بزم میں تنہائی کا در کھلتا ہے !

بزم میں عقل کی تنہائی کا در کھلتا ہے
یعنی اک طائر پر بستہ کا پر کھلتا ہے
جس کی پہنائی کو یہ چادر افلاک ہے کم
پاؤں چھپتے ہیں جو چادر میں تو سر کھلتا ہے
یہ وہ ذرہ ہے کہ جس کے لئے صحرا بھی تنگ ہے
یہ وہ قطرہ ہے کہ کس کے لئے دریا بھی ہے تنگ

عشق کیا جانے بھلا عقل کی تنہائی ہے کیا
عشق پر کیسے کھلے اصل کی تنہائی ہے کیا
عالم وصل میں ہے عشق تو گم کردہ ہوش
عقل ہی جانتی ہے وصل کی تنہائی ہے کیا
عقل کو راز جو پانا تھا اسے پا بھی گئی
گرم بستر رہا اور کر کے وہ سیر آ بھی گئی

عقل حیرت ہے تماشے کو نگہ کھولتی ہے
عقل تدبیر ہے ذرات کی تہہ کھولتی ہے
خیرگی کا عجب عالم ہے کہ نظارے بیچ
بند کرتی ہے جو گہ چشم تو گہ کھولتی ہے
کبھی تہہ میں ہے سمندر کی خلا میں ہے کبھی
تجربہ گہ میں گم اجزائے ہوا میں ہے کبھی

عقل تنہائی کا انجام بھی آغاز بھی ہے
عقل خود راز بھی ہے پردہ در راز بھی ہے
عقل ہی جانتی ہے عقل کا عالم کیا ہے
یہ خموشی بھی ہے پردہ بھی ہے آواز بھی ہے
عقل ہی سے تو کھلا ہے سر دل راز شہود
عقل ہی نے تو دکھایا ہے یہ سب رنگ وجود

عقل تنہائی میں اک عالم ہو رکھتی ہے
مئے عرفاں سے لبالب یہ سبو رکھتی ہے
عشق حیراں ہے جہاں یہ ہے وہاں آئینہ
یہ عجب طرح کا اعجاز نمو رکھتی ہے
عقل حق ہے کہ یہ شبہات کی رہ سے گزری
جس تلاطم میں گئی موت کی تہی سے گزری

عقل کیا شے ہے کہاں ہے یہ نہیں ہے معلوم
وہ یقیں ہے کہ گماں ہے یہ نہیں ہے معلوم
رہیئے خاموش کہ یہ بات تو تہہ در تہہ ہے
وہ نہیں ہے کہ وہ ہاں ہے یہ نہیں معلوم
رمز کتنے ہی ہیں پوشیدہ نہیں میں ہے کے
رنگ شے میں نظر آتے ہیں سبھی لاشے کے

نہیں ملبوس کوئی عقل کی عریانی کا
حیرتی آئینہ ہے عقل کی حیرانی کا
عقل ہی وہ متجسس ہے وہ بینا ہے کہ بس
جس کو ادراک ہے اس عالم امکانی کا
عقل ہی ہے کہ جو ہونے کی خبر لاتی ہے
ڈوبتی ہے مگر ایسے کہ ابھر آتی ہے

نجم و شمس و قمر و زہرہ و افلاک ہیں کیا
لالہ و گل کے تماشے یہ سر خاک ہیں کیا
کیا ہے برسات خزاں کیا ہے بھلا کیا ہے بہار
کیا ہیں یہ کوہ دمن یہ خس و خاشاک ہیں کیا
عقل پر اپنی ہی دانائی کھلے تب یہ کھلیں
جب خداوند کی تنہائی کھلے تب یہ کھلیں

جب خداوند نے تنہائی سے کاڑھا یہ مکاں
تھا نہاں نور جو ظلمت میں ہوا کن سے عیاں
اپنی تنہائی سے جس عشق نے پائی تھی نمود
حسن سے اس کے ہوا آئینہ خانہ حیراں
عشق جب حسن ہوا عالم تنہائی تھا
جو تماشا تھا وہی آپ تماشائی تھا

میں سے جب تو ہوا حسن وجود و موجود
ہیبت حسن سے اک خلق ہوئی سر بہ سجود
جو نہ جھپکی کبھی آئینے کی حیرانی میں
اسی مژگاں سے نہ یہ عالم امکاں سے اٹھا
نہ یہ مژگاں سے نہ یہ عالم امکاں سے اٹھا
بار یہ وہ ہے کہ بس دامن یزداں سے اٹھا


