غلطی ہائے مضامین: روزے گلے پڑگئے ٭ ابو نثر

روزے گلے پڑگئے
ابونثر (احمد حاطب صدیقی)
٭
ہفتۂ رفتہ کی بات ہے۔ قومی اخبارات میں اور ٹی وی چینلوں پر ایک سیاسی Upset ہوجانے کا بڑا چرچا رہا۔ واضح رہے کہ یہ چرچا اردو اخبارات اور اردو نشریات میں ہوتا رہا۔ کچھ عرصہ پہلے تک اردو میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ہر قسم کا ’اَپ سیٹ‘ انگریزی ہی میں ہوتا تھا۔ اردو میں تو الٹ پھیر ہوتا تھا۔ غیر متوقع شکست ہوجاتی تھی۔ ایک شکست پر سارا نتیجہ الٹ جاتا تھا۔ یا پھر اچانک کوئی بچھی بچھائی سیاسی بساط پلٹ جاتی تھی، جما جمایا سیاسی اتحاد ’’درہم برہم‘‘ ہوجاتا تھا۔ مگر ایک روز ہم نے ایک نام وَر نظامت کار کو ’’دھرم بھرم‘‘ کہتے سن لیا۔ اُسی روز اپنی رائے سے رجوع لائے کہ ’اَپ سیٹ‘ ہی ٹھیک ہے۔ بات دین دھرم تک پہنچ جائے تو کسی دن ’’دھرم بھرشٹ‘‘ بھی ہوسکتا ہے۔

اسی ضمن میں ایک اہم سیاسی رہنما کی غیر اہم سیاسی بے بسی پر ایک مہم جُو سیاسی تجزیہ نگار نے ایک اخبار میں ایک سیاسی مضمون باندھا۔ مگر صاحبِ مضمون نے مضمون کا عنوان غیر سیاسی باندھ دیا۔ عنوان اس ضرب المثل سے باندھا:
’’گئے تھے نماز بخشوانے، روزے گلے پڑ گئے‘‘
لیجیے، بات پھر دین دھرم تک پہنچ گئی۔ ’کہاں تک بچوگے، کہاں تک بچائیں؟‘ سرخی پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مضمون میں مذکور و مفرور رہنما نے نماز کو اپنی گوناگوں سیاسی مصروفیات کے اکھاڑوں میں ہر سیاسی چال کا اَڑنگا پایا۔ سو، بینک سے لیے ہوئے قرضوں کی طرح نماز بھی معاف کرانے چلے گئے۔ شاید گئے بھی نیب کے دفتر۔ وہاں سے نماز تو معاف نہ ہوئی، اوپر سے روزے بھی رکھنے کا حکم مل گیا، اور یہ حکم نامہ فریم کروا کر اُن کے گلے میں لٹکا دیا گیا۔ لو جی، سیاسی سرگرمیوں پرایک نیا اَڑنگا لگ گیا۔ ہُن نمازاں وی پڑھو تے روزے وی رکھو۔
’اَڑَنگا‘ کہ جس میں الف اور ’ڑ‘ دونوں پر زبر ہے، دراصل پہلوانوں کی کُشتی کا ایک پیچ ہے (داؤ پیچ میں سے ایک پیچ)۔ اِس پیچ میں حریف کی ٹانگ میں اپنی ٹانگ اَڑا کر اُس کو گرا دیتے ہیں اور اِسے کہتے ہیں اَڑَنگا لگانا۔ مجازاً ہر قسم کے رخنے، رکاوٹ اور جھمیلے کو اَڑنگا کہا جاتا ہے۔ اَڑنگے پر برطانوی حکومتِ ہند کا ایک اَڑنگا یاد آگیا۔ سرکارِ انگلیشیہ کی جانب سے جب سرکاری دفاتر میں انگریزی لباس پہننا قانوناً لازم کردیا گیا توشیخ کو اس حُلیے میں دیکھ کر اکبرؔ کی ہنسی نکل گئی:
اس اکھاڑے میں اَڑنگے دیکھ کر قانون کے
شیخ نے تہمد سے ہجرت کی طرف پتلون کے
اَڑنگے کے سوا ہمیں مذکورہ ضرب المثل کی کوئی معنویت نظر نہیں آتی۔ کون، کب، کہاں اور کس سے نماز بخشوانے گیا؟ ذرا سوچیے تو سہی۔ پھرنماز بخشوانے کے نتیجے میں کیوں کر روزے گلے پڑگئے؟ بھلا بتائیے تو سہی۔ قارئین کے اس بھرے مجمع میں ہے کوئی بھائی جس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب موجود ہو؟ اگر ہو تو ہاتھ کھڑا کرکے آواز دے۔

