فرائڈ

فرائیڈ کو گو نئے دور کے اکابر نفسیات دانوں میں گنا جاتا ہے مگر خوابوں کے فلسفہ پر بھی شاید فرائیڈ سے زیادہ کسی کی تحقیق نہیں ہے۔ خاصی متنازعہ شخصیت ہیں موصوف مگر دلچسپ بھی۔ ایک قول پیش خدمت ہے فرائیڈ کا

“میں نے اکثر دیکھا ہے کہ کسی معمولی نوعیت کا فیصلہ کرتے ہوئے سب سودوزیاں کا خیال رکھنا فائدہ مند ہوتا ہے۔ اہم ترین معاملات جیسے کہ رفیق یا پیشہ ، فیصلہ آپ کے لاشعور ، آپ کے اندر سے آنا چاہئے۔ “
 
جواب آں غزل

یار فرائڈ بیسویں صدی میں نفیسات اور ادب دونوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیت ہے۔ ان کا لاشعور کا نظریہ ہمارے اردو ادب میں میراجی ، منٹو ، مفتی ، ن م راشد، کے ہاں ملتا ہے۔ فرائڈ نے انسان ذہن پر بحث کرتے ہوئے اُس کو کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جن میں اڈ، ایگو اور سپر ایگو شامل ہیں۔ اُن کے نزدیک انسانی ذہن ایک برف کے تودے کی طرح ہے۔ جو جتنا پانی کے باہر ہوتا ہے۔ اتنا ہی پانی کے اندر ہوتا ہے۔ اس لیے انسانی کی ظاہری سوچ اور وضع قطع سے انسانی نفسیاتی اور عادات اور نفسیاتی مسائل تک پہنچنا نا ممکن ہے۔ جس کے لیے فرائڈ نے نفسی تجزیے کے ذریعے انسانی لاشعور تک پہنچنے کی کوشش کی۔لاشعور جو کہ انسانی نفسیاتی اور اُس کے عادات اور اطوار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے لاشعور میں بہت کچھ ایسا ہے جو کہ فطری طور پر ظاہر ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن تہذیبی پابندیوں کی وجہ سے ہم ان کو اپنے اندر دبا دیتے ہیں۔ اس طرح یہ دباو مختلف صورتوں اور نفسیاتی مسائل کی صورت میں بعد میں ظاہر ہوتا ہے۔ فرائڈ کے نزدیک جنس لاشعور کا ہی ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ جس پر تہذیبی پابندیوں کی وجہ سے مختلف مسائل جنم لے رہے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جواب آں غزل

وہاب اعجاز نے کہا:
فرائڈ کے نزدیک جنس لاشعور کا ہی ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ جس پر تہذیبی پابندیوں کی وجہ سے مختلف مسائل جنم لے رہے ہیں۔
جنسی جذبے کو شترِ بے مہار بھی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اسکی تہذیب کے لیے قوانین ضروری ہیں۔
 

دوست

محفلین
فرائیڈ نے فلسفہ جنس کو واقعی بہت اہمیت دی ہے۔ ہر چیزکے پیچھے جنس کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لاتا ہے۔بچے کوبھی نہیں‌چھوڑتا کہتا ہے ماں‌سے الفت بھی جنسی ہوتی ہے بچے کی۔
کر لو گل۔
 
جواب

فرائڈ نے جناب جنس کے حوالے سے کسی چیز کو نہیں چھوڑا وہ تو عمارتوں میں بھی انسانی جنس کی علامتیں تلاش کرتا ہے۔ مینار اور گنبد کی وہ مثال اکثر دیتا ہے۔ سگریٹ پیتے ہوئے بھی اس کے خیال میں انسان جنسی تسکین محسوس کرتا ہے۔ یہاں تک کہ رفع حاجت کے وقت بھی اس کے خیال میں انسان کو جنسی تسکین حاصل ہوتی ہے۔ ان کے بہت سے نظریات کے بعد ان کے اپنے شاگردوں یونگ وغیرہ نے مسترد کردیا تھا۔ لیکن اس کے بہت سے خیالات سے اتفاق نہ رکھنے کے باوجود ہم فرائڈ کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ بلکہ جدید نفیسات کے بانی ہی فرائڈ ہیں۔ لاشعور کی گنجلک دنیا کی دریافت اس کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔
 
