ماہر القادری مرحوم کا ایک نعتیہ شعر

فلک شیر

محفلین
سید ابوالحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب پرانے چراغ پڑھتے ہوئے ماہر القادری مرحوم پہ ان کا مضمون سامنے آیا، ندوی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ علاقہ برّار کے تبلیغی سفر کے دوران میں ایک جگہ تھکا ماندہ شام کو پہنچا، اہل علاقہ نے بہت زور دے کر کہا کہ آج رات قریب ہی ایک جگہ جلسہ میں شرکت کی جائے، کہتے ہیں کہ میں نے بہت معذرت کی، تھکاوٹ کا بتایا، لیکن اصرار تھا کہ غالب آ کر رہا، آخر مجھے جلسے میں شرکت کرنا ہی پڑی
جب میں وہاں پہنچا تو مجمع کثیر تعداد میں موجود تھا اور ایک صاحب ایک نعت پڑھ رہے تھے، اس وقت نعت کے جس شعر پر وہ پہنچے تھے، وہ کچھ یوں تھا:

اے نام محمد صل علی ماہر کے لیے تو سب کچھ ہے
ہونٹوں پہ تبسم بھی آیا، آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے

اس شعر نے میری ساری تھکاوٹ اتار دی اور طبیعت میں عجیب نشاط آ گیا، بعد ازاں میں نے تقریر بھی کی اور لوگوں میں پسند بھی کی گئی.

یہ شعر جب سے میں نے مولانا کے مضمون میں پڑھا ہے مکمل نعت تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں، لیکن سرِ دست دستیاب نہیں ہو سکی، بہرحال شعر کی تشریح کرنا اور اس کے حسن و قبح پر بات کرنا اہل علم کا کام ہے، میرے جیسے طالب علم تو اپنے ہلکے پھلکے تاثرات پیش کر سکتے ہیں۔

ڈیویز کی مشہور نظم Leisure آپ سب نے بھی سنی پڑھی ہوگی، اس میں وہ خوبصورتی کے چہرے پہ آنے والی مسکراہٹ کا تذکرہ کرتا ہے اور اس کو آنکھوں سے شروع ہونا بتاتا ہے، ماہر القادری مرحوم کے اس نعتیہ شعر میں تبسم برلب کا تذکرہ ہے...... تو معلوم ہے کہ شرارت محبت نفرت یعنی قریب قریب تمام ظاہر کیے جانے والے جذبات پہلے آنکھوں میں اترتے ہیں، پھر ہونٹوں پر نازل ہوتے ہیں، بعد ازاں رخسار اور پورے وجود پر طاری ہوتے ہیں، تو اس شعر میں آنکھوں اور ہونٹوں کو قریب قریب جانیے۔

مصرع اول میں دعویٰ ہے ایک نام کے سب کچھ ہونے کا، گویا ایک محب کے لیے کسی ایک نام سے الفت تعلق اور ربط سب کچھ ہے، اب جب کوئی کسی نام سے تعلق کو اپنا سب کچھ کہتا ہے، یعنی کل متاع، اس فرد یا شخصیت یا آئیڈیل کو بھی نہیں، صرف اس کے نام کو،تو یہ لطافت کی اور معروف معنی میں تعلق اور بے پناہ اور غیر مشروط تعلق کی انتہا ہے..... اب دیکھنا یہ ہے کہ نام کے ساتھ اس تعلق کو سب کچھ بتانے والا اگلے مصرعے میں اس دعوے کی دلیل کیا پیش کرے گا اور مولانا ماہر القادری نے اگلے مصرعے میں کیا سچی دلیل پیش کی ہے.... عامی سے اخص الخواص جس جمالیاتی تجربہ سے گزرتا ہے، ماہر اس کو دلیل بنا کر لائے ہیں اور ایک نگینے کی طرح مصرع ثانی میں جڑا ہے.....

