اجتماعی انٹرویو تین محفلین ایک سوال (سید زبیر، تلمیذ اورنایاب بھائی)

آپ لوگوں کے خیا ل میں آج کے دور میں کامیاب انسان یا حقیقی معنوں میں کامیاب انسان کون ہے؟(کامیاب انسان کی تعریف
سب سے پہلے میں اپنی کم علمی کا ان سب ساتھیوں کو دوبارہ یقین دلاتا ہوں جنہوں نے اتنی تحریریں پڑھنے کے بعد بھی یقین نھیں کیا۔ میری جو رائے ھوتی ھے وہ صرف تجربے کے مفروضوں پر قإئم ھوتی ہے ۔کوئی سند نہیں ہوتی ۔ اگر آپ اختلاف کریں گے تو مجھ سمیت دیگر ساتھیوں کی رہنمائی ہو سکے گی ۔​
میری رائے میں ، اگر ہم انسان کومانند شجر لیں۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ خالق کائنات نے کیکر کا درخت بنایا جس سے لوگ دور بھاگتے ھیں ، نشیحت کرتے ہیں کہ اس را سے مت گزرنا کیکر ہے ، کانٹے ہیں ، کہجور کا درخت ہے میٹھا اور مقوی پھل دیتا ہے مگر پھل حاصل کرنا ایک مشکل امر ہے جسے مہارت ہو وہی حاصل کرسکتا ہے ۔ بیر ہوتے ہیں پھل کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں ،پیپل کا درخت ہوتا ہے گھنیری سائے ہوتی ہے ، مسافر آرام کرتے ہیں مگر پھل نہیں ہوتا۔ اب ایک آم کا در خت ہوتا ہے ۔ سایہ دار ، پھل دار ، جس کا دل چاہے پھل حاصل کرلے، جتنا پانی دو ، پی لیتا ہے اور جی لیتا ہے ۔ موسم کی شدت برداشت کرتا ہے اور لوگوں کوبلا تفریق نفع پہنچاتا ہے تو کامیاب انسان وہی ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچے اور با آسانی پہنچے۔ لوگ اس سے دور نہ بھاگیں ، ۔ یہی اسلامی تعلیمات ہیں​
دوسری طرف یہ بھی ہے​
کہ تقدیر کے پابند ہیں حیوانات و نباتات ، ۔۔تو انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے ، اللہ کریم انسان کو وہی عطا فرماتا ہے جس کی وہ کو سعی کرتا ہے ۔ انسان کو ہمہ وقت مسلسل مزید آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئیے ۔اپنی صلاحیتوں کو دریافت کرنا چا ہئیے ، گذشتہ کل سےآج ہر لحاظ سے بہترہونا چاہئیے ۔ جو نعمتیں ، وسائل ، مواقع ، ساتھی ، ہمدرد آج میسر ہیں شائد کل ان میں سے کچھ کم ہو اس کی قدر کرنی چاہئیے اور فائد ہ اٹھانا چاھئیے ۔ جس کاآج اس کے گذشتہ کل سے ایمان ،عزت و تکریم ، صحت ، دولت کے لحاظ سے زیادہ بہترہے وہ کامیاب ہے ۔ جس کی اپنے حلقے میں عزت و تکریم ہے وہ کامیاب ہے ، اور یہ تبھی آتی ہے جب انسان دوسروں کے کام آنے کی کوئی سعادت چھوڑے نہیں​
ہر چہ خدمت کر کہ مخدوم شد​
میں آپ کی بات سے مکمل اتفاق کرتی ہوں بھائی۔
لیکن میرے خیال میں آج کل کے مادیت پرست دور میں زیادہ تر لوگوں کے نزدیک کامیابی کا مفیوم بدل چکا ہے۔آج کل اسی شخص کو کامیاب سمجھا جاتا ہے جسکے پاس بنگلہ،گاڑی ،روپیہ پیسہ کی ریل پیل ہو۔بے شک وہ اخلاقیات کے پیمانے پر بالکل پورا نہ اترے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ ہر شخص کے نزدیک کامیابی کا مفہوم مختلف ہوتا ہے۔ میرے خیال کے مطابق بھی
''جس کاآج اس کے گذشتہ کل سے ایمان ،عزت و تکریم ، صحت ، دولت کے لحاظ سے زیادہ بہترہے وہ کامیاب ہے'' ۔اس کے ساتھ میرے نزدیک انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ قناعت پسندی کو اپناتے ہوےُ اپنی زندگی سے مطمئن ہو۔
 
باقی دونوں مہمانانِگرامی کے جوابات کا انتظار ہے۔نایاب بھائی آپ نے ابھی تک اپنے خیال کا اظہار نہیں کیا؟
 

