنی بیوی پرچلا رہا تھا۔ ہاں اور ایوالین بھی جواب میں چنگاڑی۔ لوری کی توجہ ان کے درمیان کا فاصلہ تھا۔ ان نے پیروں کے انگھوٹے ایک دوسرے کو چھو رہے تھے۔ اس نے پہلے کبھی اس بات پر توجھ نہیں دی تھی کہ غصہ میں لوگ ایک دوسرے کے اتنے ہی قریب آجاتے ہیں جتنے کے پیار میں۔
کاش کے میں ان کے چہروں کو قریب سے دیکھ سکتی۔ کیا ان کی پلکیں تیزی سے ہلتی ہیں؟ کیا آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں؟ ۔ لوری نے سوچا۔
وہ فوراً اپنی خوردبین لینے اندر الماری کی طرف دوڑی۔ لیکن اس میں اس کا قیمتی وقت صرف ہوا۔ خوردبین کپڑوں سے ڈھکی تھی ۔ اور اس وجہ سی وہ بھی اُس لمحہ کو نہ دیکھ پائی ۔۔۔
۔۔۔ وہ لمحہ جس نے الیوین کوگلاس سےگزار کر پانچویں منزل کی اونچائی سے فٹ پاتھ کا سفر شروع کروایا۔
[align=center]اختتام - باب نمبرایک
[/align]
 

تفسیر

محفلین

باب نمبر2
[line]
یہ اچھی بات تھی کہ بارونی کو ڈرائیونگ پسند تھی۔ سارجنٹ اسٹیو پیری کو نہیں۔ شہر کی زیادہ تر سڑکیں تنگ تھیں اور اور لوگ بغیر کاروں کی پرواہ کیے سڑک پار کرتے تھے۔ ہرنکڑ پرٹرافیک سگنل اور ہرطرف بے شمار گاڑیاں۔ وہ صرف ہائی وے پر اپنی اسپورڑس کار کو چلانا پسند کرتا تھا۔

اس وقت شام کے چھ بجے تھے اور پھر بھی سورج کی روشنی تیز تھی۔ اور پولس کار میں گرمی حد سے زیادہ۔ اس کا دل چاہا کہ کاش وہ اس وقت پولس ہیڈکوارٹر میں ایک ائیر کنڈیشن آفس میں ہوتا ۔ اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک آفیسر ٹائپ سمجھا۔اور اسے اپنے اعلٰی افسروں پر غصہ تھا کہ انہوں نے اب تک اس کی یہ لیاقت نہیں پہچانی۔

پیری، بارونی سے کم عمر تھا اور زیادہ خوبصورت بھی۔ وہ قدآور ، چوڑے سینہ اور وردیشی جسم کا تھا۔ وہ فیشن دار کپڑے بھی پہنتا تھا۔ اس کے بال کالے اور آنکھیں بھوری تھیں اور جب وہ جب مسکرانے کا فیصہ کر لیتا اس کی مسکراہٹ میں چاہت اور سرگرمی جھلکتی تھی۔ دوسرے الفاظ میں اگر وہ چاہتا تو ایک دل فریب شخص ہو سکتا تھا۔ یہ خصوصیت پیدائشی نہیں تھی ۔ یہ اس نے ٢٨ سال کی تربیت اور مشقت سے بنائی تھی ۔
اس وقت وہ تیوری چڑھا کر بیٹھا تھا۔ جب کوئی اہم شخصیت موجود نہ ہو تو یہ چہرہ اس کا عام ڈھنگ تھا۔

[line]
اس نے اپنی برابر بیٹھے ہوئے ادھیڑ عمر بارونی کی طرف دیکھا بارونی نے ٹرافیک سگنل پر سادہ پولس کار روکی۔ اس نے بارونی کی جسامت کو ناپسندیدگی سے دیکھا، اس کی شکنوں کو نوٹ کیا۔ اس کے چمکدار سوٹ ، دُھلے رنگ کے بال اور کھردرے چہرے کو نظر ڈالی۔ پیری یہ نہیں سمجھ سکا کہ بارونی کو اس کا پارٹنر کیوں بنایا گیا تھا! پانچ ہفتہ پہلے جب اس کے پرانے پارٹنر نے استفعیٰ دیا تو بارونی کو لفٹننٹ ٹیٹ نے اس کا پارٹنر بنادیا گیا۔ یہ ٹھیک نہیں تھا۔

