برائے اصلاح: بہانے یاد ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب

اور دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

بہانے یاد ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے
اندھیرے دے گیا جو روشنی دِکھا کے مجھے

میں اس کی یاد میں بستر سے لگ چکا کب سے
جو زندگی میں مگن ہے کہیں بھُلا کے مجھے

میں مانگتا ہوں اسے جیسے ، وُہ بھی میری طرح
خدا سے مانگے شب و روز گڑگڑا کے مجھے

اسے بھی چھوڑ دیا جب کسی نے رستے میں
تو سب کے سامنے رویا گلے لگا کے مجھے

تمہی نے زخم دیا ہے تمہی بھرو گے اسے؟
تسلیاں نہ یہ جھوٹی دو اب بٹھا کے مجھے

کہ میرے نام سے اب لوگ جانتے ہیں اسے
یہ کہہ رہا تھا وُہ اک روز تلملا کے مجھے

کبھی تو حق میں مرے کوئی کلمہ خیر کہے
یا
کبھی تو پیار و محبت کی کوئی بات کرے
وہ جب بھی آتا ہے جاتا ہے کچھ سنا کے مجھے

بتاؤں ہجر کے اوقات کیا میں، دوست تمہیں
مصیبتیں نہیں آتیں کبھی بتا کے مجھے

دن اور رات جنہیں پالنے کو ایک کیے
وہ آج تنگ ہیں دو روٹیاں کھلا کے مجھے

مرے جنون کو مقبول اس نے خود ہی کیا
کبھی در اور کبھی دار پر سجا کے مجھے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کہ میرے نام سے اب لوگ جانتے ہیں اسے
یہ کہہ رہا تھا وُہ اک روز تلملا کے مجھے
.. میرے خیال میں تلملا کر محض کہا نہیں جاتا، کوئی زبردست رد عمل کیا جاتا ہے

کبھی تو حق میں مرے کوئی کلمہ خیر کہے
یا
کبھی تو پیار و محبت کی کوئی بات کرے
وہ جب بھی آتا ہے جاتا ہے کچھ سنا کے مجھے
...کلمہ خیر بے معنی ہے، کلمۂ خیر ہوتا ہے
متبادل مصرع میں بھی پیار و محبت غلط ہے۔ پیار ہندی یے اس کے ساتھ عطف نہیں آ سکتا ۔ صرف 'پیار محبت' کہا جا سکتا ہے

بتاؤں ہجر کے اوقات کیا میں، دوست تمہیں
مصیبتیں نہیں آتیں کبھی بتا کے مجھے
.. دو لخت لگتا ہے، اسے نکال ہی دو یا دوسری گرہ لگاؤ دوسرا مصرع اچھا ہے۔

دن اور رات جنہیں پالنے کو ایک کیے
.. اور رات میں تنافر ہے، الفاظ بدل سجو رو بدل دو
باقی اشعار درست ہیں
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
سر، بہت شُکریہ
اب دیکھیے

کہ میرے نام سے کیوں جانتے ہیں لوگ اسے
کیا بے دخل اس نے شہر سے، بُلا کے مجھے

کبھی تو پیار ،محبت کی کوئی بات کرے
وہ جب بھی آتا ہے جاتا ہے کچھ سنا کے مجھے

ملے ہیں سُکھ تو ہمیشہ جتا جتا کے مجھے
مصیبتیں نہیں آتیں مگر بتا کے مجھے

جو میرے منہ کا نوالہ بھی چھین لیتے تھے کل
یا
تمام عمر مشقت کی پالنے کو جنہیں
وہ آج تنگ ہیں دو روٹیاں کھلا کے مجھے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کیا بے دخل اس نے شہر سے، بُلا کے مجھے
بحر سے خارج ہے
ملے ہیں سُکھ تو ہمیشہ جتا جتا کے مجھے
مصیبتیں نہیں آتیں مگر بتا کے مجھے
یہ مطلع ہو گیا لیکن اس میں ایطا کا سقم ہے۔ دونوں قوافی 'تا' پر ختم ہوتے ہیں
آخری شعر میں اولی مصرع کوئی بھی رکھ لو، دونوں درست اور اچھے ہیں
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
سر، بہت شُکریہ
کیا بے دخل اس نے شہر سے، بُلا کے مجھے
بحر سے خارج ہے
سر، پلیز سمجھا دیں کہ کیوں یہ مصرعہ بحر سے خارج ہے

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ اس بحر
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
میں فَعِلاتن کو مفعولن میں تبدیل کرنے کی اجازت ہے
باقی آپ رہنمائی فرماُدیجئے ۔ شُکریہ

ملے ہیں سُکھ تو ہمیشہ جتا جتا کے مجھے
مصیبتیں نہیں آتیں مگر بتا کے مجھے
یہ مطلع ہو گیا لیکن اس میں ایطا کا سقم ہے۔ دونوں قوافی 'تا' پر ختم ہوتے ہیں

سر، میرے بھی ذہن میں یہ بات آئی ۔ پھرمیں نے سوچا کہ شاید مطلع ثانی کے طور پر قابلِ قبول ہو۔ کیا اس کی اجازت نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر اس شعر کو ایسے کر لیتا ہوں

ملے ہیں سُکھ تو ہمیشہ جتا جتا کے مگر
مصیبتیں نہیں آتیں کبھی بتا کے مجھے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
میں تو عروض دانی کا دعویٰ نہیں کرتا، ممکن ہے کہ تمہاری بات درست ہو لیکن روانی بہر حال متاثر ہوتی ہے اس قسم کی اجازتوں سے۔ لیکن تن بھی بے دخل کی ے کا اسقاط گوارا نہیں یا دخل کی خ پر زبر لگانا پڑے گا۔
دوسرا شعر بہتر ہو گیا اب
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
سر، شُکریہ

یہ دو اشعار اب دیکھیے

کہ میرے نام سے اب جانتے ہیں لوگ اسے
دیا ہے عشق نے بس کُل یہی کما کے مجھے

اگر یہ شرط ہے، میں پوچھ کر ملوں اس سے
تو وُہ بھی آئے مرے خواب میں، بتا کے مجھے
 
محترم الف عین صاحب
سر، شُکریہ

یہ دو اشعار اب دیکھیے

کہ میرے نام سے اب جانتے ہیں لوگ اسے
دیا ہے عشق نے بس کُل یہی کما کے مجھے

اگر یہ شرط ہے، میں پوچھ کر ملوں اس سے
تو وُہ بھی آئے مرے خواب میں، بتا کے مجھے
میرے خیال سے شاید یوں بہتر ہو

جو میرے نام سے اب جانتے ہیں لوگ اسے
یہی دیا ہے مرے عشق نے کما کے مجھے
 
Top