میں، آپ، ہر پیدا ہونے والا بچہ اور ذی روح، ہر ذی شعور محبت کے تجربے سے ضرور گزرتا ہے، ماں کا پہلا لمس اسے یہ سکھا دیتا ہے، بعد ازاں تعلقات کی مختلف نوعیتیں اور مظاہر اسے اس تعلق کی مختلف جہتوں اور لذتوں سے آشنا کرتے ہیں، یہ بھی دیکھ لیجیے کہ وصل کو محبت کی ایک حالت کہا جاتا ہے اور ہجر کو دوسری.... جبکہ اس فقیر کا خیال ہے کہ ہجر بیان کے لیے تو ایک روا حالت ہے، لیکن جو کوئی بھی محبت کے تعلق کی کنہ کو پا لیتا ہے ۔اس کے لیے یہ وصل کی ہی ایک شکل ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہلِ دل صاحبانِ وصل ہوتے ہیں، وصل ان کا حال اور ہجر بعض اوقات گویا ملامتی صوفیوں کی مثل حالت قال ہوتا ہے... اس شعر کے دوسرے مصرعے میں جو دو حالتیں بیان کی گئی ہے یعنی تبسم برلب اور آنکھ میں آنسو، ان دونوں کیفیات کو تخیل میں لاکر دیکھیے کہ بظاہر ہجر کی حالت ہو اور محبوب کو یاد کیا جائے تو یہی دو کیفیت طاری ہو سکتی ہیں اور حالت وصل میں بھی یہی دو انتہائی کیفیات طاری ہوسکتی ہیں...

لطافتِ محبت میں اس سے آگے کی کوئی چیز نہیں ہوسکتی.... یاد کرنا، یاد رکھنا، یاد میں رہنا، ان سب کے جتنی مظاہر ہوسکتے ہیں، وہ ان دو کے درمیان ہی ہوں گے... تو ماہر نے یہ دو بیان کرکے گویا ہجرووصال اور حضور و غیاب کی تمام شکلوں کا احاطہ کر دیا ہے... اور مصرعہ اول میں یہ بھی بتا دیا کہ ہم تو خود کو اسی قابل سمجھتے ہیں کہ نام تک ہی کے دیوانہ ہیں.... دیکھا نہیں بس سنا ہے اور اس نام کو ہی لکھتے ہیں، پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، سناتے ہیں، live کرتے ہیں اور اسی نام سے ہمارے لب پہ مسکراہٹ آتی ہے اور اسی کا دیا ہوا گداز آنکھ میں آنسو لاتا ہے....

المختصر یہ کہ
اے نامِ محمد صل علی، ماہر کے لیے تو سب کچھ ہے

فلک شیر چیمہ
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم فلک شیر بھائی!
ما شاء اللہ اچھا لکھا ہے۔
ویسے ایک ہنسنے کی بات ہے، پہلی ملاقات ہے تو سوچا خوامخواہ بے تکلفی اچھی نہیں ہے۔اجازت دیں تو لکھ دوں۔:)
 

فلک شیر

محفلین
السلام علیکم فلک شیر بھائی!
ما شاء اللہ اچھا لکھا ہے۔
ویسے ایک ہنسنے کی بات ہے، پہلی ملاقات ہے تو سوچا خوامخواہ بے تکلفی اچھی نہیں ہے۔اجازت دیں تو لکھ دوں۔:)
وعلیکم السلام شاہ صاحب۔
تحسین کے لیے شکرگزار ہوں۔
ہنسنے کی بات بھی بلا تکلف ضرور کریں، زیادہ سے زیادہ میں ہنس ہی پڑوں گا :)
 