ٹرافیک سگنل تبدیل ہوا اور ان کی گاڑی مصروف سڑکوں میں اپنا راستہ بناتی ہوئی پولس سنٹر کی طرف سفر کرتی رہی۔کار میں پولیس ریڈیو آن تھا۔ لیکن ان کا دماغ ان اطلاعات کو رد کر رہا تھا جو ان سے خطاب نہیں کررہی تھیں۔

اچانک ایک کار درمیانی لین میں بارونی کی کار کے سامنے آگئی۔ بارونی نے اس کار سے ٹکر کھانے سے بچنے کے لیے بریک لگائے
گدھا۔ بارونی بڑبڑایا۔
گالیاں ۔ پیری نے سوچا۔
بارونی کی تعلیم میں کمی ہمیشہ ظاہر ہوتی ہے۔ الفاظ کا ذخیرہ محدود ہونے کی وجہ سے وہ نیچلے طبقے کی بولی استعمال کرتا ہے۔ اور یہ ایک پولس مین کو جاہل اور گرے انسانوں میں شامل کردیتا ہے۔ وہ یہ بھول رہا تھا کہ تمام پولس والے یہ زبان استمال کرتے ہیں اور وہ خود بھی گالی گلوچ پر اتر آتا ہے۔

اُس نے ٹھنڈی سانس لی۔ نہ صرف بارونی بلکہ اس کی اپنی بیوی سے بھی نہیں بن رہی تھی۔ شرلی کو سہنا مشکل ہورہا تھا۔ کالج، پھر پولس ایکیڈمی اور اس وقت سے اس نے روزمرہ کے آداب پر ہمشہ توجہ دی۔ اور مہمانوں، گولف کھیلنے کے ساتھی، ٹینس کے پارٹنر سب کواپنا مہذب رُخ دیکھایا۔ شروع شروع میں اس کا فائدہ ہوا۔ مگر اب وہ بارونی کے ساتھ پھنساہوا تھا اور اس کی بیوی یہ چاہتی تھی کہ اس کا جو وقت آفس سے بچے وہ تمام وقت اس کے ساتھ صرف ہو۔
 

تفسیر

محفلین

لعنت ہے اس نے سوچا۔ آج وہ تین سے بارہ کی ڈیوٹی پر پھنس جائےگا۔ کاش اس سے پہلے کہ شرلی سوچکی ہو، وہ گھر پہونچ جائے۔ تاکہ وہ اس کو اپنے دیر سے آنے کی وجہ بتا سکے۔ اگر اس کو سوتےمیں سے جگا دو تو وہ ایک چڑیل کی طرح تھی۔

آخر اس کی نیت صرف اتنی تھی کہ جب وہ گھر پہونچے تو اس کو اپنی باہوں میں لےکر پیار کرے اور اس کو اس طرح چھوئے کے وہ موم کی طرح پِگل جائے۔ اس کے بعد وہ بجلی بجھادے اور شرلی کی سانسوں کی تیزی اور خوشی میں کراہنے کی آوزیں سنے۔ اس سے پتہ تھا اس عمل کے بعد وہ بھول جائے گی اور وہ اس کی بے وفائی کو نظر انداز کردے گی۔

اس نے اپنے آپ سےسوال کیا۔ دوسری عورت اس وقت بارسوخ ہے۔ اس کا شوہر کیپٹن ہے۔ وہ اس کی کنایہ اور اشاروں کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا۔ کیا وہ؟ کیا آدمی بغیر ایسی چیزیں کیے آگے بڑھ سکتا ہے؟ اور وہ کیوں نہ دو رنگا بنے۔؟ یہ تو آدمی کو جوان رکھتی ہے۔ اور پیری جیسا آدمی کو یقیناً ایک سے زیادہ عورت کی ضرورت تھی۔