نایاب

لائبریرین
سب سے پہلے تو میری طرف سے تینوں مہمانانِ گرامی کی خدمت میں سلام۔
زبیر بھائی نے بہت زبردست سلسلہ شروع کیا ہے میں ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے مجھے بھی مدعو کیا۔آپ لوگوںنے ماشاء اللہ بہت اچھے جوابات دیئے ہیًں جس سے ہمیں یقینا بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ آپ لوگوں سے میرا یہ سوال ہے کہ۔
1۔آپ لوگوں کے خیا ل میں آج کے دور میں کامیاب انسان یا حقیقی معنوں میں کامیاب انسان کون ہے؟(کامیاب انسان کی تعریف)
وعلیکم السلام
سدا خوش و شادوآباد ہنستی مسکراتی رہیں محترم ہنا ۔
تاخیر کی معذرت کیا کرنی کہ " گر ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا "


انسان کی حیثیت اک کائنات میں اک ذرے سے زیادہ نہیں ۔ اس ذرے کے گردوہیش میں وقت کے میدان میں ہمہ رنگ ہنگامہ ہائے زندگی نے اپنے اپنے سٹیج سجائے ہوئے ہیں ۔ جب کوئی انسان اپنے گردوپیش میں سجے سٹیجزپر چل رہے مناظر پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو ان مناظر میں مشغول " اداکار " اپنے اپنے فن کو بلندیوں پر پہنچانے کے لیئے اپنے اپنے کرداروں میں محو نظر آتے ہیں ۔
ان کی محویت دیکھنے والی آنکھ میں یہ سوال پیدا کر دیتی ہے کہ " یہ کون ہیں ۔؟ ان کی اپنے کرداروں اتنی محویت کس لیئے ہے ۔ ؟ یہ کس کے لکھے کردار ادا کر رہے ہیں ۔ ؟کیا میں بھی کسی دیکھنے والی آنکھ کے لیئے اک کردار ہوں ۔؟
کائنات کے وسیع و عریض سٹیج پر یہ مناظر یہ کردار کس نے لکھے ۔؟ کون ہے جو ان کی ہدایت کاری کرتا ہے ۔ ؟ مجھے میرا کردار کس نے سونپا ۔ ؟کون ہے جو پردے میں رہتے مجھے ہدایات دے رہا ہے ۔؟
دیکھنے والی آنکھ تجسس میں الجھ جاتی ہے ۔ حقیقت کی تلاش میں نکل پڑتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ۔۔ کیا حقیقت ہے ان تمام سجے سٹیجز کی ۔۔۔؟
2 ۔۔ کس نے سجائے یہ تمام سٹیجز ۔۔؟ اور کون ہے ان سٹیجز کا " ہدایتکار "؟
کیا شروط ہیں جن پر عمل کرتے " اداکار " اپنا " کردار " امر کر سکتا ہے ۔؟
4 ۔۔ اپنا کردار درست نبھانے پر کیا صلہ ملتا ہے ؟
اور جو ان سوالوں کے جوابوں سے واقف ہوتے اپنے کردار کو ہدایتکار کے من پسند طریقے سے ادا کرتا ہے ۔ وہی " کامیاب " قرار پاتا ہے ۔۔۔
کسی نے کیا خوب کامیاب انسان کی تعریف کی ہے ۔کہ
ایس دنیا اچ رکھ ایسا بہن کھلون ۔۔۔۔۔ تو ہوویں تسے ہنسن لوکی نہ ہوویں تے رون ۔
اس دنیا میں اپنا عمل و کردار ایسا رکھ کہ تیری موجودگی میں سب خوش رہیں اور تیری غیر موجودگی میں تجھے یاد رکھیں ۔
آج مادی دور میں تو کامیاب انسان کی شناخت اس کے بنگلے کار بینک بیلنس سے کی جاتی ہے ۔ جو جتنا زیادہ امیر وہ اتنا ہی کامیاب ۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ ضروری نہیں کہ ہر مال و دولت رکھنے والا اپنی نگاہ میں بھی کامیاب و کامران ہو ۔ یہ وہ ہی جانتا ہے کہ اس نے اس مادی کامیابی کے لیئے " حلال و حرام اور جائز و ناجائز " میں کتنی تفریق رکھی ۔ حق داروں کو حق دیا کہ حق داروں کا حق بھی کھایا ۔۔؟
اصل کامیاب انسان وہ ہوتا ہے ۔ جو خود تو مشکلوں امتحانوں آزمائیشوں سے گزرے مگر عجز و اخلاق کو ہمراہ رکھتے صبر قناعت توکل کی راہ چلتے اپنے کردار و عمل کی ایسی شمع روشن کرجائے ۔ جس سے دوسرے انسانوں کو نفع پہنچے ۔ اور دوسرے اس کی اقتدا کو اپنے لیئے کامیابی کا ذریعہ تسلیم کریں ۔ اور یہ انسان خود اپنے ضمیر و روح کو مطمئن پائے۔۔
متفقہ کامیاب ترین انسانوں میں وہ چار عظیم ہستیاں شامل ہیں جو کہ اللہ کا رسول قرار پائیں ۔
حضرت موسی علیہ السلام ۔۔۔۔۔ طور پر آگ لینے کی نیت سے گئے اور صاحب کتاب ٹھہرے ۔
حضرت داؤد علیہ السلام ۔۔۔۔ بہت خوش الحان ہوتے اور لوہے کو نرم کرنے والی خوبی سے واقف ہوتے انسانوں کے لیئے آسانی پیدا کرتے صاحب کتاب ٹھہرے ۔
حضرت عیسی علیہ السلام ۔۔ اللہ کی جانب سے کلمہ ٹھہرتے مہد میں لوگوں سے کلام کرتے صاحب کتاب ٹھہرے ۔۔
اور ان سب میں جو صاحب فضیلت ٹھہرے ۔ وہ یتیم و یسیر ہوتے صادق و امین قرار پاتے تجارت کرتے اپنے اخلاق و تواضح سے انسانوں کی خدمت کرتے اونٹ بکریاں چراتے چالیس سال تک غار حرا میں محو فکر رہتے " اقراء " کے حکم سے سرفراز ہوئے ۔ اور انسانوں کو ان حقیقی خالق و مالک کے پیغام سے آگاہ کرتے انسانوں کو کامیابی و کامرانی کی راہوں سے واقف کیا ۔ اور خالق حقیقی نے اس ہستی کی زندگی کو انسانوں کے لیئے " اسوہ حسنہ " قرار دیتے " کامیاب ترین انسان " ہونے کی گواہی دے دی ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پاک کسی بھی " کامیاب انسان " کو پرکھنے کی بہترین کسوٹی ہے ۔
اللہ ہم سب کو بھی " اسوہ حسنہ " پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازتے ہمیں " کامیاب انسان " بنائے آمین
 