آئینہ خانہ ہے کچھ اور بس بود و نمود
ایک قطرہ کہ ہے موجود مگر نا موجود
بحر میں ہے تو یہ ہے بحر گہر پھر بھی نہیں
یاں جدا بحر سے رہنا ہی ہے قطرے کا وجود
یہ تماشا پس دیدار نظر ہوتا ہے
قطرہ تنہائی سے گزرے تو گہر ہوتا ہے

دیکھ سکتی ہے فقط عقل یہ منظر تنہا
ذرہ ریگ ہے صحرا کے برابر تنہا
حجم سے کیا تلے تنہائی جو یکساں ہو وجود
جتنا قطرہ ہے، ہے انتا ہی سمندر تنہا
بے خبر ہونا کہ خود آپ خبر ہو جانا
عشرت قطرہ ہے قطرے کا گہر ہو جانا

ایک جیسی ہی ہے خاموشی و غل کی تنہائی
جیسی ہے باغ کی ویسی ہی ہے گل کی تنہائی
عقل اس طرح سے حیراں ہے سر آئینہ
جیسے آتی ہو نظر جزو میں کل کی تنہائی
شاخ ہو برگ ہو گل ہو کہ ہو شبنم کا وجود
سب کی تنہائی ہے تنہائی عالم کا وجود

یہی تنہائی تو کرتی ہے خموشی سے کلام
خامشی پردہ در راز مے و مینا و جام
خامشی سینہ ساقی میں ہے سر ازلی
خامشی سے نہ ہو آگاہ تو تنہائی ہے خام
خامشی سنتی ہے آواز تغیر سب و روز
اس تنہائی میں پیدا ہے تحیر شب و روز

بس کہ تنہائی سے اس دہر میں ہے قیمت چشم
ابھی نظارے نے دیکھی ہے کہاں قامت چشم
ڈوب کر آتش نمرود کی تنہائی میں عشق
عقل بن کر ابھرتا ہے پس حیرت چشم
عقل کرتی ہے مگر عشق کے لہجے میں کلام
دل نہ سمجھے تو ابو جہل سمجھ لے تو امام

عقل کرتی ہے پس آئینہ حیرت میں قیام
جیسے کثرت نے کیا حسن کی وحدت میں قیام
عقل رکھتی ہے فقط ذات میں یہ علم وجود
حسن کرتا ہے یہاں قالب فطرت میں قیام
دل کو تھامے ہوئے یہ آنکھ جدھر جاتی ہے
حیرت عقل کو تنہائی نظر آتی ہے

چہرہ ذات کی تنہائی سے تشکیل ہوئی
ایک تنہائی کہ تنہائی میں تحلیل ہوئی
چشم میں ایک ہوا عالم بیداری و خواب
دیکھ اے حسن کہ تنہائی کی تکمیل ہوئی
جاگنا چشم کا اب عشق ہے سونا بھی ہے عشق
یعنی ہونا بھی ہے عشق اور نہ ہونا بھی ہے عشق

سر تنہائی رہ ذات میں ہے سر الہ
عقل کو جس نے دکھائی ہے تجسس کی راہ
حسن یوں عشق کی تنہائی میں کرتا ہے قیام
شعلہ شمع میں جیسے ہو نہاں دود سیاہ
عشق تنہائی ہے تنہائی کا آغاز ہے حسن
کیا کہوں عشق کے زنداں کا درباز ہے حسن

یوں تو ہے ایک زمانہ یہاں سودائی حسن
جان سکتا ہے فقط عشق ہی تنہائی حسن
ہے کوئی محرم راز قدح و میخانہ
خلوت عشق ہے جلوت گہ پیدائی حسن
یہ وہ تنہائی کہ جلوت یہی خلوت بھی یہی
ذات میں آئینہ کثرت و وحدت بھی یہی

اسی تنہائی سے ملتا ہے عدم کو بھی وجود
جیسے شعلے کے حجابات میں ہے جلوہ دود
چشم و دل بیچ عجب عالم حیرانی ہے
نہ تو تنہائی ہے محدود نہ جلوہ محدود
چشم نے عالم تنہائی میں یاں تک دیکھا
دل سے اس جلوہ صد رنگ کو جاں تک دیکھا