یہ ’’بخشوانا‘‘ بھی خوب ہے۔ فارسی مصدر ’’بخشیدن‘‘ (عنایت کرنا، معاف کردینا، مفت میں عطا کردینا وغیرہ) سے اردو میں بڑے دلچسپ دلچسپ محاورے بنے، قصور بخشوانے اور دودھ بخشوانے سے لے کر قرآن پڑھ کر بخشنے اور نماز بغیر پڑھے بخشوا لینے تک۔ گناہوں کی مغفرت کے لیے بھی بخشش ہوجانے اور بخش دیے جانے کا لفظ عام ہے۔ دیکھیے ذوقؔ نے چہرے کے تل سے کیا نکتہ نکالا ہے:
مدّاحِ خالِ رُوئے بتاں ہوں مجھے خدا
بخشے تو کیا عجب کہ وہ نکتہ نواز ہے​
’بخش دو‘ کا ایک مطلب جان چھوڑدو بھی ہے۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ ہمارے بھائی اقبال الرحمٰن قمرؔ فاروقی فرماتے ہیں:
میرے غم کو غمِ مسلسل کر ہی دیا غم خواروں نے
بخشو صاحب، باز آئے ہم اچھی یہ غم خواری کی​
(شعر کا دوسرا مصرع پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اپنے عزیز دوست خدا بخش عرف بخشُو کو آج بخشے گا نہیں۔)

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ذکر تھا اُس ضرب المثل کا جس کو لوگ باگ بے سوچے سمجھے استعمال کرجاتے ہیں۔ تجزیہ نگار صاحب نے توشایداپنا سنا سنایافقرہ جوں کا توں عنوان کے طور پر ٹھونک دیا۔ مگریہ ضرب المثل ماضی بعید سے کچھ اس طرح استعمال کی جاتی رہی ہے: ’’گئے تھے نمازیں بخشوانے، اُلٹے روزے گلے پڑ گئے‘‘۔ یہ مَثَل ایسی صورتِ حال پر چسپاں کی جاتی ہے جب کوئی شخص کسی مصیبت سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے، پُرانی کے ساتھ ساتھ ایک نئی مصیبت میں بھی پھنس جائے۔اوّل تو ایسا کوئی واقعہ کبھی اور کہیں رُونما ہی نہیں ہواکہ نماز بخشوانے سے روزے گلے پڑگئے ہوں، جسے اس ضرب المثل میں مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوم دین کی بنیادی عبادات کو ’مصیبت‘ کے طور پر پیش کرنا علما ہی میں نہیں عامۃ المسلمین میں بھی ایک گستاخانہ رویہ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر دینی شعائر کا مذاق اڑایا جائے یا استہزائیہ انداز اختیار کیا جائے تو سورہ توبہ کی آیات 65 اور 66 کی رُو سے یہ معاملہ کفر تک جا پہنچتا ہے۔سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے اصرار پر پچاس نمازیں کم کروا کر پانچ نمازوں تک لانے کا معاملہ سفرِ معراج کا ہے۔ معراج کا واقعہ مکۂ معظمہ میں پیش آیا، جب کہ روزے اس واقعے کے کئی برس بعد سن 2 ہجری میں مدینۂ منوّرہ میں فرض ہوئے۔ ’’گئے تھے نمازیں بخشوانے…‘‘ کہہ کر مذاق اڑانا ایمان سے محروم کرسکتا ہے اور تمام نیک اعمال اورعبادات کے ضائع جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب سے استفتاء کیا جا سکتا ہے۔

