غلطی ہائے مضامین: اردو کا چرخہ اور ہماری چرَّخ چُوں ٭ ابو نثر

اردو کا چرخہ اور ہماری چرَّخ چُوں
ابو نثر (احمد حاطب صدیقی)
٭
ہمارے ’ہم کالم‘ بھائی خورشید احمد ندیم اچھی اردو لکھتے ہیں۔ ہم ان کے کالموں کا مطالعہ صرف رواں، رسیلی اور شستہ اردو سے لطف اندوز ہونے کی لالچ میں کرتے ہیں۔ پُرکھوں نے سچ کہا ہے: ’لالچ بری بلا ہے‘۔ کبھی بلائے جان اور کبھی ’بلائے بیان‘ بن جاتی ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ ہفتے (11 ستمبر 2021ء کو) اُن کا کالم بعنوان ’’اُردو یا انگریزی‘‘ روزنامہ ’دنیا‘میں شائع ہوا۔گو کہ مضمون میں ہمارے مطلب کی اور بھی باتیں ہیں، جن پر گفتگو ضروری ہے۔ تاہم ایک اہم نکتہ، بڑی دل گرفتگی اور دل سوزی سے، انھوں نے یہ بیان کیاکہ
’’وہ کلچر اب باقی نہیں جس سے تشبیہ و استعارہ اُٹھے تھے۔ چرخہ اب کہیں نہیں ہے۔ نئی نسل نے چرخہ دیکھا نہ اس کی کوک سنی۔‘‘

آخری فقرہ پڑھ کر تو ہم بھی کُوکنے لگے۔ لوجی! ’ایں ہم بچّۂ شتر است‘۔ یہ بزرگوار بھی نئی نسل کے نکلے۔ ’چرخہ‘ انھوں نے بھی نہیں دیکھا۔ خیر، چرخہ نہیں دیکھا تو’چرخی‘ تو ضرور ہی دیکھی ہوگی، جس پر پتنگ باز مانجھا لپیٹ رکھتے ہیں۔ چرخی چلانے کو آدمی الگ سے مقرر کیا جاتا ہے۔ پیچ پڑ جائے تو ہر ڈھیل اور ہر کھچائی کے ساتھ، مانجھا چھوڑنے اور لپیٹنے کو مردِ مذکور اپنی گردن اورچرخی گھماتا رہتا ہے۔ اسی پر چرخے کو قیاس کیجیے۔ ’چرخہ لفظ ’چرخی‘ کی تکبیر ہے، بلکہ ’تکبیر مسلسل‘۔ اسے ہاتھ سے گھمایا اور ہاتھ سے چلایا جاتا، تاکہ تشبیہ، استعارہ اور سوت کاتا جاسکے۔ سوت کات کر گاندھی جی اپنی دھوتی اور شال خود بُن لیا کرتے۔ یہ مشقت وہ انگریزوں سے’عدم تعاون‘کے لیے اُٹھاتے تھے۔ اُن کی قید تو بامشقت ہوتی ہی تھی، آزادی بھی کم بامشقت نہ تھی۔ برقی صفحات پر شاید گاندھی جی کی چرخہ چلاتی تصویریں آج بھی دیکھنے کو مل جائیں۔ خیر صاحب، قصہ مختصر کیجیے، چرخہ بے چارا ’چرّخ چوں‘ تو کرسکتا ہے مگر کُوک نہیں سکتا۔ گرمیوں کی دوپہر میں آم کے باغات میں کوئل کُوکتی ہے۔ آوازسُریلی اور سیٹی جیسی تیز ہوتی ہے، سحرؔ لکھنوی کا دل دہلا دیتی ہے:
فزوں تیر سے کُوک کوئل کی ہے
نہ پوچھو جو حالت مرے دل کی ہے​