سید زبیر

محفلین
سبحان اللہ ،@نایاب صاحب! نہایت جامع اور مدلل جواب سے نوازا
بے شک آپ کی رائے مستند ہے
جزاک اللہ
 

نور وجدان

لائبریرین
اللہ کا ذکر کوئی نشہ نہیں جو کہ احساس سے بیگانہ کرتے " مصنوعی سکون " طاری کر دے ۔ اللہ کا ذکر صرف " ور د " پر موقوف نہیں بلکہ ۔ اک حساس روح کے حامل وجود کا اپنے خالق کی تعلیمات پر بے و چون و چرا عمل کرتے انسانیت کی خدمت کرنا ہے ۔ اپنے خالق کی یاد میں اس سے ملاقات کے یقین سے جینا ہے ۔ "اسمائے الحسنی " کی مالا نہیں جپنی بلکہ ان میں پنہاں صفات کو اپنی ذات پر ایسے لاگو کرنا ہے ۔ انسانیت کو فلاح پہنچے ۔۔۔۔ صرف زبان کو تر نہیں کرنا ۔ تسبیح نہیں پھیرنی ۔ بلکہ اپنے کامل وجود کو انسان کی خدمت میں مصروف کرنا ہے ۔ پھر یہ " ذکر " اطمینان کا باعث ۔۔ اور " توکل و قناعت " کا زینہ بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
پھر انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے، جس کو اس نے اپنا رب اور اپنا معبود ماناہے، و ہی در حقیقت خالق و مالک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے ۔اور جس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا، اللہ تعالیٰ اسے کبھی رسوا اور محروم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کا یہ وعدہ سچا ہے کہ

واہ ! بہت خوب ہے ۔۔۔۔۔حرف حرف آگہئ سے بھرپور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذریعہ تعلیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تجسس اور سب کچھ جاننے کی خواہش میں جو بھی کتاب ملی ۔ سرسری پڑھ ڈالی ۔
آپ کہتے تجسس کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قران مجید کہے دے رہا ہے نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے تجسس سے سیکھا تو منع کیوں ؟

حضرت عیسی علیہ السلام ۔۔ اللہ کی جانب سے کلمہ ٹھہرتے مہد میں لوگوں سے کلام کرتے صاحب کتاب ٹھہرے ۔۔

کلمہ کی وضاحت کردیں ۔۔۔۔۔۔۔آپ امر کہ رہے ہیں مگر اس امر کے اصطلاح کیا ہے ؟

حضرت داؤد علیہ السلام ۔۔۔۔ بہت خوش الحان ہوتے اور لوہے کو نرم کرنے والی خوبی سے واقف ہوتے انسانوں کے لیئے آسانی پیدا کرتے صاحب کتاب ٹھہرے ۔

حضرت داؤڈ علیہ سلام جنت میں نغمہ خوان ہوں گے ؟

حضرت موسی علیہ السلام ۔۔۔۔۔ طور پر آگ لینے کی نیت سے گئے اور صاحب کتاب ٹھہرے ۔
آگ استعارہ ہے ؟

اور ان سب میں جو صاحب فضیلت ٹھہرے ۔ وہ یتیم و یسیر ہوتے صادق و امین قرار پاتے تجارت کرتے اپنے اخلاق و تواضح سے انسانوں کی خدمت کرتے اونٹ بکریاں چراتے چالیس سال تک غار حرا میں محو فکر رہتے " اقراء " کے حکم سے سرفراز ہوئے ۔ اور انسانوں کو ان حقیقی خالق و مالک کے پیغام سے آگاہ کرتے انسانوں کو کامیابی و کامرانی کی راہوں سے واقف کیا ۔ اور خالق حقیقی نے اس ہستی کی زندگی کو انسانوں کے لیئے " اسوہ حسنہ " قرار دیتے " کامیاب ترین انسان " ہونے کی گواہی دے دی ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پاک کسی بھی " کامیاب انسان " کو پرکھنے کی بہترین کسوٹی ہے ۔

واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نام تو ''نایاب'' ہے پر بات اس سے بھی بڑھ کے ۔۔۔۔۔۔حسین اور انمول
 

نایاب

لائبریرین
میری محترم بٹیا
اس دھاگے کے شریک اک بہت پیاری ہستی محترم " تلمیذ " بھائی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔
اب ان کی یاد ہے ہمارے پاس اور ان کی مغفرت کی دعائیں
اللہ سوہنا مرحوم تلمیذ بھائی کو جنت عالیہ میں بلند درجہ عطا فرمائے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کہتے تجسس کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قران مجید کہے دے رہا ہے نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے تجسس سے سیکھا تو منع کیوں ؟
میری محترم بٹیا
" ولا تجسسو " کا حکم جس آیت مبارکہ کے ذریعے سامنے آتا ہے وہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌO
’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
الحجرات، 49 : 12
غیب بارے تجسس کی مناہی ہے ۔ غیب صرف یقین پر استوار ہے ۔
یقین ہی کافی ہوتا ہے ۔ کہ حق الیقین کے درجے پر پہنچ حساب سخت ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
کلمہ کی وضاحت کردیں ۔۔۔۔۔۔۔آپ امر کہ رہے ہیں مگر اس امر کے اصطلاح کیا ہے ؟
قران پاک میں فرمان ہے کہ
اے اہل کتاب اپنے دین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور خدا کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔ مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (نہ خدا تھے نہ خدا کے بیٹے بلکہ) خدا کے رسول اوراللہ کا کلمہٴ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے تو خدا اوراس کے رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور (یہ) نہ کہو (کہ خدا) تین (ہیں۔ اس اعتقاد سے) باز آؤ کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ خدا ہی معبود واحد ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کے اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ اور خدا ہی کارساز کافی ہے

مسیح عیسی بن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے مریم کی طرف القاء کیا گیا ہے اور وہ اس کی طرف سے ایک روح ہیں۔"
حضرت عیسی علیہ السلام کو " روح اللہ " بھی کہا جاتا ہے ۔۔۔
ان کے ایک نام کے طور پر لفظ "روح اللہ" استعمال کیا گیا ہے۔
روح کو قران پاک میں " امر " کہا گیا ہے ۔ اور انسانی عقل کو محدود قرار دیا گیا ہے روح کی حقیقت سمجھنے کو ۔۔۔۔۔
قران پاک میں روح کوبہت سے مقامات سے ذکر کیا گیا ہے ۔
اللہ سوہنے کا وہ مقرب فرشتہ جو خدا کے پیغام کو انبیاء تک پہنچاتا ہے [نحل، 102]۔
آسمانی کتاب[شوری، 52]۔
اللہ سوہنے کی جانب سےاس کے بندوں کے لیے غیبی امداد[مجادلہ، 22؛ بقره، 87]۔
باقی " کلمہ " کی حقیقت رب سچا ہی جانتا ہے ۔۔۔۔۔
حضرت داؤد علیہ سلام جنت میں نغمہ خوان ہوں گے ؟
قران پاک جناب داؤد علیہ السلام بارے بیان کرتا ہے کہ
جب آپ جذب سے بھرپور خوش الحانی سے اﷲ کا ذکر کرتے تو پہاڑ آپ کے ساتھ ہم آواز ہو جاتے ۔۔
آپ جب موسیقی بھری ترنم آفریں آواز سے ذکرِ الٰہی کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی مدح و ثنا میں بلند کرتے تو اس کو سن کر پہاڑ بھی ان کی آواز میں آواز ملا کر ذکر کرتے ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایسی آواز سے نواز اجو دیگر تمام آوازوں پر برتری اور فوقیت اتنی شیریں اور جذب سے بھرپور ہوتی کہ آپ کی صدا سے بکھری زبور کی تلاوت سن کر جنگلی جانور ان کے اس قدر قریب آجاتے کہ آپ انہیں گردن سے پکڑ سکتے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی یہ شیریں اور دل کو موہ لینے والی آواز اللہ کی جانب سے آپ کو اک عطا تھی نعمت تھی ۔
کہتے ہیں کہ روزِ قیامت اﷲ تعالیٰ حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دے گا کہ اسی خوش الحانی کے ساتھ اہل محشر کے سامنے میری تقدیس بیان کرو،
جیسے دنیا میں تم تورات کی تلاوت کرتے تھے۔
نہج البلاغہ میں جناب علی علیہ السلام کا فرمان ہے کہ
حضرت داوٴد علیہ السَّلام جنت کے خوش الحان لوگوں کے سردار ہوں گے۔"


