کتابِ زندگی

سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہا جائے اور کسے کہا جائے۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ اگر کسی لڑکے نے کسی لڑکی کو چھیڑا یا اس پر کوئی آوازہ کسا تو ارد گرد کے لوگ فوراً لڑکے کے گلے پڑگئے،بعض دفعہ تو لڑکوں کی اچھی خاصی پٹائی بھی دیکھی۔
یعنی جہاں ایک چھیڑنے والا ہوتا ہے وہاں دس عزت کرنے والے اور عزت بچانے والے ہوتے ہیں۔
نہ جانے وہ کون سے لوگ تھے جن میں کوئی ایک بھی حیا والا نہیں تھا۔
وہ ،وہ لوگ تھے جو اس لڑکی کے ٹک ٹاک پر فینز تھے،مینار پاکستان آکر یومِ آزادی منانے سے پہلے انکے ساتھ پلاننگ کی گئی تھی کہ سب فینز ملکر ویلکم کریں۔
کینیڈین روزی گیبریل بھی ایک عورت تھی پورا پاکستان اکیلے گھوما ہے، لوگوں نےفری بائیک ٹھیک کرکے دیا جہاں گئیں کھانے کےپیسے نہیں لیےگئے لوگوں نےاپنے گھروں میں فری رہائش دی،
400 کیا پورے ملک میں میں سے کسی ایک نے بھی بری آنکھ سےنہیں دیکھا کیونکہ اس نے بےحیا لوگوں کو اپنا فین نہیں بنایا تھا
ہر جگہ اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں،پاکستانی میڈیا نے اس بات پر سب مردوں کو برائی کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔
خدارا پاکستانی معاشرے کے مردوں کو اس طرح سے رسوا نہ کریں۔ کچھ ان بے ہودہ ٹک ٹاکروں کو بھی راہ راست دکھائیں۔
یہ نہ پیٹو کہ مردوں نے عورت کی عزت لوٹی بلکہ جرات کرکے یہ کہو کہ ٹک ٹاکر لونڈوں نے ایک ٹک ٹاکر لڑکی کے کپڑے پھاڑ دئیے... یہ الزام مردوں کو دینے کی بجائے اس نظام کو دو جس نے جوان نسل کے ہاتھ میں موبائل اور انٹرنیٹ دے دیا مگر تمیز اخلاق ادب آداب نام کی کوئی چیز نہ دی.
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
دنیا آپ سے آپ کی worth مانگتی ھے...
وہ آپ سے پوچھتی ھے کہ آپ اسے کیا دے سکتے ہیں...اس کے بعد وہ آپ کی جگہ اور اہمیت کا تعین کرتی ھے...
وہ طے کرتی ھے...
کہ ایسے آپ کو کتنی عزت دینی ھے...اگر دنیا کو یہ احساس ھو جائے کہ آپ اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتے
تو وہ آپ کو آپ کی ساری خوبیوں سمیت اٹھا کے باہر پھینک دیتی ھے۔
مجھے ہمیشہ اپنی پرانی چیزوں سے محبت رہی ہے۔مجھے نئی چیزوں کے رنگ میں ڈهلنا نہیں آتا۔۔
جب ماں کی یاد آتی ہے تو ان کے طریقے سے کام کرنا سکون دیتا ہے۔
میری دعائیں خاموش سی ہوتی ہیں۔بنا کہے ہی اپنے رب سے گفتگو کا بھی اپنا ہی مزہ ہے،سب کہہ دیتی ہوں تو طمانیت کی لہریں میرے وجود کو یقین کی روشنی سے روشن کر دیتی ہیں۔
مجھے اپنی کیفیات کو الفاظ میں اتارنا نہیں آتا۔
سب سمجھتے ہیں مجھے فرق نہیں پڑتا مگر کیسے کہوں،مجھے کسی کو کچھ بتانا نہیں آتا۔۔
جو دل میں ٹھر جاتا ہے میرے اسے میں اپنے حافظے میں بسا لیتی ہوں۔
ہر کسی کا دل ایک جیسا ہے،کسی بھی دل کو توڑنا اچھا نہیں لگتا۔
۔مجھے کوئی بھی تعلق دل سے توڑنا نہیں آتا۔
میری خوداری کو آپ انا سمجھ سکتے ہیں۔۔مگر میں نے "میں" کو ختم کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی ہے۔
لیکن معذرت !! مجھے خدا کے سوا کسی کے سامنے جھکنا نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔
ہر لحاظ سے بہتر ہوں میں بس ایک خامی ہے مجھ میں مجھے زمانے کے ساتھ بدلنا نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔
آپ اپنی تحاریر "الگ " عنوان سے دیجیے چاہے آپ کی تجریدی بات یا تن بیتی ہو اس سے اتنا پیارا لکھا پڑھا جائے گا. تبصرہ فی الحال محفوظ رکھا ہے اس پر
 

