عظمتِ بندۂ خاکی کا میں منکر تو نہیں

کیوں نہ ہو رنج مجھے کیوں نہ کروں میں شکوہ
میرے پہلو میں بھی دل ہے کوئی پتھر تو نہیں
ناصحا تجھ سے کروں شکوۂ بیدادِ بتاں
جتنا تو سمجھا مجھے اتنا میں کمتر تو نہیں
میں تو بس ظلم کو ظالم کو برا کہتا ہوں
عظمتِ بندۂ خاکی کا میں منکر تو نہیں
جس کی امید نے اب تک مجھے زندہ رکھا
اس کا ملنا حدِ امکان سے باہر تو نہیں
پل دو پل تیرہ شبی کا ہے یہ عالم ریحان
ظلمتیں تا بہ ابد میرا مقدر تو نہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مجھے لگ رہا ہے کہ پہلے تین اشعار قطعہ بند ہیں، بقیہ غزل کے ہیں۔ بہر حال اچھے اشعار ہیں
 

زوجہ اظہر

محفلین
ریحان احمد ریحانؔ
مصرع ثانی پڑھ کر مجھے مکیش کا گانا یاد آگیا آپ کی عمر والے تو شاید بول نہ جانیں

ورنہ کیا بات ہے تو کوئی ستم گر تو نہیں
میرے سینے میں بھی دل ہے کوئی پتھر تو نہیں
مسکراتا بھی اگر تو چھلک جاتی نظر
اپنی قسمت ہی کچھ ایسی تھی کہ دل ٹوٹ گیا
 
آخری تدوین:
مجھے لگ رہا ہے کہ پہلے تین اشعار قطعہ بند ہیں، بقیہ غزل کے ہیں۔ بہر حال اچھے اشعار ہیں
بہت شکریہ سر
اچھے اشعار ہیں، تھوڑی سی کمر کس کر مطلع بھی کہہ لیں تو آئسنگ آن دا کیک ہو جائے گی.
راحل بھائی مطلع کہنے کی بھی کوشش کروں گا
 
Top