اسی تنہائی سے ہوتا ہے ظہور ہستی
نار ہستی بھی یہی ہے یہی نور ہستی
یہی تنہائی سمجھتی ہے تغیر کی زباں
اسی تنہائی میں پنہاں ہے شعور ہستی
یوں ہی تنہائی میں چشم نگراں جاگتی ہے
پردہ گل میں کہ جس طرح جاگتی ہے

بس کہ تنہائی اٹھائی ہے حجاب تنہائی
ہے لئے حسن ازل رخ پہ نقاب تنہائی
حرف در حرف لئے معجزہ علم و کلام
دل کی تنہائی پہ اتری ہے کتاب تنہائی
در تنہائی جو تنہائی پہ یاں باز ہوا
عالم عشق میں تخلیق کا آغاز ہوا

قیس سے پوچھ کہ تنہائی محمل کیا ہے
جو دھڑکتا نہیں تنہائی میں وہ دل کیا ہے
کیا ہے تنہائی یک حسرت دیدار کا ضعف
سل جو رکھتی ہے دل عشق یہ وہ سل کیا ہے
زردی رخ میں بتائے گی کہ تنہائی ہے کیا
دل سے جاں تک جو ہے اس زخم کی گہرائی ہے کیا

جس کو اندازہ ہو افلاک کی تنہائی کا
اس کھلتا ہے فسوں ذات کی گہرائی کا
کون لاتا ہے خبر دل کی بجز تنہائی
ورنہ باہر تو بہت شور ہے پہنائی کا
شور میں کون و مکاں کے یہی کنج دل ہے
کس کو معلوم یہ تنہائی ہے یا محفل ہے

سر پہ تنہائی کے ہے کوچہ آفاق کی خاک
کہ یہ ہے دل پہ اٹھائے ہونے بار افلاک
طوف میں کوچہ آفاق کے ہے شام و سحر
چاہتی ہے اسے ہونے کا ہو اپنے ادراک
اپنے ہونے سے یہ تنہائی دگر ہوتی ہے
دیکھیں تنہائی کو کب اپنی خبر ہوتی ہے

پردہ ذات اٹھاتی ہے تو یہ تنہائی
عقل کو راہ دکھاتی ہے تو یہ تنہائی
آئینہ خانہ ہستی میں پس بود و نبود
دل کو آئینہ بناتی ہے تو یہ تنہائی
اس کی حیرت سے مسلسل ہے بہت حیرت دل
دیکھ آئینہ در آئینہ ہے یہ صحبت دل

دشت ہو گھر ہو سماتی نہیں تنہائی دل
راز تنہائی کا پاتی نہیں تنہائی دل
آپ سے کیا ہوئی رخصت کہ بہت عمر ہوئی
آپ میں لوٹ کے آتی نہیں تنہائی دل
بار تنہائی یہ تنہائی اٹھائے کب تک
خبر بے خبری دل کو سنائے کب تک

وہ ہے تنہائی جنوں سے جو کرے کار شعور
وہ ہے تنہائی جو سینے میں رکھے شملہ طور
آپ مرکز ہو پس آئینہ قرب و بعید
ہوکے خود آپ میں گم غیب سے پاتی ہو حضور
جس کی خلوت ہو فروزاں انجمن آرائی سے
کاڑھ لیتی ہو جہاں تنگی تنہائی سے


اسی تنہائی سے ہوتا ہے محمد کا ظہور
جس کا قامت حد امکاں ہے اسی قد کا ظہور
جس کے ہونے سے چمک مہر میں ہے پھول میں رنگ
معدن حق کے اسی لعل و زبرجد کا ظہور
جس کی تنہائی سے یہ انجمن آباد ہوئی
جس کی تنہائی میں گم ساعت ایجاد ہوئی

پوچھےمندوب الہ سے کوئی لا کی تنہائی
جس پہ گزری ہے یہاں کنج حرا کی تنہائی
چشم کب ہوگئی دل عشق کو معلوم نہیں
عشق تو جاں پہ سنبھالے تھا بلا کی تنہائی
نہ کوئی ہوش کا عالم تھا نہ مدہوشی تھی
چشم جب دل ہوئی اک راز کی خاموشی تھی