سگمنڈ فرائڈ

اس کا نام لوگوں میں نہایت متضاد ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ کوئی اس کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے کسی کا خیال ہے کہ اس نے جنسیت اور جنس پرستی کو فروغ دیا۔ یہ سگمنڈ فرائڈ ہے۔ 6 مئی کو اس کی 150 ویں سال گرہ منائی جا رہی ہے۔ 1939 ء کو لندن میں وفات کے بعد سے یہ یہودی مفکر نہ صرف لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے بلکہ اسے یاد کیا جاتا ہے اور اس کے کام پر بھی غور و خوص ہوتا رہتا ہے۔
ہر مفکر کی طرح اس کی بھی بہت سی باتیں غلط ہیں، اختلاف بھی ہوتا رہا ہے لیکن اس کے خیالات آج بھی انسانی ذہنوں پر مسلط ہونے کی طاقت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ بنیادی طور سے ذہن کا کھوجی تھا، اس نے انسانی ذہن کی ایک پوری نئی دنیا دریافت کر لی تھی۔ اس نے لاشعور کے بارے میں بتایا، اس نے زبان بہکنے اور دماغی بیماری میں تعلق کی اطلاع دی۔ اس نے بتایا کہ بچپن کے تجربات کسی کے کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔ نسلی یا خاندانی امتیاز اور غربت و امارات نہیں، اس نے تحلیل نفسی یا سائیکو اینالسس کا طریقہ علاج تخلیق کیا۔ یہ وہ انقلابی طریقہ علاج تھا جس سے اس نے ثابت کیا کہ قابل تشخیص بیماری کو قدیم ترین طریقے یعنی گفتگو سے قابلِ علاج بنایا جا سکتا ہےے، دواوں‌، جادو ٹونے ، جھاڑ پھونک ، سرجری یا خوراک کی تبدیلی سے نہیں‌بلکہ ہمدرد معالج مریض سے گفتگو کرکے مسلہ حل کر سکتا ہے۔
محض گفتگو سے ذہنی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں اس کا یہ آئنڈیا آج کے ماہرین سے جن کا مزاج پیچیدہ ٹیکنالوجی ہی کو قبول کرنے کا ہے، ہضم نہیں ہو رہا تھا البتہ ڈپریشن جیسے مسائل حل کرنے کے لیے بنائی جانے والی دواوں کے پہاڑ کھڑے ہو گئے لیکن مسئلہ حل نہ ہوا پھر سائیکو اینالسس اور ٹاک تھراپی پر توجہ دینی پڑی۔، فرائیڈ کا یہ آئیڈیا دوبارہ مقبول ہو رہا ہے۔ اس طریقہء علاج سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
فرائیڈ کے نظریات و افکار ثقافت اور ادب کا حصہ ابتدا ہی میں بن گئے تھے۔ آج بھی گفتگو میں اس کا حوالہ عمومی طور پر دیا جاتا ہے، بہت سے ممالک میں اسے سائنسدان سے زیادہ ادبی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے جنس سے متعلق نظریات مشرق ہی نہیں مغرب میں بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنے مثلا اس کا یہ خیال کہ کمسن بچے بھی جنسی فینٹسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ امریکا میں 76 فیصد بالغوں نے مسترد کیا۔
