کیا ارواح کو اپنی عبادت کا ثواب بخشنا جائز ہے؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حسن علوی

محفلین
بہت شکریہ مگر شمشاد بھائی ایک سوال یہ ھے کہ اگر انسان بیمار ھے اور روزہ نہیں رکھ سکتا اس کے بارے میں تو حکم ھے کہ وہ بعد میں اپنی گنتی پوری کر لے یعنی جتنے روزے چھوٹ گئے ہیں انہیں رمضان کے بعد کے ایام میں پورا کر لے۔ مگر میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو بہت ضعیف ہیں اور روزہ رکھنے کی استطاعت/ہمت نہیں رکھتے اور رمضان کی برکتوں سے فیض بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ کیا کرتے ہیں کہ کسی ایسے شخص کو اپنی جگہ روزے رکھوا دیتے ہیں جو صحتمند بھی اور بالغ بھی۔ روزہ تو وہ پہلے بھی رکھتا ھے مگر اب کے بار اس سے یہ کہا جاتا ھے کہ نیت یہ کرے کہ ثواب اس ضعیف العمر بندے کو بھی پہنچے اور وہ شخص راضی ہو کر روزے رکھ لیتا ھے۔ تو کیا ایسی صورتحال اسلام اور شریعت کی روح سے قابلِ قبول ھے یا نہیں؟
(امید ھے میرا سوال آپکو سمجھ آ گیا ہوگا۔)
 

سیفی

محفلین
بہرطور، آپ اصحاب کے لہجے بہت تلخ ہوتے جا رہے ہیں اور میں اس لہجے میں گفتگو کا عادی نہیں لہذا میں اس گفتگو سے اعراض برتوں گا۔ اظہار حق میری ذمہ داری تھی سو وما علینا الاالبلاغ المبین۔والسلام۔

مجھے تو اپنے پیغام میں کوئی تلخ بات نظر نہیں آئی۔ خیر کوئی بات نہیں۔ آپ اگر مجھ سے گفتگو نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں۔

میرے خیال میں فورم پر میری نہ تو کسی سے ذاتی شناسائی ہے اور نہ کوئی دشمنی۔ کسی سے اسکے نقطہء نظر کی بابت دریافت کرنا اس بات کا غماز ہرگز نہیں کہ آپ اس کی توہین کرنا چاہتے ہیں۔

والسلام
 

باذوق

محفلین
بہت شکریہ مگر شمشاد بھائی ایک سوال یہ ھے کہ اگر انسان بیمار ھے اور روزہ نہیں رکھ سکتا اس کے بارے میں تو حکم ھے کہ وہ بعد میں اپنی گنتی پوری کر لے یعنی جتنے روزے چھوٹ گئے ہیں انہیں رمضان کے بعد کے ایام میں پورا کر لے۔ مگر میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو بہت ضعیف ہیں اور روزہ رکھنے کی استطاعت/ہمت نہیں رکھتے اور رمضان کی برکتوں سے فیض بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ کیا کرتے ہیں کہ کسی ایسے شخص کو اپنی جگہ روزے رکھوا دیتے ہیں جو صحتمند بھی اور بالغ بھی۔ روزہ تو وہ پہلے بھی رکھتا ھے مگر اب کے بار اس سے یہ کہا جاتا ھے کہ نیت یہ کرے کہ ثواب اس ضعیف العمر بندے کو بھی پہنچے اور وہ شخص راضی ہو کر روزے رکھ لیتا ھے۔ تو کیا ایسی صورتحال اسلام اور شریعت کی روح سے قابلِ قبول ھے یا نہیں؟
(امید ھے میرا سوال آپکو سمجھ آ گیا ہوگا۔)
خاص طور پر عبادت کے معاملے میں ہر کام وہی کیا جانا چاہئے جو سنت سے ثابت ہو۔

عمر رسیدہ مرد یا عورت جس کے لئے روزہ رکھنا ممکن نہ ہو ، وہ صرف فدیہ دے سکتے ہیں۔ اور اگر وہ فقیر بھی ہوں تو ، ان پر فدیہ و قضاء کچھ بھی نہیں۔
(صحیح بخاری ، تفسیر ابن کثیر ، ارواء الغلیل)
 

محسن حجازی

محفلین
ارے بات کیسے نہیں کرنا چاہیں گے؟ ضرور کریں گے بات۔ ہم سب مسلمان بھائی ہیں آپس میں ایسی تو کوئی بات نہیں۔:)
ویسے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر اللہ سے دعا کی جائے کہ مرحوم کے ساتھ عفو و درگزر اور رحمت کا معاملہ کر تو یقینا اللہ سمیع الدعا بھی ہے اور الرحم الراحمین بھی۔باقی سب کا شاید فائدہ نہ ہو۔ میں کسی عمل کو ناجائز نہیں کہہ رہا صرف افادیت کے متعلق یقین سے قاصر ہوں۔اگر آپ کو میری بات سے ٹھیس پہنچی تو میں معذرت خواہ ہوں انشااللہ الفاظ کے اتخاب میں آئندہ احتیاط سے کام لوں گا۔
 

باذوق

محفلین
ایصالِ ثواب

شریعت میں ثواب کے ایصال کرنے یا " ثواب کے ہبہ" کا ثبوت نہیں ہے !!
جب " اہداء ثواب یعنی ثواب کا ہدیہ یعنی ایصالِ ثواب " کا ثبوت ہی نہیں ہے تو اس کا قائل ہونا بھی درست نہیں۔

ایصالِ ثواب کے ممنوع ہونے کی دو موٹی وجوہات بھی ہیں :

1۔ ثواب اور عذاب ... شارع علیہ السلام کے مقرر کردہ ہیں ۔
جزاء عمل کے تابع ہے یعنی جیسا عمل ویسی جزاء ۔
[ARABIC]جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ[/ARABIC]
یہ ان (اَعمالِ صالحہ) کا بدلہ ہوگا جو وہ کرتے رہے تھے (اردو ترجمہ : ڈاکٹر طاہر القادری)
( سورة السجدة : 32 ، آیت : 17 )
جزاء میں عامل (عمل کرنے والا) کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔

2۔ ثواب ... اللہ کا فضل و انعام ہے ۔ عامل کو اس میں " تصرّف " کا کوئی اختیار نہیں ۔ یعنی اپنے عمل کے ثواب کو ، کسی دوسرے کے لئے ہدیہ یا ہبہ کرنے کا ، عامل کو حق نہیں ہے !

