سولھویں سالگرہ سولہویں سالگرہ یا سولھویں سالگرہ

تختہ کو تختا لکھا جاتا ہے तख्ता
جگہ کو جگہ ہی لکھا جاتا ہے जगह
طرح کو طرح ہی لکھا جاتا ہے तरह
ستارہ کو ستارا لکھا جاتا ہے सितारा
غبّارہ کو غبارا لکھا جاتا ہے गुब्बारा
میں آپ کی بات شاید سمجھ گیا ہوں۔ یعنی لفظ سولہ کو /so:l^h/ پڑھا جانا چاہیے اور اس صورت میں ویں درست لاحقہ ہوگا یعنی سولْہَوِیں۔ کیا میں درست سمجھا؟
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
درست سے مشتق ہے درستی
تیرہ سے مشتق ہے تیرگی
دس سے مشتق ہوا دسویں
سولہ سے سولھویں
درست سے درسطی اور تیرہ سے تیراگی کیوں نہیں بنایا گیا۔
یہاں لاحقہ ویں استعمال ہوا ہے ھویں نہیں
آپ کی منطق غلط ہے۔جس طرح فارسی میں "ہ" کی جگہ "گ" لگایا گیا ہے اردو میں "ہ" کی جگہ" ھ"باقی لفظ اور لاحقہ"ویں" وہی ہے۔
 
میں آپ کی بات شاید سمجھ گیا ہوں۔ یعنی لفظ سولہ کو /so:l^h/ پڑھا جانا چاہیے اور اس صورت میں ویں درست لاحقہ ہوگا یعنی سولہَوِیں۔ کیا میں درست سمجھا؟
جناب محمد وارث اور استادِ محترم‌‌ الف عین کی رائے کے بابت بھی استفسار کر لیتے ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نہیں شاید سولَہْویں
سولہویں میں لام پر فتحہ کی حرکت کا تکلف عجیب لگ رہا ہے ۔ جب لفظ کی ساخت میں کو توسیع ہو تو اس کی شکل اردو میں بدل سکتی ہے ۔ جیسے سڑک میں ڑ پر زبر ہے لیکن سڑکیں میں ڑ پر یہی حرکت ایک مضحکہ خیز تکلف ہو جائے گا ۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
املا نامہ میں گیارھواں بارھواں۔۔۔۔ ہی لکھنے کی تاکید کی گئی سو میں قائل ہوا

میں بھی ۔۔۔ مگر املا نامہ نہیں، مکرمی ظہیر بھائی کے تائیدی تاثرات کی وجہ سے ۔۔۔ :)
وہاں کوئی وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے؟

نہیں بس یہ لکھا گیا ہے کہ جب یہ گنتیاں اعداد وصفی میں تبدیل ہوتی ہیں تو ہائے مخفی ہائے مخلوط میں بدل جاتی ہے۔

املا نامہ کے ’ہائے مخلوط‘ والے باب میں کچھ وضاحت موجود ہے:
اردو میں رھ، لھ، مھ، نھ، وھ، یھ میں بھی ہائے مخلوط کا اثر ملتا ہے اس لیے ذیل کے الفاظ کو ہائے مخلوط ہی سے لکھنا چاہیے:

گیارھواں بارھواں کولھو کلھڑ تمھارا کمھار ننھا ننھیال
 

فہد اشرف

محفلین
نہیں شاید سولَہْویں
سولہویں میں لام پر فتحہ کی حرکت کا تکلف عجیب لگ رہا ہے ۔ جب لفظ کی ساخت میں کو توسیع ہو تو اس کی شکل اردو میں بدل سکتی ہے ۔ جیسے سڑک میں ڑ پر زبر ہے لیکن سڑکیں میں ڑ پر یہی حرکت ایک مضحکہ خیز تکلف ہو جائے گا ۔
یہی دیکھ رہا تھا ابھی کچھ لوگ سولَہویں بھی بولتے ہیں اور کچھ سولْھویں بھی لیکن صحیح تلفظ شاید سولھویں ہی ہے جیسا کی رفیع صاحب نے گایا ہے چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو۔
 
سولھویں کا تو معاملہ آسان ہے کیوں کہ بصورتِ دیگر لفظ کا وزن تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن "سولہ" کا کیا کِیا جائے؟ کیا اسے واقعی /so:l^h/ پڑھا جانا چاہیے؟
 