اردو کے اچھے اچھے محاورے ترک کر دیے گئے۔ مگر بُرے محاورے نہ جانے کیوں ترک نہیں کیے جاتے۔
صاحبانِ ایمان پروقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی جانے والی ’’صلوٰۃ‘‘کے لیے فارسی زبان میں لفظ ’’نماز‘‘ استعمال کیا گیا(’ن‘ پر زبر ہے) یہی لفظ اردو میں بھی آگیا۔ لفظ ’’نماز‘‘ کے لغوی معانی میں پوجا پاٹھ ، سرجھکانے، ماتھا رگڑنے یا پیشانی گھسنے جیسے تمام مراسمِ عبودیت شامل ہیں۔ جیسا کہ داغؔ صاحب نے اپنے اسی قسم کے تجربات کی روشنی میں ایک دن شیخ صاحب کو طعنہ دیاتھا:
کب کسی در کی جبہہ سائی کی
شیخ صاحب نماز کیا جانیں​
’جبہہ سائی‘(جَب ہَہ سَائی) کا مطلب ہے ماتھا ٹیکنا، کسی کی چوکھٹ پر پیشانی رگڑنا یا سجدہ کرنا۔ مگر اب اردو میں لفظ ’نماز‘ صرف اور صرف اسلام کے اہم رُکن ’صلوٰۃ‘ کے مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو کے روزمروں اور محاوروں میں بھی اب نماز کے یہی معنی ہیں۔ مثلاً پنج وقتہ نمازی، نماز قائم کرنا، نماز پڑھنا، حضورِ قلب سے نمازادا کرنا، جس کے نہ کرنے پرزاہد کو طعنہ دیتے ہوئے آتش ؔدوڑ لیے:
اِک دن حضورِ قلب سے ہوتی نہیں ادا
زاہد تری نماز کو میرا سلام ہے​
پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ نمازِ جمعہ، نمازِ عیدین، نمازِ جنازہ، نمازِ استسقا، نمازِ شکرانہ اور نمازِ قصر وغیرہ سب سے مراد صلوٰۃ ہی ہے ۔ ’’استسقا‘‘ کا لفظی مطلب ہے پانی طلب کرنا۔ بارش کے لیے دعا کرنے کو ’نمازِ استسقا‘ پڑھی جاتی ہے۔ اب یہاں ناسخؔ نے بھی زاہد کو ایک طعنہ دے مارا:
پڑھ چکے زاہد نمازیں مینھ برستا ہی نہیں
دامنِ تر اب تو اے ساقی نچوڑا چاہیے​
نمازِ قصر سے مراد وہ نماز ہے جو سفر میں مختصر کرکے پڑھی جاتی ہے، یعنی چار رکعت والی نمازوں کی صرف دو رکعت ادا کرتے ہیں۔ بے چارے راسخؔ اس سے بھی محروم رہے:
ہوتی نمازِ قصر یہاں کس طرح ادا
واعظ میں بتکدے میں تھا لیکن مقیم تھا​
محاورے تو اور بھی بہت سے ہیں جن کے ترک کی شدید ضرورت ہے۔ مثلاً زمانۂ قدیم سے ایک اور محاورہ چلا آرہا ہے ’صلواتیں سنانا‘۔ لغات میں اس کا مطلب لکھا ہے: بُرا بھلا کہنا، گالیاں دینا، دشنام یا فضیحتا کرنا وغیرہ۔
خود میر محمد تقی صاحب اعلیٰ اللہ مقامہٗ المعروف بہ میر تقی میرؔ جیسے ’حاملِ عزتِ سادات‘ شاعر کا یہ شعر ہے:
پڑھتا تھا میں تو سبحہ لیے ہاتھ میں درود
صلواتیں مجھ کو آ کے وہ ناحق سنا گیا​