آیاتِ ربّانی ہیں :
[ARABIC]أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى[/ARABIC]
کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
( سورة النجم : 53 ، آیت : 38 )
[ARABIC]وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى[/ARABIC]
انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
( سورة النجم : 53 ، آیت : 39 )

" مال کا صدقہ " اور " ثواب کا ہدیہ " میں فرق نہ کر پانے کے سبب ایک شبہ پیدا ہوتا ہے ۔
شبہ یہ ہے کہ ... " ثواب " کی طرح چونکہ مال بھی اللہ کا فضل ہے ۔ اور جب مال کا ہبہ کرنا شریعت کی رو سے جائز ہے تو ثواب کا ہبہ کرنا بھی جائز ہونا چاہئے ۔

غور کیجئے کہ یہ شبہ کس درجہ حقیقت کے خلاف ہے ...
مال ... ایک محسوس ، قبضہ میں رکھی جانے والی اور قابل ِ انتقال چیز ہے ۔ ایک کے قبضے سے لے کر دوسرے کے قبضے میں دی جا سکتی ہے۔
جبکہ " ثواب " ... ایک غیر محسوس اور غیر مرئی شے ہے ۔ اور ثواب ... دراصل قلب کی اُس کیفیت کے تابع ہے جو عامل کو عمل سے حاصل ہوتی ہے ۔ لہذا اس کا انتقال (یعنی transfer ) ممنوع اور محال ہے ۔

یہ بالکل صحیح ہے کہ جزاء (یعنی بدلہ) عمل کے تابع ہے ... لیکن ،
عامل کو جزاء سے نفع پانے یا نفع چاہنے کا حق ہے نہ کہ انتقال یا ہبہ یا اھداء کا !
اِس فرق کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنا چاہئے ۔

اس کے علاوہ ... شرعی عبادات میں " نیابت (کسی کو نائب مقرر کرنا) " کا عمل ، عقل اور حکمت کے بھی خلاف ہے ۔ کیونکہ بندگی کی روح ، تقویٰ ، اخلاص ، عجز و انکساری ، خشوع و خضوع ، رقت ِ قلب ہیں ... اور یہ تمام صفات عامل کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ اس لئے کوئی نائب یہ قلبی کیفیات اپنے اندر " نیابت " کے وقت پیدا کر ہی نہیں سکتا ۔
اگر " نیابت " عبادات ِ بدنیہ میں جائز ہوتی تو اعمال ِ قلبیہ میں بھی درست ہونی چاہئے ... جیسے ایمان ، صبر ، شکر ، رضا ، توکل ، خوف ، امید ... وغیرہ ۔
اور پھر ... یہ سلسلہ اسی طرح دراز ہوا تو سارا دین ہی " نیابت " پر چل سکتا ہے ۔
پھر نہ فرد کے ایمان کی اہمیت ، نہ اعمال کے لئے ریاضت کی حاجت ، نہ صبر و استقامت کی ضرورت ... بس سارے امورِ دین ، نیابت اور وکالت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ذریعے طے پاتے رہیں گے ۔ ..... اسی طرح نہ اصل قاتل سے قصاص کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ اصل مجرمین پر حدود کی اجراء کی ... بس نائبین کافی رہیں گے۔
 

امن ایمان

محفلین
جزاک اللہ۔۔آپ سب اچھے لوگوں کا بہت شکریہ۔۔۔ابھی فردا سب کے نام نہیں لے سکتی۔۔۔بات یہ ہے کہ جس موضوع پر آپ لوگ بات کررہے ہیں۔۔مجھے وہ نہیں پوچھنا تھی نا۔۔۔۔ہمارے مسلک میں مرنے والے کے لیے قرآن پاک پڑھا جاتا ہے۔۔دعا بھی کی جاتی ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ میں نے یہ پوچھا تھا کہ۔۔۔۔

وہ عبادت جو ہم روزمرہ کرتے ہیں۔ اپنے لیے کسی مقصد کے لیے۔۔کبھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا اس کا بخشنا بھی ضروری ہے۔۔؟؟؟؟

دراصل میری تائی ماں ایسا کرتی ہیں۔۔۔بلکہ ملتان کی اکثریت ایسا کرنے کی عادی ہے۔ ہر روز مغرب کی نماز کے بعد اور عشاء سے پہلے گھر میں جو پکے۔۔اس پر باقاعدہ ختم پڑھا جاتا ہے (چند قرآنی آیات) اور اسے بھی بخشا جاتا ہے۔ خیر کھانے کا معاملہ تو ابھی چھوڑیں۔۔۔بس یہ بتادیں کہ جو بھی پڑھا جائے کیا اسے بخشنا چاہیے۔۔؟؟؟
 

پپو

محفلین
میں نے آپ سے آپ کے یقین کی وجہ پوچھی کیا؟ :grin:
جتنا آپ کو یقین ہے اتنا مجھے بھی یقین رکھنے کا حق ہے۔
یہ ایصال ثواب کا چکر عیسائیت کے confession box والی سہولت ہے۔ یعنی ساری عمر ایسی تیسی پھیرتے رہئے رشوت کھائیے مال بنائیے گھر اجاڑئیے آپ کے بعد آپ کے بیٹے دریوں پر سفید ٹوپیاں پہنے ہر سال زردہ پلاؤ بھیج کر آپ کا اکاؤنٹ بھرتے رہیں گے سو زندہ ہوتے ہوئے نیکی کی چنداں اہمیت نہیں۔ :grin:
بہرطور، آپ اصحاب کے لہجے بہت تلخ ہوتے جا رہے ہیں اور میں اس لہجے میں گفتگو کا عادی نہیں لہذا میں اس گفتگو سے اعراض برتوں گا۔ اظہار حق میری ذمہ داری تھی سو وما علینا الاالبلاغ المبین۔


والسلام۔
محسن بھائی میں بھی کچھ اسی طرح سوچتا ہوں
میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جہنوں نے لوگوں کے حق دبائے رشوتیں لیں ناجائز طریقے سے مال کمایا اور مر گئے جن کی زندگی میں ان کے لیے کسی منہ اچھے کلمات نہ نکلے ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے دعا کہاں تک اثر کرے اللہ ہی جانے مگر اس میں ایک پہلو ہے شائد اسطرح ہمارے لئے کوئی راہ کھولی جا رہی ہو
 
ہر شخص اپنبے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ باذوق اور محسن اس ضمن میں کافی آیات پیش کرچکے ہیں۔ جو کہ واضح کرتی ہیں کہ ایک شخص کے اعمال کا ثواب کسی دوسرے کو نہیں پہنچ سکتا۔

اس ضمن میں کچھ آیات ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے سے پہلے گذر جانے والوں کے لئے "مغفرت" کی دعا تو مانگنے کا ثبوت قرآن سے ملتا ہے لیکن کوئی آیت میرے علم میں نہیں جو اعمال اور ثواب ایک شخص سے دوسرے شخص تک لے جاتی ہو یعنی ایصال ثواب کی نشاندہی کرتی ہو۔


ان آیات کی روشنی میں تو قظعاً ایسا نہیں لگتا کہ ہمارے اعمال کسی اور کو ایصال کئے جاسکتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ اگ اس طرح بخشش ممکن ہوتی توم ہر ظالم کی اولاد اس کے لئے مغفرت کی دعا کرکے اس کے اپنے اعمال کا گناہ اس کے سر سے ہٹا دیتی۔ لیکن اللہ تعالی نے جو وعدے اپنے رسولوں سے کئے ہیں وہ قائم نہیں رہیں گے ۔