یہ آگ استعارہ تھی یا کہ حقیقت تھی یہ اللہ ہی جانتا ہے ۔۔
قران پاک میں اس آگ بارے بیان کچھ ایسے ہے کہ
جناب موسیٰ علیہ السلام جب آگ کے پاس گئے اور غور کیا تودیکھا کہ درخت کی سبز شاخوں میں آگ چمک رہی ہے ۔ اور لحظہ بہ لحظہ اس کی تابش اور درخشندگی بڑھتی جاتی ہے جو عصا ان کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے سہارے آپ نے چاہا کچھ آگ لے لیں ۔ تو آگ موسیٰ علیہ السلام کی طرف بڑھی جناب موسیٰ علیہ السلام ڈرے اور پیچھے ہٹ گئے اس وقت حالت یہ تھی کہ کبھی موسیٰ علیہ السلام آگ کی طرف بڑھتے تھے اور کبھی آگ ان کی طرف
اور پھر صدائے حق آپ نے سنی کہ
""میں تیرا پروردگار هوں، اپنے جوتے اتاردے کیونکہ تو مقدس سرزمین ”طویٰ“ میں ہے ""۔۔۔
سو یہ آگ اور اس کی حقیقت بارے صرف رب سچا ہی جانتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اللہ سوہنے کی جانب سےاس کے بندوں کے لیے غیبی امداد[مجادلہ، 22؛ بقره، 87]۔

حضرت عزیر علیہ سلام تو کلمہ نہیں تھے ۔ ان کو کیوں خُدا مانا گیا ۔۔۔۔۔؟
نصرانیت اور یہودیت میں کیا فرق ہے ؟
حضرت عزیر علیہ سلام اور حضرت عیسی علیہ سلام میں کیا کامن تھا ؟ اس حوالے سے حضرت موسی علیہ سلام حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم سے کیا نسبت رکھتے ہیں ؟
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
" ولا تجسسو " کا حکم جس آیت مبارکہ کے ذریعے سامنے آتا ہے وہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌO
’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
الحجرات، 49 : 12
غیب بارے تجسس کی مناہی ہے ۔ غیب صرف یقین پر استوار ہے ۔
یقین ہی کافی ہوتا ہے ۔ کہ حق الیقین کے درجے پر پہنچ حساب سخت ہو جاتا ہے ۔۔

راز کی جستجو کسی کے حوالے سے بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جستجو ۔۔۔۔۔یقین پر کیسے استوار ہوتی ہے اور حق الیقین سے کیا مراد ہے ؟ اس کا حساب کیا ہے ؟
 

نور وجدان

لائبریرین
میری محترم بٹیا
اس دھاگے کے شریک اک بہت پیاری ہستی محترم " تلمیذ " بھائی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ۔
اب ان کی یاد ہے ہمارے پاس اور ان کی مغفرت کی دعائیں
اللہ سوہنا مرحوم تلمیذ بھائی کو جنت عالیہ میں بلند درجہ عطا فرمائے آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔

انا للہ وانا الیہ رجعون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ان کے درجات بلند کرے ۔۔۔ان کو اپنی رحمت میں دھانپے رکھیں آمین
 

نور وجدان

لائبریرین
کہتے ہیں کہ روزِ قیامت اﷲ تعالیٰ حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دے گا کہ اسی خوش الحانی کے ساتھ اہل محشر کے سامنے میری تقدیس بیان کرو،
حضرت داؤد علیہ سلام کو نور الہی کا جمال کہا جاسکتا ہے ؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے سبھی لوگ ''نفسی نفسی '' کریں گے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ حضرت داؤد علیہ سلام تقدیس بیان کریں ار حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی امت کے لیے روئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت داؤد علیہ سلام کو اپنی امت سے کیا نسبت ہوگی
 

نور وجدان

لائبریرین
جو عصا ان کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے سہارے آپ نے چاہا کچھ آگ لے لیں ۔ تو آگ موسیٰ علیہ السلام کی طرف بڑھی جناب موسیٰ علیہ السلام ڈرے اور پیچھے ہٹ گئے اس وقت حالت یہ تھی کہ کبھی موسیٰ علیہ السلام آگ کی طرف بڑھتے تھے اور کبھی آگ ان کی طرف
عصا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذریعہ کیوں بنا؟ آپ عصا سے آگ کیوں لینا چاہتے تھے کہ مشتاق تو بھاگتے ہیں بنا سوچے ۔۔۔۔۔۔ پھر ڈر کیوں گئے ۔۔۔۔۔یہ بھی عشق کی علامت تو نہیں ہوا ڈرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے بعد تیسرا قدم ۔۔۔۔۔کبھی آپ بڑھتے اور کبھی آگ۔۔۔۔ اس تیسرے قدم بارے کیا احکام ہے ؟

""میں تیرا پروردگار هوں، اپنے جوتے اتاردے کیونکہ تو مقدس سرزمین ”طویٰ“ میں ہے ""۔۔۔

حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نعلین کے ساتھ وہاں گئے جہاں پر رسائی کوئی نہ پاسکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے حکم ہوا کہ جوتے اتار دو ۔۔۔۔۔۔محبوب کی محبت کہتی ہے کہ بنا کہے سمجھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حکم کی نوبت کیوں آئی ؟
 
خونی رشتے حضور برایے نام کے ھوتے ہیں آج کل کے مفاد پرست دور سب سے پہلے خونی رشتے ہی ساتھ چھوڑتے ہیں چاھے وہ کویی بھی ھو باقی میرے نزدیک خلوص و مروت کے علاوہ کویی رشتہ نہیں ھے وہی جس رشتے میں بدرجہ اتم موجود ہو گی وھی وفا و ساتھ دیں گے
کویی رشتہ کویی دوست بھی فایدہ نہیں دے گا اگر خلوص و وفا نکال دی جائے.
 