عورتیں بھی اس کی بڑی مخالف ہیں کیونکہ اس کا یہ خیال کہ عورتیں نامکمل مرد ہوتیں ہیں غلط ثابت ہوا ہے۔ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ فرائیڈ بہت سی باتوں میں غلط تو ہے لیکن نہایت دلچسپ انداز سے غلط ہے، اس نے چیزوں کو بالکل نئے انداز سے دیکھنے کا طریقہ دریافت کیا ہے اور نئے گہرے معنی و مفاہیم دریافت کیے ہیں۔ فرائیڈ نے میڈیکل ڈاکٹر کی حیثیت سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 1876 میں وہ لگ بھگ 20 برس کا تھا اور اپنا پہلا طبی مقالہ لکھنے کے لیے ریسرچ میں مصروف تھا ، اس نے بعد میں انسانی دماغ کی ہیئت جاننے پر کام شروع کیا، یہ وہ دور تھا جب اسکیننگ کی سہولتیں نہیں تھیں، ڈی این اے دریافت نہیں ہوا تھا۔ بایولوجی ترک کرکے سائیکولوجی اختیار کرنے تک وہ نیورو سائنٹسٹ کی حیثیت سے دماغ کے بارے میں کافی کچھ جان چکا تھا، وہ یہ بتا رہا تھا کہ دماغ کے مختلف حصوں میں‌کنکشن کس طرح ہوتے ہیں اور کس طرح مربوط ہو کر کام کرتا ہے لیکن اس دور کی سائنس سے یہ سمجھنا اور سمجھانا ممکن نہیں تھا۔ فرائیڈ نے یہ کام چھوڑ دیا جو اس کی موت کے بعد شائع ہوا۔ فرائیڈ نے یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ نیورونز کے رابطے میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔ جدید دور کے نیورو سائنسدانوں نے کام وہاں سے شروع کیا جہاں سے فرائیڈ نے چھوڑا تھا۔
فرائیڈ کے کام کو سمجھنے کی کوشش ابھی جاری ہے، نوبل انعام یافتہ سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر ایرک کینڈیل نے ابتدا سائیکو انالسس کی حیثیت سے کی تھی ، وہ نیورو سائنس اور سائیکو انالسس کے درمیان خلیج پاٹنے کے لیے کام کرتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فرائیڈ ایک جینیس اور نہایت پر مغز و پر فکر آدمی تھا، اس کی بصیرت اور تخیل کا کوئی ثانی نہیں، اگرچہ اس کے بہت سے نظریات غلط ثابت ہوئے لیکن اس نے ہمیں دماغی پیچدگیوں کی عمدہ تصویر بنا کر دکھا دی، وہ 20 ویں صدی کے عظیم مفکر ین میں شامل ہے، اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ہم جو بہت کچھ کرتے ہیں، وہ لاشعوری طور پر ہوتا ہے، یہ بھی اسی نے بتایا کہ خوابوں کے نفسیاتی مطالب ہوتے ہیں اور یہ کہ شیر خوار بچہ بھی سوچنے سمجھنے والا فرد ہوتا ہے، اسے بھی خوشگوار اور ناخوشگوار تجربات ہوتے ہیں۔ فرائیڈ نے ہمیں بتایا کہ کسی مریض کی گفتگو کو اگر توجہ سے سنا جائے تو اس بارے میں بہت علم ہو جاتا ہے کہ اس کا تحت الشعور کیا بتا رہا ہے اور یہ سب انقلابی باتیں ہیں۔
فرائیڈ نے کہا تھا کہ ایک دن آئے گا جب ہمیں سائیکو انالسس اور ذہن کی بایولوجی کو باہم یکجا کر نا پڑے گا لیکن مشکل یہ ہو گئی کہ آنے والی نسلیں سائیکو انالسس کو بایولوجی پر مبنی سائنس بنانے میں ناکام رہیں کیونکہ دواوں کے مقابلے میں یہ دقت طلب علاج ہے اور مہنگا بھی ہے چنانچہ اس کی مقبولیت کم ہوتی گئی، اسے جدید سائنسی خطوط پر ڈھالنے کی ضرورت ہ، اگر آئندہ 15 برس میں یہ ہوگیا تو دماغی امراض کے شعبے میں انقلاب برپا ہو جائے گا۔
ماخوذ(اخبار جہاں)
 