اس خیال کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جب ایک شخص ساری زندگی ظلم کرتا رہا اور اپنی حرکتوں سے اپنی موت تک نہیں ہٹا تو دوسرا شخص اس کے مرنے کے بعد اس کا کوئی خیال کوئی سوچ کیسے تبدیل کرسکتا ہے۔ اس کی طلم کرنے کی توجہیہ تو اب بدل نہیں سکتی۔ وہ لوگ جنہوں‌نے پیغمبروں‌ کے ساتھ ظلم کئے ، وہ دوسروں‌کے پہنچائے ہوئے ثواب سے کیسے بچ سکتے ہیں۔

اور اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ہی اس قابل ہو گیا کہ وہ جنت کا حقدار ہو، اللہ کی نظر میں تو کوئی بھی ثواب اس کے لئے اب ضرورت سے زیادہ ہے۔ منظقی نکتہ نظر کے بعد ابراہیم علیہ السلام کا یہ ذکر آپ دیکھئے، کہ کس طرح اپنے والدین کے لیئے مغفرت یا معافی مانگ رہے ہیں۔ اور اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ ظالموں کو ڈھیل نہیں‌ملے گی۔

(آیت کا حوالہ) یہ ایک اعلان ہے تمام انسانوں کے لیے تاکہ اُنہیں خبر دار کیا جائے اس کے ذریعہ سے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں وہی معبُود یکتا ہے اور اس لیے بھی کہ نصیحت پکڑیں وہ لوگ جو عقل و شعور رکھتے ہیں۔ سو ہرگز خیال نہ کرنا تم اللہ کو(کہ وہ ہے) خلاف کرنے والا اپنے وعدوں کے جو اُس نے اپنے رسُولوں سے کیے ہیں۔ یقینا اللہ ہے زبردست اور انتقام لینے پر قادر۔ (آیت کا حوالہ)


[ayah]14:41[/ayah] اے ہمارے مالک! معاف کردیجیو مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنوں کو اُس دن جب قائم ہوگا حساب۔
[ayah]14:42[/ayah] اور ہرگز نہ سمجھنا اللہ کو بے خبر اُن کاموں سے جو کرتے ہیں ظالم۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈھیل دے رہا ہے وہ اُنہیں اُس دن کے لیے کہ پتھرا جائیں گی اُس دن آنکھیں۔
[ayah]14:43[/ayah] دوڑے چلے آرہے ہوں گے (یہ ظالم) اُٹھائے ہُوئے اپنے سر، نہ پھر سکیں گی اپنی طرف بھی اُن کی آنکھیں اور اُن کے دل اُڑے جارہے ہوں گے۔
[ayah]14:44[/ayah] اور خبر دار کر دو انسانوں کو اس دن سے جب آئے گا اُن پر عذاب تو کہیں گے وہ جنہوں نے ظلم کیا تھا، اے ہمارے مالک! مہلت دے ہمیں تُو تھوڑی مُدّت تک تا کہ ہم قبول کرلیں تیری دعوت اور پیروی کریں ہم تیرے پیغمبروں کی۔ (جواب ملے گا) کیا نہیں قسمیں کھاکھا کر کہا کرتے تھے تم اس سے پہلے کہ نہیں آئے گا ہم پر کبھی زوال؟
[ayah]14:45[/ayah] حالانکہ تم آباد تھے گھروں میں اُن لوگوں کے جنہوں نے ظلم کیا تھا اپنے اوپر اور واضح ہوچکا تھا تم پر کہ کیا سلوک کیا تھا ہم نے اُن کے ساتھ؟ اور بیان کردی ہیں ہم نے تمہارے لیے ہر قم کی مثالیں۔
[ayah]14:46[/ayah] اور یقینا چل چُکے تھے وہ اپنی چالیں اور اللہ کے پاس تھا اُن کی ہر چال کا توڑ اور اگرچہ تھیں اُن کی چالیں ایسی کارگر کہ ٹل جائیں اُن سے پہاڑ بھی۔
[ayah]14:47[/ayah] سو ہرگز خیال نہ کرنا تم اللہ کو خلاف کرنے والا اپنے وعدوں کے جو اُس نے اپنے رسُولوں سے کیے ہیں۔ یقینا اللہ ہے زبردست اور انتقام لینے پر قادر۔
[ayah]14:48[/ayah] اُس دن جب بدل دی جائے گی یہ زمین دوسری زمین سے اور آسمان بھی (بدل جائیں گے) اور پیش ہوں گے سب اللہ کے حضور جو یکتا ہے اور زبردست قوّت کا مالک۔
[ayah]14:49[/ayah] اور دیکھو گے تم مجرموں کو اُس دن کہ جکڑے ہُوئے ہیں وہ زنجیروں میں۔
[ayah]14:50[/ayah] اُن کے لباس ہوں گے تارکول کے اور چھائے ہُوئے ہوں گے اُن کے چہروں پر آگ (کے شعلے)۔
[ayah]14:51[/ayah] تاکہ بدلہ دے اللہ ہر شخص کو اُس کی کمائی کا، بے شک اللہ جلد حساب چُکانے والا ہے۔
[ayah]14:52[/ayah] یہ ایک اعلان ہے تمام انسانوں کے لیے تاکہ اُنہیں خبر دار کیا جائے اس کے ذریعہ سے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں وہی معبُود یکتا ہے اور اس لیے بھی کہ نصیحت پکڑیں وہ لوگ جو عقل و شعور رکھتے ہیں۔