نور وجدان

لائبریرین
ں
92083565_250876962735065_9063669944310300672_n.jpg



اقبالؒ اور قرآن

میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت ک۔دۂ صفات میں
(بالِ جبریل۔۔ص 297)

اللہ کو اللہ ہی کی خاطر چاہنے والاجب اسکے حریم میں پہہنچتا ہے تو ایک شور اٹھتا ہےکہ کیا ایسا بھی کوئی چاہنے والا ہے جو صفات کی وجہ سے نہیں بلکہ ذات کی وجہ سے مجھے چاہتا ہے؟اور عالمِ صفات میں بھی ایک ہلچل مچ جاتی ہے۔کہ صفات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے یہ چاہنے والاسیدھا حریمِ ذات میں پہنچ رہا ہے۔یہ ایک خاس الخاص موحد کی شان ہے۔

ھُوَاللہُ رَبِّیْ وَلَآاُشْرِکُ بِرَبِْیْ اَحَدا٭
(سورۃ الکھف:::38)
ترجمہ::وہ اللہ ہی میرا رب ہے۔اور میں کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں ٹھہراتا
بہت خوب .... تشنگی بہرحال ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
جسم کی ظاہری بناوٹ کے ساتھ ساتھ اپنی اندرونی سجاوٹ بھی کریں۔
اندر کا دھیان کیسے رکھیں؟
بالکل ویسے ہی۔۔۔جیسے باہر کا۔۔۔دھیان رکھنا سیکھا ہے۔۔۔جیسے بال بنانا۔۔۔برش کرنا۔۔۔نہانا۔۔۔نت نئے کپڑے پہننا۔۔۔حتیٰ کہ سیدھی جرابیں تک۔۔۔پہننا سیکھا ہے۔۔۔
بس باہر کو ہی۔۔۔سجانا سیکھ لینے سے۔۔۔انسان کہاں مکمل ہوتا ہے۔۔۔اندر کی سجاوٹ سے ہی تو ۔۔۔زندگی سنورتی ہے۔۔۔
کچھ لوگ بولتے ہیں تو۔۔۔باتوں سے بدبو آتی ہے۔۔۔لفظوں کا صحیح استعمال بھی نہیں سیکھ سکتے۔۔۔تمام عمر۔۔۔چابیاں جیب میں ہوتے ہوئے۔۔۔جذبوں کی جیل میں۔۔۔قید رہتے ہیں۔۔۔
خالی چہرے کا بناؤ سنگھار کی نہیں ۔۔۔ باقی جسم کی بھی صفائی ستھرائی کرنی ہو تی ہے۔۔۔۔پاؤں کی ایڑیوں کو بھی چہرے جتنی توجہ چاہیئے ہوتی ہے۔۔۔
اور بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے۔۔۔محبت کرنا۔۔۔نفرت نہ کرنا۔۔۔بدلہ نہ لینا۔۔۔معاف کر دینا۔۔۔رحم کرنا۔۔۔ظلم سے بچنا۔۔۔اخلاق سے پیش آنا۔۔۔غصے کو قابو کرنا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر کا دھیان رکھنا ،سب کچھ سیکھنے سے آتا ہے۔
اپنا دھیان رکھئیے۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لیے دعا کیجیئے۔
درون کا آئنہ، تخییل کی گاڑی
ربی ربی کہتے خود کو ہاری
سمجھ لیجیے آپ ہیں وہ خود
مگر ہیں آپ خود میں بیخود
بیخودی ذات کی ہمیں لے ڈوبی
تشنہ لبی سے بنی بات ہے اپنی

