دیکھ دل کہ جگر سے اُٹھتا ہے غزل نمبر 74 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
خدائے سُخن میر تقی میرکی اک غزل کی زمین میں ایک غزل کہنے کی سعی کی ہے آج اگر میر صاحب ہوتے تو بہت زیادہ ڈانٹ پڑنے والی تھی ہمیں

الف عین
ظہیر احمد ظہیر
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:

دیکھ دل کہ جگر سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کدھر سے اُٹھتا ہے

پھر سنبھلتے ہوئے نہ دیکھا اسے
جو بھی تیری نظر سے اُٹھتا ہے


اڑتی چیزوں کو دیکھ کر جانا
جو بھی اُٹھتا ہے پر سے اُٹھتا ہے


عکس اس غم کا دیکھ لیتا ہوں
جو تیری چشمِ تر سے اُٹھتا ہے


یہ جو دھڑکن کا شور و غوغا ہے
وہ دلِ مختصر سے اُٹھتا ہے


وردِ حق کے بغیر مردہ ہے
دل تو رب کے ذکر سے اُٹھتا ہے


جانے ظلمت کہاں سے گرتی ہے؟
نور ماہ و مہر سے اُٹھتا ہے


یہ جو بادل ہے بحر کے اوپر
ڈُوب جانے کے ڈر سے اُٹھتا ہے


یہ تو خاموشیاں بتاتی ہیں
کوئی طوفاں بحر سے اُٹھتا ہے


رزق لے کر ہی لوٹتا ہے وہ
جو پرندہ شجر سے اُٹھتا ہے


ساتواں آسماں ہے چُھوتا جو
نالہ شوریدہ سر سے اُٹھتا ہے


خوف رہتا نہیں پھر راہزن سے
جب یقیں راہبر سے اُٹھتا ہے


چل فرشتے تلاش کرتے ہیں
اعتماد اب بشر سے اُٹھتا ہے

ایک جنگل آباد ہوتا ہے
جب جنازہ شہر سے اُٹھتا ہے

شاعری بھاری ذمہ ہے شارؔق
کب یہ تجھ بے ہنر سے اُٹھتا ہے
 

صابرہ امین

لائبریرین
خدائے سُخن میر تقی میرکی اک غزل کی زمین میں ایک غزل کہنے کی سعی کی ہے آج اگر میر صاحب ہوتے تو بہت زیادہ ڈانٹ پڑنے والی تھی ہمیں

الف عین
ظہیر احمد ظہیر
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:

دیکھ دل کہ جگر سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کدھر سے اُٹھتا ہے

پھر سنبھلتے ہوئے نہ دیکھا اسے
جو بھی تیری نظر سے اُٹھتا ہے

اڑتی چیزوں کو دیکھ کر جانا
جو بھی اُٹھتا ہے پر سے اُٹھتا ہے

عکس اس غم کا دیکھ لیتا ہوں
جو تیری چشمِ تر سے اُٹھتا ہے

یہ جو دھڑکن کا شور و غوغا ہے
وہ دلِ مختصر سے اُٹھتا ہے

وردِ حق کے بغیر مردہ ہے
دل تو رب کے ذکر سے اُٹھتا ہے

جانے ظلمت کہاں سے گرتی ہے؟
نور ماہ و مہر سے اُٹھتا ہے

یہ جو بادل ہے بحر کے اوپر
ڈُوب جانے کے ڈر سے اُٹھتا ہے

یہ تو خاموشیاں بتاتی ہیں
کوئی طوفاں بحر سے اُٹھتا ہے

رزق لے کر ہی لوٹتا ہے وہ
جو پرندہ شجر سے اُٹھتا ہے

ساتواں آسماں ہے چُھوتا جو
نالہ شوریدہ سر سے اُٹھتا ہے

خوف رہتا نہیں پھر راہزن سے
جب یقیں راہبر سے اُٹھتا ہے


چل فرشتے تلاش کرتے ہیں
اعتماد اب بشر سے اُٹھتا ہے

ایک جنگل آباد ہوتا ہے
جب جنازہ شہر سے اُٹھتا ہے

شاعری بھاری ذمہ ہے شارؔق
کب یہ تجھ بے ہنر سے اُٹھتا ہے
بہت خوب ۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ پہلی غزل ہے جس کی اصلاح کی جا سکتی ہے، مبارک ہو