زوجہ اظہر

محفلین
ماہر نفسیات فرائڈ زندہ ہوتے تو سیلفی کے بارے میں کیا کہتے؟

ٹامس چمورو پریمزک، ماہرِنفسیات بی بی سی آئیڈیاز

8 اپريل 2019

آپ دنیا کے حسین ترین مقام پر بھی چلے جائیں، آپ کو لوگ وہاں بھی تصویر بناتے دکھائی دیں گے ۔ ۔ ۔ مگر اپنی!

شاید ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی ہی تصویر بنانا یا ’سیلفی‘ کوئی نئی چیز ہے۔ جہاں تک اس لفظ کا تعلق ہے تو یہ پہلی مرتبہ سنہ 2013 میں آکسفرڈ انگلش ڈکشنری میں متعارف کرایا گیا تھا اور اس کے بعد نہایت تیزی سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔

لیکن سیلفیاں بنانا اتنا ہی پرانا ہے جتنی خود فوٹوگرافی۔ دنیا میں پہلی سیلفی 1839 میں ایک امریکی شہری نے بنائی تھی جن کا نام روبرٹ کارنیلیئس تھا۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم ہر صبح غسل خانے کے آئینے میں خود کو سراہ لیتے ہیں تو پھر ہم دن بھر سیلفی کیوں لیتے رہتے ہیں۔

یہ ذرا عجیب سے بات لگتی ہے ۔ ہے نا؟ ہمارے اس خاص انسانی رویے کے بارے میں سگمنڈ فرائڈ سے بہتر کون بتا سکتا ہے۔


مجھے خود سے پیار ہے، دیکھیں گے تو آپ کو بھی ہو جائے گا


فرائڈ نے نہ صرف انسانی عادات اور حرکات کے سائنسی مطالعے کی بنیاد رکھی بلکہ آسٹریا میں پیدا ہونے والے اس ماہرِ نفسیات نے کئی اصطلاحوں کو عام لوگوں میں بھی مقبول بنا دیا، جیسے ایگو (شعوری ذہن) ان کانشس (لاشعور) اور نفسیاتی علاج (تھیراپی) وغیرہ

ان اصطلاحوں میں ایک اور اصطلاح بھی شامل ہے اور وہ ہے نارسسزم یا ’نرگسیت‘ یعنی خود سے بہت زیادہ پیار۔

یونانی دیو مالائی کہانیوں کے مطابق نارسیسس نامی ایک نوجوان ایک دن دریا کے کنارے چلا جا رہا تھا تو اسے پانی پینے کا خیال آیا۔ جب وہ پانی پینے کے لیے دریا میں جھکا تو اسے اپنا عکس دکھائی دیا۔ وہ اپنی خوبصورتی کی تعریف کرنے میں اتنا محو ہو گیا کہ اپنے ارد گرد سے بالکل بے خبر ہو گیا۔

آخر وہ اپنے ہی عکس کو گلے لگانے کی کوشش میں دریا میں ڈوب گیا۔

فرائڈ کہتے ہیں کہ تھوڑی سے خود پسندی ایک قدرتی بات ہے۔

لیکن جب کوئی انسان خود کو اس قدر چاہنے لگے کہ اور اسے کوئی دوسر اچھا ہی نہ لگے تو یہ خود پسندی ایک نفسیاتی مرض بن جاتی ہے۔

نرگسیت سے ہماری مراد اسی قسم کی خود پسندی ہے۔

نرگسیت کا ٹیسٹ

ماہرین نفسیات نے نرگسیت جیسے نفسیاتی مسائل کو سمجھنے کے لیے کئی قسم کے تجربات یا ٹیسٹ بنائے ہیں۔

ان ٹیسٹ کے کچھ نتائج کچھ یوں ہیں:

لیکن صرف مردوں کی صورت میں


مردوں کے مقابلے میں خواتین نرگسیت کی شکار کم ہوتی ہیں، حالانکہ خواتین مردوں کی نسبت زیادہ سیلفیاں پوسٹ کرتی ہیں۔

تاہم، امریکی ماہر نفسیات جین ٹوینگ کہتی ہیں کہ لوگوں میں نرگسیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر گذشتہ دس برسوں میں نرگسیت میں اسی شرح سے اضافہ ہوا ہے جس شرح سے موٹاپے میں اضافہ ہوا ہے۔

ہر وقت صوفے پر

فرائڈ نے انسانی نفسیات سے متعلق جو نظریے ہیش کیے ہیں ان کی اکثریت کی بنیاد ان کا اپنا مشاہدہ تھا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کل جس قدر معلومات ہم انسانی عادتوں کے حوالے سے جمع کر سکتے ہیں، وہ فرائڈ جیسے ماہر کے لیے بہت زیادہ دلچسپی کا سامان ہوتیں۔

وہ اس بات کو نوٹ کرتے کہ زیادہ تر لوگ سوشل میڈیا پر سیلفیاں اس لیے پوسٹ نہیں کرتے کہ انھیں خود سے بہت پیار ہوتا ہے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کو دیکھنے والا ہر شخص ان سے پیار کرے۔

توجہ حاصل کرنے کی خواہش

ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ فرائڈ جب انیسویں صدی کے آخری برسوں میں نرگسیت جیسے موضوعات پر تحقیق کر رہے تھے تو جنسی رجحانات اور جنسی میلان کے اظہار پر بہت دباؤ ہوا کرتا تھا۔