ڈھیروں دعائیں
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
کيا تم جانتے ھو تمہيں كب اپنے آپ پر رونا چاھيے؟
جب تم برائى كو ديکھو اور اسکو برا نہ سمجھو، اور جب تم نیکی کو دیکھو تو اسکو حقير جانو۔
خود پر رویا کرو! جب تمہاری نماز عبادت سے عادت میں بدل جائے اور راحت کے لمحے سے بد بختى میں۔
خود پر رویا کرو! اگر اپنے اندر گناھوں کی قبولیت دیکھو اور اس ذات سے مقابلے کی چاھت ديكهو جو تمام غيب كى باتوں كو جاننے والی ھے۔
خود پر رویا کرو! جب تم عبادت کی لذت محسوس نہ كرسكو اور نہ ھى اطاعت كا لطف۔
خود پر رویا کرو ! جب تم بهر جاتے ھو غموں سے اور تم ڈوب جاتے ھو تفكرات ميں حالانكہ تمہارے اختيار ميں ھے آخری تھائى رات (كى بهلائيوں كو پانا)
خود پر رویا کرو ! جب اپنے وقت کو ایسے کام میں برباد کرتے ھو جو مفید نہ ھو حالانکہ تم جانتے ھو کہ تمھارا حساب ليا جائےگا په۔ر بهى تم غفلت ميں مبتلا ھو
خو د پر رویا کرو ! جب تمہاری آنکھ کسی فلم کے مؤثر منظر پر تو آنسو بھاتی ھو ليكن وه قران کریم کی سماعت سے متاثر نہ ھوتی ھو
خود پر رویا کرو ! جب تم زوال پذیر دنیا کے پیچھے تو بھاگنے لگو ليكن الله كى اطاعت میں، کسی سے آگے نکلنے کی کوشش نہ كرو
خود پر رویا کرو ! جب تم جان لو کہ تم نے غلط راه اپنا ركهی ھے اور جبکہ کثير عمر تو گزر چکی ھے۔
! خود پر رویا کرو ! اپنی غلطیوں پر،اپنے گناہوں پر،
خوف رکھنے والے کے رونے کی طرح...توبہ كرنے والے...رجوع کرنے والے...اپنے مولا کی رحمت كے امیدوار کے رونے کی طرح
اور تم جانتے ھو کہ توبہ كا دروازه كھلا ھوا ھے جب تک روح حلق تک نھيں پھنچ جاتی
شاید یہ رونا روح میں سے سکون کو متحرك كر (كے نكال) دے اور دل میں سے غفلت كو اور شايد اسی آنسو میں رجوع ھو
جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
یا اللہ! مجھے سجدوں میں رونے والوں میں شمار کرلے۔۔۔۔۔آمین
حساس روح کا المیہ

جب تمہاری نماز عبادت سے عادت میں بدل جائے

ر اپنے اندر گناھوں کی قبولیت دیکھو اور اس ذات سے مقابلے کی چاھت ديكهو جو تمام غيب كى باتوں كو جاننے والی ھے

ماشاءاللہ، گنہگار اگر نادم ہے تو اللہ کے ہاں مقبول ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
ایک دن ٹریفک آفیسر سے کسی نے پوچھا کہ
"سر یہ کیا ماجرا ھے کہ آپ ایک گاڑی کو سلیوٹ مارتے ہیں اور دوسری گاڑی والے سے سوال جواب کرتے ھیں آخر اسکی
وجہ کیا ھے؟"
تو ٹریفک والے نے جواب دیا...
"بھائی جان بات اسطرح ھے کہ ہم سب سے پہلے گاڑی کی نمبر پلیٹ کو چیک کرتے ھیں کہ اگر اس نمبر پلیٹ پر"سرکار کا نمبر"ہو تو ہم اسکو سلیوٹ مارتے ہیں اور جس کی پلیٹ پر"سرکار کا نمبر" نہ ھو اس پر شک ھوتا ھے اسلئیے اس سے ہم سوال و جواب کرتے ھیں....
مثال عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اہل اللہ فرماتے ہیں کہ ارشاد الہی ھے
"اس دن نہ تو مال کام آئے گا اور نہ ہی اولاد بلکہ میری بارگاہ میں آنا ھے تو "قلب سلیم" لے کر آنا."
کہ ارے بندے تو ذرا سمجھ تو سہی کہ تیرا "دل" اس نمبر پلیٹ کی مانند ھے اور
اگر تو اس دنیا میں"دل "کی نمبر پلیٹ پر"سرکار کا اسم" اسم اللہ ذات" نقش کر کے قبر میں گیا تو فرشتوں کی کیا مجال کہ وہ تجھ سے سوال و جواب کریں سوال و جواب تو" غیروں" سے ھوتے ھیں "اپنوں "کو تو سلیوٹ مارا جاتا ھے ......
ارے واہ! نمبر پلیٹ سے کیا بات کی!
 
چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔ چاہے کوئی عادت ہو، کوئی گناہ ہو، کوئی رشتہ ہویا پھر کوئی انسان۔ آپ گرتے ہیں، ٹوٹتے ہیں، سنبھلتے ہیں، پھر ٹوٹتے ہیں۔ اور یہ وقت ایسا وقت ہوتا ہے کہ نہ تو آپ چیخ سکتے ہیں، اور نہ ہی کسی کے گلے لگ کے آنسو بہا سکتے ہیں۔ ماضی آپ کے سامنے ایک ریل کی طرح بھاگتا ہے، ہر اسٹیشن پر مختلف لوگ۔۔۔
ایک وقت آتا ہے آپ جن لوگوں کو اپنے ساتھ سمجھتے ہیں، وہ تو ساتھ ہوتے ہی نہیں ہیں۔
کسی ویرانے میں کڑی دھوپ میں آپ بےآسرا، اور بنا سائبان کے رہ جاتے ہیں۔۔ اس وقت آپ کے ساتھ وہ پاک ذات ہوتی ہے، جو آپکو تھام لیتی ہے سنبھال لیتی ہے۔
انسان رہ سکتا ہے محبت کے بغیر، لوگوں کے بغیر، رشتوں کے بغیر، ہر شے کے بغیر۔ مگر انسان اللہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ______!!
میں اکثر سوچتی ہوں، کِتنا اچھا ہے کہ اللہ کو وضاحتیں نہیں دینی پڑتی۔
کتنا اچھا ہے کہ وہ بِن کہے سُن لیتا ہے۔
وہ بس دِل دیکھتا ہے اور دِل دیکھ لے تو پھر
دِل پھیر دیتا ہے۔
اُس کے پاس جائیں تو وقت کی قید سے
آزادی ہوتی ہے۔
جتنا بھی بول لو وہ نہیں کہے گا کہ بس کرو
میں سُن سُن کر تنگ آگیا ہوں۔
نہ بولو تو بھی سُن لیتا ہے۔
دِلوں کو الہام دیتا ہے۔
رو لو تو مضبوطی عطا کرتا ہے۔
سہارا دیتا ہے، مذاق نہیں اُڑاتا، دُھتکارتا نہیں ہے۔
میں سوچتی ہوں کسی ہمدرد کا کاندھا مُیّسر آنے سے کِتنا بہتر ہے۔
اِس اُمید کا ہونا کہ "وہ ہے"۔
اِس یقین کا ہونا کہ "میرا اللہ میرے ساتھ ہے"۔
اِس اطمینان کا ہونا کہ "میرا اللہ مجھے گِرنے نہیں دے گا"۔
وہ جو رب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی سب ہے
 

سیما علی

لائبریرین
میاں کمرے میں ہیں۔
سامنے بچے کھیل رہے ہیں۔
خاتون گھر میں پوچھا لگا رہی ہے۔
کہ کچن میں دودہ جلنے کی بوآتی ہے۔
خاتون دوڑ کر کچن کی طرف جاتی ہے۔
اسی لمحے مین گیٹ پر کوئی بیل بجاتا ہے۔
میاں مین گیٹ کی طرف جانے کیلئے نکلتے ہیں اور
سامنے رکھی پوچھے کی بالٹی سے انہیں ٹھوکر لگتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
*دو ردعمل ممکن ہیں۔*

*مثبت رد عمل:*
خاتون جلدی سے آکر پوچھتی ہے: ’’آپ کو چوٹ تو نہیں لگی، میں جلدی میں بالٹی راستے سے ہٹانی بھول گئی۔‘‘
میاں نے کہا: ’’نہیں، آپ کی غلطی نہیں ہے۔ مجھے ہی دیکھ کر چلنا چاہئے تھا۔ میں نے ہی جلد بازی میں دھیان نہیں دیا۔‘‘

*منفی رد عمل:*
میاں نے چیخ کر کہا: ’’یہ کوئی بالٹی رکھنے کی جگہ ہے۔ تمہیں کوئی عقل نہیں ۔‘‘
بیگم بھی چیخ کر کہتی ہے: ’’یہاں کچن بھی دیکھوں، پوچھا بھی لگاؤں، بچے بھی سنبھالوں وغیرہ وغیرہ۔‘‘ اور جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں جگہ بچے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ایک جگہ وہ مسکرا دیں گے، دوسری جگہ وہ سہم جائیں گے۔
ایک جگہ انہوں نے سیکھا غلطی مان لو تا کہ دوہرائی نہ جائے۔
دوسری جگہ کے بچوں نے سیکھا اگرغلطی ہوگئی تو ہماری شامت آجانی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسے چھوٹے بڑے واقعات ہمارے گھروں میں اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں روزانہ ہی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انہیں مثبت انداز میں ہنڈل کریں یا منفی انداز میں۔ ہمارا مثبت رویہ خوشگوار ماحول اور امن و سکون فراہم کرتا ہے جبکہ ہمارا منفی رویہ جھگڑا برپا کرکے ماحول کی خرابی اور امن و سکون کو غارت کرنے کا باعث بنتا ہے اور ہماری زندگی کو پریشان کن بناتا ہے۔ ہم اپنی سوچ اور رویے سے اپنے ماحول کو خوشگوار یا بدبودار بناتے ہیں۔ ہم اپنے امن سکون کے خود خالق ہے