(فُزُوں کا مطلب ہے بڑھی ہوئی، زیادہ) فاختہ اور قُمریاں بھی ’کُوکُو‘ کرتی پھرتی ہیں۔ پپیہے کی پُکار بھی کُوک کہلاتی ہے۔ شب بیدار چوکی دار بھی ایک دوسرے کو بیدار رکھنے کے لیے کُوک مارا کرتے تھے۔ ’’کُو اُو اُؤ‘‘ جیسی سُریلی آواز نکالا کرتے۔ گھڑی یا کسی کھلونے میں جو چابی بھری جاتی ہے، اُس کو بھی کوک بھرنا کہتے ہیں۔ چابی ختم ہوجاتی، گھڑی رُک جاتی تو کہا جاتا ’کوک اُتر گئی‘۔ چرخے میں چابی بھرتی ہے، نہ بھونپو بجتا ہے۔ غلط فہمی شاید اس وجہ سے ہوئی کہ وہ جو حضرت مولانا اسمٰعیلؔ میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ فرماگئے ہیں کہ
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دُھن کی پوری ہے کام کی پکی​
تو جب یہ چکّیاں چلتی تھیں توکام کی دُھن میں ’کُوکنے‘ لگتی تھیں۔ اُن کی کُوک دُور تک سنائی دیتی۔ مشین چلنے پر ’’کُوہُو … کُوہُو‘‘ کی جو تیز آواز آتی تھی وہی کُوک کہلاتی تھی۔ بعض چکیاں پانی کے زور سے نہیں، ہوا کے زور سے چلائی جاتی تھیں۔ ہوا سے چلنے والی چکی کو ’پَن چکی‘ کی جگہ ’پَوَن چکی‘ کہا جاتا تھا۔ ان چکیوں سے اناج پیسنے کا کام لیا جاتا۔ پن چکی انگریزی میں Water Mill اور پون چکی Wind Mill کہلاتی تھی۔ اسمٰعیلؔ میرٹھی مرحوم کی پن چکی غالباً آٹا پیسنے پر مامور تھی تاکہ شاعر، اُس کی شاعری اور لوگوںکا پیٹ بھر سکے:
پیسنے میں لگی نہیں کچھ دیر
تُو نے جھٹ پٹ لگا دیا اِک ڈھیر
لوگ لے جائیں گے سمیٹ سمیٹ
تیرا آٹا بھرے گا کتنے پیٹ​

’پن چکیاں‘ بالعموم نہر کے کنارے کھیتوں میں نصب کی جاتی تھیں۔ اُردو کے افسانوں میں اس قسم کے رُومانوی فقرے اکثر پڑھنے کو ملتے ہیں: ’’دُور کہیں کھیتوں میں چلتی پَن چکّی کی کُوک ماحول میں گونج رہی تھی…‘‘ حاصلِ کلام یہ کہ ’چرخے کی کُوک‘ توکبھی پرانی نسل نے بھی نہیں سنی، نئی نسل کیا سنے گی! پُرانی نسل بچاری چرخہ کاتتے کاتتے خود چرخہ ہوگئی۔ ’چرخہ ہوجانا‘ اردوکا محاورہ ہے۔ انجر پنجر ڈھیلا ہوجانے، خستہ حال، کمزور، ضعیف اور لاغر ہوجانے کو کہتے ہیں۔ ’انجر پنجرڈھیلا ہوجانے‘ والے معنوں کو استعمال کرتے ہوئے اُس شخص کو، جس کے دماغ کی چُولیں ڈھیلی ہوگئی ہوں ’اُلّو کا چرخہ‘ کہا جاتا ہے۔ مراد ہے نہایت بے وقوف اور احمق شخص۔ اپنے اِردگرد نظر دوڑائیے، کوئی نہ کوئی نظر آہی جائے گا۔ کوئی نظر نہ آئے تو آئینے پر نظر ڈال لیجیے۔ کام چل جائے گا۔
بھگت کبیرؔداس نے زمین و آسمان کو بھی چکی کے دو پاٹ قرار دیا۔ قرار دیتے ہی حسبِ عادت رونے بیٹھ گئے:
چلتی چکی دیکھ، دیا کبیراؔ روئے
دُوئی پاٹن کے بیچ، ثابت بچا نہ کوئے​
سنا ہے کہ اس گرو کے کسی چیلے نے اس دوہے کے جواب میں کہا:
اِلّا پکڑے جو، ثابت بچا ہے ووئے​

