علمی و ادبی لطائف

محمد وارث

لائبریرین
السلام علیکم،

محفلِ ادب کے ذیلی زمرہ 'طنز و مزاح' میں ایک نئے زمرے کا اضافہ بعنوان 'علمی و ادبی لطیفے' کیا گیا ہے۔ آپ سب سے استدعا ہے کہ اس فورم میں صرف اور صرف علمی اور ادبی لطیفے ہی شامل کریں اور میرے خیال میں اس بات کی زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے کہ علمی اور ادبی لطیفے کون سے ہوتے ہیں :)

عمومی لطیفے، گپ شپ' کے زمرے میں منتقل کر دیئے گئے ہیں، اور وہاں بلاتکلف پوسٹ کیے جا سکتے ہیں لیکن واضح رہے کہ محفل کی پالیسی کے مطابق ایسے تمام لطائف کو حذف کر دیا جائے گا جو مبتذل یا فخش ہوں، غیر شائستہ (یعنی گھٹیا) زبان استعمال کی گئی ہو یا وہ کسی مخصوص مذہب، ملک، نسل، لسان و قوم کے خلاف ہوں جن سے انکی دل آزاری ہوتی ہو۔

امید ہے آپ سب اس سلسلے میں تعاون فرمائیں گے!
 
ریڈیو کی دنیا بھی ایک عجیب دنیا ہے۔ یہاں پر ہر بات ناپ تول کر کرنی پڑتی ہے۔ ایک لفظ کے ہیر پھیر سے بات کہیں کی کہیں پہنچ جاتی ہے۔ کلام کو سمجھ کر گانے والے گلوکار ش، ق، زبر زیر اور اضافت کا حد درجہ خیال رکھتے ہیں ۔ ایسے ہی گلوکار گاتے وقت مطالب اور مفاہیم میں ڈوب کر گاتے ہیں اور سامعین بھی کلام کا صحیح لطف حاصل کرتے ہیں۔ بصورت دیگر بات کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق کراچی ریڈیو سے ایک بار ایک گلوکارہ غالب کی مشہور غزل ’’ دل ہی تو ہے ، نہ سنگ و خِشت‘‘ گارہی تھیں۔کم پڑھی لکھی تھیں، جب اِس شعر پر پہنچیں ’’قیدِ حیات و بندِ غم‘‘ تو اسے یوں گایا

قید و حیات و بند و غم ، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں

بابائے نشریات مرحوم ذوالفقار علی بخاری گھر پر ریڈیو سُن رہے تھے۔ انہوں نے فوراً ڈیوٹی آفیسر کو فون کیا اور کہا کہ گلوکارہ سے کہو کہ یوں گائے

قید و حیات و بند و غم، اصل میں چاروں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

(ریڈیو پاکستان کراچی کی پچاس سالہ علمی و ادبی خدمات از ڈاکٹر محمد اقبال خان اسدی)
 

سیما علی

لائبریرین
اورئنٹیل کالج کا یہ لطیفہ کہ ایک روز مرحوم پروفیسر وزیر الحسن عابدی نے چپراسی سے چاک لانے کے لئے کہا کہ وہ بلیک بورڈ پر کچھ لکھ کر سمجھانا چاہتے تھے، چپراسی بہت سے چاک جھولی میں ڈال کر لے آیا اس سے پہلے کہ عابدی صاحب چپراسی کی ’’چاک آوری‘‘ پر ناراض ہوتے، انور مسعود نے چپراسی کی جھولی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’سر! دامنِ صد چاک اِسی کو کہتے ہیں؟‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
انور مسعود جب مطالعاتی دورے پر ایران گئے ،تو ایک دعوت میں ایک خاتون نے اُن کو ماست (دہی) کا پیالہ پیش کیا، دہی نکالتے ہوئے کچھ دہی انور مسعود کے کپڑوں پر جا پڑا تو اُنہوں نے برجستہ کہا: از ماست کہ برماست۔۔۔۔۔۔۔۔
 

البرق علوی

محفلین
جرات نابینا تھے۔ایک روز بیٹھے فکرِ سخن کر رہے تھے کہ انشاء آ گئے۔انہیں محو پایا تو پوچھا حضرت کس سوچ میں ہیں؟جرات نے کہا : کچھ نہیں۔بس ایک مصرع ہوا ہے۔شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔انشاء نے عرض کیا : کچھ ہمیں بھی بتا چلے۔

جرات نے کہا: نہیں۔تم گرہ لگا کر مصرع مجھ سے چھین لو گے۔آخر بڑے اصرار کے بعد جرات نے بتایا۔مصرع تھا:

اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی

انشاء نے فوراً گرہ لگائی:

اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

جرات لاٹھی اٹھا کر انشا کی طرف لپکے۔دیر تک انشاء آگے اور پیچھے پیچھے ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
غالب کی ظرافت