جس کہ تنہائی سے پیدا سحر و شام ہوئے
جس کہ تنہائی سے سیارے سبک گام ہوئے
جس کی تنہائی کے شعلے میں کچھ ایسی تھی چمک
سامنے آئے مہ و مہر تو وہ خام ہوئے
جس ہونے سے ادا گل میں نو بلبل میں
جس کے ہونے سے ہے رو عالم جز و کل میں

جس کی تنہائی کا انجام نہ کوئی آغاز
جس کی تنہائی کا کھولا نہ گیا عقل سے راز
جس کی تنہائی انا لعقل کا ہے نعرہ مست
کیسے پہنچے گا بھلا اس کی حقیقت کو مجاز
جس کی تنہائی کو تنہائی نہیں پا سکتی
ڈوب جائے بھی تو کیا تہہ تو نہیں لا سکتی

جس کی تنہائی ہے ہنگامہ بزم امکاں
جس کی تنہائی ہے یاں محرم صد راز نہاں
ایک مرکز پہ دل و ذہن کو لانےکے لئے
جس کی تنہائی نے دی ذات کے کعبے میں اذاں
جس کی تنہائی پہ یاں سورہ کوثر اترا
جیسا تھا حسن صدف ویسا ہی گوہر اترا

جس کی تنہائی پہ ہے تنہائی کا عالم ہے تمام
جس کی تنہائی بنی حامل وحی و الہام
دست بدستہ رہا تنہائی میں جس کی سورج
جس کی تنہائی کے دربار میں حاضر رہی شام
جس کی تنہائی سے گردش میں زمیں ہے ہردم
مہر کو جگہ ہونا تھا وہیں ہے ہر دم

جس نے جھییلی ہے اکیلے یہاں سب کی تنہائی
حرف کی نطق کی آواز کی لب کی تنہائی
جس کی تنہائی پہ بس ختم ہے تنہائی کا بار
جس کی تنہائی کے آگے تو ہے رب کی تنہائی
جس تنہائی کہ ہونے کی خبر سے گزری
شام سے جلتی ہوئی آئی سحر سے گزری

جس کی تنہائی کا عالم اشیا سے عیاں
لالہ و گل سے نہ ہی وسعت صحرا سے عیاں
جس کی تنہائی ہے تنہائی در اندر تنہائی
نہ ہی قطرے سے عیاں ہے نہ ہی دریا سے عیاں
جس کی تنہائی ہے یاں چہرہ تنہائی غیب
کس سے اٹھتا ہے بھلا پردہ تنہائی غیب

مردہ بکری سے جو دے دہر کے ہونے کی مثال
نفی در نفی ہے جس ذات کے اثبات کے حال
جس کی تنہائی نے دیکھی ہے وہ بے معنویت
لا بہ لا گزرا جو ہر منظر دنیا سے کمال
دہر بے معنی سے پیدا کئے معنی جس نے
بہر اثبات الہ پہلے کہا لا جس نے

جس کی تنہائی سے برہم ہوئی بزم اصنام
جس کی تنہائی بنی قاطع تیغ اوہام
جس کی قدموں کی دھمک سے ہلے ایوان کہن
جس کی ٹھوکر سے گرا تاج سر کہنہ نظام
کارواں کے لئے جس نے رہ نو تازہ کی
بجھ رہے تھے جو دیے ان کی بھی لو تازہ کی

اے شہہ عرش نشیں بادشہ کون و مکاں
آج انسان مجسم ہے صدائے الاماں
اپنی ہی تیغ سے کٹ جائے گا انساں اک روز
ہائے کہتے ہوئے یہ بات اٹکتی ہے زباں
اسلحے کا ہے وہ انبار کہ دم گھٹتا ہے
ایسی ہے تیزی رفتار کہ دم گھٹتا ہے

اسلحہ ساز مگر اسلحہ سازی میں ہے گم
عقل سینے پہ رکھے ہاتھ کھڑی ہے گم صم
اس کی مرضی ہے کہ بس ایک وہی زندہ رہے
سانس لینے کو ترس جائیں یہاں میں اور تم
کیا بتائیں اسے خاموشی ہے کیا صورت ہے کیا
اسلحہ ساز کو معلوم نہیں موت ہے کیا

اس کی گردن پہ بھی تلوار چل سکتی ہے
یہ زمیں اس کے بھی پیروں سے نکل سکتی ہے
ایک لغزش کے سبب ایک اشارے کے سبب
راکھ کے ڈھیر میں دنیا یہ بدل سکتی ہے
ایڑیاں پیروں میں اور دوش پہ سر ہے کہ نہیں
اسلحہ ساز کو کچھ اپنی خبر ہے کہ نہیں