اتنا تو سب ہی کو پتا ہوگا کہ چکی کے دو پاٹ بھاری بھاری پتھروں کے پاٹ ہوتے ہیں، جن کی باہمی رگڑ سے اُن کے بیچ میں ڈالا جانے والا اناج پستا ہے۔ اوپری پاٹ کو گھمانے کے لیے، کسی کنارے سے پتھر کاٹ کر ایک کھونٹا ٹھونک دیا جاتا ہے۔ اس کھونٹے کو ’اِلّا‘کہتے ہیں۔ اگر ’اِلّا‘کے نچلے حصے کے خلا میں کوئی دانہ پھنس جائے تو وہ پِس نہیں پاتا۔ شارحین نے اس مصرعے میں ’اِلّا‘ کو ذوالمعنین یعنی دو معنوں والا قرار دیا ہے۔ دوسرے معنی ’اِلّا اللہ‘ سے لیے گئے ہیں۔ جس نے ’اِلّا اللہ‘ کا کھونٹا پکڑلیا وہ پسنے سے بچ گیا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’ذُومعنی‘ کا مطلب ہوتا ہے: ’معنی والا یا معنی خیز‘۔ اس کا مطلب ایک لفظ کے دو معنی نہیں، جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں، اور ذوالمعنَین کے معنوں میں صرف ذُومعنی بولتے ہیں۔ ’ذُو‘ کامعنٰی’والا‘ ہوتا ہے، جیسے ذو الجلال کا مطلب جلال والا۔
ہمارے بچپن میں ہماری گلی میں ایک نابینا فقیر آیا کرتا تھا۔ بڑی درد بھری پُکار سے کہتا: ’انکھیاں والو! انکھیاں بڑی نِیامت ہیں‘۔ اُس زمانے میں ہم پر اصلاحِ تلفظ کا بھوت سوار نہیں ہواتھا۔ ہوا ہوتا تو شاید وہ ’دھاکڑ‘ بابا ہمیں بھی بھوت بنا دیتا۔ بہر حال اُسی بابا کی پیروی یا پیروڈی کرتے ہوئے یہ کہنے کا جی چاہتا ہے کہ’رونے والو! رونا بڑی نیامت ہے‘۔ کبیرؔداس تو بات بات پر رو دیا کرتے تھے، خواہ وہ بات ہنسنے ہی کی کیوں نہ ہو۔ مثلاً:
رنگی کو نارنگی کہیں اور بنے دودھ کو کھویا
چلتی کو گاڑی کہیں یہ دیکھ کبیراؔ رویا​

اُردو کا رونا رونے میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر غازی علم الدین اور جناب رضا علی عابدی سمیت آج کل بہت سے لوگ مصروف ہیں۔ ہمیں اور برادر خورشید ندیم کو بھی انھیں اہلِ گریہ میں ڈال لیجیے۔ مگر رونا کاہے کا؟ اُردو کی فتوحات تو بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اُردو کا جادُو (کسی بھوت کی طرح) لوگوں کے سر چڑھ چکا ہے اور وہیں چڑھے چڑھے (اُردو) بول رہا ہے۔ اُردو کی ہمہ جہتی کے موضوع پر اور برادر خورشید ندیم کے کالمانہ خیالات پر گفتگو تو آج رہ ہی گئی۔ آج ہم اپنی طُرفہ طبیعت کے ہاتھوں مشقِ سخن کے ساتھ ساتھ چکی کی مشقت کرتے اورکوک بھرا چرخہ ہی چلاتے رہ گئے۔ چلیے پھر کبھی سہی۔ فی الوقت تو اپنی چَرَّخ چُوں یہیں بند کرتے ہیں۔
 

عدنان عمر

محفلین
گزشتہ سے پیوستہ ہفتے (11 ستمبر 2021ء کو) اُن کا کالم بعنوان ’’اُردو یا انگریزی‘‘ روزنامہ ’دنیا‘میں شائع ہوا۔
اس کالم میں پاکستان میں نفاذِ اردو کے امکانات پر فکر انگیز نکات پیش کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ ہو:

انگریزی یا اردو
خورشید احمد ندیم

اردوہماری تہذیبی شناخت ہے۔اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو۔اختلاف بعض دوسرے امور میں ہے ۔مثال کے طور پرکیا یہ شناخت ہمیں مطلوب بھی ہے؟ تہذیبی شناخت کے لیے صرف ماضی سے وابستگی کافی ہے یا اس کے کچھ مطالبات مستقبل سے متعلق بھی ہیں۔
مادی ترقی نے زندگی کے طور طریقوں کو بدل ڈالا ہے۔رہن سہن سے لے کر وسائلِ پیداوار تک‘سب بدل چکا۔اس سے وہ ادب دھیرے دھیرے متروک ہوتا جا رہا ہے جو پچاس ساٹھ سال پہلے تک لکھا گیا۔وہ کلچر اب باقی نہیں جس سے تشبیہ واستعارہ اٹھے تھے ۔چرخہ اب کہیں نہیں ہے۔نئی نسل نے چرخہ دیکھا نہ اس کی کوک سنی۔اور تو اور لوح و قلم تک متروک ہوچکے۔غالب و میر کی تشبیہ کوآج کی نسل سمجھتی ہے نہ اقبال اور فیض کے استعاروں کو۔غالب و اقبال کے بغیر کون سی تہذیب اور کیسی روایت؟
تہذیب ہو یا روایت‘یہ تب ہی زندہ رہتی ہیں جب لہو کی طرح کسی جماعت کی رگوں میں دوڑتی رہیں۔جس دن لہو کی گردش رکی‘جان لیجیے کہ موت نے آ لیا۔رگوں میں دوڑنے کا مطلب ہے کہ تہذیبی مظاہر روز مرہ زندگی کا حصہ بنے رہیں۔ اردو پڑھائی جاتی رہے۔شاعرکی تشبیہات اور استعارے کلچر سے جڑے رہیں۔ اگر یہ نہیں ہیں تو پھر مصنوعی تنفس سے انہیں زندہ نہیں کیا جا سکتا۔
تہذیبوں کو زوال کیوں آتا ہے؟ ابن خلدون‘ٹائن بی‘ سپنگلر‘ پال کینیڈی جیسوں نے ہزاروں صفحات سیاہ کر دیے‘اس سوال کے جواب میں۔سادہ بات یہ ہے کہ زبان جب زندگی کے ساتھ ہم قدم نہ ہوسکے تو تہذیب کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔زندگی کو تو ہم سفر اور زادِ راہ چاہیے۔جو ساتھ چلتا ہے‘بالآخر شناخت بن جا تا ہے۔آئیے‘ اس بات کی شرح کرتے ہیں۔
آج زندگی کا سامانِ سفر علم ہے۔ زندگی کو آگے بڑھنے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ علم ابلاغ کا محتاج ہوتا ہے۔ جو زبان علم کا ابلاغ کرتی ہے‘ وہی یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ زندگی سے ہم قدم ہو سکے۔ زندگی پھر اس کے متعین راستے پر چل نکلتی ہے۔ اردو علم کی زبان نہیں بن سکی۔ یہ کام انگریزی نے کیا۔ یوں زندگی کا قافلہ اس کے ساتھ چل نکلا۔ اب زندگی نے اسی تہذیب کو اوڑھنا تھا‘انگریزی زبان جس کا دروازہ ہے۔
کوئی زبان دو صورتوں میں علم کی زبان بن سکتی ہے‘ایک یہ کہ علم اس زبان میں تخلیق ہو۔ دوسرا یہ کہ علم دنیا کی کسی بھی زبان میں تخلیق ہو‘ یہ زبان اسے اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ عباسیوں کے دور میں عربی نے یہ حیثیت حاصل کر لی تھی۔ یوں عربی تہذیب کی زبان بن گئی اور عربوں کا رواج دنیا کا فیشن بن گیا۔ دنیا ارسطو سے واقف ہوئی تو عربی کے طفیل۔ پھر ایک دور آیا کہ یہ حیثیت انگریزی کو حاصل ہوگئی۔ یہ غزالی و ابن سینا ہوں یاکانٹ وہیگل‘انیسویں صدی میں اگر ان کا فیض عام ہوا تو انگریزی کی معرفت سے۔