تم ٹیٹ سے کیا کہو گے؟ ۔بارونی نےگاڑی ایک ٹرک سے آگے بڑھاتے ہوئے بغیر اپنی آنکھیں سڑک سے ہٹائے سوال کیا۔
کس چیز کے متعلق؟ پیری کے خیالات مننتشر ہوگے۔
زاکوس کے! ۔۔۔ ہمیں اس کے متعلق اب بھی کچھ نہیں جانتے
نہیں یہ صحیح نہیں۔ ہمیں یہ بہت اہم بات پتہ چلی کہ اگر اسپیرو زاکوس نےاس ہوٹل میں اپنی داشتہ کا ذکر کیا ہوگا تو وہ بہت عرصہ پہلے کیا تھا۔ پیری نےجھنھلا کر کہا۔
بارونی کی ہنسی نے پیری کو تنگ کردیاا چلو یہ انفارمیشن نفی میں ہے۔ لیکن یہ انفارمیشن تو ہے۔
انہوں نے ہمیں بے وقوف بنایا۔ بارونی نے کہا۔
کس نے؟
وہ گدھے، جن سے ہم نے بات کی۔
مگر اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ پیری نے ٹھنڈی سانس لی۔
ہمارے پاس ایسی وجوہات تو ہیں ۔ وہ لچھے بدماش پولیس سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ تو موسم سےمتعلق بھی جھوٹ بولیں گے ۔ بارونی نے پیری سے کہا۔
بارونی، ایسی قسم کی پرانی سوچ کی مشتہری تو لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہے۔
مشتہری! یہ لفظ تو ڈکشنری میں بھی نہیں تھا۔ جب میں اسکول میں پڑھتا تھا۔ بارونی نے پیری کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاں، تھا۔ مگر اور بھی تھے۔ لیکن تم نےان کے آنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیا۔ پیری کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
پیری کو ہمیشہ بارونی کو نیچا دیکھانے میں خوشی ہوتی تھی۔

[line]
بارونی نے جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اسے پتہ تھا کہ پیری ان لوگوں میں سے جن کے ارداے ضرورت سے زیادہ بلند ہیں اور پولیس کے کام کو اپنی چڑھائی میں ایک معمولی قدم تصور کرتے ہیں۔ باورنی نے اپنے زمانے میں ایسے بہت سے لوگ دیکھے تھے۔ اور یہ لوگ اصلی پولس والوں میں سے بیر رکھتے تھے۔

مگر پیری اس کی کم تعلیم کے بارے میں صحیح تھا۔ اس بات سے تو وہ انکار نہیں کرسکتا تھا۔ اس کو اور نائٹ کورس لینے چاہئے تھے۔ اس کو اس بات کا افسوس تھا کے اس نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن اس نے نوجوانی ہی میں شادی کرلی اور کام کے لیے بال بچوں کی پرورش کے بعد اتنا وقت نہیں بچتا تھا کے وہ نائٹ اسکول جاتا۔

ہاں یہ سب مدتوں پہلے کی بات ہے۔ ان اس کو ریٹائیر ہونے میں صرف چودہ ماہ رہ گئے تھے۔ اور اب زیادہ تعلیم کی اہمیت کم ہوچکی تھی۔

وہ پولس سینٹر کے قریب تھے۔ جب کار کا ریڈیو زوردار آواز میں کڑکڑایا ۔ون - بیکر- سیون، ون - بیکر- سیون ممکن قتل۔ ٹویل۔ٹوینٹی۔ فور بارسٹو۔ پولس پیڑول مین سے ملو۔
پیری نے دل ہی دل میں گالی بکی۔ بارسٹو اسٹریٹ، پولیس سینٹر سے کافی دور تھی۔ اور اس نے سوچا تھا کہ گھر جانے سے پہلے وہ لیفٹننٹ ٹیٹ سے ٹھوڑی دیرگفتگو کرے گا۔ اب واپسی تک لیفٹننٹ ٹیٹ جاچکا ہوگا۔

بادل ناخواستہ اس نے مائکروفون میں کہا۔ ون - بیکر- سیون راجر ۔
ایک زمانہ تھا کے بارسٹو اسٹریٹ پرچھوٹےسستے گھر ہوا کرتے تھے اور سڑک کے دونوں طرف کھجوروں کے درخت تھے۔ مگر اب وہ وہاں صرف اپارٹمنٹ بلڈ نگ تھیں۔اور ایکا دوکا درخت بچا تھا۔

