غزل برائے اصلاح : اپنی باتوں سے مکرنا نہیں آتا ہے مجھے

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے _

غزل

کیا ہُوا سال بھر اتنا جو ستاتا ہے مجھے
عید کے دن تو گلے سے وہ لگاتا ہے مجھے

میں سمجھ جاتا ہوں کس شے کی طلب ہے اس کو
جب وہ اک خاص اشارے سے بلاتا ہے مجھے

دل ہی دُکھتا نہیں آنکھیں بھی چھلک پڑتی ہیں
آ کے جب کوئی تِرا قصہ سناتا ہے مجھے

میں زباں دے کے کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا
یا
میں زباں دے کے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا ہوں
اپنی باتوں سے مکرنا نہیں آتا ہے مجھے

کون ہوں میں ؟ یہ سبھی پوچھ رہے ہیں اس سے
دیکھوں کیا کہہ کے وہ اب سب سے ملاتا ہے مجھے

درد تھا سر میں کہ دل میں ، نہیں رہتا کچھ یاد
یا
سر تو پھر سر ہے ، چلا جاتا ہے دل کا بھی درد
یا
دردِ سر کیا ہے ، چلا جاتا ہے دردِ دل بھی
اپنے ہاتھوں سے وہ جب چائے پلاتا ہے مجھے

ایک میں ہوں کہ ہنساتا ہوں کسی طور اس کو
ایک وہ ہے کہ بہر طور رلاتا ہے مجھے

واہ وا ! خوب ! بہت خوب ! کہا کرتا ہوں
جب بھی اشرف کی غزل کوئی سناتا ہے مجھے
یا
شعر اشرف کا کوئی جب بھی سناتا ہے مجھے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے اشرف، اصلاح کی ضرورت نہیں ہے لیکن بہتری کی گنجائش بہر حال ہو سکتی ہے، الفاظ اور ان کی ترتیب بدل بدل کر دیکھو، اگر موڈ ہو تو... ورنہ کوئی ضرورت نہیں
سب سے آخری متبادل بہتر ہے تمام متبادلات میں۔
 

اشرف علی

محفلین
الحمد للّٰہ
آپ نے کہہ دیا اچھی ہے تو ضرور اچھی ہوگی
پذیرائی کے لیے ممنون ہوں سر
جزاک اللّٰہ خیراً

اصلاح کی ضرورت نہیں ہے لیکن بہتری کی گنجائش بہر حال ہو سکتی ہے، الفاظ اور ان کی ترتیب بدل بدل کر دیکھو،
کس مصرع یا کس شعر میں سر ؟
رہنمائی فرما دیں

اگر موڈ ہو تو... ورنہ کوئی ضرورت نہیں
اگرواقعی ضرورت نہیں ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر موڈ بنانے سے کچھ اچھا ہو سکتا ہے تو ان شاء اللّٰہ تیار ہوں

سب سے آخری متبادل بہتر ہے تمام متبادلات میں۔
او ! مطلب ایسے ...

میں زباں دے کے کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا
یا
میں زباں دے کے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا ہوں
اپنی باتوں سے مکرنا نہیں آتا ہے مجھے
میں زباں دے کے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا ہوں
اپنی باتوں سے مکرنا نہیں آتا ہے مجھے

درد تھا سر میں کہ دل میں ، نہیں رہتا کچھ یاد
یا
سر تو پھر سر ہے ، چلا جاتا ہے دل کا بھی درد
یا
دردِ سر کیا ہے ، چلا جاتا ہے دردِ دل بھی
اپنے ہاتھوں سے وہ جب چائے پلاتا ہے مجھے
دردِ سر کیا ہے ، چلا جاتا ہے دردِ دل بھی
اپنے ہاتھوں سے وہ جب چائے پلاتا ہے مجھے

واہ وا ! خوب ! بہت خوب ! کہا کرتا ہوں
جب بھی اشرف کی غزل کوئی سناتا ہے مجھے
یا
شعر اشرف کا کوئی جب بھی سناتا ہے مجھے
واہ وا ! خوب ! بہت خوب ! کہا کرتا ہوں
شعر اشرف کا کوئی جب بھی سناتا ہے مجھے

اب ٹھیک ہے نا سر سب ؟

اللّٰہ آپ کو سلامت رکھے ، آمین -
 

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے _

غزل

کیا ہُوا سال بھر اتنا جو ستاتا ہے مجھے
عید کے دن تو گلے سے وہ لگاتا ہے مجھے

میں سمجھ جاتا ہوں کس شے کی طلب ہے اس کو
جب وہ اک خاص اشارے سے بلاتا ہے مجھے

دل ہی دُکھتا نہیں آنکھیں بھی چھلک پڑتی ہیں
آ کے جب کوئی تِرا قصہ سناتا ہے مجھے

میں زباں دے کے کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا
یا
میں زباں دے کے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا ہوں
اپنی باتوں سے مکرنا نہیں آتا ہے مجھے