آج تہذیب کی باگ سائنس کے ہاتھ میں ہے اور اردو سائنس کی زبان نہیں بن سکی۔ سائنس سے عام طور پر طبیعی علوم مراد لیے جاتے ہیں۔ اردو تو سماجی علوم کی زبان بھی نہیں بن سکی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اردو میں یہ صلاحیت نہیں تھی۔ اردو انیسویں صدی میں اپنی یہ حیثیت منوا چکی تھی کہ وہ سائنس کی زبان بن سکتی ہے۔ اسی برصغیر میں ایسا میڈیکل کالج قائم ہوا جہاں جدید طب کی کتب اردو میں پڑھائی جا تی تھیں۔ یہ ترجمے کی بدولت ممکن ہوا۔ علی گڑھ سے جامعہ عثمانیہ تک ایک دور ہے جب دنیا کے علم کو اردو میں منتقل کرنے کا کام ہوا۔ انیسویں اور بیسویں صدی اس لحاظ سے بھی اہم تھی کہ اردو میں تخلیقی سطح پر بھی اعلیٰ کام ہوا۔ خاص طور پر ادب اور اسلامی علوم میں۔ یہ غالب اوراقبال کا دور ہے جن کی تخلیقی وفور سے کون انکار کر سکتا؟ یہ شبلی نعمانی‘سید مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کا عہد ہے جنہوں نے تفسیر و تاریخ کے باب میں جو کچھ لکھا‘ پورے عالمِ اسلام میں اس کی کوئی نظیر مو جود نہیں ہے۔
ہم آزاد ہوئے تو اپنی تہذیب اور روایت بھی آزاد ہوتے گئے۔ اقبال نے ایک وقت نوحہ لکھا کہ سرسید و حالی کی مسند خالی ہوگئی۔ اردو کی جب سرپرستی نہ ہوئی تو کوئی ان حضرات کا سجادہ نشین نہ بن سکا۔ اردو میں ترجمے کی روایت کمزور پڑ گئی اور اس میں نیا علم بھی تخلیق نہ ہو سکا۔ علم کے مراکز کیمبرج اورہارورڈ بن گئے۔ زندگی تو رک نہیں سکتی تھی۔ اس نے آگے بڑھنا تھا۔ نئی نسل کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ اگر اسے زندہ رہنا ہے تو انگریزی سے اپنا مستقبل وابستہ کر لے۔ مزید ظلم یہ ہوا کہ پاکستان کے داخلی نظام کی زبان بھی انگریزی تھی۔ کوئی علم حاصل کرنا چاہے یا اچھی نوکری‘اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ انگریزی سیکھے۔ اس طرح معاشرے کی ذہانتیں اردو سے دور ہوتی گئیں۔
جب انگریزی اشرافیہ کی زبان بن گئی تو لازم تھا کہ دوسری زبانیں احساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں۔ آج ایک پاکستانی نادرست اردو بولنے کو عیب نہیں سمجھتا‘ کوئی انگریزی بولنے میں غلطی کرے تواس کا مذاق اڑاتا ہے۔ یہی نہیں‘وہ اپنے اس عیب کو برتری کے احساس کے ساتھ بیان کر تا ہے۔ آدمی شرم سے ڈوب مرتا ہے جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کے بچے اردو کی عبارت کو رومن میں لکھتے ہیں۔
آج انگریزی کو اپنا لیا گیا۔یوں تہذیبی حساسیت بھی ختم ہو گئی ہے۔ اب انگریزی اس طرح رچ بس چکی ہے کہ کسی زیاں کا احساس ہی باقی نہیں رہا۔ وطن کے ساتھ ایک فطری عصبیت وابستہ ہو تی ہے ‘وہ تو موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ کسی تہذیبی عصبیت کا اظہار ہے۔ اب کوئی بہ طیبِ خاطر اردو نہیں سیکھنا چاہتا۔ اردو دو وجوہ سے اس کی ضرورت تھی‘ایک اس لیے کہ یہ تہذیب کی زبان تھی۔جب تہذیبی حساسیت باقی نہیں رہی تو اردو سے تعلق بھی باقی نہیں رہا۔ اسی لیے میں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا تہذیبی شناخت ہمیں مطلوب بھی ہے؟ دوسری وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ اردو اس کی مادی ضرورت بنتی۔یہ تب ہوتا اگر اردو معاصر علم کی زبان ہو تی۔