نور وجدان

لائبریرین
خونی رشتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون سے کہلاتے ہیں ۔ ؟
1 ۔ نسبی طور پر براہ راست ان میں " دادا دادی نانا نانی ماں باپ اور بھائی بہن " شامل ہوتے ہیں ۔
خاندانی خونی رشتے ۔ ان میں "بھتیجے بھتیجیاں بھانجے بھانجیاں " تایا چچا ماموں خالہ پھوپھی اور انکی آل اولاد شامل ہوتی ہے ۔
اگر خون کے رشتوں کو ذرا تفصیل سے دیکھا جائے تو ۔۔۔۔۔ دادا پردادا نگر دادا ۔ نانا پرنانا نگر نانا یہ شجرہ آگے کی جانب پھیلتا جاتا ہے ۔ اور جناب نوح علیہ السلام جنہیں آدم ثانی کے لقب سے جانا جاتا ہے ۔ تک پہنچ جاتا ہے ۔ اور یہاں سے گھومتے جناب آدم علیہ السلام اور جناب اماں حوا علیہ السلام تک پہنچ نسل انسانی کی ابتدا کی علامت بنتا ہے ۔
کہتے ہیں کہ حضرت حوّا سے جڑواں بچے (ایک لڑکی اور لڑکا) پیدا ہوتے تھے، آپ جناب آدم علیہ السلام ایک بار پیدا ہونے والے لڑکے اور لڑکی کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکی اور لڑکے سے کردیتے تھے۔اور نسل انسانی کا سلسلہ جاری رہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔
سو " ابن آدم یا بنت حوا " سب ہی خونی رشتوں میں شامل ہیں ۔
اب سوال کی صورت کچھ بدل گئی ۔
سوال یہ ہوا کہ " اس دنیا میں وہ کون سا رشتہ ہے جو کہ کسی بھی لالچ سے دور رہتے انسان کا خیر خواہ اور ہمدرد ہوسکتا ہے ۔" "
یہ خونی رشتے اکثر اوقات ہمارے سامنے ہمارے خاندانی رشتوں کی صورت آتے ہیں ۔ اور یہ اپنی توجہ محبت و خلوص سے ہمیں اپنی خیرخواہی اور ہمدردی کا یقین دلاتے ہیں ۔ اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ یہ سب رشتے کہیں نہ کہیں کسی مفاد سے پیوست ہوتے ہیں ۔ " ماں "کے علاوہ کوئی رشتہ بھی لالچ و مفاد سے پاک نہیں ہوتا ۔
دوسرا رشتہ جسے " دوست " کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ اور جو قسمت سے نصیب والوں کو میسر ہوتا ہے ۔ اور رشتہ " دوستی " کا وقت پڑنے پر اپنی خیر خواہی اور ہمدردی کا بے لوث بے لاگ اظہار کر دیتا ہے ۔ یہ " دوست " براہ راست خونی رشتوں سے بھی مربوط ہوسکتا ہے ۔ اور خاندانی خونی رشتوں سے بھی ۔ اور عام طور پر "اجنبی غیر " کہلانے والا کسی بھی خاندانی خونی رشتے سے بہت دور ۔
اور اگر ہم اس سوال کو جسم انسانی کی قید سے آزاد کر دیں تو اک ہی رشتہ بچتا ہے ۔ جو کہ " خالق و مخلوق " کا رشتہ ہے ۔ اور وہ " خلاق العظیم " بے نیاز رہتے اپنی مخلوق کا بنا کسی لالچ و مفاد کے " خیر خواہ اور ہمدرد " ٹھہرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" اختلاف کا حق سب محترم اراکین رکھتے ہیں " کیونکہ مجھے علم کی تلاش ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ! دلپذیر جواب
کتنے دلکش انداز، انسانیت کی راہ پر لیجانے کا
کتنا پیارا کہا: توقع صرف اللہ سے
 

نور وجدان

لائبریرین
انسانی زندگی میں رشتوں کی اہمیت سے متعلق مرزا صاحب کے اس دلچسپ سوال کے جواب میں نایاب جی اور محترم سید زبیر دونوں نے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ اس کے بعد کہنے کو بہت کم رہ جاتا ہے۔