جب کہ’صلوات‘ کا مطلب بھی درود شریف ہی ہے۔ حسنِ کلام کے لیے درود کا لفظ اس شعر کے پہلے مصرعے میں استعمال بھی ہوا ہے۔ محرم کی مجالس میں ہر دل لگتی بات پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم یا آلِ رسولؐ کا ذکر آجانے پر آج بھی یہ نعرہ لگتا ہے: صلوات بر محمدؐ و آلِ محمدؐ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے مقدس لفظ کو’ گالیوں‘ کے لیے پہلی بار استعمال کرنے والا کون ناپاک شخص تھا؟ اگرچہ کچھ لوگ لکھتے وقت احتیاطاً املا بدل دیتے ہیں، ’ص‘ کی جگہ’س‘ لکھ دیتے ہیں، مگر بولتے وقت تو تلفظ وہی رہتا ہے۔ اردو میں تو ’ص‘ اور’ س‘ کی صدا میں سدا سے کوئی فرق نہیں رہا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس مضمون میں صدیقی صاحب نے اردو کے ایک دلچسپ اور اہم لسانی موضوع پر قلم اٹھایا ہے یعنی وہ محاورے اور الفاظ جن میں مذہبی شعائر کی تضحیک وتحقیر کا پہلو نظر آتا ہے ۔ اس پر کچھ تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے لیکن اس وقت کمپیوٹر میسر نہیں اور فون پر طویل تحریر لکھنا دشوار ہے ۔ سو تفصیلی تبصرہ ادھار ۔
 
اس مضمون میں صدیقی صاحب نے اردو کے ایک دلچسپ اور اہم لسانی موضوع پر قلم اٹھایا ہے یعنی وہ محاورے اور الفاظ جن میں مذہبی شعائر کی تضحیک وتحقیر کا پہلو نظر آتا ہے ۔ اس پر کچھ تبصرہ کرنے کا ارادہ ہے لیکن اس وقت کمپیوٹر میسر نہیں اور فون پر طویل تحریر لکھنا دشوار ہے ۔ سو تفصیلی تبصرہ ادھار ۔
لگتا ہے مصروفیت تاحال برقرار ہے! ہم آپ کے منتظر ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
صدیقی صاحب کا مضمون پڑھ کر چند نکات فوراً ذہن میں آئے تھے اور خیال تھا کہ اس پر نسبتاً مفصل تحریر لکھوں گا لیکن اب اتنا وقت گزرنے کے بعد وہ نکات بھی ذہن سے محو ہوگئے اور تفصیلی تحریر کا خاکہ بھی باقی نہ رہا۔ سو کچھ غیر مربوط سی باتیں لکھ دیتا ہوں ۔
1۔ اردو پر مذہبی زبان ہونے کا الزام بہت پرانا ہے ۔ چونکہ اردو کی ابتدا ہندوستاں میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شروع ہوئی اور اس کا ناطہ مسلمانوں اور اسلامی لٹریچر سے بہت گہرا رہاہے اس لئے اس الزام میں بظاہر کچھ حقیقت بھی نظر آتی ہے لیکن اردو پر یہ الزام درست نہیں ہے ۔ ( برسبیلِ تذکرہ ، پچھلی کئی دہائیوں میں اس الزام کو بنیاد بنا کر بھارت میں منظم طور پر اردو کشی کی گئی ہےاور اردو پر یہ ظلم ابھی تک جاری ہے)۔ اردو مسلمانوں کے علاوہ ہندوستان کی دیگر قوموں کی زبان بھی رہی ہے اور بول چال کی حد تک ابھی بھی مستعمل ہے ۔ اردو کادامن ہندو اور سکھ شعرا و ادبا کی تخلیقات سے مالا مال ہے ۔ کبیر داس ، چکبست اور فراق اردو کے مشہور شعرا میں شمار ہوتے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
۲۔ اردو میں ایسے بہت سارے الفاظ ، اصطلاحات اور کہاوتیں رواج پاچکی ہیں کہ جن میں اسلامی شعائر کی تضحیک و تحقیر کا پہلو نکلتا ہے ۔ ( یہاں ان کی مثالیں دینا ضروری نہیں ہے ہم سب ان سے واقف ہیں) ۔ ان الفاظ اور کہاوتوں کی ابتدا کا پتہ چلانا تو تحقیق طلب ہے اور خاصا دشوار کام معلوم ہوتا ہے لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اردو شعرا اور نثر نگاروں نے ان کی ترویج میں واضح حصہ لیا ہے ۔ اکثر شاعروں اور ادیبوں کی مذہب سے دوری اور رندانہ طبیعت معلوم اور مشہور ہے ۔ اردو کی شاعری اور نثر شیخ ، صوفی اور واعظ کی تحقیر سے بھری پڑی ہے ۔ جنت اور حور تو گویا انگریزی محاورے کے مطابق " بٹ آف ایوری جوک" ہیں ۔ کعبہ اور زمزم وغیرہ بھی گویا عام سی باتیں ہیں جن کے بارے میں جو چاہے کہا جاسکتا ہے۔ نماز روزے ، اور دیگر شعائر کا مذاق اڑانا اور ان کے مقابل مسلکِ رندانہ کو افضل بنا کر پیش کرنا عام سی بات ہے۔ اردو شاعری میں گستاخی نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ۔ شاعر کی زبان دراز اور آزاد ہے اور مزید ہوتی جارہی ہے ۔
۳۔ محولہ بالا متنازعہ الفاظ اور محاوروں کو اردو زبان سے نکالا تو نہیں جاسکتا اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کی جانی چاہیے کہ زبان تو بولنے والوں کی ملکیت ہوتی ہے اور اردو بولنے والوں میں ہر طبقۂ فکر اور مسلک کے لوگ ہیں ۔ لیکن وہ لوگ جو مذہبی شعائر کا احترام کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی تقریر و تحریر میں ان الفاظ کے استعمال سے پرہیز کریں اور غیر شعوری طور پر اس قسم کی زبان کی ترویج کا حصہ نہ بنیں ۔ یعنی کسی لفظ کو بدلنا تو ہمارے اختیار میں نہیں لیکن اسے برتنا یا نہ برتنا ہمارے اختیار میں ہے ۔ سو اچھی زبان کو فروغ دینا چاہئے ، ایسی زبان جو ہماری سوچ اور طرزِ زندگی کی آئینہ دار ہو ۔
 