دیکھ دل کہ جگر سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کدھر سے اُٹھتا ہے
... کہ کو میں 'کے' کے طور پر قبول نہیں کرتا
دیکھ دل یا.....

پھر سنبھلتے ہوئے نہ دیکھا اسے
جو بھی تیری نظر سے اُٹھتا ہے
... درست تکنیکی طور پر، لیکن مفہوم سمجھ نہیں سکا، نظر سے گرنا تو محاورہ درست ہے، نظر سے اٹھنا سمجھ میں نہیں آیا

اڑتی چیزوں کو دیکھ کر جانا
جو بھی اُٹھتا ہے پر سے اُٹھتا ہے
... یہ تک بندی ہے

عکس اس غم کا دیکھ لیتا ہوں
جو تیری چشمِ تر سے اُٹھتا ہے
... ٹھیک ہے، 'تری' کا محل ہے دوسرے مصرعے میں

یہ جو دھڑکن کا شور و غوغا ہے
وہ دلِ مختصر سے اُٹھتا ہے
... ٹھیک، البتہ تقابل ردیفین کا سقم ہے پہلے مصرع میں بھی 'ہے' پر ختم ہونے کی وجہ سے
شور و غوغا ہے یہ جو دھڑکن کآ

وردِ حق کے بغیر مردہ ہے
دل تو رب کے ذکر سے اُٹھتا ہے
... ذکر کا تلفظ ہی غلط ہے یہاں، ک ساکن ہے ذکر کا۔ اس لئے شعر ہی نہیں کہہ سکتے

جانے ظلمت کہاں سے گرتی ہے؟
نور ماہ و مہر سے اُٹھتا ہے
... یہ بھی ایضاً، قافیہ مہر میں بھی ہ ساکن ہے

یہ جو بادل ہے بحر کے اوپر
ڈُوب جانے کے ڈر سے اُٹھتا ہے
... درست

یہ تو خاموشیاں بتاتی ہیں
کوئی طوفاں بحر سے اُٹھتا ہے
.. بحر کا بھی غلط تلفظ

رزق لے کر ہی لوٹتا ہے وہ
جو پرندہ شجر سے اُٹھتا ہے
... درست

ساتواں آسماں ہے چُھوتا جو
نالہ شوریدہ سر سے اُٹھتا ہے
... 'ہے چھوتا' رواں نہیں، 'چھوئے گا' بہتر یو گا، یا کچھ اور متبادل سوچو

خوف رہتا نہیں پھر راہزن سے
جب یقیں راہبر سے اُٹھتا ہے
...' پھر رہزن' تقطیع درست نہیں
خوف رہزن سے پھر نہیں رہتا

چل فرشتے تلاش کرتے ہیں
اعتماد اب بشر سے اُٹھتا ہے
.. 'چل' اچھا نہیں لگ رہا، یہاں 'اب' معنوی طور پر بہتر ہے

ایک جنگل آباد ہوتا ہے
جب جنازہ شہر سے اُٹھتا ہے
.. آباد اور شہر، دونوں کے تلفظ غلط ہیں

شاعری بھاری ذمہ ہے شارؔق
کب یہ تجھ بے ہنر سے اُٹھتا ہے
.. خوب
بھاری ذمہ ہے شاعری شارق

مجموعی طور پر غلط تلفظ کی وجہ سے اچھی غزل نہیں بن سکی مگر کئی شعر اچھے ہیں۔ اور بحر درست ہے، اس کی مبارکباد پھر دے دوں
 

امین شارق

محفلین
یہ پہلی غزل ہے جس کی اصلاح کی جا سکتی ہے، مبارک ہو

دیکھ دل کہ جگر سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کدھر سے اُٹھتا ہے
... کہ کو میں 'کے' کے طور پر قبول نہیں کرتا
دیکھ دل یا.....