والسلام
 

زینب

محفلین
مجھے تو یہ عام سا سوال بہت الجھتا ہوا لگ رہا ہے۔۔۔۔۔تو کیا ہم اپنے والدین کو کوئی ثواب نہیں‌پہنچا سکتے۔۔۔۔۔۔۔؟یہ جو ہم سنتے ہیں‌کیسی کی قبرپے جا کے قرآن خوانی کی گئی،قل پے قرآن‌خوانی ہوئی یا کسی کے چہلم میں تو کیا یہ سب لوگ یعنی پوری مسلمان امت ہی ایک ایسا عمل کر رہی ہے جس کی کوئی تاریخ نہیں‌ہے کیوں کہ یہ قرآن‌خوانی والا کام تو تقریبا سب ہی کرتے ہیں۔۔۔ایک حرف پڑھنے کی 10 نیکیاں ہیں‌تو جب پورا قرآں ختم کیا جائے گا تو کڑورں نیکاں‌میلیتی ہیں انسان کو پھر کیا انسان وہ ثواب کسی عزیز کو اس کے انتقال کے بعد نہیں‌پہنچا سکتا۔۔۔جب کہ ڈھائی سپارے (ثواب )جب کوئی مرتا ہے تو زادراہ کے لیے بھی ساتھ کیے جاتے ہیں۔۔اس کے علاوہ میں‌نے ایک جگہ پڑھا کی نبی کریم (ص) نے خاص تاقید کی کہ جب اپ میں‌نے سے کسی کا عزیز انتال کر جائے تو اپ کو چاہیے کہ اس کو دفن کرنے کے بعد اس کی قبر سے فوران نا رخصت ہو جاو بلکہ کچھ دیر ٹھر کے وہاں‌قبر کے سرہانے سورہ یاسین پڑھو۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ منکر نکیر آسان سوالات کریں میت سے۔“پھر ایک جگہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورہ بقرہ کی چند آیات ان میں سے کچھ قبر کے سرہانے اور کچھ پاؤ کی طرف کھڑے ہو کے پڑھنا بھی بہترین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اب جب سورہ یاسین پڑھنے کو کہا گیا تو وہ بھی تو قرآن کا حصہ ہی ہے نا۔۔۔۔۔مجھے تو کویہ واضع جواب نہیں ملا میرے سوال کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بھائی ! ایک مسلمان کا کام تو یہ ہے کہ جو اللہ اور رسول (ص) کا حکم ہو وہ کیا جائے بس۔
کیا ہم کو اس کی کھوج کرنے کا پابند کیا گیا ہے کہ کس کی دعا قبول ہوتی ہے کس کی نہیں ؟ کس کا حج قبول ہوتا ہے کس کا نہیں؟ کس کا روزہ نماز اور دیگر عبادات قبول ہوتی ہیں یا کس کے نہیں ؟؟ کس کے عذاب میں‌ کمی ہوگی یا کس کو زیادہ ثواب ملے گا ؟؟؟ ۔۔۔۔ دین میں ایسے قیاسات کے پیچھے پڑنے سے بہتر یہی ہے کہ جو قرآن و سنت سے ثابت ہو اس ہی پر عمل کر لیا جائے ۔
نہیں بھائی آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا اگر دعا کے قبول ہونے سے ان کا عزاب کم ہوتا ہے تو پھر آپ کو اس بات کو بھی مانا پڑے گا کے ثواب بھی ان کو پونچتا ہے اگر ہم کو پتہ ہے کہ ہمارے دعا کرنے سے بھی ان کے عزاب میں کمی نہیں آئے گی تو پھر دعا کرنے کی اجازت کیوں دی گی ہے

جب مرنے والون کے لیے دعا کرنا جائز ہے تو پھر ان کو ثواب ارسال کرنا بھی جائز ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ آپ نے کہاں دعا کرنا جائز ہے تو میرے بھائی میں نے پڑھا ہے اور آپ نے بھی پڑھا ہو گا دعا بھی عبادت ہے اب آپ نا مانے تو یہ اور بات ہے شکریہ
 

پپو

محفلین
مجھے تو یہ عام سا سوال بہت الجھتا ہوا لگ رہا ہے۔۔۔۔۔تو کیا ہم اپنے والدین کو کوئی ثواب نہیں‌پہنچا سکتے۔۔۔۔۔۔۔؟یہ جو ہم سنتے ہیں‌کیسی کی قبرپے جا کے قرآن خوانی کی گئی،قل پے قرآن‌خوانی ہوئی یا کسی کے چہلم میں تو کیا یہ سب لوگ یعنی پوری مسلمان امت ہی ایک ایسا عمل کر رہی ہے جس کی کوئی تاریخ نہیں‌ہے کیوں کہ یہ قرآن‌خوانی والا کام تو تقریبا سب ہی کرتے ہیں۔۔۔ایک حرف پڑھنے کی 10 نیکیاں ہیں‌تو جب پورا قرآں ختم کیا جائے گا تو کڑورں نیکاں‌میلیتی ہیں انسان کو پھر کیا انسان وہ ثواب کسی عزیز کو اس کے انتقال کے بعد نہیں‌پہنچا سکتا۔۔۔جب کہ ڈھائی سپارے (ثواب )جب کوئی مرتا ہے تو زادراہ کے لیے بھی ساتھ کیے جاتے ہیں۔۔اس کے علاوہ میں‌نے ایک جگہ پڑھا کی نبی کریم (ص) نے خاص تاقید کی کہ جب اپ میں‌نے سے کسی کا عزیز انتال کر جائے تو اپ کو چاہیے کہ اس کو دفن کرنے کے بعد اس کی قبر سے فوران نا رخصت ہو جاو بلکہ کچھ دیر ٹھر کے وہاں‌قبر کے سرہانے سورہ یاسین پڑھو۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ منکر نکیر آسان سوالات کریں میت سے۔“پھر ایک جگہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورہ بقرہ کی چند آیات ان میں سے کچھ قبر کے سرہانے اور کچھ پاؤ کی طرف کھڑے ہو کے پڑھنا بھی بہترین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اب جب سورہ یاسین پڑھنے کو کہا گیا تو وہ بھی تو قرآن کا حصہ ہی ہے نا۔۔۔۔۔مجھے تو کویہ واضع جواب نہیں ملا میرے سوال کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سب اپنی جگہ درست لیکن ایک اسی عقدے نے بہت سے لوگوں کو غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تو عالم یہ ہے لوگ چھوٹا سا کام کرکے اس امید میں بیٹھ رہتے ہیں ہماری بخشش ہو چکی جس شخص نے عمر بھر خود قرآن نہ کھولا نہ پڑھا نہ عمل کیا اس کی قبر پر ہزار لوگ پڑیں کیا فرق پڑے گا اس پاک اور راہنما کتاب کو ہم نے تعویز بنا کے رکھ دیا ہے سر درد ہو یہ پڑھنا ہے پیٹ درد ہو تو یہ کوئی نہیں کہتا اس آیت پہ اس طرح عمل کرو
 

زینب

محفلین
پر ایک جگی میں‌نے پڑھا کہ جب کسی مرے ہوئے کو ہم کوئی چیز بھی پڑھ کے ثواب پہنچاتے ہیں تو ،،انہیں ایک بہت بڑے پہاڑ جتنا اجر ملتا ہے چاہے ہم چھوٹی سے آیت ہی کیوں نا پڑھیئں۔۔۔۔۔۔پھر یہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

باذوق

محفلین
جب مرنے والون کے لیے دعا کرنا جائز ہے تو پھر ان کو ثواب ارسال کرنا بھی جائز ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ آپ نے کہاں دعا کرنا جائز ہے تو میرے بھائی میں نے پڑھا ہے اور آپ نے بھی پڑھا ہو گا دعا بھی عبادت ہے اب آپ نا مانے تو یہ اور بات ہے شکریہ
بےشک دعا عبادت ہے ، جیسا کہ فرمانِ نبوی (ص) ہے :
دعا ہی عبادت ہے ۔
ابو داؤد ، كتاب الوتر ، باب : الدعاء ، حدیث : 1481
اور عبادت وہی مقبول ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ عبادت کے معاملے میں قیاس آرائی نہیں چل سکتی۔ اگر یہ ممکن ہوتا تو لوگ بہت ساری عبادتیں وضع کر لیتے اور دلیل دیتے کہ چونکہ یہ یہ عبادت کی جاتی ہے لہذا یوں یوں بھی ممکن ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔
کیا یہ آپ کو نہیں لگتا کہ اس طرح نئی نئی عبادتیں گھڑ کر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نعوذباللہ الزام لگا رہے ہیں کہ وہ کچھ عبادتیں ہم کو بتا کر نہیں گئے؟؟
کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ عبادت کا جو طریقہ ہمارے ذہن میں آئے وہ رسول اللہ (ص) یا صحابہ کرام (رض) کو نہ سوجھا ہوگا؟؟ سب سے زیادہ اللہ سے قربت رکھنے والی اور سب سے زیادہ عبادتیں کرنے والی تو وہی مبارک ہستیاں تھیں۔ اگر ان تمام سے کوئی ایک چھوٹے سے چھوٹا واقعہ تک منقول نہیں ہے کہ انہوں نے قرآن پڑھ کر اس کا ثواب مُردوں کو بخشا ہوگا تو پھر ہم کیسے اس کو "عبادت" یا ثواب کا ذریعہ قرار دے سکتے ہیں؟؟
اس بات پر ضرور غور کیجئے گا۔