زوجہ اظہر

محفلین
باتوں باتوں میں استاد صاحب کے سامنے لفظ "مجازی خدا"
استعمال کیا تھا
جناب نےگھرکا (ٹوکا) کہ اس لفظ سے اجتناب کیجئے گا
آپ کیا سمجھتی ہیں کہ نعوذباللہ مجاز میں دوسرا خدا ممکن ہے
نہیں بالکل نہیں حقیقت تو دور مجاز میں بھی نہیں ..
وہ وحدہ لا شریک لہ ہے بس وہ ہی ہے اور کوئی نہیں
 

زیک

مسافر
صدیقی صاحب کا مضمون پڑھ کر چند نکات فوراً ذہن میں آئے تھے اور خیال تھا کہ اس پر نسبتاً مفصل تحریر لکھوں گا لیکن اب اتنا وقت گزرنے کے بعد وہ نکات بھی ذہن سے محو ہوگئے اور تفصیلی تحریر کا خاکہ بھی باقی نہ رہا۔ سو کچھ غیر مربوط سی باتیں لکھ دیتا ہوں ۔
1۔ اردو پر مذہبی زبان ہونے کا الزام بہت پرانا ہے ۔ چونکہ اردو کی ابتدا ہندوستاں میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شروع ہوئی اور اس کا ناطہ مسلمانوں اور اسلامی لٹریچر سے بہت گہرا رہاہے اس لئے اس الزام میں بظاہر کچھ حقیقت بھی نظر آتی ہے لیکن اردو پر یہ الزام درست نہیں ہے ۔ ( برسبیلِ تذکرہ ، پچھلی کئی دہائیوں میں اس الزام کو بنیاد بنا کر بھارت میں منظم طور پر اردو کشی کی گئی ہےاور اردو پر یہ ظلم ابھی تک جاری ہے)۔ اردو مسلمانوں کے علاوہ ہندوستان کی دیگر قوموں کی زبان بھی رہی ہے اور بول چال کی حد تک ابھی بھی مستعمل ہے ۔ اردو کادامن ہندو اور سکھ شعرا و ادبا کی تخلیقات سے مالا مال ہے ۔ کبیر داس ، چکبست اور فراق اردو کے مشہور شعرا میں شمار ہوتے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
۲۔ اردو میں ایسے بہت سارے الفاظ ، اصطلاحات اور کہاوتیں رواج پاچکی ہیں کہ جن میں اسلامی شعائر کی تضحیک و تحقیر کا پہلو نکلتا ہے ۔ ( یہاں ان کی مثالیں دینا ضروری نہیں ہے ہم سب ان سے واقف ہیں) ۔ ان الفاظ اور کہاوتوں کی ابتدا کا پتہ چلانا تو تحقیق طلب ہے اور خاصا دشوار کام معلوم ہوتا ہے لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اردو شعرا اور نثر نگاروں نے ان کی ترویج میں واضح حصہ لیا ہے ۔ اکثر شاعروں اور ادیبوں کی مذہب سے دوری اور رندانہ طبیعت معلوم اور مشہور ہے ۔ اردو کی شاعری اور نثر شیخ ، صوفی اور واعظ کی تحقیر سے بھری پڑی ہے ۔ جنت اور حور تو گویا انگریزی محاورے کے مطابق " بٹ آف ایوری جوک" ہیں ۔ کعبہ اور زمزم وغیرہ بھی گویا عام سی باتیں ہیں جن کے بارے میں جو چاہے کہا جاسکتا ہے۔ نماز روزے ، اور دیگر شعائر کا مذاق اڑانا اور ان کے مقابل مسلکِ رندانہ کو افضل بنا کر پیش کرنا عام سی بات ہے۔ اردو شاعری میں گستاخی نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ۔ شاعر کی زبان دراز اور آزاد ہے اور مزید ہوتی جارہی ہے ۔
۳۔ محولہ بالا متنازعہ الفاظ اور محاوروں کو اردو زبان سے نکالا تو نہیں جاسکتا اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کی جانی چاہیے کہ زبان تو بولنے والوں کی ملکیت ہوتی ہے اور اردو بولنے والوں میں ہر طبقۂ فکر اور مسلک کے لوگ ہیں ۔ لیکن وہ لوگ جو مذہبی شعائر کا احترام کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی تقریر و تحریر میں ان الفاظ کے استعمال سے پرہیز کریں اور غیر شعوری طور پر اس قسم کی زبان کی ترویج کا حصہ نہ بنیں ۔ یعنی کسی لفظ کو بدلنا تو ہمارے اختیار میں نہیں لیکن اسے برتنا یا نہ برتنا ہمارے اختیار میں ہے ۔ سو اچھی زبان کو فروغ دینا چاہئے ، ایسی زبان جو ہماری سوچ اور طرزِ زندگی کی آئینہ دار ہو ۔
آپ کی غیر مربوط سی باتیں بھی پڑھنے لائق ہوتی ہیں۔

میری رائے میں اسلامی شعائر وغیرہ کا مذاق صرف ادبا و شعرا ہی میں نہیں بلکہ عوام میں بھی مقبول رہا ہے۔ اس سے کچھ حد تک ظاہر ہوتا ہے کہ اردو بولنے لکھنے والوں میں ماضی میں آرتھوڈاکس اسلامی شعائر کس حد تک تھے۔ ممکن ہے لسانیات اور مذہب کے اس تعلق کی تاریخ پر کچھ تحقیق بھی ہوئی ہو جو پڑھنے لائق ہو۔
 
ہمیں تو یوں لگتا ہے گویا بامیانِ اردو کے بت اب ٹوٹے کہ تب ٹوٹے۔ کیا ہم اس لگ بھگ دو سو سال پرانی اردو کو اس کے حال پر چھوڑ کر اسے مشرف بہ اسلام کرنے کا ارادہ ملتوی نہیں کرسکتے۔ کیا وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف معبودِ حقیقی کے لیے آتش پرستوں کا دیا ہوا نام 'خدا' اب استعمال نہیں کیا جاسکتا، میر چونکہ یه کہتے ہوئے پائے گئے کہ


میر کے دین و مذہب کا کیا پوچھتے ہو ان نے تو اب
قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا ، کب کا ترک اسلام کیا​