پھر سنبھلتے ہوئے نہ دیکھا اسے
جو بھی تیری نظر سے اُٹھتا ہے
... درست تکنیکی طور پر، لیکن مفہوم سمجھ نہیں سکا، نظر سے گرنا تو محاورہ درست ہے، نظر سے اٹھنا سمجھ میں نہیں آیا

اڑتی چیزوں کو دیکھ کر جانا
جو بھی اُٹھتا ہے پر سے اُٹھتا ہے
... یہ تک بندی ہے

عکس اس غم کا دیکھ لیتا ہوں
جو تیری چشمِ تر سے اُٹھتا ہے
... ٹھیک ہے، 'تری' کا محل ہے دوسرے مصرعے میں

یہ جو دھڑکن کا شور و غوغا ہے
وہ دلِ مختصر سے اُٹھتا ہے
... ٹھیک، البتہ تقابل ردیفین کا سقم ہے پہلے مصرع میں بھی 'ہے' پر ختم ہونے کی وجہ سے
شور و غوغا ہے یہ جو دھڑکن کآ

وردِ حق کے بغیر مردہ ہے
دل تو رب کے ذکر سے اُٹھتا ہے
... ذکر کا تلفظ ہی غلط ہے یہاں، ک ساکن ہے ذکر کا۔ اس لئے شعر ہی نہیں کہہ سکتے

جانے ظلمت کہاں سے گرتی ہے؟
نور ماہ و مہر سے اُٹھتا ہے
... یہ بھی ایضاً، قافیہ مہر میں بھی ہ ساکن ہے

یہ جو بادل ہے بحر کے اوپر
ڈُوب جانے کے ڈر سے اُٹھتا ہے
... درست

یہ تو خاموشیاں بتاتی ہیں
کوئی طوفاں بحر سے اُٹھتا ہے
.. بحر کا بھی غلط تلفظ

رزق لے کر ہی لوٹتا ہے وہ
جو پرندہ شجر سے اُٹھتا ہے
... درست

ساتواں آسماں ہے چُھوتا جو
نالہ شوریدہ سر سے اُٹھتا ہے
... 'ہے چھوتا' رواں نہیں، 'چھوئے گا' بہتر یو گا، یا کچھ اور متبادل سوچو

خوف رہتا نہیں پھر راہزن سے
جب یقیں راہبر سے اُٹھتا ہے
...' پھر رہزن' تقطیع درست نہیں
خوف رہزن سے پھر نہیں رہتا

چل فرشتے تلاش کرتے ہیں
اعتماد اب بشر سے اُٹھتا ہے
.. 'چل' اچھا نہیں لگ رہا، یہاں 'اب' معنوی طور پر بہتر ہے

ایک جنگل آباد ہوتا ہے
جب جنازہ شہر سے اُٹھتا ہے
.. آباد اور شہر، دونوں کے تلفظ غلط ہیں

شاعری بھاری ذمہ ہے شارؔق
کب یہ تجھ بے ہنر سے اُٹھتا ہے
.. خوب
بھاری ذمہ ہے شاعری شارق

مجموعی طور پر غلط تلفظ کی وجہ سے اچھی غزل نہیں بن سکی مگر کئی شعر اچھے ہیں۔ اور بحر درست ہے، اس کی مبارکباد پھر دے دوں
سر بہت شکریہ اشعار کی پسندیدگی کے لئے آپکی مبارکباد میرے لئے سند کی حیثیت رکھتی ہے

دیکھ دل یا جگر سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کدھر سے اُٹھتا ہے
سر میر صاحب کے شعر میں بھی " کہ " استعمال ہوا ہے جیسے " دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے " پلیز سمجھائیں