ان دنوں میں خواتین اور مردوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا تھا اور انھیں یہ پڑھایا جاتا تھا کہ جنسی میلان کا اظہار کرنے پر انھیں شرمندگی ہونا چاہیے اور جنسی تعلق سے لطف اٹھانا تو بہت ہی بری بات ہے۔

یہاں تک کے ویانا کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے فرائڈ کے مریضوں کی اکثریت ’ہسٹیریکل پیرالیسِز‘ یا ’ہیجانی فالج‘ میں مبتلا تھی۔۔ ہیجانی فالج ایک ایسی کیفیت کو کہتے ہیں جس میں انسان کسی واضح جسمانی وجہ کے بغیر اٹھ کر چل نہ سکے

فرائڈ کا خیال تھا کہ ان خواتین کے نہ چلنے پھرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں بننا چاہتی تھیں۔

تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر ہمیں لوگوں کی توجہ کی اتنی زیادہ ضرورت پڑتی ہے تو بہتر نہیں کہ ڈھیٹ ہو جائیں اور کچھ سیلفیاں سوشل میڈیا پر شیئر کرلیں؟

شاید یہ بات درست ہو، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کا خبط کوئی غیر صحتمندانہ علامت نہیں ہے۔ یہ نہ صرف سیلفی لگانے والے کے لیے بری ہے بلکہ دیکھنے والے پر بھی اس کے منفی اثرات ہو سکتے ہیں

سیلفی بنا کر اور پھر اسے بڑی احتیاط کے ساتھ ایڈٹ کر کے زیادہ تر یہ دکھایا جاتا ہے کہ آپ بڑی زبردست زندگی گزار رہے ہیں۔

اسی لیے آج کل ہمارے ارد گرد ایسی تصویروں کا انبار لگا رہتا ہے جس میں لوگ شاندار زندگی گزارتے نظر آتے ہیں اور وہ جسمانی طور پر بھی بڑے چاک و چوبند اور سمارٹ دکھائی دیتے ہیں۔

حالیہ تحقیق میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب ہم اس قسم کی تصویریں دیکھتے ہیں ہمیں حسد ہوتا ہے، ہم خود کو اکیلا، زیادہ غیر محفوظ اور کسی کمی کا شکار محسوس کرتے ہیں۔

فرائڈ کے الفاظ میں یہ چیز ہمارے اعصاب پر اثر کرتی ہے اور ہم زیادہ نیوروٹِک ہو جاتے ہیں۔

فرائڈ کے بقول ’نفسیاتی تجزیے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس قسم کے اعصابی خلل کو عام انسانی خوشی سے تبدیل کیا جائے۔‘

اگلی مرتبہ جب آپ سیلفی لینے کا سوچیں تو یاد رکھیں کہ آپ نے نرگسیت کا شکار نہیں ہونا بلکہ اپنے دوستوں کا سوچنا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنی اِس سیلفی پر اتنے ’لائیکس‘ نہ ملیں جتنے آپ چاہتے ہیں، لیکن فرائڈ نے آپ کو اس کی اجازت دے دی ہے اور میرا خیال ہے یہ آپ کے لیے بڑی بات ہے!

فرائڈ زندہ ہوتے تو سیلفی کے بارے میں کیا کہتے؟ - BBC News اردو
 

زوجہ اظہر

محفلین
فرائیڈ! ہم شرمندہ ہیں —- ڈاکٹر فرحان کامران

علم نفسیات پڑھ کر ہمیں پہلی بار یہ محسوس ہوا تھا کہ ہم کوئی حقیقی علم پڑھ رہے ہیں، ایک ایسا علم جو ہمیں حیات اور کائنات کی آگاہی میں مدد دیتا ہے۔ اُس وقت جامعہ کراچی کے شعبہ نفسیات میں’’بابائے نفسیات‘‘ سگمنڈ فرائیڈ کو ہی سمجھا جاتا تھا۔ گو کہ اِس ’’باپ‘‘ کے خلاف سازشوں کا آغاز ہو چکا تھا اور اسے فلم ’’باغبان‘‘ کے ہیرو کی طرح ڈپارٹمنٹ سے دیس نکالا دیا ہی جانے والا تھا۔ 1856ء میں سابقہ آسٹرو ہنگرین امپائر میں جنم لینے والے اس نفسیاتی معالج میں ایسا کیا خاص تھا کہ ایک عالم اس کی تعریف یا تنقیض میں مگن ہے اور اب خود اہل نفسیات اُس کو گہرا دفن کر دینے کے درپے ہیں؟