جی ان ہی میر صاحب کو اب 'خدائے سخن ' ۔نہیں کہا جائے گا، نہ مومن جیسے گندے شاعر کو یه پاک نام اختیار کرنے کی اجازت دی جائے گی، نہ ہی شوہرِ نامدار کو 'مجازی خدا' کہنا معتبر ٹھہرا، وہیں دوسری جانب یه دیکھ کر قطعاً حیرت نہیں ہوتی کہ اب اردو لکھنے والوں میں نہ کوئی منشی پریم چند ہے، کرشن چندر ہے، راجندر سنگھ بیدی ہے ، اوپندر ناتھ اشک ہے، بلونت سنگھ ہے اور نہ ہی فراق۔ لے دے کے ایک گلزار بچا ہے دوسرا ستیہ پال آنند۔


اب نہ کوئی گوپی چند نارنگ املا نامہ ترتیب دے گا، نہ کوئی پریم چند 'عید گاہ' لکھے گا، نہ کوئی میرا جی کسی میرا بائی کے عشق میں اپنا نام بدلے گا، نہ کوئی ہندو نعت شریف کہنے کی جراءت کرے گا۔


حیرت ہوتی ہے کہ اردو کے نام سے بننے والی 'اردو محفل' میں نہ کوئی ہندو ممبر ہے ، نہ سکھ اور نہ عیسائی۔


کیا اردوئے معلیٰ کی تاریخ بامیان پر ختم ہوگئی۔ 'اردوئے معلیٰ' تو یوں بھی ترک کرنی پڑے گی کہ عرش معلیٰ سے جڑی یه معتوب زبان ہرگز نہیں ہوسکتی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کی غیر مربوط سی باتیں بھی پڑھنے لائق ہوتی ہیں۔

میری رائے میں اسلامی شعائر وغیرہ کا مذاق صرف ادبا و شعرا ہی میں نہیں بلکہ عوام میں بھی مقبول رہا ہے۔ اس سے کچھ حد تک ظاہر ہوتا ہے کہ اردو بولنے لکھنے والوں میں ماضی میں آرتھوڈاکس اسلامی شعائر کس حد تک تھے۔ ممکن ہے لسانیات اور مذہب کے اس تعلق کی تاریخ پر کچھ تحقیق بھی ہوئی ہو جو پڑھنے لائق ہو۔
بنیادی طور پر میرا مراسلہ تو اس مسئلے کے لسانی پہلو پر تھا کہ شعرا و ادبا نے اپنی تحریروں میں نہ صرف مذہبی شعائر کا مذاق اڑایا ہے بلکہ ان کہاوتوں اور محاوروں کی ترویج بھی کی ہے کہ جن میں ان شعائر کی تضحیک و تحقیر کا پہلو نکلتا ہے ۔ اور اس بات سے اردو کے مذہبی زبان ہونے کےنظریے کی نفی ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کہاوتیں اور محاورے وغیرہ شاعروں اور ادیبوں کی ایجاد نہیں بلکہ یہ عوام کی بول چال ہی سے نکلے ہیں ۔ اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو میری ناقص رائے میں برصغیر کے عوام کی اکثریت ہمیشہ ہی اصل اسلام سے دور رہی ہے ۔ اسلام کو صرف عبادات کی حد تک محدود رکھا گیا ہے ، رہن سہن اور کلچر کا بیشتر حصہ مقامی ہندو روایات کے زیرِ اثر رہا ہے اور اب تک ہے ۔ اردو پر مذہبی اثرات کے بارے میں کبھی کوئی مفصل تحریر میری نظر سے نہیں گزری اور نہ ہی ایسی کوئی تحقیق و تصنیف میرے علم میں ہے ۔ آل احمد سرور نے اردو پر ہندوستانی تہذیب کے اثرات کے بارے میں اچھا خاصا لکھا ہے ۔ اگر دلچسپی ہو تو ان کے مضامین دیکھے جاسکتے ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دوسری جانب یه دیکھ کر قطعاً حیرت نہیں ہوتی کہ اب اردو لکھنے والوں میں نہ کوئی منشی پریم چند ہے، کرشن چندر ہے، راجندر سنگھ بیدی ہے ، اوپندر ناتھ اشک ہے، بلونت سنگھ ہے اور نہ ہی فراق۔ لے دے کے ایک گلزار بچا ہے دوسرا ستیہ پال آنند۔
حیرت ہوتی ہے کہ اردو کے نام سے بننے والی 'اردو محفل' میں نہ کوئی ہندو ممبر ہے ، نہ سکھ اور نہ عیسائی۔
خلیل بھائی ، اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ بھارت میں اردو کی تعلیم و ترویج کو ختم کردیا گیا ہے ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان کے اکثراردو لکھاری خواہ وہ مسلمان ہوں ، ہندو ہوں یا سکھ ، سب کے سب ہندی رسم الخط میں اردو لکھتے ہیں ۔ چنانچہ اردو محفل پر ہندو اور سکھ حضرات کا رکن بننا تقریباً ناممکن ہی سمجھئے ۔ ریختہ والوں نے اسی لئے اردو کی تحریریں دیوناگری اور رومن اردو میں لکھ رکھی ہیں تاکہ اردو رسم الخط سے نابلد لوگ بھی استفادہ کرسکیں ۔
باقی رہی یہ بات کہ ایک طبقہ اردو کو "مذہبیانے" کی کوشش کررہا ہے تواس بارے میں آپ کے خدشات بیجا ہیں ۔ زبان شعوری کوشش سے تبدیل نہیں ہوتی اور نہ ہی کی جاسکتی ہے۔ اردو کو اس قسم کی تحریکوں سے کوئی خدشہ نہیں ۔ اصل خدشہ تو اس بات کا ہے کہ انگریزی کے روز افزوں استعمال اور بلاتکلف انگریزی الفاظ کی آمیزش سے رفتہ رفتہ اردو اپنی خوبصورت شکل نہ کھو بیٹھے ۔
 