ویسے میں نے ثواب ارسال کرنے کے شبہ سے متعلق تفصیل سے اس پوسٹ میں لکھ دیا ہے۔

اگر ہم کو پتہ ہے کہ ہمارے دعا کرنے سے بھی ان کے عزاب میں کمی نہیں آئے گی تو پھر دعا کرنے کی اجازت کیوں دی گی ہے
(عبادات کے معاملے میں) ایک مومن کا کام غیرضروری سوال کرنا نہیں بلکہ جو کہا گیا اور جتنا کہا گیا اسی کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ ورنہ سوال کرنا چاہیں تو ایسے بیشمار سوال کئے جا سکتے ہیں۔
حدیث میں تو یہ بھی ہے کہ کلمہ طیبہ پڑھ لیا جائے تو جنت کے حقدار ہو جائیں گے۔ اب کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری عمر گناہ کر کے ایک بار کلمہ طیبہ پڑھ لیا جائے تو اللہ تعالیٰ ہم کو جنت میں داخل کر لے گا؟؟ کیا ایک دفعہ کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد ہم کو ہر قسم کا گناہ کرنے کی چھوٹ مل جائے گی؟؟
 

ظفری

لائبریرین
ثواب اور گناہ کے بارے میں قرآن نے یہ اصولی بات بتادی ہے کہ یہ اسے ہی ملے گا جس نے اس کے لیے کوئی کوشش کی ہوگي اور اس عمل میں اس کی نیت بھی شامل ہوگی۔اگر مرنے والے نے کوئي ایسا کام کیا ہوکہ لوگوں کے لیے جس کا نفع اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے تو اسے اس کا ثواب بھی ملتارہے گا۔اسی طرح مثال کے طور پر مرنے والے نے کسی کی اچھی تربیت اس غرض سے کی ہو کہ وہ نیک بنے تو مرنے والے کو اس کی نیکیوں کا اجر بھی ملتارہے گا۔اگر آپ کسی کو ایصال ثواب کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں آپ کو اس عمل اور خیر خواہی کا اجر ضرور ملے گا تاہم جسے آپ یہ ثواب بھیج رہے ہیں اسے اس کا کوئی فائدہ ہوگا یانہیں اس کا فیصلہ اللہ تعالی اپنے علم کی بنیاد پر کریں گے کہ وہ آدمی اس کا مستحق ہے یا نہیں۔
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔تو کیا ہم اپنے والدین کو کوئی ثواب نہیں‌پہنچا سکتے۔۔۔۔۔۔۔؟
والدین کو یا دیگر مسلمانوں کو ثواب بالکل پہنچایا جا سکتا ہے۔ مگر طریقہ وہی ہوگا جو قرآن و سنت سے ثابت ہو۔ جیسا کہ صدقہ وغیرہ۔
یہ جو ہم سنتے ہیں‌کیسی کی قبرپے جا کے قرآن خوانی کی گئی،قل پے قرآن‌خوانی ہوئی یا کسی کے چہلم میں تو کیا یہ سب لوگ یعنی پوری مسلمان امت ہی ایک ایسا عمل کر رہی ہے جس کی کوئی تاریخ نہیں‌ہے کیوں کہ یہ قرآن‌خوانی والا کام تو تقریبا سب ہی کرتے ہیں۔۔۔
یہ بس ہمارا وہم ہے کہ قرآن خوانی والا کام پوری امت مسلمہ کرتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں شائد یہ کام معروف ہو، لیکن عرب ممالک یا مشرقِ بعید کے ممالک میں یہ کام نظر نہیں آتا۔ لہذا یہ کہنا غلط ہے کہ پوری امت مسلمہ یہ کام انجام دیتی ہے۔
ویسے بھی اسلام وہ نہیں ہے جو مسلمانوں کے اعمال سے ثابت ہوتا ہو بلکہ وہ ہے جو قرآن اور حدیث کے واضح دلائل سے ثابت ہوتا ہے۔
ایک حرف پڑھنے کی 10 نیکیاں ہیں‌تو جب پورا قرآں ختم کیا جائے گا تو کڑورں نیکاں‌میلیتی ہیں انسان کو پھر کیا انسان وہ ثواب کسی عزیز کو اس کے انتقال کے بعد نہیں‌پہنچا سکتا۔۔۔
پہلی بات تو یہ کہ ہم سو فیصد یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ایک ایک عبادت کر کے ہم ثواب کے یقینی حقدار بن جائیں گے۔ اسلام پر سو فیصد عمل کرنے کے باوجود ہم اللہ کی رحمت و شفقت کے محتاج ہی رہیں گے ، جیسا کہ ذیل کی حدیث میں بیان ہے :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی بھی اپنے عمل کے بل پر جنت میں نہیں جا سکتا۔
صحابہ (رض) نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (ص) ، آپ بھی نہیں ؟
آپ (ص) نے فرمایا : ہاں ، میں بھی نہیں اِلاّ یہ کہ اللہ کی رحمت اور فضل میرے شاملِ حال ہو ۔
صحيح بخاري ، كتاب المرضى ، باب : تمني المريض الموت ، حدیث : 5735
لہذا جب آپ کے پاس کوئی surity ہے ہی نہیں کہ کتنا ثواب آپ کے کھاتے میں ہے تو اپنا ثواب دوسرے کو کس بنیاد پر دیا جا سکے گا؟؟
جب کہ ڈھائی سپارے (ثواب )جب کوئی مرتا ہے تو زادراہ کے لیے بھی ساتھ کیے جاتے ہیں۔۔
ممکن ہے یہ بھی ہمارے معاشرے کا مروجہ عمل ہو۔ مگر اس کی کوئی دلیل قرآن و سنت سے نہیں ملتی ہے۔
اس کے علاوہ میں‌نے ایک جگہ پڑھا کی نبی کریم (ص) نے خاص تاقید کی کہ جب اپ میں‌نے سے کسی کا عزیز انتال کر جائے تو اپ کو چاہیے کہ اس کو دفن کرنے کے بعد اس کی قبر سے فوران نا رخصت ہو جاو بلکہ کچھ دیر ٹھر کے وہاں‌قبر کے سرہانے سورہ یاسین پڑھو۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ منکر نکیر آسان سوالات کریں میت سے۔“
یہ تو بالکل صحیح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہی رہی ہے کہ تدفین کے بعد فوراً رخصت نہیں ہونا چاہئے بلکہ مردے کے لئے دعا و استغفار کرنا چاہئے۔
سورہ یاسین ہی نہیں بلکہ کوئی بھی قرآنی سورہ قبر پر پڑھنے کی کوئی حدیث میرے علم میں تو نہیں ہے اور نہ ہی اپنے اساتذہ سے پوچھنے پر مجھے معلوم ہوئی ہے۔ اگر کسی کے علم میں ہو تو یہاں ضرور بتائیں۔
پھر ایک جگہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورہ بقرہ کی چند آیات ان میں سے کچھ قبر کے سرہانے اور کچھ پاؤ کی طرف کھڑے ہو کے پڑھنا بھی بہترین ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اب جب سورہ یاسین پڑھنے کو کہا گیا تو وہ بھی تو قرآن کا حصہ ہی ہے نا۔۔۔۔۔
میں نے کہہ تو دیا ہے کہ کوئی واضح اور صحیح حدیث اس ضمن میں پیش کی جانی چاہئے ورنہ دین اگر اس طرح ہمارے خیالات کے سہارے چلتا جائے تو پھر وہی ہوگا جو عیسائیت و یہودیت کا حال ہوا ہے۔
مجھے تو کویہ واضع جواب نہیں ملا میرے سوال کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ غور سے اس تھریڈ کی تمام پوسٹس کو ایک بار پھر پڑھ لیں ، آپ کے تمام سوالات کے جواب مل جائیں گے ، ان شاءاللہ۔
 