یاسر شاہ

محفلین
یہی دیکھ رہا تھا ابھی کچھ لوگ سولَہویں بھی بولتے ہیں اور کچھ سولْھویں بھی لیکن صحیح تلفظ شاید سولھویں ہی ہے جیسا کی رفیع صاحب نے گایا ہے چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو۔
لیکن سولھویں کو ثابت کرنے کے لیے رفیع صاحب کو یوں گانا چاہیے تھا:
سولھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو
 

زیک

مسافر
سولھویں کا تو معاملہ آسان ہے کیوں کہ بصورتِ دیگر لفظ کا وزن تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن "سولہ" کا کیا کِیا جائے؟ کیا اسے واقعی /so:l^h/ پڑھا جانا چاہیے؟
املا و تلفظ کے لئے شاعر سند نہیں ہیں کہ وہ شعر کے وزن کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین

سید عاطف علی

لائبریرین
کچھ ترک قراء قدیم آواز کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس میں کس قدر کامیاب ہیں معلوم نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:
یہ بھی زززز کے قبیل کی آواد ہے جبکہ ض کی آواز وہ ہے جس پر عربی قلقلے کی صفت لاگو ہو سکتی ہے ذرا سے مصنوعی پن کے اضافے سے ۔
دوسرے یہ کہ خالص عرب مخرج کو عجم کی تفہیم و تمرین پر قیاس کرنا غیر منطقی تکلف بھی لگتا ہے ۔
 
یہ بھی زززز کے قبیل کی آواد ہے جبکہ ض کی آواز وہ ہے جس پر عربی قلقلے کی صفت لاگو ہو سکتی ہے ذرا سے مصنوعی پن کے اضافے سے ۔
دوسرے یہ کہ خالص عرب مخرج کو عجم کی تفہیم و تمرین پر قیاس کرنا غیر منطقی تکلف بھی لگتا ہے ۔
ز کے قبیل سے تھی اسی لیے اسے فارسی اور پھر اردو میں ز سے تعبیر کیا گیا ہے‌۔ جدید ض کی تو ز سے کچھ مشابہت نہیں۔

قلقلہ سے اگر آپ کی مراد فرینجلائزیشن ہے تو وہ مذکورہ آواز میں بھی موجود ہے۔ اس کے بغیر اس کی ادائگی مختلف ہوگی۔
دوسرے یہ کہ خالص عرب مخرج کو عجم کی تفہیم و تمرین پر قیاس کرنا غیر منطقی تکلف بھی لگتا ہے ۔
مخارج کی تفہیم تو سب کے لیے ایک سی ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی عجمی انھیں سمجھ نہیں سکتا منطقی بات لگتی نہیں۔ یہ کہنا ایسا ہی ہے کہ اہلِ عرب پ اور ب کے فرق کی تفہیم کرنے سے مکمل قاصر ہیں۔

یوں بھی یہ تفہیم و تمرین سبویہ کی کتاب سے ماخوذ ہے جو خلیل فارہیدی کے شاگرد تھے۔ اگر موجودہ رائج تلفظ ہی قدیمی تلفظ ہوتا تو اسے بیان کرنا کوئی مشکل تو نہ تھا۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
جدید ض کی تو ز سے کچھ مشابہت نہیں۔
یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ اسے "جدید" آواز کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں ۔ حقیقی آواز صرف اور صرف سن کر سیکھی جاتی ہے ۔ پڑھ کر اور لکھ کر اصل آواز کی ادائیگی کیسے ممکن ہے اس کا مقابلہ سماعتی تجربے سے ممکن نہیں خصوصا کم عمری میں جب کہ کانوں کی فریکوینسی رینج کو سننے کی صلاحیت اور حساسیت عروج پر ہوتی ہے ۔
سیبویہ ایک عجمی شخص تھے (اگرچہ ان کی لسانی لیاقت و مہارت کا انکار نہیں) لیکن ہر زبان کی ادائیگی کی باریکیاں اہل زبان کی ادائیگی سے مشروط ہوتی ہیں ۔ یہ کلیہ عمومی طور پر ہر زبان پر لاگو ہوتا ہے ۔ خیر یہ میری رائے ہے ۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ائی شابش اے! آج تو لسانیات کے شعبے میں والی بال ہورہی ہے ۔ :D لیکن یوں لگ رہا ہے کہ ایک ہی کورٹ پر تین یا چار ٹیمیں بیک وقت کھیل رہی ہیں ۔:)
یہ دیکھ کر اور خوشی ہوئی کہ زیک میاں بھی گیند کو چند مُکے مار گئے ہیں۔ کس طرف سے مارے ہیں یہ پتہ نہیں چلا لیکن ایک مکا شاعروں کو بھی رسید کردیا ہے جس سے شاعری سے ان کی گہری محبت کا پتہ چلتا ہے۔ :):):)
 