بارونی نے اپنی گاڑی بارسٹواسٹریٹ میں موڑی۔ اسے واردات کے مقام کی شناخت میں دقت نہیں ہوئی۔ مقامی پولس کی ایک بلیک اینڈ وائٹ کار پانچ منزلہ بلڈنگ کے سامنے پارک تھی اور اس کے اردگرد ایک چھوٹا سا مجمع تھا۔
بارونی نے اپنی گاڑی پولس کار کے پیچھے لگا دی۔ اس نے دیکھا کہ ایک پولس والا مجمع کو روکے ہوئے تھا۔ بلڈنگ میں داخل ہونے سے نہیں بلکہ جوچیز فٹ پات پر تھی۔ پیری بھی اسی نتیجہ پر پہونچا۔

[line]
خودکشی۔ پیری کہ آواز میں تنفر تھا۔ وہ خود کشی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔
بارونی بڑبڑاتے ہوئے گاڑی سے نکلا۔ اور فٹ پاتھ پر پڑی ہو شہ کی طرف بڑھا۔
پیری، بارونی کے پیچھے پیچھے بھیٹر کو صاف کیے ہوئے راستہ پر چلا۔ جب اس نے لوگوں کو اپنے کے راستہ سے ہٹنے کو کہا۔ اس کی آواز میں سختگی اور ترشی تھی۔ لوگوں نے راست کھولا مگر وہ صرف دو تین قدم پیچھے ہٹے۔ اور راستہ کے دونوں طرف صفیں بن گئیں۔

باورنی کی تیز نگاہوں نے اسے دیکھ لیا۔ وہ فٹ پات پر پڑی شہ پر توجہ نہیں دے رہی تھی۔ بلکہ اس کی نظریں مجمع میں لوگوں کا مطالحہ کر رہی تھیں۔ اس کی اس دلچسپی میں باورنی اور پیری بھی شامل تھے۔

اس کے علاوہ بارونی نے ایک ادھیڑ عمر آدمی کا بھی نوٹس کیا جو اس حادثہ سے کچھ زیادہ ہی اثر انداز معلوم ہوتا تھا۔ اور وہ عورت جو شاید ایک ماں ہوگی بھی اس حادثہ سے مغلوب تھی۔ بارونی نے اسکا اپرن نوٹ کیا۔

یونیفارم پولس مین ولیس تھا اس موقع سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ بارونی نے سوچا کہ اگر اسکا ٹرینر آج اس کو ایکشن میں دیکھ لے تو وہ ولیس پرفخر کرے گا کہ کتنی مہارت سے اس کے شاگرد نے مجمع کو کنٹرول میں رکھا ہے۔ نہ صرف وہ مجمع سے ہنسی مذاق کررہا ہے، بلکہ ہر شخص اس کی بات بھی مان رہاہے۔
جیسے ہی وہ قریب پہنچے، ولیس نے مڑ کر انہیں دیکھا اور پیری کو دیکھ کر اس کےچہرے بھی ایک مسکراہٹ آگی جیس وہ پیری کوجاتا ہو۔ جانتا تو وہ بارونی کو بھی تھا۔ مگر پیری سارجنٹ تھا۔
ہیلو سارج۔ ولیس کی باچھیں کھل گئیں۔ آپ کیسے ہیں؟۔
ٹھیک۔ ٹھیک۔ پیری نے صرف اتنی مسکراہٹ عطا کی جس سے یہ ظاہر ہو کہ اسے ولیس کی موجودگی پسند ہے۔ مگر اتنی نہیں کے تماشہ دیکھنے والے لاش کی موجودگی کی وجہ سے اس کی مسکراہٹ پسند نہ کریں۔
کیاہوا؟۔
وہ پانچویں منزل پر رہتی تھی۔ ولیس نے جواب دیا۔ ؛ اپاٹمنٹ پانچ ڈی۔ نام ایوالین ہاولی۔ پھر ولیس نے پیری کی طرف جھک کر کہا۔ وہ بہت تیزی سےگری اور زمین سےٹکراؤ زبردست تھا۔
پیری کی تیوری پر بل آگیا۔ اسے اس بات کا ڈر تھا کہ بھیٹر میں کیسی نے یہ سن لیا توٹھیک نہیں ہوگا۔ اس کے لیے پولس ایمیج بہت ضروری تھی۔
ایمبولنس؟ اس نے پیشہ ورانہ، بلند آواز میں پوچھا۔
آرہے ہیں۔ ولیس نے کہا۔
ابھی تک کیسی سے سوالات کئے۔ بارونی نے پوچھا۔
تقریباً سب سے۔ ولیس بولا ۔
لیکن کوئی خاص نہیں پتہ چلا۔ میرا ساتھی اس کے شوہر کے ساتھ ہے۔ اس نے پیری کی طرف دیکھتے ہوئے بارونی کو جواب دیا۔
کیا لیب ٹیکنیشین آگئے؟۔ پیری نے پوچھا۔
وہ یہاں موجود ہیں۔ وہ اس گرد و نواح میں تھے۔ انہیں یہاں پہونچنے میں وقت نہیں لگا۔ اس کو کہتے ہیں سروس۔
کہاں ہیں وہ؟۔ پیری کو ولیس کا اس طرح سے بتانا پسند نہیں آیا۔ اُسے ولیس کو پولس کےاتوار سے روشناس کرانا ہوگا۔
وہ اوپر ہیں۔ یہاں وہ یہاں کی سب تمام ناپ اور تصویریں لے چکے ہیں۔
 