’’اپنی غلطی کو مان لینا یا دوسروں کی غلطی سے درگزر کرنا‘‘، دونوں ہی مثبت رویہ اور مومن کی صفات ہیں۔

جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’۔ ۔ ۔ جو غصہ کو پی لیتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔‘‘ (134) سورة آل عمران

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بندہ معاف کر دیتا ہے اللہ اس کی عزت بڑھاتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6592)

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’میں جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے‘‘۔ (سنن ابوداؤد ۔ جلد سوم ۔ ادب کا بیان ۔ حدیث 1396)

جھگڑا امن و سکون کو تباہ کرتا ہے۔ لہذا جو بندہ دوسروں کو معاف کرکے یا خود اپنی غلطی کو تسلیم کرکے یا پھر خود حق پر رہنے کے باوجود اپنا حق صرف اس لئے چھوڑ دے کہ جھگڑا نہ ہو تو وہ ماحول کو خوشگوار اور پُرامن بناتا ہے جس کے بدلے میں ایسے بندے کیلئے امن کی جگہ جنت کے اطراف میں ایک گھر کی ضمانت دی گئی ہے۔

*لہذا ہمیں دین کی ان باتوں کو سیکھنا، سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے تب ہی ہم مثبت سوچ اور مثبت رویے کے ساتھ اپنے ماحول کوخوشگوار اور اپنی زندگی کو آسان بنا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اس کی توفیق دے۔۔۔۔۔۔۔
منقول
 

نور وجدان

لائبریرین
میاں کمرے میں ہیں۔
سامنے بچے کھیل رہے ہیں۔
خاتون گھر میں پوچھا لگا رہی ہے۔
کہ کچن میں دودہ جلنے کی بوآتی ہے۔
خاتون دوڑ کر کچن کی طرف جاتی ہے۔
اسی لمحے مین گیٹ پر کوئی بیل بجاتا ہے۔
میاں مین گیٹ کی طرف جانے کیلئے نکلتے ہیں اور
سامنے رکھی پوچھے کی بالٹی سے انہیں ٹھوکر لگتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
*دو ردعمل ممکن ہیں۔*

*مثبت رد عمل:*
خاتون جلدی سے آکر پوچھتی ہے: ’’آپ کو چوٹ تو نہیں لگی، میں جلدی میں بالٹی راستے سے ہٹانی بھول گئی۔‘‘
میاں نے کہا: ’’نہیں، آپ کی غلطی نہیں ہے۔ مجھے ہی دیکھ کر چلنا چاہئے تھا۔ میں نے ہی جلد بازی میں دھیان نہیں دیا۔‘‘

*منفی رد عمل:*
میاں نے چیخ کر کہا: ’’یہ کوئی بالٹی رکھنے کی جگہ ہے۔ تمہیں کوئی عقل نہیں ۔‘‘
بیگم بھی چیخ کر کہتی ہے: ’’یہاں کچن بھی دیکھوں، پوچھا بھی لگاؤں، بچے بھی سنبھالوں وغیرہ وغیرہ۔‘‘ اور جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں جگہ بچے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ایک جگہ وہ مسکرا دیں گے، دوسری جگہ وہ سہم جائیں گے۔
ایک جگہ انہوں نے سیکھا غلطی مان لو تا کہ دوہرائی نہ جائے۔
دوسری جگہ کے بچوں نے سیکھا اگرغلطی ہوگئی تو ہماری شامت آجانی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسے چھوٹے بڑے واقعات ہمارے گھروں میں اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں روزانہ ہی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انہیں مثبت انداز میں ہنڈل کریں یا منفی انداز میں۔ ہمارا مثبت رویہ خوشگوار ماحول اور امن و سکون فراہم کرتا ہے جبکہ ہمارا منفی رویہ جھگڑا برپا کرکے ماحول کی خرابی اور امن و سکون کو غارت کرنے کا باعث بنتا ہے اور ہماری زندگی کو پریشان کن بناتا ہے۔ ہم اپنی سوچ اور رویے سے اپنے ماحول کو خوشگوار یا بدبودار بناتے ہیں۔ ہم اپنے امن سکون کے خود خالق ہے

’’اپنی غلطی کو مان لینا یا دوسروں کی غلطی سے درگزر کرنا‘‘، دونوں ہی مثبت رویہ اور مومن کی صفات ہیں۔

جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’۔ ۔ ۔ جو غصہ کو پی لیتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔‘‘ (134) سورة آل عمران

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بندہ معاف کر دیتا ہے اللہ اس کی عزت بڑھاتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6592)