اردو کو اگر ہم رائج کر نا چاہتے ہیں تو یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب یہ علم کی زبان بنے گی۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اس زبان میں علم تخلیق ہو یا اس میں جدید ترین علم منتقل کر دیا جائے۔ پہلے کام کے لیے ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے جس کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ دوسری صورت باقی ہے اگر ریاست اس کا ہنگامی بنیادوں پر اہتمام کر سکے۔ ایک اور راستہ یہ ہے کہ اردو انتظامی زبان بن جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود ‘آج بھی عدالتی فیصلے انگریزی میں لکھے جا رہے ہیں اورقانون سازی انگریزی میں ہوتی ہے۔ یہی نہیں انتظامیہ کی زبان بھی یہی ہے۔
اگر یہ بنیادی کام کیے بغیر اردو کو تعلیم کی زبان بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ ایک نئے بحران کو جنم دے گی۔اشرافیہ تو بچوں کو انگریزی تعلیم دلوا لے گی مگرعام آدمی کو اردو کے راستے پر ڈال کر‘اس کے لیے ترقی کے دروازے بند کر دیے جائیں گے۔اربابِ اقتدار کو اس پر ضرورغورکرناچاہیے۔اشرافیہ کے بچے آج بھی باہر پڑھنے جاتے ہیں یا وہیں پہ رہتے ہیں۔
عالمگیریت نے غیر مغربی تہذیبوں کے لیے بقا کا ایک بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔اس کو سمجھے بغیر اردویا انگریزی کی بحث کو نہیں سمجھا جا سکتا۔جب تک علم مقامی سطح پر تخلیق نہیں ہوگا‘دریوزہ گری کا چلن ختم نہیں ہو سکتا۔اردو کو زندہ رکھنا ہے تو اسے تعلیم سے پہلے علم اور اقتدارکی زبان بنائیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پنجابی میں چرخے کی آواز کو "کُوک" یا صرف "کُو" کہا جاتا ہے، نصرت فتح علی خان کا گایا ایک شاہکار پنجابی نغمہ ہے "سُن چرخے دی مِٹھی مٹھی کُوک، ماہیا مینوں یاد آوندا" یعنی چرخے کی میٹھی میٹھی کُوک سن کر مجھے اپنا ماہی یاد آتا ہے۔ اور شاید اسی نغمے ہی سے سن کر خورشید احمد ندیم صاحب نے چرخے کی آواز کو کوک لکھ دیا ہوگا جس پر جوابی کالم لکھا گیا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
"چل مرے چرخے چرّخ چوں " بچپن ہی سے میری پسندیدہ کہاوتوں میں سے ایک ہے اور اکثر زبان پر آجاتی ہے ۔ ایک زمانے میں ایک کھٹارا ہوا کرتی تھی تواس کو ڈرائیو کرتے ہوئے یہ گنگناتا تھا ۔ آج کل اگر کمپیوٹر کبھی سست رفتاری دکھائے اور اس کا گول تیر گھومتا ہی رہے تو اسے یہ کہاوت سننا پڑتی ہے ۔ :)