تفسیر

محفلین


لاش کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بارونی نےاس کےچہرے پر سےچادر کو سرکایا۔ اس نے دیکھا کے لاش کے چہرے ہرشدید غصہ کے تاثرعیاں تھے۔

پیری نے لاش پرصرف ایک سرسری نگاہ ڈالی اور منہ موڑ کیا۔ اس کی سوچ کے مطابق لاشوں کا معائنہ اس کی ڈیوٹی میں نہیں شامل تھا۔
فضا میں سائرن کی آواز گونجی اور بھیٹرنےایمبولینس کے لیےجگہ بنائی۔ ایمبولیس فٹ پاتھ کے قریب آکر رک گئی۔
کیا میں انکو لاش کولےجانے دوں۔ ولیس نے سوال کیا۔
پیری نے لاش کی طرف نظر ڈالی، پھر اسکی نگاہ نےاوپر کی طرف سفر کیا اور اس کھڑکی پر رکی جہاں سے یہ عورت گری تھی۔ ا س نےایک وقفہ لیا اور پھرگردن ہلا کر کہا، ہاں لے جانے دو ۔

ولیس نےایمبولینس ٹیکنیشین کواشارہ دیا۔ انہوں نے ایمبولینس سےاسٹیچر نکال کر فٹ پاتھ پر رکھا۔ لیکن ان کو بارونی کے ہٹنے کا انتظار تھا جو کہ اب بھی لاش کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھا کچھ ذرات کا معائنہ کررہا تھا۔
کس چیز کی تلاش ہے تمہیں؟۔ پیری نے پوچھا۔
گلاس ۔ بارونی نے بغیرسراٹھائے کہا۔
چھوڑو اسے۔ لیب ٹیکنیشین یہاں تھے پیری نے کندھے جھٹکے۔
بارونی کھڑا ہوکر لاش سےدور ہوگیا۔ ایمبولینس ٹیکنیشین نےایوالین کی لاش کواسٹیچر پر منتقل کیا صرف ایک عورت کے بھیٹر کی توجہ اسٹیچر پر تھی۔ بجائے اسٹیچر کے وہ بارونی کی نقل و حرکت کا جائزہ لے رہی تھی۔ اس کی نگاہ بارونی سےاس وقت تک نہیں ہٹی جب تک کہ وہ بلڈنگ میں نہیں داخل ہوگیا۔

[line]
داخلہ کا کمرہ خالی تھا۔ ایک وقت ہوگا جب یہ کمرہ شاندار ہوا کرتا ہوگا۔ مگر اب فرش کے ٹائلز کا رنگ اڑچکا تھا۔ دیوار کے قریب کے صوفہ کا استر ادھڑا ہوا تھا۔ اور دیوار میں لگی ہوئی تصویر میں پہاڑوں اور کجھور کے درختوں کے رنگ اڑچکے تھے۔