بہن زینب۔ آپ کو جو الجھن ہو رہی ہے، میرے ناقص علم کے مطابق اس کی وجہ ہے۔ اور وہ وجہ بہت ہی سادہ ہے۔ کہ ہمارے بیشتر عقائد ایران عراق اور وسطی ایشیا کے رواجوں سے نکلے ہیں لہذا وہ قرآن سے ثابت نہیں‌ہوتے۔ قرآن کے اصول بہت ہی مسلم ہیں۔ لیکن یہ اصول یہ طریقہ ان لوگوں کے نہیں تھے جو حجاز کے باہر مسلمان ہوئے۔ جس طرح ہندوستان میں پیدائش، شادی اور موت کے رواج اپنے اپنے تھے۔ اسی طرح ایران ، عراق، یعنی میسو پوٹیمیا اور وسطی ایشیا کہ پیدائش ، شادی اور موت کے اپنے رواج تھے۔ جب قران ایران عراق اور وسطی ایشیا میں پیش کیا گیا تو ایک فطری مخالفت اس طور طریقہ اور مذہبی عمائدین کی طرف سے موجود تھی۔ پھر عوام بھی اپنے رواج ختم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ یہ تمام رواج لوگوں نے آہستا آہستہ کسی نہ کسی طرح سے اسلام سے ثابت کرلئے۔ اور یہ طریقہ اور رواج چلتے رہے۔

آج جب ہمارے علم میں اضافہ اور مزید یہ کہ ہمارے کمیونیکیشن میں اضافہ ہورہا ہے تو ہم کو پتہ چل رہا ہے کہ گو کہ اسلام تو ایک ہے لیکن سب اپنے اپنے رواجوں کو اسلام کا نام دیتے ہیں۔ کہ جناب ہم تو یہ کرتے آئے ہیں یہ کرنا ہم کیسے چھوڑ دیں؟ یہی وہ وجہ تھی جو رسول اللہ صلعم کو پیش کی گئی تھی کہ ----- ہم اپنے پرکھوں کا طریقہ کیسے چھوڑ دیں ------

تو پھر اب ہم کیا کریں؟؟؟
اس سوال کا بہت ہی آسان جواب ہے۔ اسلام کا بنیادی مقصد ذہن میں رکھیں۔ کہ اللہ کا مقصد تھا کہ زمین میں اپنا ڈپٹی، یعنی منتظم، یعنی خلیفہ مقرر کرے جس کا کام ہو اسلام یعنی امن ، سلامتی اور آشتی کا نفاذ۔ اسی امن و آشتی و شلامتی کے عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، دین میں کوئی جبر نہیں رکھا گیا۔ اس سے ایک نرم سوچ جنم لیتی ہے کہ لوگ وہ کچھ کرسکتے ہیں جو وہ کرنا چاہیں بشرطیکہ کہ یہ جانتے ہوں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط۔ یعنی کس عمل سے دنیا ایک ایسی جگہ بن جائے گی جہاں ، جان و مال و عزت و ملکیت محفوظ ہوگی اور اس طرح امن، آشتی اور سلامتی یعنی اسلام کا نفاذ رہے گا۔

اس لئے جب بھی آپ قرآن کے ایسے اصول آپ کے سامنے آئیں جو ہمارے رسم رواج اور مروجہ عقئد سے میل نہیں کھاتے تو اس مد میں کنفیوژ نہ ہوں کہ ہمارے رسم و رواج اور عقائد ہی اسلام ہیں۔ اسلام صرف اور صرف قرآن کے اصولوں کا نام ہے، ان اصولوں کو ہمارے رسول اللہ نے اپنی سنت واضح کیا ، اس طرح قران اور سنت ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔
 

مغزل

محفلین
[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]ابو حامد امام غزالی رحمۃ اللہ تعالی علیہ " الاحیاء " میں اور ابو محمد عبدالحق رحمۃ اللہ تعالی علیہ کتاب " العاقبہ " میں رقمطراز ہیں : امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب تم قبرستان میں داخل ہو تو سورہ فاتحہ ، معوذتین اور " قل ھو اللہ احد " پڑھو اور ان کا ثواب اہل قبور کو پہنچا دو کیونکہ یہ پہنچتا ہے ۔