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’ذُومعنی‘ کا مطلب ہوتا ہے: ’معنی والا یا معنی خیز‘۔ اس کا مطلب ایک لفظ کے دو معنی نہیں، جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں، اور ذوالمعنَین کے معنوں میں صرف ذُومعنی بولتے ہیں۔ ’ذُو‘ کامعنٰی’والا‘ ہوتا ہے، جیسے ذو الجلال کا مطلب جلال والا۔
ابو نثر صاحب کی یہ بات بالکل بھی درست نہیں ہے ۔ ذو معنی ایسے فقرے یا بات کو کہا جاتا ہے جس میں ایک سے زیادہ مفہوم ہوں یا خصوصاًایسی بات جس میں ذم یا ناشائستگی کا پہلو نکلتا ہو ۔ ان معنوں میں ذو معنی کی ترکیب اردو میں کم از کم پچھلے ڈیڑھ سو سال سے مستعمل ہے ۔ مستند شعرا اور نامور ادیبوں نے اس ترکیب کو انہی معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ نیز اردو کی تمام مستند لغات نے بھی ( ماسوائے نوراللغات) ذو معنی کا یہی مطلب مع حوالہ جات درج کیا ہے ۔ اس معنی کے علاوہ یہ ترکیب اردو میں اور کسی معنی میں استعمال ہی نہیں ہوتی ۔ (میرا مشاہدہ ہے کہ ابو نثر صاحب اپنے اکثر نکات اور شعری حوالہ جات نوراللغات ہی سے اخذ کرتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے وہ اس معاملے میں دھوکا کھاگئے۔) ۔ اس کے برعکس ذو معنین یا ذو معنیین کا استعمال اردو میں بہت ہی شاذ ہے ۔
ا ردو لسانیات کا بنیادی اصول ہے کہ عربی فارسی انگریزی یا کسی بھی بیرونی زبان سے درآمدہ لفظ کے املا ، تلفظ ، معنی اور محلِ استعمال پر اصل زبان کے قواعد لاگو نہیں ہوں گے بلکہ اہلِ اردو کے چلن اور رواج کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اردو دانوں نے جس لفظ کو جن معنوں میں اور جس طرح استعمال کیا وہی فصیح کہلائے گا خواہ وہ اصل زبان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ اس اصول کی بے شمار مثالیں عام ملتی ہیں اور اردو کا ہر طالب علم ان سے بخوبی واقف ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پنجابی میں چرخے کی آواز کو "کُوک" یا صرف "کُو" کہا جاتا ہے، نصرت فتح علی خان کا گایا ایک شاہکار پنجابی نغمہ ہے "سُن چرخے دی مِٹھی مٹھی کُوک، ماہیا مینوں یاد آوندا" یعنی چرخے کی میٹھی میٹھی کُوک سن کر مجھے اپنا ماہی یاد آتا ہے۔ اور شاید اسی نغمے ہی سے سن کر خورشید احمد ندیم صاحب نے چرخے کی آواز کو کوک لکھ دیا ہوگا جس پر جوابی کالم لکھا گیا ہے۔
یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ہر زبان کی طرح اردو پر بھی علاقائی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ خصوصاً پنجابی زبان کے بہت سارے الفاظ آہستہ آہستہ اردو کا حصہ بنتے جارہے ہیں ۔ معاصر اردو شعر و ادب کا ایک کثیر حصہ پنجاب میں تخلیق ہورہا ہے اور ان نگارشات میں بعض اوقات پنجابی زبان کا اثر واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ یاد پڑتا ہے کہ کچھ دنوں پہلے ایک صاحب نے ایک تشبیہ میں آوے کے بجائے پنجابی لفظ آوی استعمال کیا تھا ۔
 