وہ خاموشی سے ایلیویٹر کی طرف بڑھے۔ بارونی فٹ پاتھ پر پڑی مردہ عورت کے بارے میں سوچ رہا تھا اور پیری اس حسین عورت کے بارے میں جس کی نگاہ نے ان کا بلڈنگ کے دروازے تک تعاقب کیا تھا! وہ سوچ رہا تھا کہ بغیر کپڑوں کے چادر کے درمیان وہ کیسی ہوگی۔

ایلیویٹر آئی اور دونوں اس میں سوار ہوئے۔ پیری نے اپنی گھڑی پر نگاہ ڈالی اور بارونی نے پانچویں منزل پر جانے کا بٹن دبایا۔
چھ بج کر تیس منٹ ۔ ہم اس کو چند گھنٹے میں طے کرسکتے ہیں۔ پیری نے کہا۔

مشکل لگتا ہے۔ بارونی نے دیوار سے ٹیک لگا کر کہا۔
دیکھو بارونی پیری نے مڑ کر اس کی طرح دیکھا ۔ اس کےچہرے سے ناگواری ظاہر ہورہی تھی۔ اب یہ گڑبڑ گھٹالا مت کرو۔ تمہیں پتہ ہے کہ لفٹینٹ اس کیس کو جلد از جلد بند کرنا چاہیےگا۔

وہ ہر چیزجلد ختم کرنا چاہتا ہے۔ بارونی نے پیری کو بھی اسی نگاہ سے دیکھا۔
ہمیں اس سے کئی زیادہ ضروری کیسوں پر کام کررہے ہیں۔ پیری نے کہا۔ ہمیں کیسوں کو جلدازجلد نمٹانا ہوگا۔
زیادہ ضروری! باورنی نےجھنھلا کر کہا۔
پیری نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا ہاں ضروری ۔ اگر تم نے یہ لفظ عرصہ پہلے سیکھ لیا ہوتا توتم آج سارجنٹ ہوچکے ہوتے۔
یہ کہہ کر اس نے اپنا منہ ایلیویٹر کے دروازے کی طرف کرلیا اور موضوع کو بدلنے کے لیے کہا۔ کیا پتہ ہماری قسمت چمکے اور وہ ایک نوٹ چھوڑ گئی ہو۔
نامکن۔ بارونی نے کہا۔ یہ خودکشی نہیں۔
تم کو پہلے سے ہی پتہ ہے؟۔ پیری نےطنزیہ لہجے میں کہا۔
 

تفسیر

محفلین


سڑک پرشیشہ ہرطرف بکھرا تھا۔ خودکشی کرنے والے کھڑکی کھول کر چھلانگ مارتے ہیں۔ بارونی نے سرہلایا۔
پیری دوسری طرف دیکھنے لگا۔ کیوں، اس نے دل ہی دل میں سوال کیا بارونی ہمیشہ اس کے لیے چیزوں کوالجھادیتا ہے۔
جب ایلیویٹر کا دروازہ پانچویں منزل پر کھلا۔
پیری نے باہر نکل کر بارونی سے کہا۔ " میں یہاں کی تفتیش سنبھال لوں گا تم نیچے جاکر لوگوں کے بیان لو"۔

بارونی یہ کہنے ہی والا تھا کہ پولس مین ولیس ایسا کرچکا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ احتیجاج کرتا دروازہ اس کے منہ پر بند ہوگیا۔ اور ایلیویٹر نیچے چل دی۔ بارونی نے کندھےجھٹک دیئے۔

نیچےایمبولنس جاچکی تھی اور بھیٹرختم ہوچکی تھی۔ ولیس اپنی پولیس گاڑی کے پاس کھڑا تھا۔
" تم تواوپرگئے تھے"۔ ولیس نے سوال کیا۔
" ہاں ۔ لیکن پیری نے کہا شاید تم کو یہاں میری ضرورت ہو!"
" جناب یہ کام توختم ہوچکا۔ کیسی نے کچھ نیں دیکھا۔ لیکن احتیاطً میں نے کچھ کے نام پتے نوٹ کرلیے ہیں"۔
"ہاں ۔۔۔ تین لوگوں نے کہا کہ انہوں نے پورے سانحہ وہاں سے دیکھا"۔ اسنے متبادل بلڈنگ کی طرف اشارہ کیا۔ ایک عمر رسیدہ آدمی ، ایک عمر رسیدہ عورت اور ایک حسینہ۔