علی بن موسی حداد بیان کرتے ہیں : میں احمد بن حنبل اور محمد بن قدامہ جوہری کے ہمراہ ایک جنازہ میں موجود تھا ، جب میت کو دفن کیا گیا تو ایک نابینا شخص آیا اور قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن مجید پڑھنے لگا ، حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اے فلاں ! قبر پر قرآن خوانی بدعت ہے ۔ علی بن موسی حداد فرماتے ہیں : جب ہم قبرستان سے باہر آئے تو محمد بن قدامہ رحمۃ اللہ نے حضرت امام حمد رحمۃ اللہ سے عرض کیا : اے ابو عبد اللہ ! مبشر حلبی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ انہوں نے فرمایا : وہ ثقہ ( قابل اعتماد ) آدمی تھے ، میں نے دریافت کیا کہ آپ نے ان سے کچھ لکھا ہے ؟ فرمایا : ہاں ! علی بن موسی بن حداد نے عرض کیا کہ حضرت مبشر حلبی بن اسماعیل نے عبد الرحمن بن العلاء بن الحجاج سے اور انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا کہ انہوں نے وصیت فرمائی کہ ان کے دفن کرنے کے بعد ان ( کی قبر ) کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیتیں تلاوت کی جائیں اور انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے سنا کہ آپ نے اس بات کی وصیت فرما‏ئی تھی ۔ (یہ سن کر ) حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے فرمایا : میں اپنے موقف سے رجوع کرتا ہوں اور اس شخص سے کہو کہ وہ (قبر کے پاس ) پڑھے ۔ کتاب الروح مصنفہ علامہ ابن قیم (شاگرد ابن تیمیہ ) ، التذکرہ فی احوال موتی و امور آخرہ مصنفہ امام علامہ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بکر انصاری قرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
شیخ قرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ہمارے بعض علماء نے میت کو ثواب پہنچنے پر حدیث عسیب سے استدلال کیا ہے اور وہ یہ کہ حضور سید عالمین صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ملاخطہ فرمایا کہ دو قبروں کو عذاب ہو رہا ہے تو آپ نے ایک تر شاخ منگائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے اور ہر ایک قبر پر ٹکڑا لگا دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ تر رہیں گی قبر والوں سے عذاب میں تخفیف ہوگی ۔

صحیح بخاری ج 3 ص 222 ، صحیح مسلم ج 3 ص 200 ، نسائی ج 4 ص 106 ، ترمذی رقم الحدیث : 70 ، ابن ماجہ رقم الحدیث : 347 - 349 ، مسند احمد ج 1 ص 35 ، صحیح ابن حبان ج 5 ص 52 ، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : 6753 ، مصنف ابن ابی شیبہ ج 3 ص 375 ، البیہقی ج 1 ص 104 ۔

اور مسند ابی داؤد طیالسی میں ہے کہ آپ نے شاخ کا ایک ایک ٹکڑا ہر ایک قبر پر رکھ دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ شاخ تر رہے گی ان کا عذاب ہلکا ہو جائے گا ۔ معالم السنن ج 1 ص 27 ، ترمذی ج 1 ص 103 ، صحیح مسلم ج 8 ص 231 - 236 ۔

علماء کہتے ہیں : یہ حدیث قبر کے پاس درخت وغیرہ لگانے کی اصل ہے اور یہ کہ جب اللہ تعالی درختوں اور شاخوں وغیرہ کی تسبیح سے عذاب میں تخفیف فرماتا ہے تو کو‏ئی مومن قبر کے پاس اگر قرآن مجید پڑھے گا تو کیا عالم ہو گا ؟؟

حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا : جو شخص قبرستان سے گزرے اور گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کر اہل قبور کو ثواب پہنچائے تو اللہ تعالی پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے برابر اجر عطا فرمائے گا ۔

کنز العمال رقم الحدیث : 42596 ، احکام الجنائز ص 193 ، القراءۃ علی القبور ج ق 201 ص 6

خادم رسول صلی اللہ تعالی علیہ و سلم حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا : جب کوئی مسلمان آیت الکرسی پڑھ کر اس کا ثواب اہل قبور کو پہنچاتا ہے تو اللہ تعالی ( اس کی برکت سے ) مشرق سے لے کر مغرب تک ہر مومن کی قبر میں چالیس ( 40 ) روشنیاں داخل کرتا ہے اور اللہ تعالی ان مردوں کی قبروں کو کشادہ فرما دیتا ہے اور قاری کو ستر نبیوں کا ثواب عطا فرماتا ہے اور ہر میت کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند فرماتا ہے اور ہر مرنے والے کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دیتا ہے ۔

احکام الجنائز ص 191 ، صحیح مسلم ج 2 ص 188 ، ترمذی ج 4 ص 42 ، مسند احمد ج 2 ص 284 ۔

حضرت حسن فرماتے ہیں کہ جو شخص قبرستان میں داخل ہو اور یہ دعا پڑھے : ۔

اللھم رب الاجساد البالیۃ و العظام الناخرۃ خرجت من الدنیا و ھی بک مومنۃ فادخل علیھا روحا منک و سلاما منی الا کتب بعددھم حسنات ۔
ترجمہ : ۔
اے اللہ ! اور ان پرانے جسموں اور بوسیدہ ہڈیوں کے مالک ! جب یہ اجسام دینا سے قبروں میں گئے تھے تو تجھ پر ایمان رکھنے کی حالت میں گئے تھے پس تو ان پر اپنی طرف سے راحت اور میری طرف سے سلامتی داخل فرما ۔
تو اس دعا کی بدولت اللہ تعالی ان کی تعداد کے برابر پڑھنے والے کے لیے نیکیاں لکھ دیتا ہے[/FONT]
 

مغزل

محفلین
[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]زندوں کی عبادت ( بدنی و مالی) کا ثواب دوسرے مسلمان کو بخشنا جائز ہے جا کا ثبوت قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء سے ثابت ہے۔
ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قرآن و حدیث پر ایمان و عمل ہے اور پھر معتزلہ کی طرح ایصال ثواب کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی اور ان دلائل پر غور کرنا چاہیئے ، حوالہ جات نقل کر دیئے ہیں انہیں پڑھنا ان پر غور کرنا اور پھر انصاف کرنا آپ کا کام ہے ۔ بقول انوار عزمی۔۔۔۔۔