یاسر شاہ

محفلین
نام سے ہی قیاس کرتے ہوئے اسی پہ اکتفا کرتے ہیں شاہ صاحب :)
ثابت ہوا ہر ایک سے بے تکلفی اچھی بات نہیں ہوتی۔
میں معذرت خواہ ہوں اور بقسم کہتا ہوں مقصود آپ کے نام کا مذاق اڑانا نہیں تھا۔یہ تو شاعروں کو قافیے سوجھتے ہیں۔سو پیش کر دیا۔
آپ کا نام بہت خوبصورت ہے ماشاءاللہ آپ کی دیگر نگارشات کا بھی انتظار رہے گا۔جزاک اللہ خیر۔
 

فلک شیر

محفلین
ثابت ہوا ہر ایک سے بے تکلفی اچھی بات نہیں ہوتی۔
میں معذرت خواہ ہوں اور بقسم کہتا ہوں مقصود آپ کے نام کا مذاق اڑانا نہیں تھا۔یہ تو شاعروں کو قافیے سوجھتے ہیں۔سو پیش کر دیا۔
آپ کا نام بہت خوبصورت ہے ماشاءاللہ آپ کی دیگر نگارشات کا بھی انتظار رہے گا۔جزاک اللہ خیر۔
شاہ صاحب ناراض نہ ہوں، بے تکلفی سے جو کہنا چاہیں، کہیں، ہمہ تن گوش ہوں۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
سید ابوالحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب پرانے چراغ پڑھتے ہوئے ماہر القادری مرحوم پہ ان کا مضمون سامنے آیا، ندوی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ علاقہ برّار کے تبلیغی سفر کے دوران میں ایک جگہ تھکا ماندہ شام کو پہنچا، اہل علاقہ نے بہت زور دے کر کہا کہ آج رات قریب ہی ایک جگہ جلسہ میں شرکت کی جائے، کہتے ہیں کہ میں نے بہت معذرت کی، تھکاوٹ کا بتایا، لیکن اصرار تھا کہ غالب آ کر رہا، آخر مجھے جلسے میں شرکت کرنا ہی پڑی
جب میں وہاں پہنچا تو مجمع کثیر تعداد میں موجود تھا اور ایک صاحب ایک نعت پڑھ رہے تھے، اس وقت نعت کے جس شعر پر وہ پہنچے تھے، وہ کچھ یوں تھا:

اے نام محمد صل علی ماہر کے لیے تو سب کچھ ہے
ہونٹوں پہ تبسم بھی آیا، آنکھوں میں بھی آنسو بھر آئے

اس شعر نے میری ساری تھکاوٹ اتار دی اور طبیعت میں عجیب نشاط آ گیا، بعد ازاں میں نے تقریر بھی کی اور لوگوں میں پسند بھی کی گئی.

یہ شعر جب سے میں نے مولانا کے مضمون میں پڑھا ہے مکمل نعت تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں، لیکن سرِ دست دستیاب نہیں ہو سکی، بہرحال شعر کی تشریح کرنا اور اس کے حسن و قبح پر بات کرنا اہل علم کا کام ہے، میرے جیسے طالب علم تو اپنے ہلکے پھلکے تاثرات پیش کر سکتے ہیں۔

ڈیویز کی مشہور نظم Leisure آپ سب نے بھی سنی پڑھی ہوگی، اس میں وہ خوبصورتی کے چہرے پہ آنے والی مسکراہٹ کا تذکرہ کرتا ہے اور اس کو آنکھوں سے شروع ہونا بتاتا ہے، ماہر القادری مرحوم کے اس نعتیہ شعر میں تبسم برلب کا تذکرہ ہے...... تو معلوم ہے کہ شرارت محبت نفرت یعنی قریب قریب تمام ظاہر کیے جانے والے جذبات پہلے آنکھوں میں اترتے ہیں، پھر ہونٹوں پر نازل ہوتے ہیں، بعد ازاں رخسار اور پورے وجود پر طاری ہوتے ہیں، تو اس شعر میں آنکھوں اور ہونٹوں کو قریب قریب جانیے۔