[line]
جب ہیری ٹرسک نے بارونی کا پولیس شناختی کارڈ دیکھا۔ تو وہ خاموشی سے اپارٹمنٹ میں پیچھے ہٹا۔ بارونی دروزہ بند کر کےاس کے پیچھےچلا۔
بارونی نے اس شخص کو نیچے دیکھا تھا۔ اس وقت وہ حیرت زدہ تھا اب وہ درھم برہم تھا۔
" میں یہ سوچتا ہوا نیچےگیا تھا کہ وہ شاید زندہ ہو"۔ ہیری نےصوفے پر بٹھتےہوئے کہا۔
بارونی نے اس کو دیکھتےہوئے کہا۔ " مجھے بتاؤ یہاں کیا ہوا؟"
" میں اس کو کسی مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا"۔ ہیری نے منت کی۔
وہ پہلے ہی سے مشکل میں تھا۔ اس عورت کے ساتھ زندگی دوزخ تھی۔ یہ تعجب انگیز بات ہے کہ اس شخص نے اب تک اس عورت کا قتل نہیں کیا تھا۔
" کیا تم کہہ رہے ہو کہ اس کے شوہر نےاس کا قتل کیا ہے؟"
ہیری یہ سن کرچونک گیا۔ اس نے بارونی کوگھور کر دیکھا۔ اور اس جملہ کی پیچ و خم کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد اس کی آنکھوں کی بے چینی دور ہوگئی۔
" کیا تم کہہ رہے ہو کہ اس نے نہیں کیا؟"
"میں کچھ نہیں کہہ رہا۔ میں تم سے سوال کررہا ہوں!"
" مگرمیں سمجھا کے یہ تو ظاہر ہے کہ وہ ۔۔۔ ۔ وہ اب سنبھل رہا تھا۔ ہاں یہی ہے"۔
" بالکل میں نےیہ قبول کرلیا تھا"۔ اس کی آنکھوں سےالجھن دور ہوگی۔
اور اس نے ہنس کر کہا۔ " میری پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں جس کی بنا پر میں یہ سمجھوں کہ وہ قاتل ہے"۔
" تمہارے پاس ایسی وجہ نہیں۔ بارونی نے اس کو مسلسل گھورتا رہا"۔
" نہیں۔ کوئی نہیں"۔ اس نے بارونی سے نظریں ملائے رکھیں۔
اس وقت فون کی گھنٹی بجی تھی اور میں یہ نہیں دیکھ سکا کہ اس کمرے میں کیا ہوا۔
بارونی صوفے پر بیٹھ گیا اور اپنی نوٹ بک اور پین نکال کر اس نے سوال کیا۔
" مجھے شروع سے وہ تمام چیزیں بتاؤ جو تم نے دیکھیں"۔

[line]
جب بارونی نے ماریا کے دروازے پر دستک دی تو وہ بارونی کی آمد کے لیے تیار تھی۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ مگر مستحکم اورسرکش۔
تم اندر آسکتے ہواور چاہے سینکڑوں سوال کرلو۔ مگر میرے پاس بتانے کو کچھ نہیں۔
کمرہ لذیز تیار کیے ہوئے کھانے کی خوشبو سے مہطر تھا۔ بارونی نے جان کر تعریف کی۔ کوئی اور اپنے پکوان کی تعریف سن کرخوش ہوتا۔ لیکن وہ اس کی خوشامدی باتوں سےمتاثر نہیں ہوئی۔
" تم یہاں میرے کھانے کی تعریف کرنے نہیں آئے ہو"۔
بارونی نے سرہلایا۔" تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں تم سےاس حادثہ کے متعلق بات کرنے آیا ہو جوسامنے کی بلڈنگ میں ہوا اور تم پولیس مین سے کہا کہ تم نے دیکھا کے اس کمرے میں کیا ہوا؟"۔
"نہیں۔ میں نےنہیں دیکھا۔ میں غلط تھی جب میں نے آفیسر سےایسا کہا ہوگا۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ایسا کہا۔ میرے لڑکے ہمیشہ مجھے کہتے ہیں کہ ماں تم بغیرسوچےسمجھے پتہ نہیں کیا کیا کہہ دیتی ہو۔ وہ بالکل صحیح ہیں"۔
بچوں کا ذکر کرتےماریا کویاد آیا۔ وہ گھر پہونچ ہی رہے ہونگے۔ اور اپنا کھانامانگیں گے۔