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’میں جنت کے اطراف میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے‘‘۔ (سنن ابوداؤد ۔ جلد سوم ۔ ادب کا بیان ۔ حدیث 1396)

جھگڑا امن و سکون کو تباہ کرتا ہے۔ لہذا جو بندہ دوسروں کو معاف کرکے یا خود اپنی غلطی کو تسلیم کرکے یا پھر خود حق پر رہنے کے باوجود اپنا حق صرف اس لئے چھوڑ دے کہ جھگڑا نہ ہو تو وہ ماحول کو خوشگوار اور پُرامن بناتا ہے جس کے بدلے میں ایسے بندے کیلئے امن کی جگہ جنت کے اطراف میں ایک گھر کی ضمانت دی گئی ہے۔

*لہذا ہمیں دین کی ان باتوں کو سیکھنا، سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے تب ہی ہم مثبت سوچ اور مثبت رویے کے ساتھ اپنے ماحول کوخوشگوار اور اپنی زندگی کو آسان بنا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سبھوں کو اس کی توفیق دے۔۔۔۔۔۔۔
منقول
عملی اطلاق ہو گر مجھ سے تو کمال ہوگا. اگر نہ ہو سکا تو اس پڑھنے کا حساب ہوگا
 
اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے کبھی خسارے میں نہیں رہتے‘ عزت قربان کرو گے تو اللہ عزت کو ستر گنا کر کے لوٹائے گا اور شہرت اور دولت کی قربانی دو گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی ستر سے ضرب دے کر لوٹائے گا‘ بے شک اللہ تعالیٰ کی اسٹاک ایکسچینج کائنات کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے‘ یہ کبھی کریش نہیں ہوتی‘ یہ کبھی اپنے شیئر ہولڈرز کا خسارہ نہیں ہونے دیتی‘ اس کا انڈیکس ہمیشہ اوپر جاتا ہے.
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے کبھی خسارے میں نہیں رہتے‘ عزت قربان کرو گے تو اللہ عزت کو ستر گنا کر کے لوٹائے گا اور شہرت اور دولت کی قربانی دو گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی ستر سے ضرب دے کر لوٹائے گا‘ بے شک اللہ تعالیٰ کی اسٹاک ایکسچینج کائنات کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے‘ یہ کبھی کریش نہیں ہوتی‘ یہ کبھی اپنے شیئر ہولڈرز کا خسارہ نہیں ہونے دیتی‘ اس کا انڈیکس ہمیشہ اوپر جاتا ہے.
سبحان اللّہ
سبحان اللّہ ❤️❤️❤️❤️❤️
 
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کی وفات پر دکھ ہے لیکن اس سے زیادہ دکھ مجھے ان کے متعلق اس دن ہوا تھا جب میں نے ان کا ایک کالم پڑھا جس میں انہوں اس بات کا اعتراف کیا مجھے اگر زندگی میں کسی چیز پر افسوس ہے تو وہ پاکستان کے لیے کام کرنا ہے.
وہ عظیم انسان جس نے پاکستان پر احسان کیا اور محسن پاکستان کہلایا مگر اس شخص کو تا حیات اپنے اس احسان پر افسوس رہا.
کیوں؟
یہ ایک کیوں ہے جس کا جواب شاید بہت مشکل ہے۔
 