فرائیڈ نے بنیادی طور پر طب کی تعلیم حاصل کی تھی۔ یہاں اس کا پالا ایسی بیماریوں سے پڑا کہ جو جسمانی وجوہ نہ رکھتی تھیں یعنی جو نہ کسی وائرس کا نتیجہ تھیں نہ کسی عضو کی خرابی کا، نہ ہی کسی اور نوع کی جسمانی بنیاد رکھتی تھیں مگر انسانوں کو گھیرے ہوئے تھیں۔ اس وقت ’’اسٹرکچرل ازم‘‘ اور ’’فنکشنل ازم‘‘ نام کی تحاریک نے علم نفسیات کو گھیر رکھا تھا اور ان بیماریوں کو کوئی توجیح موجود ہی نہ تھی۔ فرائیڈ خدا کا انکاری تھا اس لئے روح کے تصور اور روحانی بیماری اور علاج کے تناظر میں بھی ان بیماریوں کو دیکھنے سے قاصر تھا۔ یہاں اس نے ایک نئی راہ نکالی، اس نے سائیکی (Psyche) یعنی معروف معنوں میں مائنڈ (Mind) کے تصور کی بنیاد ڈالی۔ ’’مائنڈ‘‘ جو ’’روح‘‘ نہیں تھا بلکہ اگر کمپیوٹر کی اصطلاح میں بات کریں تو ہمارے جسم کے ہارڈ ویئر میں انسٹالڈ سافٹ ویئر کا درجہ رکھتا ہے۔ مگر بات صرف یہیں تک کی نہیں تھی۔ فرائیڈ نے انسانی لاشعور کو دریافت کیا اور یہ بتایا کہ انسان کے افعال صرف شعور اور سوچ کا ہی حاصل نہیں ہوتے بلکہ انسان کی خواہشات اور جذبات کا حقیقی پاور ہاؤس تو لاشعور ہے۔

فرائیڈ نے بتایا کہ انسان کے افعال کے پیچھے دو ہی قسم کے محرکات ہوتے ہیں، دو ہی قسم کی جبلتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ جنسی جبلت یعنی محبت اور موت کی جبلت۔ فرائیڈ نے انسانی جنسی جذبے کو بلوغت پر پیدا ہو جانے والا کوئی جذبہ قرار نہ دیا بلکہ بچے کی ولادت کے لمحے سے ہی اس میں جنسی اور موت کی جبلت کے مظاہر دیکھے اور اپنی کتاب میں وضاحت سے بیان کیے۔ فرائیڈ کے نزدیک دراصل انسانی نفسیاتی نشونما، جنسی نفسیاتی مراحل (Psycho-sexual stages) میں ہوتی ہے۔ بچہ ماں کے دودھ پینے کے عمل اور بعد ازاں فضلہ کے اخراج اور پھر اعضاء تناسل کی چھیڑ خانی اور پھر ایک جنسی سناٹے کے بعد بالغ جنسیت کی صورت میں اپنی جنسی جبلت کا اظہار کرتا ہے۔ فرائیڈ نے جنسی قوت کے اظہار کو اس کی خالص اور خام صورت میں ہی ظاہر ہونے کا بیان نہیں کیا بلکہ سماجی اصولوں کی وجہ سے جنس پر اور غصہ پر جو قدغن لگتے ہیں، اس سے یہ قوتیں مختلف صورتوں میں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ فرائیڈ کہتا ہے کہ تہذیب کی ابتداء اس دن ہوئی کہ جس دن انسان نے پتھر مارنے کی جگہ گالی بکی۔