مصرع اول میں دعویٰ ہے ایک نام کے سب کچھ ہونے کا، گویا ایک محب کے لیے کسی ایک نام سے الفت تعلق اور ربط سب کچھ ہے، اب جب کوئی کسی نام سے تعلق کو اپنا سب کچھ کہتا ہے، یعنی کل متاع، اس فرد یا شخصیت یا آئیڈیل کو بھی نہیں، صرف اس کے نام کو،تو یہ لطافت کی اور معروف معنی میں تعلق اور بے پناہ اور غیر مشروط تعلق کی انتہا ہے..... اب دیکھنا یہ ہے کہ نام کے ساتھ اس تعلق کو سب کچھ بتانے والا اگلے مصرعے میں اس دعوے کی دلیل کیا پیش کرے گا اور مولانا ماہر القادری نے اگلے مصرعے میں کیا سچی دلیل پیش کی ہے.... عامی سے اخص الخواص جس جمالیاتی تجربہ سے گزرتا ہے، ماہر اس کو دلیل بنا کر لائے ہیں اور ایک نگینے کی طرح مصرع ثانی میں جڑا ہے.....

میں، آپ، ہر پیدا ہونے والا بچہ اور ذی روح، ہر ذی شعور محبت کے تجربے سے ضرور گزرتا ہے، ماں کا پہلا لمس اسے یہ سکھا دیتا ہے، بعد ازاں تعلقات کی مختلف نوعیتیں اور مظاہر اسے اس تعلق کی مختلف جہتوں اور لذتوں سے آشنا کرتے ہیں، یہ بھی دیکھ لیجیے کہ وصل کو محبت کی ایک حالت کہا جاتا ہے اور ہجر کو دوسری.... جبکہ اس فقیر کا خیال ہے کہ ہجر بیان کے لیے تو ایک روا حالت ہے، لیکن جو کوئی بھی محبت کے تعلق کی کنہ کو پا لیتا ہے ۔اس کے لیے یہ وصل کی ہی ایک شکل ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہلِ دل صاحبانِ وصل ہوتے ہیں، وصل ان کا حال اور ہجر بعض اوقات گویا ملامتی صوفیوں کی مثل حالت قال ہوتا ہے... اس شعر کے دوسرے مصرعے میں جو دو حالتیں بیان کی گئی ہے یعنی تبسم برلب اور آنکھ میں آنسو، ان دونوں کیفیات کو تخیل میں لاکر دیکھیے کہ بظاہر ہجر کی حالت ہو اور محبوب کو یاد کیا جائے تو یہی دو کیفیت طاری ہو سکتی ہیں اور حالت وصل میں بھی یہی دو انتہائی کیفیات طاری ہوسکتی ہیں...

لطافتِ محبت میں اس سے آگے کی کوئی چیز نہیں ہوسکتی.... یاد کرنا، یاد رکھنا، یاد میں رہنا، ان سب کے جتنی مظاہر ہوسکتے ہیں، وہ ان دو کے درمیان ہی ہوں گے... تو ماہر نے یہ دو بیان کرکے گویا ہجرووصال اور حضور و غیاب کی تمام شکلوں کا احاطہ کر دیا ہے... اور مصرعہ اول میں یہ بھی بتا دیا کہ ہم تو خود کو اسی قابل سمجھتے ہیں کہ نام تک ہی کے دیوانہ ہیں.... دیکھا نہیں بس سنا ہے اور اس نام کو ہی لکھتے ہیں، پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، سناتے ہیں، live کرتے ہیں اور اسی نام سے ہمارے لب پہ مسکراہٹ آتی ہے اور اسی کا دیا ہوا گداز آنکھ میں آنسو لاتا ہے....

المختصر یہ کہ
اے نامِ محمد صل علی، ماہر کے لیے تو سب کچھ ہے

فلک شیر چیمہ
حقیقت!
بہت عمدہ لکھا گیا
لطف آیا پڑھ کے
 
Top