؎ کتابِ زندگی میں نہ جانے کتنے ورق باقی ہیں
سنہری انکو کر جائیں،چلو زندہ ہو کے مر جائیں
(ام عبدالوھاب)
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ایسا کچھ کہوں ،ایسا کچھ کروں کہ میری کتابِ زیست کے تمام صفحات سنہری ہو جائیں۔
یہ کتاب جو میں شب و روز لکھنے میں مصروف ہوں۔ اس کی تحریر میری ہی لکھی ہوئی ہے،تنہا میری۔
اسکے ورق برابر الٹے جارہے ہیں۔الٹے ہوئے صفحات برابر بڑھتے جا رہے ہیِں۔باقی ماندہ ورق نہ جانے کتنے ہیں مگر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ایک دن آخری صفحہ بھی پلٹ دیا جائے گا۔میری آنکھ کے ساتھ ہی یہ کتاب بند کردی جائے گی اور میری تصنیف محفوظ کر دی جائے گی۔
جو میں نے سوچا ،دیکھا،سنا ، چاہا اور کیا سب محفوظ
کسی دوسرے کا اس میں کچھ عمل دخل نہیں
تو پھر کل،آنے والے کل
وہ کل جس کا وعدہ ہے
یہی کتاب میرے کپکپاتے ہاتھوں میں ہوگی
بدن لرزاں ہوگااور سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہنشاہِ کائنات ،واحد قہار و جبار مجھ سے کہے گا
القرآن - سورۃ نمبر 17 الإسراء
آیت نمبر 14
اِقۡرَاۡ كِتٰبَك َؕ كَفٰى بِنَفۡسِكَ الۡيَوۡمَ عَلَيۡكَ حَسِيۡبًا ۞
ترجمہ:
لے ! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے ۔
آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے
بے شک وہ بہت مہربان اور رحیم ہے ،گناہوں کو بخشنے والا ہے۔
آئیے اپنا احتساب کریں۔توبہ کی ربڑ سے سیاہ حروف کو مٹا دیں،اور باقی ماندہ کتاب پر تقویٰ کی سنہری سیاہی استعمال کریں۔
موت تو اٹل ہے ہر حال آنی ہے،مرنے سے پہلے زندہ ہونا ضروری ہے تاکہ کل دوبارہ زندہ ہو کر شافعی محشر(صلی اللہ علیہ وسلم)کے سامنے رسوا نہ ہونا پڑے۔
رب یسر ولا تعسر و تمم بالاخیر
ام عبدالوھاب
اگرچہ طرزِ بیان کی بنیاد پہ یہ تحریر اپنی مثال آپ ہے لیکن شرمندگی کی بات کر کے انسان کو اس کی کم مائیگی پہ مزید شرمندہ کرنے والی بات ہے جو کہ میری دانست میں 'بلیک میلنگ' ہے۔
انسان کے لیے شاید فقط اتنا ہی کافی ہے کہ:
' He must keep faith in god in the face of all of the absurdities and sufferings of life'
میری دانست میں اس 'faith' کے علاوہ انسان کے پاس شاید کوئی ایسا آپشن نہیں ہے جو اسے ذہنی و جذباتی سطح پہ تسلی دے سکے، انسان کے ہونے اور فنا ہونے کی آگاہی کے کرب پہ اس کی دلجوئی کر سکے۔
 
؎ کتابِ زندگی میں نہ جانے کتنے ورق باقی ہیں
سنہری انکو کر جائیں،چلو زندہ ہو کے مر جائیں
(ام عبدالوھاب)
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ ایسا کچھ کہوں ،ایسا کچھ کروں کہ میری کتابِ زیست کے تمام صفحات سنہری ہو جائیں۔
یہ کتاب جو میں شب و روز لکھنے میں مصروف ہوں۔ اس کی تحریر میری ہی لکھی ہوئی ہے،تنہا میری۔
اسکے ورق برابر الٹے جارہے ہیں۔الٹے ہوئے صفحات برابر بڑھتے جا رہے ہیِں۔باقی ماندہ ورق نہ جانے کتنے ہیں مگر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ایک دن آخری صفحہ بھی پلٹ دیا جائے گا۔میری آنکھ کے ساتھ ہی یہ کتاب بند کردی جائے گی اور میری تصنیف محفوظ کر دی جائے گی۔
جو میں نے سوچا ،دیکھا،سنا ، چاہا اور کیا سب محفوظ
کسی دوسرے کا اس میں کچھ عمل دخل نہیں
تو پھر کل،آنے والے کل
وہ کل جس کا وعدہ ہے
یہی کتاب میرے کپکپاتے ہاتھوں میں ہوگی
بدن لرزاں ہوگااور سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہنشاہِ کائنات ،واحد قہار و جبار مجھ سے کہے گا
القرآن - سورۃ نمبر 17 الإسراء
آیت نمبر 14
اِقۡرَاۡ كِتٰبَك َؕ كَفٰى بِنَفۡسِكَ الۡيَوۡمَ عَلَيۡكَ حَسِيۡبًا ۞
ترجمہ:
لے ! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے ۔
آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے
بے شک وہ بہت مہربان اور رحیم ہے ،گناہوں کو بخشنے والا ہے۔
آئیے اپنا احتساب کریں۔توبہ کی ربڑ سے سیاہ حروف کو مٹا دیں،اور باقی ماندہ کتاب پر تقویٰ کی سنہری سیاہی استعمال کریں۔
موت تو اٹل ہے ہر حال آنی ہے،مرنے سے پہلے زندہ ہونا ضروری ہے تاکہ کل دوبارہ زندہ ہو کر شافعی محشر(صلی اللہ علیہ وسلم)کے سامنے رسوا نہ ہونا پڑے۔
رب یسر ولا تعسر و تمم بالاخیر
ام عبدالوھاب
ماشاءاللہ
بہت خوبصورت تحریر ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے
 