ائی شابش اے! آج تو لسانیات کے شعبے میں والی بال ہورہی ہے ۔ :D لیکن یوں لگ رہا ہے کہ ایک ہی کورٹ پر تین یا چار ٹیمیں بیک وقت کھیل رہی ہیں ۔:)
یہ دیکھ کر اور خوشی ہوئی کہ زیک میاں بھی گیند کو چند مُکے مار گئے ہیں۔ کس طرف سے مارے ہیں یہ پتہ نہیں چلا لیکن ایک مکا شاعروں کو بھی رسید کردیا ہے جس سے شاعری سے ان کی گہری محبت کا پتہ چلتا ہے۔ :):):)
آنکھوں پر برف کی پٹی لگا کر بیٹھا ہوا ہوں :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایسا کیوں ظہیر بھائی؟ اور یہ اصول مزید کن کن مواقع پر لاگو ہو سکتا ہے؟
راحل بھائی ، کیوں کی وجہ تو اپنے پچھلے مراسلے میں ہی لکھ دی تھی ۔ چونکہ گیارھواں بارھواں کے تلفظ میں ہائے مخلوط کی آواز آتی ہے اس لئے انہیں ہائے مخلوط سے لکھنا چاہیئے تاکہ املا اور تلفظ میں مطابقت پیدا ہوجائے یعنی املا تلفظ کا آئینہ دار بن جائے ۔ املا کمیٹی نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے جیسا کہ سعادت بھائی اپنے مراسلے میں حوالہ دیا۔

ایک بات جو بہت اہم ہے اور یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ زبان پہلے وجود میں آتی ہے اور اس کی گرامر بہت بعد میں لکھی جاتی ہے۔ زبان تو خود بخود غیر محسوس طریقے پر صدیوں میں جا کر تشکیل پاتی ہے۔ پھر کہیں بعد میں ماہرینِ لسانیات اس زبان کی تہ میں کارفرما اصولوں کو دریافت کرتے ہیں اور انہیں گرامر کی صورت میں منظم و منضبط کردیتے ہیں۔ سو زبان کا اصل معیار اہلِ زبان ہوتے ہیں۔ وہ جس لفظ کا جس طرح تلفظ کرتے ہیں اور جن معنوں میں جس طریقے سے استعمال کرتے ہیں وہی معیار ہوتا ہے ۔ اب ان میں کوئی قاعدہ نظر آجائے تو ٹھیک اور اگر نہ نظر آئے تو وہ استثنا کہلاتا ہے۔ اب کوئی بھی اہلِ انگلستان سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ سی یو ٹی تو" کَٹ" پڑھتے ہو لیکن پی یو ٹی کو "پُٹ" کیوں پڑھنا مانگٹا؟! زبان جیسی بن گئی سو بن گئی ۔ اس میں چوں چرا کی گنجائش نہیں ۔ اس کی تہ میں کارفرما وجوہات کو ڈھونڈنا اچھی بات ہے لیکن اگر وہ معلوم نہ ہوسکیں تو اس پر اعتراض کا کوئی جواز نہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اردو کی کوئی پانچ کتب لائیں جن میں ہ اور ھ کا فرق صحیح طور ملحوظ خاطر رکھا گیا ہو یا ان دو حروف کا استعمال consistent ہو
اردو ایک نوجوان زبان ہے۔ ابھی اسے پیدا ہوئے جمعہ جمعہ چار صدیاں ہی گزری ہیں۔ بدقسمتی اس زبان کی یہ رہی کہ اسے ایک "قوم" میسر نہ آسکی کہ جو اسے دل و جان سے اپناتی۔ پیدا ہوتے ہی خود اپنی جنم بھومی میں ہی تفرقات میں گھر گئی ۔ بہرحال ، کام تو ہورہا ہے ۔ سست رو سہی لیکن ایک سمت میں جا تو رہی ہے زبان ۔ یہ املا کے مسائل بھی رفتہ رفتہ نبٹ جائیں گے۔ ایک دو نسلیں لگیں گی۔ اگر انگریزی کے قدیم حروفِ تہجی اور املا کو دیکھا جائے تو اسے بدلنے میں کئی صدیاں لگیں تب جاکر جدید انگریزی تہجی اور املا نکھر کر سامنے آئے ۔
اس سلسلے میں جو ہمارا کام ہے وہ ہمیں کرنا چاہیئے ۔ کوشش کریں کہ ایک معیاری املا استعمال کریں اور اس پر زور دیں ۔ دوسرا کام ہے معیاری اردو اسپیلنگ چیکر اور ویبگاہوں پر اس کا استعمال۔ اگر کوئی صاحب اس پر کام کرنا چاہیں تو مجھے یقین ہے کہ بہت سارے لوگ مالی وسائل مہیا کرنے کے لئے بخوشی تیار ہوں گے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
راحل بھائی ، کیوں کی وجہ تو اپنے پچھلے مراسلے میں ہی لکھ دی تھی ۔ چونکہ گیارھواں بارھواں کے تلفظ میں ہائے مخلوط کی آواز آتی ہے اس لئے انہیں ہائے مخلوط سے لکھنا چاہیئے تاکہ املا اور تلفظ میں مطابقت پیدا ہوجائے یعنی املا تلفظ کا آئینہ دار بن جائے ۔ املا کمیٹی نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے جیسا کہ سعادت بھائی اپنے مراسلے میں حوالہ دیا۔