علی وقار

محفلین
بنیادی طور پر میرا مراسلہ تو اس مسئلے کے لسانی پہلو پر تھا کہ شعرا و ادبا نے اپنی تحریروں میں نہ صرف مذہبی شعائر کا مذاق اڑایا ہے بلکہ ان کہاوتوں اور محاوروں کی ترویج بھی کی ہے کہ جن میں ان شعائر کی تضحیک و تحقیر کا پہلو نکلتا ہے ۔ اور اس بات سے اردو کے مذہبی زبان ہونے کےنظریے کی نفی ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کہاوتیں اور محاورے وغیرہ شاعروں اور ادیبوں کی ایجاد نہیں بلکہ یہ عوام کی بول چال ہی سے نکلے ہیں ۔ اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو میری ناقص رائے میں برصغیر کے عوام کی اکثریت ہمیشہ ہی اصل اسلام سے دور رہی ہے ۔ اسلام کو صرف عبادات کی حد تک محدود رکھا گیا ہے ، رہن سہن اور کلچر کا بیشتر حصہ مقامی ہندو روایات کے زیرِ اثر رہا ہے اور اب تک ہے ۔ اردو پر مذہبی اثرات کے بارے میں کبھی کوئی مفصل تحریر میری نظر سے نہیں گزری اور نہ ہی ایسی کوئی تحقیق و تصنیف میرے علم میں ہے ۔ آل احمد سرور نے اردو پر ہندوستانی تہذیب کے اثرات کے بارے میں اچھا خاصا لکھا ہے ۔ اگر دلچسپی ہو تو ان کے مضامین دیکھے جاسکتے ہیں ۔
اردو غزل پر ہندی کے اثرات
صفحہ 66 پر کچھ مواد اس سے متعلقہ ہے تاہم درج ذیل کتاب زیادہ اہم ہے جس میں کئی نقادوں کے مضامین ہیں۔
اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
اردو شاعری میں گستاخی نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ۔ شاعر کی زبان دراز اور آزاد ہے اور مزید ہوتی جارہی ہے ۔
۔
اس حساب سے کم از کم تین چوتھائی 'شاعری' کو دریابرد کرنا ہو گا۔ :) ازراہ تفنن۔ :) میر و غالب کے کلام میں بھی جا بجا ایسے اشعار عام مل جاتے ہیں اور ان کے بغیر ہماری اردو شاعری کا سانس لینا محال ہے۔واقعی، اردو پر مذہبی زبان ہونے کا الزام کافی حد تک غلط ہے جس کی طرف آپ پہلے ہی اشارہ کر چکے۔
 
Top