اس کو گرتے ہوئے نہ دیکھا کبھی
جو بھی تیری نظر سے اُٹھتا ہے

سر آپ نے درست کہا نظر سے گرنا تو محاورہ درست ہے، نظر سے اٹھنا سمجھ میں نہیں آیا اس شعر کا پہلا مصرعہ پہلے میں نے یہ لکھا تھا " اس کو گرتے ہوئے نہ دیکھا کبھی " اب یہ ٹھیک رہے گا

منزل ہے متقاضی محنت کی
یا
کامیابی ہے ملتی کوشش سے
جو بھی اُٹھتا ہے پر سے اُٹھتا ہے

اب یہ ٹھیک رہے گا یا اب بھی تک بندی ہے کیا اس شعر کو غزل سے نکال دوں؟

عکس اس غم کا دیکھ لیتا ہوں
جو تیری چشمِ تر سے اُٹھتا ہے


شور و غوغا ہے یہ جو دھڑکن کآ
وہ دلِ مختصر سے اُٹھتا ہے

اصلاح کے بعد تقابل ردیفین کے سقم سے آئندہ بچنے کی کوشش کروں گا

وردِ حق کے بغیر مردہ ہے
دل تو رب کے ذکر سے اُٹھتا ہے
یہ شعر نکال دیا ہے

جانے ظلمت کہاں سے گرتی ہے؟
نور شمس و قمر سے اُٹھتا ہے
یا
نور شمس و بدر سے اُٹھتا ہے

مہر کا متبادل قمر یا بدر کردیا ہے اب درست ہے؟

یہ جو بادل ہے بحر کے اوپر
ڈُوب جانے کے ڈر سے اُٹھتا ہے


یہ تو خاموشیاں بتاتی ہیں
کوئی طوفاں بحر سے اُٹھتا ہے

یہ شعر نکال دیا ہے

رزق لے کر ہی لوٹتا ہے وہ
جو پرندہ شجر سے اُٹھتا ہے


ساتویں چرخ تک ہے جاتا جو
نالہ شوریدہ سر سے اُٹھتا ہے

اب یہ ٹھیک رہے گا؟

خوف رہزن سے پھر نہیں رہتا
جب یقیں راہبر سے اُٹھتا ہے

اصلاح کے بعد

اب فرشتے تلاش کرتے ہیں
اعتماد اب بشر سے اُٹھتا ہے

اصلاح کے بعد لیکن یہ بات کھٹک رہی ہے کہ دونوں مصرعوں میں "اب" آرہا ہے کیا یہ صحیح ہے