فرائیڈ نے مذہب کا انکار کیا اور اسے اجتماعی خوف سے بچنے کا طریقہ بتایا مگر خود فرائیڈ نے مذہب کا انکار کر کے بھی ایک خالص اخلاقی زندگی گزاری۔ بس وہ سائناگوگ نہ جاتا تھا۔ وہ کسی اور طرح کی زندگی گزارنے کے خود بھی خلاف تھا، اس لئے کہ Sublimation کو وہ خود بھی خام جنسیت یا خام جبلت مرگ پر فوقیت دیتا تھا۔ اس دور میں کہ جب فرائیڈ نے اپنی تحقیقات پر مبنی کتب تحریر کیں، ایک طوفان برپا ہو گیا۔ عیسائیت گو کہ مغربی معاشرے اور سیاست سے نکل رہی تھی مگر پھر بھی سماج کے لئے ایسا کوئی نظریہ قابل قبول نہ تھا کہ جو یوں انسانی نفس کی حرکیات میں جنس کو اور غصے کو بطور جوہر تسلیم کر لے۔ فرائیڈ مذاہب کو نہیں مانتا کیوں کہ وہ خدا کو نہیں مانتا مگر وہ یورپ کا ایسا پہلا شخص نہیں تھا۔ شوپنہار، نطشے اور مارکس وغیرہ بلکہ اگر مذہب کی تردید کرنے والے اہل یورپ کی فہرست مرتب ہو تو دفتر کے دفتر بھر جائیں۔ کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فرایڈ کو دراصل منکر خدا ہونے کے باعث نکالا اکیڈیمیا سے نکالا جا رہا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ دراصل اس لئے نہیں ہے کہ وہ تردید مذہب کرتا ہے، اس خوف کی اصل وجہ یہ ہے کہ فرائیڈ نے لاشعور کو انسانی افعال کے پیچھے موجود اہم ترین محرک قرار دیا ہے۔

ایک ایسا متحرک جو نامعلوم ہے مگر نفس انسانی کو حرکت دیتا ہے۔ ایک ایسا محرک جو خوشی اور غم کا حقیقی ماخذ ہے مگر اس کی بنیاد نہ انا میں ہے نہ ضمیر میں نہ بیرونی حقیقت میں۔ یہ اتنی Unmanagable بات ہے، یہ بات اپنے اندر اتنا بڑا سونامی ہے کہ اس پر کوئی بند باندھا ہی نہیں جا سکتا۔ اگر ہمارے لوگوں اور نام نہاد نفسیات دانوں کو فرائیڈ اس لئے ناقابل قبول ہے کہ وہ خدا کو نہیں مانتا یا وہ ’’مخرب‘‘ باتیں کرتا ہے تو اہل مغرب کیوں فرائیڈ کو تہہ خانوں میں چھپا دینا چاہتے ہیں جو خودخام جنسیت اور خام جبلتِ موت کی تصویر بنتے ہی چلے جارہے ہیں اور خدا کا انکار وہاں کی زندگی کا سب سے بڑا مظہر ہے؟ وہ کیوں فرائیڈ سے بھاگ رہے ہیں؟ کوگنیٹو (Cognitive) نفسیات یا بی ہیویئرازم (Behaviourism) اسی لئے مغرب اور ہمارے یہاں یوں ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا ہے کہ سوچیں اور رویے تو مینج (Manage) کیے جا سکتے ہیں مگر لاشعور؟

مگر مسئلہ یہ ہے کہ فرائیڈ کی سائیکو انالیسس (Psychoanalysis) کا کورس نصاب سے نکال دینے والے بھی ابھی تک جنسی جبلت اور جبلت موت کے گھیرے میں نظر آتے ہیں۔ انہیں نے بھی بچپن میں چیونٹیوں اور کیڑوں کو جوتوں سے کچل کچل کر مارنے میں مزہ پایا ہے اور اپنے پیشاب پر پیر مار کر ’’چھپ چھپ‘‘ کیاہیں۔ کوگنیٹو نفسیات اور ’’بی ہیویئرازم‘‘ ان مظاہر کا کیا جواب دے سکتے ہیں بھلا؟ حالانکہ کوگنیٹو نفسیات اور ’’بی ہیویئرازم‘‘ دہریت کی وہ اگلی منازل ہیں کہ فرائیڈکی سائیکو انالیسس تو اس کے پاسنگ میں بھی نہیں اس لئے کہ فرائیڈ ایک نامعلوم حقیقت یعنی لاشعور پر تو ’’ایمان‘‘ رکھتا ہے جب کہ یہ اسکنر، واٹسن، ہیک، ایلس وغیرہ تو بس جو دیکھتے ہیں وہی مانتے ہیں۔ بلکہ مانتے تو اس کو بھی نہیں ہیں بلکہ ایسے سوالات پر جب رویوں کی وجوہات پوچھی جائیں تو سوال کرنے والوں کو جھڑک کر کہتے ہیں کہ ’’چھوڑو وجوہات کو‘‘ بس رویوں کو manage کرنا سیکھو‘‘۔

