برائے اصلاح:حیا نظر میں رہے قلب بے حجاب رہے

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:

حیا نظر میں رہے ،قلب بے حجاب رہے
اور آپ ہی کا سلامت سدا شباب ریے

مری نظر کا فقط تو ہی انتخاب نہیں
بہت سے تیرے علاوہ بھی انتخاب رہے

اسی سبب سے زمانے سے منفرد ہیں ہم
کہ جتنے عشق کیے سب میں کامیاب رہے

کبھی تو روشنی کی ایک بھی کرن نہ ملی
کبھی ہماری ہتھیلی پہ آفتاب رہے

کسی بھی خواب کی تعبیر ہو نہیں پائی
ہماری آنکھ کے بستر پہ سوئے خواب رہے

ذہین تھا وہ مگر راز یہ سمجھ نہ سکا
ہم اس کو عید پہ کیوں بھیجتے گلاب رہے

ہماری زندگی گزری کٹھن مراحل سے
قدم قدم پہ بہت جھیلتے عذاب رہے

ہماری آنکھ کو میثم وہ بھا گیا آخر
کہ چاہے جتنا بھی ہم کرتے اجتناب رہے
یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
حیا نظر میں رہے ،قلب بے حجاب رہے
اور آپ ہی کا سلامت سدا شباب ریے
... ثانی مصرع بے ربط ہے

مری نظر کا فقط تو ہی انتخاب نہیں
بہت سے تیرے علاوہ بھی انتخاب رہے
.. درست

اسی سبب سے زمانے سے منفرد ہیں ہم
کہ جتنے عشق کیے سب میں کامیاب رہے
.. درست

کبھی تو روشنی کی ایک بھی کرن نہ ملی
کبھی ہماری ہتھیلی پہ آفتاب رہے
... درست

کسی بھی خواب کی تعبیر ہو نہیں پائی
ہماری آنکھ کے بستر پہ سوئے خواب رہے
.. تعبیر ہونا محاورہ نہیں، ملتی ہے تعبیر
خواب محو خواب رہے کہیں تو؟

ذہین تھا وہ مگر راز یہ سمجھ نہ سکا
ہم اس کو عید پہ کیوں بھیجتے گلاب رہے
.. ٹھیک ہے

ہماری زندگی گزری کٹھن مراحل سے
قدم قدم پہ بہت جھیلتے عذاب رہے
.. ٹھیک، مگر کوئی خاص بات نہیں، نکالا بھی جا سکتا ہے شعر

ہماری آنکھ کو میثم وہ بھا گیا آخر
کہ چاہے جتنا بھی ہم کرتے اجتناب رہے
... درست
 

یاسر علی

محفلین
الف عین صاحب
اصلاح کے بعد دوبارہ

ہمارے قلب کا موسم سدا شباب رہے
کہ تیری یاد جو ہر وقت دستیاب رہے

کسی بھی خواب کی تعبیر مل نہیں پائی
ہماری آنکھ کے بستر پہ سوئے خواب رہے

ہمارے ذہن میں رنگینیاں جنم لیں گی
اگر وہ چہرئہ انوار بے حجاب رہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ہمارے قلب کا موسم سدا شباب رہے
کہ تیری یاد جو ہر وقت دستیاب رہے
... مطلع اب بھی پسند نہیں
موسم کا شباب رہنا خلاف محاورہ ہے

کسی بھی خواب کی تعبیر مل نہیں پائی
ہماری آنکھ کے بستر پہ سوئے خواب رہے
.. درست

ہمارے ذہن میں رنگینیاں جنم لیں گی
اگر وہ چہرئہ انوار بے حجاب رہے
.. رنگینی سے مربوط چہرہ کی کچھ اور صفت ہونی تھی، انوار نہیں جم ریا
 

یاسر علی

محفلین
ہمارے قلب کا موسم سدا شباب رہے
کہ تیری یاد جو ہر وقت دستیاب رہے
... مطلع اب بھی پسند نہیں
موسم کا شباب رہنا خلاف محاورہ ہے

کسی بھی خواب کی تعبیر مل نہیں پائی
ہماری آنکھ کے بستر پہ سوئے خواب رہے
.. درست

ہمارے ذہن میں رنگینیاں جنم لیں گی
اگر وہ چہرئہ انوار بے حجاب رہے
.. رنگینی سے مربوط چہرہ کی کچھ اور صفت ہونی تھی، انوار نہیں جم ریا

الف عین
سر جی اب دیکھیں۔۔۔

ہمارے ذہن میں رنگینیاں جنم لیں گی
اگر وہ چہرئہ گلفام بے حجاب رہے

ہمارے قلب کا موسم سدا شباب رہے
کہ تیری یاد جو ہر وقت دستیاب رہے

سر۔موسم کا شباب رہنا۔۔۔
ایک میر کے شعر میں محاورہ استعمال ہوا ہے۔۔

نہ اٹھا لطف کچھ جوانی کا
کم بہت موسم شباب رہا
میر تقی میر

اگر پھر بھی یہ صیح نہیں ہے تو ۔۔
سر یہ دیکھیں کیسا رہے گا۔۔

ہمارے دل کا نہ موسم کبھی خراب رہے
کہ تیری یاد جو ہر وقت دستیاب رہے
 

الف عین

لائبریرین
میر کے شعر میں 'کم رہنا' فعل استعمال ہوا ہے، موسم شباب مکمل جملہ اسمیہ کا مبتدا ہے۔
موسم خراب درست ہے اگرچہ مصرع رواں نہیں
چہرۂ گلفام بھی قابل قبول ہے
 
Top