غدر سے بڑا المیہ شاید ہی کوئی اور غالب کے سامنے گزرا ہو ۔ اس کے درمیان غالب بھی لیئر کی طرح ہیتھ پر پھٹے کپڑے شکستہ حال کھڑے ہیں اور آسمان سے تاریکی میں ، بجلی تڑپ تڑپ کر پیڑوں کو جلا کر خاک کر رہی ہے مگر ان کی فطرت میں چھپا ہوا فول اپنی اڑانے سے نہیں چوکتا ۔
غالب کے غدر کے زمانے والے مکاتیب کو "غدر کے واقعہ ہائلہ کی مرثیہ خوانی " کہا گیا ہے ، مگر دیکھئے اس مرثیہ خوانی میں کتنی مزاح نگاری ہے ۔
"میاں حقیقت حال اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اب تک جیتا ہوں ۔ بھاگ نہیں گیا ۔ نکالا نہیں گیا ۔ معرض باز پرس میں نہیں آیا ۔ آئندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے ۔"
غالب ایک حد تک اس المیہ سے بچے ہوئے اس کا منظر ہی دیکھ رہے ہیں مگر اس کی زد میں بھی آ جاتے ہیں اور سکے لکھنے کے الزام میں
"پنشن بھی گیا اور زیست کا نام و نشان خلعت و دربار بھی مٹا ۔"
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
غالب کے خطوط میں مزاح کا رنگ اور بھی تیز ہو گیا ۔ لکھتے ہیں ۔" میں نے سکہ نہیں کہا ، اگر کہا تو اپنی جان اور حرمت بچانے کو کہا ۔ یہ گناہ نہیں ہے ۔ اور اگر گناہ بھی ہے تو کیا ایسا سنگین ہے کہ ملکہ معظمہ کا اشتہار بھی اسے مٹا نہ سکے ۔ سبحان اللہ ! گولہ انداز کا بارود بنانا اور توپیں لگانا اور بینک گھر اور میگزین لوٹنا معاف ہو جائے گا اور شاعر کے دو مصرعے معاف نہ ہوں ۔ ہاں صاحب گولہ انداز کا بہنوئی مددگار ہے اور شاعر کا سالا بھی جانبدار نہیں ۔
 

سیما علی

لائبریرین
تکلیف دہ صورتوں کو بھی ایک آفاقی ہمدردی کی سطح پر نقش و نگار کی طرح دکھاتے ہیں۔ ناامیدی کا اس سے بہتراظہار اور کیا ہو سکتا ہے ؎
رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہئے کہ آرزو کیا ہے
مگر اس شعر کو جتنا پڑھتے جائیے ، اتنی ہی ناامیدی دور ہوتی جاتی ہے ۔ ایک عجیب تسکین کا عالم طاری ہو جاتا ہے ، امید اور ناامیدی آرزو سے وابستہ ہیں مگر یہ شعر ہمیں وہاں لے جاتا ہے ، جہاں آرزو ہی آفاق کے دائمی رنگ میں غائب ہوگئی ، جہاں کائنات کے چہرے پر ایک دائمی مسکراہٹ دائمی شگفتگی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔
غالب خود اپنے سامنے آئینہ رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
نفسیات پر مزاح لیجئے:۔
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب ؔ کی آبرو کیا ہے!

ذکاوت ، لطیف طنز ، چوٹ ، ہر چیز کی کثرت سے مثالیں ملتی چلی جائیں گی ۔ وہ غالب کی فطرت ِ ظریف ہے جو ان کے ہر شعر کو ہمارے سامنے ہر مشکل وقت پر لا کر ہماری ہر مشکل کو آسان کر دیتی ہے اور ہمارے اندر وہ لاپروائی پیدا کر دیتی ہے جو مزاح کی روح ہے ۔ غالب ؔ کے وہ اشعار بھی جو زندگی کی تلخیوں کے تکلیف دہ مناظر پیش کرتے ہیں ، اپنے اندر ایک لطیف مزاح مضمر رکھتے ہیں ۔ جن کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ان کو پڑھ کر دائمی مسکراہٹ کے کیف میں پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
چودہ طبق
مرزا کے ایک شاگرد نے ان سے کہا۔
حضرت آج میں‌ امیر خسرو کی قبر پر گیا تھا، مزار پر کھرنی کا درخت ہے، اسکی کھرنیاں میں نے خوب کھائیں، کھرنیوں کا کھانا تھا کہ فصاحت و بلاغت کا دروازہ کھل گیا، دیکھیئے میں‌ کیسا فصیح و بلیغ ہوگیا ہوں۔
مرزا چہک کر بولے۔۔
م
"ارے میاں تین کوس کیوں گئے؟ میرے پچھواڑے کے پیپل کی پیپلیاں کیوں نہ کھا لیں، جو چودہ طبق روشن ہو جاتے۔"
 