جامعہ کراچی کے نصاب میں فرائیڈ جتنا 2005ء میں تھا، آج اس کا 10 فیصد بھی نہیں ہے۔ ہمیں جو اساتذہ یہ بتایا کرتے تھے کہ فرائیڈ جدید علم نفسیات کا باپ ہے آج جب ہم اُن سے کبھی ازراہ مذاق یہ پوچھ لیتے ہیں کہ اب کون ہے نفسیات کا باپ تو وہ گھبرا جاتے ہیں۔ حال ہی میں اس سوال کا ایک مزاحیہ جواب ہمیں سننے کو ملا کہ ’’کسی علم کا کوئی باپ نہیں ہوتا، فرائیڈ نے نفسیات کا علم ایجاد تھوڑی کیا تھا‘‘۔ ہم نے سوال تھوڑا بدل کر پوچھ لیا، کہ پھر یہ بتا دیجئے کہ علم نفسیات کی اہم ترین شخصیت کون ہے؟ جواباً گھبراہٹ اور بڑھ گئی اور کافی غور و خوض کے بعد کارل یونگ (Carl Yung) کا نام لیا گیا۔ ہماری ہنسی چھوٹ گئی۔ عجیب بات ہے کہ یونگ کے پاس سوائے فرائیڈ کی اترن کے کچھ بھی نہ تھا اور وہ کبھی بھی اس طرح ایک تحریک نہ بن سکا جیسا کہ فرائیڈ بنا مگر لاشعور سے خوفزدہ لوگوں کے لیے فرائیڈ قابل قبول نہیں، مگر یونگ ہے۔ اس لئے کہ یونگ کے یہاں لاشعور بھی ایک مذاق ہے، ایک زنجیروں میں بندھا ہوا کمزور سا گیدڑ۔ فرائیڈ کے لاشعور کی طرح ’’ڈائناسار‘‘ نہیں۔

فرائیڈ ہی جدید علم نفسیات کا باپ ہے اور فرائیڈ کی صحیح تنقید بھی اس کے علم اور آگاہی سے ہی پیدا ہو سکتی ہے، اس سے آنکھ بند کر کے نہیں۔ مگر اس جھوٹ کے دور میں کون اتنی محنت کرے، کون شعور کی آرام گاہ سے لاشعور میں جھانکنے کی جرأت کرے، کون خود کا تجزیہ کرے؟

خیر فرائیڈ کو دیس نکالے پر نفسیات کے اساتذہ بڑے خوش ہیں، اب جنس سے متعلق تو کوئی موضوع تو پڑھانا نہیں پڑتا اور فرائیڈ جیسا گہرا فلسفہ پڑھانا کون سا بچوں کا کھیل تھا؟ پڑھانے والے کی ہی ساری قابلیت کا پردہ کھل جاتا تھا، مگر اب سب کے لئے آسانی ہے، سب خوش کہ فرائیڈ مع لاشعور کے اب علم نفسیات کی درسگاہوں سے بھی رخصت ہوا۔ مگر میں فرض کفایہ کے طور پر تحریر میں فرائیڈ سے شرمندگی کا اظہار کرتا ہوں۔ بحیثیت استاد علم نفسیات، میں کم از کم یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ فرائیڈ ہی جدید علم نفسیات کا باپ ہے اور فرائیڈ کی صحیح تنقید بھی اس کے علم اور آگاہی سے ہی پیدا ہو سکتی ہے، اس سے آنکھ بند کر کے نہیں۔ مگر اس جھوٹ کے دور میں کون اتنی محنت کرے، کون شعور کی آرام گاہ سے لاشعور میں جھانکنے کی جرأت کرے، کون خود کا تجزیہ کرے؟ اس سے آسان ہے کہ آنکھ بند کر لو اور فرائیڈ کو نکال دو بلکہ کہہ دو کہ فرائیڈ کوئی تھا ہی نہیں، کبھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ جس فرائیڈ کا نام کبھی سننے کو مل جاتا ہے یہ تو ایک ’’لاشعوری‘‘ الجھن ہے اور بس۔

https://www.google.com/url?sa=t&sou...FjAAegQIAxAC&usg=AOvVaw39nMf5y-lBen6_39GYMesc
 
Top