اسلحہ امن کی ترتیب ہو یا جنگ کا نام
اب تو انسان یہاں آہی گیا زیر دام
اعتبار اب نہیں انسان کا باقی کچھ بھی
کوششیں ہو گئیں تخفیف کی ساری ناکام
اسلحہ اتنا ہے پر خوف کا عالم ہے وہی
وہی تنہائی ہے تنہائی کا ماتم ہے وہی

آج انسان کو تنہائی نے گھیرا ہے بہت
در و دیوار پہ آسیب کا ڈیرا ہے بہت
نہ ستارے ہیں نہ مہتاب نہ جگنو نہ چراغ
سب کی تنہائی ہے اور دور سویرا ہے بہت
ڈر ہی لگتا ہے کہ عہد من و تو توڑ نہ لے
خود سے گھبرا کے کہیں آپ ہی سر پھوڑ نہ لے

صفحہ دہر پہ یہ یورپ و امریکہ و روس
آدمیت کا لہو پی کے جتاتے ہیں خلوص
آدمیت کا علم ہاتھ میں لے کر اپنے
آدمیت کا نکالے ہوئے پھرتے ہیں جلوس
زندہ قوموں کو یہ مفلوج بنا دیتے ہیں
بھیک کا ٹھیکرا ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں

ایسی تنہائی ہے بازار میں ہو بولتا ہے
لہو بکتا ہے دکاندار لہو تولتا ہے
وہ ہے بے رونقی شہر کہ ہائے ہائے
نہ کوئی گھر سے نکلتا ہے نہ در کھلتا ہے
ہے وہ عالم کہ ہے ہر ایک محلہ ویراں
مسجد و مندر و درگاہ و کلیسا ویراں

دور ہوتا ہی چلا جاتا ہے یاں فرد سے فرد
بانٹتا ہی نہیں یاں کوئی کسی کے دکھ درد
گھر میں زندان میں تمیز نہیں اب کوئی
لو وہ چلتی ہے کہ ہے صحن چمن گرد ہی گرد
چشم گل دیکھ ذرا تو بھی تو عالم یاں کا
قطرہ خوں ہوا ہر قطرہ شبنم یاں کا

پہلے تنہائی تھی جنت سے بشر کی دوری
پھر یہ تنہائی تھی سرمائے کی ایک مزدوری
دام تنہائی میں اب اپنے گرفتار ہے خود
اب تو دیکھی نہیں جاتی ہے وہ ہے مجبوری
جس کو قدرت نہ خود اعزاز دیا برتر کا
اب وہ انسان ہے پرزہ کسی کمپیوٹر کا

چینختا ہے کہ مشینوں میں دبا جاتا ہے دل
وزن وہ دل پہ رکھا ہے کہ گھٹا جاتا ہے دل
شعلہ شام تغیر سے ہر اک جا ہر سو
آگ کچھ ایسی لگی ہے کہ جلا جاتا ہے دل
ایک شعلہ یہاں بجھتا ہے یہاں جلتا ہے
جسم جلتا ہے مگر جسم کہاں جلتا ہے

جو گزرتی ہے مشینوں سے مگر کیسے کہے
خوں اگلتے ہوئے سینوں سے مگر کیسے کہے
یہ مکاں آگ کے شعلوں میں ہے گھرنے والا
کہہ تو سکتا ہے مکینوں سے مگر کیسے کہے
یہی بہتر ہے کہ یہ بار لئے پھرتا رہے
حسرت سایہ دیوار لئے پھرتا رہے

صبح دم گھر سے نکلتا تو پلٹنا سر شام
شام سے تا بہ سحر بس یونہی تکنا درو یام
جائے صحرا میں تو ہے دھول نہ محمل ہے نہ قیس
گھر میں آتے تو ہے دیوار پہ وحشت کا قیام
روئے اس حال پہ کیا دیدہ گریاں آخر
ہے کوئی عقل کی تنہائی کا پرساں آخر

 

زینب

محفلین
اتنی لمبی نظم۔۔۔۔۔۔۔۔ لگتاہے پوری رات لگا کے لکھی ہے اپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہر حال اچھی ہے بہت
 
Top