بایں ہمہ، اپنے ان فاضل مہربانوں کے ارشادات عالیہ، نیز آپ بیتی اور جگ بیتی کے تناظر میں میرا جواب بھی یہی ہوگا کہ 'شریکہ'(مفاد پرستی، خود غرضی، حسد و بغض وغیرہ) اور 'اخلاص' (قربانی، تحمل و برداشت، سچے لگاؤ) کے جذبات ہی دو پیمانے ہیں جو کسی شخص کی زندگی میں خونی رشتوں کے تعلقات میں خیر خواہی اور ہمدردی کے معیار کا تعین کرتے ہیں۔ مادیت پسندی کے اس مسابقتی دور میں اور فطرت انسانی میں موجود حُبِ جاہ و مال کی خواہش کے زیر اثر، خلوص اور بردباری کو ہمہ وقت دامن سے لگائے رکھنا ایک انتہائی دشوار امر ہے۔چنانچہ، اکثر خونی رشتے اس کٹھن کسوٹی پر پرکھنے پر ناکام ثابت ہوتے ہیں۔

مزید یہ کہ، ان انسانی اوصاف کا کسی خاندان کی ایک نسل کے باہمی تعلقات اور نظم و نسق کے مثبت یا منفی ہونے کا اثر اسی لحاظ سے اگلی نسل پر ضرور پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں خونی رشتے ہمدردی اور خیر خواہی کی بنیادوں پر قائم رہ کر مزید مستحکم ہو جاتے ہیں یا اس کے بر عکس منفی عوامل کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خود ہمارے مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض اوقات ایک ہی گھرانے میں پلنے والوں کی اولاد تیسری چوتھی نسل کے بعد ایک دوسرے کو جانتی تک نہیں۔

جہاں تک تعلق ہے کہ آیا 'خونی رشتوں سے بڑھ کر کوئی خیرخواہ اور ہمدرد ہوسکتا ہے' تو خونی رشتوں کے علاوہ بھی کسی دیگر رشتے کےمستحکم، خیر خواہ یا ہمدرد ہونے کے لئے بھی وہی معیارات ہیں تاہم، مستثنیات سے یہاں بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔
زبردست جواب
 

نور وجدان

لائبریرین
محترم اراکین محفل آپ سب سے التجا ہے کہ میرے لکھے پر تنقیدی نگاہ رکھا کریں ۔ تاکہ میری سوچ کی " کجی " درست ہو ۔
اپنی تحریر سے آپ کا اختلاف میرے لیئے باعث آگہی ٹھہرے گا ۔ مجھے اک " طفل مکتب " ہی جانیئے جو کہ " اپنی حقیقت کی تلاش " میں سرگرداں ہے ۔۔۔۔۔۔۔


کسی حساس شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو
تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

اک اور شاعر نے کچھ ایسے کہا کہ

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا
جب اسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا۔ آنکھ سے اوجھل نکلا
اک ملاقات تھی جو دل کوسدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے وہ اک پل نکلا
وہ جو افسانہء غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنا روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا
ہم سکوں ڈھونڈنے نکلے تھے، پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشاں نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ،دل سینے میں بے کل نکلا
کوئی " پریشانی سی پریشانی ہے " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کے صحرا میں رقصاں وقت کے بگولوں کے مقابل انسان کی مثال ریت کے ذرے جیسی ہے ۔ جسے وقت کے بگولے اپنے ساتھ اڑائے پھرتے زندگی کو رواں رکھتے ہیں ۔ وقت کے بگولوں پر سوار انسان کی زندگی کا سفر " غاروں کی صدی " سے شروع ہوا ۔ " اوزاروں کی صدیوں " سے گزرتے " تہذیبو ں کی صدیوں " تک پہنچتے " روحانیت کی صدیوں " سے آگہی پاتے " ایجادات کی صدی " سے گزر " ترقی کی صدی " میں قدم رکھا تو " پریشانی کی صدی " کا سامنا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کے بگولوں نے انسانی زندگی کو روزمرہ کے مسائل و مشکلات میں الجھاتے عجیب و غریب حوادث کا شکار بناتے " ذہنی دباؤ کھنچاؤ تناؤ " کے جال میں پھنسا دیا ۔
بنی نوع انسان کا " مسائل الجھنوں پریشانیوں " کا شکار ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ الجھنیں یہ روزمرہ کے مسائل انسانی زندگی کے آغاز سے ہی حضرت انساں کے ساتھی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت اپنی جگہ کہ "آج کے مادی دور اورتیز رفتار زندگی میں ’’یہ مسائل ‘‘ ہر انسان کی زندگی کا ایک لازمی جزو ہو چکے ہیں ۔
سکول کے بچے ہوں یا کالج یونیورسٹی کے طالب علم اپنے مشکوک مستقبل کے احساس سے پریشان ۔۔۔
سند یافتہ بے کار نوجوان تلاش روزگار میں سرگرداں و پریشان ۔
عام لوگ اور ملازمت پیشہ افراد نامساعد حالات اور اپنے کام کاج سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ۔
تجارت پیشہ افراد نفع و نقصان کی دوڑ میں شامل ہو تےپریشا ں ۔
عمر رسیدہ لوگ زندگی سے بیزار ہو کر احساس تنہائی اورگمشدگی عمر سے پریشان ۔
امیر و غریب ہر دو اپنے اپنے اخراجات پورے کرنے کی فکر میں پریشان ۔۔
گویا کہ
’’ جو پریشان نہیں وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان کہ وہ کیوں نہیں پریشان ‘‘۔
اور ہر جانب سے صرف اک یہی صدا " سکون کہیں نہیں "
غرض ہر انسان زندگی کی شاہراہ پر چلتے چلتے پریشانی کو اپنے ہمراہ سائے کی طرح ساتھ لئے چل رہا ہے اور اگر کوئی پریشان نہیں ہے تو شاید آج کی اصطلاح میں وہ ’’نارمل انسان‘‘ کہلانے کا مستحق نہیں ہے یعنی پریشانی اور زندگی لازم و ملزوم ہیں۔ پریشان ہونے کے باوجود اگر انسان اپنے روز مرہ کے معمولات بخود احسن انجام دے پارہا ہے تو کوئی بات نہیں مگر جب پریشانی زندگی کے روز مرہ معمولات میں دخل اندازی کرنے لگے تو یہ ایک بیماری یا نفسیاتی مسئلہ بن جاتی ہے۔
اگر مندرجہ بالا " انسانی زندگی کی حقیقتوں " کو کسی " حکیم" کے سامنے رکھا جائے تو اس کی " تشخیص " صرف یہی ہوگی کہ یہ سب " مسائل پریشانیاں خوف " صرف اور صرف " توکل و قناعت " پر یقین نہ رکھنے سے جنم لیتے ہیں ۔ " وہ جو سب کا مالک و خالق " ہے ۔ اس نے انسانوں تک اپنے چنیدہ انسانوں کی وساطت سے ان مسائل سے چھٹکارے کا علاج پہنچا دیا ہے ۔ ہر الہامی آسمانی کتب میں اس حقیقت کو کھلے طور بیان کر دیا گیا ہے کہ " توکل و قناعت " اختیار کیئے بنا " بے چینی و بے سکونی " سے بچنا محال ہے ۔
قران پاک میں " ایمان والوں " سے خطاب فرماتے فرمایا گیا ہے کہ