سیما علی

لائبریرین
اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ:
ایک دن بے بے نے بیسن کی روٹی پکا کے دی۔ میں نے دو روٹیاں کھائیں اور ساتھ لسّی پی۔ پھر بے بے کو خوش کرنے کیلئے زوردار آواز میں اللّٰہ کا شُکر ادا کیا۔
بے بے نے میری طرف دیکھا
اور پُوچھا: اے کی کیتا ای؟
میں نے کہا:
بے بے! شُکر ادا کیتا اے اللّٰہ دا۔
کہنے لگی:
اے کیسا شُکر اے؟
دو روٹیاں تُجھے دیں... تُو کھا گیا...نہ تُو باہر جھانکا، نہ ہی پاس پڑوس کی خبر لی کہ کہیں کوئی بُھوکا تو نہیں... ایسے کیسا شُکر؟
پُترا! روٹی کھا کے لفظوں والا شُکر تو سب کرتے ہیں... اپنی روٹی کسی کے ساتھ بانٹ کر شُکر نصیب والے کرتے ہیں۔
اللّٰہ کو لفظوں سے خوش کرنا چھوڑ دے۔
پُتر! *عمل پکڑ عمل!* اللّٰہ جس چیز سے نواز دے... اُس کو خوشی سے استعمال کر اور کسی کے ساتھ بانٹ لیا کر کہ یہ *عملی شُکر* ہے”
نعمتِ خداوندی کا *عملی شُکر* تو اُس نعمت کو بانٹ کے کھانے میں ہی ہے اور وہ بھی عزیز رشتہ داروں اور اڑوس پڑوس کے لوگوں کے ساتھ۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے آمین۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
یمن کے ایک شہر میں بوسیدہ لباس میں کوئی مستانہ وار جارہا ہے۔ شہر کے آوارہ بچے اس کے پیچھے تالیاں بجاتے اور آوازے کستے چلے آرہے ہیں، بچوں نے کنکر بھی مارنا شروع کردیئے۔ لیکن حیرت ہے کہ یہ فقیر کنکریاں مارنے والوں کو نہ روکتا ہے نہ ٹوکتا ہے۔ مسکراتے اور زیر لب گنگناتے وہ اپنی دھن میں چلا جارہا ہے۔ اچانک کسی جانب سے ایک بڑا پتھر اس کے سر سے آٹکراتا ہے۔ زخم سے خون کی ایک پتلی سے لکیر جب پیشانی کو عبور کرنے لگتی ہے تو وہ رک جاتا ہے۔ پھرپتھر مارنے والے بچوں کی طرف رخ کرکے کہتا ہے۔
میرے بچو بڑے پتھر نہ مارو چھوٹی کنکریاں مار کر دل بہلاتے رہو۔ بس ایک ہی پتھر سے اندیشہ اتر گیا۔ ایک منہ پھٹ لڑکا آگے بڑھتے ہوئے کہتا ہے۔
نہیں میرے بیٹے ایسی کوئی بات نہیں۔ میں چاہتا ہوں تمہارا شغل جاری رہے اور میرا کام بھی چلتا رہے۔ کنکریوں سے خون نہیں بہتا۔ پتھر لگنے سے خون بہنے لگتا ہے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور بغیر وضو کے میں اپنے محبوب کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوسکتا
یمن کے شہر قرن میں ایک کوچے سے گزرنے والے یہ درویش عشق و مستی کی سلطنت کے بادشاہ حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ تھے۔
کعبہ محبت کا طواف کرنے والوں کا جب بھی ذکر چھیڑے گا تو حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی سرفہرست رہے گا۔
 

سیما علی

لائبریرین
”اے نفس ایک دن دنیا سے جانا ہے۔ موت بھی آنے والی ہے۔ اُس وقت یہ سب مال و دولت یہیں رہ جائے گا۔بیوی بچے سب تجھے چھوڑ دیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ سے واسطہ پڑے گا۔اگر تیرے پاس نیک اعمال زیادہ ہوئے تو بخشا جائے گا اور گناہ زیادہ ہوئے تو جہنم کا عذاب بھگتنا پڑے گا جو برداشت کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے تو اپنے انجام کو سوچ اور آخرت کے لیے کچھ سامان کر۔ عمر بڑی قیمتی دولت ہے۔ اس کو فضول رائیگاں مت بر باد کر۔ مرنے کے بعد تو اُس کی تمنا کرے گا کہ کاش میں کچھ نیک عمل کر لوں جس سے مغفرت ہوجائے۔ مگر اس وقت تجھے یہ حسرت مفید نہ ہوگی۔ پس زندگی کو غنیمت سمجھ کر اس وقت اپنی مغفرت کا سامان کرلے۔“
 
Top