کون ہوں میں ؟ یہ سبھی پوچھ رہے ہیں اس سے
دیکھوں کیا کہہ کے وہ اب سب سے ملاتا ہے مجھے

درد تھا سر میں کہ دل میں ، نہیں رہتا کچھ یاد
یا
سر تو پھر سر ہے ، چلا جاتا ہے دل کا بھی درد
یا
دردِ سر کیا ہے ، چلا جاتا ہے دردِ دل بھی
اپنے ہاتھوں سے وہ جب چائے پلاتا ہے مجھے

ایک میں ہوں کہ ہنساتا ہوں کسی طور اس کو
ایک وہ ہے کہ بہر طور رلاتا ہے مجھے

واہ وا ! خوب ! بہت خوب ! کہا کرتا ہوں
جب بھی اشرف کی غزل کوئی سناتا ہے مجھے
یا
شعر اشرف کا کوئی جب بھی سناتا ہے مجھے
پذیرائی کے لیے سراپا سپاس گزار ہوں صابرہ امین صاحبہ ، سید عاطف علی سر اور محمد عبدالرؤوف بھائی
اللّٰہ آپ کو خوش رکھے ، آمین -
 

اشرف علی

محفلین
غزل ( اصلاح کے بعد )

کیا ہُوا سال بھر اتنا جو ستاتا ہے مجھے
عید کے دن تو گلے سے وہ لگاتا ہے مجھے

میں سمجھ جاتا ہوں کس شے کی طلب ہے اس کو
جب وہ اک خاص اشارے سے بلاتا ہے مجھے

دل ہی دُکھتا نہیں آنکھیں بھی چھلک پڑتی ہیں
آ کے جب کوئی تِرا قصہ سناتا ہے مجھے

میں زباں دے کے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا ہوں
اپنی باتوں سے مکرنا نہیں آتا ہے مجھے

کون ہوں میں ؟ یہ سبھی پوچھ رہے ہیں اس سے
دیکھوں کیا کہہ کے وہ اب سب سے ملاتا ہے مجھے

دردِ سر کیا ہے ، چلا جاتا ہے دردِ دل بھی
اپنے ہاتھوں سے وہ جب چائے پلاتا ہے مجھے

ایک میں ہوں کہ ہنساتا ہوں کسی طور اس کو
ایک وہ ہے کہ بہر طور رلاتا ہے مجھے

واہ وا ! خوب ! بہت خوب ! کہا کرتا ہوں
شعر اشرف کا کوئی جب بھی سناتا ہے مجھے
 

اشرف علی

محفلین
غزل ( اصلاح کے بعد )

کیا ہُوا سال بھر اتنا جو ستاتا ہے مجھے
عید کے دن تو گلے سے وہ لگاتا ہے مجھے

میں سمجھ جاتا ہوں کس شے کی طلب ہے اس کو
جب وہ اک خاص اشارے سے بلاتا ہے مجھے

دل ہی دُکھتا نہیں آنکھیں بھی چھلک پڑتی ہیں
آ کے جب کوئی تِرا قصہ سناتا ہے مجھے

میں زباں دے کے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا ہوں
اپنی باتوں سے مکرنا نہیں آتا ہے مجھے

کون ہوں میں ؟ یہ سبھی پوچھ رہے ہیں اس سے
دیکھوں کیا کہہ کے وہ اب سب سے ملاتا ہے مجھے

دردِ سر کیا ہے ، چلا جاتا ہے دردِ دل بھی
اپنے ہاتھوں سے وہ جب چائے پلاتا ہے مجھے

ایک میں ہوں کہ ہنساتا ہوں کسی طور اس کو
ایک وہ ہے کہ بہر طور رلاتا ہے مجھے

واہ وا ! خوب ! بہت خوب ! کہا کرتا ہوں
شعر اشرف کا کوئی جب بھی سناتا ہے مجھے
غزل کی پذیرائی کے لیے ممنون و متشکر ہوں زوجہ اظہر صاحبہ ، صابرہ امین صاحبہ اور ایس ایس ساگر صاحب
سلامت رہیں ...


عمدہ۔ بہت خوب @اشرف علی بھائی۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ سلامت رہیں ۔ آمین۔
آمین ثمہ آمین

حوصلہ افزائی کے لے تہہِ دل سےشکر گزار ہوں -
اللّٰہ آپ کو شاد و آباد رکھے ، آمین -
 

صابرہ امین

لائبریرین
غزل کی پذیرائی کے لیے ممنون و متشکر ہوں زوجہ اظہر صاحبہ ، صابرہ امین صاحبہ اور ایس ایس ساگر صاحب
سلامت رہیں ...



آمین ثمہ آمین

حوصلہ افزائی کے لے تہہِ دل سےشکر گزار ہوں -
اللّٰہ آپ کو شاد و آباد رکھے ، آمین -
ماشا اللہ اچھے جا رہے ہیں آپ۔ اللہ قلم اور خیالات میں اور برکت دے۔ آمین
 
Top