الذين امنوا وتطمئن قلوبهم بذكر الله
الا بذكر الله تطمئن القلوب
جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔
یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے (28)سورة الرعد
بلاشک یہ سچا فرمان ہے۔

یہ بھی اک حقیقت ہے کہ " ذکر سے اطمینان و سکون " حاصل ہونے کا یقین صرف تسبیحات سے حاصل نہیں ہوتا ۔۔۔ اکثر یہ شکایت کرتے ملتے ہیں کہ " صبح و شام " تسبیحات " کرتے ہیں ۔ ورد میں محو رہتے ہیں ۔ مگر " زندگی " سے " حزن و ملا ل بے چینی و بے سکونی " دور نہیں ہوتی ۔
اللہ کا ذکر کوئی نشہ نہیں جو کہ احساس سے بیگانہ کرتے " مصنوعی سکون " طاری کر دے ۔ اللہ کا ذکر صرف " ور د " پر موقوف نہیں بلکہ ۔ اک حساس روح کے حامل وجود کا اپنے خالق کی تعلیمات پر بے و چون و چرا عمل کرتے انسانیت کی خدمت کرنا ہے ۔ اپنے خالق کی یاد میں اس سے ملاقات کے یقین سے جینا ہے ۔ "اسمائے الحسنی " کی مالا نہیں جپنی بلکہ ان میں پنہاں صفات کو اپنی ذات پر ایسے لاگو کرنا ہے ۔ انسانیت کو فلاح پہنچے ۔۔۔۔ صرف زبان کو تر نہیں کرنا ۔ تسبیح نہیں پھیرنی ۔ بلکہ اپنے کامل وجود کو انسان کی خدمت میں مصروف کرنا ہے ۔ پھر یہ " ذکر " اطمینان کا باعث ۔۔ اور " توکل و قناعت " کا زینہ بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
پھر انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے، جس کو اس نے اپنا رب اور اپنا معبود ماناہے، و ہی در حقیقت خالق و مالک ہے۔ اسی کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے ۔اور جس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا، اللہ تعالیٰ اسے کبھی رسوا اور محروم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کا یہ وعدہ سچا ہے کہ

الا ان اولياء الله لا خوف عليهم ولا هم یحزنون O الذين امنوا وكانوا يتقون O لهم البشري في الحياة الدنيا وفي الاخرة لا تبديل لكلمات الله ذلك هو الفوز العظيم O(یونس 62-63 -64)
سن رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے (یعنی) جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگار رہے ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کی باتیں بدلتی نہیں۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے
سبحان اللہ
عمل سے ذکر کی تسبیح
کمال، ہے اک اک جواب
 

نور وجدان

لائبریرین
جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا، دل میرا پاگل نکلا
جب اسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا۔ آنکھ سے اوجھل نکلا
اک ملاقات تھی جو دل کوسدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے وہ اک پل نکلا
وہ جو افسانہء غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنا روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا
ہم سکوں ڈھونڈنے نکلے تھے، پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشاں نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ،دل سینے میں بے کل نکلا
اک اک شعر لاجواب
 
Top