سیما علی

لائبریرین
" مشہور لکھنوی لطیفہ🙂 "
" لکھنو میں ایک استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ جب بات کرنی ہو تو تشبیہات، استعارات، محاورات اور ضرب الامثال سے آراستہ پیراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو،

ایک بار دورانِ تدریس یہ استاد صاحب حقہ نوش فرما رہے تھے، انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جا پڑی،
ایک شاگرد اجازت لے کر کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے گویا ہوا:
"حضور والا..!! یہ بندہ ناچیز حقیر و فقیر، پر تقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کر رہا ہے، وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سے حقہ نوشی فرما رہے ہیں،
چند ثانیے قبل میری چشم نارسا نے ایک اندوہناک منظر کا مشاھدہ کیا کہ ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے افقی سمت میں بلند ہو کر چند لمحے ہوا میں ساکت و معلق رہا اور پھر آ کر آپ کی دستار فضیلت پر براجمان ہو گیا، اگر اس فتنہ و شر کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضور والا کی جان والا شان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں.."
اور اتنی دیر میں استاد محترم کی دستار ان کے بالوں سمیت جل کر بھسم ہو چکی تھی۔
 

رضوان راز

محفلین
منیر نیازی ایک دفعہ کراچی گئے تو جون ایلیا نے انہیں کہا
" منیر خان! تمھارے بال سفید ہو گئے ہیں"
منیر نیازی نے جواب دیا :
بچّو! جو مجھ پر گزری ہے تم پر گزرتی تو تمھارا خون سفید ہو جاتا"
 

رضوان راز

محفلین
خوشونت سنگھ ایک جگہ اپنے متعلق لکھتے ہیں "خالصتان کی تحریک کے دوران میں نے سکھ قیادت کی غلطیوں کی نشان دہی کی میری اس جسارت پر سکھ برادری مجھ سے ناراض ہو گئی اور مجھے سکھوں نے دنیا بھر سے گالیوں بھرے خط لکھنا شروع کر دیئے۔
.
مجھے گالیوں سے بھرا ہوا کلاسیک خط کینیڈا سے کسی سکھ نے لکھا ،یہ خط گورمکھی زبان میں تھا ،لفافے پر انگریزی کے چار حرف لکھے تھے
.
" باسٹرڈ خوشونت سنگھ انڈیا"
.
یہ خط کینیڈا سے پوسٹ کیا گیا اور میں بھارتی محکمہ ڈاک کی کارکردگی پر حیران رہ گیا کیونکہ محکمہ ڈاک نے سوا ارب کی آبادی میں موجود واحد باسٹرڈ کو تلاش کر کے یہ خط مجھ تک پہنچا دیا۔ مین بڑے عرصے تک یہ خط اپنے دوستوں اور ملاقایتیوں کو دکھاتا تھا اور اس کے بعد ان سے کہتا تھا ،تم لوگ اس کے باوجود محکمہ ڈاک کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہو۔"
-----
 

رضوان راز

محفلین
ایک نوجوان لڑکی نے کہا : فیض صاحب! مجھ میں بڑا تکبر ہے اور میں انا کی بہت ماری ہوئی ہوں۔جب صبح میں شیشہ میں دیکھتی ہوں تو میں سمجھتی ہوں کہ مجھ سے زیادہ خوب صورت اس دنیا میں اور کوئی نہیں"
فیض صاحب کہنے لگے " بی بی ! یہ تکبر اور انا ہر گز نہیں یہ غلط فہمی ہے"
 

رضوان راز

محفلین
علامہ نیاز فتح پوری زیادہ تر سایئنٹفک فلمیں پسند کرتے تھے۔عائشہ خان نے ایک بار پوچھا
" آپ رومانی فلمیں کیوں نہیں دیکھتے؟"
تو بولے
" رومان کیا جاتا ہے ،دیکھا نہیں جاتا"
 

رضوان راز

محفلین
امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے امریکہ اور یورپی ممالک کے درمیان تعلقات میں مشکلات پر ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا :
.
The Troubled Partnership
.
یہ کتاب امریکہ کے تمام مقامات پر بہت کم بکی۔لیکن حیرانی اس بات پر ہوئی کہ ایک شہر کے ایک بک سٹور میں بہت زیادہ بکی۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اس دکان کے سیلزمین نے اس کتاب کو غلطی سے " میرج گائڈ بکس" کے شیلف میں رکھ دیا تھا۔
 

رضوان راز

محفلین
ایک دفعہ رمضان کے مہینے میں مرزا غالب نواب حسین مرزا کے ہاں گئے اور پان منگوا کر کھایا- مرزا صفدر علی بھی موجود تھے- انہوں نے متعجب ہوکر پوچھا:
"قبلہ آپ روزہ نہیں رکھتے؟"
مرزا غالب مسکرا کر بولے: "شیطان غالب ہے-"
 
Top