عدنان عمر

محفلین
پنجابی میں چرخے کی آواز کو "کُوک" یا صرف "کُو" کہا جاتا ہے، نصرت فتح علی خان کا گایا ایک شاہکار پنجابی نغمہ ہے "سُن چرخے دی مِٹھی مٹھی کُوک، ماہیا مینوں یاد آوندا" یعنی چرخے کی میٹھی میٹھی کُوک سن کر مجھے اپنا ماہی یاد آتا ہے۔ اور شاید اسی نغمے ہی سے سن کر خورشید احمد ندیم صاحب نے چرخے کی آواز کو کوک لکھ دیا ہوگا جس پر جوابی کالم لکھا گیا ہے۔
وارث بھائی! چرخے کی آواز کو "کُوک" کہتے ہیں یا "گھُوک" ؟
لفظ "کُوک" اور "گھُوک" کے معانی سے متعلق پنجابی انگریزی لغت کے یہ اندراجات ملاحظہ فرمائیے:

Screenshot-20210925-111731-2.png


Screenshot-20210925-111748-3.png

اردو سائنس بورڈ کی "پنجابی اردو لغت" میں بھی لفظ "گھُوک" اور "گھُوکر" کے اندراجات ملاحظہ فرمائیں:
IMG-20210925-110019833-2.jpg
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی! چرخے کی آواز کو "کُوک" کہتے ہیں یا "گھُوک" ؟
لفظ "کُوک" اور "گھُوک" کے معانی سے متعلق پنجابی انگریزی لغت کے یہ اندراجات ملاحظہ فرمائیے:

Screenshot-20210925-111731-2.png


Screenshot-20210925-111748-3.png

اردو سائنس بورڈ کی "پنجابی اردو لغت" میں بھی لفظ "گھُوک" اور "گھُوکر" کے اندراجات ملاحظہ فرمائیں:
IMG-20210925-110019833-2.jpg
جی درست املا تو یہی گھوک ہی ہوگی جیسا کہ لغت سے ظاہر ہے لیکن یہ کہ پنجابی کے کئی لہجوں میں گاف کی آواز کاف سے بدل بھی جاتی ہے۔ میں نے اس گھوک کا تلفط کوک کے طور پر ہی سنا ہے اور اوپر جس گیت کا ذکر ہے اس میں بھی تلفظ کوک استعمال ہوا ہے اور قافیہ ہوک کے ساتھ باندھا گیا ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ نے فرمایا اس کی درست املا گھوک ہی ہوگی۔
 

فہد اشرف

محفلین
اسے یہ کہاوت سننا پڑتی ہے ۔
بہت دنوں سے اس کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا آج موقع مل گیا، سننا پڑتی درست ہے یا سننی پڑتی؟ جیسا آپ نے لکھا ہے ایسا استعمال انٹرنیٹ پہ میں نے بہت جگہ دیکھاہے لیکن مجھے کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت دنوں سے اس کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا آج موقع مل گیا، سننا پڑتی درست ہے یا سننی پڑتی؟ جیسا آپ نے لکھا ہے ایسا استعمال انٹرنیٹ پہ میں نے بہت جگہ دیکھاہے لیکن مجھے کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
فہد اشرف ، فعل مصدر کی تذکیر و تانیث کی بحث صدیوں پرانی ہے ۔ دبستانِ لکھنؤ اور دبستانِ دہلی کا اس معاملے میں اختلاف رہا ہے ۔ سو آپ کے سوال کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ دونوں صورتیں ہی درست ہیں جو چاہے اختیار کرلیجئے ۔ دونوں صورتوں کے نظائر ادبِ عالیہ میں موجود ہیں ۔ اور اگر بقراطیت جھاڑی جائے تو یوں سمجھئے کہ فصحائے لکھنؤ فعل مصدر کو مذکر لکھتے ہیں اور اسے متعلقہ اسم کی تجنیس و تعدید کے لحاظ سے تبدیل نہیں کرتے ۔ کتاب پڑھنا ہے ، کتابیں پڑھنا ہیں ، رسالہ پڑھنا ہے ، رسالے پڑھنا ہیں وغیرہ ۔ اس کے برعکس فصحائے دہلی مصدر کو متعلقہ اسم کی تجنیس و تعدید سے مطابقت دیتے ہیں ۔ کتاب پڑھنی ہے ، کتابیں پڑھنی ہیں ، رسالہ پڑھنا ہے ، رسالے پڑھنے ہیں وغیرہ ۔
میرے آباء کا تعلق اگرچہ دہلی سے تھا لیکن میں مذکورہ بالا معاملے میں کسی خاص اصول کا پابند نہیں ہوں ۔ جیسا مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے لکھ دیتا ہوں ۔ ویسے بھی موجودہ دور میں دہلی اور لکھنؤ کے دبستانوں کا کوئی وجود نہیں رہا اور ان کے لسانی اختلافات اب صرف ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں ۔ سو اختلاف کی صورت میں کسی ایک صورت کو غلط قرار نہیں دینا چاہئے ۔ دونوں درست ہیں ۔ یہ اختلافات محض چند باتوں پر ہی ہیں اور عملی طور پر زبان کے استعمال میں ایسا کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں کرتے ۔
 
Top