بزم ملکِ عدم میں ہے سجتی
جب جنازہ نگر سے اُٹھتا ہے

مصرعہ اول تبدیل کردیا ہے اور شہر کو نگر کردیا ہے اب درست ہے؟

بھاری ذمہ ہے شاعری شارؔق
کب یہ تجھ بے ہنر سے اُٹھتا ہے

اصلاح کے بعد

یہ نئے اشعار ہیں سر دیکھئے گا

عشق پر قید نہیں ہے لیکن
حُسن بالی عمر سے اُٹھتا ہے

ایسے بڑھتا گیا سرورِ عشق

جیسے شعلہ شرر سے اُٹھتا ہے

ہے خفا شاہ کی کم نگاہی سے
ایک دیوانہ در سے اُٹھتا ہے

دل یہ چاہتا ہے ان سے مل آئیں
پھر یقیں نامہ بر سے اُٹھتا ہے

حشر کے روز یہ بھی دیکھیں گے
کون کس کی قبر سے اُٹھتا ہے

بات کو راز رکھنا مخبر سے
سارا فتنہ خبر سے اُٹھتا ہے

ایک کا غم ہے دوسرے کی خوشی
شور ہر ایک گھر سے اُٹھتا ہے

اور کس پر کریں بھروسہ دل؟
اعتبار معتبر سے اُٹھتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اب آئے تم درست راہ پر، یعنی اب معلوم ہو رہا ہے کہ اصلاح کے متمنی ہو اور کچھ سیکھنا چاہتے ہو۔
مطلع کی بات کو یوں کہتا ہوں کہ میر کا 'کہ جاں' تمہارے جگر کے ہم وزن ہو گیا اب میر کا 'تو دل' یعنی دو حرکات اور دو ساکن آوازوں کے برابر تمہارا 'دل کہ' ہو گیا جو اس کا ثبوت ہے کہ 'کہ' دو حرفی تقطیع ہو رہا ہے۔ عروض کی نظر سے دیکھو تو بحر کے افاعیل ہیں فاعلاتن مفاعلن فعلن
تمہارا مصرع
دیکھ دل کے... یعنی فاع۔ دیک، لا. دل، تن ۔ کے
جگر.. مفا سِ اُٹ... علن، تا ہے ۔ فع لن
میر کا
دیک تو دل.. فاعلاتن
ک جاں.. مفا، سِ اُٹ.. علن
تا ہے. فع لن
اب یہ بات بھی قابل غور ہے، جس کا ذکر نہیں کیا تھا میں نے کہ محض ایک لفظ کی تبدیلی سے کیا شعر واقعی تمہارا ہو گیا!؟
سر آپ نے درست کہا نظر سے گرنا تو محاورہ درست ہے، نظر سے اٹھنا سمجھ میں نہیں آیا اس شعر کا پہلا مصرعہ پہلے میں نے یہ لکھا تھا " اس کو گرتے ہوئے نہ دیکھا کبھی " اب یہ ٹھیک رہے گا
چل سکتا ہے شعر

پر سے اٹھتا ہے.. نکال ہی دو

نور شمس و قمر سے اُٹھتا ہے
یا
نور شمس و بدر سے اُٹھتا ہے

مہر کا متبادل قمر یا بدر کردیا ہے اب درست ہے
بدر بھی فعل کے وزن پر یعنی د ساکن ہے، ہاں قمر میں م پر بر ہے، وہ درست ہے
ساتویں چرخ تک ہے جاتا جو
رواں نہیں لگ رہا، ساتویں چرخ تک وہ جائے گا' یو سکتا ہے، لیکن اس مین' جو' کی کمی ہے۔ شوریدہ کی جگہ کچھ اور لا سکو تو' نالہ جو...( فاع ) سر سے...
اب فرشتے تلاش کرتے ہیں
اعتماد اب بشر سے اُٹھتا ہے

اصلاح کے بعد لیکن یہ بات کھٹک رہی ہے کہ دونوں مصرعوں میں "اب" آرہا ہے کیا یہ صحیح ہے
اب تو چلے گا، لیکن پہلے مصرع سے یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ فرشتے فاعل ہیں جو تلاش کرنے کا کام کر رہے ہیں! اس لئے اسے واحد متکلم کر دو 'کرتا ہوں'

نگر والا شعر بھی نکال دو
اب نئے اشعار
عشق پر قید نہیں ہے لیکن
حُسن بالی عمر سے اُٹھتا ہے
... پہلا مصرع دوسری بحر میں آ گیا جس کے افاعیل فاعلاتن فعلاتن فعلن ہیں
عمر میں بھی م ساکن ہے، زبر نہیں

ایسے بڑھتا گیا سرورِ عشق
جیسے شعلہ شرر سے اُٹھتا ہے
... تکنیکی طور پر درست
لیکن شرر سے اگر شعلہ آٹھ بھی جائے تو بڑھتا ہوا تو نہیں لگتا؟

ہے خفا شاہ کی کم نگاہی سے
ایک دیوانہ در سے اُٹھتا ہے
... شاہ نہیں شہ بحر میں آتا ہے

دل یہ چاہتا ہے ان سے مل آئیں
پھر یقیں نامہ بر سے اُٹھتا ہے
... چاہتا صرف چہتا تقطیع ہو رہا ہے، اسے 'کہتا ہے' کر دو