کوئی منصف ہو تو انصاف کا چہرہ دمکے
کوئی عادل ہو تو زنجیر ہلائی جائے

اگر آپ تعصب ، بغض ، حسد اور میں نہ مانوں کی عینک اتار کر آنے والے صفحات پڑھیں گے تو انشاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا۔ ( راقم الحروف)
والذین جآءوا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا الاخواننا الذین سبقونا بالایمان ط
“ وہ جو ان کے بعد آئے وہ یوں دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے با ایمان گزر چکے ہیں ۔“
دنیا سے پردہ کرنے والوں کے حق میں زندوں کی دعا کا یہ کتنا واضح ثبوت ہے اور بھی کئی آیات ہیں مگر اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ۔
حدیث پاک میں آتا ہے :
الدعاء مخ العبادۃ ۔
“ دعا عبادت کا مغز ہے۔“
ایک اور جگہ ہے۔
الدعاء ھو العبادۃ
“ دعا عبادت ہے۔“
ثابت ہوا زندوں کی عبادت دنیا سے جانے والوں کے لئے فائدہ مند ہے۔
حضرت امام جلالالدین سیوطی رحتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
وقد نقل غیر واحدالاجماع علی ان الدعاء ینفع المیت و دلیلہ من القرآن قولہ تعالٰٰی والذین جاءوا ۔ ( الی الاخر)
“ اور اس امر پر بہت سے علماء نے اجماع نقل کیا ہے کہ بے شک دعا میت کو نفع دیتی ہے اور اس کی دلیل قرآن شریف میں اللہ تعالٰٰی کا یہ قول ہے ۔
( مذکورہ آیت کریمہ والذین جاءوا) ( شرح الصدور ، ص 127)
شرح عقائد نسفی میں ہے :
وفی دعاء الاحیاء للاموات او صدقتھم عنھم نفع لھم خلافا للمعتزلۃ۔
“ زندوں کی دعا اور صدقے سے مردوں کو نفع پہنچتا ہے۔ معتزلہ اس کے خلاف ہیں ۔“
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ۔ ( مسلم شریف)
“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مرنے والے کی ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
ایک عورت نے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی مگر اس کا انتقال ہو گیا کیا میں اس کی طرف سے حج کرکے اس کی نذر پوری کر سکتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قال حجی عنہا۔ ( بخاری)
“ تم اس کی طرف سے حج کرو ۔“
فتاوٰی عزیزی میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
آرے زیارت و تبرک بقبور صالحین و امداد ایشاں بایصال ثواب و تلاوت قرآن ودعائے خیر و تقسیم طعام و شرینی امر مستحسن و خوب است۔
“ ہاں صالحین کی قبروں کی زیارت کرنا اور ان کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا اور ایصال چواب تلاوت قرآن دعائے خیف تقسیم طعام و شیرینی سے ان کی مدد کرنا بہت ہی خوب اور بہتر ہے اور اس پر علمائے امت کا اجماع ہے۔‘ اور دیکھئے:
ما من رجل مسلم یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلالا تشرکون بااللہ شیئا الا شقعھم اللہ فیہ۔ ( ابو داؤد)
“ اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ پر 40 آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں جنہوں نے کبھی کسی کو اللہ تعالٰی کا شریک نہ ٹھرایا ہو تو ان کی شفاعت میت کے حق میں اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے۔ یعنی بخش دیتا ہے۔“
بخاری، مسلم اور مشکوٰۃ میں ہے:
“ دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگواہ کر آدھی ایک قبر پر اور آدھی دوسری قبر پر رکھ دی اور فرمایا جب تک یہ چاخیں ہری رہیں گی قبر والوں کے عذاب میں تحفیف رہے گی۔“
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد آپ نے تکبیر و تسبیح پڑھنی شروع کردی ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے تکبیر و تسبیح پڑھنے کے بابت پوچھا تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
قال لقد تضایق علٰی ھذا العبد الصالح قبرہ حتٰی فرجہ اللہ عنہ ( مشکوۃ)
“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اس نیک آدمی پر قبر تنگ ہو گئی تھی یہاں تک کہ اب اللہ تعالٰی نے اس کی قبر کو فراغ کر دیا ہے۔“
فائدہ!
معلوم ہوا کہ زندوں کی عبادت سے اہل قبور کو فائدہ پہنچتاہے اور دفن کے بعد قبر کے پاس تسبیح وغیرہ ( کلام پاک) پڑھنا جائز ہے ۔

میت پر تین دن خاص کر سوگ کیا جاتا ہے ۔ بزرگوں نے فرمایا تین دن سوگ کیا ہے ۔ اب اٹھنے سے پہلے گھر کے چند افراد مل کر کچھ پڑھو کچھ صدقی کرو اوع اس کا ثواب میت کی روح کو پٔہنچا کراٹھو ۔ اس کا نام سوئم یا تیجہ ہو گیا ۔ ثبوت ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلویملفوظات عزیزی ، ص 55 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تیجہ کے متعلق فرماتے ہیں۔
روز سوئم کثرت ہجوم مردم آں قدر بود “ کہ تیسرے دن لوگوں کے بیرون از حساب است بہشتاد ویک کا ہجوم اسقدر تھا کلام بشمار آمدہو زیادہ بہم شدہ یا شد کہ شمار سے باہر ہے ۔ وکلمہ سا حضر نیست اکیاسی کلام اللہ ختم ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوئے ہوں گے اور کلمہ طیبیہ کا تو ابدازہ ہی نہیں۔“
2۔ حضرت سعید بن منذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر استطاعت ہوتو تین دن میں قرآن ختم کرو۔ ( جامع صغیر)
3۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن ہر مہینے ختم کرو ۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن میں ختم کرو۔ ( بخاری جلد اول)
4۔ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو جب حد زنا لگنے سے سنگسار کر دیا تو بعد از دفن جب دو دن یا تین گزر گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے جہاں صحابہ کرام بیٹھے تھے پس سلام کیا آپ نے اور بیٹھ گئے اور صحابہ کرام کو فرمایا کہ ماز بن مالک کی بخشش کی دعا کرو تو صحابہ کرام نے ماز بن مالک رضی اللہ عنہ کی مغفرت کی دعا مانگی۔ ( مسلم، جلد دوم)

چناچہ شیخ المحدثین حجرت شاہ عند الحق محدث دہلوی نے فرمایا
وتصدیق کردہ شود از میت بعد رفتن اواز عالم تا ھفت روز۔ ( اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ)
“ اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہیئے۔“

دن مقرر ہونے کی وجہ سے احباب اکٹھے ہو کر میت کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں ۔ ایک حکمے یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کے لئے تین دن سوگ ہے۔ مگر عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ چالیس روز تک سوگ کرے ۔ ہر عورت کے رشتہ دار اور اولاد وغیرہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں آخری دن کچھ پڑھ کر فاتحہ دلا کر اٹھتے ہیں۔

ایصال ثواب کے متعلق ضروری وضاحت

ایصال ثواب کے عمل میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں کرنی چھاہیئے۔ اگر ایصال ثواب کا مقصد نمود و نمائش ہے تو اس کا ثواب حاصل نہ ہوگا ۔ اور ایسا دکھاوے کا عمل حرام اور گناہ ہے ۔ عام طور پر بہت سے لوگ قرض لیکر میت کے لئے ایصا ل ثواب کرتے ہیں۔ اور عام لوگوں کو دعوتیں دیتے ہیں ۔ شریعت میں ایسی دعوتوں کی اجازت نہیں ۔ میت کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا ہے وہ حسب استطاعت ہو اور اسے مستحق اور غریبوں لوگوں کو کھلایا جائے۔ ( صاحبان حیثیت حضرات کو اس کھانے سے اجتناب کرنا چاھیئے۔)
اسی طرح بعض گھروں میں ایصال ثواب کے موقع پر دس بیبیوں کی کہانی، شہزادے کا سر، داستان عجیب اور جناب سیدہ کی کہانی وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں اسی طرح ایک پمفلٹ : وصیت نامہ“ جس میں “ شیخ احمد“ کا خواب درج ہے۔ اسے بھی علمائے کرام نے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ ان چیزوں سے بچیں۔ مزید تفصیل کے لئے ممتاز اسلامی اسکالر جناب ڈاکٹر نور احمد شاہتاز صاحب کی کتاب کڑوی روٹی کا مطالعہ فرمائیں۔
بزرگان دین کی فاتحہ وغیرہ کا کھانا اور چیزہے یہ تبرک ہے اور اسے امیر لوگ بھی کھا سکتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رھمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
واگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شود اغنیا را ہم خور دن جائز است۔ (ربدۃ النصائح،ص 132)
“ اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جائے تو مالداروں کو بھی کھانا جائز ہے۔
[/FONT]
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top