[line]
" مجھے صرف چندسوالوں کے جواب چاہیں"۔ بارونی نے کہا۔
" کس لیے۔ میں نے کچھ نہیں دیکھا"۔ اس نےجھنجلا کر کہا۔
" تم نے کہا تم اس وقت بالکونی پر تھیں"۔
" میں اپنے سارے الفاظ واپس لیتی ہوں"۔ وہ غرارئی۔ "ہاں لیکں نے کچھ نہیں دیکھا"۔
" مسسز لیحمان، آپ نے اپنا ارادہ کیوں بدل دیا"۔ بارونی نے نرمی سے پوچھا۔
" میں نے ارادہ نہیں بدلا۔ میں پریشان تھی۔ اب نہیں ہوں"۔
" اور تم نےفیصلہ کیا کہ سچائی کوچُھپاؤ گی" ۔
" مسسز لیحمان نے ہوا میں ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا۔ کونسی سچائیں۔ میں نے بہت سننی ہیں"۔
" مجھےصرف ایک سے مطلب ہے"۔ بارونی نے نرمی سے کریدا۔ " سڑک کے دوسری طرف جو ہوا اس کی حقیقت"۔
" کیوں!" مسسز لیحمان نے مطالبہ کیا۔" کیوں کیا یہ اس بے چاری عورت کو واپس کے آئے گا؟ کیا کیسی کو جیل بھجنے سے اس میں جان پڑھ جائے گی"۔
" تویہ مسلہ ہے"۔ بارونی نےسوچا۔ مسسزلیحمان نے یہ فیصلہ پولیس میں ولیس سے بات کرنے لے بعد لیا ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اگر ہم مردے کو جلا نہیں سکتے تو زندوں کو کیوں سزا دیں۔
ماریا لیحمان نے ایک لمحہ جواب کا انتظار کیا اور کہا۔ "‌ تو، کیا یہ اُسے واپس لے آئے گا۔
" نہیں" ۔ بارونی نےجواب دیا۔ " لیکن اگر اس کی جان لی گئی تو اس کا قاتل کو پکڑ کرسزا دینا ضرورری ہے۔ اور یہ قانون ہے"۔
مسسزلیحمان نےاُسے بیچ جملے روک دیا اور نتھنے پُھلا کر کہا۔ " قانون ! مجھ سے قانون کی بات مت کرو! قانون بدلتا ہے! یہ ہمیشہ مختلف جگہوں پر مختلف اوقات میں مختلف ہوتا ہے۔اور پھر بھی یہ قانون کہلاتا ہے۔ ہاں قانون!"۔
"‌ مسسز لیحمان۔۔۔" ۔ بارونی نے کہنا چاہا۔۔۔۔ وہ مسسز لیحمان کی اس ہیجان سے بڑبڑا رہا تھا۔
مسسز لیحمان نے بغیر روکے سنناتی رہی۔ " میں تم کو قانون کے بارے میں کچھ بتاتی ہوں مسٹر پولیس مین ۔جب میں ابھی ایک لڑکی ہی تھی۔ ایک نوجوان آیا اس نے بھی مجھ سے قانون سے متعلق بتاتیں کیں۔ وہ بےضر لگتا تھا اور اسکا روایہ دوستانہ تھا۔ وہ ایک حسین لڑکا تھا۔ اس لیے میں نے اس کو سننا اور اس سےقانون کے متعلق سیکھا۔فرق صرف اتنا ہے کہ اس کی یونیفارم کالی تھی اور اس پر سواستیکا کا نشان بنا ہوا تھا"۔
 
Top