حشر کے روز یہ بھی دیکھیں گے
کون کس کی قبر سے اُٹھتا ہے
... قبر کا تلفظ، شاید تم سام طول چال میں یہ سارے الفاظ درمیانی ساکن حرف کے ساتھ نہیں بولتے اس لیے غلط باندھتے ہو، اپنا تلفظ درست کرو

بات کو راز رکھنا مخبر سے
سارا فتنہ خبر سے اُٹھتا ہے
.. درست

ایک کا غم ہے دوسرے کی خوشی
شور ہر ایک گھر سے اُٹھتا ہے
.. درست

اور کس پر کریں بھروسہ دل؟
اعتبار معتبر سے اُٹھتا ہے
.. اعتبار وزن میں نہیں آتا
دل کریں یا دل کرے؟
 

امین شارق

محفلین
محض ایک لفظ کی تبدیلی سےیہ شعر میرا بالکل نہیں ہوا یہ میر صاحب کا ہی شعر ہے اور ان کا ہی رہے گا میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اردو میں ہر اچھا شعر جو کہا جائے گا وہ میر کا ہی رہے گا چاہے وہ کوئی بھی کہے خدائے سخن کا خطاب ان کو ایسے ہی نہیں دیا گیا۔
بہت شکریہ سر آپ کی اصلاح کے بعد غزل پیش ہے ۔


دیکھ دل یا جگر سے اُٹھتا ہے
یہ دھواں سا کدھر سے اُٹھتا ہے


اس کو گرتے ہوئے نہ دیکھا کبھی
جو بھی تیری نظر سے اُٹھتا ہے


عکس اس غم کا دیکھ لیتا ہوں
جو تیری چشمِ تر سے اُٹھتا ہے


شور و غوغا ہے یہ جو دھڑکن کآ
وہ دلِ مختصر سے اُٹھتا ہے


جانے ظلمت کہاں سے گرتی ہے؟
نور شمس و قمر سے اُٹھتا ہے


یہ جو بادل ہے بحر کے اوپر
ڈُوب جانے کے ڈر سے اُٹھتا ہے


رزق لے کر ہی لوٹتا ہے وہ
جو پرندہ شجر سے اُٹھتا ہے


ساتویں چرخ تک وہ جائے گا
نالہ جو خستہ سر سے اُٹھتا ہے
یا
ساتویں چرخ تک ہے جاتا جب
نالہ شوریدہ سر سے اُٹھتا ہے


خوف رہزن سے پھر نہیں رہتا
جب یقیں راہبر سے اُٹھتا ہے


اب فرشتے تلاش کرتا ہوں
اعتماد اب بشر سے اُٹھتا ہے


ایسے بڑھتا گیا سرورِ عشق
جیسے شعلہ شرر سے اُٹھتا ہے


ہے خفا شہ کی کم نگاہی سے
ایک دیوانہ در سے اُٹھتا ہے

دل یہ کہتا ہے ان سے مل آئیں
پھر یقیں نامہ بر سے اُٹھتا ہے

بات کو راز رکھنا مخبر سے
سارا فتنہ خبر سے اُٹھتا ہے

ایک کا غم ہے دوسرے کی خوشی
شور ہر ایک گھر سے اُٹھتا ہے


بھاری ذمہ ہے شاعری شارؔق
کب یہ تجھ بے ہنر سے اُٹھتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
جو تیری چشمِ تر سے اُٹھتا ہے
دیکھو میں نے کیا لکھا تھا!
ساتویں چرخ تک وہ جائے گا
نالہ جو خستہ سر سے اُٹھتا ہے
یا
ساتویں چرخ تک ہے جاتا جب
نالہ شوریدہ سر سے اُٹھتا ہے
خستہ سر کیسا ہوتا ہے؟
دونوں متبادلات پسند نہیں آئے
 
Top