ایک بات جو بہت اہم ہے اور یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ زبان پہلے وجود میں آتی ہے اور اس کی گرامر بہت بعد میں لکھی جاتی ہے۔ زبان تو خود بخود غیر محسوس طریقے پر صدیوں میں جا کر تشکیل پاتی ہے۔ پھر کہیں بعد میں ماہرینِ لسانیات اس زبان کی تہ میں کارفرما اصولوں کو دریافت کرتے ہیں اور انہیں گرامر کی صورت میں منظم و منضبط کردیتے ہیں۔ سو زبان کا اصل معیار اہلِ زبان ہوتے ہیں۔ وہ جس لفظ کا جس طرح تلفظ کرتے ہیں اور جن معنوں میں جس طریقے سے استعمال کرتے ہیں وہی معیار ہوتا ہے ۔ اب ان میں کوئی قاعدہ نظر آجائے تو ٹھیک اور اگر نہ نظر آئے تو وہ استثنا کہلاتا ہے۔ اب کوئی بھی اہلِ انگلستان سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ سی یو ٹی تو" کَٹ" پڑھتے ہو لیکن پی یو ٹی کو "پُٹ" کیوں پڑھنا مانگٹا؟! زبان جیسی بن گئی سو بن گئی ۔ اس میں چوں چرا کی گنجائش نہیں ۔ اس کی تہ میں کارفرما وجوہات کو ڈھونڈنا اچھی بات ہے لیکن اگر وہ معلوم نہ ہوسکیں تو اس پر اعتراض کا کوئی جواز نہیں ۔

اس کی ایک مثال علمِ عروض ہے ۔ شاعری تو خود بخود پہلے وجود میں آئی ۔ لیکن صدیوں بعد جا کر اہلِ علم نے شاعری کی تہ میں موجود عروضی اصول دریافت کئے اور انہیں منظم کر کے تحریری صورت دی ۔ چونکہ شاعری کی بحور اور اوزان گھر بیٹھ کر کسی ایک شخص نے نہیں بنائے بلکہ شاعری کو ایک وسیع علاقے میں ہزاروں لاکھوں لوگوں نے ایک طویل عرصے میں جنم دیا۔ چنانچہ جہاں اس میں اصول ہیں وہاں استثنیات بھی ملیں گے۔
 
Top